|تحریر: آفتاب اشرف|
نام نہاد یوم آزادی سے محض دو روز بعد فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں ایک دل دہلا دینے والا سانحہ رونما ہوا جس میں چند سو مذہبی بلوائیوں نے قرآن کی توہین کے ایک انتہائی مشکوک مبینہ واقعے کو بنیاد بناتے ہوئے مقامی مسیحی بستیوں پر دھاوا بول دیا اور چار گرجا گھروں سمیت مسیحی کمیونٹی کے بیشمار گھروں کو تہس نہس کر ڈالا۔ پورے علاقے کی مسیحی آبادی کو جان پچانے کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور ہزاروں نے رات کھلے آسمان تلے کھیتوں وغیرہ میں گزاری۔ مذہبی غنڈوں کی جانب سے یہ تمام کاروائی پولیس کی موجودگی میں کی گئی جس نے نفری اور ہتھیار رکھنے کے باوجود انہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جب سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے مذہبی بلوائیوں کے خلاف سخت رد عمل آنا شروع ہوا تو مخصوص بے نام عناصر کی جانب سے پہلے تو قرآن کی مبینہ توہین کو جواز کے طور پر پیش کیا گیامگر اس حوالے سے جو ”شواہد“ پیش کئے گئے ہیں وہ واضح طور پر مذہبی غنڈہ گرد عناصر کی جانب سے مذہبی فساد پھیلانے کی ایک سوچی سمجھی سازش کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ بعد ازاں توپوں کا رُخ بذات خود شدید مذہبی جبر کا شکار احمدی کمیونٹی کی جانب موڑنے کی کوشش کی گئی اور انتہائی مضحکہ خیز طور پر انہیں تمام دنگے فساد کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ مگر عوامی شعور اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ انہیں اب اس طرح کی گھٹیا سازشوں اور جھوٹ کے ساتھ مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا لہذا نام نہاد نامعلوم عناصر کی تمام تر کوششیں بیکار گئیں اور عوام نے بالکل درست طور پر ریاست پاکستان،اس کے پھیلائے ہوئے مذہبی جنون اور اس کے پالے ہوئے مذہبی غنڈوں کو اس تمام تر فساد کا ذمہ دار قرار دیا۔
درحقیقت برطانوی سامراجی پشت پناہی کیساتھ مذہب کے نام پر ہونے والے خونی بٹوارے کے نتیجے میں تخلیق ہونے والی اس رجعتی ریاست کی تمام تاریخ مذہبی اقلیتوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ اور 1947ء سے لے کر آج تک رونما ہونے والے ایسے تمام واقعات کا سرسری سا مطالعہ بھی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ محنت کش عوام کو تقسیم کئے رکھنے اور مظلوم قومیتوں پر جبر جاری رکھنے کے لئے مذہبی جنون اور رجعت ہمیشہ سے ہی ریاست پاکستان اور یہاں کے حکمران طبقے کے پسندیدہ ہتھیار رہے ہیں۔اس ریاست نے اپنے ابتدائی چند سالوں میں ہی کبھی سابقہ مشرقی پاکستان میں اٹھتی بنگالی قومی حقوق کی تحریک کو دبانے کے لئے بنگالی ہندؤں کا قتل عام کرایا تو کبھی افسر شاہی نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور سماج میں موجود ترقی پسند رجحانات کی بیخ کنی کرنے کے لئے پالتو مذہبی غنڈہ گرد عناصر سے لاہور میں احمدی مخالف فسادات کروائے۔ 1960ء کی دہائی میں اہل تشیع بھی ریاست کی جانب سے لگائی ہوئی مذہبی انتہاپسندی کی اس آگ کا نشانہ بننے لگے۔ یہاں واضح رہے کہ ریاست کی جانب سے مذہبی جنونیت، غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے فروغ میں پاکستان کی فوجی و سول ریاستی اشرافیہ اور سرمایہ دار حکمران طبقات کے معاشی و سیاسی طبقاتی مفادات کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج (اور اس کے سعودی پٹھوؤں) کا بھی ایک انتہائی کلیدی کردار تھا جو کہ مسلم اکثریتی ممالک میں سوویت یونین کے بڑھتے اثر ورسوخ اور بائیں بازو کی تحریک کا راستہ روکنے کے لئے مذہبی انتہاپسندی کی بھر پور پشت پناہی کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے ریاست پاکستان کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے 1950ء کی دہائی کے وسط میں ہی باقاعدہ فنڈز ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اسی طرح پاکستان میں مختلف قومی اقلیتوں کو دبانے کے لئے بھی مذہبی انتہا پسندی کو استعمال کرنے کا سلسلہ پوری شدو مد کیساتھ جاری رکھا گیا۔ قبائلی پختونوں پر ابتدا میں ہی ”مجاہد“ کا لیبل لگا کر انہیں 1948ء کی پاک بھارت جنگ میں استعمال کیا گیا۔ سابقہ صوبہ سرحد اور بلوچستان سے لے کر سابقہ مشرقی پاکستان تک مذہبی عناصر کو بھر پور ریاستی پشت پناہی کیساتھ سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ 1971ء میں بنگالیوں کے قتل عام کے لئے بد نام زمانہ ڈیتھ سکواڈز جماعت اسلامی کے کیڈرز اور مدرسوں کے طلبہ سے ریکروٹ کئے گئے۔ مگر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سوشلزم کے نعرے لگا کر اقتدار میں آنے والے ذولفقار علی بھٹو نے بھی 1971ء میں عبرتناک شکست سے دوچار ہونے والی فوجی اشرافیہ کی دلجوئی کرنے، مذہبی عناصر کو خوش کرنے، بے قابو ہوتی مزدور تحریک کی بیخ کنی کرنے اور ”پاکستانیت“ کو فروغ دینے کے لئے انتہائی رجعتی اقدامات اٹھائے جن کا خمیازہ آج تک سماج بھگت رہا ہے۔ الگ بات ہے کہ یہ سب کاسہ لیسی کرنے کے باوجود اسے کچھ بڑے کاروباری گروپوں کی نجی ملکیت پر ہاتھ ڈالنے کے جرم کی معافی نہیں ملی اور اپنی ہی مزدور اور عوام دشمن حرکتوں کے کارن جیسے ہی وہ کمزور پڑا تو سامراجی آشیر باد کیساتھ حکمران طبقے اور فوجی اشرافیہ نے اس کا صفایا کر دیا۔
جنرل ضیاء الباطل کے سیاہ دور اقتدار میں مذہبی جنون اور وحشت کی ریاستی پشت پناہی کو ایک زبردست مہمیز ملی۔ ایک طرف مزدور اور طلبہ تحریک کی بیخ کنی کرنے اور 1968-69ء کے انقلاب کی ہر یادداشت کو مٹا ڈالنے کی داخلی ضروریات اور دوسری طرف افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جاری ڈالر جہاد میں فرنٹ لائن امریکی پٹھو کا کردار ادا کرنے جیسے عوامل کے سماج پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ امریکی اور سعودی ڈالروں کے ساتھ ساتھ نام نہاد افغان جہاد کے دوران منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ سے جنم لینے والے کالے دھن نے اوپر سے لیکر نیچے تک ریاست کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔ مذہبی جنونیت اور دہشت گردی اب صرف داخلی اور خارجی ریاستی پالیسی ہی نہیں بلکہ ایک انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکا تھا جس میں جرنیلوں، سول افسر شاہی، عدلیہ اور سرمایہ دار طبقے کے ساتھ ساتھ ملا اشرافیہ نے بھی خوب مال بنایا۔ سائیکلوں پر پھرنے والے گاؤں کے مولویوں کے پاس راتوں رات پجارو گاڑیاں آ گئیں۔ ریاستی سرپرستی میں لاکھوں نئے مدارس قائم ہوئے جہاں مذہبی جنونیوں کی ایک پوری نئی پود پروان چڑھنے لگی۔ یہ مدرسے سب سے پہلے ایک منافع بخش کاروبار تھے جس میں چندے اور خیرات سے لے کر لینڈ گریبنگ تک ہر قسم کی لوٹ مار شامل تھی۔ اسی کالے دھن سے لتھڑی ہوئی ریاستی مذہبی جنونیت اور اس سے منسلک منافعوں کو دوام دینے کی خاطر پورے سماج پر ہر طرح سے رجعت مسلط کی گئی۔ خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نئے رجعتی قوانین بنائے گئے۔ پورا تعلیمی نصاب رجعتی مولویوں خاص کر جماعت اسلامی سے بنوایا گیا۔ طلبہ یونین پر پابندی لگا کر تعلیمی اداروں میں جمعیت جیسی مذہبی غنڈہ گرد طلبہ تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔پختون علاقوں میں اور خاص کر افغان مہاجرین کے بچوں کو امریکہ سے چھپ کر آنے والے قاعدے پڑھائے گئے جن میں ’ب‘ سے ’بم‘ اور ’ج‘ سے ’جہاد‘ پڑھایا جاتا تھا۔ ایک طرف سماج پر چاروں طر ف سے بھرپور ریاستی و سامراجی پشت پناہی کیساتھ ہونے والی اس رجعتی مذہبی یلغار تو دوسری طرف رد انقلاب کی مایوسی، پہلے ذولفقار علی اور پھر بینظیر بھٹو کی محنت کش عوام سے غداری، سوویت یونین کے انہدام اور مزدور تحریک و بائیں بازو کے زوال نے مذہبی رجعت کو کسی حد تک عوام میں سرائیت کر جانے کا موقع فراہم کیا۔ شہری درمیانہ طبقہ، انٹیلی جنشیہ اور محنت کش طبقے کی سب سے پچھڑی ہوئی پسماندہ پرتیں اس کی لپیٹ میں آ گئیں مگر محنت کش طبقے کی بھاری اکثریت نے ہمیشہ اس مذہبی انتہا پسندی کو رد کیا۔کالے دھن کی لت اور افغان ڈالر جہاد میں اپنی نام نہاد فتح کے نشے میں جرنیلی اشرافیہ اور حکمران طبقے نے 1990ء کی دہائی میں ضیاء الباطل کے دور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے اور کشمیر، دہلی سے لیکر وسط ایشیائی ریاستوں تک ”اسلام کا جھنڈا“ لہرانے جیسی بڑھک بازیوں کے پردے میں مذہبی انتہا پسندی کے منافع بجش کاروبار کو مزید فروغ دیا گیا اور اس سے جہاں اشرافیہ نے دھڑا دھڑ اپنی تجوریاں بھریں وہیں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ عوام کی مسلمان اکثریت بھی اس مذہبی جنون اور دہشت گردی کا ایندھن بنتی رہی۔ مگر خاص طور پر ہندو، عیسائی اور احمدی اقلیتوں پر تو زندگی تنگ کر دی گئی۔ آج جب ہم سانحہ جڑانوالہ کا سوگ منا رہے ہیں تو 1997ء میں ہونے والے سانحہ شانتی نگر کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے جب خانیوال کے نواح میں واقع ایک پوری مسیحی بستی کو بھر پور ریاستی پشت پناہی کیساتھ مذہبی غنڈوں کے ایک ہجوم نے جلا کر راکھ بنا دیا تھا۔ توہین کے انتہائی مشکوک الزامات کو بنیاد بنا کر رونما ہونے والے ایسے درجنوں واقعات اور بھی ہیں جن کی سرسری سی تفصیلات بھی ایک طرف تو واضح طور پر ریاست کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو دوسری طرف ان واقعات کے پیچھے لوٹ مار اور قبضہ مافیا کے مفادات بھی صاف نظر آتے ہیں۔ پاکستانی پشت پناہی کیساتھ افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت آنے پر افغانستان کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے نام نہاد گلوبل جہاد کا مرکز بنا دیا اور القاعدہ سمیت پوری دنیا سے مذہبی دہشت گردوں کو افغانستان لا کر بسایا گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت یہ سب کرنے میں امریکی سامراج کی بھرپور رضامندی اور سعودی عرب کی پوری مالی سپورٹ بھی شامل تھی۔
