|تحریر: بین کری، ترجمہ: سلمیٰ ناظر|
”اگر آپ کسی بڑے ملک کو کسی چھوٹے ملک پر دھمکانے، حملہ کرنے اور اس کے علاقے پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو یہ نہ صرف یورپ کے اندر بلکہ پوری دنیا کیلئے ’خطرناک اجازت‘ ہو گی۔“ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اینتھنی بلنکن نے ان الفاظ میں گزشتہ سال اگست میں روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کی۔ اب جب ایک نیوکلیئر طاقت رکھنے والا سامراجی ملک اسرائیل، ایک چھوٹے سے غار نما علاقے غزہ کو ملبے میں تبدیل کر رہا ہے تو بلنکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن ہایو کے شانہ بشانہ کھڑا کھڑا ہو کر پریس کانفرنس میں کہہ رہا ہے کہ: ”اگرچہ آپ (اسرائیل) اپنے بلبوتے پر ہی اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب تک امریکہ موجود ہے، آپ اکیلے نہیں ہیں۔“ جی ہاں، یہ فلسطین میں اسرائیل کیلئے ”خطرناک اجازت“ ہی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یوکرین کے حوالے سے مغربی سامراجی ممالک ایک چھوٹی قوم کے محافظ بنتے ہیں، جبکہ آج فلسطین میں انہی خواتین و حضرات نے ہوائی طیارے اُس اسرائیل کی نگرانی کے لیے بھیجے ہیں جو فلسطین میں بے یار و مددگار لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ یوکرین میں سویلین آبادی پر گرنے والا ہر میزائل ایک جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے، جبکہ آج غزہ کے گرد و نواح کا صفایا کرنا اور وہاں سکولوں اور ہسپتالوں پہ بمباری کرنے کو ’اپنا دفاع‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
”ہر چیز کو عالمی قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کیا جانا چاہیے“، ایسا برطانیہ کے حکمران طبقے کے پیادے، سر کیئر سٹارمر کا کہنا ہے، ”لیکن میں اس اصول سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا کہ اسرائیل اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔“
ہاں، ’عالمی قانون‘، ’اصولوں کی بنیاد پر قائم عالمی نظم‘ تہذیب یافتہ مغرب اور ہمارے بربریت پسند دشمنوں کے درمیان ایک کمزور لکیر ہے، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس لکیر کی یو کرین میں روس کھلم کھلا اور اکثر خلاف ورزی کرتا ہے۔
اس جنگ میں مغربی سیاستدان روسیوں کی جانب سے کی جانے والی ہر خلاف ورزی، خواہ وہ حقیقی ہو یا من گھڑت، کی انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں لے جانے کیلئے پوری ایک چارج شیٹ تیار کر رہے ہیں۔ یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل کے مطابق ایسے جرائم کی تعداد 65 ہزار سے زیادہ ہے۔
ہر جگہ سرمایہ دارانہ عدالتیں نام نہاد ”ڈاکٹرائن آف پریسیڈنٹ (Doctine of Precedent)“ کے تحت کام کرتی ہیں۔ یعنی کسی بھی ”لبرل اقدار“ کے داعی کو اعتراض نہیں ہو گا اگر ہم پیوٹن کے خلاف استعمال ہونے والی اسی ڈاکٹارائن آف پریسیڈنٹ اور چارج شیٹ کی بنیاد پر جانچیں کہ ان کے ’اصولوں کی بنیاد پر قائم عالمی نظم‘ اور ’عالمی قانون‘ کے حوالے سے اسرائیل کہاں کھڑا ہے۔
اور شاید جلد ہی یہ بات کھل جائے جیسا کہ ہمیں شک بھی ہے کہ ’اصولوں‘، ’عالمی قانون‘، ’لبرل اقدار‘ اور اس جیسی باقی ساری باتیں محض نہایت نفرت انگیز منافقت اور سامراجیت کی لوٹ مار کی پالیسیوں پہ مبنی ہوں۔
جنگی جرائم
جیسے جیسے یوکرین جنگ وسعت اختیار کر رہی ہے اس دوران مغربی سیاستدانوں اور مغربی پریس نے پیوٹن کو ایک جنگی مجرم ٹھہرانے میں بالکل بھی تاخیر نہیں کی۔ ان چارجز کی لسٹ میں سب سے پہلے بیان کیا گیا ہے کہ روسی حکمرانوں نے جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنایا ہے اور جنیوا کنونشن 1949ء کے تحت ممنوع شدہ عمل کیا ہے۔ امریکہ کے ریاستی سیکرٹری نے روسی حکمرانوں پہ درج ذیل الزامات صادر کیے ہیں:
