|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: ولید خان|
یکم اکتوبر کی صبح اسرائیلی فوج نے لبنانی سرحد عبور کرتے ہوئے ملک پر فوج کشی کا آغاز کر دیا۔ یہ نیا مرحلہ دو ہفتوں کی شدید بمباری کے بعد شروع ہوا ہے۔ یہ ایک شدید رجعتی جنگ ہے جس کی پشت پناہی امریکی اور مغربی سامراجی کر رہے ہیں۔ یہ جنگ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے پر تول رہی ہے جو کئی سال تک جاری رہ سکتی ہے اور انسانیت کو اس کی ہولناک قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
توقعات کے مطابق امریکہ اسرائیلی جارحیت کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔ تمام تر جھوٹ کے باوجود کہ ایک جنگ بندی لازم ہے، اسرائیل کو پتا تھا کہ واشنگٹن اس کی بھرپور حمایت کرے گا۔ وائٹ ہاوس قومی سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ فوج کشی ”اسرائیلی حق دفاع کے عین مطابق ہے جس کے تحت عوام کا تحفظ اور عوام کی اپنے گھروں کو محفوظ واپسی یقینی بنانا ہے۔ ہم حزب اللہ اور تمام ایرانی پشت پناہی کے حامل دہشت گرد گروہوں کے خلاف اسرائیلی حق دفاع کی بھرپور حمایت کرتے ہیں“۔
یہاں ہمیں نام نہاد ”قوانین پر مبنی نظام“ کی غلیظ منافقت اور دہرا معیار واضح طور پر نظر آتا ہے۔ جب روس نے دو ڈھائی سال پہلے یوکرین پر فوج کشی کی تو مذمت کا طوفان پھٹ پڑا، شدید غصے کا اظہار کیا گیا کہ ”سرحدوں کی حرمت“ کو پامال کیا گیا ہے، ”ایک خودمختار ملک کے خلاف جارحیت“ کی جا رہی ہے، جو ”عالمی قانون“ کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسے اعلیٰ اور برتر اصولوں کا ”ہم پر“ اطلاق نہیں ہوتا۔ اس اثنا میں قومی خود مختاری کی ناقابل برداشت پامالی ”محدود حملہ“ بن کر رہ جاتی ہے جو ”حق دفاع“ کے عین مطابق ہے۔ فلسطینیوں کا حق دفاع کہاں ہے جو غزہ میں ریزہ ریزہ ہو چکا ہے، دسیوں ہزاروں قتل ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد ہجرت اور بھوک کا شکار ہیں؟ لبنان کا حق دفاع کہاں ہے جہاں اب تک 2006ء کی اسرائیلی فوج کشی سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور اب تک 10 لاکھ سے زیادہ افراد مہاجر بن چکے ہیں۔
صرف لبنان پر ہی فوج کشی نہیں ہو رہی۔ پچھلے 24 گھنٹوں میں اسرائیل نے یمن اور شام میں اہداف پر حملہ کیا ہے جبکہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی فوج کشی مسلسل جاری ہے۔ ہر سامراجی جنگ کی طرح اس جنگ کے اہداف (شمالی سرحد پر اسرائیلی عوام کی حفاظت) کا صیہونی جارحیت سے دور دور کا تعلق نہیں۔
نیتن یاہو کو شمالی اسرائیل میں اپنے شہریوں کی اتنی ہی فکر ہے جتنی اسے غزہ میں یرغمالیوں کے حوالے سے پریشانی ہے۔ اگر اس میں کسی قسم کے انسانی جذبات ہوتے تو وہ کبھی بھی معاہدے کو دانستہ طور پر سبوتاژ نہ کرتا جس کے نتیجے میں یرغمالی بازیاب ہو جاتے اور ایسے سازگار حالات پیدا ہو جاتے کہ حزب اللہ کا سرحدی علاقوں پر راکٹ بمباری کا جواز ہی ختم ہو جاتا۔
ایک اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اس وقت وزیراعظم نتن یاہو اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک سال کے قتل عام اور تباہی و بربادی کے بعد بھی غزہ پر مسلط کردہ جنگ نے اپنا ایک ہدف حاصل نہیں کیا۔ (یرغمالیوں کی بازیابی، حماس کی تباہی) اور اس کی مقبولیت زمین بوس ہو چکی ہے جبکہ اسرائیلی عوام کی زیادہ سے زیادہ پرتیں اس کے خلاف احتجاجوں اور مظاہروں میں سڑکوں پر آ رہی ہیں۔
