|تحریر: ایلن ووڈز اور ٹیڈ گرانٹ، ترجمہ: فضیل اصغر|
ایسٹر بغاوت کے 103سال مکمل ہونے کے موقع پر ہم اپنے قارئین کے لیے 2001ء میں لکھا گیا یہ آرٹیکل شائع کر رہے ہیں۔ آج ایسٹر بغاوت کو ایک صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے مگر اس بغاوت کی بنیاد میں کار فرما تضادات آج بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ بریگزٹ اور برطانوی سرما یہ داری کا بحران ان تضادات کو ایک بار پھر سطح پر لے آیا ہے۔ دیگر قومی تحریکوں کی طرح آئرلینڈ کا سوال آج بھی حل طلب ہے۔ جیمز کونولی اور ایسٹر بغاوت کے واقعات میں موجودہ نسل کے لیے سیکھنے کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔
یہ ایسٹر برطانوی سامراج کے خلاف ڈبلن (آئرلینڈ) میں 1916ء میں ہونے والی ’ایسٹر بغاوت‘ کی 85 ویں برسی ہے۔ اس تحریک کا روح رواں جیمز کونولی تھا۔ کونولی کومحض آئرش قوم پرست ثابت کرنے کی متعدد بار کوشش کی گئی۔ مگر کونولی سب سے پہلے ایک لڑاکا مزدور رہنما اور مارکس وادی تھا۔ برطانوی اور آئرش مزدور تحریک میں کونولی وہ واحد انقلابی تھا جو مارکسزم کے نظریات کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوا۔
1868ء میں ایڈنبرگ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا کونولی ایک سچا پرولتاری تھا۔ اس نے 10سال کی عمر میں مزدوری کرنا شروع کی۔ تمام تر آزمائشوں اور مصیبتوں، کامیابیوں اور ناکامیوں میں اس نے اپنی ساری زندگی دل و جان سے محنت کش طبقے کے ساتھ تعلق میں گزاری۔ کونولی نے تعلیم اپنے بلبوتے پر حاصل کی اور بعد میں ایک شاندار لکھاری اور مقرر بنا۔ برطانوی اور آئرش مزدور تحریک میں کونولی وہ واحد انقلابی تھا جو مارکسزم کے نظریات کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوا۔
مارکس اور اینگلز کی تحریروں کا بغور مطالعہ کرنے کی وجہ سے وہ (آئرش آزادی کی تحریک میں) اپنا آزادانہ موقف بنانے میں کامیاب ہوا اور اس میں حقیقی حصہ شامل کیا۔ سب سے زیادہ حیران کن بات تو یہ ہے کہ وہ یہ سب اپنے عہد کے عظیم انقلابیوں جیسے لینن، ٹراٹسکی یا روزالکسمبرگ سے کسی بھی براہ راست رابطے میں آئے بغیر کر رہا تھا۔
آغاز سے ہی اسے ان مسائل کا سامنا تھا جن کا سامنا اس کے طبقے کے لوگوں کو عمومی طور پر کرنا پڑتا ہے یعنی شدید ترین غربت، جس کی وجہ سے بعض اوقات اس کے لیے اپنے خاندان کو زندہ رکھنا بھی ناممکن ہوجاتا تھا۔ مگر اس کے باوجود دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کے انقلابی رستے میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ کونولی مسلسل جذبے اور مستقل مزاجی کیساتھ سوشلزم کیلئے جدوجہد کرتا رہا۔آئرش سوشلسٹ ریپبلکن پارٹی کا پروگرام کونولی نے لکھا تھا جو قوم پرستانہ نہیں بلکہ واضح طور پر ایک سوشلسٹ پروگرام تھا۔
”ایک آئرش سوشلسٹ جمہوریہ کی تعمیر جس میں زمین، ذرائع پیداواراور(ان) تقسیم اور تبادلہ آئرش عوام کی اجتماعی ملکیت میں ہوں گے۔ زراعت کو سرکاری طور پرمنظم کیا جائے گا جو منتظمین کے ایک بورڈ کے زیر انتظام ہوگا جنہیں زرعی آبادی چنے گی اور وہ اس زرعی آبادی اور پورے ملک کو جوابدہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ عوام کی بہتری کیلئے تمام قسم کی ضروری محنت کی اشکال کو بھی انہی اصولوں پر مرتب کیا جائے گا۔“
