|تحریر: ہنری ولفسن، جاپان
ترجمہ: انعم خان|
اس وقت جب، میڈیا ٹوکیو میں ہونے والی حالیہ سیاسی تبدیلیوں پر چپ سادھے ہوئے ہے، عالمی سرمایہ دار طبقے کے سنجیدہ جرائد جاپان کی اس صورتحال کو حقیقی سیاسی زلزلہ قرار دے رہے ہیں۔
25 ستمبر، سوموار کے دن وزیر اعظم شن زوے ایبے نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ جمعرات کے دن ہونے والے ڈائٹ( جاپانی پارلیمنٹ) کے غیر معمولی اجلاس میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرے گا۔ ایبے جو کہ وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد کا دوہرا عہدہ بھی رکھتا ہے، اس پر حزب مخالف کی جماعتوں ، ڈیموکریٹک پارٹی اور جاپانی کیمونسٹ پارٹی کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اپنی اقربا پروری اور جانبداری کے متعلق سکینڈلز پر بحث کھولنے کے لیے دونوں ایوانوں کے اجلاس بلائے۔
To read this article in English, click here
گزشتہ روزکئے گئے آخری اعلان میں، 22 اکتوبر کو الیکشن منعقد کرائے جانے اور ایوانِ زیریں کو تحلیل کردیا گیا اور اسی دوران LDP ممبران کے سامنے کی گئی غصے سے بھر پور تقریر، اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ایبے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے شمالی کوریا اور جاپان کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے پس منظر میں قوم پرستی کا پتہ چل کر بازی پلٹ دینا چاہتا ہے۔
دیوہیکل سیاسی رہنما سے زندہ لاش بننے تک کا سفر
اس سال فروری میں ایک ایسے انسان کی قسمت لوگوں کے سامنے ڈگمگانا شروع ہوگئی جسے جاپان کی سیاست کا ایک منجھا ہوا کھلاڑی تصور کیا جاتا تھا۔ قومی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا کہ اور کوئی نہیں بلکہ خود وزیر اعظم کی بیوی، مسز اِکی ایبے کے ناصرف نجی تعلیمی ادارے موری ٹومو گاکوین سے مبینہ تعلقات ہیں بلکہ وہ اس کی اعزازی پرنسپل بھی رہ چکی ہے۔
اب، سوال یہ ہے کہ موری ٹو موگا کوین سے یہ تعلق اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے کہ یہ اتنا بڑا سکینڈل کیوں بن گیا، ہمیں اس نجی تعلیمی ادارے کے ماضی کو دیکھنا ہوگا۔ موری ٹومو گا کوین ایک نجی تعلیمی ادارہ ہے جو رجعتی قوم پرستی کی ترغیب دیتا ہے جو کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلی کی عسکریت پسندی کی یاد دلاتا ہے۔ 3سے 5 سال کی عمر کے چھوٹے بچوں کو سامراجی دور کی شخصیات کی تصاویر کے آگے جھکنا سکھایا جاتا ہے، وہ ہر صبح قومی ترانہ گاتے ہیں اور فوجی اڈوں کا دورہ کرنے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں قبل از جنگ دور کے تعلیمی وفاداری کا حلف بھی یاد کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جس پر امریکی قبضے کے بعد پابندی عائد کر دی گئی تھی تاکہ بادشاہ کے ساتھ مکمل وفاداری کو پروان چڑھایا جا سکے۔
موری ٹومو گاکوین ادارے کا سربراہ سرکاری طور پر یاسونوری کاگوئیکی تھا۔ یہ محترم نپون کائیگی نامی تنظیم کی اوساکا برانچ کا قائد بھی ہے، جو کہ رجعتی دائیں بازو کی تنظیم ہے اور یہ جاپان کی سیاست تیزی سے گھس بیٹھ کر رہی ہے اور اس کے کچھ ممبران ایبے کی کابینہ کا حصہ بھی ہیں۔ نپون کائیگی کے کچھ انتہائی رجعتی خیالات بھی ہیں جیسا کہ انہیں کامل یقین ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں سامراجی جاپان نے مشرقی ایشیائی ممالک کو نوآبادیاتی تسلط سے ’’ آزاد‘‘ کروایا تھا۔ وزیر اعظم خود بھی اس گروہ کا ممبر ہے۔
