|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر کا شمار پاکستان کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ جہاں غریب مریضوں کے لیے بنیادی علاج معالجے کے علاوہ سائبر نائف اور ٹوموتھراپی جیسی جدید سہولیات بھی میسر ہیں۔ اس کے علاوہ جلد ہی روبوٹک سرجری جیسی سہولت کے بھی جلد میسر ہونے کے امکانات ہیں۔
عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والے اس ادارے میں موجود ان سہولیات کو لوگوں تک پہنچانے والے ملازمین کے مسائل کی فہرست بھی طویل ہوتی چلی جارہی ہے۔ طویل ترین اور دشوار ڈیوٹیاں دے کر اس ادارے کو چلانے کے بعد لوگوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے والے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف کے لیے ہسپتال انتظامیہ و افسران بالا نے مشکلات اور تکالیف کے انبار لگا رکھے ہیں۔ ملازمین نے ان کے خلاف جدوجہد کرنے کیلئے اپنی اپنی کیٹیگری کی تنظیمیں بھی بنائی ہوئی ہیں۔
ان مشکلات کے حل کے لیے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف مسلسل احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی سندھ بھر کے پیرامیڈیکل سٹاف کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا دئیے ہوئے ہیں۔
ہر بار انتظامیہ اور محکمہ صحت کے افسران مطالبات کی منظوری کے جھوٹے وعدے کرکے احتجاج اور ہڑتال ختم کروا دیتے ہیں لیکن کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا جاتا۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بھی بروقت تنخواہوں کی ادائیگی، سیکورٹی، علاج کے آلات کی موجودگی اور میرٹ پر نوکری جیسے اہم مطالبات کے گرد احتجاج منظم کرتی رہی ہے۔
گزشتہ دنوں جناح ہسپتال میں 100 میڈیکل آفیسرز کی ٹرانسفر پوسٹنگ کی گئی۔ جن میں میرٹ کی بجائے سفارش اور رشوت کے ذریعے کام کیا گیا۔ ابھی تک اس سلسلے میں انتظامیہ کی جانب سے میرٹ کے نقاط وضع نہیں کیے گئے۔
اس سلسلے میں او پی ڈیز کا بائیکاٹ کرکے غریب مریضوں کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن سندھ کے رہنما ڈاکٹر کلیم کھوسو کی کی سربراہی میں دس دن ایڈمن (ڈائریکٹر) آفس کے باہر احتجاجی دھرنا دیا گیا تاکہ متعلقہ افسران کے دفاتر کے سامنے ہی احتجاج کیا جائے۔ لیکن انتظامیہ نے ہسپتال سے ملحقہ میڈیکل یونیورسٹی سے پی ایس ایف اور جمعیت کے پالتو غنڈے اور ٹاؤٹ بھیج کر احتجاجی ڈاکٹرز پر حملہ کیا۔ انہیں بارہا دھمکیاں دی گئیں کہ آپ یہاں پر احتجاج نہ کریں ورنہ سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔
جب ان دھمکیوں اور حملوں سے بھی احتجاج نہ روکا جاسکا تو انتظامیہ نے ڈاکٹرز میں سے ہی اپنے خاص لوگوں کو یہ حکم دیا کہ کسی بھی قیمت پر ایڈمن کے باہر احتجاج رکوائیں۔ انہوں نے مذاکرات کی پیشکش کی اور کہا کہ دو کی بجائے وائی ڈائی اے کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنا کر احتجاج کرتے ہیں۔
اس طرح مذاکرات کے بہانے دس روزہ احتجاج ختم کروایا گیا اور کہا گیا کہ معینہ مدت میں مطالبات مان لیے جائیں گے، جس میں میرٹ پر پوسٹنگ اور لمبے عرصے سے جناح ہسپتال میں فرائض سر انجام دینے والے ان سیٹوں کے پہلے حقدار ہوں گے۔
معینہ مدت مکمل ہونے کے بعد معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے وائی ڈی اے ڈیموکریٹس کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا۔ جس میں پہلے دن پولیس کی بھاری نفری بلا کر احتجاجی ڈاکٹرز کو ہراساں کیا گیا۔ اور اگلے روز انتظامیہ کی جانب سے ان ڈاکٹرز پر جھوٹی ایف آئی آر کٹوائی گئی۔ جس کے خلاف وائی ڈی اے نے جناح ہسپتال میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ انتظامیہ کے پروردہ ڈاکٹرز نے ”عزت مآب“ ڈائریکٹر سے مطالبات کی بات کرنے پر احتجاجی ڈاکٹرز سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ ڈائریکٹر سے ملاقات کی کوشش کی پاداش میں اب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (ڈیموکریٹس) کے چار رہنماؤں کو نوکری سے معطل کردیا گیا ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (ڈیموکریٹس) کے جائز مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور ان پر ہونے والی ایف آئی آر اور حملوں کی مذمت کرتا ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر معطل ڈاکٹرز کو بحال کرتے ہوئے ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف کو محکمہ صحت کے وزیروں اور افسران کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ اس جدوجہد میں صحت کے بجٹ میں اضافے جیسا عوامی مطالبہ سرفہرست رکھتے ہوئے عوامی حمایت کے ساتھ اپنے حقوق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