|تحریر: جوناتھن ہنکلی، ترجمہ: فرحان رشید|
حماس کو تباہ کرنے یا مغویوں کی بازیابی میں ناکامی کے بعد، یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اسرائیل کی حکمت عملی بدل چکی ہے۔ شمالی غزہ میں باقی ماندہ پوری آبادی، یعنی تقریباً چار لاکھ مرد، عورتیں اور بچے نسلی بنیادوں پر قتلِ عام کی پالیسی کا شکار ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اندھا دھند بمباری اور چن چن کے گولیاں مار کے لوگوں کو جنوب کی طرف بھگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ علاقے کو دانستہ طور پر بھوک کا شکار بنایا جا رہا ہے اور اس کا طبی نظام برباد کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو ایک انتخاب دیا گیا ہے: یا تو سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جائیں، یا مر جائیں۔
یہ حقیقت کہ اسرائیل نے اب ایک سڑک بنا لی ہے جو غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ اس منصوبے کا اطلاق ہے جس کو ”جرنیل کا منصوبہ“ کہا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ، جس کا مطالعہ نیتن یاہو نے کیا ہے، یہودی آباد کاروں کے لیے وہاں نو آبادیاتی بستیوں کے قیام کی تیاری کے لیے شمالی غزہ کو خالی کروائے گا۔
یہ نسلی تطہیر ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے ”قتل عام کے اندر ایک اور قتل عام“ قرار دیا ہے۔ شواہد اتنے خوفناک اور ناقابل تردید ہیں کہ حتیٰ کہ امریکہ کو بھی اس قتل عام سے فاصلہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ لیکن اس ناقابل تصور ظلم کو روکنے کے لیے انہوں نے اب تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ پہلے مغربی سیاست دان اس بات پر بحث کرتے تھے کہ آیا غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے نسل کشی کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اب اسرائیل کی پالیسی بالکل عیاں ہو چکی ہے۔
’شکست تسلیم کرو یا بھوک سے مرو‘
ایک سال سے زیادہ عرصے سے، اسرائیل زمین کے سب سے گنجان آباد شہری علاقوں میں سے ایک پر جدید مغربی ہتھیاروں کے ذریعے اندھا دھند بمباری کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں غزہ ناقابل تلافی حد تک جلی ہوئی عمارتوں اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ 80 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں، بنیادی ڈھانچہ تباہی کے دہانے پر ہے، اور بیماریاں اور قحط پھیل چکے ہیں۔ 2022ء سے پہلے کی اوسط شرح نمو کی بنیاد پر اندازہ لگایا گیا ہے کہ غزہ کی معیشت کو جنگ سے پہلے والی سطح پر واپس آنے میں 350 سال لگیں گے۔
اسرائیل اپنی عسکری برتری اور غزہ کی پٹی میں ہر قیمتی چیز تباہ کر دینے کے باوجود فیصلہ کن فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جنگ کے ہر مرحلے میں اسرائیلی افواج جس کسی علاقے پر قبضہ کرتی ہیں تو وقتی طور پر علاقہ خالی ہوتا ہے لیکن جیسے ہی وہ اگلے ہدف کی طرف بڑھتی ہیں اس علاقے میں پھر کچھ عرصہ بعد حماس کے جنگجو واپس آ جاتے ہیں۔ حماس کے ہر جنگجو کے مارے جانے پر، دس مزید نوجوان جو سب کچھ کھو چکے ہیں، اس کی جگہ لینے کو تیار ہیں۔