کاگوئیکی نے انتہائی رجعتی نظریات کے حامل اپنے اس سکول کی تعمیر کے لیے 8700مربع میٹر زمین کا ٹکڑا حکومت سے محض134 ملین ین میں خریدا ، جو کہ وزارت خزانہ کے مطابق اس کی کل سرکاری مالیت کا محض 14فیصد بنتا ہے۔ جیسے ہی سکینڈل منظر عام پر آیا تو مقامی افسران اس پر شدت سے بات کرنے لگے اور جلد ہی ایبے کی موریٹومو گاکوین میں ذاتی مداخلت سب کے سامنے عیاں ہو گئی۔
آخر میں کاگوئیکی نے خود ہی پس پردہ ہونے والی تمام کرپشن کو تسلیم کر لیا۔ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے حلف اٹھاتے ہوئے اس نے نہ صرف یہ واشگاف کیا کہ کس طرح زمین کی قیمت پر ملنے والی چھوٹ کے پیچھے سیاسی اثر و رسوخ کارفرما تھا بلکہ اس نے یہ بھی بتادیا کہ اسے مسز ایبے کی جانب سے ایک لفافہ موصول ہوا تھا جس میں ایک ملین ین تھے او ر اس پر پیغام لکھا تھا کہ ’’ براہ کرم ، یہ رقم شن ذو ایبے کی جانب سے ہے ‘‘۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ وزیر اعظم کی شہرت گرنا شروع ہو گئی۔ پھر اچانک ہی جون میں خاموشی سے کا گوئیکی اور اس کی بیوی کو گرفتا ر کر لیا گیا۔ لیکن اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ایبے کے پاگل پن کو لے کر ایک اور سکینڈل سامنے آگیا۔
وزارتِ تعلیم کے ایک سابقہ نائب وزیر نے پریس کانفرنس میں یہ اعتراف کیا کہ محکمے کے سرکاری افسران پرایبے کے قریبی دوست، کوٹاروکا کے، کی تجویز پر ایک ویٹرنری سکول کا پروجیکٹ پاس کروانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا گیا۔ یہ سکینڈل پچھلے کے مقابلے میں تو چھوٹا ہے، لیکن یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب عوام کی یاداشت میں پچھلے سکینڈل کی یادیں ابھی تازہ تھیں۔ اب یہ واضح ہو گیا کہ ایبے جھوٹ بولتا ہے، بول رہا ہے اور آگے بھی بولے گا۔ بورژوا سیاست دانوں کے نزدیک یہ سب کچھ خاص معنی نہیں رکھتا، وہ ان معاملات کو چھپانے کا کام بخوبی کر لیتے ہیں۔ میڈیا نے وزیر اعظم کو ’’زندہ لاش‘‘ کا نام دیا ہے۔
پارلیمنٹ کا غیر معمولی اجلاس اور ایبے کی فیصلہ کن چال
ایبے کی گرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے حزب مخالف کی جماعتیں کئی مہینوں سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس بلانے کا مطالبہ کر رہی تھیں ، تاکہ اسے مزید کمزور کرتے ہوئے اقتدار سے بیدخل کیا جا سکے۔ ایبے کی LDP حکمران دھڑا اور کومیٹو پارٹی نے ان مطالبات پر توجہ نہیں دی، حالانکہ جاپانی آئین کے آرٹیکل 53 کے تحت وہ یہ اجلاس بلانے کی پابند ہیں، آرٹیکل 53 کے مطابق؛ ’’کابینہ ایوانوں کے غیر معمولی اجلاس بلا سکتی ہے۔ جب کسی بھی ایوان کے کل ممبران کی ایک چوتھائی یا اس سے زائد تعداد مطالبہ کرے تو کابینہ کو ایسے اجلاس کا انعقاد لازمی کرنا ہو گا‘‘۔
یقیناًجیسا کہ ہم جانتے ہیں، بورژوا قانون بس تب تک ہی لاگو کیا جاتا ہے جب تک کہ یہ سرمایہ داروں کے مفادات کی تکمیل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت LDP نے ایسے وقت پر اجلاس بلانے کا اعلان کیا جب حزب اختلاف کی سب سے بڑ ی جماعت، لبرل پارٹی، پھوٹ کے دہانے پر ہے اور شمالی کوریا کے راکٹ حملوں کے نتیجے میں ایبے کی مقبولیت میں ایک بار پھر اضافہ ہورہا ہے۔
