|تحریر: ڈیوڈ رے، ترجمہ: ولید خان|
فیمینسٹ تحریک اور صنفی جبر کے خلاف جدوجہد کے ابھار کے نتیجے میں بائیں بازو اور خود فیمینسٹ تحریک کے کچھ حصوں میں ایک بار پھر ”گھریلو خواتین کے لیے اجرتوں“ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ وہ خواتین کی طرف سے کئے جانے والے گھریلو کام کی ”بلامعاوضہ“ کام کے بطور تشریح کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ سرمایہ دار اس بلا معاوضہ کام کے ذریعے اپنے اخراجات بچا رہے ہیں۔ اس مسئلے پر مارکسزم کا کیا موقف ہے؟
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مشہور فیمینسٹ اور گھریلو خواتین کے لیے اجرتوں کی سب سے سرگرم حامیوں میں سے ایک سیلویا فیدریچی یہ دلیل دیتی ہے کہ:
”یہ اجرت نگہداشت کے کام کو تبدیل کر دے گی اور یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ کام اپنے آپ میں ایک نوکری ہے۔ گھریلو کام کو ایک اجرتی سرگرمی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے کیونکہ یہ ’لیبر کی تخلیق میں حصہ ڈالتا ہے اور یوں سرمایہ پیدا کرتا ہے اور اس طرح پیداوار کی دیگر اشکال کو ممکن بناتا ہے‘“۔
اس بابت بائیں بازو کے چند حصوں اور فیمینسٹ تحریک کے نقطہ نظر کا لب لباب کچھ یوں نکلتا ہے: گھر میں مزدور کے بچے پیدا کئے اور پالے پوسے جاتے ہیں اور کل کو وہ بھی مزدور بن جائیں گے۔ یہ تمام محنت سرمایہ داروں کو مفت میں پڑتی ہے۔ وہ نئے مزدوروں کو پروان چڑھانے میں کوئی حصہ نہیں ڈالتے جو کل محنت کی منڈی میں داخل ہوکر انہیں سرمایہ داروں کے ہاتھوں استحصال کروانے کے لیے تیار ہوں گے۔ مزید یہ کہ اس ”تولیدی محنت“ کی ”خالق“ (یعنی وہ جو مزدوروں کی نسل آگے بڑھاتی ہے) گھریلو خاتون ہے جسے اس کے عوض ایک دھیلہ بھی نہیں ملتا۔ سرمایہ داری اس کی ”محنت“ کو غیر ہنرمند گردانتی ہے جس کی قدر نہ ہونے کے برابر ہے اور صرف گھر سے باہر مرد کی محنت کو ہی اہمیت دیتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اگر ”مرد“ کے کام کو مفید سمجھتے ہوئے اس کی اجرت دی جاتی ہے تو ”تولیدی محنت“۔۔ جو نئے مزدور پیدا کرنے کے لئے انتہائی اہم ہے۔۔کو بھی اول الذکر جتنی اہمیت دی جانی چاہیے اور نتیجتاً گھریلو خاتون کو بھی اس کے عوض اجرت ملنی چاہیے۔ اس طرح وہ خاندان کی اکائی کے اندر رہتے ہوئے آزادی بھی حاصل کرسکے گی۔
جب بھی ہم مارکس وادیوں کو کوئی سیاسی سوال درپیش ہوتا ہے تو ہم ہمیشہ اپنے بنیادی اصولوں سے رجوع کرتے ہیں تاکہ درست نتائج اخذ کیے جا سکیں۔ اس سوال پر مارکسی موقف کے دو بنیادی پہلو ہیں۔ پہلا ایک سائنسی نقطہ نظر ہے جس کی بنیاد مارکس کا وہ نظریہ ہے جو (انسانی) محنت کو قدر کی بنیاد قرار دیتا ہے(Labour Theory of Value) ہے، بالخصوص قوتِ محن کی قدر کی ترکیب کے حوالے سے (یعنی اجرت کا تعین کیسے ہوتا ہے)۔ دوسرا پہلو ایک سیاسی، سوشلسٹ نقطہ نظر ہے جو بالعموم محنت کش طبقے کے اور بالخصوص محنت کش خواتین کے مفادات اور سماجی آزادی، سوشلزم اور پدرشاہانہ خاندان کے خاتمے سے متعلق ان کی جدوجہد سے موافقت رکھتا ہے۔
ہم خاتون خانہ کے ذمے گھریلو کام کا تجزیہ انہی دو بنیادوں پر کریں گے۔ ہمارے تجزئیے کی بنیاد سرمایہ داری کے ان قوانین کی درست سمجھ بوجھ ہے جن کے تحت اجرتوں کا تعین ہوتا ہے۔ اگر ان قوانین کے متعلق ہماری تفہیم غلط ہوگی تو گھریلو کام کے حق میں کتنی ہی اخلاقی توجیحات پیش کی جائیں جنسی عدم برابری اور غربت کامسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اپنے تجزیئے کو آسان فہم بنانے کے لئے ہم سب سے سادہ مثال کو نقطہ آغاز بنائیں گے یعنی ایک ایسا محنت کش خاندان جس میں مرد گھر سے باہر کام کرتا ہے اور عورت امور خانہ سر انجام دیتی ہے۔
اجرت کیا ہے؟
سب سے پہلے تو ہمیں یہ وضاحت کرنا ہو گی کہ قوتِ محنت کی قدر۔۔ یعنی اجرت۔۔ کیا ہوتی ہے اور اس کا تعین کیسے کیا جاتا ہے۔ قوتِ محنت ان تمام جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جو ایک مزدور کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ کسی کمپنی، ادارے یا کسی فرد کے لیے محنت کر سکے، جس کا معاوضہ اجرت کی صورت میں ملتا ہے۔
قوتِ محنت کی قدر، جس کا اظہار اجرتوں کی شکل میں ہوتا ہے، کا تعین بعینہ ویسے ہی ہوتا ہے جیسے کسی بھی دوسری شے یا کموڈیٹی کا، یعنی اس کی پیداوار کے لئے درکار لازمی سماجی محنت کے وقت (Socially Necessary Labour Time) کے ذریعے۔ یعنی ہر عہد کے سماجی حالات کے مطابق زندگی کی بقا کے لیے درکار وہ لازمی ذرائع جو کہ محنت کشوں کی افزائش کو یقینی بنائیں۔ اس طرح اپنی اجرتوں سے ایک مزدور بنیادی ضروریاتِ زندگی کا سامان کرتا ہے تاکہ وہ روزانہ کام کر سکے۔۔ یعنی کھانا، رہائش، کپڑے، تعلیم، ٹرانسپورٹ وغیرہ۔
اجرتوں کی بدولت ایک محنت کش کی افزائش دو رخے کردار کی حامل ہوتی ہے۔ اول محنت کشوں کی قوتِ محنت کی افزائش تاکہ وہ ہر روز محنت کرنے کے قابل ہو سکیں اور دوسر ا، جو کہ سر دست زیر بحث سوال ہے، کہ وہ ایک نئے خاندان کا آغاز کر سکے اور جنسی افزائش کے ذریعے مستقبل کے مزدور پیدا ہوسکیں تاکہ جب گھس پٹ جانے والی افرادی قوت پیداواری عمل سے باہر ہو جائے تو سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کا تسلسل جاری رہ سکے۔
اجرتوں اور گھریلو محنت پر مارکس اور اینگلز کا موقف
مارکس اور اینگلز نے معیشت پر اپنی تمام تر تحریروں میں اجرتوں کی مذکورہ بالا تعریف کو ہی بنیاد بنایا۔ مارکس کے مطابق:
”پھر، قوتِ محنت کی قدر کیا ہے؟ ہر ایک شے(یا جنسCommodity) کی طرح اس کی قدر کا تعین اس کی پیداوار کے لئے درکار محنت کی مقدار سے کیا جاتا ہے۔ ایک شخص کی قوتِ محنت اس کے زندہ وجود کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ اپنی افزائش اور زندگی کی ڈور کو قائم رکھنے کے لیے لازم ہے کہ ایک شخص ایک مخصوص مقدار میں ضروریات زندگی کوصرف کرے۔لیکن کسی مشین کی طرح وہ فرد بھی گھِس کر بیکار ہو جائے گااور اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو لینی ہوگی۔ اپنی گزر بسر کے لیے درکار لوازمات کے ساتھ ساتھ اس کو دیگر ضروریات (زندگی) بھی درکار ہوتی ہیں تاکہ بچوں کی کسی ایک تعداد کو پال پوس کر بڑا کرے جو محنت کے بازار میں اس کی جگہ کھڑے ہو جائیں اور مزدوروں کی یہ نسل ہمیشہ چلتی رہے۔“ (کارل مارکس۔۔ قدر، قیمت اور منافع، 1865ء)
اسی تحریر میں مارکس اس امر پر زور دیتا ہے کہ:
”اس کی سب سے نچلی حد تو جسما نی عنصر سے ہی بنتی ہے، یا یو ں کہیے کہ اپنا و جو د با قی ر کھنے اور پھر سے پید ا کر نے کی خا طر، ا پنے جسما نی و جو د کو قا ئم و د ا ئم ر کھنے کی خا طر مز دو ر طبقے کو وہ ضر و ر یا ت ز ند گی میسر ہونی چا ہئیں جو ز ند ہ ر ہنے اور نسل بڑ ھا نے کے لیے ا نتہا ئی لا ز می ہو تی ہیں۔“ (کارل مارکس۔۔ قدر، قیمت اور منافع، 1865ء)۔
یہ بات قابل غور ہے کہ مارکس واضح طور پر زور دیتا ہے کہ حاصل کردہ اجرتوں کا مقصد صرف انفرادی مزدور کی بقائے حیات نہیں ہے بلکہ اپنے خاندان کی پرورش بھی ہے جس میں اس کی بیوی اور بچے شامل ہیں۔ جیسا کہ مارکس نے داس کیپٹل میں وضاحت کی:
”قوتِ محنت کی قدر کا تعین نہ صرف انفرادی بالغ مزدور کی بقاء کے لئے درکار وقتِ محن سے کیا گیا تھا بلکہ وہ (وقت محن) بھی جو اس کے خاندان کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ضروری تھا(اس میں شامل تھا۔مترجم)“ (کارل مارکس، سرمایہ، جلد اول، سیکشن 3، باب 15 ’مشینری اور جدیدصنعت‘، 1867ء)
اور پھر،
”قوتِ محن کا مالک فانی ہے۔ پھر اگر اس کی منڈی میں مسلسل موجودگی درکار ہے اور زر کی سرمائے میں مسلسل تبدیلی بھی یہی گردانتی ہے، تو پھر قوتِ محن بیچنے والے کو خود کو اسی طرح دوام بخشنا ہے ’جس طرح ہر زندہ فرد اپنے آپ کو دوام بخشتا ہے۔۔ افزائشِ نسل کے ذریعے‘۔ یہ ضروری ہے کہ گھس پٹ جانے اور موت کے نتیجے میں منڈی سے نکل جانے والی قوت ِ محنت کی جگہ کم از کم اتنی ہی مقدار میں تازہ دم قوتِ محنت لیتی رہے۔ چنانچہ، قوت محنت کی پیداوار کے لیے درکار کم از کم وسائل میں موجودہ محنت کشوں کی جگہ لینے والوں کے لیے ضروری وسائل بھی شامل ہوتے ہیں، یعنی اس کے بچوں کے لئے، تاکہ اس مخصوص جنس کے مالکوں کی نسل کا وجود منڈی میں یوں ہی جاری و ساری رہے۔“(کارل مارکس، سرمایہ، جلد اول، باب نمبر 6، ’قوتِ محن کی خرید اور فروخت‘، سیکشن 3، 1867ء)
اس معاملے میں اینگلز بھی بالکل واضح ہے۔ داس کیپٹل پر اپنے مشہور تبصرے میں اس نے لکھا کہ:
”قوتِ محن کی قدر کیا ہوتی ہے؟ ہر جنس کی قدراس کی پیداوار میں لگنے والی محنت سے ماپی جاتی ہے۔ قوت محنت ایک زندہ مزدور کی صورت میں وجود رکھتی ہے، جس کواپنی اورساتھ ساتھ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے ایک معین مقدار میں ضروریاتِ زندگی درکار ہیں جو اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ اس کی موت کے بعد بھی قوتِ محنت کا تسلسل جاری رہے گا۔لہٰذا، ان ضروریاتِ زندگی کی پیداوار کے لئے درکار لازمی وقتِ محن، قوتِ محن کی قدر کی عکاسی کرتا ہے۔ سرمایہ دار اس کی ہفتہ وار قیمت ادا کرتا ہے اور اس طرح وہ مزدور کی ایک ہفتے کی محنت کا مصرف خرید لیتا ہے۔ یہاں تک تو معزز معیشت دان قوتِ محنت کی قدر کی بابت ہم سے خاصی حد تک اتفاق کرتے ہوں گے۔“ (فریڈرک اینگلز، ڈیموکراتیش وخینبلات کے لئے سرمایہ جلد اول پر تبصرہ، 1868ء)۔
مزدور کی تعلیم و تربیت پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے، جو اجرت میں شامل ہوتے ہیں، مارکس کے مشاہدات دلچسپی کے حامل ہیں:
”انسانی وجود کو تبدیل کرنے کی خاطر، تاکہ وہ صنعت کے دئیے گئے شعبے میں مہارت اور چابکدستی حاصل کر سکے، اور ایک مخصوص قسم کی قوتِ محن (کا مالک۔مترجم) بن جائے، ایک خاص تعلیم یا تربیت درکار ہوتی ہے اور اپنے تئیں، اس کی لاگت اشیا (Commodities) کی کم یا زیادہ مقدار کے مساوی ہوتی ہے۔ یہ مقدار قوتِ محن کے کم یا زیادہ پیچیدہ کردار کے ساتھ ساتھ بڑھتی یا گھٹتی ہے۔ اس تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات(جو کہ سادہ قسم کی قوتِ محنت کے معاملے میں انتہائی معمولی ہوتے ہیں) اس(قوت محنت۔ مترجم) کی پیداوار پر خرچ کی گئی کل قدر میں اسی لحاظ سے شامل ہوجا تے ہیں۔“ (کارل مارکس، سرمایہ، جلد اول، سیکشن3، باب 6، ’قوتِ محن کی خرید اور فروخت‘، 1867ء)۔
مرکزی مدعا یہ ہے کہ: جیسے کہ مارکس اور اینگلز وضاحت کرتے ہیں کہ ایک مزدور کی اجرت میں درپیش سماجی حالات میں اپنی گزر بسر اور اگلے روز کام پر واپس آنے کے لیے ضروری وقتِ محن کے ساتھ ساتھ ورک فورس کی افزائش نسل کے لیے درکار وقت محن بھی شامل ہوتا ہے یعنی بچے پیدا کرنا اور ایک خاندان بنانا۔ مختصراً نام نہاد ”تولیدی محنت“، جیسے کہ فیمنسٹ تحریک کا ایک حصہ گھریلو محنت کی تشریح کرتا ہے، اس کی قیمت پہلے ہی مزدور کی اجرت میں ادا ہو چکی ہوتی ہے۔
سرمایہ داری کے قوانین کے مطابق خاتون خانہ کی گھر میں کی گئی محنت کے عوض براہِ راست اجرت ادا نہ کرنا کوئی معاشی نا انصافی نہیں ہے۔ یہ قیاس پر مبنی اجرت جو کہ اس کا حق ہے یا دوسرے لفظوں میں اس کی گزر بسر کے لیے درکارضروریات، وہ پہلے ہی خاندان کے کسی ایک فرد یا افراد کی اجرت یا اجرتوں میں شامل ہے جو گھر سے باہر کام کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت کسی طور سرمایہ دارانہ استحصال پر مبنی ناانصافی نہیں بلکہ ہمیں جبر اور گھریلو غلامی کی ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے جو کہ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کی دین ہے اور جس میں خاتون خانہ اپنے خاوند اور بچوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے اور گزر بسر کے لیے مکمل طور پر اول الذکر کے دست نگر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیمنسٹ تحریک کے ایک حصے کی جانب سے خواتین خانہ کے لئے اجرتوں کا مطالبہ کر نا ایک یوٹوپیا ہے جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ اور آگے چل کر ہم وضاحت کریں گے کہ یہ مطالبہ غیر سائنسی ہونے کے ساتھ ساتھ رجعتی بھی ہے۔