9/11کے بعد جب عالمی سطح پر ہواؤں کا رخ بدلا تو ایک بار پھر ریاست پاکستان امریکہ کی نام نہاد وار آن ٹیرر میں فرنٹ لائن اتحادی بن گئی۔ اس جنگ میں پاکستان کی مقتدر جرنیلی اشرافیہ نے اپنے مالی اور علاقائی قبضہ گیر مفادات کے تحت اپنے سامراجی آقا امریکہ اور ماضی میں اپنے ہی پیدا کئے ہوئے مذہبی دہشت گردوں،دونوں کیساتھ ڈبل گیم کھیلی۔ ایک طرف تو فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر امریکہ سے اربوں ڈالر بٹورے گئے تو دوسری طرف امریکی سامراج کی کمزوری کو بھانپتے ہوئے افغانستان میں اپنی پراکسی کے طور پر طالبان کی پشت پناہی بھی جاری رکھی گئی۔ اسی طرح جہاں اپنے مطلب کے مذہبی دہشت گردوں پر ”گڈ طالبان“ کا لیبل لگا کر ان کی پشت پناہی کی گئی وہیں صورتحال کو بیلنس کرنے اور امریکہ سے زیادہ ڈالر بٹورنے کی خاطر ریاستی پالیسیوں کے لئے مزید کارآمد نہ رہنے والے اور امریکی اتحادی بننے پر ریاست پاکستان سے باغی ہو جانے والے مذہبی دہشت گردوں پر ”بیڈ طالبان“ اور ”القاعدہ“ کا لیبل لگا کر ان کیخلاف درجنوں فوجی آپریشن کئے گئے اور امریکہ کو ڈرون حملوں کی کھلی اجازت دی گئی۔ اس کے رد عمل میں نام نہاد گڈ طالبان سے ہی نظریاتی، تنظیمی اور مالی طور پر منسلک بیڈ طالبان نے فوج کی اپنی صفوں میں موجود جنونی جہادی ہمدردوں کی مدد سے پورے ملک میں اور خاص کر پختون خطے میں دہشت گردی کے ایک خوفناک طوفان کو جنم دیا جس میں اے پی ایس پشاور کے معصوم بچوں سمیت دسیوں ہزاروں عوام کا قتل عام ہوا، یہاں تک کہ ہزاروں عام فوجی بھی ریاست کی لگائی ہوئی اس آگ کا ایندھن بنے۔ سابقہ فاٹا بالکل تباہ و برباد ہو گیا، لاکھوں قبائلی عوام کو آئی ڈی پیز بن کر سالوں تک مہاجر کیمپوں میں رلنا پڑا۔ریاست اور جرنیلی اشرافیہ کی ڈبل گیموں کے جواب میں نام نہاد گڈ طالبان اور فوج، خاص کر انٹیلی جنس میں موجود جہادی عناصر کی جانب سے کھیلی جانے والی اس ڈبل گیم (نام نہادبیڈ طالبان کو منظم کرنا اور انہیں ریاست پاکستان کو امریکی دباؤ پر حد سے تجاوز کرنے سے باز رکھنے میں بطور ایک پریشر گروپ استعمال کرنا) کو ریاست نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی بیس سال صرف اس لئے برداشت کیا کیونکہ ایک طرف تو اسے ڈالر مل رہے تھے اور دوسری طرف اسے افغانستان میں اپنے سامراجی قبضہ گیر مفادات کے حصول کے لئے نام نہاد گڈ طالبان کی ضرورت تھی۔ اس تمام عرصے میں جی ایچ کیو کی جانب سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے دن رات ٹی ٹی پی کے روپ میں دہشت گردی کرنے والے ”غیر ختنہ شدہ را کے ایجنٹوں“ کی کہانیاں سنائی جاتی رہیں جبکہ جرنیلوں کو روز اول سے بخوبی معلوم تھا کہ یہ سب ان کی اپنی پالیسیوں کا ہی فال آؤٹ ہے۔ اسی کھلواڑ میں ہونے والے عوام کے بے تحاشہ جانی نقصان اور خاص کر اے پی ایس کے بچوں کے بارے میں ایک عالمی فورم پر بات چیت کرتے ہوئے ایک سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی نے بڑی سفاکی کیساتھ اسے ”کولیٹرل ڈیمج“کہہ کر جسٹیفائی کیا تھا۔