تحریر: حمید علی زادہ:-
ایرانی سماج میں بہت بڑے تضادات پنپ رہے ہیں۔عوام معاشی بحران کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔غربت، بے روزگاری اور سب سے بڑھ کر افراط زر کروڑوں لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین رہا ہے۔ اتنی مایوسی اور نا امیدی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور سماج ایک بارود کا ڈھیر بن چکا ہے جو پھٹنے کے لیے تیا ر ہے۔
لیکن حالات میں ایسی کشیدگی کے باوجود سبز تحریک جسے لوگ کبھی ایک نئی سحر سمجھ رہے تھے سڑکوں اور کارخانوں میں عوام کے جذبات کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ناکام ہے۔ اس برس25بہامان (15فروری) کو ہونے والے مظاہرے 2009ء کے موسم گرما، خزاں اور موسم سرما میں ابھرنے والی تحریک کے مقابلے میں کچھ خاص نہیں تھے۔
جہاں تحریک کو ناکامی کا سامنہ ہوا ہے وہاں یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ حکومت انتہائی کمزور ہو چکی ہے اور سماج کا چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی حل کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔ حکومت کے اندر سامنے آنے والے شدید تنازعات ظاہر کرتے ہیں کہ اس کے لیے سماج کے اندر ایک ٹھوس سماجی بنیاد قائم رکھنا کتنا دشوار ہو گیا ہے۔ جب تک عوام کے سلگتے ہوئے جذبات کو اظہار کا کوئی مناسب راستہ میسر نہیں آتا، موجودہ کیفیت جاری رہے گی۔ لیکن ایک بار پھر سے سطح کے بالکل نیچے انقلاب پک رہا ہے اور ایک چھوٹی سی چنگاری ایک ایسی انقلابی آگ کو بھڑکا سکتی ہے جو ایران میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
گرتا معیار زندگی
امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ کی وجہ سے کئی برسوں سے ایرانی معیشت میں موجود تضادات میں شدت آئی اور اب اسے ایک شدید بحران کا سامنا ہے۔ ریال کی قیمت بہت زیادہ گر چکی ہے جس کی وجہ سے درآمدات مہنگی ہو گئی ہیں اور ملکی تجارت کو جاری رکھنے کے لیے ادائیگیوں کو جاری رکھنے والے دوبئی کے دلال بھی آسانی سے نہیں مل رہے۔
کارخانے تیزی سے بند ہو رہے ہیں اور ریاستی شعبے میں اجرتوں کی عدم ادائیگی معمول بن چکا ہے۔ لوگ چاول اور روٹی پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ گوشت کی قیمت ان کی دسترس سے باہر ہو گئی ہے ، تہران میں گوشت 30ڈالر فی کلو ہو چکا ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں روٹی کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور چاول کی قیمت 5ڈالر فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔
پیداواری شعبے کے 75لاکھ مزدوروں میں سے قریباً80فیصد 330000تمان (270ڈالر) کی کم سے کم تنخواہ پر کر کام کر رہے ہیں۔ ایرانی ادارہ برائے شماریات کے مطابق، ایرانیوں کی اوسط آمدن 4400ڈالر سالانہ (366ڈالر ماہا نہ) ہے۔ انتہائی پر امید اندازوں کے مطابق بھی غربت کی لکیر 800000تمان (655ڈالر)ماہانہ ہیں۔
گیلپ سروے کے مطابق 48فیصدایرانیوں نے یہ بتایا ہے کہ گزشتہ برس میں ایسا وقت آیا جب ان کے پاس اپنے خاندان کو کھانے کھلانے کے لیے پیسے نہیں تھے، 2005ء میں 15فیصد کے مقابلے میں یہ تعداد تین گنا ہو گئی ہے۔ اتنی ہی تعداد کے پاس سر چھپانے کے لیے درکار پیسے نہیں تھے، 2005ء میں یہ تعداد 29فیصد تھی۔
