تحریر: |صبغت وائیں|
25 اگست 2016ء
جارج آرول نے اپنے ناول میں چند فقرے ایسے لکھے تھے جو کہ بظاہر مذاق لگتے تھے جن میں ایک تھا:
’’Ignorance is Strength‘‘
<<حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں>>
اس فقرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم مارکس کی دی ہوئی ایک مثال کو لیتے ہیں۔ مارکس کہتا ہے کہ پرسیوسؔ جب مانسٹرز سے جنگ کرتا تھا تو ایک جادو کی ٹوپی پہن لیا کرتا تھا جس سے مانسٹرز اس کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ لیکن ہمارے مخالف (کانٹئین اور مارکس کے بعد کے جدید فلسفوں کے بیوپاری) بھی ٹوپی پہن کے ہی لڑتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ ٹوپی کو کھینچ کر تھوڑا ’’نیچے‘‘ کر لیتے ہیں اور اپنی آنکھیں اور اپنے کان ڈھانپ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’مانسٹرز تو ہیں ہی نہیں‘‘۔
اب ان سے کیا بات کی جائے؟ جو یہ کہتے ہیں کہ بات کو سمجھنا ہی ناممکن ہے۔ ’’جاننا‘‘ لفظ ہی غلط ہے۔ کیوں کہ ’’جاننا ممکن نہیں ہے‘‘۔ کوئی سائنس کا واسطہ ڈال کر ’’جاننے کو‘‘ رد کرتا ہے اور کوئی لنگوئسٹکس کی ڈانگ لے کر ’’جاننے کے‘‘ یا عقل کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔کیا میں نے غلط کہا ہے؟ جو دوست فلسفے سے بالکل نابلد ہیں۔ جنہوں نے فلسفہ نہیں پڑھا وہ لوگ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ ان لبرلز سے اور بظاہر سائنس کی باتیں کرنے والوں سے تھوڑا سا کرید کر پوچھیں آپ کو ’’جاننے کے‘‘ اور عقل کے بدترین دشمن ملنے شروع ہو جائیں گے۔ ظلم کی حد تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر خود کو اور ہمیں کامریڈ کہیں گے اور خود کو مارکسسٹ اور سوشلسٹ بھی ظاہر کریں گے۔
دنیا کا کون سا مارکسسٹ ہو گا جو جاننے کا یا عقل کا دشمن ہو گا؟ بلکہ میرے پڑھنے والے ہو سکتا ہے کہ مجھے بے وقوف سمجھنے کی غلطی کر جائیں کہ بھلا دنیا میں کوئی ایسا انسان بھی ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ ’’جانا جانا‘‘ ممکن نہیں؟ کوئی ایسا انسان بھی ہو گا جو عقل کا دشمن ہو؟ ذرا نظر دوڑائیں آپ کو اس طرح کے بے شمار چہرے نظر آنے شروع ہو جائیں گے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ان پڑھ نہیں ہوں گے بلکہ سبھی لوگ جی ہاں تقریباً سبھی لوگ یونیورسٹیوں کی راکھ اپنے سر میں ڈالے نظر آئیں گے۔ جاننے کی دشمنی کی یہ روایت بھی نئی نہیں ہے۔
آج ہی ایک مخالف یہ کہہ رہا تھا کہ، ’’مارکس جدلیاتی مادیت کے اصول کی تشریح کرتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ مادہ و انسانی سماج و تمدن مسلسل تغیر پذیر ہے‘‘
بظاہر یہ بات بڑی ہی اچھی لگتی ہے جو کہ جدلیاتی مادیت کا اصول ہی ’’لگتا ہے‘‘۔ میں نے اس کا جواب جو بھی دیا اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ ارب ہا سال پرانی ہے۔ اب میں پھر کہتا ہوں کہ میری تاریخ میرا سماج اور میرا تمدن بھی ہزارہا برس پرانا ہے۔ اس میں غلط کیا ہے؟ اچھا اگر میں ان کی اس بات کو مان لوں جو کہ بظاہر سائنسی ’’لگتی ہے‘‘ مادی لگتی ہے تو کیا حرج ہے؟ اس میں بھی وہی حرج ہے جو کہ اس مغالطے کو ماننے سے ہے جو کہ محترم علی عباس جلالپوری صاحب نے ’’عام فکری مغالطے‘‘ میں مغالطے سے بطور مغالطہ درج کر دیا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ مابعد الطبیعات کہتی ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ بہت سے فلسفے کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو نہیں دہراتی۔ پہلے اس پر بات کر چکا ہوں اس لئے مختصراً اپنا نقطہ بتا دیتا ہوں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن پہلے کی طرح نہیں دہراتی۔ اور اگر ہم مان لیں کہ یہ خود کو نہیں دہراتی تو زبردست مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے جس کا میں نے ذکر پیرے کے شروع میں کیا ہے۔
