کیا فن لازمی ہے؟

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: پارس جان|

آسٹریا سے تعلق رکھنے والے مارکسی دانشور ارنسٹ فشر نے ”ادب کی لازمیت“ کے عنوان سے بڑی اہم کتاب تصنیف کی تھی۔ یہ 1959ء میں منظرِ عام پر آئی اور اس نے مجھے بے پناہ متاثر کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری اس کتاب سے رغبت اور پسندیدگی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

ظاہر ہے کہ کوئی بھی شخص اس کتاب کے کسی ایک یا دوسرے بیانیے سے اختلاف کر سکتا ہے، لیکن یہ کتاب کچھ انتہائی اہم انکشافات پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ، ”دنیا کو سمجھنے اور تبدیل کرنے کے قابل ہونے کے لیے انسان کے لیے فن لازمی ہے۔ لیکن فن اپنے اندر طلسماتی کشش کے باعث بھی لازمی ہے۔“

ہم ان الفاظ کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ صرف ایک لمحے کے لیے ایک فن، رنگ، موسیقی، رقص اور گیت کے بغیر دنیا کو اپنے دھیان میں لائیے۔ ایسی دنیا میں سب کے لیے کافی کھانا، رہائش اور صحت کی سہولیات بھلے ہی کیوں نہ موجود ہوں، پھر بھی یہ دنیا ناقابلِ برداشت، بھدی اور ناخوشگوار ہو گی۔

در حقیقت زندگی روزمرہ کی ترش حقیقت سے کچھ بہتر، کچھ معیاری اور خوبصورت کی تلاش کے بغیر بے معنی ہو گی۔

”بے جان مارکسزم“ کا تصور

مارکسزم پر اکثر ایسا بے جان عقیدہ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے جو خالص معاشی تجزیوں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ تاریخی مادیت کا دعویٰ ہے کہ آخری تجزیے میں کسی بھی سماجی و معاشی نظام کی افادیت کا تعین اس کی پیداواری قوتوں کو ترقی دینے کی صلاحیت سے ہوتا ہے۔

یہ بلا شک و شبہ درست ہے۔ لیکن اس عمومی بیانیے سے آگے بڑھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ نوع انسانی کے مکمل پیچیدہ اور متضاد ارتقا کو محض معاشی عنصر تک محدود کیا جا سکتا ہے، مضحکہ خیز ہے۔ مادیت پسندی ان تمام کثیر جہتی روابط کو دریافت کرنے کی کوشش کرتی ہے جو فن اور مذہب سمیت سوچ کی تمام بنتروں کو حقیقی زندگی اور حقیقی مرد و زن یعنی ان کے سماجی وجود سے جوڑتے ہیں۔

آخری تجزیے میں، ہمارے سوچنے کے پیمانوں میں تغیر کی بنیادیں سماجی تبدیلیوں میں ہی پیوست ہوتی ہیں۔ تاہم سوچ اور سماجی وجود کا تعلق نہ تو میکانکی ہے اور نہ ہی خود رو بلکہ یہ پیچیدہ، متضاد اور ایک لفظ میں کہا جائے تو جدلیاتی ہے۔

خیال پرستوں کے ابہامات کے برعکس، جن کے خیال میں ساری انسانی تاریخ کا محرک خیالات کی قوت اور (جو کہ اس بنیادی مفروضے کی ہی توسیع ہے) عظیم اشخاص کے کارنامے ہیں، انسانی دماغ عام طور پر قدامت پسند ہوتا ہے اور واقعات کے پیچھے پیچھے رینگتا ہے۔

شعور کی عین یہی دائمی پچھاڑ اور پیداواری قوتوں کے تقاضوں اور دیگر آزادانہ طور پر نمودار ہونے والے معروضی عوامل کے تحت سماج کا ارتقا ہی سماجی اور فنی انقلابات کی ضرورت کی وضاحت کرتا ہے۔

دو ثقافتیں

تمام مبینہ تہذیب یعنی طبقاتی سماج کی تاریخ میں غالب نظریات انہی حکمران طبقات کے نظریات تھے جو ثقافت کے اجارہ دار تھے۔ لوگوں کے جم غفیر کو منظم طریقے سے ثقافت سے بے دخل رکھا گیا۔

