|تحریر: فرانز ریگر، فرانچیسکو مرلی، ترجمہ: ولید خان|
اتوار کے دن کنیسیٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) نے 59 کے مقابلے میں 60 کی انتہائی قلیل اکثریت کے ساتھ ایک نئی حکومت منتخب کی جس سے وزیرِ اعظم بنیامین نتنیاہو کی اقتدار پر 12 سالہ گرفت ختم ہو گئی۔ دائیں بازو کی سیاست اور فلسطینیوں پر ہولناک جبر، اس کے اقتدار کا خاصہ تھی جس کی بنیاد نتنیاہو کا اسرائیل کے بطور مردِ آہن ذاتی تشخص تھا۔ اس کی آخری مثال حال ہی میں غزہ پر خون آشام بمباری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ نئی حکومت کی سمت کیا ہے؟ اور نتنیاہو کی اقتدار پر گرفت کیونکر ختم ہو گئی؟
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نتنیاہو کی سیاست کی بنیاد فلسطینیوں پر ہولناک جبر، نسلی اشتعال انگیزی اور جبری کٹوتیاں ہے۔ اپنے دورِ اقتدار میں نتنیاہو پر سنگین کرپشن کے الزامات لگے جو بہر حال ابھی تک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ہیں۔ لیکن اس کی جگہ جس حکومت نے لی ہے وہ کسی طور پر بھی ترقی پسند نہیں ہے۔ ملک میں سیاسی تبدیلی درحقیقت اسرائیلی حکمران طبقے میں موجود شدید بحران کی غمازی کر رہی ہے۔
اسرائیلی ریاست کا بڑھتا بحران
نتنیاہو کی سیاسی تاریخ مکاری اور خوفناک قدامت پرستی سے بھرپور ہے۔ وہ ماضی میں ثابت کر چکا ہے کہ حالات جتنے بھی نامساعد ہوں انہیں اپنے لئے سازگار بنایا جا سکتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں اسرائیلی سیاست میں نتنیاہو کی اتنی کلیدی مرکزی حیثیت بن چکی ہے کہ اس کے اپنے اقتدار کا بحران ہزاروں تانوں بانوں سے اسرائیلی ریاست کے بحران سے جڑ چکا ہے۔
اس وقت نتنیاہو شکست خوردہ ہے۔ اپنے دوست اور اتحادی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح وہ اپنے زخم چاٹنے پر ہی اکتفا نہیں کر رہا بلکہ بدلے کی بھرپور تیاریاں کر رہا ہے۔ ٹرمپ کی طرح اس نے بھی ایسی خوفناک رجعتی قوتوں کو اشتعال دلا دیا ہے جنہیں وہ پوری طرح کنٹرول تو نہیں کر سکتا لیکن مستقبل میں اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے کے لئے یہ بہت فائدہ مند ضرور ثابت ہو سکتی ہیں۔ نتنیاہو آج بھی اسرائیلی سیاست میں بے پناہ اثرورسوخ کا مالک ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکمران طبقے کا ایک اہم حصہ اس کی دردِ سر حکومت سے جان چھڑانے کے لئے مستعد ہے۔ لیکن اس کوشش کے نتیجے میں بننے والی موجودہ مخلوط حکومت کی شدید کمزوری بحران کی شدت کی غمازی کر رہی ہے۔
اسرائیلی حکمران طبقے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نتنیاہو کی موجودگی یا عدم موجودگی میں ادارہ جاتی استحکام ایک سراب ہے۔ مارچ کے بے نتیجہ انتخابات کے بعد نتنیاہو ایک نئی حکومت بنانے میں ناکام رہا۔ اس نے اقتدار پر قابض رہنے کی کوششوں میں ایسے بحران کو جنم دیا جس کا نتیجہ مئی میں غزہ پر ہولناک بمباری کی صورت میں نکلا تھا۔ اس نے جوا کھیلا کہ ایک بھاری فتح اس کی پوزیشن کو مستحکم کرے گی۔ لیکن اس حکمت عملی کا بالکل الٹ نتیجہ نکلا۔
بند گلی سے باہر نکلنے کی ہیجانی کوشش میں صدر رِولِن نے یش آتد پارٹی کے قائد ی یائر لاپید ”معتدل لبرل“ کو نئی حکومت بنانے کی دعوت دی۔ غزہ بمباری کے دوران لاپید کی کوششیں کھٹائی کا شکار ہو گئیں لیکن جنگ بندی کے بعد جب واضح ہو گیا کہ نتنیاہو کی فتح کا اعلان کھوکھلا اور بے بنیاد ہے تو ان میں تیزی آ گئی۔
