|تحریر: ایسائس یاوری، ترجمہ: یار یوسفزئی|
ایران کے اندر 18 جون یعنی آج ہونے والے انتخابات ایک ایسی ڈارمائی شکل اختیار کر رہے ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ماضی میں حکمران طبقہ کم از کم مقابلہ بازی کا ڈھونگ تو رچایا کرتا تھا، جب مختلف دھڑوں کے امیدواران کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی جاتی۔ البتہ اس سال فقط سات امیدواروں کو اجازت دی گئی ہے؛ ان سب کا تعلق شدت پسند قدامت پرست دھڑے سے ہے۔ یہ اقدام کمزوری کا اظہار ہے، جس سے حکمران طبقے کو درپیش بحران بے نقاب ہوتا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پچھلے انتخابات کے برعکس، جہاں حکمران اپنا جواز قائم رکھنے کے لیے عوام کو متحرک کرتے، اس سال وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں عوام کی شرکت 2009ء کی جنبشِ سبز (گرین موومنٹ) کی سطح پر کسی تحریک شروع کرنے کا باعث نہ بن جائے۔ مگر حقیقی انتخابات کی ڈرامہ بازی کا خاتمہ کرنے کے الٹے نتائج نکل سکتے ہیں، جس کے باعث پہلے سے زیادہ پرتیں کھلے عام حزبِ اختلاف میں جا سکتی ہیں۔ اگر عوام کے پاس انتخابات کے ذریعے اپنی بھڑاس نکالنے کا راستہ موجود نہ ہوا تو ممکن ہے کہ ان کی بے چینی کا اظہار سڑکوں کے اوپر اُمڈ آئے۔ صرف اس مہینے میں کم از کم 100 ہڑتالیں اور احتجاج ہوئے ہیں اور اس صورتحال میں تیزی سے مزید شدت آتی جا رہی ہے۔
آج ایرانی سماج کا ہر حصہ طبقاتی جدوجہد کی جانب کھنچتا چلا جا رہا ہے؛ صنعتی مزدور، طلبہ، نرسز، بازار کے چھوٹے کاروباری اور کسان۔ فروری کے بعد سے، سماجی تحفظ اور گزارے لائق پنشن کے لیے ملک بھر کے اندر احتجاج سامنے آئے ہیں۔ عوام کرونا وباء کی چوتھی لہر سے گزر رہے ہیں، جبکہ نرسز نے اپنے ہسپتالوں کے باہر تسلسل کے ساتھ احتجاجوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔
انتخابات کے حوالے سے کئی مظاہرین نے یہ نعرہ بلند کیا ہے کہ ”ہم مزید ووٹ نہیں ڈالیں گے، ہم سے محض جھوٹ بولا جاتا ہے!“ 30 مئی کو، ایران بھر میں تیل کی صنعت سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں نے احتجاج منعقد کیے۔ عسلویہ اور ماھشھر میں نسبتاً زیادہ انقلابی رجحان رکھنے والے تیل کے محنت کشوں نے ملکی سچح کی ہڑتالوں کی کال دی ہے۔ ہفت تپہ، ریلوے کی تعمیراتی کمپنی ترانس ورس اور ہیپکو کے محنت کشوں نے کئی مہینوں سے غیر ادا شدہ اجرتوں کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے، جس کی ادائیگی ان کمپنیوں کے دوبارہ قومیائے جانے کے باوجود نہیں کی گئی ہے۔ چاہے سرکاری شعبے ہوں یا نجی، معیشت پر ایک ہی نسل کے سرمایہ دار قابض ہیں۔
یہ تحریکیں ہڑتالوں اور احتجاجوں کی اس لہر کا تسلسل ہیں جو 2018ء میں ابھری تھی اور جو جبر، کرونا وباء کی پابندیوں اور حکومتی سرپرستی میں قائم مزدور تنظیموں کی جانب سے تخریب کاری کے باوجود برقرار ہے۔ پچھلے عرصے کی نسبت ہڑتالوں اور احتجاجوں کی تعداد کم ہے، جیسا کہ پچھلے سال موسمِ خزاں کی ہڑتالی لہر کی نسبت۔ پھر بھی، موجودہ صورتحال انتہائی کشمکش سے بھرپور ہے، خاص کر انتخابات کے حوالے سے۔
https://www.instagram.com/p/CP97WLcBEnS/?utm_source=ig_embed&ig_rid=b3d8bc1d-b18d-416d-8d61-98b3741deb11
ٹریڈ یونینز اور مزدور تنظیموں نے انتخابات کو مسترد کیا ہے، جن میں ہفت تپہ کی لڑاکا یونین بھی شامل ہے، جس کے جاری کیے گئے بیانیے میں کہا گیا:
”صدارتی انتخابات اور بیلٹ باکس کا ہم سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم اب بھی ہفت تپہ کے محنت کشوں کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ہمارا اب بھی یہ ماننا ہے کہ محنت کش اپنی طاقت کے بل بوتے پر خود کو آزاد کرائیں گے اور ہم (حکومت سے وابستہ) کسی شخص، تنظیم یا دھڑے کے متعلق ذرا برابر بھی سراب کا شکار نہیں ہیں۔“
ملک کے کونے کونے میں نوجوان خودرو انداز میں تقریریں کرتے نظر آتے ہیں۔ تہران، اھواز، قم (اہم مذہبی تربیت گاہوں اور مدارس کا مرکز)، مشھد اور تبریز سمیت ہر بڑے شہر کے اندر مقررین نے انتخابات اور امیدواران کو مسترد کر دیا ہیں۔ نومبر 2018ء کی بغاوت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تہران میں ایک نوجوان محنت کش کا کہنا تھا: ”جو بھی ووٹ ڈالے گا، وہ نومبر میں مارے گئے 1500 لوگوں کے ساتھ غداری کرے گا۔“ اس نے مزید کہا: ”ٹی وی پر آنے والے انتخابات کے سارے امیدواروں کے بیچ کوئی تفریق نہیں کر پاتا، ان میں کوئی فرق نہیں۔ سارے کے سارے چور ہیں۔“
اھواز میں ایک اور مقرر نے کہا: ”میں ایک جوان بندہ ہوں جو اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ ہم ووٹ کیوں ڈالیں؟ ہم بالکل بھی ووٹ نہیں ڈالیں گے۔“ اس کے بعد تیل کے ایک محنت کش نے کہا: ”دوسرے ممالک میرے تیل سے اپنی دولت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ پیسوں (تیل کے منافعوں) کا کیا کر رہے ہیں۔ جب تک یہ اقتدار میں رہیں گے، ایران کی حالت بد تر ہوتی جائے گی۔“
بحران زدہ حکمران طبقہ
ایرانی سرمایہ داری شدید بحران کا شکار ہے۔ حکومت عوام کے مطالبات پر غور کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر نا اہل ہے اور پورے سماج میں مسلسل طبقاتی جدوجہد کی وجہ سے ابلتا ہوا غصّہ پھٹ کر سامنے آیا ہے۔ معاشی پابندیوں اور دہائیوں سے جاری سرمایہ دارانہ بد انتظامی کی وجہ سے ملک کا انفراسٹرکچر اور پیداوار منہدم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ پانی اور بجلی کی قلت عام ہے، خصوصاً دیہات کے اندر جہاں کسانوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج سامنے آ رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد افراطِ زر اور غربت بلند ترین سطح پر ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ 70 سے 80 فیصد آبادی غربت میں جی رہی ہے۔ افراطِ زر کی مناسبت سے، ریاست کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں اور سبسڈیوں کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ ضروری اشیاء جیسا کہ ڈبل روٹی کے نرخ نامے اور سبسڈیاں بے کار ہیں، جبکہ وسیع پیمانے پر کرپشن اور کالے دھن کا کاروبار جاری ہے۔
2018ء کے بعد سے حکمران طبقے کے بیچ تسلسل سے آپسی لڑائیاں سامنے آئی ہیں، جس میں اس کے مختلف دھڑوں نے ہیجان انگیز طریقے سے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سب سے بڑے دھڑے لبرل اصلاح پسند اور قدامت پرست پرنسپل اسٹ (اصول گرایان) ہیں، جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کرپشن سکینڈلز کو عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہیں اور عدلیہ، پارلیمان اور نجی کمپنیوں سمیت ریاستی مشینری کی تحقیقات شروع ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ ریاستی مشینری کے بڑے بڑے ممبران کو نشانہ بنایا گیا ہے، جیسا کہ سابقہ نائب چیف جسٹس اکبر طبری، البتہ اسے جلد رہا کر دیا گیا۔
