تحریر: |صبغت وائیں|
’’موضوعی عینیت انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے‘‘
یہ ہیگل نے کہا تھا۔ یہ درست ہے کہ ہیگل ایک عینیت پرست فلسفی تھا لیکن وہ اپنے ارد گرد کی چیزوں کے وجود کو حقیقی مانتا تھا۔ وہ ایک یونیورسل سپرٹ کی بات کرتا ہے۔ ایک ریزن کی، جس طرح سے وہ بات کرتا ہے وہ درست ہے۔ لیکن یہ کہ خیال، ریزن یا روح کا وجود کے بغیر رہ پانا اسے عینیت پرست بناتا ہے۔
اب اسی خیال کو لیں کہ ’’موضوعی عینیت‘‘ (جس پر ہمارے بعض دوست اس طرح سے چونکتے ہیں گویا ان کو کتے نے کاٹ لیا ہو، جیسا کہ پہلے بتایا ہے وہ اس لفظ کو ہی گول کرنا چاہتے ہیں اور اسے ’’موضوعیت‘‘ سے خلط ملط کرنے کی کوشش کرتے ہیں) کو انسان کی سب سے بڑی دشمن بتانا درست ہونے کے باوجود بذات خود ایک عینیت پرستانہ خیال ہے۔ یعنی اس میں دشمن اس طبقے کو قرار نہیں دیا گیا جو کہ اس فلسفے کا حامل ہے یا پھر اس فلسفے کو پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔ ہیگل کی تفہیم میں یہی مسئلہ تھا جسے مارکس ہیڈ سٹینڈ کی صورت میں دیکھتا ہے۔ ہیڈ سٹینڈ غلط نہیں ہوتا بس الٹا ہوتا ہے۔ یعنی سر پر یا خیال پر کھڑا۔ پریکٹس ہو جائے تو دماغ اسی طرح سے اسے سیدھا کرتا چلا جاتا ہے جیسے دماغ اکثر چیزوں کو قابل فہم بنا کردکھاتا ہے۔ آپ ہیگل کو پڑھتے چلے جائیں وہ درست باتیں ہی نظر آئیں گی جیسے یہ کہ دشمن موضوعی عینیت ہی ہے۔
موضوعی عینیت کی سب سے بڑی انسان دشمن بات یہ ہے کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ اور یہ اس کی ہر شکل میں نظر آئے گی۔ اگر چیزوں کا وجود ہی نہیں تو جاننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر وجود ہے لیکن ہم انہیں جان نہیں سکتے، تواس کا یہی مطلب ہے کہ ہم ان پر کوئی عمل کر کے انہیں تبدیل بھی نہیں کر سکتے۔ سب سے آخری شکل یہ کہ اگر ہم انہیں جان بھی لیتے ہیں تو انہیں آگے بتا پانا ناممکن ہے۔ یہ افلاطون کے زمانے کی بحث ہے لیکن الگ الگ ہو کر ہمارے زمانے تک آج بھی چل رہی ہے۔ گو کہ یہ بہت سی مختلف شکلیں اختیار کر کے آتی ہے لیکن بحث وہی سوا دو ہزار سال پرانی ہے۔ افلاطون بھی ہیگل ہی کی طرح کا معروضی عینیت پرست تھا اسی لئے اس انسان دشمن فلسفے سے سقراط آخر دم تک بحث کرتا رہا۔
اس فلسفے کے ساتھ جڑا حکمران طبقے کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ عوام کو ایسی سرگرمیوں سے روکا جا سکے جو کہ ان کے حالات کی تبدیلی سے متعلق ہوں۔ حالات کی تبدیلی سے طبقات کا خاتمہ ہی مراد ہے۔ کیوں کہ جب تک طبقات موجود ہیں حالات یہی رہیں گے کہ تمام تنخواہ دار جو نجی جگہوں پر کام کرتے ہیں اپنی اپنی تنخواہ کے غلام رہیں۔ اس غلامی سے نجات تبھی ممکن ہے اگر تنخواہ غلامی کا خاتمہ ہو۔ یعنی منافع بٹورنے والی طاقت وہ ہو جو اس منافعے کو عوام پر لگانے کی پابند ہو۔ لیکن جب یہ کہا جائے کہ چیزوں کو جانا ہی نہیں جا سکتا تو ایسی تمام کوششیں بے معنی سمجھی جائیں گی جو تبدیلی کے لئے ہوں گی۔