کونولی سب سے پہلے ایک لڑاکا مزدور رہنما تھا۔ کونولی اور لارکن کی قیادت میں آئرش ٹرانسپورٹ اینڈ جنرل ورکرز یونین نے 1914ء سے پہلے کے سالوں میں طوفانی طبقاتی لڑائی کی قیادت کی، جس نے آئرلینڈ کو اس کی بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان جزیروں نے شاید ہی کبھی ایسی شدید طبقاتی لڑائی دیکھی ہو۔ناصرف ڈبلن بلکہ اس کے اثرات بلفاسٹ تک پہنچے جہاں کونولی مالکان کے خلاف لڑائی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مزدوروں کو منظم کرنے میں کامیاب ہوا۔ اکتوبر 1911ء میں بلفاسٹ کے ٹیکسٹائل کی صنعت کے مزدوروں کی ہڑتال کی قیادت کونولی نے کی اور مزدوروں کو منظم کیا، خاص طور پر انتہائی کم اجرت پر کام کرنے والی محنت کش خواتین کو۔
سرمایہ داروں کی جانب سے ہڑتالوں کی اس لہر کا مقابلہ بدنام زمانہ 1913ء کی تالابندی (Lockout of 1913) کے ذریعے کیا گیا۔ یہاں آئرش بورژوازی کا حقیقی چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے جو لالچی، جابرانہ اور رجعتی تھا۔ ڈبلن کے سرمایہ دار ولیم مارٹن مرفی کی قیادت میں، جو ایمپلائرز فیڈریشن کا چیئرمین اور آئرش انڈی پینڈنٹ اخبار کا مالک تھا، مزدوروں اور ان کی تنظیموں کو کچلنے کے لیے کمر بستہ ہوئے۔ اس کا جواب ITGWU نے مرفی کے اخبار کو بیچنے سے انکار کی صورت میں دیا جس کے جواب میں مرفی نے ITGWU کے تمام اراکین کیلئے تالابندی کر دی (صنعت کے دروازے بند کر دیے)۔
طبقاتی جڑت کا پیغام کونولی کی تحریروں اور تقاریر میں جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ ”یقینا وہ (محنت کش) ایک دن یہ جان لیں گے کہ کونیمارااسٹیٹ میں کسانوں کا کچومر نکالنے والا زمیندار اور کاؤ گیٹ جھونپڑ پٹی کے کسانوں سے بے تحاشہ کرایہ لینے والا زمیندار ایک ہیں۔ یقینا وہ ایک دن یہ جان لیں گے کہ ایک آئرش مزدور جو آئرش کیبن میں بھوکا رہ رہ کر مر جاتا ہے اور ایک سکاٹ لینڈ کا مزدورجسے ایڈن برگ کے چھوٹے چھوٹے چوباروں میں زہر سے مارا جاتا ہے، اپنی قسمت اور امنگوں میں بھائی بھائی ہیں۔“(سی۔ڈی گریووز، جیمز کونولی، صفحہ 61)
جب تک تالا بندی جاری رہی لارکن اور کونولی برطانوی محنت کشوں سے طبقاتی حمایت کی درخواست کرتے رہے۔ انہوں نے انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیے، یہ مناظر ایک بہت بڑی طبقاتی جنگ کے تھے جو جنگ سے پہلے جاری تھی۔ آئرش محنت کشوں کی درخواستیں قطعاً بہرے کانوں پر جا کر نہیں پڑ رہی تھیں بلکہ عام برطانوی محنت کشوں کی جانب سے انہیں بھرپور حمایت مل رہی تھی، البتہ برطانوی محنت کش طبقے کے بکاؤ لیڈران کی یہ ہر ممکن کوشش تھی کہ کسی طرح آئرش محنت کشوں کو دھوکا دیا جائے۔ برطانوی محنت کش طبقے کی بھرپور حمایت اور ہمدردی کے باوجود ان کے لیڈران نے یکجہتی میں ہڑتالوں کا اعلان نہ کیا جس وجہ سے کامیابی ممکن نہ ہو پائی۔آخر میں مجبوراً بھوکے مزدوروں کو دوبارہ کام پر جانا پڑا۔
کونولی غصے میں لکھتا ہے:
”اور اب ہم آئرش محنت کشوں کو دوبارہ جہنم میں جانا ہوگا، اپنے سروں کو جھکائے ان آقاؤں کے سامنے، اپنے دلوں کو ان کی شدید نفرت اور غصے کے لوہے سے جھلسانے کیلئے اور بھائی چارے اور اجتماعی قربانی کی جیت کا جشن منانے کے بجائے شکست اور غداری کی دھول چاٹنے۔ ڈبلن تنہا رہ گیا ہے۔“ (صفحہ 23)
سٹیزن آرمی