”روسی افواج نے رہائشی عمارتوں، سکولوں، ہسپتالوں، کمزور انفراسٹرکچر، شہری گاڑیوں، شاپنگ سنٹرز اور ایمبولینسوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے جس میں ہزاروں بے گناہ شہری قتل اور زخمی ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے مقامات جو عام شہریوں کے زیرِ استعمال تھے، انہیں روسی افواج نے مسمار کر دیا ہے۔“
یوکرین جنگ کو ابھی ایک مہینہ گزرا تھا جب یہ سب کہا گیا۔
اسرائیل کی جنگ شروع ہوئے ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ غزہ شہر میں دوسری سب سے بڑی عمارت جو کہ ایک رہائشی اپارٹمنٹ بلاک تھا، اسے مسمار کر دیا گیا۔ یہ ہمسایہ شہروں کو مسمار کرنے کا محض آغاز تھا۔
نیو یارک ٹائمز نے 10 اکتوبرکو ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق، بمباری کے محض دو دنوں میں اسرائیلی حملوں میں مسجدیں، کم سے کم دو ہسپتال، دو سنٹرز جنہیں Palestine Red Crescent Society چلا رہی تھی اور دو سکول جہاں مہاجرین پناہ لیے ہوئے تھے، نیست و نابود ہو چکے ہیں۔
بمباری کی صرف دو راتوں میں 1 لاکھ 87 ہزار فلسطینی اپنی رہائش گاہ سے کسی دوسری جگہ منتقل ہو چکے ہیں جو غزہ کی 20 لاکھ کی آبادی کا دس فیصد بنتا ہے۔ ان میں سے 1 لاکھ 30 ہزار سکولوں میں رہ رہے ہیں اور باقی اپنے دوستوں کے ہاں قیام پذیر ہیں۔ ہم تازہ اعداد و شمار نہیں جانتے۔
منتقل ہونے والوں کی تعداد یقینا اس سے زیادہ ہو گی اور یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو جاتی ہے اگر غزہ کی عوام کے پاس رہنے کی کوئی دوسری جگہ موجود ہو۔ نیتن یاہو نے بہت ہی بیزاری کے ساتھ غزہ کے عوام کو یہاں سے نکل جانے کی نصیحت کی، لیکن اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) اس سے پہلے ہی غزہ پٹی پر مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر چکی تھی۔ فیول، خوراک، پانی وغیرہ سب کچھ بند کر دیا گیا ہے۔
جب عوام نے رفہ کراسنگ کے ذریعے مصر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو IDF نے کراسنگ پر بمباری شروع کر دی۔
اس پر امریکی سفیر مائیکل کارپنٹر نے مذمت کرتے ہوئے کہا، ”منافقت کی انتہا ہے۔“ پہلے تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رستہ دینے کا کہا گیا، لیکن جب شہریوں نے یہاں سے نکلنا شروع کیا تو باہر جانے کے رستے پر بمباری کی گئی۔ یہ سراسر سفاکیت ہے۔“
اس نے پچھلے سال ماریوپول پر روس کے حملے کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لوگوں کو دیے گئے ایک رستے پر بمباری کی بھی مذمت کی تھی۔ جب ماریوپور کا محاصرہ کر لیا گیا تھا اور یوکرین کی بلیک سی (Black Sea) بندرگاہوں کا محاصرہ کیا گیا تھااور مغربی سامراج نے یک زبان ہو کر اس کی ملامت کی۔ امریکی ریاست کے سیکرٹری اینتھنی بلنکن، یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے صدر اور بہت سے دوسرے لوگوں نے ان سب کی ’جنگی جرائم‘ کے طور پر مذمت کی۔
یورپی کمیشن کے صدر ارسولا وون ڈر لئین (Ursula Von Der Leyen) نے ایک ٹویٹ میں وضاحت کی کہ ”روس کے سول انفراسٹرکچر اور خاص طور پر بجلی گھروں پر حملے کرنا جنگی جرائم ہیں۔“ لیکن ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کے پاور سٹیشن سے تیل ختم ہونے کے ایک دن بعد، جب بجلی بھی بند ہو چکی تھی اور خوراک کا بھی خاتمہ ہو رہا تھا۔۔۔ یورپی کمیشن کی صدر اسرائیل کے عوام کے ساتھ ’یکجہتی‘ کرنے کے لیے دورے کے دوران غزہ کے عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے ایک ٹویٹ بھی نہیں کی۔ اس کے پاس ٹویٹر کو کھولنے کا وقت بھی نہیں تھا مگر 10 اکتوبر کو اسے ٹویٹ کرنے کا وقت ملا اور اس نے ”نازک انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کی شدید مذمت کی“ جس میں اس نے ایسٹونیا اور فن لینڈ کے درمیان گیس کی پائپ لائن میں شگاف ہونے کا حوالہ دیا!
