|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، اسلام آباد|
یومِ مئی 2019ء کے موقع پر یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی نجکاری کے خلاف ملک بھر سے سینکڑوں محنت کش یونین قیادت کی کال پر ایک بار پھر اسلام آباد پہنچ گئے۔ پچھلے سال اکتوبر میں یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کشوں کی شاندار جدوجہد کے نتیجے میں حکومت سے ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کے بعد یونین قیادت کی جانب سے مزدورں کے عالمی دن کے موقع پر ڈی چوک میں دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس موقع پر محنت کشوں کا جوش وخروش دیدنی تھا اور تمام محنت کش ایک ریلی کی شکل ہیڈ آفس سے ڈی چوک پہنچنے کو تیار تھے۔ محنت کشوں کو خوف و ہراساں کرنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری بھی موقع پر موجود تھی۔ ضلعی انتظامیہ نے یونین قیادت سے مذاکرات کے بعد چوبیس گھنٹے کی مہلت مانگی اور ”سیکیورٹی صورتحال“ کا بہانہ بناتے ہوئے یہ درخواست کی کہ ڈی چوک کی جانب نہ بڑھا جائے جس کو یونین قیادت نے قبول کرلیااور ہیڈ آفس کے باہر ہی دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا جو آج بھی جاری ہے۔
اس موقع پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان نے دھرنے میں شریک ہوکر محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور عام ہڑتال کے پیغام پر مبنی لیف لیٹ بڑی تعداد میں تقسیم کیا جس کو بہت پسند کیا گیا۔ محنت کشوں کا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام اداروں کے محنت کشوں کا اکٹھا ہونا ہوگا اور اس ضمن میں عملی اقدام اٹھانے اور حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک کروڑ نوکریوں کے اپنے ہی نعرے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نجکاری کی مزدور دشمن پالیسی پر عمل شروع کردیا اور سب سے پہلے عوام کو سستی اشیائے صرف فراہم کرنے والے ادارے، یوٹیلیٹی سٹورز کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کشوں نے 22اکتوبر سے ڈی چوک پر دھرنا دیا جس پر پولیس نے شدید لاٹھی چارج اور تشدد کیا مگر ادارے کے محنت کش ڈٹے رہے اور بالآخر حکومت کو یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کشوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور نہ صرف نجکاری کا فیصلہ موخر کر دیا گیا بلکہ ادارے کے ملازمین کی مستقلی اور اپ گریڈیشن کے دیرینہ مطالبات بھی تسلیم کر لیے۔ ساتھ ہی ساتھ یوٹیلیٹی سٹورز کو برباد کرنے والی پالیسیاں ختم کرنے اور ادارے کو چودہ ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ مگر چھ ماہ گزر جانے کے بعد اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوسکا جس کے بعد یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کش ایک بار پھر میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔
حکومتی پروپیگنڈے کو برخلاف یوٹیلیٹی سٹورز کی اس زبوں حالی کے اصل ذمہ داران حکومت اور ادارے کے اعلیٰ حکام کی ناقص پالیسیاں تھیں جس کے نتیجے میں صورتحال یہاں تک آپہنچی کہ یوٹیلٹی سٹورز سے مصنوعات ہی غائب ہوگئیں اور جس کے بعد سارا ملبہ ادارے کے محنت کشوں پر ڈالتے ہوئے اسے اونے پونے داموں بیچنے کا فیصلہ کیا گیا اور اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کا قریبی دوست اس عوامی ادارے کو خریدنے کا خواہاں ہے۔ دھرنے میں شریک ایک محنت کش کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اربوں روپے کے رمضان پیکج کا اعلان کرچکی ہیں، اگر اس رقم کو رمضان بازاروں جیسے نمائشی اقدامات کی بجائے یوٹیلیٹی سٹورز پر خرچ کیا جائے اور ان کو تمام اشیائے صرف کی سپلائی یقینی بنائی جائے تو ہم اس قابل ہیں کہ عوام کو صحیح معنوں میں سستی مصنوعات فراہم کرسکیں جس سے مہنگائی سے ستائی عوام کو کچھ ریلیف بھی مل سکے گا۔