معاشی مسائل کے ایرانیوں کی روز مرہ سوچ پر بھی اثرا ت مرتب ہو رہے ہیں۔اکثریت(55فیصد) کے مطابق ان کا کل کا دن پریشانیوں سے بھرپور گزرا، فروری اور مارچ2011ء میں یہ تعداد38فیصد تھی۔اسی طرح47فیصد ایرانیوں کے مطابق ان کے کل کے دن کا زیادہ تر وقت غصے میں گزرا، ایک برس قبل یہ تعداد 35فیصد تھی۔یہ سروے16دسمبر2011ء اور 10جنوری2012ء کے درمیان کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد ہونے والی ریال کی قدر میں تیز گراوٹ (اور نتیجاً افراط زر میں اضافہ) کے اثرات اس میں شمار نہیں ہیں۔
سبز تحریک
عوام کو درپیش اذیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان مصائب اور 2009ء کے انتخابات کے اٹھنے والی تحریک کا آپس میں الٹ تعلق ہے۔
15فروری کو سبز تحریک اور حزب اختلاف کے دیگر لیڈروں نے ایران میں آمریت کے خلاف مظاہروں کی ایک اور کال دی۔ انتہائی دلیر اورقربانی دینے کے لیے تیار انقلابی نوجوان مرد خواتین نے اس کال کو ہر ایک گلی اور محلے تک پہنچایا اور لوگوں کو باہر لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن ان مظاہروں میں تعداد اور جوش و خروش 2009ء کے انتخابات سے لے کر یوم عاشورہ تک ہونے والے مظاہروں سے کم تھا۔
اگرچہ ہزاروں افراد نے بے پناہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک کو جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن یہ حقیقت سامنے آ رہی ہے کہ عوامی تحریک پیچھے جا چکی ہے، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تحریک کو شکست ہوئی ہے۔ کئی لوگ اس بات کو جان رہے ہیں کہ آگے بڑھے بغیر تحریک ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکتی۔
2009ء کے انتخابات کے بعد ابھرنے والی تحریک 1979ء کے انقلابات کے بعد ایران کی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک تھی۔ ایک سادہ نعرے ’’میرا ووٹ کہاں ہے‘‘ سے شروع ہونے کے باجود ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بات یہاں تک نہیں رکے گی۔ایک ہفتے کے اندر ہی تحریک کا بنیادی نعرہ ’’مرگ بر دیکتاتور‘‘ میں تبدیل ہو گیا ، جس سے خامنائی اور احمدی نژاد کی جانب سے انتخابی دھاندلی کی بجائے تحریک کے حقیقی محرکات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس وقت بھی کہا تھا،یہ تحریک ایک انقلاب کی شروعات تھی۔در حقیقت عاشورہ کے دن اپنی انتہا پر اس کا کردار واضح طور ایک بغاوت میں تبدیل ہو چکا تھا۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ تحریک ایک بھرپور اور کامیاب انقلاب نہ بن پائی؟ جواب بہت واضح ہے۔اس تحریک میں سماج کی سب سے طاقتور قوت کی فیصلہ کن مداخلت نہیں تھی، یعنی محنت کش طبقے کی۔ عرب انقلاب کے تجربات سے واضح ہے کہ محنت کش طبقے کی آمد کس طرح سے انقلابات کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ جن ممالک میں محنت کش طبقہ فیصلہ کن طور پر تحریک میں آیا( مثلاً مصر اور تیونس جہاں مبارک اور بن علی کے اقتدار کے آخری دنو ں میں عام ہڑتالیں کی گئیں) وہاں آمر جانے پر مجبور ہوئے۔ لیکن جہاں محنت کش طبقہ ایک آزاد قوت کے طور پر تحریک میں نہیں آیا (مثلاً لیبیا اور شام) وہاں تحریک کو بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنے مخصوص آغاز، ماضی قریب تک جاری رہنے والے سرمایہ داری کے عالمی بحران اور گزشتہ دس برس کے دوران تیل کی بلند قیمت کی بنا پر ایرانی حکومت کی سماج کے اندر ایک مخصوص سماجی بنیاد موجود ہے جو نہ صرف ریاستی طاقتوں پر مبنی ہے بلکہ اس میں قصبات اور دیہات کی پسماندہ ترین پرتیں بھی شامل ہیں اور ریاست تحریک کے خلاف ان کا سہارا لیتی ہے۔
