|رپورٹ: مارکسزم کے دفاع میں، ترجمہ: آصف لاشاری|
”یہ کمیونزم کی نموِ نو اور نشاطِ ثانیہ کا عہد ہے“ عالمی مارکسی رجحان کے رہنما ایلن ووڈز کے یہ الفاظ انٹرنیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی کی میٹنگ کے عمومی موڈ کا اظہار کرتے ہیں۔ نوجوانوں اور محنت کشوں کی ایک بہت بڑی تعداد کمیونزم کے بینر کو دونوں ہاتھوں سے تھامنے کے لیے پرجوشی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں عالمی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تعمیر کر کے انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عالمی تناظر: بحران اور ریڈیکلائزیشن
ہماری کام کی نئی جراتمندانہ اپروچ معروضی صورتحال کا منطقی نتیجہ ہے جس پر ایلن ووڈز نے عالمی تناظر پر اپنی گفتگو کے دوران تفصیلی روشنی ڈالی۔ ایک طرف سرمایہ دار سیاسی، سماجی، معاشی ہر سطح پر ایک بحران سے دوسرے بحران کی جانب لڑھک رہے ہیں تو دوسری طرف افراطِ زر عوام کے معیار زندگی اور ان کی اجرتوں کو ہڑپ کرتا جا رہا ہے۔
ایلن کا کہنا تھا کہ اس بحران کی حالت میں ہمیں سرمایہ دار طبقے کی عقلی صلاحیتوں کو زیادہ سنجیدہ لینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ لینن بھی کہا کرتا تھا کہ ڈھلوان کے کنارے پر کھڑا شخص اپنی سدھ بدھ کھو دیتا ہے۔
حکمران طبقہ مسلسل فاش غلطیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ پچھلے سال ہم نے دیکھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن جو کہ سرد جنگ کے عہد کی مخلوق ہے، نے یوکرین کو روس کے ساتھ ایک نہ جیتی جا سکنے والی جنگ میں دھکیل دیا۔ پچھلے سال اس نے اسرائیل کی غزہ پر مسلط کی جانے والی نسل کش جنگ کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کیا۔ اب امریکہ مشرق وسطیٰ میں نئے فضائی حملوں کا آغاز کر رہا ہے اور ایران کے گرد منڈلا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایک بڑے پیمانے کی جنگ انتہائی تباہ کن ہوگی مگر سامراجی طاقتیں پھر بھی اس جنگ کی جانب بڑھتی جا رہی ہیں۔
ہالی ووڈ فلم ٹائی ٹینک کی مثال دیتے ہوئے ایلن کا کہنا تھا کہ اس بدقسمت بحری جہاز کا کپتان تو برف کی چٹان کو اپنے سامنے دیکھ نہیں پایا تھا لیکن جو بائیڈن اور دیگر سامراجی حکمران اپنے سامنے برف کی چٹان کو واضح طور پر دیکھ رہے ہیں، اور جب انہیں وہ نظر آ تی ہے تو وہ چلاتے ہیں ”اور تیز، اور تیز!“۔
دنیا سرمایہ داری کی آگ میں جل رہی ہے اور ہر جگہ عوام حکمرانوں سے بدظن ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک کا ہر سروے سیاست سے لے کر میڈیا اور بڑے کاروبار تک اسٹیبلشمنٹ کے ہر ستون کے خلاف ایک گہری نفرت کو آشکار کرتا ہے۔ اسی دوران مزدور تحریک برطانیہ، فرانس، امریکہ اور حتیٰ کہ جرمنی میں بھی، جہان دہائیوں تک تحریک ناپید رہی، گہری نیند سے بیدار ہونا شروع ہوگئی ہے۔
شعور کے اندر یہ بڑی تبدیلی ایک ایسے عہد کے بعد ہونے جا رہی ہے جس میں بائیں بازو کی اصلاح پسندی جیرمی کاربن، سائریزا اور پوڈیموس کی صورت میں آزمائے جانے کے بعد دم توڑ چکی ہے۔ ایلن کا کہنا تھا کہ ان اصلاح پسندوں نے ہر ایک جگہ پر بہت بڑی امیدوں اور توقعات کو ابھارا اور پھر ان پر پانی پھیر دیا۔
اسی لیے اصلاح پسندی اور حتیٰ کہ سوشلزم کو بھی نوجوانوں اور محنت کشوں کی ترقی یافتہ پرتیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ جیسا کہ ہماری ”کیا آپ کمیونسٹ ہیں“ کمپین کی کامیابی نے بھی ثابت کیا ہے کہ آج کے طبقاتی جہدکاروں کو کمیونزم کی اصطلاح ہی سے جیتا جا سکتا ہے۔
