|تحریر : زلمی پاسون|
26 مئی کو ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت سے محض 12 کلو میٹر مغرب میں واقع گاوں ڈنک میں ایک گھر کے میں رات کے اندھیرے میں برائے نام ڈکیتی کی ایک واردات ہوئی۔ درحقیقت ریاستی سرپرستی میں ایک مسلح جتھے کے جرائم پیشہ افراد نے ایک گھر میں گھس کر ڈکیتی کی کوشش کی جس پر گھر والوں کی جانب سےمزاحمت کی گئی۔ ڈاکوؤں سے مزاحمت کے دوران ملک ناز نامی خاتون خود شھید ہوئیں اور چار سالہ معصوم بچی برمش کے زخمی ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے میں شہید خاتون کی مزاحمت نے ظالم کے چہرے پر لگے نقاب کو بے نقاب کیا۔ ڈنک کے سانحہ میں لوگوں نے ہمت کر کے موقع سے ایک ڈاکو پکڑ لیا اس کے بعد پولیس نے ان کے دو ساتھیوں کو اور ڈکیتی میں استعمال ہونے والے اسلحہ، گاڈی اور ایک موٹر سائیکل کو برآمد کر لیا ہے۔اس واقعے میں گرفتار ڈکیتوں نے نا صرف خود کو سیکیورٹی فورسز کے بطور (سورس) ظاہر کیا بلکہ باقاعدہ اپنے جرائم پیشہ گروہ اور اپنے سرغنہ کا نام بھی دیا۔ بلوچستان میں سورس کے نام پہ لے پالک درجنوں مسلح گروہ ہیں (جنہیں آسان الفاظ میں ڈیتھ اسکوڈ کے نام سے جانا جاتا ہے) جن کو جرائم کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں اور تربت میں ان گروہوں نےڈکیتی اور لوٹ مار کی وارداتیں کی ہیں۔
اس واقعے کے بعد احتجاج کا سلسلہ ساحلی شہر گوادر سے شروع ہوا جوکہ بلوچستان کے اکثریتی علاقوں تک پھیل گیا۔ اس وقت بلوچستان سے ہٹ کر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھی احتحاجی مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔ یہ احتجاجی تحریک بظاہر اس سانحہ میں زخمی ہونے والی چار سالہ برمش کو انصاف دلانے کے لیئے شروع ہوئی ہے لیکن اصل میں یہ بلوچستان کے اندر گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ریاستی جبر کے خلاف عوامی غصے کا برملا اظہار ہے جوکہ بلوچ سماج کے اندر موجود تھا۔ اور برمش کے واقعے نے اُس عوامی غم و غصے کو اظہار کا موقع فراہم کیا۔ پورے بلوچستان میں اب تک جو سب سے منظم احتجاج ریکارڈ کیا گیا وہ تربت میں نظر آیا جہاں سوشل میڈیا پہ دو دن کی مہم کے بعد شدید گرمی میں عورتیں، بچے اور مردوں کی بڑی تعداد گھروں سے نکل آئی، کئی سالوں سے سرکاری ریلیوں نے تربت سمیت پورے بلوچ بیلٹ کے سیاسی ماحول کو بے رنگ بنادیا تھا مگر ملک ناز کی شہادت اور برمش کو انصاف دلانے کے لیے احتجاجی تحریک کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ منظم اور واضح پروگرام کیساتھ سیاسی جدوجہد ہی تمام تر مسائل کا حل ہے۔
بلوچستان بھر میں اب تک جتنے بھی مظاہرے ہوئے ہیں ان مظاہروں کے حوالے سے ایک اہم بات کرنا انتہائی ضروری ہے کہ اس وقت برمش کے حوالے سے احتجاجی مظاہرے خودرو طریقے سے چل رہے ہیں جس میں صوبے کے اندر موجود تمام سیاسی پارٹیاں بشمول قوم پرست پارٹیاں کسی بھی حوالے سے سٹیک ہولڈر نہیں ہے بلکہ وہ عام عوام کی طرح ان تمام تر احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صوبے کے مظلوم عوام کا صوبے میں موجود تمام تر سیاسی پارٹیوں پر اب کوئی بھروسہ اور اعتماد نہیں رہا، کیونکہ یہ تمام تر سیاسی پارٹیاں اتنی زوال پذیر ہو چکی ہیں کہ بعض اوقات لفظ زوال پذیری کو خود اپنے زوال پزیری پر حد سے زیادہ شرمندگی ہوگی، کیونکہ صوبے میں موجود شدت پسند، دہشت گرد تنظیموں اور ڈیتھ اسکوڈ کے ساتھ ان پارٹیوں کے قریبی تعلقات موجود ہیں، جن کا اظہار ہم نے انتخابات کے دوران ان دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات اور اتحاد کی شکل میں دیکھا ہے۔ سیاسی جماعتیں ان گروہوں کو اپنی پارلیمانی سیاست کے لیئے کامیابی کا ذریعہ سمجھ کر ان کے کردار پہ کبھی تذبذب کا شکار نہیں رہیں بلکہ ان کی زیادہ کوشش رہی ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں تاکہ پارلیمنٹ میں ان کے سیٹوں کی تعداد زیادہ ہو۔ اس کے علاوہ صوبے میں موجود تمام تر سیاسی پارٹیوں کے زوال پذیری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے کے کئی علاقوں میں آل پارٹیز کی جانب سے بلائے گئے احتجاجی مظاہروں میں عوام کی شرکت نہ ہونے کیوجہ سے ان تمام تر سیاسی پارٹیوں کو برمش یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلائے گئے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنا پڑا۔ جب کہ اس پورے احتجاجی مظاہروں کے دوران جو تشویشناک بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ صوبے بھر میں اس وقت عوام کے لئے کوئی متبادل سیاسی قوت کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لئے صوبے بھر میں نام نہاد ویلفیئر سوسائٹی، سول سوسائٹی اور این جی اوز نے کردار ادا کیا۔
جس طرح کہ ہم پہلے بھی وضاحت کر چکے ہیں کہ ان عوامی احتجاجوں میں سیاسی جماعتیں بھی شریک ہیں لیکن ان کا کردار قائدانہ نہیں بلکہ وہ ان کے حصے ہیں کیوں کہ تربت سمیت کسی مقام پہ سیاسی جماعتوں کی کال پہ عوام نہیں نکلے گوکہ تربت میں آل پارٹیز نے احتجاج کا اعلان کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تربت شہر میں ریلی اور احتجاج آل پارٹیز کے اعلان پہ نہیں ہوا کیوں کہ آل پارٹیز محض پریس کلب کے سامنے ایک روایتی احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتی تھی جس میں سیاسی رہنماؤں کو عوام کی شرکت پہ شک تھا۔ اس لیے تربت کے مظاہرے سے لے کر آواران، پنجگور، خاران، دشت، مستونگ، قلات، بسیمہ، کراچی،کوئٹہ، ماشکیل، وڈھ،خضدار، حب اور دیگر علاقوں میں صوبے کے تمام تر سیاسی پارٹیاں ان احتجاجی مظاہروں کے اندر عوام کی حیثیت سے شریک رہی ہیں۔
عالمی وباء کورونا اور سرمایہ داری کے مالیاتی بحران کے بعد عالمی، ملکی اور علاقائی طور پر سیاست میں ایک نئی تبدیلی آ چکی ہے جس کا اظہار محنت کش طبقے کے شعور میں معیاری تبدیلی کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے، گزشتہ سال کے آخر میں دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کے زوال پذیری کیوجہ سے مختلف ایشوز پر احتجاجی تحریکوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اس نظام کا قلع قمع کرنا ناگزیر ہو گیا ہے، گوکہ عالمی وبا کرونا کے ظہور کے بعد ان تمام تر ممالک میں تحریکیں خاموش ہوگئی مگر نام نہاد لاک ڈاؤن کے بعد ان تحریکوں نے دوبارہ سے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے جن میں ایک نئی تحریک جو دنیا کے عالمی دہشت گرد اور عالمی سامراج امریکہ کے اندر ایک سیاہ فام امریکی شہری کا پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے جس نہ صرف امریکی سامراج کو ہلایا ہے بلکہ اس احتجاجی تحریک کا پھیلاو امریکا سے باہر یورپی ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی طور پر بے روزگاری لاعلاجی غربت اور استحصال میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جس کے اثرات پوری دنیا کے اندر موجود محنت کش طبقے پر اثر انداز ہورہے ہیں، ایسی صورتحال میں پاکستان جیسی کمزور لاغر اور گماشتہ معیشت مزید تباہی کی طرف جارہی ہے۔ اور اس تباہی کا اظہار کرونا وبا کے دوران صحت تعلیم روزگار اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی پر زیادہ وقوع وزیر ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں ریاستی جبر کا بڑھنا ناگزیر ہوتا ہے۔ بلوچستان کے اندر ریاستی جبر جو کہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ جس کی مثال روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگی سرچ آپریشنز، مسخ شدہ لاشیں، وسائل کی لوٹ مار، جمہوری حقوق پر قدغن، معاشی استحصال اور برمش جیسے واقعات شامل ہیں مزید رونما ہوسکتے ہیں۔
جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر چکے ہیں کہ بلوچستان میں جاری ریاستی جبر کیوجہ سے گزشتہ ایک دہائی سے سیاسی جدوجہد کے حوالے سے بلوچ سماج گھٹن زدہ کیفیت کا شکار تھا، صرف وہی لوگ آزادانہ طور پر بلوچستان میں سیاست کر رہے تھے جنکا پیشہ ریاست کی دلالی کرنا ہوتا تھا۔ اپنے جمہوری معاشی اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کرنے والی آواز کو دبانے کے لیے ریاست کے پاس مختلف لیبلز موجود ہیں جن کی بنیاد پر حق کی ہر آواز کو دبایا جاتا رہا ہے۔ اس ضمن میں ایک طرف اگر ریاستی جبر قابل مذمت ہے تو دوسری طرف مسلح جدوجہد کے طریقہ کار پر تنقید کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ مسلح جدوجہد کے ذریعے ہم ریاستی جبر کو “آ بیل مجھے مار” کے مقولے کے مصداق ثابت کرتے ہیں۔ مگر جدلیات کی رو سے چیزیں جلد یا بدیر اپنی الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں کے مصداق کے تحت سماج کے اندر موجود غم و غصہ آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑنے میں دیر نہیں لگتی۔ برمش کے واقعے کے خلاف بلوچستان کے اندر سے جو آواز اٹھی ہے یہ آواز گو کہ وقتی طور پر خاموش ہو سکتی ہے مگر اس طرح کی آوازیں اُٹھنا اب اس نئے عہد کی بنیادی خصوصیت بن چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس نئے عہد کے ساتھ کیا ہمارے پاس وہ نئے نظریات ہیں جو کہ اس عہد کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر ہمیں ایک روشن مستقبل سے روشناس کروا سکے؟ اس سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے قوم پرست نظریات کے حامل قوتوں کے پاس گھسی پٹی پرانی دلیل ہوتی ہے کہ ہمیں ناگزیر طور پر اپنی آواز کو عالمی قوتوں کے پاس پہنچانا ہوگا تاکہ وہ جلد از جلد ہمیں اس جابر ریاست کے ظلم اور جبر سے آزادی دلا دیں۔ درحقیقت عالمی قوتوں پر انحصار کرنے اور عالمی قوتوں سے مدد کی اپیل کرنے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ برمش کے لئے انصاف دلانے کا اس طرح کا عوامی احتجاج اس وقت تک ناکافی ہے جب تک ہمیں کوئی عالمی قوت سپورٹ نہ کریں، یہ ان تمام تر عوامی تحریکوں اور احتجاجوں کی توہین ہے، جہاں پر عوام اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے اپنے دست بازو پر بھروسہ کر کے نکلتے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف ان تمام تر عالمی قوتوں سے امداد کے حوالے سے بحث قوم پرست قیادتوں کے علاوہ عوام کے اندر اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ کیونکہ سائنسی طور پر جب اہم عہد کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اس عہد کی خصوصیات عالمی طور پر ان عالمی قوتوں پر بھی اثر پذیر ہوتا ہے جن سے زوال پذیر نظریات کے حامل قیادتیں امداد کی بھیک مانگتے ہیں۔ اس وقت دنیا کا سپر پاور امریکی سامراج تاریخ میں پہلی دفعہ داخلی اور خارجی طور پر بھیانک مشکلات کا شکار ہے۔ اور یہ مشکلات نہ صرف معاشی ہیں بلکہ سیاسی اور سماجی بھی ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی طور پر ایک ایسی کھائی میں جا گھسا ہے جہاں سے نکلنا اُس کیلئے نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کی تمام سامراجی قوتیں جن سے مظلوم قومیتوں کی قیادتیں اپیل کرتی تھیں وہ سب اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کی وجہ سے اک ایسے دلدل میں پھنس چکی ہے جہاں سے وہ خود کو نکالنے کے لیے ناممکن تگ و دو میں مگن ہیں۔
اب سوال پھر وہی ہے کہ ظلم جبر اور استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لیے راہ نجات کیا ہے؟ بالخصوص اگر بلوچستان کے حوالے سے بات کی جائے تو ایک طرف ہمیں مفاد پرستی، اور ریاستی دلالی کے لیے پارلیمانی سیاست کا اظہار دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ دوسری طرف مسلح جدوجہد آزادی ہے۔ کوئی متبادل یعنی تیسرا راستہ کیا ہو سکتا ہے؟ کیا ہم صرف منتشر واضح نظریات اور پروگرام سے عاری عوامی مزاحمت کے ذریعے اس جاری ظلم جبر اور استحصال سے نجات پا سکتے ہیں؟ بالکل نہیں بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی تحریک کے لئے درست نظریات،پروگرام اور تنظیم کاری کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ انسان کے زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ہوتی ہے۔ اورآج کے عہد میں یہ نظریات صرف اور صرف مارکسزم کے نظریات ہیں جو تمام طبقاتی اور جمہوری تحریکوں کو ایک لڑی میں پروتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکتے ہیں جو کہ اس تمام جبر واستحصال کی اصل وجہ ہے۔ اور اس ظالم، خونی اور استحصالی نظام سے چھٹکارا عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے، جوکہ آج کے دور میں پانا کوئی ناممکن یا انہونی بات نہیں رہی۔
لہٰذا ہم اُن تمام باشعور سیاسی کارکنان اور نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ آئیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کے لیے “عالمی مارکسی رجحان” میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اس نظام کی بربریت سے نجات حاصل کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ کیونکہ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر ہی اس ظالم نظام کا خاتمہ اور سوشلسٹ سماج کی تعمیر میں بالشویک پارٹی کے جیسے کردار ادا کرسکتی ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کرنا اور ایک عالمی سطح کی انقلابی پارٹی کی تعمیر کا عمل تیزی سے آگے بڑھانا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔
بالشویک انقلاب کے عظیم رہنماء کامریڈ ٹراٹسکی کا مشہور قول ہے کہ ’’اگر ہماری نسل کرہ ارض پر سوشلزم تعمیر نہ کر پائی تو ہم یہ بے داغ پرچم اپنے بچوں کے حوالے کردیں گے۔ یہ انسانیت کے مستقبل کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد سخت ہوگی، طویل ہوگی۔ جو کوئی جسمانی استراحت اور روحانی سکون کا طلبگار ہے وہ پرے ہٹ جائے۔ لیکن وہ لوگ جن کے لئے سوشلزم کوئی کھوکھلا نعرہ نہیں بلکہ اخلاقی زندگی کی اساس ہے، آگے بڑھیں! دھمکیاں اور تشدد ہمارا راستہ نہیں روک سکتے! ہماری ہڈیوں پر ہی سہی، لیکن سچ فتح یاب ہوگا۔ میرے دوستو! خوشی کا بلند ترین معیار حال کا فائدہ اٹھانے میں نہیں بلکہ مستقبل کی تیاری میں پوشیدہ ہے۔‘‘