ایسی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے۔محض مظاہروں تک محدود نہیں رہا جا سکتا۔ فتح کے حصول کے لیے شہروں میں ایک عوامی بغاوت کے ساتھ عام ہڑتال درکار ہے۔ لیکن محنت کش تحریک میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟کیونکہ تحریک کی قیادت موسوی اور کروبی کے ہاتھ آگئی جو ایک وقت میں اس حکومت کا حصہ رہے ہیں اور اس لیے انہیں ایک ایسا پروگرام دینے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جو محنت کشوں کو متوجہ کر سکے۔
بلا شبہ جمہوری مطالبات عوام کو آمریت کے خلاف متحرک کرنے کے لیے ضروری ہیں ، لیکن محنت کش طبقے کو ساتھ شامل کرنے کے لیے سماجی اور معاشی مطالبات پیش کرنا ضروری ہوتا ہے جن میں روزگار، اجرتیں، رہائش اور کام کے حالات وغیرہ شامل ہیں۔ایسا نہ کر کے لبرل اصلاح پسندوں نے تحریک کو عملی طور لبرل جمہوری راستے پر زائل کر دیا جس میں محنت کشوں کے لیے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
در اصل ان سولات پر تحریک کی بالائی پرت اور عام کارکنان جن میں زیادہ تر یونیورسٹیوں کے نوجوان شامل ہیں ، کے درمیان ایک کشمکش ہمیشہ موجود رہی۔لیکن اس کشمکش میں پارلیمان اور ریاست سے تعلق رکھنے والے اصلاح پسندوں کی بالائی پرت فاتح رہی جو در حقیقت حکمران اشرافیہ کا ہی حصہ ہیں اور وہ تحریک پر قابض ہو کر اسے محفوظ راستے پر لے گئے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک شاذو نادر ہی جمہوری مطالبات سے آگے نکلی اور جب وہ نکلی بھی خاص طور پر عاشورہ کے دن، تو حکومت کا تختہ الٹنے کی کال دینے والی قیادت ہی موجود نہ تھی۔
کس طرح کی شکست
اصلاح پسند دھڑے نے تحریک کو ٹھنڈا کر کے در اصل اسے رد انقلاب کے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا ہے۔گزشتہ برس میں تحریک کا حصہ بنے والے عوام پیچھے ہٹ گئے ہیں ہزاروں نوجوان مرد اور عورتوں کو قید کر لیا گیا ہے۔انقلابی دور کی جگہ رد انقلاب کا دور آگیا ہے، لیکن اس رد انقلاب کی نوعیت کیا ہے؟
اگرچہ حکومت اس لڑائی میں فتح یاب ہوئی ہے ، پر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت اس وقت اپنی کمزور ترین کیفیت میں ہے۔تحریک کے تھپیڑوں نے اصول گریان (مذہبی قدامت پرست) کے مابین گہری دراڑیں ڈال دی ہیں اور اب وہ شدید باہمی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
اس کے ساتھ ہی معاشی بحران کی وجہ سے نئی پرتیں جدوجہد کے میدان میں داخل ہو رہی ہیں۔ اس سے حکومت کی سماجی بنیاد کمزور اور اس میں دراڑیں گہری ہو رہی ہیں۔ہزاروں محنت کش اور غریب جدوجہد میں شامل ہونے ہر مجبور ہو رہے ہیں۔حال ہی میں ماھشہر پیٹرو کیمیکل کامپلکس کے محنت کشوں نے ایک سال کی جدوجہد کے بعد جزوی فتح حاصل کی ہے۔ کئی دیگر مقامات پر ہڑتالیں اور مظاہرے شروع ہو رہے ہیں اور اب درمیانے اور بڑے پیمانے کے پیداواری یونٹ بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ان عوامل کے ہوتے ہوئے حکومت کے لیے امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی بلکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ان حالات میں انقلابی تحریک کا احیا نا گزیر ہے۔لیکن یہ واضح نہیں کہ ایسا کتنا جلدی ہو تا ہے اور آیا کہ یہ پھر سے سبز تحریک کی شکل میں سامنے آئے گی ، لیکن یہ بات حتمی ہے کہ اور یہ بہت بلند تر میعار پر ہو گی اور اس میں کہیں زیادہ وسیع پرتیں شریک ہوں گی۔