لاپید نے ایک انتہائی عجیب و غریب اتحاد تشکیل دیا ہے۔ دائیں جانب اتحاد میں انتہائی دائیں بازو یمینا پارٹی اور اس کا چیئرمین نفتالی بینیت شامل ہیں، جس نے ابھی وزیر اعظم کا حلف اٹھایا ہے۔ وہ مذہبی قومی آباد کاروں کی تحریک کا نمائندہ ہے۔ پھر آویگور لائیبرمین کی دائیں بازو، آباد کار نواز اور نسل پرست یسرائیل بیتینو پارٹی بھی شامل ہے۔ اس اتحاد میں قومی قدامت پرست گیدیون ساآر بھی شامل ہے جو ایک طویل عرصے سے نتنیاہو کی لیکود پارٹی کا ممبر تھا اور اب اس نے اپنا ایک سیاسی اکٹھ بنا لیا ہے۔
لیکن پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے لئے لاپید کو اور بھی زیادہ پارٹیوں کی حمایت درکار تھی۔ اور بس فوراً ہی نام نہاد ”صیہونی لیفٹ“ فوری طور پر اس کی مدد کو پہنچ گیا۔ سوشل ڈیموکریٹک آوودا اور لیفٹ لبرل میریتذ پارٹی نے فوری طور پر حمایت کی پیشکش کر ڈالی۔ اس پورے اتحاد میں سب سے حیران کن شمولیت عرب اسلام پسند راآم پارٹی کی شمولیت ہے۔ ایک انوکھا منظر تو تب تھا جب حکومت میں شمولیت اختیار کرنے کی ڈیل کے بعد راآم کے قائد نے جنونی صیہونی نفتالی بینت کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اس مضحکہ خیز اور انتہائی عدم استحکام کے شکار اتحاد کی ایک ہی بنیا د ہے۔۔نتنیاہو کی مخالفت۔
نتنیاہو کی جانب سے صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش بھی ایک وجہ ہے کہ اسرائیلی ریاست نے پہلے اپنی جارحیت یروشلم اور بعد میں غزہ میں تیز کر دی۔ نتنیاہو نے چال چلی کہ وہ اس اتحاد کو آغاز میں ہی کچل سکتا ہے اگر فلسطینیوں کے خلاف ایک نئی جنگ چھیڑی جائے جو صیہونی دائیں اور بائیں بازو کے درمیان دراڑ ڈال دے گی اور عرب راآم پارٹی کے لئے دائیں بازو کی آباد کار پارٹیوں کے اتحاد میں شامل ہونا ناممکن ہو جائے گا۔ لیکن دو ہفتوں کی ہولناک بمباری میں 260 فلسطینی اور 12 اسرائیلی اموات اور ہزاروں زندگیوں کو برباد کرنے کے بعد لاچار نتنیاہو کو پتہ چلا کہ وہ اپنے خلاف اتحاد کو بننے سے روکنے میں تو کیا کامیاب ہوا الٹا اس کی ان چالوں نے اس کے مخالف اتحاد کو اور مظبوط کر دیا۔
صورتحال میں ایک نیا عنصر
ہم نے ایک اور مضمون میں بیان کیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں سب سے اہم تبدیلی 1948ء کی حد بندی والے اسرائیل، مشرقی یروشلم، مغربی کنارے، غزہ اور پوری دنیا میں پھیلے فلسطینیوں میں ایک متحدعوامی جدوجہد کا ابھرنا ہے جس کا حتمی اظہار 18 مئی کی عام ہڑتال تھی۔ اسرائیلی ریاست کے ہولناک جبر کے خلاف فلسطینیوں کی عوامی جدوجہد کی بازگشت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ پوری دنیا سے ملنے والی دیو ہیکل اور بڑھتی یکجہتی عالمی نوجوانوں اور محنت کشوں کا انقلابی نظریات کی طرف بڑھتے رجحان کا اظہار ہے۔ نتنیاہو کی نخوت نے اس تحریک کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیااور اب یہ اسرائیلی سرمایہ داری سمیت خطے کی تمام رجعتی عرب آمریتوں کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ حتمی تجزیئے میں یہ تحریک مشرقِ وسطیٰ میں موجود سامراجی طاقتوں کے توازن کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔
اس کے ساتھ یہ تحریک فلسطینی قومی جدوجہد کی تاریخی قیادت کی اتھارٹی کو بھی چیلنج کر رہی ہے۔ فتح کے لئے تو یہ درست ہے جو اس وقت اسرائیل کے ساتھ مل کر مغربی کنارے میں سرگرم نوجوان فلسطینیوں کو گرفتار کر کے تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ الاقصیٰ تحریک پر جارحیت اور غزہ پر بمباری کے خلاف مزاحمت سے فلسطینیوں میں حماس کی حمایت میں وقتی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جلد ہی ہزاروں فلسطینی نوجوانوں کی نظر میں عوامی جدوجہد کا طریقہ کار حماس کی کھوکھلی سیاسی حکمت عملی کو ننگا کر دے گا اور فلسطینی قومی آزادی کی تحریک میں بطور صفِ اول قوت اس کی ساکھ خطرے میں پڑ جائے گی۔
نئی اسرائیلی حکومت کی حلف برداری کے دوران اسرائیلی ریاست فلسطینی سرگرم کارکنان کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کر رہی ہے جس میں غزہ جنگ بندی کے بعد سے اب تک 1500 فلسطینی گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ لیکن اس کوشش سے تاحال فلسطینیوں کا عوامی تحرک توڑا نہیں جا سکا ہے۔ دوسری طرف مشرقی یروشلم میں 1967ء کے قبضے کا جشن منانے کے لئے یہودی قوم پرست انتہاء پسند آباد کاروں نے ایک مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ دمشق دروازے سے گزرنے کا اعلان اور فلسطینیوں کے خلاف ننگی اشتعال انگیزی کرنے کے باوجود نئی حکومت نے مارچ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جھڑپ نئی حکومت کا پہلا امتحان ثابت ہو گی اور ممکن ہے کہ حکومت اس پہلے امتحان میں ہی فیل ہو جائے۔
نتنیاہو اور اسرائیلی سرمایہ دار
اسرائیلی ریاست کی نظریاتی بنیاد یہ ہے کہ تمام یہودی، چاہے وہ محنت کش ہوں یا سرمایہ دار، کے مشترکہ مفادات عربوں اور خاص طور پر فلسطینیوں کے مفادات سے متضاد ہیں۔ ”عرب جارحیت“ کے خلاف یہودیوں کے محافظ کا ناٹک کر کے اسرائیلی حکمران طبقہ اسرائیلی محنت کشوں اور نوجوانوں سے اسرائیلی ریاست کے لئے حمایت یعنی سرمایہ دار طبقے کے بنیادی مفادات کا تحفظ حاصل کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ خیال ایک دھوکہ ہے جو حقیقت پر پردہ ڈالے ہوئے ہے یعنی یہودی محنت کشوں اور یہودی سرمایہ داروں کے مفادات بنیادی طور پر متضاد ہیں۔ اسرائیل میں بے پناہ سماجی عدم مساوات ہے۔ ایک طرف ایک رجعتی حکمران طبقہ اور دنیا کی امیر ترین کمپنیاں ہیں اور دوسری طرف کم اجرت، مہنگے کرایوں اور گراں قدر اشیاء خوردونوش کا ستایا ہوا محنت کش طبقہ ہے۔ اس سماج میں 20 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ OECD کی اپنی رپورٹ کے مطابق اسرائیل 38 ممبران ممالک میں سب سے زیادہ سماجی عدم مساوات کا شکار ملک ہے۔ ان طبقاتی تضادات پر پردہ ڈالنے کے لئے اسرائیلی بورژوازی کو یہودیوں کے ”مشترکہ مفادات“ کی ایک دیو مالا درکار ہے۔
اپنے نظام کو قائم رکھنے کے لئے اسرائیلی سرمایہ دار طبقے نے ہمیشہ قوم پرستی اور فلسطینیوں کی مخالفت کو استعمال کیا ہے۔ یہودیوں کے وطن کے طور پر اسرائیل کی توسیع فلسطینیوں کی زمینوں پر مسلسل قبضوں اور ہمسایوں سے جنگوں کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ ان پالیسیوں کا مقصد اسرائیلی محنت کشوں اور نوجوانوں میں مسلسل محاصرے کا خوف اور عرب مخالف جذبات کو ابھارنا اور قائم رکھنا ہے۔ نسل پرستی اور خوف کا جبر وہ اوزار ہیں جن کے ذریعے طبقاتی تفریق کو دھندلا کر کے یہودی اسرائیلی محنت کشوں کے سامنے ہر بار اسرائیلی وجود کو لاحق خطرات کا شور و غوغا کر کے اسرائیلی ریاست کے لئے حمایت حاصل کی جاتی ہے۔
