|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، اسلام آباد|
وفاقی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یومِ مئی اور اسٹیٹ لائف کے محنت کشوں سے خوفزدہ۔ ڈی چوک کے قریب بیٹھے اسٹیٹ لائف فیلڈ ورکرز کو محنت کشوں کا عالمی دن منانے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں۔ محنت کشوں کو شدید خوف و ہراساں کیا گیا اور کسی بھی قسم کی سرگرمی پر گرفتاریوں سمیت دھرنے کو جبری ختم کر وانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ محنت کشوں کے عالمی دن سے ایک روز قبل اسلام آباد پولیس نے ڈی چوک میں بیٹھے اسٹیٹ لائف کے احتجاجی ورکرز کے دھرنے پر دھاوا بول دیا اور خواتین سمیت لگ بھگ 30محنت کشوں کو گرفتار کر لیا۔ گرفتاریوں کے بعد ان پر دباؤ ڈلا جاتا رہا کہ وہ اپنے دھرنے کو ڈی چوک سے واپس اسلام آباد پریس کلب لے جائیں۔ رات گئے گرفتار ملازمین کو رہا کردیا گیا اور ڈی چوک سے دھرنا ختم کروا دیا گیا۔ ا س کے بعد سے اسٹیٹ لائف کے محنت کشوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور یوم مئی منانے سے بھی روک دیا گیا۔
یہ موجودہ حکومت اور ریاستی اداروں کی بوکھلاہٹ اور مزدور دشمنی کا واضح اظہار ہے۔ یہ حکومت اسٹیٹ لائف کے ورکروں کو ڈرا دھمکا کر اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر اس منافع بخش ادارے کی نجکاری کے مزدور دشمن منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے جس کو موجودہ مشیر کامرس رزاق داؤد اونے پونے داموں خریدنے کے لیے سرگرداں ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس مزدور دشمن حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسٹیٹ لائف کی نجکاری کا فیصلہ واپس لیا جائے اور فیلڈ ورکرز کے تمام مطالبات فی الفور پورے کیے جائیں۔
یاد رہے کہ یہ وہی ڈی چوک ہے جہاں پر موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو دھرنے اور جلسے کرنے کی کھلی آزادی تھی مگر محنت کشوں کو ادھر کا رخ کرنے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ لائف کے ورکرز اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے تعاون سے یکم مئی کو ڈی چوک میں مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے ایک جلسے منعقد کیا جانا تھاجس کے لیے تمام انتظامات مکمل تھے۔ اس جلسے کا مقصد جہاں شکاگو کے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنا تھا وہیں مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر اسٹیٹ لائف کی نجکاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا تھا تاکہ اسٹیٹ لائف اور دیگر اداروں کے محنت کشوں کے مابین ایک عملی جڑت قائم کی جاسکے۔ مگر وفاقی حکومت، ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دھونس اور جبر سے اس جلسے کے انعقاد سے روک دیا۔ ڈی چوک کے قریب اسٹیٹ لائف بلڈنگ کے باہر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے اسٹیٹ لائف فیلڈ ورکرز کے گرد سارا دن پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم فورس کی گاڑیاں گشت کرتی رہیں اور ایک خوف کی فضا قائم کیے رکھی۔ اس سے ایک روز قبل پولیس نے احتجاجی کیمپ پر دھاوا بول کر تیس کے قریب محنت کشوں کو گرفتار کر لیا تھا اور احتجاجی کیمپ بھی اکھاڑ دیا گیا تھا۔