تاہم، اس دیرینہ غیر معمولی اجلاس کو ایوانِ زیریں کو تحلیل کرنے اور 22 اکتوبر کو قبل از وقت انتخابات کے اعلان کے بعد مختصر کر دیا گیا۔ حزب مخالف کی جماعت میں پڑنے والی دراڑیں اور شمالی کوریا کے خطرے نے ایبے کی اقتدار پر قابض رہنے کی کوششوں کو واضح طور تقویت بخشی ہے۔
LDP کا بنیادی پالیسی آئین کے آرٹیکل 9کو تبدیل کرنا ہے جسے جنگ کے بعد امریکی قبضے کے دوران لاگوکیا گیا تھا:
’’پوری دیانتداری سے انصاف اورقانون پر مبنی عالمی امن کی خواہش میں، جاپان کے لوگ جنگ کو ایک خود مختارقوم کے حق کے بطور ہمیشہ کے لیے رد کرتے ہیں اور عالمی تنازعوں کے حل کے لیے کسی بھی دھمکی یا طاقت کا استعمال نہیں کریں گے‘‘۔
’’ اوپر کے پیراگراف میں موجود مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے زمین، سمندر یا ہوائی طاقتوں سمیت کسی بھی قسم کی جنگی صلاحیت کے استعمال کو پروان نہیں چڑھایا جائے گا۔ ریاست کے دشمنی کرنے کے حق کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ نپون کائیگی آرٹیکل 9 کے شدیدمخالفین میں سے ایک ہے اور یہ خطے میں موجود دیگر طاقتوں سے ’’ حساب برابرکرنے کے لیے‘‘ مکمل مسلح فوج کو دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہا جانا کہ جاپان کی ’’اپنی ‘‘ فوج موجود ہے، بلا جواز نہیں ہے۔ جاپان کی سیلف ڈیفنس فورس، کرۂ ارض کی سب سے زیادہ جدید اور ترقی یافتہ فوجی قوت ہے۔ رجعتی اور ماضی میں جاپان کی عظیم فوجی طاقت کے گرویدہ جنونی لوگ، ابھی بھی اسے مزید طاقت ور بناتے ہوئے جاپان کے سامراجی مفادات کے حصول کے جنگی طریقہ کار کے حق کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
شمالی کوریا کا نیوکلیئر اثاثوں کے پیش نظرموجود اپنے خوف کو چھپانے کے لیے بوکھلاہٹ پر مبنی حرکتیں کرنا، جاپان کی دائیں بازو کی اسٹیبلشمنٹ کو بہت فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ایبے خو د کو ’’خطرناک وقتوں میں‘‘ ملک کو درکار ’’مضبوط لیڈر‘‘ ثابت کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ آئینی تبدیلیاں انتخابی مہم کے اہم نقاط میں سے ایک ہوں گی۔ عوام کو قومی سیکیورٹی کی بحثوں میں دھکیلا جائے گا جبکہ جاپان کے لوگوں کے اہم مسائل پسِ پردہ چلے جائیں گے۔
جمود کا شکار معیشت، بڑھتی ہوئی نا برابری، چھپی ہوئی بے تحاشا بے گھری، دیگر ایشیائی ممالک سے آنے والے سستے مزدوروں کا استحصال، غیر محفوظ عارضی ملازمتیںیا بیروزگاری، یہ تمام حقیقی مسائل، میڈیا کی جانب سے ٹنوں کے حساب سے آنے والی شمالی کوریا کے میزائلوں کی خبروں اور ’’قومی سلامتی‘‘ کو لاحق ’’فوری خطرے ‘‘ کی خبروں کے بوجھ کے نیچے دب جائیں گے۔
بڑھتا ہوا عدم استحکام
ایبے کے اعلان نے جاپانی سیاست کے منظر نامے کو پہلے ہی بڑی تیزی سے تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ اچانک ہی پہلے سے بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے عمل کی رفتار میں مزید تیزی آ گئی ہے۔ ٹوکیو کی گورنر اور ایبے کی سابقہ اتحادی، یوریکو کویکی نے پہلے ہی گزشتہ سالLDP کو ٹوکیو کی گورنر شپ جیت کر چیلنج کر دیا تھا۔ اس عرصے میں خود کو وزیر اعظم سے دور کرتے ہوئے اس نے ذاتی طور پر کافی شہرت کمائی ہے۔
