|تحریر: پارس جان|
یوں تو پاکستانی ریاست، سیاست اور معیشت میں بحران معمول کی بات ہی سمجھے جاتے ہیں، مگر 2022ء کا سال پاکستان کے اپنے معیارات کی مناسبت سے بھی کہیں زیادہ ہیجانی اور بحرانی ثابت ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتحال ایک دم تو پیدا ہرگز نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کی سیاسی معاشیات کے مخصوص طرزِ ارتقا کا ہی پھل ہے، جسے ریاستی اشرافیہ اور حکمران طبقے کے لیے مکافات عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کہا یہ جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں چونکہ ادارہ جاتی نظم و نسق کا فقدان ہے اور مختلف اداروں کے مابین ہم آہنگی اور توازن بھی ناپید ہے لہٰذا پاکستان کا مضبوط اور مستحکم ترین ادارہ فوج ہی ہے، جو اسی استحکام کی بنیاد پر ملکی سالمیت اور بقا کی واحد تسلی بخش ضمانت فراہم کرتا ہے۔ بادی النظر میں یہ دعویٰ درست معلوم ہوتا ہے مگر اب جدلیاتی طور پر سب سے زیادہ مستحکم اور مضبوط یہ ادارہ اپنے الٹ میں بدل کر نہ صرف اپنے داخلی بلکہ ریاست کے بالعموم تمام تر تضادات کا مرکز بن چکا ہے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ریاست کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ہر بحران اب اپنا اظہار سب سے پہلے فوج کے اندر یا فوج کے ذریعے ہی کرتا دکھائی دینے لگا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتحال ریاست کے پالیسی سازوں، جنہیں صحافتی زبان میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، کے لیے تشویشناک حد تک مضر اور ناقابلِ برداشت ہے۔ یہ مبینہ اسٹیبلشمنٹ جو عملاً اب بالکل بھی سالم (Established) نہیں رہی اپنے نامیاتی انحطاط کا شکار ہے اور ساتھ ہی پورے معاشرے کو اپنے دردِنزع کی تکلیف میں مبتلا کر رہی ہے۔ ان پالیسی سازوں نے ہمیشہ اپنی آئینی و غیر آئینی لوٹ مار کو تحفظ فراہم کرنے اور منطقی ثابت کرنے کے لیے ”ملکی سالمیت“ اور”قومی مفاد“ کے بیانیوں کا سہارا لیا تھا، اور اب جب سالمیت کو واقعی خطرات درپیش ہیں، تو کوئی ان پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر اس گڈریے کی کہانی یاد آ جاتی ہے جو محض دل پشوری کے لیے ”شیر آیا، شیر آیا“ کا شور مچا کر سادہ لوح لوگوں کا مجمع جمع کر لیا کرتا تھا۔ اور لوگ اس کے اس ناٹک کے اتنے عادی ہو گئے کہ جس دن واقعی شیر آیا تو اس گڈریے کی مدد کو کوئی نہ پہنچا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی حالت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ففتھ جنریشن وار ”ملکی سالمیت“ کے دیرینہ بیانیے کی وہ انتہائی شکل تھی جس کے بعد یہ بیانیہ متعفن ہو کر اپنی موت آپ مرنا شروع ہو چکا ہے اور اس کے ”ہدایتکاروں“ کی ساکھ راکھ کے ڈھیر میں بدل چکی ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف ہمیشہ سے ہی پاکستان میں طاقتور ترین عہدہ رہا ہے اور اس کی تعیناتی ریاست اور حکمران طبقے کے تمام بڑے کھلاڑیوں کے لیے دلچسپی اور توجہ کا باعث بنتی رہی ہے مگر اس بار جنرل قمر جاوید باجوہ کے جاں نشین کی تعیناتی کی بحث جس طرح سماج کے رگ و ریشے تک جا پہنچی ہے، یہ اپنے تئیں ایک انتہائی اہمیت کا حامل مظہر ہے۔ ماضی میں امریکی سامراج کی ”آہنی گرفت“ کے باعث کچھ حلقوں میں پائی جانے والی تشویش کے باوجود یہ تعیناتی زیادہ متنازع نہیں ہوتی تھی اور امریکی سامراج کی غیر مشروط وفاداری کی اہلیت (میرٹ) پر پانچ، چھ سینیئر ترین جرنیلوں میں سے ہی کسی ایک کا کرہ نکل آتا تھا، مگر گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی آقاؤں کی گرفت کمزور پڑنے کے باعث ادارے کے گروہی تضادات ابھرنا شروع ہوئے جو اب بے قابو ہو کر پورے ریاستی ڈھانچے کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ مبینہ ‘رجیم چینج’ اور پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے لے کر عمران خان کے حالیہ لانگ مارچ اور قاتلانہ حملے تک تمام قابلِ ذکر سیاسی پیش رفتوں کے تانے بانے اسی تعیناتی سے ہی جا ملتے ہیں، جو مختلف ریاستی دھڑوں اور افراد کے مالیاتی مفادات اور تحفظات کا ہی شاخسانہ ہے۔ جس کا واضح اظہار حال ہی میں فیکٹ فوکس کی جنرل قمر جاوید باجوہ اور اہلخانہ کے اثاثوں میں اس تعیناتی کے دورانیے میں ہونے والے غیر معمولی اضافے سے متعلق شائع کردہ رپورٹ سے ہوتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر تو مسلمہ وجوہات کی بنا پر اس رپورٹ پر زیادہ مباحثہ دیکھنے میں نہیں آیا، البتہ سوشل میڈیا پر اپنے روایتی کردار کے باعث ہمیشہ کی طرح توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس رپورٹ کے بعد سے سوشل میڈیا پر اس تعیناتی کو لے کر بننے والی درجنوں میمز میں سے سب سے زیادہ مشہور ہونے والی میم ”کون بنے گا کھرب پتی؟“ تھی۔ یہ رپورٹ بھی ظاہر ہے کہ کسی بلند صحافتی اقدار پر مبنی بیانیے کا اظہار نہیں ہے بلکہ داخلی لڑائی میں مخالف فریق کا ایک وار ہے، جس کا وقت آنے پر ویسے ہی مناسب جواب متوقع ہے جیسے ایک کے بعد ایک آڈیوز اور ویڈیوز لیک ہونا بھی اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ تاہم اس سارے کھیل میں قمر جاوید باجوہ کی یوم شہدا کے موقع پر کی جانے والی بطور آرمی چیف آخری تقریر میں داخلی تضادات کو دبانے کی ہر کوشش بری طرح ناکام ہوئی اور ناراض لوگوں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دراصل ففتھ جنریشن وار کے ساتھ ساتھ مشہور زمانہ ‘باجوہ ڈاکٹرائن’ بھی بہت بڑا ڈھکوسلہ ہی تھی اور فیکٹ فوکس کی حالیہ رپورٹ اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ہے۔ سیاست سے عسکری اداروں کی’لاتعلقی‘ کا عالم یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار حاضر سروس آئی ایس آئی چیف کو کچھ عرصہ قبل خود ایک انتہائی متنازع پریس کانفرنس کا حصہ بننا پڑا لیکن اس سے فوج کے غیر سیاسی ہونے کا تاثر مضبوط ہونے کی بجائے ایک مضحکہ بن گیا۔ جنرل باجوہ کی تقریر کے متن کا بھی سب سے دلچسپ حصہ وہ تھا جب موصوف نے ساری سیاسی قیادت کو مخاطب کر کے انہیں یہ سکھانے کی کوشش کی کہ ’ملکی مفاد میں سیاست کیسے کرنی چاہیے‘ اور جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ ہار اور جیت کو برداشت کریں۔ اسی طرح اپنی آخری اور انتہائی سیاسی تقریر میں جتنی بار جنرل باجوہ نے فوج کے غیر سیاسی ہونے کی قسم کھائی، اس سے ادارے کی فرسٹریشن کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ ساتھ ہی موصوف نے اپنے ناقدین کو متنبہ بھی کیا کہ غیر سیاسی ہونے کا مطلب ”تنقید کی آزادی“ ہرگز نہ لیا جائے اور ادارے کی برداشت اور صبر کی حد ہو چکی ہے۔ یوں باجوہ صاحب تو بالآخر رخصت ہو رہے ہیں مگر بحران نہ صرف جوں کا توں موجود ہے بلکہ کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں پر پہنچ چکا ہے۔ یوں ”کون بنے گا کھرب پتی“ کا یہ تھیٹر کب تک چلے گا، وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں رہا۔