”ہر ملک میں ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں نوجوانوں نے کمیونزم کے نظریات کو تسلیم کر لیا ہے۔ حقیقی کمیونزم چیزوں کے خلاف لڑنے اور ان کو تبدیل کرنے کی اندرونی جبلت سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ نئی پرتیں اپنے آپ کو کمیونسٹ کہتی ہیں حالانکہ انہوں نے کتابیں نہیں پڑھی ہیں لیکن وہ واقعی کمیونسٹ ہیں اور اس کے لیے انہیں قائل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔“
تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی محنت کشوں اور نوجوانوں کی ان ہر اول پرتوں تک رسائی حاصل کرنا اس عالمی ایگزیکٹیو کمیٹی میٹنگ کا بنیادی موضوع بحث تھا۔ ایلن نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ جبلی طور پر کمیونیزم کی جانب راغب ہونے والی ان پرتوں کو اپنی صفوں میں شامل کرتے ہوئے ہی ”ہم ایک طاقتور کمیونسٹ انٹرنیشنل تعمیر کریں گے۔ ایک ایسی سنجیدہ طاقت جو کہ صرف واقعات کے مشاہدے اور تبصرے تک محدود نہیں ہوگی بلکہ ہر ملک میں ترقی پاتی ہوئی طبقاتی جدوجہد میں میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوگی اور ایسا کرنے کے قابل بھی ہوگی۔“
فلسطین اور سامراجی قوتیں
جو بائیڈن کے فاش جرائم اور عالمی سطح پر امریکی سامراج کے عمومی زوال کے ملاپ نے روس اور امریکہ جیسے حریفوں کو اپنا حلقہ اثر بڑھانے کے لیے گنجائش فراہم کی ہے۔ اس تمام موضوع پر ’سامراج‘ کے موضوع پر رکھے گئے ایک الگ سیشن میں انتہائی تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی۔
اعدادو شمار بیان کرتے ہوئے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے جارج مارٹن نے واضح کیا کہ سرمایہ داری کی طرف واپسی کے بعد سے اب تک چین دوسری بڑی سامراجی طاقت بن چکا ہے۔ اب یہ امریکہ کو سپر کمپیوٹرز، برقی گاڑیوں جیسے ہائی ٹیکنالوجی کے شعبوں، نئی منڈیوں، اتحادیوں اور تجارتی راستوں کے حصول میں چیلنج کر رہا ہے اور تائیوان کی خودمختاری کے مسئلے پر مغرب کے ساتھ لڑائی مول لے رہا ہے۔ اسی دوران روس اپنی طاقتور صنعتی بنیاد اور قابل ذکر فوجی طاقت کے بلبوتے پر پہلے شام اور اب یوکرین میں مغرب کو پچھاڑ رہا ہے۔
دنیا کی تقسیم در تقسیم عالمی تناظر میں ایک بنیادی پہلو ’تیار ہوتے ہوئے مسلسل عدم استحکام‘ کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ کمیونسٹوں کے پاس ’سامراجیت‘ کے موضوع پر ایک واضح تناظر ہونا چاہیے جس کو شروع آج کی معروضی صورتحال سے کیا جانا چاہیے اور جس کی نظریاتی بنیاد لینن کا سامراجیت کے موضوع پر کیا گیا کام ہونا چاہیے۔ تمام شرکاء نے ہماری نظریاتی پوزیشنوں کی وضاحت کرنے والے اس موضوع پر لکھے گئے ایک ڈاکومنٹ کی گرمجوشی سے تائید کی۔
ہم نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کی گئی جنگ پر بھی بحث کی جو آج عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد کا مرکزی نقطہ بن چکی ہے۔ اس جنگ نے مکمل طور پر مغربی سامراجیوں کو بے نقاب کر دیا ہے جو ایک طرف جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا ورد کرتے رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہزاروں فلسطینیوں کے قتلِ عام میں اسرائیل کی مالی اور اسلحے کی سپلائی کے حوالے سے ہر قسم کی مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس صورتحال نے دنیا بھر کی عوام کو مشتعل کیا ہے۔ ہر جگہ ہمارے کامریڈز کو بورژوا ریاست کے حملے کا سامنا ہے جو کہ فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں اور انقلابی حل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