دنیا ہر وقت تغیر پذیر ہے مارکس نے نہیں کہا، یہ بات ہیراکلیتسؔ کی ہے جسے ہیگل ہی نے بری طرح رد کر دیا تھا کہ آپ ایک دریا میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے۔ یا اس کے شاگرد قراطیلوس نے کہا تھا کہ آپ ایک دریا میں پہلی بار بھی قدم نہیں رکھ سکتے کیوں کہ جب آپ قدم رکھنے کو آئیں گے تو دریا ’’وہ پہلے والا‘‘ دریا نہیں رہا ہو گا۔ ہیگل نے اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دریا صرف پانی کا نام نہیں ہے بلکہ اس راستے کا، چٹان پتھر کا، ریت کا اور اپنے سارے اجزا کا نام ہے۔ اور یہ درست ہے کہ اس میں کچھ نیا ہوتا رہتا ہے لیکن پرانا نابود نہیں ہو جاتا بلکہ وہ لاکھوں کروڑوں سال سے وہی بھی ہے۔
آخر اس طرح کی چیزیں ماننے سے ہمیں مسئلہ کیا ہوتا ہے؟ مسئلہ وہی ہوتا ہے جو کانٹ کا فلسفہ مِن و عَن ماننے سے ہو گا۔ کہ چیزیں جانی نہیں جا سکتیں۔
ہیراکلیتس کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ وہ مادی اور جدلیاتی فلسفی ہونے کے باوجود یہ کہتا ہے کہ چیزوں کو جاننا ممکن نہیں کیوں کہ جب آپ جاننے کی کوشش کرنے لگتے ہیں چیز تبدیل ہو چکی ہوتی ہے۔ اب آپ جس کو جان رہے ہیں وہ مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے اس لئے جانا گیا کسی اور چیز کا تھا اور آپ کے سامنے کچھ اور ہے۔ وغیرہ۔۔۔ ایک تو ہیراکلیتس کا یہ فلسفہ اپنے اندر یہ رجعت پرستی کا عنصر لئے ہوئے تھا کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا تو دوسری طرف یہ اپنے اندر ایک انقلابی پہلو لئے تھا کہ چیزیں تبدیل ہوتی ہیں اور آخر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
اس وقت غلامانہ نظام طبع پیداوار تھا۔ حکمران طبقہ غلاموں سے کام لیتا تھا اس کو آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے یہ بات بری طرح کھٹکی کہ کیا کل کو غلام، آقا؛ اور آقا، غلام بن جائیں گے؟ ہمارے بھولے دوست تو ہمیں آج کے دور میں بھی یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکمرانوں کو فلسفے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ بے چارے تو بس اپنا کھاتے کماتے اور حکومت کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو یہ جھنڈے، یہ نعرے اور یہ پتھروں کی یادگاریں نہ ہوتیں۔ ان کی وجہ سے لوگ مرتے مارتے نہ۔
لیکن اس وقت کے حکمران طبقے کے ایک زبردست نمائندے پارمینیڈسؔ نے فوراً اپنا فلسفہ عوام میں اتار دیا۔ جس کے مطابق حرکت کا وجود نہیں تھا اور اگر حرکت ہی نہیں ہے تو تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے فلسفے کو پڑھیں یقین ہو جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں جو دوسری سے جدا ہو۔ جب سارے کا سارا ہے ہی ’’ایک‘‘ تو حرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس بات کو زبردست جدلیاتی طریقے سے ثابت کیا گیا اور اس ایک ہونے کا جدلیات آج بھی انکار نہیں کرتی۔ اس طرح حکمران طبقے کا یہ انسان دشمن فلسفہ اپنے آپ میں مکمل انسان دشمن نہیں تھا کیوں کہ ابھی فلسفے کو بہت آگے جانا تھا۔
اب تک میں نے جو کہنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا کا سوال آج کا نہیں ہزاروں سال پہلے کا ہے۔ البتہ اس کی افادیت کا اصل اندازا حکمران طبقے کو انیسویں بیسویں صدی ہی میں ہوا ہے جب اس فلسفے کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی گئی تھی۔
’’چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا‘‘ کے دعوے کے ثبوت میں سب سے زیادہ باتیں وہ کرتے ہیں جو سائنس سائنس کرتے ہیں۔ سب سائنس کی باتیں کرنے والے ہی اس غیر سائنسی، غیر منطقی اور غیر انسانی بات کے پرچارک نکلیں گے۔
میرے مخالفو!