اسے ہر صورت اپنی ساکھ بحال کرنی ہے۔ کسی وجہ سے دوران جنگ یا اس کے بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں اگر وہ فارغ ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب مقدمات کی بھرمار اور شاید جیل تک ہو سکتا ہے۔ اس نے حساب لگایا ہے کہ لبنان کے خلاف ایک مہم اس کے مسائل حل کر سکتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ اسرائیلی حکمران طبقہ 2006ء میں لبنان پر فوج کشی کے بعد شرمناک شکست کا ازالہ کرنے کے لیے اس وقت سے مسلسل منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ واضح طور پر اس کے پاس حزب اللہ کے حوالے سے خفیہ معلومات کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کی بنیاد پر اسرائیل نے حملے کے پہلے مرحلے پر فیصلہ کن اقدامات اٹھائے ہیں۔ دہشت گردی کی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے اس نے حزب اللہ کی قیادت اڑا کر رکھ دی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کام میں کئی سو معصوم افراد کی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں۔
نتن یاہو نے ایک اور حساب بھی لگا رکھا ہے۔ ایران کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی کرتے ہوئے، خاص طور پر تہران میں حماس کے قائد اسماعیل ہانیہ کا قتل، اسرائیل امید لگائے بیٹھا ہے کہ ایران اعلانیہ اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع کر دے گا، جس میں امریکہ کو ناگزیر طور پر صیہونی ریاست کا ساتھ دینا پڑے گا۔ ایک علاقائی جنگ ناقابل فہم تباہی و بربادی اور خونریزی کر سکتی ہے لیکن نتن یاہو کی کھوپڑی میں اپنی کھال بچانے کے لیے یہ معمولی قیمت ہے۔
اس قسم کی جنگ کے ابتدائی خدوخال ابھی سے نظر آ رہے ہیں۔ یمنی حوثیوں نے اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے اور بحیرۂ روم میں موجود اسرائیلی تیل اور گیس نکالنے والے پلیٹ فارموں کو نشانہ بنانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ عراق میں بغداد ائرپورٹ پر موجود امریکی وکٹوریہ فوجی اڈے پر چار راکٹ داغے گئے ہیں۔ اسرائیل نے شام پر حملے کیے ہیں۔ امریکہ نے خطے میں مزید فوجی موجودگی بڑھانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں تاکہ ”دفاعی پوزیشنوں کو مزید مضبوط کیا جائے“۔
اسرائیلی اشتعال انگیزی کا ایران کیا جواب دے گا، اس حوالے سے بہت زیادہ قیاس آرائیاں ہوئی ہیں کہ اس کی نوعیت اور شدت کیا ہو گی۔ ایرانی ریاست اس وقت شدید مسائل کا شکار ہو چکی ہے۔ اندرون ملک بڑھتی عوامی مخالفت کے سامنے حالیہ عرصے میں اس کی حکمت عملی مکمل طور پر مغرب کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے پر لگی ہوئی ہے تاکہ پابندیوں کا خاتمہ ہو اور کچھ معاشی بحالی ہو۔
اس دوران اس نے خطے میں کئی مسلح گروہوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں (فلسطین، لبنان، یمن، عراق، شام)، اپنا حلقہ اثر و رسوخ بڑھایا ہے اور اپنے مرکزی علاقائی حریف اسرائیل کے گرد ایک حفاظتی حصار تشکیل دیا ہے۔ اب اس حفاظتی حصار پر اسرائیل حملہ آور ہے۔ اگر ایران کوئی جواب نہیں دیتا تو خطے میں اس کی ساکھ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائے گی۔ اسرائیل کا حتمی ہدف ایرانی جوہری اور عسکری قوتوں کی تباہی و بربادی ہے۔ ایران میں کوئی بھی حکومت اگر اپنی بقا چاہتی ہے تو اسے جواب دینا پڑے گا۔
اب یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی قسمت کا فیصلہ کیسے ایک فرد واحد کی چالبازیوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ اگرچہ ان واقعات میں نتن یاہو کی ذاتی مکاریوں نے ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے لیکن یہ بھی بالآخر زیر سطح عوامل کا اظہار ہے جو ایک عرصے سے پنپ رہے ہیں۔