بنیامین نتنیاہو نے اس حکمت عملی کو عروجِ کمال پر پہنچا دیا ہے۔ لیکن اسرائیلی بورژوازی کو غصہ اس بات کا ہے کہ نتنیاہو نے اس حکمت عملی کو مجموعی طور پر اسرائیلی سرمایہ داری کے تحفظ میں استعمال کرنے کی بجائے مسلسل اقتدار پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے جبکہ وہ کئی کرپشن الزامات سے اپنے آپ کو بچاتا رہا ہے۔ جب بھی نتنیاہو مسائل کا شکار ہوا اور اس کی عوامی حمایت کمزور پڑنے لگی تو اس نے جنگ کا طبل بجا کر خوفناک شاونسٹ اشتعال انگیزی کی۔
اس حکمت عملی کا استعمال ہم نے 2014ء میں غزہ بمباری اور فوج کشی، ایران کے ساتھ امریکی جوہری معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں اور ایرانی جوہری سائنسدانوں کے قتل، 2018ء میں نسل پرستانہ یہودی قومی ریاستی قانون کے اجراء، پچھلے سال موسمِ بہار میں مغربی کنارے پر قبضے کے حوالے سے اشتعال انگیز بیانات (اگرچہ ان پر کبھی عمل نہیں ہوا) اور پچھلے کچھ ہفتوں میں غزہ پر بمباری کے ذریعے دیکھا ہے۔ ہر چال کا مقصد شاونسٹ اسرائیلی قوم پرستی کو ابھارنا اور نتنیاہو کی انحطاط پذیر ساکھ کو بحال کرانا تھا۔
مقبولیت میں مسلسل کمی سے نتنیاہو کا دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو پارٹیوں کی حمایت پر انحصار مسلسل بڑھتا رہا جن میں آباد کاروں کی تحریک قابل ذکر ہے۔ اس بنیاد پر اس کے اقتدار کو وقتی استحکام تو ملا لیکن اسرائیلی آبادی کا ایک بڑھتا حصہ جس میں محنت کش، نوجوان اور متوسط طبقہ قابل ذکر ہیں، میں بیگانگی مسلسل بڑھتی گئی۔ اسرائیلیوں کی بڑھتی تعداد اب جان رہی ہے کہ امن اور جنگ کا سوال نتنیاہو کی ذاتی طاقت سے منسلک ہے اور اس کا اکثریت کے مفادات کے تحفظ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی پالیسیوں نے اسرائیلی سرمایہ دار طبقے کے ایک انتہائی اہم اوزار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیلی سرمایہ داری کے طویل معیاد مفادات کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔
نتنیاہو اور سامراج
نتنیاہو کی تنگ نظر خود پرستانہ پالیسیوں نے صرف اسرائیلی سرمایہ داری کے لئے ہی خطرے پیدا نہیں کئے ہیں بلکہ پورے خطے میں امریکی سامراج کے مفادات کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ عراق اور افغانستان کی سامراجی جنگوں میں شکست اور 2011ء میں عرب بہار انقلابات سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کے بعد امریکی سامراج بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کا اظہار مختلف علاقائی طاقتوں جیسے ایران، ترکی، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان قلا بازیوں میں ہو رہا ہے۔
صدر اوباما کے دورِ حکومت میں امریکہ نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے مذاکرات اور معاہدوں پر زیادہ انحصار اور خطے میں براہ راست سامراجی مداخلت سے پرہیز کی پالیسی اپنانی شروع کی۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا لیکن اس نے روایتی امریکی اتحادیوں، خاص طور پر سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ کر دیے۔ اس کا اظہار شامی خانہ جنگی ہے جہاں ایک طرف روس اور ایران جیسے اہم کھلاڑیوں اور دوسری طرف ترکی اور سعودی عرب جیسی علاقائی قوتوں کو مداخلت کا موقع ملا۔ سب پسِ پردہ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں یا پھر امریکی سامراج کے ساتھ براہ ِراست متصادم ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ خطے میں امریکہ کی حیثیت ثانوی ہو چکی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کا مقصد کچھ ناراض سابق امریکی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش تھا۔ لیکن اگر امریکی سامراجی مفادات کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان پالیسیوں نے اور بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا اظہار فلسطینی مسئلے پر امریکی پوزیشن سے بھی ہوا۔ غیر جانبداری کا ناٹک ترک کرتے ہوئے امریکہ نے کھلم کھلا نتنیاہو کا ساتھ دیا۔ اس خطرناک کھیل نے خطے میں تمام عرب آمریتوں کے لئے عدم استحکام مزید بڑھا دیا جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں معمول یا بہتری کا پرچار کر رہی تھیں۔
بائیڈن کی سربراہی میں نئی امریکی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ موجودہ بحران کے نتیجے میں بے قابو ہونے والی رجعتی اور انقلابی قوتوں کے جِن کو امریکی آشیرباد میں کثیر جہتی مذاکرات کے ذریعے دوبارہ بوتل میں بند کر کے حالات دوبارہ معمول پر لائے جائیں۔ مگر یہ کوشش ناکام ہو گی۔
اس حکمت عملی کو نتنیاہو کی ایران کے خلاف جنگی اشتعال انگیزی (جو کچھ اثناء میں اسرائیلی فوجی اعلیٰ حکام کے لئے بھی بہت زیادہ مشکوک اورمہم جوانہ تھی) اور فلسطینیوں کے خلاف جبر میں بے پناہ اضافے نے بہت کمزور کر دیا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ خطے میں امریکی سامراج کی اتحادی عرب آمریتوں کے استحکام کے حوالے سے انتہائی کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
اسرائیلی ریاست کے آغاز سے خطے کی رجعتی عرب آمریتوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو فلسطینیوں کا محافظ بنا کر پیش کیا ہے تاکہ اپنی جابرانہ اور سامراج نواز پالیسیوں سے پردہ پوشی کی جا سکے۔ فلسطینیوں پر ہونے والے جبر پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے انہوں نے اپنے عوام پر جبر کے ساتھ اسرائیلی ریاست کو فلسطینیوں پر جبر کرنے میں مدد بھی کی ہے۔ لیکن فلسطینیوں پر بڑھتے اسرائیلی جبر میں ان پر بھی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں غزہ بمباری کے دوران کئی عرب حکمرانوں کی شرمناک خاموشی نے ان کی عوام میں ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ ان آمریتوں کی بھاری اکثریت خود اپنے اندرونی بحرانوں میں پھنسی ہوئی ہیں اور مصر، اردن اور سعودی عرب سے لے کر تمام گلف ممالک کو اپنی ہی عوام کی ممکنہ انقلابی بغاوت کا سامنا ہے۔
اس وقت خطے کے سرمایہ داروں اور سامراجیوں پر 2011ء کے عرب انقلابات اور 2019ء کی انقلابی بغاوتیں بھوت بن کر منڈلا رہی ہیں۔ اسرائیلی جبر کے خلاف پھٹنے والی فلسطینی عوام کی متحد دیو ہیکل تحریک نے ان ادوار کی یاد کو عوام اور حکمرانوں، دونوں کے ذہنوں میں تازہ کر دیا ہے۔ امریکی سامراج کو اچھی طرح ادراک ہے کہ فلسطینی آزادی کی تحریک کا پورے خطے کی جابرانہ تسلط میں پسی عوام پر کیا اثر ہوتا ہے۔ نتنیاہو کی اشتعال انگیزی نے خطے میں امریکی پالیسی کے ایک اہم ستون، امریکی اتحادی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کو بھی بہت کمزور کیا ہے۔ ہر حوالے سے نتنیاہو امریکی سامراج کے لئے شدید دردِ سر بن رہا تھا۔