کیا سرمایہ دار مہربان ہیں؟
اس مسئلے کا ایک اور زاویے سے جائزہ لیتے ہیں۔ اگر خاتون پیداواری محنت کرتی ہے اور اپنے بچوں اور خاوند کی شکل میں اجرتی مزدوروں کی تیاری میں اپنا حصہ ڈالتی ہے (وہ ان کے لئے کھانا بناتی ہے، بچوں کو نہلاتی دھلاتی ہے، بیمار ہونے کی صورت میں ان کی تیمارداری کرتی ہے، کپڑے پہناتی ہے، گھر کو صاف ستھرا رکھتی ہے وغیرہ)تو پھر اسے بھی ایک مزدور سمجھا جانا چاہیے، جس کو اپنے خاوند کی طرح اجرت ملنی چاہیے جس کی بدولت وہ اپنی گزر بسر کا سامان کرسکے۔ لیکن ظاہر ہے اسے کسی سرمایہ دار سے براہِ راست کوئی اجرت نہیں ملتی۔لیکن اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ بھوکی مر جائے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ تو پھر خاتون خانہ کے زندہ رہنے کے لئے وسائل کہاں سے آتے ہیں؟ اگر ایک ماں کو بچوں کی پرورش اور نگہداشت یا گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لئے اجرت نہیں ملتی تو پھر ان سب امورِ زندگی کے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ اس معاملے پر جتنی بھی سوچ بچار کی جائے، جواب روزِ روشن کی مانند واضح ہے۔ ایک بیوی اور اس کے بچوں کی تمام تر ضروریاتِ زندگی کا سامان (کھانا، رہائش، کپڑے، تعلیم، صحت، بجلی وغیرہ)ایک ہی ذریعے سے پورے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔۔اور وہ ہے خاوند کی اجرت۔ بصورت دیگر، اگر خاوند کی اجرت صرف اس کی اپنی گزر بسر کے لیے درکار لوازمات کے مساوی ہوتو بیوی یا اس کے بچوں کے لیے کچھ بھی باقی نہ بچے۔ یا پھر سرمایہ دار اتنے مہربان ہیں کہ وہ ایک مزدور کو اتنی اجرت دیتے ہیں جس کی بدولت کئی افراد (بمشکل)زندہ رہ سکیں؟ اور اصل میں یہی سوال ہے۔
اگر سرمایہ دار فیدریچی کی توجیحات پر کان دھرتے تو ان کا جواب کچھ یوں ہوتا: ”آپ کی تجاویز ہمیں خوش کن معلوم ہوتی ہیں۔ خاتون کو اس کی محنت کی اجرت واقعی ملنی چاہیے اور چونکہ ہم ایک مزدور کو اتنی اجرت ادا کرتے ہیں کہ اس پر ایک سے زیادہ افراد زندہ رہ سکتے ہیں تو پھر کیوں نہ ہم مزدور کو ملنے والی اجرت کو اتنا گھٹا دیں کہ جس پر صرف وہی زندہ رہ سکے، جیسے کہ اگر وہ اکیلا رہ رہا ہو (تاکہ مارکس کے اس نظریے کی خلاف ورزی بھی نہ ہو جو محنت کوقدر کی بنیاد قرار دیتا ہے، گو کہ بائیں بازو کے یہ مشیر ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ ہم پچھلی دو صدیوں سے ایسا کر رہے ہیں) اور خاتون خانہ کو اس کا حصہ ادا کریں تاکہ وہ اپنے دم پر زندگی گزار سکے“۔ دوسرے الفاظ میں مالکان ہر ہفتے دو اجرتیں دیا کریں، ایک اپنے ملازم کے لئے اور دوسری ملازم کی بیوی کے لئے۔
خاتون خانہ کے لئے ایک اجرت جیتنا فیمنسٹ تحریک کی بہت بڑی فتح ہو گی، اگرچہ ایسا اسی صورت ممکن ہوگا کہ خاوند کی تنخواہ گھٹ کر آدھی رہ جائے۔ حتمی تجزیئے میں کچھ بھی نہیں بدلے گا، دونوں کی اجرتوں کو ملا کر حاصل اجرت وہی ہوگی جتنی خاوند کو پہلے ملا کرتی تھی۔ سرمایہ دار کسی صورت پہلے دی جانے والی اجرت سے زیادہ نہیں دے گا۔ تو پھر آخر اس سب سے ثابت کیا ہو تا ہے؟ اس سے ثابت یہ ہو تا ہے کہ خاوند کی اجرت میں اس کی بیوی اور بچوں کی گزر بسر کے لوازمات بھی شامل تھے۔ یہی ہم بتانا چاہتے تھے اور یہی مارکس اور اینگلز ڈیڑھ صدی پہلے بیان کر چکے ہیں۔
خاندان کی اجرت کی قدر میں گراوٹ
ایک خاندان کی اجرت اور فلاح و بہبود کی حقیقی فطرت روزمرہ کی بنیاد پر واضح ہوتی رہتی ہے۔
اسپین جیسے پسماندہ سرمایہ دار ملک میں خواتین پیداواری محنت میں مغربی یورپی اور شمالی امریکی خواتین کے بہت بعد داخل ہوئیں۔ نتیجتاً، اکثر عمر رسیدہ افراد کے منہ سے یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ چالیس یا پچاس سال پہلے پورا خاندان ایک اجرت پر گزر بسر کرتا رہتا تھا (ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ خاوند کی اجرت پر) لیکن اب شوہر اور بیوی دونوں کو کام کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی بمشکل گزارہ ہوپاتا ہے۔ یہ صورتحال ایک محنت کش خاندان کی اجرت کی ترکیب کے حوالے سے مارکس کی تھیوری پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ محنت کی منڈی میں خواتین کی دیو ہیکل تعداد کے آنے سے یہ تبدیلی آئی ہے کہ سرمایہ عمومی اوسط اجرت کو کم کر رہا ہے کیونکہ اب خواتین برسرِ روزگار ہیں اور خاوند کو اپنی بیوی اور باقی ماندہ خاندان کی کفالت کے لئے ”اضافی“ وظیفے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس مسئلے پر مارکس پہلے ہی بات کر چکا ہے۔ اس نے ایک محنت کش خاندان پر، بشمول خواتین کو گھریلو کام سے نکال کر محنت کی منڈی میں ضم کرنے اور خاندان کے بچوں پر بھی، مشینری کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا:
”مشینری خاندان کے ہر فرد کو محنت کی منڈی میں دھکیل کر آدمی کی قوتِ محن کو اس کے پورے خاندان پر تقسیم کر دیتی ہے۔ چنانچہ اس کی(یعنی مرد کی) قوتِ محن کی قدر گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ ایک خاندان کے سربراہ کی قوت ِ محن کو خریدنے کے بجائے خاندان کے چار افراد کی قوتِ محن کو خریدنے پر شاید پیسے زیادہ خرچ ہوں لیکن اس کے بدلے میں اب ایک دن کے بجائے چار دنوں کی محنت میسر ہو جاتی ہے اور ان کی قیمت بھی ایک فرد کی اضافی(سرپلس۔مترجم) محنت کی بجائے چار افراد کی اضافی محنت کے تناسب سے کم ہو جاتی ہے۔ اب ایک کی بجائے چار افراد کو سرمایہ دار کے لیے نا صرف اپنی محنت بلکہ اضافی محنت بھی کھپانی پڑے گی تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مشینری، جہاں ایک طرف اس انسانی مواد کو بڑھاوا دیتی ہے جو کہ سرمائے کی استحصالی قوت کا مرکزی حدف ہے تو ساتھ ہی ساتھ دوسری جانب استحصال میں بھی کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔“ (کارل مارکس، سرمایہ، جلد اول، سیکشن 3، باب 15، ’مشینری اور جدید صنعت‘، 1867ء)