مجھے بتاؤ کہ اگر کچھ جانا نہیں جا سکتا تو آپ کا مسئلہ کیا ہے پھر؟
سائنس پر بات کریں؟
چلیں سائنس پر ہی بات کئے لیتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ ابتدائی سائنس پر بات کروں گا تو آپ مجھے جاہل کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی، ایک ایسا بندہ جس سے ہم سکالرلی باتوں کی توقع کرتے ہیں وہ عام سی باتیں کر رہا ہے اور باتیں بھی وہ جو ہمیں سمجھ میں آتی ہیں۔ تو مسئلہ ہی یہ ہے کہ یہی ہمارا طریقہ ہے اور یہ ہی مقصد کہ بات سمجھ میں آئے۔ میری باتوں کو غور سے پڑھیں۔ نہ بھی غور سے پڑھیں گے پھر بھی یہ آپ کے دماغوں کے اندر گھْس کر بیٹھ جائیں گی۔ اور اگر آپ میں ذرا بھی شرم و حیا ہو گی تو میری باتیں آپ کو مجبور کر دیا کریں گی کہ آپ انہی کو سچ مانیں اور انہی کو دوہرائیں خواہ آپ یہاں میری مخالفت ہی کیوں نہ کریں۔
میرا فلسفہ جدلیاتی مادیت ہے اور یہ کوئی چھلیڈوں کی دنیا کا فلسفہ نہیں ہے۔ اسی دنیا کا فلسفہ ہے۔ کوئی کائنات اور چاند ستارے اور سدائم و کہکشائیں میرے فلسفے کا موضوع نہیں ہیں۔ میرے فلسفے کا موضوع اتنا سادہ سا ہے کہ آپ ’’دھت تیرے کی‘‘ کہہ کر منہ پھیر کر یہاں سے چلتے بننا ہی بہتر سمجھیں گے۔
میرے فلسفے کا مرکز و محور صرف انسان ہے۔ بس۔۔۔ لیکن میرا انسان وہ نہیں جسے آپ انسان کہتے ہیں۔ آپ کا انسان صرف وہ ہے جس کے قبضے میں تمام فلسفے ہیں۔ جس کے قبضے میں عنان اقتدار ہے۔ میرے فلسفے کا محور مجبور اور پسا ہوا انسان ہے جو اکثریت میں ہے۔ جی ہاں میرا فلسفہ جانبدار ہے۔ وہ صرف مظلوموں کی حمایت کرتا ہے۔ یہ باتیں قطعاً جذباتی نہیں ہیں۔ خالصتاً فلسفیانہ ہیں۔ یہ کہ میری باتیں چونکہ سمجھ آ رہی ہیں لہٰذا یہ فلسفہ تو نہیں ہو سکتیں۔ آپ کا واہمہ ہے جو کبھی دور نہیں ہو سکتا۔ کم از کم اس وقت تک جب تک آپ یہ نہیں ’’جان لیتے‘‘ کہ چیزوں کو جاننا ممکن ہے۔ اصل میں ایسی باتیں کرنا جو کہ سمجھ میں آ جائیں ہی ہمارا مقصد ہے۔ ہمارے فلسفے کا مقصد ہی یہ ہے کہ بات عوام کو سمجھ میں آئے۔
دیکھیں میں نے دو فلسفے بتائے ہیں۔
ایک جو کہتا ہے کہ چیزوں کو جانا جا سکتا ہے۔
دوسرا جو کہتا ہے کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔
اب خود غور کریں جو کہتے ہیں کہ چیزوں کو جانا جا سکتا ہے وہی چاہیں گے نا کہ چیزوں کو جانا جانا چاہئے؟ اور جو یہ کہتے ہیں کہ چیزوں کو جاننا ناممکن ہے وہ یہی چاہیں گے کہ وہ سچے ثابت ہوں؟ اور انہیں سچا ثابت ہونے کے لئے ایسی باتیں کرنا پڑتی ہیں جن سے ثابت ہو جائے کہ چیزوں کو جاننا ناممکن ہے؟
اب کسی نے پوچھ لیا ہے کہ پھر کیسے جانیں کہ سچ کیا ہے۔
اس بات کو ہم یوں سوچنا شروع کرتے ہیں کہ ایک سچا فلسفہ عام انسان کی سوچ سے کس قدر دور ہو سکتا ہے؟ کیا عام انسان فلسفے کے مسائل کو جان سکتا ہے؟ کیا فلسفے کے مسئلے عام انسان کے مسئلے ہیں؟ فلسفے کا سب سے بڑا اور بنیادی سوال ہے کیا؟