یونین کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن حکومت کا واحد ادارہ ہے جو کہ غریب عوام کو مہنگائی کے خلاف ریلیف فراہم کرنے میں حکومت کا معاون ہے، جس نے ماضی میں سالانہ چار سے چھ ارب تک ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادا کیا۔سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے اس ادارے کو تباہ کیا لیکن موجودہ حکومت نے بھی اس حوالے سے مسلسل غفلت کا مظاہرہ کیا۔ کارپوریشن کے ہزاروں ملازمین نے22 تا25 اکتوبر2018ء ڈی چوک اسلام آباد میں اپنے حقوق اور ادارے کے تحفظ کے لئے دھرنا دیا۔ اس موقع پر دھرنا مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی نعیم الحق صاحب نے تمام مطالبات کو جائز قرار دیا اور ایک ماہ میں تمام مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ مشیر برائے صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد صاحب نے دھرنا ختم کرنے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں تمام مطالبات کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ایک ماہ کے اندر کارپوریشن کو چلانے کے لیے چودہ ارب کا بیل آؤٹ پیکج بھی دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے حکومت نے کوئی وعدہ وفا نہیں کیا بلکہ سابقہ حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے صرف آٹھ ماہ میں چار ایم۔ڈی تبدیل کر دیئے گئے۔ حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے آج حالت یہ ہے کہ کارپوریشن کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو گئی ہے۔ رمضان المبارک میں حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے دو ارب روپے کا اعلان کر چکی ہے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن عوام کو دو ارب کا ریلیف فراہم کرنے کے لیے پندرہ ارب روپے کا سامان درکار ہے اور رمضان میں کچھ دن باقی ہیں جبکہ سٹور خالی پڑے ہیں جس کی وجہ سے ادارے کے چودہ ہزار ملازمین اور عوام تشویش کا شکار ہیں۔
ادارے کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے آل پاکستان ورکر یونین(CBA) اور آل پاکستان نیشنل ورکر یونین ایک بار پھر مجبور ہو چکی ہے کہ ملک کے ایک اہم اور غریب پرور ادارے کو بچانے اور چودہ ہزار ملازمین کے روزگار کے تحفظ کے لئے دوبارہ احتجاج کا راستہ اختیار کرے لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ اکتوبر 2018میں حکومت نے جووعدے کیے تھے وہ 30اپریل تک پورے نہ کیے گئے تو یکم مئی 2019 سے اپنے حقوق کے لئے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے ہزاروں ملازمین احتجاجی دھرنا دینے پر مجبور ہوں گے اور یہ دھرنا مطالبات کی منظوری اور عمل درآمد تک جاری رہے گا۔
یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کشوں کے مطالبات درج ذیل ہیں:
1۔ ادارے کے معاملات کو سمجھنے والا مستقل ایم-ڈی تعینات کیا جائے۔
2۔ حکومت اپنے وعدے کے مطابق ادارے کو چلانے کے لئے 14 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج فوری جاری کرے۔
3۔ یوٹیلیٹی سٹور انتظامیہ تمام ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔
4۔ تمام سیلز سٹاف اور وئیر ہاؤس سٹاف کی اپ گریڈیشن کا نوٹیفیکیشن فوری جاری کیا جائے۔
5۔ 1984ء کے بعد بھرتی ہونے والے تمام ملازمین کو گریجیوٹی سے محروم کیا گیا ہے، ان کو گریجیوٹی کی ادائیگی کی جائے۔
6۔ یوٹیلٹی گھی آئل جس کی، ماہوار 2 ارب سے زیادہ کی سیل تھی جس کا فائدہ غریب عوام کو ہوتا تھا، اس کو دوبارہ بحال کیا جائے۔
7۔ اکتوبر 2018ء کے دھرنے میں نعیم الحق صاحب نے یوٹیلٹی سٹورز ملازمین کے لئے ہیلتھ کارڈ اور نیا پاکستان سکیم میں مکانات کا اعلان کیا تھا، اس پر عمل درآمد کروایا جائے۔
یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کش اس عوامی ادارے کو بچانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ریڈ ورکرز فرنٹ، یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کشوں کے تمام مطالبات کی حمایت کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے ہی ناصرف نجکاری بلکہ وزارت نجکاری اور نجکاری کمیشن کا خاتمہ اور تنخواہوں میں اضافہ اور مستقل روزگار حاصل کیا جاسکتا ہے۔