دوسرے الفاظ میں جیسے جیسے ایک گھرانے کے زیادہ سے زیادہ افراد محنت کی منڈی کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں ویسے ویسے ایک خاندان کی گزر بسر کے لیے درکار اجرت کی قدر بھی کم ہوتی جاتی ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر انفرادی اجرت میں ایک حصہ وہ شامل ہوتا ہے جو پورے خاندان کو بحیثیتِ مجموعی گزر بسر کے لئے درکار ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت کے دیگر پہلوؤں کی طرح (قیمت، شرح منافع، شرحِ قدرِ زائد وغیرہ)ایسا نہیں ہوتا کہ ہر سرمایہ دار ہر مخصوص صورتحال پر سوچ بچار کر کے اپنے ایک ایک مزدور کی اجرت کا تعین کرتا ہے بلکہ ایک اوسط اجرت کا تعین ہر پیداواری سیکٹر اور مخصوص جغرافیائی حالات کے مطابق، اس خطہ ارضی میں موجود ایک اوسط خاندان کی ساخت اوربنیادی ضروریاتِ زندگی کی اوسط قیمت کے تحت کیا جاتا ہے۔
گھر سے باہر محنت مزدوری کرنے والی خاتون کے اس محنت کش خاندان پر مضمرات پر مارکس بڑی تفصیل سے بحث کرتا ہے اور ’سرمایہ‘ کے ایک حاشیے میں یوں رقم طراز ہوتا ہے:
”چونکہ بعض مخصوص امور خانہ، جیسے کہ بچوں کی نگہداشت اور دودھ پلانا، کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، اس لئے سرمائے کی زنجیروں میں قید ماؤں کو کسی قسم کے متبادل آزمانے پڑتے ہیں۔ گھریلو کام، جیسے سلائی اور مرمت، کو لازمی طور پر تیار شدہ اشیاء سے تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا، گھر میں ہونے والی محنت کی کھپت میں کمی کے ساتھ پیسے کا خرچ بھی بڑھ جاتا ہے۔ خاندان کی دیکھ بھال کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور یہ زیادہ آمدنی کو برابر کر دیتی ہے۔ مزید برآں، ضروریات زندگی کے بندوبست اور اصراف کے حوالے سے کفایت شعاری اور فیصلہ سازی ناممکن ہو جاتی ہے۔“ (کارل مارکس، داس کیپٹل، جلد اول، سیکشن 3، باب 15’’مشینری اور جدید صنعت“، 1867ء)
سادہ الفاظ میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک خاندان کی خواتین کی پیداواری محنت میں شمولیت سے خاندان کی اجرت کتنی بڑھتی ہے کیونکہ خاندان کی گزربسر کی قیمت میں ہونے والا اضافہ اسے برابر کر دیتا ہے، چاہے یہ اضافہ پہلے عدم درکار ضروریاتِ زندگی کی شکل میں ہو (تیار شدہ کپڑے وغیرہ) یا پھر بچوں کی نگہداشت، گھر کی صفائی ستھرائی وغیرہ کے لئے ملازم رکھنے کی صورت میں۔
کیا ایک خاتون خانہ کے پیدا کردہ بچے ”قدرِ تبادلہ“ ہیں؟
ایک آخری پہلو جس کا تجزیہ ضروری ہے وہ اس نئے فیمنسٹ رجحان کا یہ دعویٰ ہے کہ خواتینِ خانہ مزدور ہیں اور ان کا کام اپنے بچوں کو ”افرادی قوت“ کی شکل میں کموڈیٹیز بنانا ہے یعنی نئے اجرتی مزدورجن میں ”قدرِ تبادلہ“ موجود ہے، یعنی ایک پیداواری لاگت بھی۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بھی ذکر کیا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ اس محنت کی انہیں کوئی اجرت ادا نہیں کی جاتی۔ اگرچہ ہم اس کا خاطر خواہ جواب دے چکے ہیں لیکن نئے نتائج اخذ کرنے کے لئے اس نکتے پر مزید تفصیلی بحث ضروری ہے۔
اپنی نئی کتاب ”تولیدی اور گھریلو محنت“ میں ازابیل لاراناگا، بیگونا اریگوئی اور ہیسوس ارپال لکھتے ہیں کہ:
”تولیدی محنت پیداواری محنت کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے، اس کی بنیاد قدرِ استعمال اور قدرِ تبادلہ میں پایا جانے والا تفاوت ہے جس کی حمایت معاشی تھیوری بھی کرتی ہے۔ اس تفاوت کی وجہ سے ایسی محنت جو مخصوص ضروریات کی تکمیل کرے اس کو قدرِ استعمال گردانا جاتا ہے جبکہ وہ مصنوعات جو منڈی میں تبادلے میں آئیں گی، انہیں قدرِ تبادلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تجارت صرف انہی اجناس کو قدر عطا کرتی ہے جن میں کوئی قدرِ تبادلہ موجود ہو، چنانچہ یہ تولیدی محنت کو اس کی سماجی متعلقیت سے محروم کر ڈالتی ہے اور اس کو گھر یلو دائرے تک محدود کر دیتی ہے، کیونکہ اس کے معاشی فوائد کو ناپا نہیں جا سکتا۔ سرمائے کی منطق نے محنت اور روزگار کو الجھا دیا ہے اور معاشی سرگرمی پر ایک تنگ نظر متعصبانہ سوچ مسلط کر دی ہے۔“ (ازابیل لاراناگا، بیگونا اریگوئی اور ہیسوس ارپال۔۔ تولیدی اور گھریلو محنت)
گھریلو اجرت کے ایک اور مشہور سرگرم حامی اناکی گِل دی سان وی سینتے میں بھی ہمیں قدرِ استعمال، قدرِ تبادلہ اور اجرتوں کے حوالے سے یہی غلط فہمی نظر آتی ہے۔
”اگر ہم اس قدر کو بھی، جو کہ گھریلو یا افزائشِ نسل کے میدان میں صرف کی جاتی ہے، اجرت یافتہ افرادی قوت میں مدغم کر دیں تو اجرتیں اپنے موجودہ پیمانے سے کہیں بلند ہو جائیں گی، تاہم ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔۔چونکہ تولیدی محنت کو تسلیم کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں اس لئے اس کی تمام پیدا کردہ قدر سرمایہ دار ضبط کر لیتا ہے۔ اس لئے یہ سرمایہ دارانہ نظام کے مفاد میں ہے کہ تولیدی محنت کو چھپا کر رکھا جائے، جسے بنیادی طور پر خواتین خاموشی سے سر انجام دے رہی ہیں۔ اگر ہم اس مفت محنت کو منکشف کر دیں یا اس کی اجرت دینی شروع کر دیں تو شرحِ منافع اور سرمائے کے ارتکاز میں گراوٹ دیکھنے کو ملے گی“ (دی سان وی سینتے، سرمایہ داری اور صنف کی قومی اور سماجی آزادی، 2000ء یہاں دیکھیں)۔
