[تحریر: صبغت وائیں]
آج سے قریباً 2600 برس قبل سولونؔ نے طبقاتی سماج میں قانون کی اوقات بیان کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ مکڑی کے جالے کی مانند ہے، اس میں چھوٹے اور کمزور پھنس کے رہ جاتے ہیں، بڑے اور طاقتور اسے چیر پھاڑ کر نکل آتے ہیں۔
کل کی خبر کے مطابق شاہ زیب کے قاتلوں کو اس کے والدین نے معاف کر دیا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یہ معافی ’’فی سبیل اللہ‘‘ دی گئی ہے۔ اب نیت کا حال تو ہم انسان نہیں جان سکتے لیکن ہم یہ بخوبی دیکھ رہے ہیں کہ یہ معافی جن لوگوں کو دی گئی ہے ان میں ایک جتوئی، ایک لاشاری اور دو تالپوُر خاندان کے سپوت تھے، جنہوں نے پہلے مقتول کی بہن کو چھیڑا تھا، مقتول کے منع کرنے پر لڑائی ہوئی جس کے بعد ان چاروں نے شاہ زیب کا قتل کیا اور باآسانی ملک سے فرار ہو گئے۔ ہم نے دیکھا کہ اس قتل کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلی، جس پر اعلیٰ عدالتوں نے نوٹس لے کر ان با اثر ملزموں کو گرفتار کروایا، اور بعد ازاں جرم ثابت ہونے پر انہیں موت اور عمر قید کی سزائیں سنا دی گئیں۔
اب ان بڑے لوگوں کے بیٹوں کو مقتول کے لواحقین نے معاف کر دیا ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے ریمنڈ ڈیوس کیس اور سرفراز قتل کیس میں ہم ’’معافی‘‘ اور ’’مک مکا‘‘ کا یہ طریقہ کار دیکھ چکے ہیں۔ یہ اس ملک کے عدالتی نظام کامعمول ہے کہ گواہ خرید لئے جاتے ہیں، مار دیے جاتے ہیں یا پھر دھمکا دیے جاتے ہیں۔ عدالت نے تو پوچھنا ہوتا ہے کہ گواہ یا وارث اپنی مرضی سے یہ بیان دے رہا ہے کہ نہیں۔ عدالت کے پاس ججمنٹ کرنے کا ایسا کوئی آلہ نہیں جس سے اکراہ اور جبر کا پتہ چلایا جا سکے۔
داس کیپیٹل کی پہلی سطرکے مطابق سرمایہ دار معاشروں میں دولت ناپنے کی اکائی ’’شئے‘‘ یعنی کموڈیٹی ہے۔ اور سرمایہ دارانہ معاشروں میں یہ انباروں کی صورت میں پڑی ہیں۔ یعنی دولت ناپنے کے لئے ہم’’ اشیائے صرف‘‘ کو دیکھتے ہیں، روپے پیسے کو نہیں۔ پہلے پہل انسان کے لئے سب سے بڑی دولت اس کے جانور ہی ہوتے تھے۔ (ہم اس بات کو ایسے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ لاطینی زبان میں ’’پِیکَس‘‘ کا لفظ جانور اور پیسے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اطالوی ’پِیسو‘‘ اور ہمارا پیسہ بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ اور ہم اپنے جانوروں کو پنجابی میں’’پشّو‘‘ کہتے ہیں۔ ویسے ہماری پنجابی میں مال کا لفظ بھی پیسے اور جانور دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے) چنانچہ قدیم زمانے میں’’ دیّت‘‘ کی رقم سو اُونٹوں کے برابر مقرر تھی۔ تکنیکی طور پر پسماندہ انتہائی قلت کے اس قدیم سماج میں یہ کتنی خطیر رقم ہو گی اس کا اندازہ آج بھی اونٹوں کی قیمت لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم آج کے اس سرمایہ دار انہ معاشرے میں جہاں ایک گھڑی کی قیمت ایسے پانچ سے دس ہزار اونٹوں کے برابر ہے، اس رقم کا ادا کرنا کسی سرمایہ دار کے لئے چنداں مشکل نہیں ہے۔ یوں آج اپنے بازو پر دس بارہ ہزار اونٹوں سے زیادہ قیمتی گھڑی باندھ کر پھرنے والوں کے لئے ’’قصاص‘‘ وغیرہ ادا کر کے قتل معاف کروا لینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر اسی چیز کو گائے، بھینسوں سے ناپا جائے تو بھی مختلف قسم کے جواب مل جائیں گے۔ مثلاً ایک چھیالیس کروڑ کی گھڑی کا مطلب ہے کہ آپ اپنے گھرمیں تین، تین لاکھ کی پندرہ سو بھینسیں یا پانچ، پانچ ہزار کے بانوے ہزار چھترے باندھ سکتے ہیں! ویسے بھی دولت مند اکثر دولت کو رشتے داروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ حال میں ہم نے منظر عام پر آنے والے بڑے کیسوں میں دیکھا ہے کہ چند بڑے لوگوں نے اپنی اور اپنی اولاد کی زندگیاں داؤ پر لگادی ہیں مگر تاوان وغیرہ کی رقم نہیں دی۔ چنانچہ اس نظام میں ایک قتل کر کے دو چار لاکھ خرچ کر کے بری ہو جانا کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے اسلامک سٹڈیز کے صدر شعبہ ڈاکٹر شکیل نے کہا ہے کہ اس قانون کا اطلاق قتلِ خطا میں ہو سکتا ہے قتلِ عمد میں نہیں۔ (قتلِ عمد میں قاتل نے پہلے نمبر پر تیاری کی ہوتی ہے کہ وہ قتل کرے گا، دوسرے نمبر پر اس کی نیت، یعنی نیت مجرمانہ ہوتی ہے، تیسرے نمبر پر اس کا کوئی محرک ہوتا ہے اور چوتھے نمبر پر آلہ قتل بتاتا ہے کہ یہ ایکسیڈنٹ نہیں بلکہ قتلِ عمد ہے) وہ کہتے ہیں کہ قتلِ عمد میں تو لازمی ہے کہ مجرم کو سزا ملے، اور وہ بھی سزائے موت۔ ہاں اگر ایکسیڈنٹ ہو گیا ہو تو دیّت سے معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی قصاص دیّت آرڈیننس میں حد کے علاوہ تعزیر کا بھی ذکر موجود ہے، یعنی ورثاء کی طرف سے سزائے موت کی معافی ہونے کے باوجود عدالت سزائے قید و جرمانہ دے سکتی ہے۔ تاہم قانون بظاہر کتنا ہی دلکش اور منصفانہ کیوں نہ ہو اس کی تشریح ہمیشہ طاقتور فریق کے حق میں کی جاتی ہے۔
ویسے اس کیس میں ’’خدا ترسی‘‘ کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ قاتلوں کو کسی اور وجہ سے معاف کر دیا گیا ہے۔ کہا جا رہا تھا کہ لواحقین پر ’’پریشر‘‘ بڑا تھا۔ آج سے چھ ماہ پہلے اسی ’’پریشر‘‘ نے کراچی میں سرفراز کے قاتلوں کو، جنہیں عدالت نے سزائے موت دی تھی، بری کروا دیا تھا۔ ایک خبر یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ کسی دینی شخصیت نے خاص طور پر بیچ میں پَڑ کے ان وڈیروں یعنی جتوئی، لاشاری اور تالپوروں کو معافی دلوائی ہے۔
یہ کوئی پیچیدہ یا نہ سمجھ آنے والی بات نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کاحل سرمائے اور ذاتی ملکیت پر مبنی اس نظام کے خاتمے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ سرمایہ دارانہ سماج میں حتمی طاقت کا ماخذ سرمایہ ہوتا ہے اور ہر چیز کی طرح ’’انصاف‘‘ بھی بکاؤ ہے جس کی منڈی میں بولی لگتی ہے۔ آپ کتنے ہی سخت قوانین بنا لیں، دولت مند اپنا راستہ نکال لیں گے اور غریب ان قوانین کی سختیوں میں پس جائیں گے۔ اس طبقاتی سماج میں یہی ہو گااور ہورہا ہے۔ سماجی برابری کے بغیر انصاف بھی ادھورا اور لاغر رہتا ہے۔ سماجی برابری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک معاشی برابری نہ ہو۔ سرمایہ داری میں معاشی برابری ممکن نہیں ہے، بلکہ معاشی اونچ نیچ ہی اس نظام کی قوت محرکہ ہے۔ یہاں انصاف کے سودے ہر روز سر عام ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ پریشر سے، دھمکیوں سے، گواہ خرید کے، گواہ مروا کے، مدعی کو مروا کے، سودا کر کے، اچھے وکیل کر کے، مخالف وکیل خرید کے، جج خرید کے، رشوت دے کے وغیرہ وغیرہ۔ لواحقین کو پیسے لینے پہ بھی دو چیزیں ہی مجبور کر دیتی ہیں۔ پہلی مخالفین کی اعلیٰ مالی حیثیت، جو کہ صاف بتا رہی ہوتی ہے کہ کچھ لے کے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عقل مندی ہے، ورنہ ان لوگوں نے تو بچ ہی جانا ہے۔ دوسری مظلوم کی غربت۔ چنانچہ غربت اور امارت کے اس سماج میں ’’آزاد عدلیہ‘‘ کی باتیں سراسر بیہودگی ہیں۔ یہ عدلیہ سرمایہ دارانہ ریاست کا بنیادی ستون ہے جس کا مقصد سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کی نگہبانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ اس طبقاتی نظام اور اس پر مبنی استحصالی ریاست کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ کر ہی ایک منصفانہ معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