ہم بہت سے فلسفوں میں سے چند کو سرسری سا دیکھ بھی لیں تو کوئی ہرج نہیں۔ مثلاً پریگمیٹزم، نتائجیت یا عملیت کو کہ عملی طور پر جو درست ثابت ہو اسے مان لیا جائے، اپنی ماہیت میں کانٹ کا فلسفہ ہے کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا بس جو نتیجہ ملے گا اسے مان لیا جائے گا اگلی بار نتیجہ کچھ اور ملے تو اسے مان لیا جائے۔ اسے سائنس کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ثبوتیت بھی ایسی ہی ہے کہ انہی چیزوں کو مانا جائے جن کا مشاہدہ کیا جا چکا ہو۔ تجربیت اور عقلیت دونوں اسی طرح سے ہیں جیسے آرٹ کی تحریکیں امپریشنزم، ایکسپریشنزم اور نیچرلزم یعنی اگر ہم صرف اپنے باہر کی چیزوں کو انہی کے اندر سے دیکھیں اور ان سے ہمارا کوئی تعلق بننا ممکن نہ ہو تو بھی اور اگر ہم صرف اپنے اندر ہی سے ان کو ’’جان رہے‘‘ ہیں تو بھی ان کو جاننا ناممکن ہی رہے گا۔
جدیدیت اور مابعد جدیدیت جسے سٹرکچرلزم، پوسٹ سٹرکچرلزم یا ڈی کنسٹرکشن وغیرہ کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے ان میں تحریر کو ان ابعاد میں دیکھا جاتا ہے جو کہ قاری کے ’’اپنے ذہن میں موجود ہیں‘‘۔ دوسرے لفظوں میں قاری تحریر کی بجائے ’’اپنے ذہن کی ابعاد‘‘ یا اپنی عقل کے اصول ہی جان رہا ہوتا ہے۔ گو کہ یہ انہیں بہت مختلف طریقے سے پیش کرتے ہیں کہ یہ ابعاد ان الفاظ کے ثقافتی معنوں میں ہیں۔ ان کے استعمال کے معنوں میں ہیں۔ ان کے تاریخی اور نفسیاتی معنوں میں ہیں۔ ان سب کو ان کے مختلف تنقیدی دبستانوں میں دیکھا جا سکتا ہے جن کے ڈیڑھ دو سو مختلف نام ہیں، جن میں نفسیاتی تنقید سے لے کر امتزاجی تنقید اور باقی ساری قسمیں ہیں۔ نتیجہ صرف ایک ہے کہ قاری تحریر کو اپنے اندر سے جانے گا اور اپنے معنی دے گا اور تحریر میں موجود معنی تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ مجھے اس سے زیادہ تفصیل یہاں دینا مناسب نہیں لگ رہا۔ مختصر یہی ہے کہ یہ سب کانٹ کے فلسفے ہی کی بگڑی ہوئی اشکال ہیں کہ چیزیں ہیں لیکن جانی نہیں جا سکتیں۔
یہاں تک سب ٹھیک رہتا اگر ایسا ہوتا بھی۔ ہیگل نے آ کر جب ’’شئے فی الذات‘‘ کو ’’شئے فی الذات‘‘ مان لیا۔ کہ چیز اپنے آپ ہی میں ہے۔ پھر یہ بھی مان لیا کہ اس کا ایک جوہر ہے اور ایک مظہر۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایک حصہ وہ ہے جو نظر آتا ہے اور ایک وہ جو کہ وہ ہے۔ یہ بھی مان لیا کہ ہم اس کے متعلق حسیات کے بغیر نہیں جان سکتے۔ اور یہ کہ اس کا ادراک ہمارے اندر عقل ہی کرتی ہے۔ لیکن ہیگل کا فنامینالوجی میں بتایا گیا میتھڈ جس میں شعور خود سے باہر جا کر اس شئے پر عمل کرتا ہے اس کے ٹکڑے کرتا ہے، یہ ٹکڑے ہیگل کے ہاں گو خیال میں ہوتے ہیں، مثلاً نمک کے ٹکڑے جو کہ لازمیت لئے ہوئے ہوں اس کی سفیدی، اس کا ڈھیلی میں، دانے دار یا قلمی شکل میں ہونا اور اس کا ایک مخصوص کڑواہٹ کا حامل ہونا ہے، پھر شعور واپس آ کر ان اجزا کو جوڑتا ہے اور مختلف پراسیس کرتا ہے جس سے وہ نمک کا نوشن بناتا ہے، اور ہیگل کا ان اجزا کو جوڑنے والی فورسز پر بحث کرنا اور دھیرے دھیرے اس بات کو سمجھانا کہ کس طرح سے نمک پہلے اپنے آپ ہی میں تھا پھر شعور کے تعلق میں آ کر وہ اپنے لئے ہوا اور جب شعور نے اسے جان لیا تو اپنے آپ کے لئے اور اپنے آپ میں ہونے کے بعد ’’ہمارے لئے‘‘ ہو گیا، کانٹ کے فلسفے کی موت تھا۔ مارکس اینگلز نے ہیگل کے اس فلسفے کو جو خیال ہی خیال میں رہ کر اندھیرے میں سب کچھ بتا رہا تھا حقیقت کی روشنی میں گھسیٹ کر سب کے سامنے لا دھرا اور اسے ’’عوام کے لئے‘‘ کر دیا۔ گو کہ یہ خیال بھی ہیگل ہی کا تھا کہ ایک سچا فلسفہ عوام تک پہنچنے کی راہ خود تلاش کر لیتا ہے، پھر بھی مارکس اور اینگلز نے اسے عمل کے ساتھ جوڑ دیا جس سے اس کی تفہیم آسان ہو گئی۔ بات اتنی ہی تھی کہ چیزوں کو جانا جا سکتا ہے اور اسی لئے انہیں تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انسان نے عمل کیا ہے، وہ فعال ہے، سرگرم ہے، وہ چیزوں کو جانتا رہا ہے، جان رہا ہے اور تبدیل کرتا رہا ہے اور مسلسل ’’اپنے لئے‘‘ تبدیل کر رہا ہے۔ چیزوں کا نرا ’’اپنے آپ میں‘‘ تبدیل ہونا اور انسان کا انہیں اپنے لئے تبدیل کرنا بہت مختلف ہے۔ ہم اپنے روز مرہ کے تجربے میں تمام کی تمام عینیت پرستی کو جھوٹا پاتے ہیں۔ لیکن اسے فلسفے میں ثابت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ عینیت پرست مسلسل اسی پر کام کر رہے ہیں اور وہ دن بدن صرف اسے پیچیدہ کرنے ہی میں جٹے ہیں۔
تخصیص کاری یا سپیشلائزیشن اسی کی ایک مثال کے طور پر لی جا سکتی ہیں جہاں انسان کو صرف علم کے اپنے متعلقہ ٹکڑے ہی کا علم ہو پاتا ہے اور وہ اس سے ایک کلیت بنا پانے سے قاصر رہتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے بڑے بڑے پروفیسر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ صرف اس جزو کے پی ایچ ڈی ہیں وغیرہ۔۔۔
یہاں آ کر فلسفہ صرف دو راستوں پر تقسیم ہوتا نظر آتا ہے ایک وہ جو کہتے ہیں کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ وہ اس معروضی دنیا کو ’’پیچیدہ‘‘ کہتے بھی پائے جاتے ہیں غرض ان کے بہت سے چہرے ہیں۔ دوسرے وہ جو کہتے ہیں کہ چیزوں کو جانا جا سکتا ہے۔ یہ اس وقت صرف ایک یعنی مارکسی فلسفہ ہے۔ اس کے علاوہ سب کے سب فلسفے، جن میں سے بعض میں مختلف دْم چھلوں کے ساتھ ’’مارکسی‘‘ فلسفہ بھی لکھا جاتا ہے، صرف ایک بات کے پرچارک ہیں کہ انسان چیزوں کو جان نہیں سکتا۔ یہ سب کے سب عینیت پرست ہیں۔ خواہ برٹرنڈرسل کا فلسفہ ہو یا خود کو سو فیصد سائنسی بتانے والی منطقی ثبوتیت یا خود کو مارکسی فلسفے سے جدید تر مارکسی فلسفہ بتانے والے مغربی مارکسی وغیرہ۔
اب ان فلسفہ دانوں کو ایک مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو ہمیں درپیش مسئلے کے بالکل الٹ ہونے کے باوجود ہمارے ہی جیسی مشکل میں ڈالتا ہے۔ غور کیجئے۔ ایک طرف ہم ہیں جو یہ کہہ رہے کہ چیزیں موجود ہیں اور جانی جا سکتی ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو کہ عام آدمی اپنی عام عقل سے فوری طور پر کرے گا۔ لیکن ہمیں مسئلہ یہ پڑے گا کہ عام چیزوں کو بیان کرنا سادہ کام ہے لیکن جہاں ان کو قریب سے دیکھنا ہو چیزیں سادہ ہونے کی بجائے پیچیدہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ان کو بیان کرنے کی زبان بھی مختلف ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ مثلاً گلاب کے پھول کی بات کرنی ہو تو زبان اور ہو گی لیکن اسی کی پتی کے ایک خلیے کے سٹرکچر اور اس کے ڈی این اے کی بات کریں گے تو زبان بھی تبدیل ہو گی اور بات بھی پیچیدہ۔ اصطلاحات وقت بچاتی ہیں اس لئے متعلقہ علوم و فنون کے ماہر اصطلاحات میں بات کرتے ہیں کیوں کہ ان کو ڈیفائن کیا جا چکا ہوتا ہے۔