اب جب کہ اسرائیل نے لبنان میں ایک نیا محاذ کھول دیا ہے، اسرائیل کے مختلف سیاستدان اور جرنیل نیتن یاہو پر زور دے رہے ہیں کہ وہ غزہ میں مہنگی جنگ کو ختم کرے۔ لیکن اختتام کی صورت کیا ہو گی؟ ایک ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل اور قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ جیورا ایلینڈ، نے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جسے ”جرنیل کا منصوبہ“ کے نام سے جانا جا رہا ہے، اس منصوبے میں شمالی غزہ کو فلسطینی آبادی سے صاف کرنا شامل ہے، اور یہ منصوبہ اسرائیلی حکومت کی اعلیٰ سطحوں پر وسیع پیمانے پر زیرِ غور ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کی خارجہ امور اور دفاعی کمیٹی (Knesset Foreign Affairs and Defense) کے ایک اندرونی اجلاس میں ایلینڈ نے وضاحت کی:
”ہمیں شمالی غزہ کے رہائشیوں کو بتانا ہو گا کہ ان کے پاس یہ علاقہ خالی کرنے کے لیے ایک ہفتہ ہے، جو کہ بعد میں ایک فوجی زون بن جائے گا؛ ایسا علاقہ جس میں ہر فرد ہدف ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس علاقے میں کوئی رسد داخل نہیں ہو گی۔“
ایک انٹرویو میں ایلینڈ نے اپنے خیالات کو اور بھی واضح طور پر بیان کیا۔ اس کے بقول، پوری شہری آبادی کے خلاف وسیع پیمانے پر دہشت کی ضرورت ہے:
”یہ حقیقت کہ ہم غزہ کو دی جانے والی انسانی امداد کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں، ایک سنگین غلطی ہے۔۔۔ غزہ کو مکمل طور پر تباہ ہونا چاہیے، ہولناک افراتفری، شدید انسانی بحران، آسمان تک بلند ہونے والی فریادیں۔۔۔“
بعد میں اس نے کہا:
”پورا غزہ بھوک کا شکار ہو جائے گا اور جب غزہ بھوک سے تڑپے گا، تو لاکھوں فلسطینی غصے اور پریشانی کا شکار ہوں گے۔ اور یہ بھوکے لوگ ہی ہوں گے جو یحییٰ سنوار کے خلاف بغاوت برپا کریں گے۔“
ایلینڈ اس منصوبے کو وادی غزہ کے شمالی علاقے میں نافذ کرانے کا عزم رکھتا ہے: وادی غزہ کے شمالی علاقے، جس میں شمالی غزہ اور غزہ شہر شامل ہیں، جہاں اب بھی چار لاکھ فلسطینی موجود ہیں، جو غزہ کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ اس کے بعد، جیسا کہ کنیسٹ میں اس کے حامیوں نے وضاحت کی، ”اس پروگرام کو اس علاقے میں نافذ کرنے کے بعد، اسے غزہ کی پٹی کے دیگر حصوں میں بھی نافذ کرنا ممکن ہے۔“
کنیسٹ کے 120 میں سے 27 اراکین نے اس منصوبے کی کھلے عام حمایت کی ہے۔ یہ منصوبہ خاص طور پر اسرائیل کے جنونی انتہائی دائیں بازو کے آباد کاروں کے نمائندوں میں مقبول ہے۔ ان کے لیے شمالی غزہ کی مکمل تطہیر اور بعد میں پوری پٹی کی تطہیر کا مطلب اسے ضم کرنے اور وہاں آباد ہونے کا موقع ہو گا۔ پچھلے ہفتے ”غزہ کی دوبارہ آبادکاری کی تیاری“ کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں غزہ کے دھوئیں سے بھرے کھنڈرات کو دیکھتے ہوئے لیکوڈ پارٹی کے دس اراکین اور سینئر وزراء جیسے سموترچ اور بن گویر نے شرکت کی۔
نتن یاہو نے خود واضح طور پر اس متنازعہ منصوبے کی حمایت نہیں کی۔ لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے اس نے یہ کہا کہ یہ منصوبہ ”بہت معنی خیز ہے“۔ ہم نتن یاہو کے بارے میں جو جانتے ہیں یہ اس سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ 2009ء میں دی گارڈین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں میکس ہیسٹنگز نے 1977ء میں یروشلم میں منعقدہ ایک عشائیے کے بارے میں بتایا:
”میں نے ایک نوجوان اسرائیلی کو عربوں کے بارے میں ایسی باتیں کرتے سنا جو سن کر میری روح کانپ گئی۔ اس نے کہا، ’اگلی جنگ میں، ہم نے فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے مغربی کنارے سے نکال دینا ہے‘ وہ نوجوان اسرائیلی، جسے میں نے مغربی کنارے کو عربوں سے خالی کرنے کے بارے میں جوش و خروش سے بات کرتے سنا، بن یامین نتن یاہو تھا، جو آج ملک کا وزیراعظم ہے۔“