چونکہ میں تو یہاں مختصراً کانٹ کے فلسفے پر بات کرنا چاہتا تھا اسی لئے ان سب سوالوں کا صرف جواب ہی دے پاؤں گا ان کا تجزیہ نہیں کر پاؤں گا۔
اگر ہم فلسفے کے بنیادی سوال سے بات شروع کریں تو فلسفے کا بنیادی ترین سوال یہ ہے کہ شعور کا وجود کے ساتھ کیا تعلق ہے اور ان میں سے کیا پہلے ہے۔ باقی تمام سوال بھی اسی سے جا جڑتے ہیں جیسے کہ انسان کا کائنات میں کیا مقام ہے، کہنے والے بھی اگر غور کریں تو وہ بھی یہی کہہ رہے ہوتے ہیں۔ انسان کیا ہے، کیسے ہے، کیوں ہے یا دنیا کا کوئی بھی سوال بالآخر اسی سوال کا ضمنی سوال ہو جاتا ہے۔
مسئلہ یہ رہ جاتے ہیں:
کہ کیا عام انسان فلسفے کے مسائل کو جان سکتا ہے؟
کیا عام انسان یا ہر انسان فلسفے کے مسائل کو یا ان کے حل کو جان سکتا ہے؟
یا کیا کوئی انسان کسی بھی چیز کو جان سکتا ہے؟
ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی اگر ہاں میں دے دیا جائے تو کانٹ غلط ہو جاتا ہے۔ ان سوالوں کے جواب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک سچا فلسفہ عام انسان کی سوچ سے کتنا دور ہو سکتا ہے؟ شلرؔ کی یہ بات کہ ایک عام آدمی اس فلسفی کی نسبت حقیقت کے زیادہ قریب ہوتا ہے جس نے اپنی تحقیق کا آغاز تو کیا ہو لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچا ہو بالکل درست ہے۔ فنامینالوجی میں ہیگل بھی ایک دائرے کا ذکر کرتا ہے کہ آدمی سچائی کی تلاش میں جہاں سے شروع کرتا ہے وہیں آتا ہے۔ یعنی ایک عام آدمی کا فہم ہی حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے یہ ان عظیم لوگوں کا کہنا ہے جن میں سے ایک فلسفی ہے اور دوسرا فنکار و نقاد! لیکن ہیگل اس دائرے کے متعلق ایک بات اور بتاتا ہے کہ جو انسان دائرہ مکمل کر کے آتا ہے وہ یقیناً اس سے مختلف بھی ہے جس نے اس دائرے والا سفر نہیں کیا۔ اور دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ منزل سب کچھ نہیں بلکہ منزل تک کا سفر اصل چیز ہے، یہ سفر ہی ہے جو کہ مقصد کو پورا کرتا ہے۔
پاؤلو کولیو نے اپنے ناول ’’الکیمسٹ‘‘ میں اسی بات کو بنیاد بنا کر سارے ناول کا تانا بانا بْنا ہے قدم قدم پر ’’فلسفیانہ‘‘ سے جملے پھینکتا یہ ناول اسی خیال کی تجسیم کرتا دکھائی دیتا ہے کہ خزانہ وہیں تھا جہاں سے ہیرو نے آغاز کیا تھا۔ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عام انسان مادیت پسند ہو گا یا عینیت پرست؟ اس بات کا جواب کیسے ملے گا؟ فلسفے کے بنیادی ترین سوال کے متعلق اوپر یہی بتایا ہے کہ شعور اور وجود کا کیا تعلق ہے؟ ان میں بنیادی کیا ہے اور ثانوی کیا؟ کیا شعور وجود کو جان سکتا ہے؟ وجود شعور کے ساتھ اور شعور وجود کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ اسی طرح کے سوال ہیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ عینیت پرستی میں شعور کو بنیادی مانا جاتا ہے اور مادیت پسندی میں وجود کو، تو ایک عام انسان کیا مانتا ہے؟