حکمران طبقے میں دراڑیں
ان تمام محرکات کے نتیجے میں اسرائیلی بورژوازی میں ایک دراڑ پیدا ہو گئی جس میں ایک دھڑے کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا کہ اگر سیاسی صورتحال میں مزید عدم استحکام روکنا ہے تو نتنیاہو سے جان چھڑانی ہو گی۔ اس کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے کئی کاوشیں ہو چکی ہیں۔ سرمایہ دار طبقے کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی پارٹی اس قابل ہی نہیں کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرے۔ اگرچہ نتنیاہو اور اس کی لیکود پارٹی کمزور ہوئی ہیں لیکن دیگر بورژوا پارٹیوں کے حالات اور بھی خراب ہیں۔
نتنیاہو پر سب سے پہلا وار اس کے خلاف کرپشن کے الزامات کو زبان زد عام کر کے کیا گیا۔ پھر نتنیاہو کے طویل عرصے سے اتحادی یسرائیل بیتینو پارٹی کے قائد آویگنور لائیبرمان کو بورژوازی نے مجبور کیا کہ وہ 2019ء کے عام انتخابات کے بعد مخلوط حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دے۔ ان انتخابات میں حکمران طبقے نے بینی گانتز اور یائر لاپید کی سربراہی میں کاہول لاوان (نام نہاد ’معتدل اتحاد‘) نامی اتحاد بنانے کی کوشش کی۔ لیکن نتنیاہو کو ہٹایا نہ جا سکا جس کے بعد گانتز نے نتنیاہو کی مخلوط حکومت میں شامل ہو کر اپنی ساکھ بالکل ختم کر دی کیونکہ وہ اپنے دشمن کی سربراہی میں کام کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ اس تمام سیاسی بحران کی وجہ سے پچھلے دو سالوں میں چار عام انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔
ایک طرف نتنیاہو کے خلاف کرپشن الزامات کا انبار لگ رہا تھا تو دوسری طرف اس کے اتحادی اور پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کی بڑھتی تعداد اس کے خلاف ہو رہی تھی۔ ان میں سے ایک گیدیون ساآر ہے اور دیگر میں دائیں بازو یمینا پارٹی کے نفتالی بینیت اور آیالیت شاکیل ہیں۔ کورونا وباء سے پھٹنے والے معاشی بحران نے سیاسی اور سماجی عدم استحکام کو اور زیادہ ہوا دی ہے۔
مارچ میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے بعد نتنیاہو نے ایک مرتبہ پھر اپنے اقتدار کو درپیش چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے اور بھی زیادہ ہولناک فلسطینی عوام مخالف جابرانہ اقدامات کئے جس کا براہِ راست نتیجہ شیخ جراح اور الاقصیٰ کی جھڑپیں اور حماس کے ساتھ لڑائی تھی۔ لیکن ماضی کی طرح ان اقدامات سے درکار نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ سب سے پہلا مسئلہ یہ تھا کہ اسرائیلی اکثریت کو الاقصیٰ مسجد میں اشتعال انگیزی اور غزہ بمباری مہم پر شدید تحفظات تھے۔ پھر ایک قادرومطلق صیہونی ریاست کی منظر کشی کے برعکس لڑائی کا انجام تعطل تھا کیونکہ اسرائیلی ریاست کی سرحدوں میں ایک فلسطینی عوامی تحریک پھوٹ پڑی تھی اور اس کے ساتھ ہی خطے اور پوری دنیا میں فلسطین یکجہتی احتجاج شروع ہو گئے تھے۔
اسرائیلی حکمران طبقے کے نکتہ نظر سے نتنیاہو ایک مصیبت بن چکا ہے۔ اس کے اقدامات صیہونی ریاست کی ساکھ کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ اس لئے حکمران طبقہ کسی بھی قیمت پر نتنیاہو کو ہٹانا چاہتا ہے اور اس کام میں نفتالی بینیت اور راآم پارٹی جیسے متضاد عناصر کو ایک اتحاد پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