سکول کے دنوں میں نصاب میں بہت سی کہانیاں پڑھنے کو ملا کرتی تھیں اور آخر میں پوچھا جاتا تھا کہ اس کہانی کا سبق (Moral) کیا ہے؟ یوں سیاسیات کے ہر طالبِ علم اور ہر عملی سیاسی کارکن کے لیے بھی سوال یہی ہے کہ مذکورہ بالا ریاستی دنگل میں کیا اسباق پوشیدہ ہیں؟ گزشتہ چھ ماہ سے اس تعیناتی کو لے کر میڈیا پر بے پناہ شور مچایا گیا لیکن ان اسباق پر روشنی کی بجائے اندھیرا ہی ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ شاید میڈیا کی یہی پروفیشنل ذمہ داری بھی ہے۔ انتہائی ”ترقی پسندانہ“ بیانیے میں بھی بس یہی سوال اٹھایا گیا کہ ایک سرکاری عہدے کی تعیناتی اتنی اہمیت کی حامل کیوں ہے؟ جواب یہی دیا جاتا ہے کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ مگر یہ تو باجوہ ڈاکٹرائن میں پہلے ہی تسلیم شدہ سچائی ہے۔ اسی کی بنا پر تو جنرل صاحب کا نام ہی ”نیوٹرل“ پڑ گیا ہے۔ آخری تقریر میں بھی جنرل باجوہ نے فوج کی سیاست میں مداخلت کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ بظاہر مطلق سچائی نظر آنے والا یہ جملہ کہ ”سیاست میں فوج کی مداخلت تمام مسائل کی جڑ ہے“ دراصل دھوکہ اور سراسر سراب ہے۔ اصل مسئلہ فوج کی سیاسی مداخلت کے معاشی محرکات ہیں جس کی بنیادی وجہ پاکستان کے سرمایہ دار طبقے اور ان کے نظام کی نامیاتی کمزوری ہے جو اتنا اپاہج ہے کہ بونا پارٹسٹ (عسکری) بیساکھی کے بغیر چلنا تو درکنار ہل بھی نہیں سکتا۔
پاکستان کا سارا بایاں بازو ”لبرلزم“ پر مارکسزم کا لیبل لگا کر انقلابی ہونے کی خود فریبی میں مبتلا ہے۔ وہ طبقاتی جنگ کے نعرے کو ترک کر کے سول سپرمیسی کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف فوج اب خود بھی سول سپرمیسی کا نعرہ لگا رہی ہے۔ اگرچہ یہ نعرہ یکسر منافقت پر مبنی ہے لیکن سیاسی قیادت کی طرف سے جمہوریت کی نعرے بازی اس سے بھی زیادہ کھوکھلی اور بد دیانتی کا شاہکار ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں جمہوریت کی لفظی جگالی کے متوازی اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی کے حصول کو ہی سیاسی جدوجہد کا مقصد اور منبع سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں عسکری اور سیاسی قیادت مل کر ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے سول-عسکری مصنوعی رسہ کشی کا سہارا لیتے ہیں۔ بائیں بازو کے لکیر کے فقیروں کے علاوہ اب ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ فوج کی سیاسی طاقت اسکی معاشی سلطنت کے مرہون منت ہے مگر گردن تک بجلی و ٹیکس چوری میں غرق سرمایہ دار طبقہ اپنے غبن پر پردہ ڈالنے کے لیے خود ریاستی اداروں کو اپنی لوٹ مار کا سانجھے دار بنائے ہوئے ہے۔ اس صورتحال کی درست عکاسی روسی انقلاب کے قائد لیون ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب سے ہی ہو سکتی ہے۔
لیون ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ تیسری دنیا کے حکمران طبقات تاریخی تاخیر زدگی کے باعث جدید قومی ریاست کی تشکیل کے اہل نہیں ہیں، اس لیے وہ مذہب کی ریاست سے علیحدگی، سیاسی و معاشی خود مختاری، جدید قومی تشخص، سماجی و فزیکل انفراسٹرکچر کی تشکیل اور متروک سماجی و سیاسی بندھنوں سے نجات سمیت قومی جمہوری انقلاب کا کوئی ایک فریضہ بھی انجام دینے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اب اس تعریف و توضیح کی روشنی میں موجودہ ریاستی بحران میں پاکستان کے حکمران طبقے اور اسکی نمائندہ سیاسی قیادت کے کردار کا جائزہ لیجیے۔ سامراج سے آزادی تو کجا امریکی سامراج کی خوشنودی آج بھی ساری سیاسی و عسکری قیادت کا اولین نصب العین ہے۔ ملاؤں سے لے کر لبرل اکابرین تک اگر کوئی امریکہ مخالف بیانیہ پیش کرتا بھی ہے تو اس کا مقصد امریکہ سے تنخواہ میں اضافے کے مطالبے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یا پھر کسی دوسری سامراجی بیساکھی سے لٹک کر امریکہ کی حکم عدولی کا ناٹک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جلد ہی جب اس متبادل بیساکھی سے بھی جھٹک دیا جاتا ہے تو پہلے سے بھی کم تنخواہ پر خود کو امریکہ کے حضور پیش کر دیا جاتا ہے۔ ریاست کے نسبتاً لبرل دھڑے کی ’ترقی پسندی‘ کا عالم یہ ہے کہ انکی ریاست کے قدرے ”رجعتی“ سمجھے جانے والے دھڑے پر تنقید کا لب لباب ہی یہ رہا ہے کہ ان کی مہم جوئی کے باعث امریکہ بہادر اب ہمیں گھاس ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ عسکری قیادت سے تعلقات کے معاملے میں بھی حکمران طبقے کا خصی پن بالکل عیاں ہو چکا ہے۔ اس کی سب سے حالیہ مثال فیکٹ فوکس کی رپورٹ پر آنے والا سیاسی قیادت کا ردعمل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جمہوریت کے یہ چیمپئن عسکری قیادت کے احتساب کا اعلان کرتے اور اتنے بڑے پیمانے کی کرپشن کو بے نقاب کرتے مگر لبرل لیفٹ کے محبوب ترین وزیر خزانہ نے چیف آف آرمی سٹاف کے خاندان کے ٹیکس کوائف کی معلومات لیک ہونے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔ اپوزیشن کے رہنما عمران خان کی طرف سے بھی کوئی زوردار ردعمل سامنے نہیں آیا۔ انقلابی لفاظی کرنے والی پیپلز پارٹی تو ابھی حال ہی میں ”عسکری قیادت“ پر لگائے جانے والے عمران خان کے الزامات کے جواب میں ملک بھر میں فوج کے دفاع میں ریلیاں اور جلوس منعقد کر چکی ہے۔ بایاں بازو جو اپنی نظریاتی موقع پرستی کی وجہ سے تحریک انصاف کو فسطائی جماعت قرار دے چکا ہے، اب برملا کہہ رہا ہے کہ فسطائیت کا راستہ روکنے کے لیے مضبوط حکومت کی ضرورت ہے، بھلے ہی وہ حکومت عسکری بیساکھیوں پر ہی کیوں نہ کھڑی ہو۔ یوں ملک کی موجودہ صورتحال میں جب اسٹیبلشمنٹ تاریخ کی شدید ترین داخلی خانہ جنگی کے باعث کمزور ہو چکی ہے، تو نام نہاد جمہوری قوتیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے پہلے سے زیادہ انکی چاپلوسی میں غرق ہو چکی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی شکست خوردہ فوج کو واپس لا کر اسے پہلے سے زیادہ طاقتور کیا تھا تاکہ مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو بچایا جا سکے۔ اسی فوج نے موقع ملتے ہی بھٹو کو عدالت کے ذریعے قتل کروا دیا تھا۔ آج عسکری قیادت سقوط ڈھاکہ کا ملبہ بھی برملا سیاسی قیادت پر ڈال رہی ہے اور پیپلز پارٹی سمیت کسی سیاسی قیادت میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ اسکی برائے نام مذمت ہی کر دے۔ مختصر یہ کہ گزشتہ چھ ماہ سے سیاسی افق پر جاری نورا کشتی کا سبق یہ ہے کہ یہ بحران کسی ایک پارٹی یا ادارے کا نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام اور اسکی نمائندہ ریاست کا ہے اور اس نظام پر یقین رکھنے والی کوئی پارٹی یا ادارہ ملک کو اس بحران سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت چونکہ اب اپنے پسندیدہ امیدوار یعنی جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے، لہٰذا اب عسکری و سویلین قیادت مل کر ملک کو اس داخلی خانہ جنگی سے نکال کر معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کریں گے، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اس تعیناتی سے نہ صرف ادارے کے اندر تناؤ کم نہیں ہوگا بلکہ آج کے دوست کب آپس میں دست و گریبان ہو جائیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ یہ لڑائی اس لیے بھی اور زیادہ شدت اختیار کرے گی کہ ملکی معیشت بہت تیزی سے زوال پذیر ہے اور ایسی صورتحال میں اپنے اپنے حصے کے حصول کے لیے پنجہ آزمائی کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عمران خان معیشت کی تیز ترین گراوٹ کی تمام تر ذمہ داری پی ڈی ایم حکومت پر عائد کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آٹھ ماہ قبل جب تحریک انصاف حکومت میں تھی تو ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات صرف پانچ فیصد تھے جو حالیہ رپورٹس کے مطابق ایک سو پانچ فیصد سے تجاوز کر چکے ہیں۔ دوسری طرف حکومت کے معذرت خواہان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ موجودہ سیلاب نے حکومتی مسائل میں اضافہ کیا ہے، بصورت دیگر دودھ اور شہد کی نہریں بس بہنے ہی والی تھیں۔ اسکے برعکس سیلاب سے جہاں لاکھوں غریب گھرانے برباد ہو گئے ہیں وہیں موجودہ حکومت کو نقصان کی بجائے فائدہ ہی ہوا ہے اور اب انہیں دنیا بھر سے زیادہ ڈالرز ملنے کی امید ہے۔ اسی امید کی بنا پر اسحاق ڈار کی اچانک واپسی ہوئی ہے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے خیرات ملنے کا عمل شروع ہوا ہے۔ اگرچہ موجودہ اور گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسیوں میں رتی برابر بھی فرق نہیں مگر یہ انتہائی ڈھٹائی سے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی سیاست چمکاتے رہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ لبرلز کی موجودہ حکومت سے منسلک خوش فہمیاں بھی اب منہدم ہو رہی ہیں اور یہ حکومت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے باوجود بھی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہیں کر پا رہی۔ چند روز قبل ایک اہم فنانشل ادارے نوروما کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جن آٹھ ممالک کی کرنسی شدید دباؤ کا شکار ہے اور کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتی ہے، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسحاق ڈار کے دعووں کے برعکس دیوالیہ پن کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کی قسط کے علاوہ سیلاب ریلیف پیکج میں 1.2 ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں مگر یہ یا اس طرح کی مزید ممکنہ سامراجی فیاضی پاکستان کی مالیاتی ضرورت کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ رواں برس میں بیرونی ادائیگیوں، خساروں اور درآمدی ضروریات پوری کرنے کے لیے حکومت کو 35 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم درکار ہے جس میں مختلف ملکی و عالمی وجوہات کے کارن مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ملکی حالات کے پیشِ نظر ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں بہت تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں ایک سال قبل کے مقابلے میں بیرونی سرمایہ کاری میں 65 فیصد سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے حال ہی میں ریمارکس دیئے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے نظام انصاف پر اعتماد کرنا چاہیے۔ اس سے ریاستی اداروں کی مسلسل بڑھتی ہوئی فرسٹریشن کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حالیہ سیلاب میں گندم، کپاس اور چاول جیسی اہم فصلوں کی بڑے پیمانے پر تباہی کے باعث مستقبل میں درآمدی ضروریات میں مزید اضافہ ہو گا۔ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے کی بجائے بڑھے گا۔ دوسری طرف گردشی قرضہ ایک بار پھر 2500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ یہ تمام خسارے ماضی کی طرح عوام پر مزید مہنگائی کا بوجھ لاد کر ہی پورے کیے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے منی بجٹ کا پہلے ہی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الوقت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے بڑھانے سے گریز کر رہی ہے مگر زیادہ دیر تک قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ ملک کے طول و عرض میں سردی کا آغاز ہو چکا ہے، جبکہ گیس ملک بھر میں معدوم ہے۔ حتیٰ کہ کوئٹہ اور شمالی علاقوں میں منفی سینٹی گریڈ میں بھی لوگ بغیر گیس کے ٹھٹھر ٹھٹھر کر اور رینگ رینگ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ناقابلِ برداشت صورتحال ہے۔ اگرچہ چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کے معاملے میں عمران خان کو شکست ہوئی ہے اور وہ بڑے پیمانے پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے مگر مذکورہ بالا حالات میں عوامی اضطراب کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا اور حقیقی متبادل کی عدم موجودگی میں وقتاً فوقتاً عمران خان اس کیفیت سے فائدہ اٹھا کر حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتا رہے گا۔ لیکن اس سارے کھلواڑ میں وہ خود بھی بری طرح ایکسپوز ہوا ہے، یوں ریاست کے پاس متبادل معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ریاست کا امریکہ نواز دھڑا پاکستان کے آفیشل یعنی لبرل لیفٹ کو بھی سیاسی اکھاڑے میں کھل کر کھیلنے کا موقع دے سکتا ہے مگر اصلی سوال جوں کا توں ہے کہ ریاست کی آشیرباد اور معروضی حالات کی غیر سائنسی توضیح کی بنیاد پر کوئی بھی سیاسی قوت موجودہ بحران کا حل پیش نہیں کر سکتی۔ ایک یا دوسری پارٹی یا ادارے پر خالی خولی تنقید نہیں بلکہ سرمائے کی زنجیروں سے مکمل آزادی کے پروگرام کی ضرورت ہے۔ مگر اس کے لیے محنت کش طبقے کی سیاسی و انقلابی قوت پر اعتماد اور انحصار کرنا ہو گا۔
جہاں ایک طرف مہنگائی کی دوزخ نے محنت کش طبقے کی سیاسی وفاداریوں، روحانی عقیدتوں اور سماجی روایتوں کو جلا کر بھسم کر دیا ہے، وہیں حکمران طبقے کی داخلی رسہ کشی نے بھی ان کے شعور پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔ وہ بے جان تماشائی نہیں ہیں بلکہ سنجیدگی سے موجودہ صورتحال سے اہم نتائج برآمد کر رہے ہیں۔ جہاں بڑے پیمانے پر پھیلتی ہوئی بیروزگاری ان کی طبقاتی ساخت اور تشخص کو مجروح اور کمزور کر رہی ہے، وہیں حکمران طبقے کی طرف سے ہونے والے ایک دوسرے پر حملے محنت کش طبقے کو سیاسی طور پر سماج کی طبقاتی بنتر کو سمجھنے میں معاون ہو رہے ہیں۔ مزید برآں ایران اور سری لنکا کے واقعات بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں جو محنت کش طبقے کو درکار جرات کے فقدان کو ختم کر سکتے ہیں۔ نوجوان بالخصوص اس سارے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، وہ حالیہ سیلاب سے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور اس کا اظہار جلد یا بدیر طلبہ کی سیاسی تحریکوں کی صورت میں ہونا ناگزیر ہے۔ اس سے بھی محنت کش طبقے کو وہ توانائی میسر آئے گی جو بیروزگاری اور مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں کے باعث فی الوقت ان میں نظر نہیں آ رہی۔ یوں مزدور تحریک کا مستقبل قریب میں ایک نیا جنم خارج از امکان نہیں مگر یہ ٹریڈ یونین قیادت کے زوال اور بائیں بازو کے ابہامات کے باعث بے پناہ نشیب و فراز سے عبارت ہو گا۔ ایسے میں مارکس وادیوں کو صبر اور مضبوط اعصاب کے ساتھ محنت کشوں کے ساتھ سیاسی ربط میں استحکام اور مضبوطی استوار کرنی ہو گی۔ حکمران طبقے کی داخلی لڑائیوں میں کمتر برائی یا مبینہ ترقی پسند دھڑے کی قربت حاصل کرنے کی بجائے حکمران طبقے کے خلاف سیاسی و نظریاتی پروپیگنڈہ تیز تر کرنا ہو گا۔ اور سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت اور سوشلزم کی افادیت کو روزمرہ زندگی کے مسائل اور ایشوز سے جوڑ کر آسان اور قابلِ فہم انداز میں محنت کشوں کی ہراول پرتوں کے سامنے ایک مضبوط بیانیے کے طور پر پیش کرنا ہو گا۔ قومی اور صنفی یا دیگر ہر قسم کے جبر کے خلاف چلنے والی قابلِ ذکر تحریکوں میں طبقاتی یکجہتی کے واشگاف نعرے اور بینر کے ساتھ درمیانے طبقے کی مخلص اور لڑاکا نوجوان پرتوں کو مارکسی نظریات کی طرف مائل کرنا ہوگا اور یہ سمجھانا ہو گا کہ طبقاتی جنگ اور انقلاب کا راستہ جتنا بھی مشکل، کٹھن اور مسدود کیوں نہ ہو جائے بہرحال تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اس کے علاوہ بالعموم سماج اور بالخصوص محنت کشوں کی نجات کا اب کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا۔