خیال پرست فن کو انسانی روح کی آزادانہ نمود و آرائش اور انسانی دماغ کی پراسرار، ناقابلِ توضیح تصوراتی کہانیوں کے طور پر یا آسمان سے نازل ہونے والی الہامی یا وجدانی کیفیات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس طبقاتی سماج میں کم از کم دو ثقافتیں ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ غالب ثقافت جو بسا اوقات فن اور ثقافت کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ مکاتب پر مشتمل ہوتی ہے، جبکہ ایک متوازی ثقافت ہوتی ہے جو عام طور پر استحصال زدگان میں پھیلائی گئی ہوتی ہے۔ جیسا کہ پلیخانوف نے لکھا کہ،

”وہی سرمایہ دارانہ نظام جو پیداواری میدان میں تمام پیداواری قوتوں کی جدید انسان کے لیے خدمات میں رکاوٹ ڈالتا ہے، وہی فنی تخلیقات کے میدان میں بھی تعطل کا باعث بنتا ہے۔“

ثقافت، جبر کا اوزار

زیادہ تر لوگوں کی زندگیاں ختم نہ ہونے والی مشقت اور بوریت سے بھرے معمول سے عبارت ہوتی ہیں۔ وہ مختلف طریقوں سے اس مشقت بھرے معمول سے راہ فرار تلاش کرتے ہیں۔

فرانسیسی شاعر چارلس بارڈلیئر نے اپنی کتاب ’مصنوعی جنت‘ میں شراب اور منشیات کو روزمرہ کی اس اکتا دینے والی یکسانیت سے راہ فرار کے طریقے کی ایک مثال کے طور پیش کیا ہے۔

اور پھر ظاہر ہے کہ ایک قطعی مصنوعی جنت ہے جو تمام منشیات سے زیادہ مسحور کن ہے، جسے ہم مذہب کہتے ہیں جو موت کے بعد مر دو زن کو بے تکی آسودگی کے خواب دکھاتا ہے۔

آج بورژوا جمہوریت کی سب سے بڑی پہچان سمجھی جانے والی پریس کی نام نہاد آزادی کے باوجود، تمام اخبارات کو چند مٹھی بھر ارب پتی ہی کنٹرول کرتے ہیں اور ان کا مواد کچرے پر مشتمل ہے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ یہ بڑے کاروباری عوام کو وہی بیچتے ہیں جس کی عوام مانگ کرتے ہیں۔ حقیقت میں سرمایہ عوام کو وہی مہیا کرتا ہے جو اس کے خیال میں ان کے لیے ضروری ہے۔ یعنی بینکاروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کے تحت عوام کو کم سے کم سیاسی اور ثقافتی مواد جبکہ زیادہ سے زیادہ سیکس اور سپورٹس سکینڈلز کی شکل میں ’نرم غذا‘ مہیا کی جاتی ہے۔

اس نام نہاد تفریح کا مقصد یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ عوام کو اپنے مسائل کے بارے میں سوچنے سے اور ان کے حل کے لیے مثبت اقدامات کرنے سے باز رکھے۔

حکمران طبقہ اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہتا ہے۔ وہ جنون جس کے ساتھ فٹبال کے شائقین اپنی ٹیم کو دوسری ٹیموں کے خلاف سپورٹ کرتے ہیں، انہیں بینکاروں اور سرمایہ داروں کے خلاف کسی بھی اجتماعی اقدام سے باز رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔

اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ یہ ’روٹی اور سرکس‘ کی جدید شکل ہے کیونکہ غلام داری میں بھی لوگوں کو بے دماغانہ اطاعت پر مائل کرنے کے لیے محض روٹی ناکافی تھی۔ یہی نام نہاد پاپولر ثقافت کا واحد کام ہے۔

ٹیلی ویژن ثقافتی اور اخلاقی دیوالیہ پن (نظریات کی غربت، تخلیقی مواد کا فقدان، اوسط دماغوں میں صرف غیر معیاری اور پست جذباتیت ابھارنے کی اہلیت) کا معذرت خواہانہ اظہار ہے۔