لیکن اس نام نہاد کو لیٹرل ڈیمج میں نقصان صرف غریب عوام کا ہوا جبکہ ڈالروں کی برسات اور جنگ کے اثرات کے تحت کئی گنا تیزی کیساتھ پھیلنے والی کالی معیشت میں جرنیلوں سے لے کر تمام تر ریاستی اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقے نے دل کھول کر اپنی تجوریاں بھریں، بیرون ملک جائیدادیں خریدیں اور خود کش دھماکوں میں مرتی عوام اور عام فوجیوں کے خون پر خوب عیاشی کی۔ 2021ء میں امریکہ کے افغانستان سے انخلاء اور دوحہ ڈیل کے تحت طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اس پورے خطے میں ایک نئے خونی کھلواڑ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں محض دو سالوں میں ہی ہزاروں افراد کی بلی چڑھ چکی ہے۔ آج ریاست کے کرتا دھرتا اور خاص کر فوجی اشرافیہ اس تمام قتل و غارت کی ذمہ داری افغان طالبان حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ماضی کے سنپولیے آج اژدھے بن کر ریاست کی ہی گردن سے لپٹ گئے ہیں مگر سامراجی چاکری اور اپنے مالی و علاقائی مفادات کے تحت ان سنپولیوں کو دہائیوں تک دودھ پلا کر اژدھا اسی ریاست نے بنایا ہے اور امریکی و سعودی سامراج کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان ہی مذہب کے نام پر اس پورے خطے میں ہونے والی اس تمام تر قتل و غارت کی ذمہ دار ہے۔
نام نہاد وار آن ٹیرر میں ریاست کی جانب سے کھیلے گئے اس خونی کھیل کے اثرات کے تحت سماج پر مذہبی جنونیت کی یلغار کو ایک نئی مہمیز بھی ملی۔ پچھلی دو دہائیوں میں مختلف مذہبی اقلیتوں کیساتھ سانحہ جڑانوالہ جیسے درجنوں واقعات بیت چکے ہیں۔ ہندو اقلیت کی نوجوان لڑکیوں کو بھر پور ریاستی پشت پناہی رکھنے والے مذہبی غنڈوں کی جانب سے اغوا کیا جانا اور زبردستی مذہب تبدیل کروا کر ان کی مسلمانوں سے ”شادی“ کروا دینا ایک معمول بن چکا ہے۔ ہزاروں اہل تشیع ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں جس میں بیشمار نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں۔ کوئٹہ کے ہزارہ عوام کو ان کی شیعہ شناخت کے باعث درجنوں بار خون میں نہلایا جا چکا ہے۔ پنجاب اور پختون علاقوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان، اندرون سندھ اور بلوچ خطے میں بھی مذہبی رجعت کو پوری شدت کیساتھ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک طرف ریاستی اور خصوصاً فوجی اشرافیہ کی جانب سے آئے روز دہشت گردوں کی کمر توڑ دینے کے اعلانات کئے جاتے ہیں اور دوسری طرف انہی کی چھتر چھایا تلے مدرسوں کے نام پر مذہبی جنونی اور خود کش بمبار پیدا کرنے والی نرسریاں پہلے سے بھی زیادہ پھیل رہی ہیں۔ آئے روز فوجی اشرافیہ کی آشیر باد کیساتھ پارلیمنٹ میں انواع اقسام کی ”توہین“ پر سزا کے نت نئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو بیرکوں میں بدل کر وہاں ایک جدید ڈھنگ کی شوگر کوٹڈ مذہبیت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ دیو بندی اور وہابی مکتبہ فکر کے ساتھ ساتھ پچھلے چند سالوں میں تحریک لبیک کے نام سے اب بریلوی مکتبہ فکر کو بھی ریاست کی جانب سے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ملک کی تمام بورژوا سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادتیں بھی حسب ضرورت اپنی سیاست چمکانے کے لئے ”مذہبی ٹچ“ کے استعمال کو بالکل درست مانتی ہیں اور ان تمام پارٹیوں کے کسی نہ کسی ایسی مذہبی شخصیات اور تنظیموں کیساتھ گہرے تعلقات ہیں جو یا تو براہ راست مذہبی غنڈہ گردی اور دہشت گردی میں ملوث ہیں یا پھر اس کی کھلی حمایتی ہیں۔