لیکن چاہے یہ باضابطہ طور پر نتن یاہو اور اس کی حکومت کی پالیسی ہو یا نہ ہو، تمام اشارے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیل بالکل اسی طرح کر رہا ہے جیسا کہ منصوبے میں تجویز کیا گیا ہے۔
شمالی غزہ پر ایک نئی ناکہ بندی کا آغاز ہو چکا ہے، جس میں اسرائیلی فوج کے سپاہی اور اعلیٰ دفاعی حکام دونوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ”شکست تسلیم کرو یا بھوک سے مرو“ کی پالیسی نافذ کر کے اصل مقصد اس علاقے کو خالی کرانا ہے۔
نسل کشی کے اندر ایک اور نسل کشی
یکم اکتوبر کو، اسرائیل نے نتساریم کوریڈور سے اوپر رہنے والے تمام چار لاکھ لوگوں کو انخلا کا حکم دیا، بالکل اسی طرح جیسے جرنیل کے منصوبے میں نقشہ کھینچا گیا۔
یہ علاقہ، جہاں پہلے گیارہ لاکھ لوگ آباد تھے اور جس میں غزہ شہر بھی شامل تھا، جو اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، ایک سال کی مسلسل بمباری اور دو محاصروں کے باعث پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے۔ لیکن اب، اکتوبر کے آغاز سے، اسرائیلی دفاعی فوج نے شمالی غزہ کو باقی پٹی سے الگ کر کے اس پر ایک نیا محاصرہ لگا دیا ہے، جس کا نشانہ پوری آبادی ہے۔
ستمبر سے شمال کی طرف امداد کو انتہائی کم کر دیا گیا تھا، اور اکتوبر کے آغاز سے کوئی خوراک، پانی، ایندھن یا امداد اندر نہیں آنے دی گئی۔ نکاسی آب اور پانی کے بنیادی ڈھانچے کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیلی فضائی حملوں میں ایک بیکری اور دو پانی کے کنویں چھوڑ کے سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔
حال ہی میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی امداد پہنچانے والی تنظیم UNRWA پر پابندی عائد کر دی ہے، جو غزہ کے لوگوں کے لیے زندگی کی اہم ڈور تھا۔ یہ بھیجرنیل کے منصوبے کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ ایلیانڈ نے کہا، ”پورا غزہ بھوکا مرے گا۔“
اس فاقہ کشی کی پالیسی کے ساتھ دہشت گردی کی مہم بھی جاری ہے۔ دی نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ روزانہ بچوں کے سر اور سینے میں گولی مارنے کے واقعات دیکھے جا رہے ہیں اور وہ یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ جان بوجھ کر کی جانے والی ہلاکتیں ہیں۔ اس کا مقصد صرف ایک ہی ہو سکتا ہے: پوری آبادی کو خوفزدہ کرنا اور یہ پیغام دینا کہ اگر آپ شمالی غزہ میں رہیں گے، چاہے آپ کوئی بھی ہوں، ہم آپ کو مارنے کی کوشش کریں گے۔
جبالیہ، جو پہلے غزہ کا سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ تھا اور 1980ء کی دہائی میں پہلی انتفادہ کا نقطہ آغاز تھا، کے اندر موجود پناہ گزینوں کو وہاں سے ہٹانے اور گرفتار کرنے کے لیے اسرائیل ہر گھر گھر اور ہر سکول پر چھاپے مار رہا ہے۔
بعد میں عمارتوں کو تباہ کر دیا جاتا ہے تاکہ کوئی واپس نہ آ سکے۔ پچھلے چند دنوں میں جبالیہ میں تین اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ ایک موقع پر، ایک اسکول جو پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، بمباری کا نشانہ بنا، جس میں بچوں اور ڈاکٹروں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے اس بم سے لگنے والی آگ کو بجھانے کا کوئی رستہ نہیں تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ شمالی غزہ میں باقی بچی ہوئی آخری فائر بریگیڈ گاڑیوں کو جان بوجھ کر تباہ کر دیا گیا ہے تاکہ آگ اپنا کام کر سکے۔