یہ عوام کی ذہانت کی توہین ہے۔ لیکن حکمران طبقے کو ذہین عوام کی خال خال ہی ضرورت پڑتی ہے۔ در حقیقت یہ حکمران طبقے کے لیے واقعی خطرناک ہوتی ہے۔

لیکن اس حکمتِ عملی کی بھی معینہ حدود و قیود ہیں۔ وہ دن ضرور آئے گا جب یہی فٹبال کے شائقین اسی جنون سے اپنے طبقاتی مفادات کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ جیسے عظیم فریڈرک نے ایک بار کہا تھا کہ، ”ہم اسی دن ہار جائیں گے جب سنگینوں نے سوچنا شروع کر دیا“۔

ثقافت اور محنت کش طبقہ

میں اکثر سنتا ہوں کہ محنت کش طبقے کو فن اور ثقافت میں کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں انہیں محنت کش طبقے اور ان کی سوچ کا ذرہ بھی اندازہ نہیں ہے۔

اس سے در حقیقت درمیانے طبقے کے دانشوروں کی حقارت انگیز جبلت کا اظہار ہوتا ہے جو باقی تمام انسانوں پر اپنی برتری کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں۔ تاہم، میرا تجربہ ہے کہ اس تکبر کے پیچھے عام طور پر وہ اپنی بے حد جہالت اور بیوقوفی کو چھپاتے ہیں۔

طبقاتی معاشرے کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ محنت کشوں کی ذہنی صلاحیتوں کو محبوس رکھا جائے تاکہ انہیں ہر طریقے سے ثقافت اور سمجھ بوجھ کے بلند معیار تک رسائی سے محروم رکھا جا سکے۔

لیکن جونہی محنت کش جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں تو طویل عرصے سے دبائی گئی سیکھنے کی پیاس پھر بیدار ہو جاتی ہے۔ ہم ہر ہڑتال میں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتیں بھی نظریات کی تلاش میں ہوتی ہیں۔

اس کا ہزار ہا گنا زیادہ برجستہ اظہار انقلابی لمحات میں ہوتا ہے جب عوام اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لے کر سماج کی تبدیلی کا آغاز کرتے ہیں۔

انہیں اپنی سوجھ بوجھ کی محدودیت کا برملا احساس ہوتا ہے اور وہ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے محنت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ برملا اعلان ہوتا ہے کہ عوام نے پرانی فرسودہ غلامانہ ذہنیت کو جھٹکنا شروع کر دیا ہے اور وہ بلند معیار یعنی ثقافت کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔

سرمایہ داری اور فن

سرمایہ داری میں فن کی سماج سے بیگانگی کبھی نہ دیکھی گئی حدوں کو پہنچ چکی ہے۔ حقیقی فن خود کو عوام سے کنارہ کش اور منڈی کے آہنی شکنجے میں مجبور، مقہور اور وسیع زندان میں مقید پاتا ہے۔

انگریز شاعر رابرٹ گریوز یاد کرتا ہے کہ اپنی نو عمری میں اسے ایک امیر تاجر نے تنبیہہ کی تھی کہ شاعری میں کوئی پیسہ نہیں۔ نوجوان نے جوابی حملہ کیا: ”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن پیسے میں بھی تو کوئی شاعری نہیں ہے۔“

اسی جذبے سے جان رسکن نے ایک بار کہا تھا کہ ایک دوشیزہ اپنی گمشدہ محبت کو گنگنا سکتی ہے لیکن ایک کنجوس اپنے کھوئے ہوئے سرمائے کو گا نہیں سکتا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے ہمدردی کی بجائے تمسخر پرور قہقہے ہی نصیب ہوں گے۔

شاعری میں انسان ایک دوسرے سے اپنے باطنی خیالات اور محسوسات کی ترسیل کرتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دار ان لوگوں سے محبت نہیں کرتے جو ان کے لیے محض کچھ حاصل کرنے کا ذریعہ ہی ہوتے ہیں یعنی قدرِ زائد حاصل کرنے کی مشینیں۔

سرمایہ داروں کی فن میں دلچسپی اسی تناسب سے کم ہوتی ہے جتنی ان کی صنعت، سائنس، ٹیکنالوجی اور بنی نوعِ انسان کے استعمال کی اشیا کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔

ہم فن کی ایک ابھرتی ہوئی عالمی منڈی جو دیکھ رہے ہیں جہاں سرمایہ کار شوق سے ہر دستیاب چیز عام طور پر انتہائی مضحکہ خیز قیمت میں خرید لیتے ہیں۔

اس تجارت کا سب سے بڑا مرکز فطری طور پر امریکہ ہی ہے جو اس منڈی کے لگ بھگ 42 فیصد پر مشتمل ہے۔ یہ کہنے کہ ضرورت نہیں ہے کہ فن پر اتنے وسیع اخراجات کا جمالیات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ زیادہ تر فنی اجناس کی خرید و فروخت دکھاوے سے زیادہ سرمایہ کاری کے مقصد کے لیے ہوتی ہے۔ یا اگر ہم چیزوں کو سن کے درست نام دیں تو اسے قیاس آرائیوں پر مبنی جوا کہا جا سکتا ہے۔

یہ فن پارے عوام کو نہیں دکھائے جاتے ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو تو ان کے خریدار بھی نہیں دیکھتے جو عام طور بڑے بینکوں اور کارپوریشنز کے لوگ ہوتے ہیں۔

قدیم انمول شاہکار جنہیں بنی نوع انسان کی اجتماعی ملکیت ہونا چاہیے تھا، سرمایہ داروں نے ذخیرہ کی ہوئی ہیں جہاں انہیں سورج کی روشنی کبھی نصیب نہیں ہو گی۔ اس طرح بنی نوع انسان کا قیمتی ورثہ چرا لیا گیا ہے۔

ثقافت کی تباہی

اپنے نامیاتی زوال کے دور میں بورژوازی ثقافت کی مکمل اور قطعی تباہی میں ملوث ہے۔ ٹیکس کٹوتیوں کے نئے عالمی شور و غوغے کا مطلب ہے ان لوگوں پر اخراجات میں بھی حکومتی کٹوتیاں جو پہلے ہی حکمران طبقے کے ماضی میں کیے گئے حملوں کے باعث نیم انسانی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

سکول، ثقافتی میلوں کے ہال، تھیٹر اور عوامی لائبریریاں سب پر کٹوتیوں کے حملے کیے جا رہے ہیں۔ اس سے جورِنگ کا مشہور جملہ یاد آ جاتا ہے کہ، ”جب میں لفظ ثقافت سنتا ہوں، فوراً اپنی پستول کی طرف لپکتا ہوں۔“

تاہم کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ فن مر چکا ہے۔ سطح کے نیچے تازہ جڑیں ہوا اور روشنی دیکھنے کے لیے تگ و دو کر رہی ہیں۔ لیکن انہیں مسلسل پیسے، مراعات اور طاقت کے دم پر روکا جا رہا ہے۔

گیلریاں، فن کے بیوپاری، ریکارڈ کمپنیاں اور سٹوڈیوز سب اشرافیہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

لاکھوں نئے اور بہتر فنکاروں کی ثقافتی ذرائع تک رسائی ممنوع ہے۔ ان کے فن پارے کبھی منظر پر نہیں آ سکیں گے۔ یہ فنکار انقلاب کے دوران ابھریں گے۔ جب یہ فن جو برباد کرنے والے بڑے سرمائے کے آہنی پنجوں سے آزاد ہوں گے۔

سرمایہ داروں کے لیے فن، تعلیم اور ثقافت کی کوئی بنیادی اہمیت نہیں ہے۔ یہ ان کے لیے صرف اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ یہ پہلے سے بے پناہ دولت مندوں کو مزید دولت مند بنانے کا ذریعہ بن سکیں۔ دوسرے الفاظ میں فن پارے ان کے لیے بس اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں کہ انہیں اجناس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اگر سکول اور ہسپتال بند کرنے سے بورژوازی ٹیکس بچا سکے تو وہ خوشی خوشی سارے سکول اور ہسپتال بند کر دیں گے۔ اگر وہ لوگوں سے عجائب گھروں، کتب خانوں اور آرٹ گیلریوں جیسی عوامی خدمات کے لیے وصولی کر سکیں تو وہ ان کی نجکاری میں ذرہ بھی دیر نہیں کریں گے اور اگر اس سے انہیں سیر حاصل رقم نہیں ملے گی تو وہ انہیں بند بھی کر دیں گے۔

اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ان ’اصولوں‘ سے ثقافت اور مہذب اقدار کو خطرہ ہے۔ اہم یہی ہے کہ سرمایہ حکومت کرتا ہے اور ساری دنیا کی بغیر اجازت اور بغیر رکاوٹ لوٹ مار کرتا ہے۔

نتیجہ ناگزیر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا تسلسل فن کی موت ہو گا۔ ثقافت کی نجات اور اسے آئندہ نسلوں کے لیے بلند مقام تک پہنچانا طبقاتی جدوجہد کے لازمی فرائض میں شامل ہے۔

اعلیٰ سماج کی تعمیر کی بنیادیں

ہم تہذیب کے عمومی زوال کے عہد میں جی رہے ہیں اور یہ اس حقیقت کا ناگزیر نتیجہ ہے کہ موجودہ سماجی و معاشی نظام اپنے وجود کا تاریخی جواز کھو چکا ہے۔

تہذیب کی ترقی کی راہ میں دو دیو ہیکل رکاوٹیں ہیں جو اسے ماضی کی طرف دھکیل رہی ہیں، اوّل ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور دوم قومی ریاست۔

سرمایہ داری کی تاریخ کے موجودہ دور کو دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ کسی بڑے فن، تخلیقی سوچ اور فلسفے کی عدم موجودگی کے دور کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ یہ انتہائی کھوکھلے پن، ذہنی غربت اور روحانی بوکھلاہٹ کا دور ہے۔

سوشلسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام اور زوال سے لاحق خطرات کے خلاف فن اور ثقافت کا دفاع کیا جائے۔

محنت کش طبقہ ثقافت کو درپیش خطرات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر مستقبل کی سوشلسٹ معیار تعمیر کی جائے گی۔ ہم بورژوازی کو اسے برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

سامراجیت اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد ناگزیر طور پر اس تخریبی قوت کے خلاف جو اپنی لا متناہی ہوس کو دوام بخشنے کے لیے اسے تباہ کرنے کے درپے ہے، انسانی ثقافت کی حاصلات کے دفاع کی جدوجہد کے ساتھ نتھی ہو چکی ہے۔

اپنے بچوں اور نسلوں کے مفاد کے لیے انسانی تہذیب کے پانچ ہزار سالہ ورثے کا ہر قیمت پر دفاع کرنا ہو گا، اسے اہمیت دینی ہو گی، اسے خزانے کی طرح محفوظ رکھنا ہو گا۔

دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل ٹراٹسکی نے فن پر ایک مینی فیسٹو تحریر کیا تھا جو ایڈرے بریٹن کے دستخط کے ساتھ ”فن کی آزادی کے دفاع“ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ 1938ء میں اس منشور کے ردعمل کے طور پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف انڈیپینڈنٹ اینڈ ریولوشنری (FIARI) کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

یہاں ہمارے لیے ایک قابلِ تقلید ماڈل موجود ہے۔ فنکارو، موسیقارو، مصنفو اور دانشورو! تمہیں ہر خوف اور جھجھک کو بالائے طاق رکھنا ہو گا اور سماج کی تبدیلی کی انقلابی لڑائی میں محنت کشوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا ہو گا اور انسانوں کے رہنے کے قابل ایک نئی دنیا تعمیر کرنی ہو گی۔

ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے ہماری اس جدوجہد کا حصہ بنیں جو سرمایہ دارانہ بربریت کے خلاف ثقافت اور انسانی تہذیب کے دفاع کی جدوجہد ہے۔
اپنی سرگرمیوں کے ذریعے آپ دنیا بھر کے محنت کشوں کی نجات کی اس جدوجہد میں اہم حصہ ڈال سکتے ہیں اور فن اور ثقافتی زندگی کی زنجیروں سے آزادی کے لیے یہی بنیادی شرط ہے۔

کنارہ کشی اختیار مت کیجیے، ہچکچائیے نہیں، بلکہ انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل میں آپ اپنا جائز مقام حاصل کیجیے۔

Comments are closed.