یہ تمام تر دلائل، جنہیں مارکسی موقف کی ملمع کاری میں پیش کیا جاتا ہے، مکمل طور پر غلط ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس دلیل کا ایک حصہ حقیقت سے متضاد ہے کیونکہ بچوں کی تعلیم کا سارا عمل گھر سے باہر سر انجام پاتا ہے جو کہ مستقبل میں اجرتی مزدور بننے کے حوالے سے ان کی تربیت کا لازمی جزوہے۔ یعنی نرسری، پرائمری، سیکنڈری، کالج اور یونیورسٹی میں جس میں ماں (اور باپ) کا براہِ راسست کوئی عمل دخل نہیں۔ دوسرا ہم بخوبی جان چکے ہیں کہ یہ اخراجات خاوند کو ملنے والی اجرت میں پہلے ہی شامل ہوتے ہیں، جس کی ادائیگی وہ ٹیکسوں یا براہِ راست فیس کے ذریعے کرتا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھ چکے ہیں کہ بچے، ماں اور خاندانی گھر کے دیگر اخراجات خاوند کی اجرت میں شامل ہوتے ہیں۔
فیدریچی، گِل دی سان وی سینتے اور اس قبیل کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ بتا نہیں پاتے کہ بالفرض اگر ماں (اور باپ) اپنے بچوں سے ”اجرتی مزدوروں“ کی شکل میں کموڈیٹیز پیدا کرتے ہیں تو پھر انہیں سرمایہ دار سے اس کا ایک بھی روپیہ کیوں نہیں ملتا حالانکہ وہ تو ان کموڈیٹیز کو خریدتا ہے تا کہ وہ اس کی کمپنی میں کام کرسکیں؟ سرمایہ دار کس سے یہ کموڈیٹیز خریدتا ہے؟ ماں اور باپ سے نہیں بلکہ براہِ راست ”قوتِ محنت“ کی جنس سے یعنی بچوں سے۔ نوجوان مزدور ایک اجرت کماتے ہیں جو۔۔ ان کی ”قدرِ تبادلہ“ ہے،جو انہیں سرمایہ دار کے کاروبار میں پیداواری محنت کھپانے کے عوض ملتی ہے۔۔ اور یہ ان کی اور صرف ان کی ہے۔ اس اجرت کے ساتھ یہ نوجوان مزدور اپنے آپ کو روزانہ زندہ رکھنے کے لئے وسائل حاصل کرتے ہیں جس میں خاندان کے کل اخراجات کا متناسب حصہ شامل ہوتا ہے۔ مزید برآں وہ گھر چھوڑ کر آزادی سے خود بھی رہ سکتے ہیں۔
اس حوالے سے ہم ذیل میں دئیے گئے نتیجے تک پہنچتے ہیں۔ ایک شے، جس کی قدر استعمال کچھ بھی ہو، صرف اسی وقت ایک ایسی کموڈیٹی بن سکتی ہے جس میں ”قدرِ تبادلہ“ موجود ہو، جب یہ تبادلے میں آتی ہے اور منڈی میں داخل ہوکر پیسے کے بدلے خریدی جاتی ہے۔ یہ محض پیداواری عمل میں انسانی محنت کی کھپت کا سوال نہیں ہے۔ میں جوتوں کا ایک جوڑا بنا سکتا ہوں لیکن اگر وہ میرے ذاتی استعمال کے لئے ہیں تو پھر ان کی صرف قدرِ استعمال موجود ہے، یعنی انسانی محنت سے بنائی گئیں ایسی اشیا جو ایک خاص ضرورت کی تسکین کرتی ہیں۔ اگر میں ان جوتوں کو منڈی میں بیچنے کے لیے لے جاتا ہوں تو صرف اسی صورت میں یہ ایسی شے میں تبدیل ہو جائیں گے جس میں قدر تبادلہ موجود ہے اور میں ان کا روپوں کے برابر قدر سے تبادلہ کر سکوں گا۔ جو خصوصیت اجرتی محنت کو ایک غلام کی محنت سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کامالک ایک محنت کش ہے، جو کہ(کسی بھی سرمایہ دار کو اپنی قوت محنت بیچنے میں) آزاد ہے۔ جبکہ دوسری جانب غلام کی محنت، غلام مالک کی ملکیت ہے (جو کہ اپنی محنت اِس یا اُس غلام مالک کے ہاتھ بیچنے میں آزاد نہیں)۔ محنت کی منڈی میں پہنچ کر ہی قوت محنت کموڈیٹی میں تبدیل ہوتی ہے نا کہ اس سے پہلے اور اس کو منڈی تک لانے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا مالک یعنی محنت کش ہوتا ہے، جب وہ روزگار کی تلاش میں نکلتا ہے۔
پس، خاتون خانہ کی محنت اس غرض سے نہیں ہوتی کہ ایسی کموڈیٹیز بنائی جائیں جو منڈی میں پہنچا کر بیچی جا سکیں، چاہے وہ ”کموڈیٹی“ اس کے بچے ہوں یا کوئی اور شے۔ نام نہاد گھریلو محنت کا مقصد صرف گھر اور خاندان کی دیکھ بھال ہوتاہے، بالکل قدیم روم کی غلاموں کی مانند۔ لیکن فرق بس یہ ہے کہ سرمایہ داری میں قانونی طور پر عورت ایک ”آزاد شہری“ ہے۔
قدیم دیہی گھرانوں کی طرح خاتون بھی خاندان میں کھپت کے لئے قدرِ استعمال پیدا کرتی ہے۔ خاندان میں بچوں کی دیکھ بھال اسی قدرِ استعمال میں آتی ہے اور یہ کوئی بیچنے کی شے نہیں ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جب یہ بچے محنت کش بن جاتے ہیں تو ان کی قوت محنت بھی ایک کموڈیٹی بن جاتی ہے جو قدر تبادلہ بھی رکھتی ہے اور جو بچے سے محنت کش بننے تک لازمی سماجی وقتِ محن کا اظہار ہوتا ہے۔ تاہم، یہ حقیقت کہ بچے ’ممکنہ طور پر‘ مستقبل میں کہیں جا کر محنت کی منڈی میں داخل ہوں گے، ان میں قدر تبادلہ پیدا نہیں کردیتی اور نہ ہی ان کی مستقبل کی قوت محنت کو حال میں ہی کموڈیٹی میں تبدیل کردیتی ہے۔ شریکِ حیات اس وجہ سے بچے پیدا نہیں کرتے کہ انہوں نے سرمایہ داروں کو مزدور مہیا کرنے ہیں بلکہ وہ یہ کام انسانی جذبات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ افزائشِ نسل اور پرورش سرمایہ دارانہ معیشت کے دائرے سے باہر کے افعال ہیں۔ جب بچے اپنی حیات کو قائم و دائم رکھنے کے لئے روزگار کمانے کا فیصلہ کریں گے تو اس وقت ہی وہ اپنی قوتِ محنت بطور جنس دوسروں کو بیچ کر ”افرادی قوت“ کا حصہ بنیں گے۔ صرف اسی وقت ان کی قوتِ محنت ایک ایسے شے بنے گی جو کہ قدرِ تبادلہ رکھتی ہے، جو اجرتی غلامی کے لئے تیار ہو گی۔
یہ دلیل اس حقیقت سے قطعاً تضاد میں نہیں ہے کہ مزدوروں کے گھس پٹ جانے، بڑھاپے یا اموات کی وجہ سے افرادی قوت کی تجدید کی ضرورت بنی رہتی ہے اور یہی چیز سرمایہ دار کو مجبور کرتی ہے کہ وہ مزدوروں کو اس قدر اجرت دے کہ وہ بچے پیدا کرسکیں، ان کو پال پوس سکیں تا کہ کل کلاں کو وہ اسمبلی لائن پر ان کی جگہ لے سکیں۔ سرمایہ دار اس کی اجرت دیتا ہے لیکن اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ ایسا ہی ہو گا۔۔ ہو سکتا ہے ایک جوڑے کے بچے نہ ہوں، بچے جوان ہونے سے پہلے مر جائیں یا پھر وہ اجرتی محنت سے باہر زندہ رہنے کے ذرائع تلاش کر لیں۔ لیکن اس حوالے سے سرمایہ دار کے پاس کوئی متبادل موجود نہیں۔ یعنی ہمارا سماج جس میں اجرتی مزدوری غالب ہے، اگر اس میں ایک خاندان اپنے بچوں کو روٹی نہیں کھلا سکتاتو وہ بچے پیدا نہیں کرے گا اور اس وجہ سے اجرتی مزدوری کا پورا نظام اپنی بنیادوں سے ہی تباہ و برباد ہو جائے گا کیونکہ دوسروں کے لئے اجرت پرکام کرنے والے انسان میسر نہیں ہوں گے۔ مزدوروں کے بغیر سرمایہ دارانہ پیداوار ناممکن ہے۔