ہم تھوڑا سا سوال کو آسان کرنے کے لئے عینیت پرستی اور مادیت پسندی کے فلسفوں کو ان کی کلاسیکی شکل میں دیکھ لیتے ہیں مثلاً بارکلےؔ کی عینیت پرستی کی شکل میں جو کہ کہتا ہے کہ چیزوں کا وجود ہی نہیں ہے۔ سب کچھ ہماری حسیات کا کیا دھرا ہے یا ایک ’’ہمہ انانیت‘‘ (سولپسزم) ہے۔ یعنی صرف میں ہی میں ہوں اور میں یہ سب دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں اسی لئے یہ سب کچھ نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے۔ کسی بھی عام انسان سے یہ سب کچھ کہیں وہ ہنسے گا اور ایساکہنے والے کو پاگل کہے گا جو یہ کہہ رہا ہو گا کہ دنیا میں صرف ایک انسان ہے اور وہ وہی ہے جو یہ بات کہہ رہا ہے۔ یہ بات بظاہر بہت بڑا مذاق لگے گی۔ لیکن اس سے بڑھ کر حیرانی کی بات یہ ہے کہ عینیت پرستی کے ہر فلسفے کی لڑی پکڑ کر چلیں آپ یہیں پہنچیں گے۔ کانٹ کا فلسفہ بھی یہیں پہنچتا ہے کہ ’’ہم چیزوں کو نہیں جانتے بلکہ ’’اپنی‘‘ عقل کے اصولوں کو جانتے ہیں‘‘۔ اس طرح ہم فوراً اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عام آدمی اپنی عملی زندگی میں مادیت پسند ہوتا ہے اور وہ اس سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسے ہم عملی مادیت پسندی کہتے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ایک فلسفی اپنی تلاش شروع کر سکتا ہے۔
سفر کے شروع کرتے ہی مسائل سامنے آنے شروع ہو جاتے ہیں مثلاً اگر کسی سے کسی بھی کام کے کرنے کی حقیقت پر غور کرنے کا کہا جائے کہ وہ سوچے یا بتائے کہ یہ کیسے ہوتا ہے تو وہ الٹ پلٹ جواب دینا شروع کر دے گا۔ یعنی کبھی وہ مادیت پسند ہو گا اور کبھی عینیت پرست۔ مثلاً میں نے سائنس کے ایک گروپ میں سوچ کا سوال رکھا کہ صرف دماغ سوچتا ہے یا سارا جسم سوچتا ہے، تو سوچ کو صرف دماغ کی پیداوار بتا دیا گیا اور یہ بھی فرما دیا گیا کہ یہ دماغ ہی ہے جو سارے جسم پر ’’حکومت کرتا‘‘ ہے۔ دماغ اپنی جسمانی حیثیت میں نہیں۔ بلکہ سوچ۔ یعنی سوچ حکمران ہے۔
میں اس لمبی بحث کو نہیں چھیڑنا چاہتا۔ کوئی بھی سوال سوچ لیں۔ مثال کے طور پر آپ اپنی جرابیں کیسے دھوئیں گے؟ تو جواب ملے گا کہ میں ایسے ایسے ایسے کروں گا، میں پہلے سوچوں گا اور اس کے مطابق یہ یہ کروں گا۔ یعنی خیال پہلے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ سائنس کو ماننے والے مادے کو ماننے والے خیال پرست ہو جاتے ہیں۔