صدر روحانی کی موجودہ نام نہاد ”معتدل“ حکومت، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں دھڑوں سے سودے بازی کرتی ہے، نے حکمران طبقے کے بیچ تقسیم کو مزید شدید کیا ہے۔ حکومت نے ’فری ٹریڈ زون‘ کو وسیع کرتے ہوئے اور نجکاری بڑھاتے ہوئے معاشی لبرلائزیشن کو تیز کیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، بحران کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ نہ صرف محنت کشوں، بلکہ پرنسپل اسٹ دھڑے کے ساتھ بھی تصادم کی صورت میں نکلا ہے جس کا مذہبی اشرافیہ اور ریاستی مشینری کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ 2020ء کے پارلیمانی انتخابات کے بعد یہ سیاسی بحران مزید بد تر ہو گیا ہے۔ پارلیمان میں پرنسپل اسٹ دھڑے کی اکثریت کی وجہ سے حکومت مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
پرنسپل اسٹ نجکاری کی مخالفت محض اسی وجہ سے کر رہے ہیں کیونکہ اس کی صورت ریاستی اداروں کے اوپر ان کی گرفت کمزور پڑ جائے گی، جس کے ساتھ وہ اپنی نجی ملکیت جیسا سلوک کرتے ہیں، جہاں کرپشن اور اقربا پروری کی بہتات ہے۔ انہوں نے مزدور جدوجہد کی حمایت کا ڈھونگ رچا کر عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے، جہاں اکثر وہ ریاستی مزدور تنظیموں کا سہارا لیتے ہیں، جس کے ذریعے وہ جدوجہد کو راستے سے ہٹا کر ریاست کی مقرر کردہ حدود میں مقید کرتے ہیں۔
دہائیوں تک ریاست انتخابات کو اپنی بقا کے لیے استعمال کرتی رہی ہے، جس کے ذریعے کبھی شدت پسند پرنسپل اسٹ حکومت آتی تو کبھی نسبتاً معتدل لبرل حکومت۔ مگر اب طبقاتی جدوجہد نے پورے نظام کو بحران میں دکھیل دیا ہے۔ وہ پہلے کی طرح عوام کو منقسم کرنے یا دبانے کے اہل نہیں رہے۔ محنت کشوں کے ایک دھڑے کو دبانے کی صورت ایک اور دھڑا جدوجہد میں اتر جاتا ہے۔ 2018ء کی بغاوت میں پہلے سے ہی یہ نعرہ لگ چکا ہے کہ ”اصلاح پسند آئے یا پرنسپل اسٹ، ہمارے حالات کبھی نہیں بدلتے“۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ افراد پر یہ سچائی واضح ہوتی گئی ہے کہ یہ دونوں دھڑے فقط بوسیدہ ایرانی سرمایہ داری کے نمائندے ہیں۔ ریاست کی مخالفت ہر پرت کے اندر بڑھ رہی ہے، حتیٰ کہ وہ بھی ریاست کے خلاف ہو رہے ہیں جو پہلے اس سے ہمدردی رکھتے تھے۔
دسمبر 2017ء اور نومبر 2019ء میں مزدوروں اور محروم نوجوانوں کی جانب سے دو بغاوتیں دیکھنے کو ملی ہیں۔ اس کے بعد سے انقلابی رجحان میں اضافہ آتا رہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ حالات ایک بڑے سماجی دھماکے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ حکمران طبقے کے بیچ پھوٹ پڑنے کا باعث بن رہا ہے۔ شدت پسندوں کا دھڑا، جو ریاستی مشینری کے بڑے حصے پر قابض ہے، ریاستی جبر بڑھا کر عوام کو دبانے کا کہہ رہے ہیں تاکہ انقلاب کو روکا جا سکے۔ اسی وجہ سے انہوں نے انتخابات کے حوالے سے اقدامات لیے ہیں، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ 2009ء کی طرز پر جنبشِ سبز جیسی عوامی تحریک ابھارنے کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔
https://www.instagram.com/p/CPVR0JHiHBw/?utm_source=ig_embed&ig_rid=9f914f80-2ca2-4dfd-9597-8d21446b3a73
”اصلاح پسند آئے یا پرنسپل اسٹ، ہمارے حالات کبھی نہیں بدلتے“