نئی اور پرانی حکومت میں کوئی فرق نہیں
اسرائیلی محنت کش طبقے اور جبر کا شکار فلسطینی عوام کے نکتہ نظر سے اس حکومت کے پاس دینے کو کچھ نہیں۔ اس کا پروگرام ”نتنیاہو کے بغیر نتنیاہو کی سیاست“ ہے۔ حکمران طبقے کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ نتنیاہو کرپٹ ہے، فلسطینیوں پر جبر کر رہا ہے، نسل پرست ہے یا محنت کش طبقے کے معیارِ زندگی پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔ یہ سب اسرائیلی سرمایہ داری کا ناگزیر حصہ ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ نتنیاہو ان چالوں کو ننگا کرتے ہوئے اسرائیلی سماج کی پولرائزیشن کو ناقابل برداشت حدوں پر پہنچا رہا تھا جس سے ریاست اور اس کے اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہو رہی تھی۔
نام نہاد ”صیہونی لیفٹ“ (آوودا اور میریتز) کی حکومت میں شمولیت سے حکومت کا دائیں بازو کا ایجنڈا چھپ نہیں سکتا۔ نام نہاد لیبر پارٹی (آوودا) اور میریتز نے اپنا حقیقی رنگ دکھا دیا ہے۔ نام نہاد ”لیفٹ“ صیہونی پارٹیاں ہمیشہ دائیں بازو کی پارٹیوں کی دم چھلا رہی ہیں۔ اپنے آپ کو ترقی پسند دکھا کر انہوں نے ہمیشہ کسی ایک دائیں بازو اور نسل پرست آباد کار پارٹی کی دوسری کے خلاف حمایت کی ہے۔ درحقیقت ”لیفٹ“ صیہونیت اپنے اندر ہی ایک متضاد اصطلاح ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ محنت کش طبقے کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ اسرائیلی حکمران طبقے کے صیہونی قوم پرست نظریات کا دفاع بھی کیا جائے۔
حکومت کی ساخت کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کہاں کھڑی ہے۔ نفتالی بینیت (یمینا) پہلے دو سال وزیر اعظم ہو گا جس کے بعد۔۔اگر مخلوط حکومت اتنا عرصہ چل پائی!۔۔اس کی جگہ یائر لاپید (یش آتد) آ جائے گا۔ بینیت ایک نسل پرست اور صیہونی آباد کاروں کا زبردست حامی ہے۔ وہ مغربی کنارے پر قبضے کا حامی ہے اور اس طرح کے بیانات دیتا رہتا ہے کہ ”میں نے بہت عرب مارے ہیں اور مجھے یہ بالکل غلط نہیں لگتا“۔
وزارتِ داخلہ انتہائی دائیں بازو یمینا کی آیا لیت شاکیل کے پاس جائے گی جس نے چند سال پہلے منعقد ہونے والے انتخابات میں اپنے اوپر فسطائیت کے الزامات لگانے والوں پر طنز کرتے ہوئے اپنے اوپر ”فسطائیت“ لیبل والے ایک پرفیوم کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”مجھے تو جمہوریت کی خوشبو آ رہی ہے!“۔ وزیرِ خزانہ آویگنور لائیبرمان ہو گا جو خود مغربی کنارے میں رہنے والا ایک صیہونی آباد کار ہے اور نتنیاہو کی حکومت میں وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع رہ چکا ہے۔ بینی گانتز وزیرِ دفاع ہی رہے گا، جس پوزیشن پر وہ حالیہ غزہ بمباری کے وقت نتنیاہو حکومت میں تھا۔ گانتز 2014ء میں غزہ پر فوج کشی اور بمباری کے دوران عسکری کمانڈر تھا۔ UN کے مطابق اس لڑائی میں 2 ہزار 300 فلسطینی مارے گئے تھے جن میں سے دو تہائی عام شہری تھے۔
ایک انقلابی متبادل کی ضرورت
یہ ”نتنیاہو مخالف اتحاد“ انتہائی کمزور ہے اور جلد ہی اس میں زہریلی آپسی لڑائیاں کھل جائیں گی۔ اگر آج اسرائیل میں ایک حقیقی انقلابی پارٹی موجود ہوتی تو حکمران طبقے میں دراڑوں اور اس کی پارٹیوں کی برباد ساکھ اور دھڑے بندیوں سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اسرائیلی سرمایہ دار طبقے سے اسرائیلی یہودی محنت کشوں کی ایک قابل ذکر پرت کو علیحدہ کر کے ایک آزادانہ طبقاتی پوزیشن کے لئے جیتا جا سکتا تھا۔