ایبے کے جوئے نے اسے اپنی ہچکچاہٹوں پر قابو پاتے ہوئے، دشمن رجعتی پارٹی بنانے پر مجبور کیا، جسے ’پارٹی آف ہوپ ‘کا نام دیا گیا ہے۔ محترمہ کویکی، ایبے پر معیشت کے معاملات، شمالی کوریا کے ساتھ بحران سے نمٹنے اور عمومی طور پر اس کے حالیہ سکینڈلز میں سامنے آنے والی لین دین کو لے کر اس پر حملے کررہی ہے۔ وزیر اعظم پر حملے کر کے کویکی، وزیر اعظم کے عہدے کے مظہر میں گُندھے اسٹیبلشمنٹ کے دیرینہ مفادات کے خلاف بڑھتے ہوئے غصے کو بھی ہوا دے رہی ہے۔
جیسے ہی کویکی کی نئی پارٹی کا اعلان ہو ا، اہم حزب مخالف پارٹی کے ایوانِ زیریں کے نمائندوں نے مشترکہ طور پر ڈگمگاتی ہوئی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرکے ایوانِ زیریں میں موجود پارٹی گروپ سے علیحدہ ہو گئے اور فرداً فرداً پارٹی آف ہوپ کی انتخابی فہرست میں ٹکٹ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرا دیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا کہ کویکی، جو کہ خود اس فہرست کا حصہ نہیں بنی، نے سابقہ DP ممبر پارلیمان میں سے کتنوں کو فہرست میں جگہ دی ہے، کیونکہ انتخابی مہم کی تیاری کا آغاز کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ 22 اکتوبر کو ایبے کے جیتنے کے کافی امکان ہیں لیکن اس کا اتحادی گروپ ایوان زیریں میں دو تہائی اکثریت جیتنے میں ناکام ہو جائے گا۔ اسی لیے طاقت سے چمٹے رہنے کی اس کی کوشش، اپنے الٹ میں بدلتے ہوئے تمام صورتحال کو مزید غیر یقینی بنا سکتی ہے۔
جاپان کے مزدوروں اور نوجوانوں کے لیے بیلٹ باکس پر موجود دائیں بازو کی دو رجعتی بورژوا پارٹیوں میں سے ایک کا چناؤ کرنے کی آزادی لگ بھگ مصنوعی ہی ہے۔ الیکشن LDPجیتے یا چاہے پارٹی آف ہوپ(جس کے امکا ن کم ہی ہیں)، اس سے ان پارٹیوں کی سماجی اور معاشی پالیسیوں پرکوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہ بات غور طلب ہے کہ مزدور تحریک کے پیچھے کارفرما طاقت، جاپانی کیمونسٹ پارٹی، بورژوا سیاسی نظام کے اس بحران سے فائدہ اٹھانے اور بڑھتے ہوئے غم و غصے کی بنیاد پر تیزی سے آگے بڑھنے میں ناکام رہی ہے۔
اس کے باوجود کہ ایبے کے ابھارے ہوئے مصنوعی بادل، جاپانی لوگوں کو درپیش حقیقی مسائل کے حل کی جانب نہیں بڑھنے دے رہے لیکن اس کے باوجود بھی 22 اکتوبر کو منعقد ہونے والے الیکشن اور موجودہ عدم استحکام کی اتنی اہمیت تو ضرور ہے کہ یہ جاپانی سرمایہ داری کے بحران کو لاکھوں جاپانی مزدوروں اور نوجوانوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ عیاں کر رہا ہے۔
کویکی کی نئی پارٹی سے وابستہ امیدوں کے نتائج LDP کے اندر ایک شدید خونخوار لڑائی کا موجب بن سکتے ہیں، جس کے نتائج کا تعین بھی نہیں کیا جا سکتا۔
دہائیوں پر مبنی معاشی جمود، انتہائوں کو چھوتے قرضوں کے بوجھ(جو 2016 ء میں جی ڈی پی کے250فیصد تک پہنچ چکا ہے اور کسی بھی جدید ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک کے مقابلے میں یہ سب سے زیادہ شرح ہے )، عالمی سطح پر عدم استحکام کے مزید بڑھنے کے امکانات اور ایک نئے عالمی معاشی بحران جیسے خطروں نے جاپانی سرمایہ داری کے استحکام کو نگلنا شروع کر دیا ہے۔
جاپان کے حالیہ سیاسی بحران میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ پورے بورژوا سیاسی نظام کے بحران میں تبدیل ہوتے ہوئے حکمرانی کا بحران بن سکتا ہے جو کہ لاکھوں جاپانی مزدوروں اور نوجوانوں کے شعور میں انقلابی تبدیلیاں برپا کرے گا۔