پہلی عالمی جنگ سے قبل، کچھ سالوں میں برطانوی حکمران طبقے کو آئرلینڈ اور برطانیہ میں انقلابی پیش رفتوں کا سامنا تھا۔ انقلاب کے خطرے کو ٹالنے کیلئے انہوں نے ’اورنج کارڈ‘ کا سہارا لیا۔ لارڈ کارسن ’آئرش ہوم رول‘کو بزور طاقت ختم کرنے کے لیے بلفاسٹ کی جھگیوں سے غنڈوں کو السٹر رضاکاروں کے نام سے مسلح اور منظم کیا۔ جب برطانوی لبرل حکومت آئرلینڈ میں برطانوی فوج کو بھیجنے کے بارے میں سوچ بچار میں مصروف تھی تو اس وقت اسے کوراگ میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ فرقہ وارانہ پاگل پن کے سامنے کونولی ثابت قدم رہا۔ اس نے ITGWU کے جھنڈے تلے ذریعے مزدوروں کے مظاہروں کو منظم کیا، وہ واحد یونین ”جو اپنی صفوں میں کسی بھی قسم کے تعصبات کو برداشت نہیں کرتی تھی“۔ فرقہ پروروں اور متعصب مذہبیوں کے جواب میں اس نے طبقاتی جنگ کا اعلان کیا اور اپنا مشہور مینی فیسٹوTo the Linen Slaves of Belfastلکھا۔
پولیس اور سرمایہ داروں کے کرائے کے غنڈوں کے پر تشدد حملوں سے بچنے کیلئے مزدوروں نے اپنی ایک لڑاکا تنظیم بنائی جس کا نام ”آئرش سٹیزنز آرمی“ (ICA) تھا۔ ان جزیروں پر یہ پہلی بار ہوا تھا کہ مزدوروں نے اپنی ایک مسلح تنظیم بنائی تھی جس کا مقصد سرمایہ داروں اور ان کے کرائے کے غنڈوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ بعد الذکر اس وقت تعداد میں آج کی نسبت بہت زیادہ تھے جس کی بنیادی وجہ بے تحاشہ غربت اور محرومی تھی۔ ICA کے دو اہم لیڈران کونولی (سابقہ سپاہی) اور کیپٹن جیک جے وائٹ، ڈی ایس او (پروٹسٹنٹ السٹرمین) تھے۔ مگر کونولی ICA کو محض ایک ایسی تنظیم کے طور پر نہیں دیکھتا تھا جس کا مقصد صرف دفاع کرنا ہے بلکہ وہ اسے ایک انقلابی فوج کے طور پر دیکھتا تھا جسکا مقصد سرمایہ داری اور سامراجیت کا خاتمہ تھا۔ کونولی لکھتا ہے:
”آئرش محنت کش طبقے کی ایک مسلح تنظیم آئرلینڈ میں ایک نیا مظہر ہے۔ آج تک آئرلینڈ کے محنت کش اپنے آقاؤں کی فوجوں کیلئے لڑتے رہے ہیں (سپاہیوں کے طور پر) نہ کہ کبھی کسی ایسی فوج کیلئے جن کی قیادت اور ٹریننگ ان کے اپنے طبقے کے لوگ کر رہے ہوں۔ اب وہ ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے اپنی قسمت کے فیصلے خود کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔“ (مزدوروں کی ریپبلک، 30 اکتوبر 1915ء)
ان سطور سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کونولی ICA کو طبقاتی بنیادوں پر ایک ایسی تنظیم کے طور پر دیکھتا تھا جس کا پرولتاریہ کی بڑی تنظیموں سے نامیاتی تعلق ہے۔ یہ یونین ممبران کے چندوں سے چلتی تھی اور اس کا ہیڈ کواٹر ڈبلن میں لبرٹی ہال تھا جہاں سے سارا کام چلایا جاتا تھا۔ 1916ء سے پہلے کئی سال تک دی سٹیزنز آرمی ڈبلن کی سڑکوں پر کھلے عام پریڈ کرتی تھی اور مورچے بناتی تھی۔ یہ کوئی خفیہ تنظیم نہیں تھی جس کا طریقہ کار انفرادی دہشت گردی ہو بلکہ یہ ایک حقیقی مزدور ملیشیا تھی؛ یورپ کی پہلی سرخ فوج۔
بدقسمتی سے پہلی عالمی جنگ نے آئرش انقلاب کی اس تحریک کو کاٹ کر رکھ دیا۔ اگست 1914ء میں سوشلسٹ انٹرنیشنل کی کانگریسوں میں منظور ہونے والی تمام تر قراردادوں کے باوجودتمام سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادتوں نے سوشلسٹ انٹرنیشنلزم سے غداری کی اور جنگ کے حق میں ووٹ دیے۔ ماسوائے روسی، سرب اور آئرش لیڈران کے۔ آغاز سے ہی کونولی نے غیر متزلزل انٹرنیشنلسٹ موقف اپنائے رکھا جو اپنی بنیادوں میں بالکل لینن کے موقف جیسا تھا۔ سوشلسٹ انٹرنیشنل کے لیڈران کی غداریوں پر بات کرتے ہوئے کونولی 15 اگست1914 میں لکھتا ہے:
”ان تمام قراردادوں،بھائی چارے، عام ہڑتالوں کی دھمکیوں، انتہائی محنت کیساتھ بنائی گئی انٹرنیشنلزم کی مشینری اور مستقبل کی تمام تر امیدوں کا کیا مطلب تھا؟“
اور وہ انہی نتائج پر پہنچا جن پر لینن پہنچا تھا۔ ریمزے میکڈونلڈ اور ILPکی قیادت پر مبنی مزدور تحریک کے بائیں بازو کی نام نہاد امن پسندی، جو کہ ان کا طرہ امتیاز بن چکا تھا، کے جواب میں وہ لکھتا ہے:
”پورے براعظم پر محنت کش طبقے کی ایک عظیم اٹھان جنگ کو روک دے گی، محض سرکاری میٹنگوں میں احتجاج کرنے سے اس وحشت ناک قتل عام میں سے کسی ایک شخص کی جان بھی نہیں بچائی جا سکتی۔“
کونولی صرف سوشلسٹ یا انقلابی ہی نہیں تھا بلکہ وہ اپنی ہڈیوں کے گودے تک انٹرنیشنلسٹ تھا۔
ایسٹر بغاوت
جنگ کے آغاز سے ہی کونولی تنہا تھا۔ عالمی سطح پر اسکا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ آئرلینڈ سے باہر مزدور تحریک میں موت سا سکوت چھایا ہوا تھا۔ یہ درست ہے کہ برطانیہ میں ابھار کی کچھ علامات دکھائی دیتی ہیں جیسے 1915ء میں گلاسگو میں کرایوں کے خلاف ہڑتال۔ مگر کونولی کو یہ خطرہ تھا کہ برطانیہ کے مزدور شاید بہت تاخیر سے تحرک میں آئیں گے۔ اس وقت کونولی کے ذہن میں ایک بغاوت کی سوچ واضح طور پر پروان چڑھ رہی تھی۔ اس بات کا خطرہ کہ برطانیہ آئرلینڈ میں ’فوج میں لازمی بھرتی‘ کا قانون لاگو کر دے گا، یہ اہم مسئلہ نا صرف کونولی بلکہ پیٹی بورژوا قوم پرست ’آئرش والنٹئیرز‘ کے ذہنوں پر حاوی تھا۔ لہٰذا کونولی نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مسلح بغاوت کیلئے مزدوروں کیساتھ ایک جنگی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ لڑائی کے آخری لمحات میں غداری کرتے ہوئے والنٹیئر پیچھے ہٹ گئے۔
کیا کونولی کے حملے کا وقت درست تھا؟ یہ ایک انتہائی مشکل سوال ہے۔ حالات یقینا ناسازگار تھے۔ اگرچہ بغاوت کے پھٹنے کے وقت تک آئرلینڈ میں مزدوروں کی چند ہڑتالیں ہو رہی تھیں مگر آئرش محنت کش طبقہ تالابندیوں کی وجہ سے اب تک بہت تھک چکا تھا اور انتہائی کمزور ہو چکا تھا۔ ان دنوں یہ افواہیں بھی پھیل رہی تھیں کہ برطانوی حکمرانوں کی جانب سے نامور آئرش انقلابیوں کو گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ اس موقع پر کونولی نے طاقتوں کے توازن کو برابر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پہلے حملہ کیا جائے۔ اس نے ایک ایسی ضرب لگانے کی ٹھان لی جس سے دیوار گر جائے اور رستہ ہموار ہوجائے چاہے اس کے لیے اسے اپنی جان ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے۔ لڑ کر مرنے کو اس نے جھک کر غلامی کرنے پر ترجیح دی۔ اس فیصلہ کن صبح جب کونولی لبرٹی ہال سے آخری بار لڑنے کیلئے باہر نکلا تو اپنے ایک کامریڈ سے سرگوشی کے انداز میں بولا ”آج ہم مار دیے جائیں گے۔“ جب اس کے کامریڈ نے اس سے پوچھا کہ ”کیا جیت کی کوئی امید نہیں ہے؟“ تو اس نے جواب دیا ”کوئی نہیں۔“