افزائشِ نسل، محنت یا گھریلو غلامی؟
گھریلو کام اور وہ خواتین جو عمومی گھریلو محنت میں شامل ہیں، کے لئے اجرتوں کے مطالبے کی مخالفت کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر نا صرف معاشی سائنس بلکہ ایک سوشلسٹ اور سیاسی نقطہ نظر کے حوالے سے بھی انتہائی پختہ ہے۔ ہم اس مسئلے پر پہلے بھی بات کر چکے ہیں لیکن یہاں ہم اہم نکات کا خلاصہ کریں گے۔
ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ایک خاتون خانہ کی سماجی حیثیت قدیم روم کے گھریلو غلام سے بڑی حد تک مماثل ہے۔ ان کے کھانے، کپڑے اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے مالکوں کی ہے۔ چنانچہ ایک عورت اپنے خاوند کی تنخواہ اور اس کی مرضی و منشا کی غلام ہے۔ اس حوالے سے مارکس کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ”بیوی اور بچے، خاوند کے غلام ہیں“۔ اینگلز اپنی شہرہ آفاق کتاب ”خاندان کا آغاز“ میں مارکس کو منقول کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’موجودہ خاندان میں ایک ادھوری شکل میں نہ صرف غلامی بلکہ زرعی غلامی بھی شامل ہے کیونکہ خاندان کا تعلق شروع ہی سے کھیتی باڑی کے کام سے رہا ہے۔ بہت چھوٹے پیمانے پر اس کے اندر وہ سارے تضاد موجود ہیں جو آگے چل کر سماج اور اس کی ریاست کے اندر بڑے پیمانے پر پھیل جاتے ہیں۔“(فریڈرک اینگلز، خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز، 1884ء)۔
اب سِلویا فیدریچی جیسے سابقہ مارکسسٹ سماج میں خواتین کی حیثیت کے حوالے سے سماجی سائنس کو 150 سال پیچھے لے جانا چاہتے ہیں اور بنا کسی تعلیم یا روزگارکے اور برتنوں، دیگچیوں، پوتڑوں، جھاڑو اور مضحکہ خیز ٹی وی ڈراموں میں گھری محنت کش خاتون خانہ کی سماجی حیثیت تبدیل کرنے چلے ہیں۔
فیدریچی کا دعویٰ ہے کہ:
”دیکھ بھال کے کام کے لئے ایک اجرت کا مطالبہ کرنا خواتین کی آزادی کی راہ ہموار کر سکتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین اس بات کا شعور رکھتی ہیں کہ جو کام وہ کرتی ہیں وہ ایک نوکری ہے، فطری نہیں بلکہ سماجی طور پر متعین کی گئی۔“ (یہاں دیکھیں)
جیسا کہ ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ سب اور کچھ نہیں صرف ایک اخلاقی تھیوری ہے (”ایک گھریلو خاتون کی محنت کیسے غیر پیداواری ہو سکتی ہے؟! ایک مرد کی محنت ہی کیوں معاشی لحاظ سے قدر رکھتی ہے؟!“) جس کی کوئی سائنسی بنیاد موجود نہیں ہے۔
ایک خاتون خانہ کی”تولیدی محنت“ جس کا دوسرے الفاظ میں مطلب گھریلو غلامی ہے، کے عوض اجرت کی ادائیگی، جس کے ساتھ نہ اس محنت کش خاندان کا معیار زندگی بدلے گا اور نہ خاتون خانہ پہلے سے زیادہ آزاد ہو سکے گی بلکہ یہ اس خیال کو تقویت پہنچانے کا سبب بنے گا کہ خاتون خانہ کوئی ڈھور ڈنگر ہے جس کا کام ہی محنت کش خاندانوں پر پڑنے والے ہر قسم کے سماجی دباؤ(بشمول نفسیاتی اور جسمانی تشدد) کو ڈھونا ہے۔ اس طرح وہ سماجی زندگی سے کٹ کر گھر کی چار دیواری میں قید رہے گی جہاں نہ ختم ہونے والے بکھیڑے اس کو جسمانی طور پر لاغر اور اس کی ذہنی صلاحیتوں کو کند کر ڈالیں گے۔ پھر اسے سٹیٹس کو کے حق میں ڈھالنا بھی آسان ہو جائے گا تاکہ ایک گھریلو خاتون کا اپنے خاوند اور بچوں کی ٹریڈ یونین اور سیاسی سرگرمیوں اور وابستگی کی جانب رویہ قدامت پرست بن جائے۔
حتیٰ کہ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں فیمنسٹ تحریک کی اکثریت کو اس حقیقت کا ادراک تھا۔ یہاں یہ کہنا پڑے گا کہ اس وقت انہوں نے مارکسزم کے نظریات کے عین مطابق خواتین کی گھریلو غلامی کی بھرپور مذمت کی۔ بالخصوص اسپین میں، جہاں فرانکو آمریت کے خلاف جدوجہد ایک طبقاتی اور انقلابی کردار دھار چکی تھی، 1970ء کی دہائی میں اگر کوئی شخص کسی فیمنسٹ یا بائیں بازو کی کسی میٹنگ میں گھریلو کام کے لئے اجرت کا مطالبہ کرتا تو اسے بغیر کسی توقف درست طور پر باہر نکال دیا جاتا۔
بدقسمتی سے آج فیمنسٹ اور بائیں بازو کی تحریک میں انگنت ”نظریہ دانوں“ کے گروہ نمودار ہو چکے ہیں جو اس خیال کا پرچار کر رہے ہیں کہ اپنے گھروں میں کام کرنا عورت کی آزادی ہے جس سے سرمایہ داری نے اپنی جان چھڑوا لی ہے اور اس کام کی اجرت ہونی چاہیے۔ یعنی گھریلو غلامی پر ریاستی سبسڈی یا سرمایہ دار کی جانب سے جاری کردہ معاوضے کا خوش نما غلاف چڑھا کر اس کو تقویت بخشی جا رہی ہے۔
1970 ء کی دہائی کے بعد فیدریچی اور دیگر فیمنسٹ جو خود کو مارکسسٹ کہتے ہیں، کی رائے میں تبدیلی کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ وہ اب بھی مارکس وادی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ اس لیبل کے بغیر ان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف گلیمر ماند پڑ جائے گا۔ نہ ان کی کتابیں بکیں گی اور نہ ہی ان کو کانفرنسوں میں خیالات کے اظہار کے لئے دعوتیں دی جائیں گی لیکن انہوں نے مارکسی نظریات کو سمجھنے یا سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی تمام تر کوششیں ترک کر دی ہیں۔ ان کے لئے سب سے اہم کام ”حقیقت پسند“ اور ”عملیت پسند“ بن کر سرمایہ داری کے تحت اپنے آپ کو ڈھالنا ہے۔
سرمایہ داری کے سامنے سرنگوں ہونے کا مزید ثبوت اس بیان سے مل جاتا ہے جو چند سال پہلے سلویا فیدریچی نے ایک انٹرویو میں دیا۔
’’1970ء کی دہائی میں جب امریکہ اور یورپ میں اسٹرٹیجک فیصلے کرنے کا وقت تھا تو فیمنسٹ تحریک نے افزائشِ نسل کا میدان خالی چھوڑ دیا اور اس کا تمام تر مرکز و محور گھر سے باہر کام تھا۔ اس کا مقصد (منڈی میں۔ مترجم) محنت کے ذریعے برابری کا حصول تھا۔ لیکن کام کی جگہ پر موجود مرد شاکی اور غیر مطمئن تھے اور انہی کی طرح شاکی اور جبر کا شکار ہونے کے لئے برابری حاصل کرنا کوئی دانشمندی نہیں“۔ (یہاں دیکھیں)
