|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، اسلام آباد|
پچھلے تین دن سے بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز کے اساتذہ اسلام آباد میں اپنی دس ماہ سے بند تنخواہوں اور روزگار کی مستقلی کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ یہ اساتذہ مستقل روزگار کے لیے عرصہ دراز سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ جمعرات کی رات اسلام آباد پولیس نے رات کے اندھیرے میں ڈی چوک میں بیٹھے اساتذہ پر بدترین کریک ڈاؤن کیا اور کئی اساتذہ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، گرفتار کرلیا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ،احتجاجی اساتذہ پر پولیس کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ احتجاجی اساتذہ کے تمام مطالبات فوری تسلیم کیے جائیں۔
بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز(BECS)، 1995ء سے ملک بھر کے 137 اضلاع میں سات لاکھ طلباء و طالبات کو تعلیم فراہم کررہے ہیں۔ ان سکولوں میں 11 ہزار 908 اساتذہ تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان میں 70 فیصد خواتین اساتذہ ہیں جو ملک کے دور دراز علاقوں میں بچوں کو تعلیم کی بنیادی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اسلام آباد کے کارکنان نے پریس کلب اسلام آباد میں اساتذہ کے احتجاج میں شرکت کی اور عام ہڑتال کا لیف لیٹ تقسیم کیا جسے اساتذہ نے بہت سراہا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندوں نے اساتذہ کے ساتھ مکمل یکجہتی اور حمایت کا اعلان کیا اور یقین دہانی کرائی کہ ریڈ ورکرز فرنٹ ان کے تمام مطالبات کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ ان کی اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا اور ان کی آواز دیگر اداروں کے ورکرز تک پہنچاے گا۔
احتجاج کے دوران ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندوں نے اساتذہ کے انٹرویو بھی لئے۔
اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی پچھلے پچیس سال سے روزگار کی مستقلی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ اسلام آباد اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے آئے ہیں۔ انتظامیہ کے جبر کے حوالے سے اساتذہ کا کہنا تھا کہ ان کو اسلام آباد میں دھرنا دیتے تین دن گزر گئے ہیں۔ پہلی رات انتظامیہ اور پولیس نے تقریباً دوسو سے زائد اساتذہ کو ڈی چوک دھرنے سے رات 3 بجے لاٹھی چارج کر کے گرفتار کیا ہے جن میں خواتین اور ان کے بچے بھی شامل ہیں۔
ایک استاد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیبر قوانین کے مطابق ایک مزدور کی کم از کم اجرت ساڑھے 17 ہزار ماہانہ ہے مگر BECS کے اساتذہ کو صرف 8 ہزار ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے اور اب تو دس ماہ سے ان کے تنخواہیں بھی بند ہیں۔
مستقل روزگار کے حوالے سے ایک استاد کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کے مطابق اگر ایک ورکر کسی بھی سرکاری ادارے میں 3 سپیل (ایک سپیل 89 دن کے برابر ہوتا ہے) کام کرتا ہے تو اسے ریگولر تصور کیا جائے گا مگر BECS کے اساتذہ کو اس ادارے میں 25 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود مستقل نہ کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ یاد رہے کہ اس ادارے کے غیر تدریسی سٹاف کو ریگولر کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018ء میں جب انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو اس وقت وزیرِ تعلیم نے ہمارے ساتھ تحریری معاہدہ کیا تھا جس کے مطابق تمام اساتذہ کو ایک سال میں مستقل کر دیا جانا تھا لیکن تاحال اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
ہائیکورٹ نے بھی BECS کے اساتذہ کو ریگولر کرنے کا فیصلہ سنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اب وہ وزیرِاعظم اور صدر پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں ریگولر کیا جائے اور تنخواہوں میں قانون کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان میں ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو آئے دن مستقل روزگار اور اجرتوں کی ادائیگی کے لیے احتجاج کرتے رہتے ہیں۔اساتذہ کے مسائل حل کرنے کے بجائے یا تو ان پر لاٹھی چارج کر دیا جاتا ہے یا جھوٹے وعدے کر کے ٹال مٹول کی جاتی ہے۔ BECS کے اساتذہ کو ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے دیگر اداروں کے محنت کشوں کو ساتھ جوڑ کر ایک مشترکہ جہدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔اسی حکمتِ عملی کے ذریعے اپنی آواز کو مضبوط کرتے ہوئے مطالبات تسلیم کروائے جا سکتے ہیں۔