میٹنگ کے شرکاء نے 7 اکتوبر کے حماس کے حملے کے فوراً بعد آئی ایم ٹی کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کی مکمل تائید کی جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا تھا کہ کمیونسٹ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر جگہ سامراجیوں کی زہریلی منافقت کو مسترد کرتے ہیں۔ ’فتح تک انتفادہ جاری رہے! انقلاب تک جدوجہد جاری رہے!‘
ہماری کامیابیاں
آئی ایم ٹی کے دو سیکشنز، امریکہ اور سوئٹزرلینڈ، ایسے ممالک جہاں ایک وقت میں کمیونزم کی بات کرنا دیوانے کا خواب لگتا تھا، پر ہونے والے یکے بعد دیگرے کمشنز سے ہفتہ بھر کی جھلک سامنے آئی جس نے ہر جگہ کمیونزم کی قوتوں کی تیز ترین طریقے سے بڑھوتری کی صلاحیت کو آشکار کیا۔ تاہم امریکہ اور سوئٹزرلینڈ کے کمیونسٹوں نے پچھلے عرصے میں آگے کی جانب بہت بڑی چھلانگیں لگائی ہیں۔
امریکی سیکشن کے رہنما ٹام ٹروٹئیر نے امریکی سرمایہ داری کے گہرے تضادات کو واضح کیا جہاں امریکی حکمرانوں کی معاشی بحالی اور استحکام کی تمام تر بڑھک بازی کے باوجود محنت کش عوام کو اپنی تنخواہوں اور معیار زندگی میں اس کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔
ایک طرف جو بائیڈن کو حالیہ تاریخ کے بدترین عوامی رائے عامہ سروے کا سامنا ہے تو دوسری طرف ٹرمپ رپبلکن پارٹی کے الیکشن کے پہلے مرحلے میں تمام مخالفوں کو دھول چٹا رہا ہے جو 2024ء کے صدارتی انتخابات کے بعد ایک اور ٹرمپ حکومت کی ناگزیریت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ فاشزم کی صورت میں نہیں نکلے گا جیسا کہ لبرلز اور اصلاح پسند خوف پھیلانے والے دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ اس سے امریکی سماج مزید پولرائزیشن اور ریڈیکلایزیشن کی طرف بڑھے گا۔ بائیں بازو کے خلا نے ایسے حالات میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے ذہنوں میں جگہ بنانے کے لیے کمیونزم کے نظریات کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا ہے۔
کامریڈ انٹونیو بامر نے ایک نوجوان محنت کش جو کہ اب ہمارا حصہ بن چکا ہے، کا ہماری ویب سائٹ پر بھیجا گیا ایک پیغام پڑھ کر لاکھوں امریکیوں کے حقیقی موڈ کا مختصر سا نقشہ کھینچا:
”میرے جسم کا ہر رگ و ریشہ سرمایہ داری سے بے انتہا نفرت کرتا ہے۔ میں ملامت محسوس کروں گا اگر یہ نظام مجھے بھی اپنے ساتھ پاتال کی طرف کھینچ کر لے گیا۔ ایسا ہوا تو میں اس نظام کے خلاف لڑتے ہوئے مارا جانے پسند کروں گا۔ مجھے ایسا کرنے کے لیے کسی کی ترغیب کی چنداں ضرورت نہیں ہے، بلکہ مجھے اس کے لیے فقط مزید تعلیم اور ضروری لوازمات درکار ہوں گے۔“
انٹونیو کا کہنا تھا کہ یہ وہ نئے امریکی ہیں جنہیں تاریخ نے پیدا کیا ہے۔ ہمیں مشتعل اور جدوجہد کے لیے کمربستہ نئے تیار ہونے والے نوجوان کمیونسٹوں کی جانب سے اس سے ملتے جلتے ہزاروں پیغامات موصول ہوئے ہیں۔ کامریڈز نے اس نئی پرت سے جڑت بنانے کے لیے اپنی تنظیم میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں اور ہمہ قسمی غیر فعالیت اور روٹین ازم کو اکھاڑ پھینکا ہے۔ ان طریقہ کار کی بدولت امریکی کامریڈ پر اعتماد ہیں کہ اس سال کے آخر تک وہ ہزار کی ممبرشپ مکمل کر لیں گے۔