آنکھوں پر پٹی باندھے، ننگے اور تاروں سے بندھے فلسطینی لڑکوں اور مردوں کے ہجوم کو ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے جن کو تفتیش کے لیے بندوق کی نوک پر لے جایا جا رہا ہے۔ 13 سال سے زیادہ عمر کے تمام لڑکوں اور مردوں کو مشتبہ جنگجو سمجھا جا رہا ہے۔ کچھ کو اغوا کر کے اسرائیلی چھاپوں میں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، انہیں اسرائیل کے فوجیوں سے پہلے عمارتوں یا سرنگوں میں داخل ہونے پر مجبور کیا گیا تاکہ مختلف شکنجوں اور خفیہ بارودی سرنگوں سے بچ سکیں۔ خواتین اور بچوں کو، مردوں اور بڑے لڑکوں سے علیحدہ کرنے کے بعد، جنوب کی طرف سفر کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
دوبارہ، یہاں ایلیانڈ کے”جرنیل کے منصوبے“ کی وضاحت کے الفاظ سے اقتباس صادق آتا ہے کہ: ”ہر شخص نشانہ ہے“۔
تین میں سے دو ہسپتال غیر فعال کر دیے گئے ہیں۔ انڈونیشین ہسپتال، جو غزہ کے باقی ماندہ بڑے ہسپتالوں میں سے ایک تھا، میں زخمیوں کی بڑی تعداد کے سبب طبی عملہ مجبور تھا کہ اس نے لوگوں کو خون بہہ جانے سے مرنے دیا۔ ہسپتال کے بالکل ساتھ، اسرائیل نے ایک فوجی اڈہ اور تفتیشی مرکز قائم کر دیا ہے، جس سے کسی کو اندر یا باہر جانے کی اجازت نہیں۔ نتیجتاً، مردوں کو اسپتال کے احاطے کے اندر ہی دفن کرنا پڑا۔
آخری فعال ہسپتال، کمال عدوان، چار ہفتوں سے بجلی اور طبی سامان سے محروم ہے۔ جمعہ کو، ایک بم حملے کے بعد جس نے اس کی آکسیجن سپلائی تباہ کر دی، اسرائیلی فوج کے سپاہیوں نے اس پر چھاپہ مارا۔ تمام طبی عملے کو یا تو نکال دیا گیا یا گرفتار کر لیا گیا اور سینکڑوں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے بچوں کے امراض کے ایک ڈاکٹر کو باقی چھوڑا گیا۔ شمالی غزہ میں اب کوئی طبی سہولت موجود نہیں۔ لاشوں کو ہٹانے یا ملبے سے لوگوں کو نکالنے کے لیے جاری کاروائیوں کو اسرائیلیوں نے روک دیا ہے۔ سڑکوں پر لاشیں بکھری ہوئی ہیں، جس سے بیماری پھیلنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ یو این آر ڈبلیو اے کے سربراہ کے مطابق، ”ہر طرف موت کی بو ہے“۔
دوبارہ، اس کا کوئی اور مقصد نہیں سوائے شمال میں رہنے والوں کو یہ پیغام دینے کے کہ: اگر آپ رہیں گے تو آپ مر جائیں گے۔
اور وہ لوگ جو بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، کہاں جائیں؟ پورا غزہ کھنڈر بن چکا ہے۔ ایک عورت نے، جو ایک چھوٹے بچے کے ساتھ بھاگ رہی تھی، بی بی سی کو بتایا:
”انہوں نے ہمیں پانچ منٹ دیے کہ ہم فالوجہ سکول چھوڑ دیں۔ ہم کہاں جائیں؟ جنوبی غزہ میں قتل کیا جا رہا ہے۔ مغربی غزہ میں گولہ باری ہو رہی ہے۔ یا خدایا! ہم کہاں جائیں؟“
ایک اور غزہ کے رہائشی کے مطابق، جسے جبالیہ سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا، آئی ڈی ایف کے سپاہیوں نے اسے کہا، ”جنوب چلے جاؤ؛ تم کبھی شمال واپس نہیں آؤ گے۔ شمال ہمارا ہو گا، اور ہم وہاں بستیوں کی تعمیر کریں گے۔“ پہلے ہی، آباد کاروں کے ایک گروہ نے شمالی غزہ کی سرحد پر دھاوا بول دیا ہے، اور وہ اس کی مکمل صفائی کا انتظار کر رہے ہیں۔
حقائق واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ نتن یاہو کی حکومت کسی نہ کسی شکل میں جرنیل کے منصوبے کو نافذ کر رہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے وضاحت کی ہے، ہم شمالی غزہ کی نسلی تطہیر دیکھ رہے ہیں۔
مغربی سامراج کے ہاتھ خون آلود ہیں!