امریکی ریاست کے سیکرٹریوں، سفیروں اور یورپی کمیشن کے صدر کے فلسطینیوں کے خلاف سنگین جرائم کی مذمت کی خبر کے لیے ٹویٹر اور اخباروں کو ٹٹولنا بے کار ہے۔
اور اگر قانونی طور پر دیکھا جائے تو اسرائیل کے کیس میں پراسیکیوٹر کا کام بہت آسان ہے۔
ایسی پارٹی پر چارجز لگانا زیادہ مشکل کام ہوتا ہے جو اپنے اوپر دائر شدہ تمام الزامات کو رد کر دے۔ روسی حکمران ہمیشہ اس بات کو رد کرہے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر مفلس شہریوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے برعکس اسرائیلی حکومت تمام حقائق پر خاموش تماشائی بنی رہی: وہ غزہ کی ساری عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایسا کرنے پر وہ بالکل بھی معذرت خواہ نہیں ہیں۔ اسرائیل کے وزیر توانائی کا کہنا ہے:
”ہیومینیٹرین امداد غزہ کو کیسے دی جا سکتی؟ جب تک اسرائیلی اغواہ شدگان اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ آتے تب تک بجلی بحال نہیں کی جائے گی، پانی کا کوئی نل نہیں چلایا جائے گا اور نہ ہی تیل کے ٹرک اندر داخل ہو سکیں گے۔ انسان دوستی کے بدلے انسان دوستی۔ اور کوئی ہمیں اخلاقیات کا درس نہ دے۔“
یہ بالکل واضح ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے اور وہاں 20 لاکھ لوگوں کو یرغمال بنایا گیا ہے۔ ان کی زندگیاں ضبط کر لی گئی ہیں اور انہیں یہ وقت فاقہ کشی میں ہی گزارنا پڑے گا (اگر بمباری میں وہ ہلاک نہیں ہو جاتے)، یا جب تک 150 گرفتار شدہ اسرائیلی رہا نہیں کر دیے جاتے۔
سابقہ وزیر اعظم نفتالی بینیت نے Sky News کے ساتھ اپنے ایک فتنہ انگیز انٹرویو میں اس سارے معاملے پر نہایت غلیظ موقف رکھا ہے۔ انٹرویو لینے والے نے جب اس سے غزہ میں بجلی بند کرنے کے حوالے سوال کیا کہ، ”غزہ میں انکیوبیٹر میں پڑے بچوں کا کیا جن کی زندگی کا سہارا اسرائیلی حکمرانوں نے بجلی بند کر کے ان سے چھین لیا ہے؟“
بینیت نے اس کے جواب میں کہا،”کیا آپ واقعی فلسطینی عوام کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟ آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟“
اپنے انٹریو میں چیختے ہوئے اس نے کہا، کسی نے یہ سوال کرنے کی ہمت بھی کیسے کی کہ بے گناہ فلسطینیوں کی زندگیاں بخش دینی چاہئیں، بینیت نے اسرائیلی جنگی محاز کا ڈریزڈن (Dresden) میں ہونے والی ہوائی بمباری کے مشہور واقعے کے ساتھ موازنہ کیا جب رائل ایئر فورس نے جان بوجھ کر آتش گیر ہتھیاروں کا استعمال کر کے طوفانِ آتش پیدا کیا جس نے پورے شہر کو اپنی زد میں لے لیا اور جس میں 25 ہزار لوگ لقمہ اجل بنے تھے۔
آتش گیر ہتھیاروں کا ذکر کرتے ہوئے پچھلے ہفتے ہی اسرائیل نے گنجان آباد علاقوں میں سفید فاسفورس کا استعمال کیا تھا، اور ہاں یہ بھی جنگی جرم کے زمرے میں ہی آتا ہے۔
اس کے بعد اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ نے غزہ میں موجود فلسطینیوں کے بارے میں اپنا رویہ واضح طور پر سامنے رکھا۔ وہ مجموعی طور پر اس جرم کے مرتکب ہوئے لہٰذا انہیں سزا بھی مجموعی طور پر ہی ملے گی:
”یہ بات سچ نہیں ہے کہ عوام اس بارے میں نہیں جانتے تھے یا اس میں ملوث نہیں تھے۔ اس بات میں بالکل بھی سچائی نہیں ہے۔ وہ لوگ اس کے خلاف اٹھ سکتے تھے، اس ظالم حکومت کے خلاف لڑ سکتے تھے جس نے جنگی مہم کے ذریعے غزہ پر قبضہ کر لیا۔“