اگر کمیونزم کے کبھی امریکہ میں مقبول ہونے کا خیال دور کی کوڑی لانا نظر آتا تھا تو دولت مند اور نیوٹرل سوئٹزرلینڈ میں کمیونزم کی مقبولیت تو بالکل ہی ناممکن نظر آتی تھی۔ تاہم سوئس سیکشن کے رہنما کامریڈ ڈرسو ہیری نے اس ملک میں ہماری تیز ترین بڑھوتری کو بیان کیا جہاں ہماری ممبرشپ پچھلے چھ ماہ میں ساٹھ فیصد بڑھی ہے۔
کامریڈ ڈرسو نے وضاحت کی کہ یہ اضافہ ’کیا آپ کمیونسٹ ہیں‘ کمپین کے دوران جیتی گئی پرت کی بنیاد پر ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی نفسیات طبقاتی جنگ کے لیے تیار بیٹھے فوجیوں کی طرح ہے جو متحرک ہونے کو تیار بیٹھے تھے۔ یہ نئے لڑاکا انقلابی پارٹی تعمیر کرنے اور ریکروٹمنٹ کرنے کی خواہش کے جذبات سے بھرے ہوئے ہیں اور اپنے کالجوں، محلوں اور حتیٰ کہ ریل گاڑیوں میں جا کر انتہائی جرات سے کمیونسٹ نعرے بلند کرتے ہیں۔
ہمارے کامریڈز کے انتفادہ اور مشرقِ وسطیٰ میں انقلاب کے نعروں کے خلاف سرمایہ دارانہ پریس کی طرف سے جاری کی گئی زہریلی کمپین نے ہماری تنظیم کی پروفائل کو اور بھی بڑھاوا دیا۔ خاموش ہو جانے کی بجائے ہم لڑائی کھولنے کی طرف بڑھے اور اور ملک بھر میں مظاہروں اور میٹنگز کا انعقاد کیا جس میں برن شہر میں ایک ریلی بھی رکھی گئی جس کے اندر بہت کم وقت میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔ یہ نڈر پن اور لڑاکا جذبہ جرات مند طبقاتی جہدکاروں کو جیتنے میں کامریڈز کے لیے کامیابی کی کنجی رہے ہیں۔
ہمارا مقصد ہر جگہ اس نئی پرت کے ساتھ ضم ہونا ہے اور انہیں باشعور منظم اور لڑاکا بالشویک بناتے ہوئے انہیں فیصلہ کن انقلابی قوت میں تبدیل کرنا ہے۔ اس سب کے لیے ہمیں انہیں درست انقلابی نظریات سے مسلح کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں نیا قدم اٹھانے اور تعمیر کرنے کی جانب بڑھنے کے لیے ممکنہ حد تک وسیع گنجائش فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تبدیلی کے جزو کے طور پر سوئٹزرلینڈ کے کامریڈ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا اعلان کرنے جا رہے ہیں جو کہ سرمایہ داری کے خلاف سوئٹزرلینڈ کے کامریڈز کی نئی نسل کی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرے گی۔
ہماری قبل از تاریخ کا خاتمہ
تاریخی IEC میٹنگ کے آخری دور کا آغاز تنظیم کے فنانسز کے متاثر کن سیشن سے ہوا اور محفل کا سہرا لندن میں ہمارے مرکزی ہیڈ کوارٹر کے افتتاح کے سر بندھا۔ اس دفتر کو ہمارے کامریڈز کے ایثار کے بالشویک جذبے کی یادگار ٹھہرایا جا سکتا ہے جس کی بدولت ہم مالکان پر انحصار کرنے سے جان چھڑا لیں گے۔
انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے حامد علی زادے نے تنظیمی رپورٹ رکھی جو کہ پہلے کی کسی اس طرح کی میٹنگ میں رکھی گئی کسی بھی رپورٹ سے یکسر مختلف تھی۔ اس رپورٹ نے دکھایا کہ ہمارے قبل از تاریخ عہد کا اختتام ہو چکا ہے۔ ہمارے پرانے طریقہ کار جن کی بنیاد تعلیمی اداروں میں ریڈنگ سرکلز پر تھی، کو معروضی حالات نے اب بالکل پرانا کر دیا ہے۔ پوری دنیا میں ہم ہر کلاس روم، گلی اور محلے کو کمیونزم کے لیے فتح کرنے کے ارادے کے ساتھ اب باہر عوام کی جانب رُخ کر رہے ہیں۔
ہماری بڑھوتری کی شرح (جو پچھلے سال 40 فیصد تھی) ایک ایسی شے ہے جسے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اکتوبر 2023ء میں 5000 کی ممبرشپ عبور کرنے کے بعد ہم جنوری 2024ء میں عالمی سطح پر تیز ترین انداز میں 6000 کی ممبرشپ عبور کر گئے۔ برطانوی کامریڈ 1000 کی حد کو پار کرنے والا پہلا سیکشن تھے لیکن اٹلی، کینیڈا اور امریکہ کی بڑھوتری کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ زیادہ دیر اکیلے نہیں رہیں گے۔
