|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: ولید خان|
پچھلے چار دن سے ایرانی ریاست کو 1979ء کے انقلاب کے بعد سے اب تک کے سب سے بڑے عوامی احتجاجوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ یہ احتجاج حجم میں 2009ء کی سبز تحریک سے چھوٹے ہیں جو بڑے شہروں تک ہی محدود تھی لیکن حالیہ تحریک کا پھیلاؤ بڑے شہروں سے باہر وسیع تر ہے۔ یہ ایک دیو ہیکل تبدیلی ہے اور اس نے ملا آمریت کو بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔
to read this article in English,click here
اطلاعات کے مطابق اب تک 27 صوبوں کے 52 شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ پہلا احتجاج 28دسمبر کو مشہد میں ہوا تھا اور اس کا نشانہ صدر حسن روحانی تھا۔ درحقیقت اس احتجاج کو سخت گیر رجعتی ملا احمد علم الہدیٰ کی حمایت حاصل تھی جو کہ مشہد کا امام اور 15 ارب ڈالر مالیت کے امام رضا فنڈ کا متولی بھی ہے۔
لیکن، بڑی تیزی کے ساتھ یہ نعرے پوری ملا اشرافیہ کی مخالفت میں تبدیل ہو گئے۔ ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد کو ہمیشہ سے قدامت پرست اور مذہبی شہر کے طور پر جانا جاتا رہا ہے جہاں سخت گیر سیاسی دھڑوں کو روایتی طور پر بھاری حمایت حاصل رہی ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں میں شہر کا موڈ تبدیل ہو چکا ہے۔ درحقیقت، ان احتجاجوں کا سب سے خاص پہلو یہ ہے کہ یہ ان علاقوں میں، ان پرتوں کی جانب سے ہو رہے ہیں جن میں ملا آمریت کی روایتی حمایت موجود تھی۔
قم، ملا اشرافیہ کا گڑھ اور سب سے مقدس شہر، 29دسمبر کو ہزاروں کی تعداد میں عوام کے ’’حزب اللہ مردہ باد!‘‘ اور ’’سید علی (خامنہ ای) اب جاؤ۔ اقتدار کی جان چھوڑ دو!‘‘ اور ’’ملا ریاست مردہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ایک وقت پر احتجاج میں چے گویرا کی تصویر بھی نظر آئی۔
#Update7 :protesters attacked the governor office of #Hamedan, chanting: “ Death to the Islamic Republic”, “We don’t want Islamic Republic”.#Qom chanting “Death to the Islamic Republic “, “Death to Hezbollah”, we don’t want an Islamic Republic”#Iranprotests #RegimeChange pic.twitter.com/GlsovMmygg
— Raman Ghavami (@Raman_Ghavami) December 29, 2017
شمالی شہر رشت میں عوام نعرے لگا رہی تھی، ’’عظیم فوج، عوام کی مدد کرو!‘‘۔ ہشت گرد میں ایک بہت بڑے اجتماع کا نعرہ تھا، ’’صرف آمریت ہی حقیقی نشانہ ہے، یہ (ہمارا) آخری فیصلہ ہے!‘‘۔
Day 4. Protesters in Rasht are asking the army to help them: Noble Army Help Your People pic.twitter.com/OKnnd4EDT5
— IranWire (@IranWireEnglish) January 1, 2018
دیگر نعروں میں شامی خانہ جنگی میں ایرانی مداخلت کی مخالفت بھی شامل تھی، ’’شام کی جان چھوڑو، ہمارا سوچو!‘‘۔
30دسمبر کو تہران میں پہلے چھوٹے مظاہرے ہوئے جن کو بنیادی طور پر تہران یونیورسٹی کے نوجوانوں نے منظم کیا۔ ایران وائر نامی جریدے کو ایک عینی شاہد نے بتایا: ’’نعروں کا نشانہ معیشت تھی۔ بیروزگاری، غربت اور تباہ حالی کے خلاف لوگ کسی بھی حد کو جانے کو تیار ہیں۔ پھر سیاسی اور سماجی حقوق اور آزادی کے مطالبات نعروں کا محور بن گئے۔۔۔شخصی آزادی، سوچ کی آزادی اور عوامی گروہوں کی آزادی۔ یونیورسٹی طلبہ، عوام کے ساتھ اس لئے شامل ہوئے ہیں کیونکہ طلبہ بھی عوام کا ہی حصہ ہیں‘‘۔