کیا ریاست پاکستان کبھی مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرے گی؟
یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے اور خاص کر لبرل حلقوں کی جانب سے بار بار ریاست سے اس قسم کی خیالی امیدیں باندھی جاتی ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہ ریاست بنی ہی مذہب کے نام پر تھی اور مذہبی انتہا پسندی کی پشت پناہی اس کے خمیر میں شامل ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کا خاتمہ کرنے کا مطلب نہ صرف ریاست کا اپنی وجہ تخلیق سے انکار کرنا ہو گا بلکہ سماج کو ذہنی طور پر ماؤف رکھنے، محنت کش عوام کو تقسیم کئے رکھنے اور مزدور تحریک، طلبہ تحریک اور مختلف قومی تحریکوں کو کچلنے اور کاؤنٹر کرنے کے ایک اہم ترین اوزار کا خاتمہ بھی ہو گا۔ اسی طرح فوجی اشرافیہ کی جانب سے افغانستان میں مسلسل جاری سامراجی مداخلت کے لئے بھی مذہبی انتہا پسندی کا استعمال ضروری ہے۔ ایسے ہی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کا ناگزیر مطلب ہندو دشمنی اور انڈیا دشمنی کا خاتمہ ہو گا مگر ایسا ہونے سے نہ صرف ریاست کی تخلیق کا اہم ترین جواز ختم ہو جائے گا بلکہ بھاری بھر کم فوجی اسٹیبلشمنٹ کو پالنے کا بھی کوئی جواز نہیں رہے گا۔ مزید برآں پچھلی چار دہائیوں میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی ناقابل علیحدگی طور پر منشیات، اسمگلنگ،قبضہ مافیا، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، مدرسہ بازی، چندہ خوری پر مبنی کالے دھن سے منسلک ہو چکی ہے اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ سے لے کر سرمایہ دار طبقے اور ملاؤں تک کے کھربوں روپے کے مفادات اس سے منسلک ہو چکے ہیں جن سے وہ کبھی بھی رضا کارانہ طور پر دستبردار نہیں ہوں گے۔ اپنے طبقاتی معاشی، سیاسی، سماجی اور خارجہ مفادات کے ساتھ ساتھ کالے دھن کے سماجی و ثقافتی اثرات کے تحت یہ مذہبی جنونیت اور تعصب پر مبنی سوچ فوجی وسول ریاستی اشرافیہ اور حکمران سرمایہ دار طبقے میں اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ وہ اس سے ہٹ کر کچھ اور سوچنے کی صلاحیت ہی کھو چکے ہیں۔ مزید برآں شدت پکڑتے عالمی معاشی بحران کے تباہ کن اثرات کے تحت دیوالیہ پن کے کنارے لڑکھڑاتی پاکستان کی پسماندہ سرمایہ داری میں کسی قسم کی بحالی اور صحت مند معاشی سرگرمیوں کی بڑھوتری کے کوئی امکانات ہی موجود نہیں ہیں جن کی بنیاد پر ریاست کے مذہبی انتہا پسندی کے فروغ سے کنارہ کشی اختیار کرنے یا اس میں کمی لانے کی کوئی جھوٹی سی امید بھی لگائی جا سکے۔ تو پھر کیا کیا جائے؟
حل کیا ہے؟