ابھی جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، فلسطین کے لوگوں کو بہت بڑے پیمانے پر یہ سزا دی جا رہی ہے۔ آج اسرائیل کی حکومت نے غزہ کے شمال میں مقیم ایک لاکھ لوگوں کو، جو محصور شدہ آبادی کا 50 فیصد حصہ بنتا ہے، ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر جنوب کی طرف چلے جائیں یا اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال لیں۔ امریکہ اس سب میں اسرائیل کے حکمرانوں کی بھرپور پشت پناہی کر رہا ہے جو، دیکھیں نا، لوگوں کی جان بچانے کے نام پر انہیں ان کے گھروں سے نکال رہا ہے۔
ایسے جرائم کی مشکل ہی سے ماضی میں کوئی مثال ملتی ہے۔
سنگین ترین جنگی جرم
2001ء کے ایک مضمون میں، ایک بیلجین تاریخ دان انے موریلی (Anne Morelli) نے جنگی پراپیگنڈے کے ’دس اصول‘ بیان کیے۔ اس کی تیار کردہ فہرست میں تیسرا اصول یہ ہے کہ: ”ہمارے دشمن کا راہنما بدکار ہے اور شیطان سے مماثلت رکھتا ہے۔“
یوکرین میں اپنی پراکسی جنگ کے لیے عوامی حمایت حاصل کرتے وقت مغربی حکمرانوں کے لیے پیوٹن اور روس کو محض ’جنگی جرائم‘ کے لیے مورد الزام ٹھہرانا تسلی بخش نہیں تھا۔ نہیں، اس ’اصول‘ کے مطابق پیوٹن کو ایک شیطان کے طور پر ظاہر کرنے کے لیے مغربی حکمرانوں نے اسے سنگین ترین جنگی جرم کرنے کے لیے قصور وار ٹھہرا یا۔ ایک ایسا مجرم جو اس جرم کو کرنے میں باقیوں سے سبقت لے جائے اور ہٹلر جیسی نسل کشی کی یاد دلاتا ہو۔
یہ مخصوص الزام مغربی پراپیگنڈے میں بہت واضح نظر آتا ہے۔ جیسا کہ بائیڈن نے اپریل 2022ء میں کہا تھا: ”میں اسے نسل کشی کا نام دیتا ہوں کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ پیوٹن یوکرینی ہونے کے خیال تک کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔“
نسل کشی کا دعویٰ پیوٹن کے جنگ کے لیے دیے جانے والے جواز کے متبادل کے طور پر ہی پیش کیا جا رہا ہے جس میں پیوٹن نے یہ جواز پیش کیا کہ روسی اور یوکرینی ایک ہیں اور ’یوکرینی‘ قوم الگ سے اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی، یہ ایک بالشویک (Bolshevik) اختراع تھی۔ بائیڈن کے مطابق اس سے نسل کشی کا ابھار ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ روسی اہلکار یوکرین کے سرکاری اہلکاروں کو ”کاکروچ“ کہہ رہے ہیں۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ ’ہتک آمیز‘ زبان ہے، اور بالکل ’نسل کشی‘ پر مبنی ہے۔ سچ کہیں تو روسی اہلکار کی بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا اگر اس میں مغربی حکمرانوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو۔ انہی مغربی حکمرانوں کو تب کوئی فرق نہیں پڑتا جب یوکرینی فوج اور حکومت روسی سپاہیوں کو ”سمندری جانور“ کہتے ہیں۔
لیکن اگر آپ سچ میں رنگ برنگی ہتک آمیز زبان سننا چاہتے ہیں تو ہم اپنے قارئین کو اسرائیل کے وزیر دفاع یواوو گلانت کا حوالہ دیتے ہیں، جس نے غزہ پہ اسرائیلی بمباری کے پہلے دن یہ بیان دیا تھا کہ، ”ہم انسان نما جانوروں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔“ اور ابھی تک مغرب کی جانب سے اس کے خلاف ہلکا سا بھی اعتراض نہیں اٹھایا گیا جہاں حکمران طبقہ اسرائیل کے ہر حملے کی مکمل حمایت کا راگ الاپ رہا ہے۔