فیدریچی کیا کہہ رہی ہے؟ گھریلو کام برا ہے لیکن کسی کمپنی میں کام کرنا بھی برا ہے۔ پھر گھر پر ہمیں ”دوسری شفٹ“ بھی لگانی پڑتی ہے جس میں بچوں کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی وغیرہ شامل ہے۔ چونکہ ہمیں کوئی متبادل نظر نہیں آتا تو بہتر یہی ہوگا کہ ہم گھرواپس جا کر غلام بن جائیں لیکن اس کے بدلے ہم اجرت کا مطالبہ کریں۔
یہ ہے وہ شاندار مستقبل جو فیدریچی جیسی ریڈیکل فیمنسٹ کروڑوں جبر کی شکار، غریب اور محنت کش خواتین کا مقدر بنانا چاہتی ہیں۔ یہ ایک ایسا امکان ہے جس کا اس دنیا سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں جہاں فیدریچی اور دیگر فیمنسٹ آرام دہ زندگیاں گزار رہی ہیں۔۔ اس حقیقت کا ہمیں یقین ہے۔
بلاشبہ سرمایہ داری میں کام کی دنیا مردوں اور خواتین کے لئے غیر انسانی اور استحصالی ہے۔ اور یہ درست ہے کہ خواتین کو کمپنی اور گھر میں ”ڈبل شفٹ“ میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگرچہ گھر سے باہر کام کرنے کا مطلب عورت کی آزادی نہیں لیکن اسے یہ موقع ضرور مل جاتا ہے کہ وہ اپنے شریکِ حیات سے آزادی حاصل کر سکے۔ سرمایہ داری میں اور خاص طور پر موجودہ معاشی بحران اور طویل مدتی کٹوتیوں کے دور میں، ایک ”گھریلو اجرت“ کا حصول بس خام خیالی ہے۔ ہم آگے بات کریں گے کہ ہمارا متبادل گھریلو کام کی سماجی کام میں تبدیلی کے مطالبے کو سوشلزم کی جدوجہد سے جوڑنا ہے۔ سرمایہ داری میں کم تر برائی، ناممکنات یا کھلے رجعتی مطالبات کے لئے جدوجہد کر کے چند کوڑیوں پر خوش ہونے کے بجائے صنفی جبر کو ختم کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
گھروں میں اجرتی محنت
نگہداشت کے شعبے میں پیشہ ورانہ اجرتی محنت، جس میں بچوں، ضعیف العمر افراد اور معذوروں کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی، کھانا بنانا وغیرہ شامل ہوتا ہے، اس کام سے قطعی مختلف ہے جو ایک خاتون خانہ اپنے گھر میں سرانجام ہے۔ صرف عقل کے اندھے ہی یہ فرق دیکھ نہیں سکتے۔
”نگہداشت“ کے کام کی اجرتی شکل، یہ لبرل اور بائیں بازو کے ترقی پسند خواتین و حضرات گھریلو کام اور بچوں اور ضعیف العمر افراد کی دیکھ بھال کے لیے اسی قسم کے خوش کن الفاظ استعمال کرتے ہیں، ان کاموں میں ایک معیاری سماجی تبدیلی متعارف کراتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ اعصاب شکن کام ہے جس کی اجرت انتہائی کم ہے۔ لیکن عام گھریلو خاتون کے برعکس اس سیکٹر میں کام کرنے والے ذاتی طور پر اس کام سے منسلک نہیں ہوتے۔ اس کام کا ان کی ذات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ ایک خاتون خانہ کو اپنے ہی گھر میں لگاتار کام کرنا پڑتا ہے جبکہ ایک اجرتی مزدور کو کسی گھر میں چار، چھ یا آٹھ گھنٹے نگہداشت کا یہ کام کرنا ہوتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے اجرت ملتی ہے۔ اگر اجرت نہیں تو کوئی کام نہیں۔ اپنے گھر سے باہر نکل کر اپنی سماجی زندگی کی ذمہ داری سنبھالنے کا عمل جس دوران کام کی جگہ تک سفر کرکے جانا پڑتا ہے، اپنے شعبے کے مزدوروں یا دیگر کے ساتھ گفتگو اور تجربات کا تبادلہ یا پھر اسی کام کے لیے کسی کمپنی میں ملازمت اختیار کرلینا اور اس کے نتیجے میں مشترکہ طبقاتی مفادات جو اسے دوسرے مزدوروں کے ساتھ جوڑتے ہیں کا شعور حاصل کرنا؛ یہ سب ایک خاتون محنت کش کو سماج کی طبقاتی ساخت اور اس کی درونی حرکیات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر وہ ایک ٹریڈ یونین کی ممبر بن جاتی ہے اور قانون کے تحت کچھ حقوق کا مطالبہ کرتی ہے، اپنے مفادات کے لیے سیاسی جدوجہد کی اہمیت کو سمجھتی ہے وغیرہ تو یہ تمام عوامل ایک اجرتی ”نگہداشت“ مزدور کی نفسیات میں سیاسی، شعوری اور عزتِ نفس کی بڑھوتری کی بنیاد بنتے ہیں۔ اس کا موازنہ گھر میں قید ایک عام خاتون خانہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ ایک اجرتی مزدور جس بیگانگی کا شکار ہوتا ہے اس کا شکار ہر نوکری پیشہ مزدور ہوتا ہے چاہے وہ ایک میٹالرجسٹ ہو، کلرک ہو یا پھر دیہاڑی دار مزدور۔ یہ ایک غلام کی نہیں بلکہ ایک مزدور کی بیگانگی ہے۔ ایک خاتون خانہ کے لئے اس کا گھر ہی اس کی دنیا ہے، ایک نگہداشت کے شعبے سے منسلک مزدور کی دنیا باہر کی سماجی زندگی اور بطور مزدور اپنے اور اپنے جیسے ہزاروں مزدوروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔
گھریلو کام، بچوں کی نگہداشت اور معمر افراد کی دیکھ بھال کے کام کی اجرتی محنت میں تبدیلی وہ راہ ہموار کرتی ہے جس کے ذریعے مستقبل میں سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کے بعد گھریلو کام کو سماجی کام میں بدلتے ہوئے خواتین اور خاندان کی گھریلو غلامی سے جان خلاصی کروانا ممکن ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے نشاندہی کر چکے ہیں، اصل سوال خاندان پر بوجھ بنے گھریلو کام کو ختم کرنا ہے (کپڑے دھونا، کھانا بنانا، بچوں اور ضعیفوں کی دیکھ بھال وغیرہ)۔ سوشلزم گلی محلوں اور کام کی جگہوں پر بہترین نرسریوں کے ساتھ ہر محلے میں بچوں اور نو عمروں کے لئے تفریح اور کھیل کے بہتر ین، صاف ستھرے اور معیاری سینٹر تعمیر کرے گا۔ آج ہم ہر جگہ اندھیرے میں ڈوبے، گندے، بدحال اور مہنگے نرسنگ ہومز دیکھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس مستقبل میں ان کا معیار بہترین ہوٹلوں جیسا ہو گا جو مفت یا انتہائی کم قیمت والے ہوں گے اور ان کے ساتھ صحت کی سہولیات بھی منسلک ہوں گی۔
اس شعبے میں کام کرنے والے محنت کشوں کو طویل اور اعصاب شکن شفٹوں کی اذیت سے نجات دلائی جائے گی۔ ان کا ایک کام کا دن چار یا پانچ گھنٹے یا اس سے بھی کم کا ہو گا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے گا تاکہ کم سے کم جسمانی قوت صرف کر کے معذور، ضعیف یا بیمار لوگوں کی دیکھ بھال کی جا سکے۔ ہر جسمانی طور پر تھکا دینے والے کام میں کم سے کم محنت صرف کرنے کے لئے تمام ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے گا۔