چند چھوٹے گروپوں نے دھماکہ خیز بڑھوتری دیکھی ہے اور اب وہ مکمل سیکشنز بننے کی جانب گامزن ہیں۔ مثال کے طور پر آئرلینڈ کے کامریڈز جن کی ممبرشپ 380 فیصد کے حساب سے بڑھی ہے، اور اب وہ جنوری 2023ء سے اب تک 7 ممبران سے 34 ممبران ہونے کی طرف گئے ہیں۔
اسی دوران ہماری ویب سائٹس، پوڈکاسٹس اور ویڈیوز ہر سال لاکھوں ویوز حاصل کر رہے ہیں۔ ہمارا اشاعت گھر ’ویل ریڈ بکس‘ نے اس سال تاریخ کا بہترین سال دیکھا ہے اور اگلے بہترین سال کی طرف گامزن ہے جس میں ایلن ووڈز اور راب سیول کی جانب سے لکھی گئی نئی بائیو گرافی ’لینن کے دفاع میں‘ دنیا بھر میں عظیم انقلابی لینن کی وفات کے سو سال پورے ہونے پر ہماری سال پر محیط لینن کی برسی کی کمپین ’لینن زندہ ہے‘ کے دوران انتہائی تیزی سے فرخت ہونے کی طرف جارہی ہے۔
ایسا کہنا بالکل مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ ہم دنیا بھر میں کمیونسٹ نظریے، تجزیوں اور خبروں کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی جانب بڑھو!
ہم جس عہد میں داخل ہوگئے ہیں ہمیں ہر حال میں اس کے کردار کو سمجھنا ہوگا۔ اصلاح پسند عوامی پارٹیوں پر دائیں بازو کا غلبہ ہے، سٹالنسٹ اور فرقہ پرور گروہ بحران میں ہیں، کئی ملکوں میں بائیں بازو کے اصلاح پسند اپنی نااہلی اور غداری کی وجہ سے بکھرنے کی طرف گئے ہیں اور ریڈیکل نوجوانوں اور محنت کشوں کی بڑی تعداد ایسی موجود ہے جو کمیونزم کے نظریات کو قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ صورتحال چیخ چیخ کر ایک نئے پوائنٹ آف ریفرنس کی ضرورت کا اعلان کررہی ہے۔
اس سب کو سمجھتے ہوئے بہت سے سیکشنز جن میں برطانیہ، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ، سویڈن، ڈنمارک اور جرمنی شامل ہیں، نے انقلابی کمیونسٹ پارٹیوں کے اعلان کرنے کا تاریخی فیصلہ لیا ہے اور اسی طرح کئی دیگر سیکشنز ایسا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
جدلیات ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر تاریخی تشکیلات ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچتی ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ہم ماضی اور پرانے طریقہ کار سے چمٹے نہیں رہ سکتے اور ہمیں انتہائی گرمجوشی کے ساتھ مستقبل کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں ہم مرکزی نقطہ بنتے جا رہے ہیں اور ہمیں خود کو اسی طرح ہی پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
”ہم ایک جدلیاتی جست، ایک معیاری تبدیلی کے درمیان کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم ایک حقیقی طاقت بننے کی طرف دیکھ رہے ہیں اور نوجوانوں و محنت کشوں کی ترقی یافتہ پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں“، حامد علی زادے نے یہ ریمارکس تنظیمی رپورٹس پر بحث ختم کرتے ہوئے دیے۔
آئی ایم ٹی کو تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے نئے سرے سے اپنی بنیاد ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے پرانے بینر کو ترک کر رہے ہیں اور نئی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بنیاد ڈالنے کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ایک ایسی شمع ہوگی جس کی روشنی میں نوجوان کمیونسٹوں کی نئی نسل منظم ہوسکتی ہے۔