ابھی ہم سخت الفاظ کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور اس مدعے پر دھیان دیتے ہیں جس کی بنیاد پر عدالتوں میں ایک قتل اور قتل و غارت گری، اور اجتماعی قتل اور نسل کشی میں فرق کیا جاتا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے بہت واضح کر دیا ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ اس کا تعلق بدلے سے ہے، فلسطینی عوام سے مجموعی طور پر لیا جانے والا بدلہ۔ IDF کے ایک حکومتی اہلکار نے اسرائیل کے چینل 13 پر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”غزہ ایک خیمہ نما شہر بن جائے گا۔“
جبکہ لیکود ایم کے اور ری وائٹل گوٹلیف نے تجویز دی کہ غزہ کا صفایا کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرنا چاہیے۔ مغرب میں غل غپاڑا مچانے والے ہمارے جمہوری خواتین و حضرات کہاں ہیں؟ جس انسانیت کا رونا وہ یوکرین میں رو رہے تھے اب وہ کہاں ہے جب قانون ساز حکمران پارٹی ایٹمی بمباری کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام کر رہی ہے؟
اب ہم اسرائیلی فنانس منسٹر بیزالیل سموترچ کے سفاک منصوبوں کو بھی سنتے ہیں۔
2017ء میں اس ’خوبصورت شریف انسان‘ نے فلسطین والے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ”حتمی منصوبہ“ پیش کیا تھا۔ ایسا منصوبہ جو موجودہ حکومت کی پچھلے سال کی پالیسی سے ملتا جلتا ہے، یعنی پہلے مغربی بینک میں جارحانہ پالیسی کی بھرپور حمایت کرو۔ ثانوی طور پر یہ کہ اس پالیسی کو پر تشدد طریقے سے نافذ کرایا جائے۔ ان بنیادوں پر سموترچ نے ایک پیش گوئی کی تھی کہ ”عرب کی دھمکی بھری کوششوں میں اضافہ ہو گا“۔ مگر ان ’کوششوں‘ کو خوش آمدید کہا جانا چاہیے کیونکہ اسرائیل بے دردی کے ساتھ فلسطینیوں کو کچل دے گا اور مایوسی کا دور دورہ ہو گا۔
”یہ غلط بات ہے کہ اسرائیلی سرزمین میں عرب قومی امنگوں کو ’کچلا‘ نہیں جا سکتا“۔ اس نے بتایا کہ دو ریاستی حل اس لئے ناکام ہو چکا ہے کیونکہ ”اسرائیلی سرزمین میں دو متحارب قومی تحریکوں کے لئے کوئی جگہ موجو نہیں ہے“۔
”فلسطینی عوام“ کی قومی خواہشات (سموترچ کی خوفزدہ کرنے والی باتیں) کو کچلا جا سکتا ہے اور لازمی طور پر کچلا جائے گا۔
یہ ہر لحاظ سے نسل کشی ہے جو پیوٹن کی کہی ہوئی کسی بھی بات سے کہیں زیادہ گھٹیا ہے اور یہ دائیں بازو اور فاشسٹ عناصر کے بنیادی نظریے کی تشکیل کرتے ہیں جو نیتن یاہو کی حکومت کو سہارا فراہم کرتے ہیں۔
کیا تہذیب یافتہ مغرب میں کہیں بھی اس ’نسل کشی‘ کی مذمت کی گئی ہے؟ ہم انتظار نہیں کریں گے۔
نگورنو-کاراباخ (Nagorno-Karabakh) جس نے گزشتہ چند مہینوں میں آزربائیجان کے ہاتھوں اپنی آرمینیا کی آباد ی کی نسل کشی ہوتے دیکھی ہے۔ یہ نسل کشی ہمیں مغربی حکومتوں کے انسان دشمن قردار کے بارے میں واضح طور پر بتاتی ہے کہ جب انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ان کے اپنے اتحادی ہوں تو پھر ان کا رویہ بالکل مختلف ہو جاتا ہے۔
ایک بات پر ہم سموترچ سے اتفاق رکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کی بنیاد پر اسرائیل – فلسطین کا سوال کوئی حل موجود نہیں ہے، جس کے اندر فلسطین کے لوگوں کی نسل کشی اور تباہی نہ ہو۔ صیہونی حکمران طبقے کا ایک مخصوص حصہ ایک نئے نکبہ (نکبہ 1948ٗ میں ہونے والا ایک واقعہ ہے جس میں فلسطینی عوام کو ملک بدر کر دیا گیا تھا اور وہاں ایک اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تھا) کی خواہش رکھتا ہے اور اس کی تیاری کررہا ہے۔
