|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، اسلام آباد|
پاکستان کے ایک اور بڑے عوامی ادارے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی نجکاری کی راہ ہموار کرنے کے لیے مزدور دشمن حکمرانوں کے حملوں کا آغاز ہو چکا ہے جس کے ردعمل میں اسٹیٹ لائف کے محنت کش پورے جوش وجذبے کے ساتھ میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ایما پر اس انتہائی منافع بخش ادارے کو اونے پونے داموں بیچنے کے لیے سب سے پہلے سیلز آفیسر کیڈر کو ختم کردیا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں محنت کشوں کو بیروزگار کردیا گیا۔ اس انتہائی اقدام کے بعد محنت کشوں نے نجکاری مخالف تحریک کا آغاز کردیا جس پر حکومتِ وقت نے بوکھلاہٹ میں ادارے میں یونین پر پابندی لگا دی اور یونین کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ حسب روایت ادارے کے محنت کشوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا آغاز کر دیا گیا اور کئی ملازمین کو نوکری سے برطرف اور معطل کردیا گیا۔ مگر اسٹیٹ لائف کے محنت کشوں کی نجکاری کے اس حملے کے خلاف جہدوجہد جاری ہے اور ادارے کے محنت کش 27مارچ سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں جو کہ تاحال جاری ہے۔ اس سے قبل لاہور سمیت دیگر شہروں میں بھی ادارے کے محنت کش بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ احتجاجی تحریک جاری رکھے ہوئے تھے۔
احتجاجی محنت کشوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت سٹیل مل اور پی آئی اے کی طرح ادارے کو تباہ کرکے نجکاری کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ مشیر رزاق داؤد اور سیکرٹری فنانس یونس ڈھاگہ نے پورے ادارے کو یرغمال بنا رکھا ہے جس کے پیچھے ان کے ذاتی مفادات بھی کارفرما ہیں۔ اصلاحات اور تنظیمِ نو کے نام پر ادارے کو بربادی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ ہزاروں محنت کشوں کو بیروزگار کردیا گیا۔ یہ حکمران عوام کے پیسے کولوٹ کھانا چاہتے ہیں۔ مگر ہماری لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ ہم کسی صورت پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور جب تک یہ نام نہاد اصلاحات اور نجکاری کا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
یاد رہے کہ یہ وہی اسٹیٹ لائف ہے جو کم و بیش تین ہزار ارب روپے کے اثاثوں کا مالک ہے اور اس کے ساتھ پاکستان میں کم از کم تین لاکھ سے زائد محنت کشوں کے گھروں کے چولہے جلائے ہوئے ہے۔ یہ وہ منافع بخش چڑیا ہے جو وقتاً فوقتاً اس لنگڑی ریاست کو قرضے بھی دیتی رہی ہے تو پھر کوئی پاگل ہی ہوگا جو اس چڑیا کو اپنا نہ بنانا چاہتا ہو۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اسٹیٹ لائف کے ساتھ بھی ہے جہاں ایک طرف جہاں حکومت آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے تمام بڑے ریاستی ادروں کو اونے پونے داموں بیچنے کے چکر میں ہیں اور لاکھوں محنت کشوں کو بے روزگار کرنا چاہتے ہیں وہیں پر حکومت میں بیٹھے رزاق داؤد جیسے سرمایہ دار بھی اس ادارے کو نوچ کھانے کے لیے للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
اسٹیٹ لائف کی اعلیٰ انتظامیہ نے یکم فروری 2019ء نجکاری کی جانب پہلے قدم کوبڑھاتے ہوئے کو تمام قواعد و ضوابط اور قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک سرکولر کے ذریعے سیلز آفیسر کیڈر کو ختم کردیا جو کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہزاروں ملازمین کو بیک جنبشِ قلم بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ اسی سرکولر کے ذریعے ان سیلز آفیسر کو ترقی دے کر سیلز مینیجر بنادیا گیا۔ بظاہر تو یہ ایک بڑا آگے کا قدم معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں سراسر گھاٹے کاسودا ہے۔ ان ملازمین کے کمیشن میں بڑی کمی کردی گئی ہے۔ پرفارمنس کو بنیاد بنا کر کسی بھی وقت کسی بھی ملازم کو نوکری سے نکال باہر کیا جاسکتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح اظہار ہے کہ حکمران اپنے مفادات کے تحفظ اور آئی ایم ایف کے احکامات کی بجا آوری میں کسی قانون قاعدے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس مزدور دشمن فیصلے کے خلاف جب احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو اعلیٰ افسران نے فیلڈ سٹاف کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ جبری تبادلوں اور برطرفیوں کے ساتھ ساتھ مزدور دشمنی کا واضح ثبوت دیتے ہوئے یونین پر ہی پابندی عائد کردی۔ مگر ادارے کے محنت کش ان حملوں کے دلیری اور ثابت قدمی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور انہوں نے اب تک یہ ثابت کیا ہے باقی سماج کی طرح اس ادارے کو بھی اس کے محنت کش چلاتے ہیں اور وہ اس عوامی ادارے کو بچانے کے لیے آخری دم تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔
احتجاجی ملازمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان اقدامت کی آڑ میں نجی انشورنس کمپنیوں کے مفادات کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ الغرض سیکرٹری کامرس کے محض کچھ عرصے کیلئے اسٹیٹ لائف کا چیرمین بننا کا مقصد ادارے کے مضبوط ترین فیلڈ سٹرکچر میں دراڑیں ڈالنا ہے تاکہ اسٹیٹ لائف کے بزنس کا رخ اپنی پرائیویٹ کمپنیوں کی طرف موڑ سکیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ روز اول سے اسٹیٹ لائف کے محنت کشوں کی اس جدوجہد میں شریک ہے اور ان کے تمام مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ نجکاری کے خلاف اس لڑائی میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اسٹیٹ لائف کے محنت کشوں کی اس جدوجہد کو نجکاری کی زد میں دیگر اداروں بشمول سٹیل ملز، ہسپتال، پی آئی اے اور دیگر کی جدوجہد کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک مشترکہ نجکاری پلیٹ فارم تشکیل دیتے ہوئے آگے بڑھائیں۔ نجکاری سمیت ڈاؤں سائزنگ، ٹھیکیداری، اجرتوں میں کمی اور دیگر حملوں کا مقابلہ مزدور اتحاد اور یکجہتی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اور ملک بھر کے تمام اداروں اور نجی صنعتوں کی ایک ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے ناصرف نجکاری کا رستہ روکا جاسکتا ہے بلکہ وزارت نجکاری اور نجکاری کمیشن کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