انتہائی گرمجوش تالیوں کی گونج میں شرکاء نے مکمل اتفاق کے ساتھ اس نڈر اور انتہائی اہم تجویز کی تائید کی۔ ہم نے موسم گرما میں ایک غیر معمولی عالمی کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں اس جدوجہد میں ہمارا حصہ بننے کے لیے تیار تمام کمیونسٹ شریک ہو سکیں گے اور جس میں اس نئی انٹرنیشنل کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔
ہم انٹرنیشنل کے تمام کامریڈز کو فوری طور پر اس کی تیاریوں کو شروع کرنے کا کہتے ہیں، تمام کامریڈز اس کو فوراً زیر بحث لائیں، اس کی تشہیر کریں اور اس نئی پروفائل کے حقیقی معانی و مقاصد کو سمجھیں۔ اب ہم وقت کے مخالف نہیں تیر رہے ہیں بلکہ وقت اب فیصلہ کن انداز میں ہمارے حق میں ہو گیا ہے۔
جرأت، جرأت اور مزید جرأت
اپنے اختتامی کلمات میں ایلن ووڈز نے اظہار کیا کہ اس میٹنگ کا مزاج ماضی سے انتہائی مختلف تھا۔ اس نے وضاحت کی کہ یہ موڈ ایک طرف ”نئی معروضی صورتحال کو منعکس کرتا ہے“۔ ہم نے سٹیٹس کو کے خلاف اتنی گہری نفرت پہلے کبھی نہیں دیکھی اور نہ ہی پرانے نظام کا اس طرح کا بنیادی بحران کبھی دیکھا گیا۔
ایلن نے مزید کہا کہ ”یہ وہی کچھ ہے جس کی ہم اپنے تناظر میں کئی دہائیوں سے پیشین گوئی کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن اب یہ کوئی تناظر نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔ ایک محسوس کیے جا سکنے والی ایسی حقیقت جسے ہر کوئی دیکھ اور محسوس کررہا ہے۔“
دوسری طرف اس موڈ کی وجہ اس مرحلے کے متعلق ایک موضوعی سوال ہے جس سے ہماری انٹرنیشنل گزر رہی ہے۔ ایلن نے وضاحت کی کہ ہر سیاسی جماعت بھی ایک جاندار کی طرح ہوتی ہے جسے اپنی ایمبریونک(embryonic) حالت سے گزرنا ہوتا ہے۔ ہر انقلابی پارٹی چھوٹے سرکلز میں کام کرنے کے سٹیج سے گزرتی ہے اور اسی دوران چھوٹے سرکلز میں کام کی نفسیات جنم لیتی ہے جس کی خصوصیت غیر رسمی کام کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ لیکن ایک وقت آتا ہے جب یہ طریقے آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
”یا تو ان طریقوں سے جان چھڑا لی جاتی ہے یا پھر تنظیم ہی تباہی کا شکار ہوتی ہے۔ ہم چھوٹے سرکلز میں کام کے مرحلے سے بہت وقت پہلے نکل چکے ہیں۔ تمام سیکشنز تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور نئے طریقہ کار اور نئی نفسیات وقت کا تقاضا بن چکے ہیں۔“
اس نئے رویے کی وضاحت کے لیے ایلن نے پورٹ ٹالبوٹ نامی ایک چھوٹے ویلش قصبے میں ایک کامریڈ کے کام کی مثال دی جہاں ایک اہم سٹیل انڈسٹری مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی اور تھوڑے بہت جاری سٹیل ورکس میں بڑے پیمانے کی برطرفیوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔
ٹریڈ یونینز کے روایتی طریقہ کار کے خلاف جاتے ہوئے اس نوجوان کامریڈ نے دیگر برانچوں کی معاونت سے محنت کشوں کو ہڑتال کرنے اور سٹیل ورکس پر قبضہ کرنے کی دعوت دی اور ایک احتجاجی ریلی کا اعلان بھی کیا۔ کامریڈز نے پورے قصبے کے لیے اپنے آپ کو زندگی اور موت کی جدوجہد میں دھکیل دیا۔ نتائج چاہے جو بھی ہوں آج انٹرنیشنل کے ہر کامریڈ کو اسی نفسیات کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
اس طرح کے طریقہ کار ہی برطانیہ کے کامریڈز کو محنت کش عوام کے سامنے حقیقی متبادل کے طور پر پیش کریں گے اور ایک مثال قائم کریں گے کہ آج ہمیں کس طرح کی کمیونسٹ انٹرنیشنل بنانے کی ضرورت ہے۔
بحث کا اختتام کرتے ہوئے ایلن نے کامریڈز سے کہا کہ آج ہمیں دانتے کا لافانی نعرہ اپنانے کی ضرورت ہے:
”جرأت، جرأت اور مزید جرأت، اسی بنیاد پر ہی ہم فتح یاب ہوں گے۔“
کمیونسٹ انٹرنیشنل کی جانب آگے بڑھو!