تحریر: |فارس راج|
22 ستمبر 2016ء کو جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن نے اپنی تاریخ ساز جدوجہد کے پچاس سال مکمل کئے۔ بغیر کسی مبالغے کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ انتہائی خوش آئند اور رجائیت سے بھرپور ہے۔ اس موقع پر ہم پروگریسیو یوتھ الائنس(PYA) کی جانب سے کشمیر کے جرات مند نوجوانوں اور این ایس ایف کے انقلابی ساتھیوں کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں جن کی لازوال قربانیوں اور انتھک جدوجہد کے باعث ہی یہ ممکن ہوا۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پروگریسیو یوتھ الائنس این ایس ایف کی جدوجہد کو عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے۔ اور اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے احساس میں آپ کی ریلیوں اور گولڈن جوبلی کی دیگر تقریبات میں بلند ہوتے فلک شگاف نعروں سے ابھرنے والی انقلابی دھنوں کو محسوس کر رہے ہیں۔ ہم آج اپنے ان شہداء کو بھی سرخ سلام پیش کرتے ہیں جو حق و سچ کی اس جدوجہد میں کٹ گئے مگر جھکے نہیں، انہی کی قربانیوں کے نتیجے میں ہی آزادی اور انقلاب کا یہ سرخ پرچم ہم تک پہنچااور ہمارے پاس بھی یہ ایک امانت ہے آنے والی نسل کی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی اور حال کا ایک تنقیدی جائزہ لیں تا کہ اپنے بعد والی نسل کو ٹھوس نظریاتی اور سیاسی بنیادیں فراہم کر سکیں۔
یہ سچ ہے کہ این ایس ایف نے پچاس سال کا طویل سفراپنے خون کی لکیر پر چل کر طے کیامگر آج سے پچاس برس پہلے جب این ایس ایف نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا تو وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کے تسلسل کا ہی نتیجہ تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپ باشعور ہیں اور 1960ء کی دہائی میں ابھرنے والی عوامی بغاوتوں، تحریکوں اور انقلابات کی تاریخ سے آگاہ ہیں۔ اگرچہ انقلابی قیادتوں کے فقدان کی وجہ سے ساٹھ کے عشرے میں ابھرنے والی تحریکیں پسپائیوں اور زوال پذیری کا شکار ہوئیں مگر وہ دنیا بھر میں مستقبل کے انقلابات کے لیے سماجی بنیادیں بنانے میں کامیاب رہیں اس کی ایک مثال خود این ایس ایف ہے۔ یہاں جو بات ہم واضح کرنا چاہتے ہیں وہ قوم پرستی کے تعصب میں مبتلا عناصر کی جانب سے پھیلایا جانے والا وہ پروپیگنڈہ ہے جس کے مطابق وہ سوشلزم کی جدوجہد کو اپنی قومی میراث بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سوشلزم کی جدوجہد عالمی محنت کش طبقے کی میراث ہے، یہ اس سے ہٹ کرکچھ ہو ہی نہیں سکتی۔ ہم تک یہ جدوجہد عالمی محنت کش طبقے کی بے شمار قربانیوں کے بعد پہنچی۔ اس لیے موجودہ صورت حال میں جب عالمی سطح پر سرمایہ داری شدید بحران سے دوچار ہے ہمیں عالمی انقلابات کی تاریخ کو سمجھنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے تاکہ سفاک نظام کے خلاف ابھرتی ہوئی تحریکوں کو بین الاقوامی بنیادیں دی جا سکیں اور کشمیر کی تحریک آزادی کو عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کے ساتھ منسلک کیا جا سکے۔ اگر ہم بعد کے واقعات پر نظر ڈالیں تو سوویت یونین کے انہدام تک بھی این ایس ایف اپنی سمتوں کا تعین بین الاقوامی سیاسی صورت حال کو مدنظر رکھ کر کرتی رہی۔ اور صرف این ایس ایف ہی نہیں پوری دنیا میں سوشلزم کے لیے برسرپیکار قوتوں کے لیے سوویت یونین کی موجودگی باعث حوصلہ تھی۔ این ایس ایف میں قوم پرستی کے رجحانات سوویت یونین کے انہدام کے بعد حاوی ہوئے، جن کا دورانیہ 90ء سے لے کر 2000ء تک کاہے۔ مگر اس عرصے میں بھی این ایس ایف میں سوشلزم کی بحثیں موجود رہیں۔ مگراکیسویں صدی کے آغاز پرہی سرمایہ داری کو بحران نے آ لیا جس کے باعث پوری دنیا میں نظام کے خلاف غم و غصہ ابھرااور سوشلزم پھر سے محکوم طبقات کے حقوق کی ترجمانی کرتے ہوئے نمودار ہوا۔ یہی وہ عرصہ تھا جب این ایس ایف میں سوشلزم کے متعلق ٹھوس بحثوں کا آغاز ہوا۔ابتداء میں یہ بحثیں محدود سطح پر رہیں مگر 2005ء تک این ایس ایف بین الاقوامی سوشلزم کے نظریات سے لیس ہو چکی تھی جس کے باعث ایک دہائی سے جاری قوم پرستی کے تسلط کا خاتمہ ہوا۔ اس کا اظہار کشمیر کے قومی میڈیا نے بھی کیا جب اس نے این ایس ایف کے نام کے ساتھ مارکسسٹ لکھنا شروع کیا۔ یہ وقت این ایس ایف کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا جب این ایس ایف نے کشمیر کی حقیقی قومی آزادی کے حصول کاتناظر بالعموم عالمی سوشلسٹ انقلاب اور بالخصوص برصغیر کے سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ مشروط کر کے پیش کیا۔ پہلی دفعہ کشمیر کے نوجوانوں میں عالمی انسانی تاریخ اور عالمی انقلابات کی تاریخ جاننے کی امنگیں جاگیں۔ تنگ نظر قومی پرستی کو جھٹک کر کشمیر کے نوجوان عالمی تناظر میں حالات و واقعات کو دیکھنے اور سمجھنے لگے۔ یہ درست ہے کہ یہ سب کچھ این ایس ایف کی اس وقت کی قیادت کی بھر پور سیاسی مہارت سے ہی ممکن ہوا مگر یہ آدھا سچ ہے مکمل سچائی یہ ہے کہ یہ عالمی مارکسی رجحان کے درست اور واضح پروگرام اور لائحہ عمل کے بغیر بھی ممکن نہ تھا۔ مگر وائے قسمت کے آج این ایس ایف کی سرکاری سطح پر پیش کی جانے والی تاریخ میں سے اس باب کو کھرچ کر پھینک دیا گیاہے۔ یہ تاریخی اور نظریاتی بدیانتی ہے جس سے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعات سے پہلوتہی کر کے گزرنے کے مترادف ہے۔ این ایس ایف میں اس سے پہلے بھی ایسے رجحانات حاوی ہوئے جو اپنی مرضی کو حقائق پر مقدم جانتے تھے مگر ایسے رجحانات کے خلاف این ایس ایف نے ہمیشہ مزاحمت کی ہے۔ اور موجودہ چار کے ٹولے کے خلاف بھی مزاحمت ہو گی کیوں کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بالآخر حقائق ہی فتح یاب ہوتے ہیں اور سچائی کو جتنا دبایا جاتا ہے یہ اتنی ہی شدت سے ابھرتی ہے۔
آج جب عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے گہرے ترین بحران کا شکار ہے، سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تشکیل پانے والی یورپی یونین کا شیرازہ بکھر نا شروع ہو چکا ہے، برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاکے حق میں ریفرنڈم ایک ٹریلر ہے ابھی فلم چلنا باقی ہے۔ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگ مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہو چکے ہیں۔ کالے اور گورے رنگ کا تعصب امریکی سیاست کی سطح پر آ چکا ہے۔ شام اور عراق کی ریاستیں عملًامنہدم ہو چکی ہیں اور اس طرح کی دیگر بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں جن سے سرمایہ داری کے ضعف او ر تاریخی متروکیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ صورت حال کا ایک رخ ہے، اس کرہ ارض پر اس وقت ایسے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں جن سے ہمارا انسانیت کے تابناک مستقبل پر یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں برنی سینڈرز کا خود کو سوشلسٹ بتاتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینا امریکی سیاست کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کی حامل تبدیلی ہے۔ برطانیہ میں جیریمی کوربن کا بائیں بازو کی ریڈیکل نعرے بازی کی بنیاد پر لیبر پارٹی کا لیڈر منتخب ہوناایک تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال کی غمازی کر رہا ہے۔ برنی سینڈر اور جیریمی کوربن کے مظہر پر کافی بات کی جا سکتی ہے مگر یہ موقع نہیں ہے۔ ہم یورپ میں بھی حالیہ برسوں میں ایسی تبدیلیوں کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں جہاں یونان، اٹلی اور سپین میں بائیں بازو کی پارٹیوں نے انتخابات میں بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں ۔ ہمارے پہلو میں بھارت کے محنت کش طبقے نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال کر کے تاریخ رقم کی ہے۔ میکانکی سوچ کے حامل تجزیہ کار موجودہ پاک بھارت کشیدگی کو پھر کشمیر تک محدود کر کے دیکھ رہے ہیں، حالانکہ کشمیر میں موجودہ تحریک کوتین ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے، مگر حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ بھارتی محنت کشوں کی دیوہیکل ہڑتال کے بعد ہواجس سے ہمارے مہان دانشور مکمل نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہم کشمیر کے سوال کو نظر انداز نہیں کر رہے مگر پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقے کی تاریخ ہے کہ انہوں ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو اپنے عوا م پر ظلم و ستم کرنے کے جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔
عالمی تناظر میں موجودہ صورت حال میں انقلاب اور ردانقلاب کی کشمکش کو واضح طور پر دیکھا جاسکتاہے۔ آنے والے دنوں میں واقعات کی رفتار اور شدت میں مزید تیزی آئے گی۔ ان دیوہیکل واقعات کے تناظر کی موجودگی میں کشمیر کے محکوم عوام اور این ایس ایف کے انقلابی ساتھیوں کے حقیقی دوست عالمی محنت کش عوام اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی داعی قوتیں ہی ہو سکتی ہیں۔ ہم این ایس ایف کی موجودہ قیادت کو بھی تنبیہہ کرتے ہیں کہ سرگوشیوں میں باتیں کرنا چھوڑو اور حالات و واقعات کی تحریری طور پر وضاحت کرو۔ ہم کشمیر کے نوجوانوں کی قومی آزادی اور محکوم عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے پروگریسیو یوتھ الائنس کی جانب سے مکمل یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم این ایس ایف کے ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عالمی محنت کش طبقے کی نجات کی ضامن محنت کشوں کی بین الاقوامی پارٹی کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