عالمی تعلقات میں ایک طرف امریکہ کھڑا ہے جبکہ دوسری طرف چین اور روس کھڑے ہیں۔ اول الذکر دنیا کی سب سے طاقتور سامراجی قوت ہے لیکن اس وقت وہ نسبتی گراوٹ کا شکار ہے (اس گراوٹ کے نسبتی کردار کو انتہائی سنجیدگی سے مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے)۔ عراق اور افغانستان میں شکستیں، شامی خانہ جنگی میں مداخلت میں بانجھ پن اور عرب انقلاب کے دوران سب سے زیادہ قابل اعتماد حامیوں کی امیدوں کو ٹھیس پہنچانا۔ ان سب کے بعد امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں ماضی کی طرح اجارہ داری قائم نہیں رہی اور پورے خطے میں اس کا اب ایک ہی یقینی اتحادی رہ گیا ہے جس کا نام اسرائیل ہے۔
ہم نے پچھلے ایک سال میں اس تعلق کی نوعیت اور مختلف پہلو دیکھے ہیں۔ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ اسرائیل غزہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دے۔ اس لیے نہیں کہ وہ انسانیت کے دکھ میں مرے جا رہے ہیں بلکہ انہیں خوف ہے کہ اسرائیل کے خوفناک پرتشدد اقدامات کے نتیجے میں اردن، مصر اور دیگر ممالک میں انقلابات پھٹ سکتے ہیں۔ آخر کار ان ممالک پر امریکہ بھی تکیہ کیے بیٹھا ہے۔ واشنگٹن ایک علاقائی جنگ میں براہِ راست مداخلت کا حامی نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ اسے مشرق وسطیٰ میں انسانی جانوں کا دکھ بھرا احساس ہے (آخر انہوں نے اسی خطے میں پچھلے بیس سالوں میں لاکھوں افراد قتل کیے ہیں) بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں امریکہ کو اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی (مالیاتی اور جانی) جب وہ یوکرین میں ہارتی جنگ میں پھنسا ہوا ہے اور کسی قسم کی عدم توجہ مرکزی دشمن چین سے نظریں ہٹا دے گی۔
لیکن ان تمام تر خدشات کے باوجود سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ خطے میں امریکہ کا سب سے قابل اعتماد اتحادی اسرائیل ہے اور اس کی ناکامی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ بائیڈن کبھی کبھی نتن یاہو پر ہلکی پھلکی تنقید کر لیتا ہے، اس نے اسرائیلی وزیر دفاع گانتز کو اس کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور مخصوص عسکری سامان روکنے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ لیکن اس نے ہمیشہ ہر لمحہ اسرائیل کا ساتھ دیا ہے۔
حقیقی تعلق کو کبھی بھی میڈیا میں نہیں بتایا جاتا کہ ایک بیمار صدر کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔ اسرائیل کے عسکری بجٹ کا سالانہ 10 فیصد امریکہ ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگی حالات میں امریکہ اربوں ڈالر اور نچھاور کرتا ہے جیسے اس سال کے اوائل میں 8 ارب ڈالر کا نیا پیکج دیا گیا۔
پھر اگر امریکہ اسلحوں کے لائسنس منسوخ کرتا ہے تو اسرائیلی فوج کے پاس اسلحہ کم یا ناپید ہو جائے گا اور گولہ بارود تو کسی صورت نہیں بچے گا۔ صیہونی ریاست کے پاس وہ وسائل موجود ہی نہیں ہیں جن کی بنیاد پر وہ اپنی پرتشدد رجعتی سامراجی جنگ جاری رکھ سکے۔ یہ تمام تباہی و بربادی امریکی فنڈنگ اور سپلائی کی مرہون منت ہے۔
یہ ایک واحد اوزار ہے جسے بائیڈن استعمال کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ اس کے برعکس اس نے پہلے دن سے ہر ایک ہتھیار، اسلحہ اور پیسہ ذاتی اور ریاستی گارنٹی کے ساتھ اسرائیل کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ نتن یاہو کو یہ سب اچھی طرح معلوم ہے۔ شائد بائیڈن نے سوچا ہو گا کہ اس طرح وہ نتن یاہو پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا لے گا یا اسے قابو کر لے گا۔ اس کا الٹ نتیجہ نکلا ہے۔ اسے اٹل یقین تھا کہ بائیڈن اس کی ہر صورت حمایت کرے گا اور نتن یاہو نے پھر ہر وہ کام کیا جس سے اسے فائدہ ہوتا ہے اور واشنگٹن کے تمام مفادات کو ٹھکرا دیا یا کم از کم نظر انداز کر دیا گیا۔