کلاسیکل مثالوں میں یہی تھا کہ خیال پرست یا عینیت پرست مادے کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ لیکن کانٹ کی یہ عظمت تھی کہ اس نے مادے کے وجود کو تسلیم کیا اور سائنس کو راستہ دیا۔ لیکن اس کا یہ کہہ دینا کہ چیزوں کو نہیں ہم اپنی عقل کے اصولوں کو جانتے ہیں افلاطون کے اعیان یا چیزوں کی روحوں کو زمین پر تو لے آیا لیکن اسے انسان کے ذہن کے اندر رمزیوں (مقولوں) یا کیٹیگریوں کی شکل میں رکھ دیا۔ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ہم چیزوں کو نہیں جان سکتے بلکہ اپنی عقل میں پہلے سے موجود اصولوں کو جانتے ہیں تو ہم چیزوں کی بجائے انہی اصولوں کی کھوج کرتے ہیں۔ اس طرح سے سائنس چل تو سکتی تھی لیکن اس پر کچھ روکیں بھی لگتی تھیں۔ لیکن غور کریں تو بات وہیں پہنچ جاتی ہے کہ ’’جاننے والا‘‘ اکیلا ہی ہے اور اس کا باقی دنیا سے یا دوسروں سے کوئی تعلق نہیں۔ وہی والی ’’ہمہ انانیت‘‘۔ کہ میں ہی میں ہوں۔
اس بات پر اعتراضات بھی آتے رہے اور ہیگل نے اس فلسفے کو تہس نہس کر ڈالا۔ جس کو فیورباخ نے ’’رد کیا‘‘ اور پھر مارکس کے فلسفے کی شکل میں ہیگل اور فیورباخ دونوں کا فلسفہ جدلیاتی انداز میں اسی طرح سے محفوظ ہو گیا کہ اس کی جو شکل لازمیت کی حامل تھی وہ بچ گئی۔ اب فلسفہ اس سائنسی حقیقت کے ساتھ ہی موجود تھا جو کہ عام آدمی کی حقیقت تھی۔ کہ چیزوں کا وجود ہے بھی اور انہیں جانا بھی جا سکتا ہے۔ یہاں انسان دشمن فلسفوں کے حامیوں کو ایسے فلسفوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو کہ ان کے اقتدار کو طول دینے میں مدد کریں۔ کیوں کہ اگر چیزوں کو جان لیا جائے تو استحصال نظر آ جاتا ہے۔ اور مارکسی فلسفے نے ’’کمیونزم کے بھوت‘‘ کی صورت میں یہ ہیبت انسان دشمنوں اور عقل دشمنوں میں پھیلا دی تھی۔ اب اس کے خلاف کچھ کرنے کا وقت تھا۔ مارکس کے بعد خوب دھول اڑائی گئی۔ جس کا اس مختصر سی تحریر میں ذکر تو نہیں ہو سکے گا لیکن اینگلز نے اینٹی ڈوہرنگ میں اور ڈائلیکٹکس آف نیچر میں فلسفے اور نیچرل سائنس کو سامنے رکھتے ہوئے سب مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا۔
پھر اینگلز کی موت کے بعد اور سائنس میں ترقی ہو جانے سے ایسے شواہد ملے گویا مادہ ختم ہو گیا ہے۔ اس بات کو اس وقت کے ترمیم پسندوں نے معذرت خواہانہ انداز میں تسلیم کیا گویا مارکس اینگلز سے کوئی غلطی ہو گئی تھی جو مادے پر اپنے فلسفے کی بنیادیں کھڑی کر دی تھیں۔ اس وقت لینن نے اس کام کی نوعیت کو سمجھا اور تاریخ میں وہ کردار ادا کیا جو اکیلا بھی ہوتا تو بھی اس کی عظمت کم نہ تھی۔ یعنی ’’میٹیریئلزم اینڈ امپیریوکرٹسزم‘‘ جیسی شاندار مدلل اور سائنسی کتاب لکھی اور اپنے وقت کے تمام دھوکے بازوں کو ناصرف ننگا کر کے رکھ دیا بلکہ ایسا میتھڈ فراہم کر گیا جسے لے کر آج بھی ہم ان دھوکے بازوں کی پہچان کرتے ہیں جو کہ سائنس اور فلسفے کے نام پر موضوعی عینیت کو پھیلاتے ہیں۔ اور اس پر طْرہ یہ کہ اس قدر ڈھیٹ ہیں کہ ’’موضوعی عینیت‘‘ کے نام سے یوں حیران ہوتے ہیں گویا یہ لفظ پہلی بار ہی سنا ہو۔ وہ اسے ’’موضوعیت‘‘ کہہ کر ذرا نرم الفاظ سے پیش کرتے ہیں۔ تاکہ عوام کو قابلِ قبول ہو۔