فلسطین میں صرف ایک وسیع انتفادہ، مشرق وسطیٰ میں سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب، صیہونی ریاست اور اس کے علاقائی حواریوں اور اس کی پشت پناہی کرنے والے عالمی سامراج کے خاتمے سے ہی فلسطینی عوام کے قومی حقوق کو تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔
ایک بھدا مذاق
یہاں ہم ’اصولوں کی بنیاد پر قائم عالمی نظم‘ کی بات نہیں کریں گے۔ مغربی قوتوں کے لیے یہ ایک بھدا مذاق ہے اور غزہ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ بالکل بھی مذاق نہیں ہے۔
اس سارے عمل سے منافقت کی بدبو آتی ہے۔ غزہ میں رونما ہونے والے واقعات نے اس منافقت کو بہت واضح کر دیا ہے مگر مغربی سامراج کی جانب سے جان بوجھ کر اندھے پن کا ناٹک کیا جا رہا ہے اور مغربی سامراج معصوم شہریوں کے قتل عام اور ’چھوٹی قوموں‘ کے حقوق کی خلاف ورزی پر بالکل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کے سارے نیک دعوے اپنے سامراجی مفادات کو چھپانے کا محض ایک بہانہ ہیں۔
ابھی حال ہی میں انہوں نے پیوٹن پر اپنے غصے کا اظہار کیا۔ ایک وقت تھا جب مغربی سامراج سمجھتا تھا کہ وہ کریملن میں اپنے آدمی کو رہا کروا لے گا جیسے انہوں نے اس سے پہلے یلسن (Yeltsin) کو رہا کروایا تھا۔ مگر پیوٹن کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے جارجیا، شام اور یوکرین میں بیٹھے مغربی سامراجیوں کے مفادات کے خلاف روس کے حکمران طبقے کے مفادات کی حمایت کی تھی۔
اس تمام تنازعے کے اندریوکرین محض کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہا ہے، اور یوکرین کے عوام توپ کے بارود کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں جیسا کہ مغربی سامراجیوں نے خود اس بات کا اظہار کیا ہے۔ سابقہ ریپبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی کے یہ الفاظ تھے، ”یوکرین کی حمایت ہمارے دشمن کو کمزور بناتی ہے، ہمارے نیشنل سیکورٹی کے مفاد میں اضافہ کرتی ہے، اور اس کے لیے امریکیوں کا خون بھی بہانہ نہیں پڑتا۔“
ہم یوکرین جنگ اور اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے میں موازنہ بھی نہیں کریں گے۔ ہم موازنہ نہیں کر رہے، البتہ زیلنسکی نے 9 اکتوبر کو نیٹو کی ایک میٹنگ میں ایک نہایت ہی بھدا مذاق کیا تھا، کہ یوکرین اور اسرائیل میں اور روس اور حماس میں ایک یکسانیت موجود ہے یعنی دونوں کا جوہر ایک جیسا ہے“۔
اس افسانوی کہانی میں یوکرین اور اسرائیل اچھائی اور برائی کی دوہری کشمکش میں مبتلا ہیں۔ یوکرین اور اسرائیل میں جو چیز مشترکہ ہے وہ یہ کہ دونوں مغربی سامراج کے پیادے ہیں، دونوں امریکہ اور نیٹو کے مسلح کردہ ہیں، جبکہ ان میں ایک مغربی سامراج کے طاقتور حریف کے ساتھ جنگ میں جُتا ہوا ہے اور دوسرا ایسے لوگوں کے ساتھ بدلے کی یکطرفہ جنگ میں مبتلا ہے جو محکوم اور بے یار و مددگار ہیں، نہ ان کے پاس کوئی فوج ہے، نہ نیوی یا ایئر فورس موجود ہے، نہ ان کے پاس کوئی معیشت موجود ہے، ان کے پاس محض اپنے دفاع کے فرسودہ ذرائع ہیں جو بیکار ہو چکے ہیں۔