لیکن فی الحال اسرائیلی لیفٹ میں ایسی کوئی پارٹی موجود نہیں جو اس موقعے سے استفادہ حاصل کر سکے۔ امتیازی سلوک، مسلسل جنگ، فلسطینی عوام پر جبر اور روایتی پارٹیوں کی کرپشن کے خلاف سب سے بڑی اسرائیلی لیفٹ پارٹی ہداش ہے، ایک ایسا اتحاد جس میں سب سے بڑی پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف اسرائیل (ماکی) ہے۔ ہداش زیادہ ”جمہوریت“ کا مطالبہ کرتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟ بورژوا پارلیمانی جمہوریت؟ عہدوں کے لئے کرپشن اور لڑائی، مارکس کے مطابق جس کے ذریعے حکمران طبقہ فیصلہ کرتا ہے کہ ان کے کون سے نمائندے عوام پر ”جبر اور ان کی نمائندگی“ کریں گے؟ درحقیقت سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اسرائیلی سامراجیت، فلسطینیوں پر جبر، کرپشن اور استحصال کو کبھی بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل میں کوئی ”بدقسمت“ اور حادثاتی صورتحال نہیں ہے۔ آج سرمایہ داری یہی کچھ دے سکتی ہے۔ آج کی موجودہ غلاظت کے بغیر اسرائیلی سرمایہ داری ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس لئے اخلاقیات کا درس یا ”جمہوریت“ اور ”امن“ کے لئے تجریدی مطالبات بے معنی اور لایعنی ہیں۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت بورژوا اسرائیلی ریاست کا خاتمہ ہے۔
پچھلے کچھ ہفتوں میں ہم نے فلسطینی نوجوانوں کی ولولہ انگیز عوامی تحریک دیکھی ہے۔ لیکن انہیں گلی محلوں میں منظم کر کے اسرائیلی ریاست کے خاتمے کی جدوجہد کرنے کے بجائے ہداش بانجھ امن پسندی کا پرچار کرتی رہی ہے۔ ان کے نعروں میں ”جنگ کے خلاف“، ”عرب اور یہودی آپسی دشمنی سے انکار کرتے ہیں“، ”غزہ اور بیر شیوا کے بچے جینا چاہتے ہیں“ وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن یہ اخلاقی اپیلیں کس سے کی جا رہی ہیں؟ نتنیاہو حکومت سے؟ عسکری اعلیٰ قیادت سے؟ لبرل صیہونیوں سے؟
رجعتی جنگ کی مخالفت درست ہے لیکن لبرل امن پسندی کے ذریعے موجودہ جبر کے گھن چکر سے کبھی باہر نہیں نکلا جا سکتا۔ ہر سامراجی ”امن“ کی بنیاد نسل پرستی، امتیازی سلوک، زمینوں پر قبضے اور بے دخلی اور فلسطینی عوام کے احتجاجوں پر جبری تشدد ہے۔ اس میں وقتاً فوقتاً سامراجی جنگ کا دور بھی آتا ہے جو انہی اہداف کو پورا کرنے کا ایک مختلف طریقہ ہے۔ جنگ کے بعد نیا ”امن“ کا دور شروع ہو جاتا ہے اور یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا ہولناک گھن چکر ہے۔ جبر کے اس گھن چکر کے پیچھے چھپے طبقاتی مفادات کو انتہائی بے دردی اور سفاکی سے ننگا کرنا لازم ہے۔ اس وقت عالمی سرمایہ داری اور سامراجیت کے خلاف طبقاتی جدوجہد، طبقاتی یکجہتی اور پرولتاری عالمگیریت کے ذریعے عالمی سطح پر انقلابی تحریک کی صورت میں ہی رجعتی اسرائیلی ریاست کی قوم پرستی کے خلاف کامیاب جدوجہد کی جا سکتی ہے۔
اسرائیل اور فلسطین میں اس وقت ایک حقیقی مارکسی انقلابی تنظیم کی ضرورت ہے جو اسرائیلی سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کا ٹھوس تناظر پیش کرے جس میں اسرائیلی یہودی اور فلسطینی عوام خطے کی دیگر اقوام کے ساتھ پر امن زندگی گزار سکیں۔ آج تاریخی فلسطین میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی سب سے زیادہ انقلابی اور ترقی پسند پرتوں کو درپیش یہی سب سے اہم فریضہ ہے۔