دوسری جانب لبرل دھڑے کا ماننا ہے کہ انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے ریاست کو نرمی اپنانی پڑے گی۔ ماضی کے اندر، حقیقی مقابلہ بازی کا ڈرامہ کر کے، ریاست انتخابات کے اندر 70 سے 80 فیصد کے ٹرن آؤٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جایا کرتی تھی، جس کی بنیاد پر اس کا جواز قائم رہتا۔ مگر صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ پہلے سے ہی پارلیمانی انتخابات میں کم ترین سطح کا ٹرن آؤٹ دیکھنے کو ملا ہے۔ اب صدارتی انتخابات کے حوالے سے ریاستی اخبار اس سے بھی کم ٹرن آؤٹ کی توقع کر رہا ہے، جس کے مطابق یہ 35 سے 45 فیصد ہوگا۔ یہ عوام کی جانب سے ریاست کی کم ہوتی حمایت کا اظہار ہے۔
کم ٹرن آؤٹ کے نتیجے میں ریاست کا جواز خطرے میں پڑ سکتا ہے، جس سے خوفزدہ ہو کر ریاست کے بعض دھڑوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کو جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ محنت کش اور غریب عوام کو مزید اشتعال دلانے کا باعث بنے گا۔ عوام کے نزدیک یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انتخابات مکمل طور پر دھاندلی پر مشتمل ہیں۔ ریاست کے ذہن میں شروع سے ایک امیدوار کا نام تھا؛ بدنامِ زمانہ ابراہیم رئیسی، موجودہ چیف جسٹس اور انتہائی قدامت پرست، جو نومبر 2018ء کی بغاوت کے بعد مظاہرین کو، اور 1988ء میں ایرانی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کارکنان کو سزائے موت دینے کا ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ دیگر امیدواران کی سیاسی حیثیت اتنی نہیں ہے اور وہ کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔
شدت پسند پرنسپل اسٹ حکومت ایرانی عوام کی اکثریت کے لیے کچھ بھی تبدیلی نہیں لائے گی۔ اس کا مطلب ’سٹیٹس کو‘ کا تسلسل ہوگا، جس میں کرپشن کی بہتات، سرکاری شعبوں میں منافع خوری، اور ہڑتالوں اور احتجاجوں کو دبانا جاری رکھا جائے گا۔ ابراہیم رئیسی نے کھوکھلے وعدوں کے ذریعے عوام کو کرپشن مخالف مہم، بے کار سبسڈیوں اور قرضوں کے گرد اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر وہ محنت کشوں کو بے وقوف بنیانے میں ناکام رہا ہے۔ مثال کے طور پر ہفت تپہ یونین نے اس کے دورے کے حوالے سے ایک بیانیہ جاری کیا:
”جناب رئیسی، آپ اب ہفت تپہ کیوں آ رہے ہیں؟ آپ نے عدلیہ کے ان ممبران کے ہاتھ کیوں نہیں کاٹے جو سارے اسد بیگی کے خدمت گار اور مزدوروں کے دشمن تھے؟ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کیوں؛ کیونکہ آپ بھی باقی سب کی طرح سرمائے کے نمائندہ ہیں۔ خوزستان میں آپ کا خیر مقدم نہیں کیا جائے گا۔“
سابقہ نائب وزیرِ داخلہ اشرف بروجردی نے اصلاح پسند ویب سائٹ کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ”آج جو لوگ صبر کر رہے ہیں، ایک دن اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ ملک ان کی ملکیت ہے۔ اور جب لوگ ہمارا گریبان پکڑیں گے، ہم سے فضل اللّٰہ نوری (ایک رجعتی مُلّا جس کو آئینی انقلاب میں سزائے موت دی گئی تھی) جیسا سلوک کیا جائے گا۔“
یہ دن ریاست کی توقعات سے بہت زیادہ قریب ہے۔ حکمران طبقے کے لبرل دھڑے کی اس بات کا مطلب یہ انتباہ دینا ہے کہ اگر جمہوری راستوں کو بند کر دیا جائے، ایک انقلابی دھماکہ پھٹ کر سامنے آ سکتا ہے۔ محنت کش طبقے کی زیادہ سے زیادہ پرتیں طبقاتی جدوجہد کے ذریعے سیاسی نتائج اخذ کر رہی ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے سامنے بحران زدہ ریاست کا ہر دھڑا بے بس دکھائی دے رہا ہے۔
انتخابات کا بائیکاٹ کرو! اسلامی جمہوریہ مردہ باد!