اینگلز کے شاندار الفاظ میں:
”یہیں پر ہمیں یہ دکھائی دینے لگتا ہے کہ عورتوں کی آزادی اور مردوں کے ساتھ ان کی مساوات اس وقت تک ناممکن ہے اور ناممکن رہے گی جب تک عورتوں کو سماجی پیداوار کے کام سے الگ رکھ کر خانہ داری کے کام تک، جو کہ نجی کام ہے، محدود رکھا جائے گا۔عورتوں کی آزادی اسی وقت ممکن ہو گی جب عورتیں ایک بڑے سماجی پیمانے پر پیداوار میں حصہ لے سکیں گی اور جب گھریلو کاموں پر انہیں بہت کم دھیان دینا پڑے گا۔ اور یہ اب محض بڑے پیمانے کی صنعت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جو نہ صرف یہ کہ عورتوں کے لئے بہت بڑی تعداد میں پیداوار کے کام میں حصہ لینے کی گنجائش پیدا کرتی ہے بلکہ سچ پوچھئے تو اس پر زور دیتی ہے اور اس کے علاوہ نجی گھریلو کام کو بھی ایک عام صنعت بنانے کی کوشش کرتی ہے۔“ (فریڈرک اینگلز۔ خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز، 1884ء)۔
گھریلو غلامی کے خلاف ایک سوشلسٹ متبادل کی جدوجہد
ہم مارکس وادی بچوں کی پرورش اور، ضعیف اور معذور افراد کی دیکھ بھال کے کام کی سماجی کام میں تبدیلی کا دفاع کرتے ہیں۔مجموعی طور پر پورا سماج اس کام کا بیڑا اٹھائے اور ایک محنت کش خاندان، خاص طور پر خاتون خانہ، کو ان سے آزاد کرا یا جا سکے۔ درحقیقت، سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی ترقی نے پہلے ہی خاندانی زندگی کے کچھ پہلوؤں کو سماجی کاموں میں تبدیل کر دیا ہے، چاہے وہ سرکاری سرپرستی میں ہوں یا اس حوالے سے نجی کمپنیوں کوذمہ داریاں سونپی گئی ہوں (اگرچہ یہ کام جزوی اور ناکافی ہے)۔ اس میں تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونیکیشن، بجلی، کوڑاکرکٹ اکٹھا کرنا وغیرہ سب شامل ہے۔ کچھ عرصے سے ہم یہی عمل ضعیف اور معذور افراد کی دیکھ بھال کے حوالے سے نام نہاد نگہداشت کے شعبے میں دیکھ رہے ہیں۔
بہرحال، سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے گھریلو کام کی سماجی کام میں تبدیلی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ سرمایہ دار ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پوری کوشش کرتے ہیں کہ مزدوروں سے کشیدکی گئی قدرِ زائد (ان کے منافعوں کا ذریعہ) کو کسی طرح بھی سماج کے حوالے نہ کیا جائے جس کے ذریعے گھریلو کام کی عمومی سوشلائزیشن کی فنانسنگ کی جا سکتی ہے۔
اگر ہم یہ حقیقت ذہن میں رکھیں تو پھر کیا ایک گھریلو عورت کو اپنے خاوند سے علیحدہ، اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لئے ایک اجرت نہیں ملنی چاہیے؟ ظاہر ہے ایسا ہونا چاہیے لیکن بحیثیت ایک خاتون خانہ کے ہرگز نہیں جس سے اس نے اپنے آپ کو ہر صورت آزاد کروانا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام بیروزگاروں کو مستقل، مناسب اور اچھی تنخواہ کے ساتھ نوکریاں دی جائیں اور جب تک وہ بیروزگار ہیں اس وقت تک انہیں کم از کم قومی اجرت کے مساوی بیروزگاری الاؤنس دیا جائے۔ اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بیروزگاروں کی طرح گھریلو خواتین کو بھی یہ مراعات دی جائیں لیکن ساتھ ہی ہم ہر ایک فرد کے لیے باعزت اور معقول تنخواہ کے ساتھ روزگار کا بھی مطالبہ کرتے ہیں اور ہم ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے لیے روزگار تلاش کریں تاکہ اپنی گزر بسر کا سامان کر سکیں۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے افق کو وسیع کرتے ہوئے گھریلو زندگی سے باہر سماجی زندگی کے رنگا رنگ پہلوؤں کو شامل کریں اور ذیل میں دئیے گئے مطالبات پر مبنی ایک عبوری سوشلسٹ پروگرام کے لیے دیگر مزدوروں کی شعوری جدوجہد کا حصہ بنیں: مفت عوامی نرسریاں، مفت عوامی کنٹینیں، مفت عوامی لانڈریں۔۔ اور ”نگہداشت“ کا کام اجرتی مزدوروں کی ذمہ داری رہنے دیں۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمام بچوں اور 18 سال کی عمر تک نوعمروں کو اشیائے خوردونوش اور کپڑے فراہم کئے جائیں۔ اگر بات مکمل کی جائے تو ہم نام نہاد ”امور خانہ کے بکھیڑوں“ کو کم یا ختم کرنا چاہتے ہیں جو اب تک ایک گھریلو خاتون کی ذمہ داری بنے ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ گھر سے باہر نکلے اور ایک ایسی شخصیت بنے جو معاشی طور پر اپنے شریکِ حیات سے آزاد ہو۔
ہمیں محنت کش طبقے اور بالخصوص خواتین خانہ کو یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ صرف ایک سوشلسٹ نظام میں ہی مزدور، معیشت کو اپنے اجتماعی کنٹرول میں لے کر اور اسے جمہوری طور پر منظم کر کے گھریلو کام کو عمومی سماجی کام میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
اینگلز کے مطابق:
”ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت میں منتقلی کے ساتھ ایک خاندان سماج کا معاشی یونٹ نہیں رہے گا۔ نجی گھریلو کام ایک سماجی صنعت میں تبدیل ہو جائے گا۔ بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم ایک عوامی معاملہ بن جائے گا۔۔۔“ (فریڈرک اینگلز۔ خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز، 1884ء)۔
یعنی ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی ترقی کی بدولت۔۔ اجتماعی کام کے ذریعے اور ہر انسانی عمل میں منافع کی ہوس کو کچلتے ہوئے، مذہبی منافقت یا مفاد پرستی کے بجائے حقیقی طور پر اپنے ہمسائے سے محبت اور اس کے ساتھ سب سے زیادہ ترقی یافتہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ۔۔ ایک سوشلسٹ سماج گھریلو غلامی کا نام و نشان مٹا دے گا اور ایک عورت کسی مرد کی اطاعت گزار نہیں ہو گی۔ عورت اپنا حقیقی مقام حاصل کرے گی۔۔ وہ مقام جو ہزاروں سال سے طبقاتی سماج اسے دینے سے قاصر رہا ہے۔