|تحریر: خالد قیام|
خیبر پختونخوا میں ضم شدہ سابقہ نیم قبائلی ضلع بنوں کے ایک گاؤں جانی خیل میں دس دن پہلے چار کم عمر بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ اس کے بعد پورے علاقے میں غم و غصہ پھیل گیا جس کے نتیجے میں اگلے دن جانی خیل قبیلے کے لوگوں نے اپنے علاقے میں دھرنا دے دیا۔ اس دھرنے میں جانی خیل قبیلے کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف علاقوں سے عام لوگوں نے شرکت کی۔ دھرنے کے شرکاء کے تین بنیادی مطالبات ہیں جن میں ایک ان معصوم بچوں کے قتل کے خلاف آئی آر میں مقامی سیکورٹی اہلکاروں اور انتظامیہ کے ذمہ دار افسران کے نام لکھیں جائیں، حکومت کی طرف سے پشتون علاقوں میں امن کی ضمانت دی جائے اور تیسرا مطالبہ علاقے سے ”اچھے اور برے“ طالبانوں کو ختم کرنے کا ہے۔
اس دھرنے میں موجود احتجاجی مظاہرین کے صوبائی اور وفاقی حکومت بشمول سیکورٹی اداروں کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوئے۔ آٹھ روز یہ دھرنا جاری رہا مگر ریاستی و کارپوریٹ میڈیا کی طرف سے اس مسئلے پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ آٹھ روز دھرنہ دینے کے بعد مجبور ہو کر دھرنے کے شرکاء نے اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاز کیا جس کو راستے میں جگہ جگہ پر پولیس کی طرف سے رکاوٹیں ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان پر آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا۔ یہ دھرنا بنوں اور جانی خیل کے مقامی لوگوں کی طرف سے شروع کیا گیا جس میں قبائلی بزرگ، نوجوان، بچے اور سیاسی کارکنان سب شامل ہیں اور اس کو علاقے کے کچھ نوجوان منظم کر رہے ہیں مگر ابھی تک دھرنے کی باقاعدہ واضح قیادت ابھر کر سامنے نہیں آئی ہے۔
آج سے تین سال پہلے کراچی میں نقیب محسودکے قتل کے بعد وزیرستان سے محسود تحفظ تحریک (جو کہ بعد میں پشتون تحفظ تحریک میں تبدیل ہوئی) کی شکل میں اسلام آبادکی طرف ایک لانگ مارچ پہلے بھی ہو چکا ہے جس کی حمایت موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی کی تھی۔ اس لانگ مارچ کے مطالبات بھی کم و پیش موجودہ لانگ مارچ جیسے ہی تھے۔ اس وقت بھی ان پر الزام تراشی کی گئی اور انہیں غدار قرار دے کر ان کے خلاف شدید کاروائی کی گئی جبکہ ان کے کسی بھی مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ موجودہ لانگ مارچ بھی ان ہی ریاستی پالیسیوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار ہے۔ یہ بات اس حقیقت کی گواہی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو جان ومال کا تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
آج جہاں ایک طرف ریاست کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ریاست عوام کو امن سے لے کر روزگار، رہائش، تعلیم اور علاج جیسے بنیادی حقوق فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے تو وہیں دوسری طرف وہ اس ملک کے کروڑوں عوام کے خون پسینے کی پیدا کی ہوئی دولت کو ملکی اور عالمی سرمایہ داروں کی تجوریوں میں پھینک رہی ہے۔ ان عالمی سامراجی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر ان کی شرائط پر ملک کی اینٹ اینٹ کو اونے پونے داموں بیچ رہی ہے اور عوام پر بدامنی، بے روزگاری، اور مہنگائی کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مظالم کے خلاف عوامی رد عمل کے پیش نظر جبر کے استعمال میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔
اس صورتحال میں آنے والے وقت میں محنت کش طبقے اور عام عوام کے پرامن احتجاجوں پر ریاستی جبر میں اضافہ نظر آئے گا۔ اسی طرح دیگر جمہوری حقوق پر حملوں کے ساتھ ساتھ قومی جبر میں بھی اضافہ ہوگا۔ لیکن یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان تمام سیاسی و معاشی اور سماجی حملوں کا رُخ اس ملک کے محنت کش طبقے کی طرف ہی ہو گا۔ غریب محنت کش چاہے جس بھی قوم اور علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ان مظالم کا براہ راست شکار بن رہے ہیں اور مستقبل میں بھی بنتے رہیں گے۔ لہٰذا ان حملوں کا جواب یہاں کا محنت کش طبقہ ہی دے سکتا ہے۔ اس وقت تمام جمہوری، سیاسی اور معاشی حقوق کی جنگ اس ملک کے محنت کش طبقے کے کندھوں پر پڑی ہے جو کہ وہ واحد طبقہ ہے جو ان تمام حقوق کے دفاع کے لیے عوام کی قیادت کر سکتا ہے۔ مگر محنت کش طبقے کی تحریک اور جدوجہد کا ابھی محض آغاز ہوا ہے جو اپنے تمام تر ناگزیر مراحل سے گزر کر ایک فیصلہ کن طبقاتی جدوجہد کے اندر داخل ہوگی۔
اس صورتحال میں خواہ جمہوری حقوق ہوں، قومی جبر ہو یا کسی ایک واقعے، چاہے وہ قتل کا ایک واقعہ ہو یا ایسے واقعات کا ایک سلسلہ ہو، کو اس عمومی پیچیدہ عمل سے کاٹ کر نہ تو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کے حل کے لیے کوئی شعوری سیاسی جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ اس بنیاد پر ہم بلاشبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہاں ایک طرف ریاست عام عوام یا یہاں پر موجود مظلوم قومیتوں کو امن اور دیگر حقوق دینے میں ناکام ہے بلکہ خود ان تمام مظالم کی وجہ ہے وہیں پر سیاسی میدان میں قومی سوال پر موجود تمام تر قوم پرست سیاست کی مکمل ناکامی ہے۔
یہاں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ تین سال پہلے پی ٹی ایم روایتی قوم پرست پارٹیوں کی مکمل ناکامی سے پیدا ہونے والے خلاء کے نتیجے میں وجود میں آئی مگر ہم بار بار واضح کرتے رہے ہیں کہ پی ٹی ایم نے جہاں اپنے آغاز میں انتہائی جرات مندانہ اور کامیاب پیشرفت کی وہیں مستقل طور پر ان لاکھوں لوگوں کو کوئی واضح پروگرام، نظریات اور لائحہ عمل نہیں دے سکی جو اس کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ اس لئے آج وہی عمل دوبارہ دہرایا جا رہا ہے، کہ پشتونخواہ کے ایک شہر بنوں سے ایک قبیلے کے لوگ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قومی سوال پر بھی کوئی ایسی مرکزی طاقت نہیں ہے جو کہ ان سب حالات کے اندر مظلوم اور غریب پشتونوں کی نمائندگی کر سکے۔
اس لانگ مارچ پر پولیس کے تشدد کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ان کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم ملک بھر میں طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں سے ان کی حمایت کی اپیل کرتے ہیں اور آخر میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس وقت ان سب مظالم کا مستقل خاتمہ کرنے کے لئے تمام جمہوری و سیاسی حقوق کی جدوجہد کو محنت کش طبقے کے انقلابی نظریات اور ان کی تحریک کے ساتھ جوڑ کر اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے گرد کروڑوں محنت کشوں کو منظم کیا جائے چاہے وہ جس علاقے، رنگ اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ نجات کا یہی واحد راستہ ہے۔