گزشتہ سال 7 اکتوبر سے دنیا کی سب سے”اخلاق یافتہ“ فوج نے غزہ کی شہری آبادیوں پر جان بوجھ کر انتہای بربریت کے ساتھ حملہ کیا ہے۔ اس نے بغیر کسی توقف کے ہسپتالوں، سکولوں اور پناہ گزین کیمپوں پر موت اور تباہی کی برسات کی ہے۔ اس نے منظم طریقے سے تشدد، عصمت دری اور قتلِ عام کیا ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کے امن کے محافظوں پر سفید فاسفورس سے حملہ کیا۔ انہوں نے صحافیوں، امریکی شہریوں، برطانوی طبی عملے سمیت متعد فلسطینی عورتوں، بچوں اور دیگر غیر مسلح افراد کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے۔
ان سب کا مقصد فلسطینیوں کے لیے زندگی ناممکن بنا دینا ہے تاکہ وہ اپنی مادرِ ملت کو چھوڑ کر جلاوطن ہو جائیں۔ کسی بھی تعریف کی رو سے یہ سب جنگی جرائم ہیں۔ اور اس سب کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
امریکہ نے حال ہی میں نیتن یاہو پر تشدد کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اسرائیل کو بھیجے گئے ایک حالیہ خط میں ”سنگین“ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے شمالی غزہ میں امداد کی بحالی سمیت ”فوری“ اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بصورت دیگر، وہ دھمکی دیتے ہیں کہ اس کے امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو دیے جانے والے اربوں ڈالر کے ہتھیاروں پر ”اثرات“ ہو سکتے ہیں۔
اگر امریکی سامراجی نمائندے واقعی فلسطینیوں کی زندگیاں بچانے کے بارے میں سنجیدہ ہوتے، تو وہ 24 گھنٹوں میں فوجی امداد روک کر اس قتل عام کو فوراً روک سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
در حقیقت، خط میں اسرائیل کو عملدر آمد کے لیے 30 دن دیے گئے ہیں، جو اتفاقاً امریکی انتخابات کے بعد ختم ہوتے ہیں، جس سے انتظامیہ کو، اگر یہ تبدیل نہیں ہوتی، تو یہ آپشن ملتا ہے کہ وہ انتخابات میں فوری ہار کے ڈر کے بغیر اپنے دھمکی آمیز مؤقف سے پیچھے ہٹ سکے۔
نیتن یاہو آزادی سے کچھ بھی کر سکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آخر میں، چاہے وہ کچھ بھی کرے، امریکہ اسرائیل کے ”اپنے دفاع کے حق“ یعنی جسے چاہے قتل کرنے کے حق کی حمایت میں اس کے ساتھ کھڑا ہو گا۔
مغربی سامراج کا اسرائیل کے ساتھ عہد ”آہنی“ ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لیے ایک ناقابلِ متبادل محافظ ہے۔ جیسا کہ جو بائیڈن نے کئی سال پہلے کہا تھا:
”یہ ہم 3 ارب ڈالر کی بہترین سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ایک اسرائیل ایجاد کرنا پڑتا۔“
اگرچہ امریکہ کے پاس اس قتل عام کو ختم کرنے کی طاقت ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ وہ اسرائیل کو کھونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل اس وقت تک جنگ بندی پر عمل نہیں کرے گا جب تک کہ اس کے پیچھے امریکہ موجود ہے۔ اگرچہ مغربی طاقتیں اسرائیل کی نسل کشی کی سب سے بدترین کاروائیوں سے تھوڑی دور ہوتی نظر آ رہی ہیں، لیکن جو بھی ہو، وہ اپنے اتحادی کی حمایت کریں گی۔ وہ اس میں شامل ہیں۔ بائیڈن، ہیریس، سٹارمر، شولتز، میکرون، ان سب کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے ہیں۔
اخلاقی اور سیاسی دباؤ کافی نہیں۔ یہ جرائم سامراجیت کی فطرت میں ہیں! خونریزی اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ مجرموں کے گروہ، جنگ پسند سیاست دانوں اور ان کی حمایت کرنے والے ارب پتیوں کا خاتمہ نہ کر دیا جائے۔
انسانیت کی بقا کے لیے سامراجیت کو مرنا ہو گا!