کونولی بلاشبہ ایک عظیم انسان تھا۔ اس کا طریقہ کار ایک حقیقی انقلابی طریقہ کار تھا، نہ کہ دوسرے مزدور لیڈروں کی طرح جنہوں نے آئرش بورژوا قوم پرستوں کی مکمل پشت پناہی میں سامراجی جنگ کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ تاہم کونولی سے بھی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ ان غلطیوں سے انکار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، البتہ کچھ لوگ کونولی کو ایک ولی بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہی لوگ اس کے نظریات سے غداری بھی کرتے ہیں اور انہیں توڑ مروڑ کر بھی پیش کرتے ہیں۔ بغاوت تک میں سنجیدہ کمزوریاں موجود تھیں۔ عام ہڑتال کی کوئی کال نہیں دی گئی تھی۔ سوموار 24، 1916ء کو ڈبلن شہر میں مشینیں عام حالات کی طرح چل رہی تھیں اور اکثر لوگ اپنے کام دھندوں میں مصروف تھے۔ نہ ہی برطانوی سپاہیوں سے کسی بھی قسم کی حمایت کی کوئی اپیل کی گئی تھی۔
محض 1500 ڈبلن وولنٹیئرز کے ممبران اور ICA نے اس کال کا جواب دیا تھا۔ قوم پرست بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکے تھے، ایک حصہ ریڈ مونڈائٹس (Redmondites) کا تھا، جو آئرش پارلیمانی گروپ تھا اور جس نے جنگ کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور دوسراحصہ بایاں بازو تھا۔ جبکہ بغاوت کے عین موقع پر وولنٹیئرز کے لیڈر ایوئن میک نیل نے تمام ممبران کو باہر نہ نکلنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے اور بعد میں آئرش بورژوازی نے آئرلینڈ کی آزادی کی جدوجہد کیساتھ بے شمار دفعہ غداری کی ہے۔
قوم پرست لیڈران کا یہ رویہ کونولی کیلئے حیران بالکل بھی نہ تھا کیوں کہ اس نے قومی آزادی کی جدوجہد کو ہمیشہ طبقاتی نقطہ نظر سے ہی دیکھا تھا۔ اسے بورژوا اور پیٹی بورژوا ریپبلکنز پر کبھی بھی یقین نہیں تھا اور اس نے ہمیشہ آئرلینڈ کی آزادی کیلئے ایک آزاد مزدور تحریک کے فیصلہ کن کردار کی بات کی تھی۔ اس کی وفات کے بعد سے اب تک متعدد کوششیں کی گئیں کہ اسے ایک انقلابی سوشلسٹ کے بجائے محض قوم پرست بنا کر پیش کیا جائے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بغاوت سے ایک ہفتہ پہلے اس نے دی سٹیزنز آرمی کو یہ تنبیہ کی تھی کہ:
”ہمارے مخالف ایک ہزار ایک ہیں۔ مگر جیت کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی رائفلوں پر یقین رکھیں کیونکہ وولنٹیئرز کے مقاصد کچھ مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔ یاد رکھو! ہم صرف سیاسی آزادی نہیں چاہتے بلکہ معاشی آزادی بھی چاہتے ہیں۔“
ملٹری کے نقطہ نظر سے تو بغاوت کی ناکامی پہلے دن سے ہی عیاں تھی مگر پھر بھی، اگر وولنٹیئرز پیٹھ میں چھرا نہ گھونپتے تو زیادہ کامیابیاں حاصل کی جا سکتی تھیں۔ جیسا کہ برطانوی فوج نے باغیوں کے سنٹر جی۔پی۔او پر توپوں کیساتھ شدید گولہ باری کرتے ہوئے انہیں خاموش کرا دیا۔ جمعرات کی رات تک ایک انتہائی طاقتور دشمن کے مقابلے میں چار دن کی عظیم الشان جدوجہد کے بعد باغیوں کو غیر مشروط طور پر ہتھیار گرانا پڑے۔