تہران میں ہونے والے احتجاج میں ’’آمریت مردہ باد!‘‘، ’’عوام بدحال ہے جبکہ ملا خدا بنے بیٹھے ہیں!‘‘ اور ’’آزادی، ایرانی جمہوریہ!‘‘ کے نعرے شامل تھے۔
Security forces of dictator Ali #Khamenei brutally attacked peaceful protesters in Revolution street of trying to keep them away from university students of #Tehran‘s university. Protests against corrupted Shia clerics and authorities of Islamic regime. pic.twitter.com/6En2Hcht2O
— Babak Taghvaee (@BabakTaghvaee) December 30, 2017
دیگر نعروں میں ’’ہم مرجائیں گے، ہم مرجائیں گے لیکن ہم ایران واپس لیں گے!‘‘، ’’اصلاح پسند اور ملّا، دونوں کی کہانی ختم!‘‘، ’’روٹی، نوکری، آزادی!‘‘، ’’طلبہ اور مزدور اتحاد!‘‘ شامل تھے۔ پولیس نے تہران کے احتجاج پر شدید تشدد کیا اور اطلاعات کے مطابق کم از کم 200 مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا لیکن جب احتجاج گلی کوچوں میں پھیل گئے تو ایک وقت پر ایک پولیس وین پر حملہ کر کے گرفتار مظاہرین کو چھڑوا لیا گیا۔ آج بھی تہران میں احتجاجی سلسلہ جاری رہنے کے امکانات ہیں۔
اسی اثنا میں کئی بینکوں پر، خاص طور پر وہ بینک جن کے پاسداران کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، پر حملے کئے گئے جس کی وجہ سے پولیس نے پورے ملک میں بینکوں کی حفاظت کے لئے اضافی فورس تعینات کر دی ہے۔
ایذہ شہر میں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی اور اطلاعات کے مطابق ایک وقت میں مظاہرین نے سیکورٹی فورسز کو شہر سے ہی باہر دھکیل دیا تھا۔ ان جھڑپوں میں دو لوگ مارے گئے۔ ریاستی ٹی وی کے مطابق مظاہرین پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک دس لوگ مارے جا چکے ہیں۔ لیکن، مظاہروں کے حجم کی وجہ سے ریاست پھونک پھونک کر اقدامات کر نے پر مجبور ہے تاکہ تشدد کے نتیجے میں کہیں اور زیادہ متشدد مظاہرے نہ پھٹ پڑیں۔
لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال احتجاج جاری رہیں گے۔ اگرچہ شروع میں تہران میں چھوٹی نوعیت کے مظاہرے ہوئے تھے، لیکن ایسی علامات موجود ہیں کہ تحرک بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے شہر بھی مظاہروں کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔
تحریک کے تیز تر پھیلاؤ نے ریاست کو شل کر کے رکھ دیا ہے جو ابھی تک بے قراری میں مناسب جواب کی تلاش میں ہے۔ کئی دنوں کی خاموشی کے بعد صدر روحانی کل ٹی وی پر نمودار ہوا۔ اس نے تسلیم کیا کہ ’’عوام کو تنقید کرنے کا حق ہے‘‘، لیکن ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے دی کہ ریاست ’’تشدد اور عوامی تنصیبات کی توڑ پھوڑ‘‘ کے نتیجے میں کریک ڈاؤن کرنے کو تیار ہے۔
لیکن اسی دوران تہران یونیورسٹی کے سینکڑوں پر امن مظاہرین کو مارا پیٹا اور گرفتار کیا جا رہا تھاجبکہ ملک کے دیگر حصوں میں مظاہرین کو قتل کیا جا رہا تھا۔ معصومہ ابتکار جیسے کچھ لبرل ’’اصلاح پسند‘‘ کھلم کھلا عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے کریک ڈاؤن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ لبرل جمہوری حقوق کا دفاع کریں گے۔۔۔لیکن اس حد تک جہاں پر یہ حقوق عوام کی حقیقی خواہشات نہیں بن جاتے۔ اس کے بعد ان میں اور سخت گیر ملاؤں میں کوئی فرق نہیں۔