حالیہ سالوں کی جدوجہد ایرانی سماج میں بہت بڑی تبدیلی لانے کی باعث بنی ہے۔ ہالینڈ میں قائم ایک تحقیقاتی تنظیم ’گَمان‘ نے انتخابات کے حوالے سے ایرانیوں کے رویے پر ایک سروے کیا۔ اس کے مطابق، 75 فیصد افراد ووٹ نہیں ڈالیں گے؛ جن میں 70.9 فیصد کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ ”اسلامی جمہوریہ میں انتخابات کے غیر جانبدار اور با اثر طریقے کی عدم موجودگی ہے۔“ اس سروے میں محض 21 فیصد نے اسلامی جمہوریہ کے لیے حمایت ظاہر کی۔
مگر شدید ہوتی طبقاتی جدوجہد، اور 2018ء اور 2019ء کی بغاوتوں کے باوجود حکومت ابھی تک عوامی قیادت کے فقدان کی وجہ سے اقتدار میں ہے۔ یہ قیادت صرف محنت کش طبقہ فراہم کر سکتا ہے۔ پہلے سے ہی، جبر کے باوجود، طبقاتی جدوجہد سے گزر کر خودمختار مزدور تنظیمیں سامنے آئی ہیں۔ وسیع پیمانے پر جبر کے باوجود، ان تنظیموں کی اکثریت متحد ہوئی ہے، جو اپنے گرفتار اراکین کی رہائی اور دیگر مطالبات کے لیے مشترکہ مہم چلا رہی ہیں۔
https://www.instagram.com/p/CPVR0JHiHBw/?utm_source=ig_embed&ig_rid=95cd00c5-4540-4fe7-a1a7-1f851e56b687
بلاشبہ یہ آگے کی جانب ایک بڑا قدم ہے، مگر ان مطالبات کو ایک مشترکہ پروگرام کے گرد منظم کرنے کی ضرورت ہے، جس کی بنیاد پر ایرانی محنت کش طبقہ اور غریب، سرمایہ داروں اور ریاست کے خلاف ایک متحدہ جدوجہد کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں یہ مطالبات بھی شامل کرنے چاہیے: عوام دشمن معاشی اقدامات کی واپسی؛ افراطِ زر کی مناسبت سے بڑھتے ہوئے اجرتوں اور پینشن کا تعین؛ ملک کے پسماندہ انفراسٹرکچر کی مرمت کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی؛ تمام نجی کمپنیوں کو دوبارہ قومیا کر مزدوروں کے اختیارات میں دینا، اور ریاستی شعبہ جات میں مزدوروں کے اختیارات کو متعارف کروانا۔ اس کے علاوہ سیاسی مطالبات بھی شامل ہونے چاہئیں جیسا کہ ہڑتال، احتجاج اور اکٹھ کرنے کا حق؛ صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل؛ اور قانون ساز اسمبلی کو منتخب کر کے اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ۔
ایران میں وسیع پیمانے پر بے چینی موجود ہونے کی وجہ سے اس قسم کے پروگرام کو محنت کشوں کی مختلف پرتوں سے بہت بڑی حمایت ملے گی۔ درمیانے طبقے، طلبہ اور کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے مزدور ایک طاقتور متحدہ تحریک کا آغاز کر سکیں گے۔ اس قسم کے متبادل کی موجودگی ریاست کے بارے میں موجود کسی بھی سراب کا فیصلہ کن خاتمہ کرے گی۔ جب ایسی تحریک پروان چڑھے گی تو وہ نفرت انگیز اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ کرنے کی اہل ہو گی۔