|ریڈ ورکرز فرنٹ، اسلام آباد|
جیسے جیسے کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکس سمیت سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ملازمین کی بے چینی اور اضطراب میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ حکومتی بے حسی اور نا اہلی ہے۔ حکومت تاحال کرونا کا مقابلہ کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکس کو حفاظتی سامان فراہم کرنے میں ناکام ہے جس کی وجہ سے ان کا کرونا سے متاثر ہونے کا شدید خطرہ موجود ہے۔ مزید برآں، بنائے گئے قرنطینہ مراکزانتہائی ناکافی اور ان کی صورتحال اور زیادہ ناقص ہے۔
گذشتہ روز اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ہیلتھ ملازمین نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس حکومتی بے حسی، نااہلی اور درپیش مسائل کے خلاف آواز بلند کی۔ ہیلتھ ملازمین کے نمائندوں کاکہنا تھا کہ حکومت اس بحران کا مقابلہ کرنے میں بالکل سنجیدہ نہیں۔ حکومت اب تک حفاظتی سامان فراہم نہیں کرسکی۔ پورے پاکستان کے ڈاکٹر اور دیگر ہیلتھ ملازمین صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں مگر حکومت سو رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال پمز میں صرف 10بستروں پر مشتمل آئیسولیشن وارڈ بنایا گیا ہے جس میں صرف 2 وینٹی لیٹر موجود ہیں۔ بار بار مطالبہ کرنے اور توجہ دلانے کے باوجود حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں کی نجکاری کرنے میں پیش پیش نوشیروان برکی، فیصل سلطان جیسے افراد اس بحران میں غائب ہیں۔ کسی ہسپتال میں نئے وینٹی لیٹر فراہم نہیں کیے گئے۔ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے 24مارچ تک تمام تر سہولیات اور حفاظتی سامان فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ، کرونا وبا کا فرنٹ لائن پر مقابلہ کرنے والے تمام ہیلتھ ملازمین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے اورحکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بلا تاخیر پورے پاکستان میں تمام ہیلتھ ملازمین کو حفاظتی سامان فراہم کیا جائے تاکہ وہ پوری توجہ اور ذمہ داری کے ساتھ مریضوں کا علاج کرسکیں۔ فوری طور پر نئے وینٹی لیٹر خریدے جائیں۔ عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق بڑے ہوٹلوں، خالی پڑے عالیشان بنگلوں، ہاسٹلوں اور دیگر جگہوں کو ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے قرنطینہ مراکز بنائے جائیں۔ عملے کی کمی پوری کرنے کے لیے فوری نئے ڈاکٹر، نرسیں اور پیرامیڈیکس بھرتی کیے جائیں۔ کرونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے فوری طور پر بڑے پیمانے پر مفت ٹیسٹنگ شروع کی جائے اور اس استعداد کار کو کم ازکم 20ہزار ٹیسٹ فی دن تک بڑھایا جائے۔ استعداد کار بڑھانے کے لیے نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کو ریاستی تحویل میں لیا جائے۔ سرمایہ داروں اور بینکاروں کو سبسڈیاں اور ٹیکس چھوٹ دینے کی بجائے صحت کے بجٹ کو بڑھا کر جی ڈی پی کے 10 فیصد کے برابر کیا جائے۔ فرنٹ لائن پر کام کرنے ہیلتھ ملازمین کو رسک الاؤنس دیا جائے۔
یہ وقت ہے کہ پورے ملک کے صحت کے ملازمین متحد ہوکر نا صرف کرونا بلکہ اس عوام دشمن حکومت کا مقابلہ کریں۔ اس کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نجکاری کا مقابلہ کرنے کے لیے بننے والے ڈاکٹروں، نرسوں پیرا میڈیکس کے اتحاد پر مشتمل گرینڈ ہیلتھ الائنس کی طرز پر گرینڈ ہیلتھ الائنس پاکستان کی جانب بڑھنا چاہیے تاکہ ملک بھر کے صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ملازمین ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر نا صرف اس وبا کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکیں بلکہ حکومتی بے حسی اور نااہلی کا پردہ چاک کرتے ہوئے عوام کو حقیقت سے آگاہ کریں اور یکجہتی کی اپیل کریں، یہی آگے بڑھنے کا رستہ ہے۔