اگرچہ بغاوت بذات خود تو ناکام ہوگئی مگر اپنے پیچھے جدوجہد کی ایک عظیم الشان روایت چھوڑ گئی جس کے اثرات دور رس تھے۔ شاید کونولی کے ذہن میں یہی بات تھی۔ خاص طور پر برطانوی آرمی کا وحشیانہ پن، جس میں انہوں نے بدلے کی آگ میں ایک جھوٹے ڈرم ہیڈ مقدمے کی بنیاد پر بغاوت کے تمام لیڈران کو گولیاں مار کر شہید کر دیا جس کی وجہ سے پورے آئرلینڈ میں بغاوت کی ایک لہر پیداہوئی۔جیمز کونولی جو بری طرح زخمی تھا اور چل بھی نہیں سکتا تھا، کو کرسی کیساتھ باندھ کر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ مگر برطانوی حکمرانوں کو صورت حال کا درست اندازہ نہ تھا۔ گولیوں نے کونولی کی جان تو لے لی مگر ان کی گونج نے نئے لڑاکا نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو جنم دے دیا جو آئرلینڈ کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا بدلہ لینے کیلئے پر جوش تھے۔
ایسٹر بغاوت ایک ایسی خطرے کی گھنٹی تھی جس کی گونج پورے یورپ میں گونجتی رہی۔ سامراجی قتل عام (عالمی جنگ) کے دو سال بعد بالآخر دیوار گر گئی! باہمت الفاظ ادا کر دیے گئے تھے اور وہ توپوں اور بموں کی آوازوں سے زیادہ اونچے تھے جو واضح طور پر سنے جا سکتے تھے۔ لینن نے اس بغاوت کی خبر کو پر جوش انداز میں خوش آمدید کہا۔ اس وقت لینن جن حالات میں تھا، اس تناظر میں یہ بات سمجھ بھی آتی ہے۔ جنگ نے مارکسی انٹرنیشنلسٹوں کیلئے بے شمار دشواریاں پیدا کر دی تھیں۔ لینن اپنے حمایتیوں کے چھوٹے سے گروہ کے ساتھ تنہا تھا۔ ہر طرف دھوکے اور غداریاں تھیں۔ طبقاتی جدوجہد وقتی طور پر تعطل کا شکار تھی۔ مزدور رہنما سوشل پیٹریاٹس کے ساتھ الحاق کی صورت میں حکومتوں میں شامل تھے۔ ڈبلن میں ہونے والے واقعات اس سے بالکل مختلف تھے۔ اسی وجہ سے لینن اس بغاوت کے بارے میں بہت زیادہ پر جوش تھا۔مگر ساتھ ہی لینن نے یہ بھی واضح کیا کہ:
”آئرش محنت کشوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ وقت سے پہلے ابھر رہے ہیں جب یورپ میں پرولتاریہ کی بغاوت ابھی تک تیار نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایسا کوئی ہم آہنگ نظام نہیں ہے جس میں مختلف بغاوتوں کو ایک ہی بار بغیر کسی غلطی اور شکست (جن سے محنت کش طبقہ قیمتی اسباق حاصل کرتا ہے) کے ساتھ جوڑا جا سکے۔“
اگر بغاوت دوسال بعد ابھری ہوتی تو یقینا تنہا نہ رہتی۔ 1917ء کے اکتوبر انقلاب کی صورت میں پورے یورپ میں پھیلنے والی ایک عوامی تحریک کی بدولت اسے بھرپور حمایت میسر آتی۔ مگر یہ سب دیکھنے کیلئے کونولی زندہ نہ بچا تھا۔
قیادت کی اہمیت
کچھ نام نہاد ’سابقہ مارکسیوں‘ جیسے پلیخانوف کی جانب سے دائیں بازو کے نقطہ نظر سے ایسٹر بغاوت پر تنقید کی گئی۔ Nashe Slovo نامی ایک جریدے میں 4 جولائی 1916 ء کو ٹراٹسکی نے پلیخانوف کو جواب دیتے ہوئے اسے ’گھٹیا اور شرمناک‘ قرار دیا۔ وہ لکھتا ہے کہ:
”آئرش قومی بغاوت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔۔۔آئرش پرولتاریہ کا تاریخی کردار ابھی شروع ہو رہا ہے۔“
؎بدقسمتی سے یہ پیش گوئی تاریخ کے ہاتھوں غلط ثابت ہوئی۔ آئرش محنت کش طبقے کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا کہ کونولی، لینن کی طرح نظریات سے لیس ایک انقلابی مارکسی پارٹی تعمیر نہ کر پایا جو اس کے مرنے کے بعد جدوجہد کو آگے بڑھاتی۔ یہ کونولی کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کے انتہائی بھیانک نتائج سامنے آئے۔ جیسے روزالکسمبرگ اور کارل لبنیخت کی وفات کے بعد جرمن انقلاب کا سر کٹ گیا تھا اسی طرح کونولی کی وفات کے بعد آئرش محنت کش طبقے کی برطانوی سامراج کے خلاف انقلابی تحریک کی کامیابی کی تمام تر امیدیں دم توڑ گئی تھیں۔ اس طرح بہت بڑی قیمت ادا کی گئی!