اس شکست کا 1979ء کے انقلاب کی شکست سے موازنہ کرنا درست نہیں ہو گا۔ کیونکہ انقلاب کی شکست ایک ناکامی سے نہیں ہوئی تھی بلکہ اسے دس برس کے دورانئے پر محیط پے در پے کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے کم از کم چار مرتبہ تو بھرپور انقلابی ادوار تھے اور 2009ء تو صرف ان کی ایک جھلک تھی۔اس کے علاوہ 1979ء کے انقلاب کی شکست مئی1968ء کو فرانس سے شروع ہونے والے عالمی انقلابی عہد کے خاتمے کے وقت میں ہوئی۔سارے جہان کا پرولتاریہ پسپائی کا شکار تھا۔
تاہم آج ہم ایک انقلابی عہد کے شروعات سے گزر ہے ہیں جو کئی سال جاری رہے گا۔ لیکن ہمیں تاریخی موازنے کی حدود کو بھی سمجھنا چاہیے، اور موجودو صورتحال روس میں1905ء کے انقلاب کی شکست سے زیادہ قریب ہے۔
انتہائی قلیل اور کم عمر روسی محنت کش طبقے کی کمزوری اورروسی لبرل سوشل ڈیموکریٹ لیبر پارٹی کی کمزوری جس نے ا بھی عوام تک پہنچنا شروع ہی کیا تھا، کی وجہ سے انقلاب 1906-07 ء کے برسوں میں شکست سے دوچار ہو گیا۔لیکن بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ1905ء کا انقلاب محض 1917ء کے انقلاب کا پیش خیمہ تھا جب بالشویک پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔
1905ء کا انقلاب بھی ایک حادثاتی شخصیت پادری گاپون (جو پولیس کا ایجنٹ تھا) کے گرد بورژوا جمہوری تحریک کے طور پر شروع ہوا تھا۔تاہم روسی سوشل ڈیموکریٹ(مارکسسٹ) اپنی بھرپور مداخلت کی وجہ سے پہلے تحریک کے بہترین عناصر اور بعد میں عوام کو جیتنے میں کامیاب رہے۔1905ء کے انقلاب کی تاریخی حاصلات یہی تھیں کہ اس نے اکتوبر انقلاب کی فوج کو تیار اور منظم کیا۔
اسی طرح سے2009ء کی تحریک ایران کے اندر مستقبل میں اس سے کہیں بڑے اور گہرے انقلابی دھماکوں کا پیش خیمہ تھی۔2009ء میں اور اب بھی اصل مسئلہ قیادت کا ہے۔ ٹراٹسکی نے 1938ء میں لکھا تھا’’عمومی طور پر عالمی صورتحال کو پرولتاریہ کی قیادت کا تاریخی بحران کہا سکتا ہے‘‘۔ آج یہ الفاظ اس دور سے کہیں زیادہ درست ہیں۔اگر2009 ء میں ایران کے اندر چند سو افراد کی بالشویک کیڈر تنظیم موجود ہوتی تو وہ ابھی تک عوامی قوت بن چکی ہوتی اور ممکنہ طور پر انقلاب کی تقدیر کا فیصلہ کر رہی ہوتی۔ہمیں درپیش اصل کام ایک ایسی پارٹی کی تعمیر کا ہے۔
ایرانی سماج کا کوئی بھی تضاد حل نہیں ہو سکا، بلکہ ان تضادات میں شدت آئی ہے۔ عوام نا امید ہیں مستقبل مزید تاریک دکھائی دیتا ہے۔اس کے ساتھ ہی حکومت بھی ناقابل حل بحران کا شکار ہے۔ یہ سب مل کر مستقبل میں ایک انقلابی دھماکے کو ناگزیر بنا رہے ہیں۔
جلد یا بدیر شدید طبقاتی جدوجہد کے ایک دور کا آغاز ہو گا جو ایران کو اس کی بنیادوں تک ہلا کر رکھ دے گا۔ ایسے واقعات میں مارکسی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔اگر ہم پہلے سے مظبوطی سے مارکسزم کے نظریات پر قائم اور عوام کی جانب جھکاؤ رکھنے والی تنظیم تعمیر کر لیں تو ایک چھوٹے سے گروپ کے لیے قلیل وقت کے اندر تیزی سے بڑھنا ممکن ہے۔ لیکن ایسا ہونے کے لیے تنظیم کی تعمیر لازمی ہے۔ آؤ مبارزہِ طبقاتی کے ساتھ شامل ہو اوررد انقلاب اور اس کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مستقبل کی لڑائیوں کی تیاری کرو۔
منگل 3اپریل 2012ء