تحریر: |فضیل اصغر|
جب سے کارل مارکس نے سوشلزم کا سائنسی نظریہ دیا ہے تب سے ایک مخصوص طبقے کو مستقل پریشانی کا سامنا ہے۔ جی، اسی طبقے کو جو سماج کے ذرائع پیداوار پر قابض ہے اور پوری نسل انسانی کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہے۔ اس طبقے کو عام زبان میں حکمران طبقہ کہا جاتا ہے۔ ذرائع پیداوار پر اس مخصوص چھوٹے سے طبقے کے قبضے کی وجہ سے پیسہ چند ہاتھوں میں سکڑ کر رہ جاتا ہے اور نسل انسانی کی بھاری اکثریت اس نظام زر میں اس زر سے محروم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بھاری اکثریت بھوک اور محرومی کی زندگی گزارتی ہے۔
ویسے تو یہ واضح حقیقت ہے کہ اس نظام میں اکثریت کا استحصال کیا جا رہا ہے مگر اس نظام کے رکھوالے جو اس نظام کی بدولت وحشی بن چکے ہیں اس نظام کو نسل انسانی کا ہمدرد اور دوست بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اپنا وحشیانہ پاگل پن جاری رکھ سکیں۔ اس کام کیلئے انہوں نے مختلف فیکٹریاں بنا رکھی ہوتی ہیں جنہیں کالج اور یونیورسٹیاں کہا جاتا ہے جہاں سے انکے اس نظام کی حفاظت کیلئے روبوٹس کی ایک فوج تیار ہوتی ہے جس کا کام محض اس نظام کو ازلی او ابدی بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے۔
مارکسزم یا سائنسی سوشلزم ایک ایسی حقیقت ہے جواپنے آپ کو تاریخ کی کسوٹی پر سچ ثابت کر چکی ہے اور اب نسل انسانی کو ایک چھوٹے سے وحشی طبقے کے تسلط سے آزاد کرانے کو تیار کھڑی ہے۔ نسل انسانی کی آزادی کی اس للکار کے خوف سے وہ چور طبقہ ہمیشہ سے مارکسزم کے خلاف غلیظ پروپیگنڈا کرتا آرہا ہے۔ کبھی مارکسزم کو خیالی پلاؤکہا گیا تو کبھی ناکام نظریہ۔ اور نہ جانے کیا کچھ نہیں کہا گیا مارکسزم کو بدنام کرنے کیلئے۔ مارکسزم کو ناقابلِ عمل ثابت کرنے کیلئے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انسان تو فطری طور پر لالچی ہے اور ایک دوسرے سے ہمیشہ مقابلے میں ہوتا ہے تاکہ اپنا وجود برقرار رکھ سکے لہٰذاایک ایسا نظام جس میں مقابلہ نہ ہو وہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ مارکسزم انسانی فطرت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں مقابلہ نہیں۔ اور سرمایہ داری چونکہ مسابقت کے اصولوں پر قائم نظام ہے لہٰذا یہ ایک فطری نظام ہے اور یہی تاریخ کا اختتام ہے۔
بظاہر تو سب کو لگتا ہے کہ واقعی انسان لالچی ہی ہے کیونکہ کسی بھی جھوٹ کو اگر بار بار دہرایا جائے تو ایک وقت آنے پر وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اس عوام کے ساتھ ہوا ہے جسے روزی روٹی کی بھاگ دوڑ میں لگا کر پڑھنے اور سمجھنے سے کوسوں دور پھینک دیا گیا ہے اور جھوٹ سے بھری کتابیں، فریب سے بھرپور میڈیا اور نفرت سے بھرے تعلیمی اداروں کے ذریعے عوامی شعور کو ایک خود ساختہ غلامی کے ڈھانچے میں قید کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہر بات کو بغیر تحقیق کیے ناصرف مان لیتے ہیں بلکہ لاشعوری طور پر اسکی تبلیغ بھی کرتے رہتے ہیں۔ مگر اگر سائنسی بنیادوں پر اس بات کی تہہ میں جایا جائے تو سرمایہ داری کے سستے دانشوروں اور نام نہاد سائنسدانوں کا تمام غلیظ پروپیگنڈا جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ انسان کی حقیقت جاننے کیلئے ہمیں انسان کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ اور تاریخ کے مطالعہ کیلئے ہمیں ٹھوس مادی اور سائنسی بنیادوں کا سہارا لینا ہوگا۔
جب ہم تاریخ کا مطالعہ ٹھوس مادی اور سائنسی بنیادوں پر کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے انسان ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتا تھا کہ خوراک کیسے ڈھونڈی جائے۔ وہ سارا سارا دن خوراک کی تلاش کیلئے جدوجہد کرتا رہتا۔ کچے پکے پھلوں اور کچے گوشت سے پیٹ بھرتا اور اس طرح زندہ رہتا۔ اس قدیم دور کو مارکسی زبان میں قدیم اشتراکی نظام کہا جاتا ہے۔ اس دور میں انسان مل کر رہتے تھے کیونکہ ان کا مل کر رہنا ہی اس وحشی دور میں انکی جان کی بقا تھی۔ اس دور میں مادی طور پر انسان اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا کہ خوراک کو ذخیرہ کر سکتا لہٰذا روز ایک ہی کام اسے کرنا ہوتا تھا اور وہ کام تھا خوراک تلاش کرنا۔ خوراک خواہ وہ پھل ہوں یا شکار سب مل کر کھاتے تھے اورروز کھانے کے بعد چونکہ خوراک بہت کم ہوتی تھی اس لیے پیچھے کچھ نہیں بچتا تھا اور اگلے دن پھر خوراک کی تلاش شروع۔ چونکہ اس دور میں ذاتی ملکیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس وقت ذرائع پیداوار اتنے جدید نہیں تھے کہ خوراک کا ڈھیر لگایا جا سکے لہٰذایہ چیز میری ہے، وہ چیز میری ہے کی لڑائی کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ اس دور کے مادی حالات کی وجہ سے انسان کا شعور جڑت اور اجتماعیت کا تھا۔ اور چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہنے والے انسان لالچ، لڑائی، قبضہ، دھوکا اور انا جیسے مسائل سے بالکل نا آشنا تھے۔ ایسا ہرگزنہیں تھا کہ اس دور میں انسان بہت عظیم اور رحم دل تھے یا ان کو کسی غیبی طاقت نے ایسا بنایا ہوا تھا بلکہ ایسا ہونا اس دور میں ناگزیر تھا۔ نہ اس دور میں انسان کے پاس اینٹوں کے بنے گھر ہوتے تھے اور نہ ہی جدید ہتھیار جن کی مدد سے وہ اپنی حفاظت کر سکیں۔ اگر اس دور میں اپنی جان بچانی تھی تو اسکا ایک ہی راستہ تھا کہ مل جل کر رہا جائے۔ اس مل جل کر رہنے کی وجہ سے اس دور کے انسانوں کا شعور بھی جڑت اور اجتماعیت کا ہی تھا۔
جیسے جیسے آلات پیداوار یعنی نیزہ یا تیر وغیرہ میں ترقی آتی گئی ویسے ویسے پیداوار بھی زیادہ ہوتی گئی اور ایک وقت آنے پر اب انسان کے پاس اتنا باقی بچنا شروع ہوگیا کہ اس باقی بچی ہوئی خوراک پر ملکیت کا سوال اٹھنے لگا۔ اس زائد پیداوار کی وجہ سے انسان لاکھوں سال اکٹھا رہنے کے بعد اب طبقات میں بٹ گیااور مادی حالات کی وجہ سے طبقات کا جنم ہوا۔
انسانی تایخ میں کئی نظام آئے جن میں غلام داری، جاگیرداری اور سرمایہ داری شامل ہیں۔ سرمایہ داری نظام ، جاگیرداری نظام کے بطن سے ایک انقلاب کی صورت میں نکلا۔ اس نظام نے ہر انسان کو آزادانہ کاروبار کرنے کی آزادی مہیا کی جو پچھلے نظاموں میں نہیں تھی۔ مگر تمام تر ترقی پسندی کے باوجود اس نظام میں بھی ایک ایسی خامی موجود تھی جو پچھلے نظاموں یعنی غلام داری اور جاگیرداری میں موجود تھی اور وہ خامی تھی ذاتی ملکیت۔ اس نظام میں بھی ذاتی ملکیت جو تمام مسائل کی جڑ تھی اسے ختم نہیں کیا گیا بس اسکی شکل تبدیل کی گئی۔ اس نظام نے چونکہ ذاتی کاروبار کرنے کی آزادی انسان کو دی (البتہ وہ آزادی محض ان کیلئے ہے جن کے پاس پیسہ ہے) لہٰذ اسکی وجہ سے ذاتی خود غرضی، لالچ اور دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کی نفسیات نے جنم لیا۔ ایسا ہونا ناگزیر تھا۔ چونکہ مادی حالات شعور کا تعین کرتے ہیں لہٰذا سرمایہ داری نظام میں مقابلہ بازی اور اجارہ داری کی لڑائی کی وجہ سے انسانی شعور بھی مقابلہ بازی اور لالچ کے سانچے میں ڈھل گیا۔ اور وسائل پر چند لوگوں کے قبضے کی وجہ سے قلت کی نفسیات آج بھی برقرار ہے اور لوگ خودغرضی اور لالچ کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس لالچ اور خودغرضی کو ختم نہیں کیا جاسکتا؟ بالکل اس لالچ اور خودغرضی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ وہ کیسے؟ ذرائع پیداوار کو چند ہاتھوں کی ملکیت سے نکال کر تمام سماج کی ملکیت میں دینے سے نسل انسانی کو ہر شے وافر مقدار میں مہیا کی جاسکتی ہے۔ اور اس طرح نسل انسانی کو تاریخ میں پہلی بار قلت کی نفسیات سے نکالا جاسکتا ہے۔
مگر یہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے جب محنت کش طبقہ بزور طاقت تمام بڑی بڑی جاگیروں اور عوامی اثاثوں پر قبضہ کر کے اس دنیا میں اپنی حکومت قائم کرے گا ۔ اور ایک معیاری جست (انقلاب) کی صورت میں نسل انسانی کو تاریخ کی تمام اذیتوں اور پریشانیوں سے آزاد کرائے گا۔
آج سرمایہ دارانہ نظام جوں جوں اپنے زوال کی طرف جا رہا ہے توں توں محنت کش طبقے میں پریشانی، خوف اور غصہ جنم لے رہا ہے اور اس نفسیاتی تذبذب کی وجہ سے محنت کش طبقہ ایک شعوری جست کے درپے ہے۔ مگر وہ شعوری جست کوئی ہوا میں معلق خیالی بات نہیں اسکا تعلق ایک معیاری جست سے ہے جو اسی دنیا میں اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کش طبقے کا وار ہوگا۔ وہ وار نسل انسانی کو کس طرف لے کر جائے گا نسل انسانی کی بقا اور حقیقی انسانی آزادی یعنی سوشلزم کی طرف یا پھربربریت کی طرف اسکا فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے!
ہمیں آج ایک انقلابی پارٹی بنانی ہوگی جو محنت کشوں کی تحریکوں کو ایک انقلابی پروگرام کے ذریعے اس گھٹیا نظام کے خلاف ایک ضرب کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس نظام کا خاتمہ کرسکے۔