کونولی نے آئرش لیبر پارٹی بنائی جس کی بنیادیں ٹریڈ یونین اور محنت کش طبقے میں تھیں۔ در اصل یہ آئرش سٹیزنز آرمی کے محنت کش تھے جنہوں نے ایسٹر بغاوت کی قیادت کی نہ کہ پیٹی بورژوا وولنٹیئرز۔ در حقیقت سن فین (Sinn Fein) کا اس بغاوت میں کوئی کردار نہیں تھا جبکہ آئرش بورژوا قوم پرستوں نے اس کے ساتھ کھلی غداری کی تھی۔
بہر حال کونولی کی وفات کے بعد تحریک کی قیادت بورژوا اور پیٹی بورژوا قوم پرستوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ نظریاتی طور پر ناپختہ ہونے کی وجہ سے آئرش لیبر پارٹی وہ فرائض سرانجام نہ دے سکی جو تاریخ نے اس کے کندھوں پر ڈالے تھے۔ کونولی کے آزادانہ طبقاتی موقف کو بنیاد بنانے کے بجائے یہ لوگ قوم پرستوں کے پیچھے چلنے لگ پڑے اور بالآخر جنرل الیکشن میں ان کی کھلی حمایت کا اعلان کر دیا۔
بورژوا اور پیٹی بورژوا قوم پرستوں کی قیادت میں تحریک کا رخ پہلے گوریلا جدوجہد کی جانب موڑا گیا اور بعد میں اس سے بھی غداری کر دی گئی۔ انقلاب کے خوف سے آئرش بورژوازی نے لندن کے حکمران طبقے کے ساتھ ایک معاہدے میں آئرلینڈ کے زندہ جسم کو تقسیم کر دیا۔ بورژوازی کے اس کردار (غداری) کے حوالے سے تقسیم کے وقت کونولی کی تمام باتیں درست ثابت ہوئیں۔ اس غداری کی میراث آج بھی باقی ہے۔
پچھلے 85 سالوں میں آئرش بورژوا اور پیٹی بورژوا آئرلینڈ کی قومی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ 1922ء میں بورژوا لیڈران نے آئرلینڈ کی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس مسئلہ کا حل سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ممکن نہیں ہے۔ پچھلے 30 سالوں سے آئرش ریپبلکن آرمی (IRA) احمقانہ انداز میں بموں اور گولیوں سے مسئلہ کا حل نکالنے کو کوشش کر رہی ہے۔ انفرادی دہشت گردی کا یہ طریقہ کار کونولی اور اس کی دی سٹیزنز آرمی کا طریقہ کار نہیں تھا۔ ان کی بنیاد ہمیشہ طبقاتی سیاست ہوا کرتی تھی اور نامیاتی طور پر ان کا تعلق پرولتاریہ اور مزدوروں کی تنظیموں کیساتھ ہوتا تھا۔
اس طریقہ کار کے ذریعے پچھلے 30 سالوں میں کیا حاصل کیا گیا ہے؟ 3 ہزار سے زیادہ لاشیں، ایک پوری آئرش نوجوان نسل کی تباہی، شمال کی آبادی کی دو متحارب گروپوں میں تقسیم جو ایک تباہ کن فرقہ وارانہ کشمکش کی میراث ہے۔ اور اس سب سے حاصل کیا ہوا؟ کیا سرحد کا سوال حل ہوگیا ہے؟ ہمیں یہاں واضح طور پر کہنا پڑے گا کہ 30 سال کی نام نہاد مسلح جدوجہد کی وجہ سے آج آئرلینڈ کا دوبارہ اتحاد پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مشکل تر ہوگیا ہے۔ انتہائی بے شرمی کیساتھ IRAکے لیڈران نے محض چند منسٹریوں کیلئے سمجھوتے کر لیے۔ نہ تو کیتھولکس کا کوئی مسئلہ حل ہوا ہے اور نہ ہی پروٹسٹنٹس کا۔
انفرادی دہشت گردی کی وجہ سے اور سوشلسٹ اور طبقاتی نقطہ نظر کی عدم موجودگی کی وجہ سے دہائیوں کی یہ میراث آج ہمیں ملی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ماضی میں شمالی آئرلینڈ میں پروٹسٹنٹس اور کیتھولکس کے درمیان ایک شدید تقسیم موجود تھی۔ مگر آج تقسیم کی جگہ اتحاد نے لے لی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوتا اگر کونولی کے نظریات اور طریقہ کار کو آگے چلایا جاتا۔
