رپورٹ : |بلال آذر|
مورخہ 15جون بروز بدھ کو کلورکوٹ میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی کا آغاز دھوبی چوک کلورکوٹ سے ہوا اور واپڈا آفس کے سامنے اختتام پذیر ہو ئی۔ رانا ابو ہریرہ نے ریلی کی قیادت کی، اس موقع پر کلورکوٹ میں مکمل شڑ ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ ریلی جب دھوبی چوک سے نکلی تو 50سے 60 نوجوان تھے جوں جوں ریلی آگے بڑھتی رہی عوام کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور سینکڑوں تک پہنچ گئی بعد میںیہ کلورکوٹ کی سب سے بڑی ریلی ثابت ہوئی۔ ریلی میں شریک تمام شرکاء محنت کش اور اُن کے بچے تھے۔
آئی-ایم-ایف مردہ باد، ورلڈ بینک مردہ باد، اپنی کرپشن عوام پر مت ڈالو، بجلی دو پوری دو، جو حکومت بجلی نہیں چلا سکتی وہ حکومت کیا چلائے گی کے پلے کارڈ محنت کشوں کے شعور کی علامت تھے۔ غریب محنت کشوں کی اس ریلی میں کوئی بھی نام نہاد سیاسی نمائندہ نہیں تھا۔ حالیہ الیکشن میں جیتنے والے 11 امیدواروں میں سے کوئی ایک بھی ریلی میں موجود نہیں تھا۔ عوام نے گو نواز گو کے نعرے لگائے سو لگائے لیکن اُس کے بعد ایم این اے مردہ باد اور ایم پی اے مردہ بادکے نعروں نے عوامی اُبال اور خلفشار کو مزید بھڑکادیا اسکے بعد ایم این اے مردہ باد، ایم پی اے مردہ باد کے نعرے ریلی کی جا ن بن گئے۔
اُس وقت نہایت عجیب ماحول بن گیا جب پھا ٹک پر موجود ایم این اے کی قد آدم تصویر کو ریلی کے شرکاء نے ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد پھاٹک سے لیکر واپڈا آفس تک کوئی ایم این اے،ایم پی اے کا بورڈ محفوظ نہ رہ سکا،ریلی چلتی ہوئی جب رمضان سستا بازار(نام نہاد)پر پہنچی تو اشتعال اور بڑھ گیا۔ ریلی کے شرکاء نے سب سے پہلے ظالم اعلیٰ شہباز شریف کے قدآور کے پوسٹر کی خبر لی اور نیچے سڑک پر لٹا کر ڈنڈوں سے تواضع کی۔ اس کے بعد ایم این اے، ایم پی اے کے پوسٹرز کا بھی یہی حال کیا گیا۔ ٹی ایم اے کلورکوٹ بُت بنے جنتا کے اس ریلے کو دیکھتے رہے اور کوئی بات نہ کی بلکہ آہستہ سے دوسری سائیڈ سے رمضان بازار سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔
اس کے بعد ریلی پھر اپنی منزل(واپڈا آفس) پر رواں دواں ہو گئی۔ لاری اڈے پر پہنچے تو پھل کی ریڑھی والوں نے بھی اپنے محنت کش بھائیوں کے کندھے سے کندھا ملایا اور نعرہ بازی کی۔
بھکر موڑ پر پہنچتے ہی سرگودھا بھکر روڈ پر ٹائیر جلا کر دونوں اطراف کی ٹریفک روک دی گئی۔ اس ریلی کی سب سے اہم اور خوبصورت چیز محنت کشوں کی جڑت تھی۔ کوئی سٹیج سیکرٹری نہ تھا ،ہر آدمی نے اپنے اپنے خیالات کا آزادی سے اظہار کیا، نہ کسی ایم پی اے کو چھوڑا نہ ایم این اے کو چھوڑا اور نہ ہی بلدیاتی الیکشن میں جیتنے والے 11 امیدواروں کو ، سب کی نعروں سے خوب خبر لی۔
ایک مرتبہ پھر ہمیشہ کی طرح محنت کشوں کے اس ریلے کو روکنے کیلئے چاندنی چوک پولیس، کلورکوٹ پولیس اور دریا خان سے بھی پولیس نفری منگوائی گئی، لیکن محنت کشوں کا یہ ریلا پولیس سمیت سب کو بہا کر لے گیا اور پولیس کی گاڑیاں ریورس کرکے ریلے کے پیچھے لگا دی گئیں لیکن ریلا کسی کے بس میں تھا ہی نہیں۔
جب یہ کاروان محنت کشاں واپڈا دفتر کے سامنے پہنچا تو محنت کشوں کے سامنے محنت کش ہی لا کھڑے کیے گئے (یعنی واپڈا ملازمین) اور ایس ڈی او اندر چھپ کر بیٹھ گیا عوام کافی دیر گیٹ کو دھکے مارتی رہی لیکن اندر سے تالا لگا دیا گیا اور آہنی زنجیر بھی ساتھ تھی جس کی وجہ سے گیٹ تو نہ کھل سکا لیکن گیٹ کی حالت دیکھنے لائق تھی۔
ڈی ایس پی کلورکوٹ نے بیچ بچاؤ کرایا اور کہا کہ آپ احتجاج والے اپنے پانچ آدمی ہمیں دے دیں ہم واپڈا سے آپ کے مذاکرات کرواتے ہیں۔ باہمی صلاح مشورے کے بعد محنت کشوں نے رانا ابو ہریرہ ایڈوکیٹ، رانا راشد باللہ، ملک خالد، رانا ایوب اور چاچا حق نواز وغیرہ مذاکرات کے لئے گئے۔ آدھے گھنٹے تک مذاکرات ہوتے رہے۔ محنت کشوں کا غصہ ایک مرتبہ پھر آسما ن چھونے لگا جب واپڈا مذاکرات کمیٹی نے یہ کہا کہ ہم نے تو کلورکوٹ گرڈ سٹیشن کا پروپوزل کب سے بھیج دیا تھا اور ہم بار بار ایم این صاحب کو یاد دہانی بھی کرواتے رہے ہیں، آپ ان سے پوچھیں اب یہ ان کا کام ہے۔ فنڈز تو وہ ہی دیں گے۔عوام بری طرح بپھر گئی اور کہا کہ آج کے بعد ایم این اے اور ایم پی اے کلورکوٹ کا ریلوے پھاٹک کراس نہیں کریں گے ہم آج سے ان کا داخلہ شہر میں بند کرتے ہیں جسکی پورے اجتماع نے تائید کی اور ہر وقت تیار رہنے کا عزم کیا ۔
ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) کی طرف سے بلال آذر اور عبداللہ ساحرنے شرکت کی جو اس پروگرام کی کمیٹی کے بھی ممبر ہیں۔ یاد رہے اس سے پہلے بھی تین دن پہلے ایک پر امن ریلی نکا لی گئی تھی جسے سیا سی نمائندوں نے وقتی ابال بتایا تھا لیکن ہزاروں محنت کشوں کی یہ ریلی جہا ں سیاسی جغادریوں کے لیے حیرت کا جھٹکا تھا وہیں محنت کشوں کی جڑت کا بھی نشان تھا۔