اسرائیل مغربی حکمرانوں کے لیے تاریخی حکمتِ عملی کی اہمیت کے حامل خطے میں امریکی سامراج کے لیے ایک محفوظ گڑھ کی اہمیت رکھتا ہے۔ سامراجی حکمرانوں نے اس خطے میں مداخلت کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا، امریکہ نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو جہنم بنا کر اس خطے میں اپنے پنجے مضبوط کیے ہیں۔ اپنی بے تہاشا کوششوں کے باوجود امریکہ کو گزشتہ سالوں میں مسلسل پسپائی کا سامنا رہا ہے۔ پسپائی کا ہر قدم امریکہ کو اس کے اتحادی اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔
اس لیے فلسطینیوں کی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد میں خطے کی باقی عوام کی جدوجہد کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو سامراجیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی مسئلے کو مشرق وسطیٰ اور ہر جگہ پر موجود مظلوم عوام کی مکمل حمایت ملتی ہے۔ فلسطینیوں کی فتح ان سب کی فتح ہو گی جو نسل در نسل امریکی سامراج اور خطے میں اس کے حواریوں کے ہاتھوں ظلم، قتل اور تباہی و بربادی جھیلتے آ رہے ہیں۔
انسانی تاریخ میں ایسی بے ہنگم بربریت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے جیسی ہم دیکھ رہے ہیں۔ روس نے فروری 2022ء میں اپنی جارحانہ سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا اور اس نے ایک ہزار کلومیٹر لمبے فرنٹ پر دو لاکھ فوجی تعینات کیے تھے۔ جبکہ اسرائیل میں فلاڈیلفیا کے حجم کے محصور شدہ خطے کے خلاف دو لاکھ صف آرا فوجیوں کے ہوتے ہوئے مزید 3 لاکھ 80 ہزار فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے۔
اس وسیع فوج کو، جسے دنیا کی جدید ترین فوج کہا جاتا ہے، چالیس ہزار بندوں کا سامنا کر پڑ رہا ہے جن کے پاس قدیم ہتھیار ور فرسودہ آلات ہیں۔ صرف چھ دنوں میں اسرائیل غزہ پر چھ ہزار بم داغ چکا ہے۔ اتنے ہی بم امریکہ نے افغانستان میں جنگ کے دوران ایک سال میں داغے تھے۔
مغرب کی پراپیگنڈہ مشین بھلے ہی اسے اپنے دفاع کی جنگ کی شکل دینا چاہتی ہو مگر یہ معجزہ نہیں کر سکتے۔ لاکھوں لوگ پہلے ہی اس کے بارے میں جان چکے ہیں۔ مزید لاکھوں لوگ اس کے بارے میں جان جائیں گے جب فلسطین میں IDF کی بربریت میں اضافہ ہو گا۔
اس حملے سے پہلے شاید ہی کوئی سادہ لوح یا نیک نیت رکھنے والا انسان اسرائیل اور فلسطین کے تنازعہ کے حل کے لیے ’سفارت کاری‘ کی یا ’عالمی برادری‘ کے ساتھ اسرائیل پر ’عالمی قانون‘ کی پاسداری کرنے پر زور دینے کی بات کرتا۔
لیکن اب انہی الفاظ میں موجود منافقت اور مکاری ہمارے منہ میں کڑواہٹ بھر دیتے ہیں۔ جبکہ مغربی سامراجی حکمرانوں کی ’عالمی برادری‘ کے حوالے سے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ اس قتل و غارت گری میں یہ بھی اتنے ہی ملوث ہیں جتنی اسرائیلی ریاست۔
مغرب میں فلسطین کے مسئلے پر ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے اپنے حکمران طبقے کے خلاف انقلابی جدوجہد ہی فلسطینی عوام کی جدوجہد میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ محنت کش طبقے کو ہی اپنے مجرم حکمران طبقے کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گا۔