یکم مئی پوری دنیا میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں ہر سال شکاگو کے محنت کشوں کی لازوال قربانیوں پر پوری دنیا کے محنت کش خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور اپنے موجودہ مسائل پر جہدوجہد کا عزم کرتے ہیں۔ پچھلے دس سال سے اور خاص کر پچھلے دو سال سے پاکستان میں کوئی بھی پریس کلب ایسا نہی رہا جہاں روزانہ کی بنیادوں پر محنت کشوں کے چھوٹی بڑے احتجاجی مظاہرے نہ پو رہے ہوں لیکن اسلام آباد کا پریس کلب مصروف ترین جگہ رہی جہاں مختلف اداروں کے محنت کش مہینوں تک بھی تحریک میں رہے۔ یہ الگ بات ہے کے دلال میڈیا نے کبھی محنت کشوں کی کسی تحریک کو خال ہی کوریج دی۔ 27 مارچ سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اسٹیٹ لائف کے ورکرز سراپا احتجاج تھے اور کچھ دن قبل انہوں نے اپنا دھرنا ڈی چوک منتقل کردیا۔ یکم مئی سے ایک روز پہلے حکومت نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے اسٹیٹ لائف کے لگ بھگ تیس ورکرز کو گرفتار کرتے ہوئے نا صرف اسٹیٹ لائف کے ورکرز کو ڈرانے کی کوشش کی بلکہ ان کا احتجاج ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اگلے ہی دن یعنی یکم مئی کو یوٹیلیٹی اسٹورز کے محنت کشں ڈی چوک دھرنا دینے آرہے تھے اور گورنمنٹ کو شدید خوف تھا کہ دو الگ ادارے کے ورکرز اکٹھے ہو کر احتجاج کرنا نہ شروع کر دیں، لہٰذا کسی بھی طرح سے اسٹیٹ لائف کے ورکرز کا احتجاجی دھرنا ختم کیا جائے لیکن ورکرز کی جرأت کی وجہ سے حکومت اس اقدام میں ناکام رہی لیکن اگلے ہی دن یکم مئی کو بڑے پیمانے پر پولیس کو ڈی چوک میں تعینات کیے رکھا تاکہ محنت کشوں پر گرفتاریوں کے خوف کو برقرار رکھا جا سکے اور وہ یکم مئی کی کوئی بھی سرگرمی نہ کر سکیں۔اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت مزدور تحریک سے اور خاص کر محنت کشوں کی جڑت سے کس حد تک خوف زدہ ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اسٹیٹ لائف فیلڈ ورکرز کی جرأت اور ثابت قدمی پر خراج تحسین پیش کرتا ہے اور اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ لیکن ہم یہاں یہ بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اسٹیٹ لائف کے احتجاجی ورکرز کو اپنی قیادت کے ہر اقدام پر کڑی نظر اور ان سے جواب طلبی کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ قیادت کو بھی جرأت اور بہادری سے اس لڑائی کو لڑنا ہوگااور سیلز آفیسر کیڈر کی بحالی اور نجکاری کے فیصلے کے خاتمے تک اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا۔ اور اس کے لیے دیگر اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت بنانے کے لیے عملی اقدامات کی جانب بڑھنا ہوگا۔ اس وقت اسٹیٹ لائف سے چند سو میٹر کے فاصلے یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کش ادارے کی نجکاری کے خلاف اکٹھے ہیں۔ ایپکا کے محنت کش بھی ڈی چوک پہنچ چکے ہیں۔ اگر ڈی چوک میں بیٹھے ان تمام اداروں کے محنت کش ہی مل جائیں تو نا صرف نجکاری کے فیصلہ واپس کروایا جا سکتا ہے بلکہ تنخواہوں میں اضافے، اپ گریڈیشن سمیت اپنے تمام مطالبات بھی منظور کروائے جاسکتے ہیں۔ مزدوروں کی سب سے بڑی طاقت یہی آپسی جڑت ہے جس کے سامنے کوئی حکومت نہیں ٹھہر سکتی۔ اگر یہ عملی جڑت بننے کی طرف جاتی ہے تو یہ محنت کشوں کے وسیع تر اتحاد کی جانب بڑا قدم ہوگا اور اس کو وسعت دیتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بھی بڑھا جاسکتا ہے۔
متعلقہ:
اسلام آباد: اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے محنت کشوں کا نجکاری مخالف دھرنا 16ویں روز میں داخل