ہم لوگ جو کہتے ہیں کہ چیزوں کو جانا جا سکتا ہے پوری کوشش کرتے ہیں کہ بات کو اس طرح سے کریں کہ وہ منطقی ترتیب میں ہو، مبہم نا ہو اور مکمل ہو۔ تاکہ جن کو ہم اپنی بات پہنچانا چاہتے ہیں بات ان تک پہنچ جائے۔ یہ کہ بات کس قدر پہنچ پاتی ہے اس میں بات بات کا فرق جیسا کہ پھول اور خلیے کی مثال دی ہے اور بتانے والے کی مہارت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ ورنہ جو یہ کہتے ہیں کہ چیزوں کو جانا جا سکتا ہے یہی کوشش کرتے ہیں جو بتائی گئی ہے خواہ وہ ہیگل کا فلسفہ ہی ہو جسے تاریخ انسانی کی پیچیدہ ترین کاوش کہا جا سکتا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ یہ پیچیدہ ترین ہے کچھ ہی دیر میں سمجھ آنے لگ جاتا ہے اور خود بخود اپنے پڑھنے والے کے اندر اترنا شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر سارا سفر کروا کر دائرہ مکمل کرنے کے بعد انسان کو وہیں پر لے آتا ہے جہاں سے اس نے شروع کیا تھا یعنی ایک عام انسان کی فہم پر۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ یہ عام فہم اتنی بھی عام نہیں ہے، اسے بننے میں بھی دس سے بیس لاکھ برس لگے ہیں۔
دوسری طرف پوسٹ ماڈرنسٹ ہیں جو بظاہر تو عام انسان کو بڑی سہولت دیتے نظر آتے ہیں کہ وہ ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔ وہ ان کی انفرادیت کی عزت کرتے ہیں ان کی انفرادیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے کہ ’’چیزوں کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ان کے معنی وہی ہیں جو فرد انہیں دیتا ہے‘‘۔ اس طرح کسی بھی کہانی کے، کسی بھی پینٹنگ کے یا کسی بھی تحریر کے یا مظہر کے وہی معنی ہیں جو انہیں کوئی فرد ’’دیتا ہے‘‘۔ غور کیجئے۔ یہ کیا ہے؟
کیا یہ وہی کانٹ کے فلسفے والی بات نہیں؟
کہ چیز کے معنی نہیں ہیں۔
معنی فرد انہیں دیتا ہے۔
کہاں سے؟
جی اپنے اندر سے!
جب اپنے اندر سے معنی دیئے تو چیز کو تو نہیں نا جانا؟
وہ تو خود اپنے اصول اس شئے پر تھوپ رہا ہوا نا؟
تو یہی ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ کانٹ سے آگے نہیں چلے بلکہ مارکسی فلسفے کے بعد نہایت ہی دھوکے بازی سے ہمیں پھر دو سو سال پیچھے یہ کہہ کر لے جاتے ہیں کہ چھوڑو جی مارکسی فلسفہ تو اپنے ہی اصولوں کے تحت پرانا ہو گیا ہے۔ اب یہ پوسٹ ماڈرنزم یا پھر ’’پوسٹ پوسٹ ماڈرنزم‘‘ آ گیا ہے۔ ’’جو کہ مارکسی فلسفہ ہی ہے‘‘ لیکن ’’اب یہ ذرا ایڈوانس ہو چکا ہے‘‘۔ وہ مارکسی فلسفہ جوصبغت بتاتا ہے اب ولگر ہو چکا ہے وہ تو ’’کلاسیکل مارکسی فلسفہ‘‘ ہے۔ اس طرح کے جملے آپ کو سننے اور پڑھنے کو ملیں گے۔ اور اگر میری یہ تحریر کوئی عینیت پرست ’’جدیدی‘‘ پڑھے گا تو آپ کو اسی تحریر پر یہی اعتراض پڑھنے کو مل جائے کوئی ایسی اچھنبے کی بات نہیں۔ اور یہ فلسفہ اسی سولپسزم یا ھمہ انانیت کی حماقت پر جا پہنچتا ہے کہ میرے علاوہ کچھ موجود نہیں۔