اپنی ساری زندگی میں کونولی تمام تر مذہبی اور قومی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محنت کش طبقے کے اتحاد کیلئے لڑتا رہا۔ طبقاتی مسئلہ کو بنیاد بناتے ہوئے وہ کیتھولکس اور پروٹسٹنٹس کو مشترکہ دشمن یعنی کہ حکمران طبقے کے خلاف لڑنے کیلئے اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے آج بھی اس چنگل سے نکلا جا سکتا ہے۔ آئرلینڈ کے قومی مسئلہ (جس قدر بھی وہ باقی ہے) کا حل آج صرف سوشلزم کیلئے ایک انقلابی جدوجہد کی صورت میں ہی بائی پراڈکٹ کے طور پر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ کونولی کے وقت میں بھی درست طریقہ تھا۔ آئرلینڈ کا دوبارہ اتحاد تب تک نہیں ہوسکتا جب تک محنت کش طبقہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم رہے گا۔
شمال کے سوشلسٹ انقلاب کا جنوب اور برطانیہ کے سوشلسٹ انقلاب کے تناظر کے ساتھ ایک نامیاتی تعلق ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا حل صرف اور صرف پرولتاری اور انٹرنیشنلسٹ پالیسی میں ہی ہے۔ آئرلینڈ کے شمال میں ابھی بھی امید کی کرن باقی ہے۔ اس سب کے باوجود آج بھی مزدوروں کی بنیادی تنظیمیں یعنی ٹریڈ یونینیں متحد ہیں۔ یہ شاید وہ واحد تنظیمیں ہیں جو فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم نہیں ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ہم عمارت تعمیر کر سکتے ہیں! اگر جیمز کونولی آج زندہ ہوتا تو اس کا یہی پیغام ہوتا۔
85 سال بعد آج یہ انتہائی ضروری ہے کہ ایسٹر کے ہفتے میں ہونے والے واقعات پر سے قوم پرستوں کی اس کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور دوسری طرف اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والوں کے جھوٹوں اور بناوٹی تاریخ پر سے دھول کو جھاڑا جائے اور اس میں پرولتاریہ کے کلیدی کردار کو واضح کیا جائے۔ جیمز کونولی کی وفات کی صورت میں کیا ہی شاندار موقع ضائع ہوا تھا! مگر نئی نسل کو اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیمز کونولی اس لیے ناکام ہوا کیونکہ اس نے وہ اوزار تیار نہیں کیا تھا جس کے ذریعے سماج کو تبدیل کیا جا سکتا ہے یعنی کہ ایک انقلابی پارٹی اور ایک انقلابی قیادت!
آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اس عظیم مارکسی اور محنت کش طبقے کے سپاہی اور شہید کی میراث کا دفاع کریں گے۔ آج ہمیں کونولی کے نظریات کو ان سے بچانا ہے جو انہیں توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور جن کا ان نظریات، کونولی، سوشلزم اور محنت کش طبقے سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں کونولی کے نظریات کو بنیاد بناتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنی ہوگی، یہی نظریات حتمی فتح کی شرط ہیں۔ ہمیں ایک ایسی انقلابی تنظیم بنانی ہے جس کی بنیاد مارکسزم کا پروگرام، پالیسی اور طریقہ کار ہو۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اس تنظیم کی بنیادیں اسی مٹی میں ہونی چاہئیں جہاں وہ اگ سکے اور پروان چڑھ سکے یعنی کہ شمالی اور جنوبی آئرلینڈ اور آئرش سمندر کے اس پار کی ٹریڈ یونینوں اور مزدوروں کی بڑی تنظیموں میں۔
ایسٹر بغاوت ایک عظیم الشان اعلان تھا ان واقعات کا جو آنے والے دنوں میں وقوع پذیر ہوں گے۔ 1916ء میں کام ادھورا رہ گیا تھا۔ اب یہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے۔ مارکس، اینگلز، لینن، ٹراٹسکی اور کونولی کے نظریات سے لیس ہو کر ہم ہر گز ناکام نہ ہوں گے!