روس پہلے شامی خانہ جنگی میں ایک کلیدی کردار ادا کر چکا ہے جس کے نتیجے میں اس کا اتحادی بشار الاسد اقتدار پر قابض رہا جبکہ مختلف علاقائی قوتوں کے درمیان توازن کو بھی قائم رکھا گیا (ترکی، سعودی عرب، قطر وغیرہ)۔ چین نے بھی آگے بڑھ کر سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ کرایا جس میں امریکہ کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس کا آج سے 20 سال پہلے سوچنا بھی ناممکن تھا۔
جب یہ سارا کچھ ہور ہا تھا تو واشنگٹن ”ابراہام معاہدوں“ کی تکمیل پر لگا ہوا تھا تاکہ اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایوں میں تعلقات ”معمول“ پر آ جائیں۔ یہ عمل بہت زیادہ آگے بڑھ چکا تھا اور اس پوری گتھی کی آخری گرہ سعودی عرب کا معاملہ بھی حل ہونے جا رہا تھا۔ ایک سال پہلے اقوام متحدہ کے اجلاس عام میں نتن یاہو نے ایک نقشہ دکھایا جو اس کے مطابق ”نیا مشرق وسطیٰ“ تھا جس کے مطابق اسرائیل اردن، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سمیت مصر اور سوڈان کے ساتھ تجارت کر رہا تھا۔ نقشے میں کہیں بھی مقبوضہ علاقوں کا ذکر تک نہیں تھا۔
پیغام واضح اور واشگاف تھا۔ ”معمول“ کا مطلب اسرائیل کو فلسطین کے حتمی قبضے کی اجازت دینا ہے۔ یہ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس حملے کی ایک بنیادی وجہ تھی۔
اسرائیلی حکمران طبقے کا بنیادی ہدف خطے میں اپنے مرکزی حریف ایران کو کمزور یا ناکارہ کرنا ہے۔ انہیں پتا ہے کہ اس کام کے لیے امریکہ کی حمایت لازم ہے۔ اس حوالے سے حکمران طبقے کے عمومی مفادات اور نتن یاہو کے ذاتی مفادات ایک ہو جاتے ہیں۔ جو غزہ میں یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے ممکنہ معاہدے سبوتاژ کرنے کی نتن یاہو کی کوششوں کی مخالفت کرتے ہیں، وہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ لبنان میں جنگ پر تمام توجہ رکھنا چاہتے ہیں۔
اس جنگ میں انقلابی کمیونسٹوں کا مؤقف واضح ہے۔ ہم جابر کے خلاف مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم اسرائیل کی رجعتی سامراجی ریاست کی مخالفت میں محکوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اب لبنانیوں کی بھی اسی بنیاد پر حمایت کرتے ہیں جو اس وقت ہولناک عسکری جارحیت کا شکار ہیں۔ ہم ان کے حقِ دفاع کی بھرپور اور مکمل حمایت کرتے ہیں۔
انقلابی کمیونسٹ واشگاف اعلان کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امن حکومتوں کو اپیلیں کر کے یا عالمی اداروں کی معاونت کے ذریعے حاصل نہیں ہو گا (ان کا کام محض مختلف سامراجی قوتوں میں طاقت کے توازن کا اظہار ہے)۔ UNIFIL امن فوج کی سرحد پر موجودگی سے لبنان پر اسرائیلی فوج کشی نہیں روکی جا سکی۔ سامراجی امن دو رجعتی جنگوں کے درمیان محض تیاری کا وقفہ ہوتا ہے۔
صرف اسرائیلی رجعتی صیہونی حکمران طبقے اور خطے میں دیگر ممالک کے حکمران طبقات (اردن، مصر، ترکی، سعودی عرب وغیرہ) کا خاتمہ کر کے ہی ایک حقیقی امن قائم کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد پر ہی فلسطینی عوام پر مسلط قومی جبر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ مغرب میں ہماری اصل ذمہ داری اپنی جنگی جنونی سامراجی حکومتوں کا مقابلہ کرنا ہے جو سر سے پیر تک غزہ کے عوام کے خون میں لتھڑے ہوئے ہیں۔
سامراجی جنگ کے خلاف جدوجہد ایک گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد ہے جو اس تمام تر انسانیت سوز صورتحال کی بنیاد ہے۔ اگر آپ امن چاہتے ہیں تو سوشلزم کے لیے جدوجہد کریں۔