بہت سے بزرجمہر یہ کہیں گے کہ دوام تو کسی چیز کو نہیں۔ تو یہ کلاسیکی مارکسی فلسفہ کیسے اب تک بچا ہے؟ اور یہ جو صبغت کہہ رہا ہے کہ فلسفے کا ہیگل پر خاتمہ ہو گیا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب فلسفہ پڑھا نہیں جا سکتا؟ اور یہ کہ مارکس نے کہا تھا کہ ’’اب تک تو فلسفیوں نے دنیا کی تشریح کی ہے، اصل کام اس میں تبدیلی لانا ہے‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ فلسفہ ختم ہو گیا اب تشریح کا کام چھوڑو اور تبدیلی کرو۔ لیکن یہ یاد رہے کہ بات فلسفے کی ہو رہی ہے۔ کہ فلسفیوں نے تشریح کی ہے اور فلسفیوں کا کام ہی تبدیلی کا کام کہا ہے۔ یعنی یہ کہ فلسفے کو زندگی سے جوڑنا، نہ کہ فلسفہ ہی ترک کر دینا۔
اب یہ بزرجمہر کہیں گے کہ خاتمے کے بعد یہ کیا لکھ رہا ہے اور اسی طرح کی بے شمار فضولیات پڑھنے والے کو پڑھنے سننے میں ملیں گی۔
میرے اسی آرٹیکل کو دیکھیں اس کے خاتمے کا اعلان کرنے کے بعد اس کی میں پانچویں یا چھٹی قسط لکھ رہا ہوں گو کہ اعلان دوسری قسط کا کیا ہے۔ یعنی اسے میں نے پانچویں یا چھٹی بار توڑ توڑ کر لکھا ہے۔ اور دنیا کی کوئی طاقت اگر میں لکھتا ہوں تو اس کی سو یا ہزار قسطیں بطور خاتمہ لکھنے سے نہیں روک سکتی اور خاتمے کے بعد بھی مجھے کانٹ پر مضمون لکھنے سے کوئی لاجک نہیں روکتی۔ کیوں کہ خاتمہ صرف اس مضمون کا ہے۔ لیکن یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ ہیگل تک فلسفے کے خاتمے کا ایک عام فہم مطلب ہی ہے جو کہ تمام جنتا کا محاورہ ہے۔ کہ فلسفہ ختم۔ یعنی ابھی تک ختم ہے۔ جب اس کے بعد کوئی واقعتاً نیا فلسفہ آ جائے گا تو آخری سرا ہونے کے کارن ختم وہاں ہو جائے گا کسی نئے کے آنے تک۔ اگر کوئی واقعی نیا ہو تو!
ہماری لڑائی تو یہی ہے کہ آپ جسے ’’نیا‘‘ کہہ کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ باسی مال ہے۔ یہ نیا نہیں دو سو یا دو ہزار سال پرانا ہے۔ ہم آپ کو ہر طرح کے دلائل اور ثبوت دینے کو تیار ہیں۔ واقعی ’’نیا‘‘ فلسفہ لے آئیں ہم اسے نیا مان لیں گے۔ اور اگر وہ انسان دوست بھی ہوا تو مارکسزم وغیرہ چھوڑ چھاڑ کر اس نئے کو اپنانے میں ہم کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ کیوں کہ مارکسزم ہمیں سمجھ آتا ہے۔ یہ کوئی مقدس چیز نہیں ہے۔
اب بات یہاں تک ہوئی ہے کہ فلسفے دو طرح کے ہیں ایک وہ جو کہتے ہیں کہ چیزیں جانی جا سکتی ہیں دوسرے وہ جو کہتے ہیں چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ پہلا فلسفہ مارکسی فلسفہ ہے۔ دوسرے فلسفے باقی تمام ہیں۔ پہلے فلسفے کے ماننے والے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ایسا لکھیں اور ایسی بات کریں جو ہر انسان جان سکے۔ خواہ یہ بات پیچیدہ ہی کیوں نا ہو بالآخر اس میں مطلب ضرور ہوتا ہے۔ جی ہاں ’’بات میں مطلب ہوتا ہے‘‘۔ اب رہ جاتے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ ان کے متعلق ایک قسط اور لکھنی پڑے گی۔اس لئے ابھی جاری ہے۔۔۔