مذہبی انتہا پسندی کی ریاستی پشت پناہی کی جڑیں پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست کے خمیر اور اس کی وجہ تخلیق میں پیوست ہیں۔ مزید برآں کالے دھن کے کینسر میں لتھڑی پاکستان کی پچھڑی ہوئی پسماندہ سرمایہ داری اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور اس کالے دھن کا مذہبی انتہا پسندی کیساتھ چولی دامن کا رشتہ ہے۔ اسی طرح آج بھی مذہبی وحشت محنت کش عوام کی باغیانہ تحریکوں کیخلاف استعمال ہونے کے لئے ایک کارآمد اوزار ہے اور پاکستانی سرمایہ داری کے روز گہرے ہوتے بحران، محنت کش عوام پر بڑھتے معاشی حملوں اور ان کے ممکنہ رد عمل سے نپٹنے کے حوالے سے تو طبقہ امراء اور ریاستی اشرافیہ کے نزدیک اس کی اہمیت آج اور بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ عالمی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کی شدت میں پوری دنیا کے سرمایہ دار حکمران طبقات اپنے سماج کے محنت کشوں پر شدید ترین معاشی حملے کر رہے ہیں اور ان کے انقلابی رد عمل کی بیخ کنی کے لئے مذہبی تقسیم اور نفرتوں کو ابھارنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ فرانس میں آخر مسلمان خواتین کے لباس پر ریاست مخصوص پابندیاں کیوں لگا رہی ہے؟ سویڈن میں حکومت سرعام قرآن کو آگ لگانے کی اجازت دے کر مذہبی نفرتوں کو بڑھانے کی اجازت کیوں دے رہی ہے؟ پچھلی محض ایک دہائی میں انڈیا میں مودی سرکار نے مذہبی تعصب کے فروغ میں تو ریاست پاکستان کے ریکارڈ بھی توڑ ڈالے ہیں۔ ایسے میں یہ واضح ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی ریاستی پشت پناہی کا مسئلہ صرف چند جرنیلوں کی یا ایک ادارے یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی چند غلط پالیسیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ نامیاتی طور پر ریاست پاکستان اور اس کی تاریخی تاخیر زدگی کا شکار پسماندہ سرمایہ داری کیساتھ جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا اس کے خاتمے کے لئے پاکستان کی بحران زدہ سرمایہ داری اور اس کی نمائندہ ریاست کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے سوا لبرل ازم اور قوم پرستی پر مبنی باقی تمام نام نہاد حل محض ڈھکوسلے ہیں اور صرف عوام کی تکلیفوں میں مزید اضافے کا موجب ہی بن سکتے ہیں۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں تخلیق ہونے والی ذرائع پیداوار پر محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی منصوبہ بند معیشت، جس میں پیداوار کا مقصد سماجی ضروریات کی تکمیل ہو گا نہ کہ چند ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کی تجوریاں بھرنا، میں ہی وہ مادی و معاشی افراط مہیا ہو سکتی ہے جو سماج میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا موجب بننے والے تمام سماجی، نفسیاتی اور معاشی عوامل کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دے۔ اسی طرح سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں تخلیق ہونے والی ایک مزدور ریاست ہی، جسے نیچے سے لیکر اوپر تک محنت کش عوام کی جمہوری طور پر منتخب کردہ انقلابی کمیٹیوں کے ذریعے چلایا جائے گا اور جس میں سرمایہ دارانہ ریاست کے فوج، پولیس، عدلیہ، سول افسر شاہی جیسے اداروں کا کوئی وجود نہیں ہو گا، مذہبی انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کر سکتی ہے کیونکہ اس کو چلانے والے طبقے یعنی تمام قومیتوں کے محنت کشوں کا طبقاتی مفاد اسی میں پنہاں ہو گا۔