روحانی پانچ سال پہلے تبدیلی کے وعدوں پر اقتدار میں آیا۔ سماج کی تمام پرتوں سے لاکھوں لوگوں نے اس جبر کی فضا کے خاتمے، سیاسی قیدیوں کو آزاد، جمہوری حقوق کو ترویج، ایران کی تنہائی کو ختم اور معیار زندگی کو بلند کرنے کے وعدوں پر اس کی بھرپور حمایت کی۔ روحانی کا انتخابی وعدہ کہ ’’صرف سنٹری فیوج ہی نہیں چلائیں گے بلکہ عوام کی زندگی کا پہیہ بھی چلائیں گے‘‘ لاکھوں مزدوروں اور غریبوں کے دلوں کی آواز تھا۔ لیکن چار سال بعد بھی لوگ زندگی سے لڑ رہے ہیں۔ بیروزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے اور عمومی طور پر افراطِ زر کنٹرول کرنے کے باوجود معیار زندگی کو برقرار رکھنے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اس کے علاوہ، روحانی کی حکومت بنیادی اشیائے صرف پر سبسڈی اور غریب ترین پرتوں کے مالی وظائف ختم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
اس وقت یہ تمام پرتیں بغاوت میں متحرک ہیں: غریب، مجبور، درمیانے طبقے کی نچلی پرتیں اور مزدوروں کی کچھ پرتیں۔ قدامت پسند علاقوں سے تعلق رکھنے والی ان پرتوں نے دہائیوں سر خم کئے رکھے اور اپنی قسمت کا فیصلہ سمجھ کر حالات سے سمجھوتہ کرتے رہے۔ در حقیقت، اس وقت سڑکوں پر موجود لوگ ان پرتوں سے ہیں جن پر ریاست ہمیشہ اپنی حمایت کے لئے انحصار کرتی رہی ہے۔ لیکن یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ حمایت اور اطاعت، اب ختم ہو چکی ہے۔
یقیناً اس وقت لگائے جانے والے نعرے ،معاشی مطالبات سے لے کر ’’آمر مردہ باد!‘‘ اور رضا شاہ پہلوی کی مداح سرائی تک، شدید کنفیوژن کا شکار ہیں۔ یہ گلی سڑی ملا ریاست کے خلاف عوام میں موجود شدید غم و غصے کا اظہار ہے۔ لوگ بھوکے ہیں اور بیروزگاری، افراط زر اور کرپشن سے شدید تنگ ہیں۔ ملا، ہمیشہ پارسائی ، پاکیزگی اور پرہیزگاری کے پردے پیچھے پناہ لیتے رہے ہیں۔ دہائیوں کی گلی سڑی اور کرپشن سے بھرپور آمریت نے اب اس پردے کو چاق کر کے رکھ دیا ہے۔
اس وقت مغربی سامراجی اور سعودی عرب، اسرائیل کے ساتھ مل کر اس تحریک سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ’’ایرانی عوام‘‘ کی حمایت میں ٹویٹ پر ٹویٹ کئے جا رہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ ٹرمپ، سعودی عرب اور اسرائیل اس وقت ایران میں حکومت کی تبدیلی کی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔ لیکن ایرانی عوام اپنے خلاف مغربی سامراج کے جرائم بھولی نہیں ہے جن میں سے تازہ ترین جرم امریکہ کی ایرانی عوام کے خلاف بے رحمانہ معاشی جنگ ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آج کے بعد کیا ہو گا۔ یہ ممکن ہے کہ تحریک وقتی طور پر پسپا ہو جائے۔ لیکن ایک چیز واضح ہے: ایرانی عوام میں انقلابی قوتوں کی بیداری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ عوام کی ایک نئی پرت براہ راست مداخلت کر رہی ہے اور ریاست کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ آنے والے عظیم تاریخی واقعات کے ابتدائی جھٹکے ہیں جن کے زلزلے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیں گے اور طبقاتی توازن کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔
یکم جنوری 2018ء
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – ایران بھر میں پھیلتے مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے احتجاج