اس مزدور ریاست کی تمام بالغ محنت کش آبادی فوجی تربیت یافتہ ہو گی اور اس کی مزدور فوج اسی محنت کش طبقے کے بہترین طبقاتی شعور یافتہ عناصر پر مشتمل ہو گی جس میں افسروں کا انتخاب سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے ہو گا اور افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہ اور مراعات بالکل ایک جیسی ہو ں گی۔ مزید برآں یہ مزدور فوج کوئی الگ تھلگ چھاؤنیوں میں نہیں بلکہ محنت کش عوام کے بیچ میں رہے گی اور ان کیساتھ پیداواری سرگرمیوں میں بھی شریک ہو گی۔ مزدور ریاست تمام قومیتوں کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحد گی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے وسائل پر ان کے پہلے حق سمیت تمام قومی حقوق کی پاسداری کرے گی۔ سرمایہ دارانہ ریاست کی مذہبی جنونیوں کی حمایت اور سامراجی چاکری پر مبنی عوام دشمن خارجہ پالیسی کا مکمل خاتمہ ہو گا اور اس کی جگہ مزدور ریاست ’دنیا بھر کے محنت کشو،ایک ہو جاؤ!‘ کے نعرے کے تحت اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دے گی اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بڑھوتری کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔ اسی طرح مزدور ریاست حقیقی معنوں میں ایک سیکولر ریاست ہوگی جس میں مذہب ہر شہری کا ذاتی معاملہ ہو گا اور اس کا معاملات ریاست کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لہٰذا مزدور ریاست میں کسی بھی قسم کے مذہبی،قومی اور صنفی امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔
مگر سوشلسٹ انقلاب خود بخود نہیں ہو جائے گا۔ محنت کش طبقہ اپنے تلخ حالات اور تجربات سے لازمی نتائج اخذ کر رہا ہے اور تمام عوامل اسے ایک انقلابی بغاوت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ مگر اگر محنت کش عوام کی اس انقلابی بغاوت کو مارکسزم لینن ازم یا سائنسی سوشلزم کے درست نظریات وپروگرام، طریقہ کار و لائحہ عمل سے مسلح طبقاتی جڑیں رکھنے والے منجھے ہوئے تجربہ کار کیڈرز پر مبنی بالشویک طرز کی انقلابی پارٹی کی قیادت میسر نہ آئی تو یہ انقلابی تحریک محنت کشوں کی تمام تر جرات اور قربانیوں کے باوجود اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکام رہے گی۔ یہ انقلابی پارٹی، انقلاب کے طوفانی تھپیڑوں کے دوران تعمیر نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے آج قبل از انقلاب دور میں محنت کشوں،طلبہ، غریب کسانوں اور سماج کے دیگر بہترین لڑاکا عناصر کو مارکسزم لینن ازم سے روشناس کراتے اور انہیں منظم کرتے ہوئے تعمیر کرنا ہو گا۔ اسی عمل کے دوران مزدور تحریک کی بڑھوتری اور طاقت پکڑنے کے نتیجے میں مذہبی دہشت گردی اور غنڈہ گردی کا فوری مقابلہ کرنے کے لئے محنت کش عوام کی منتخب کردہ سیلف ڈیفنس کمیٹیاں بھی تشکیل دی جا سکتی ہیں جو اپنے علاقے کی حفاظت خود کرنا شروع کریں۔ مگر حتمی طور پر ان تمام کاوشوں کا مقصد سوشلسٹ انقلاب کے لئے محنت کش عوام بالخصوص محنت کش طبقے کو منظم کرنا ہی ہونا چاہئے کیونکہ یہی اس سماج کی مذہبی انتہا پسندی سے مستقل اور مکمل نجات کا واحد ذریعہ ہے۔