ایران: صدارتی انتخابات کا عوامی بائیکاٹ؛ طوفانی واقعات کا پیش خیمہ

|تحریر: ایسائس یاوری، ترجمہ: یار یوسفزئی|

18 جون کو اسلامی جمہوریہ ایران نے صدارتی انتخابات منعقد کروائے، جن کا وسیع پیمانے پر عوامی بائیکاٹ کیا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا، جس میں ریاست کے چہیتے امیدوار رئیسی کو 61.9 فیصد ووٹ پڑے، جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد یعنی 12.8 فیصد بلینک ووٹوں (جس میں احتجاجاً کوئی بھی نمائندہ منتخب نہیں کیا جاتا) کی رہی۔ بہرحال حقیقی ٹرن آؤٹ اس سے بھی کم ہونے کا امکان ہے، جو کچھ اندازوں کے مطابق 25 سے 35 فیصد رہا۔ اطلاعات کے مطابق بعض پولنگ اسٹیشن بالکل خالی پڑے رہے۔ یہ انتخابات محض ایک دکھاوا تھا، جس میں اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے کم ترین ٹرن آؤٹ اور بلینک ووٹوں کی سب سے بڑی تعداد دیکھنے کو ملی۔ یہ سب کچھ ایسی صورتحال میں دیکھنے کو ملا جب ہڑتالوں اور احتجاجوں کا ایک لہر جاری ہے جس کا آغاز 2018ء میں ہوا تھا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

طبقاتی جدوجہد کی یہ لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور مسلسل شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں کے اندر اس میں مزید شدت آئی ہے؛ تیل اور گیس کے شعبہ جات میں تقریباً 3 ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے ہیں، ریلوے کا تعمیراتی کام کرنے والے محنت کش مختلف صوبوں میں ہڑتال پر ہیں، تہران میں میٹرو کے محنت کشوں اور ملک بھر میں کسانوں کے احتجاج جاری ہیں۔ طبقاتی جدوجہد نے کسی نہ کسی شکل میں عوام کی ہر پرت کو متحرک کیا ہے۔ بے نظیر بحران کا شکار محنت کش طبقہ غیر ادا شدہ اجرتوں اور کم از کم اجرت کا مطالبہ کرتے ہوئے سرکاری اداروں کے اندر موجود بے قابو ہو چکی کرپشن اور نجکاری کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ کسان کئی سالوں سے جاری شدید ہوتے قحط اور نیم سرکاری اداروں کی جانب سے ان کی زمینوں پر قبضے اور پانی تک رسائی کے حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں۔

https://www.instagram.com/p/CQab-cTnv1l/?utm_source=ig_embed&ig_rid=744d3087-49ef-47e1-8f97-9f5409e06520

روحانی کی رخصت ہوتی حکومت کے دوران مختلف ریاستی دھڑوں کے بیچ آپسی لڑائیاں کثرت سے جاری تھیں۔ اور جب طبقاتی جدوجہد کا سامنا ہوا تو، ہر ایک دھڑے نے عوامی جذبات کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ریاست نے شروع سے ہی واضح کر دیا تھا کہ ان کا امیدوار انتہائی قدامت پرست ابراہیم رئیسی ہے۔ انتخابات کا ڈھونگ رچا کر اسے تعینات کرنا ریاستی بحران کی علامت ہے۔ حتیٰ کہ وہ ریاست کے مختلف دھڑوں سے وابستہ امیدواروں کے بیچ انتخابات منعقد کروانے کے اہل بھی نہیں تھے، کیونکہ انہیں آپسی لڑائیوں کے تسلسل کے باعث انتخابات کے گرد عوامی تحریک ابھرنے کا ڈر تھا۔ اس کے برعکس ریاست نے محض 6 امیدواروں کو اجازت دی، جو سارے شدت پسند پرنسپل اسٹ دھڑے سے وابستہ تھے۔ دیگر امیدواروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا۔ البتہ فقط 6 امیدواروں کو اجازت دے کر بھی ریاست اپنے امیدوار رئیسی کی جیت کے حوالے سے پُر اعتماد نہیں تھی، چنانچہ انتخابات سے صرف دو دن قبل امیدواروں کی تعداد مزید کم کر کے 4 کر دی گئی۔

انتخابات میں یہ سب کرنے بالکل الٹ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ انتخابات میں متبادل کے فقدان نے ایران بھر میں بائیکاٹ کی مہم کے لیے راہ ہموار کر دی۔ الیکشن مہم کے دوران ہر بڑے شہر کے اندر نوجوانوں اور محنت کشوں نے اپنی خود رو تقاریر میں بائیکاٹ کا پیغام دیا، جیسا کہ تہران، کرج، مشھد، کرمانشاہ، شیراز، اصفہان، تبریز اور دیگر شہروں میں دیکھنے کو ملا۔ یہاں تک کہ بعض مواقعوں پر مختلف امیدواروں کے جلسوں کو ہائی جیک تک کیا گیا۔ رات کے وقت پوسٹروں اور دیگر چیزوں کو خراب کیا جاتا رہا۔ ہفت تپہ کی مزدور یونین سمیت 100 سے زائد مزدور تنظیموں نے مشترکہ بیانیہ جاری کرتے ہوئے کھلے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا؛ جن کے علاوہ اصفہان، تہران اور مشھد کی طلبہ تنظیموں نے بھی علیحدہ بیانیہ جاری کیا۔

ریاست نے رسمی انتخابات کے دکھاوے کا خاتمہ کر کے اپنی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ رہبرِ معظم (سپریم لیڈر) سید علی حسینی خامنہ ای نے ٹی وی پر تقریر کرتے ہوئے عوام کو ووٹ ڈالنے پر مائل کرنے کی کوشش کی، جس کا کہنا تھا کہ ”اپنی شرکت اور ووٹ کے ذریعے، تمام مسائل کے حوالے سے، دراصل آپ ملک کی تقدیر متعین کرتے ہیں۔“ اس کی کوششیں بے کار ثابت ہوئیں اور پولنگ اسٹیشن خالی پڑے رہے۔ اس کے باوجود ریاست نے ٹرن آؤٹ کو زیادہ دکھانے کی کوشش کی، جیسا کہ سپاہِ پاسداران سے منسلک نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس نے انتخابات شروع ہونے کے سات گھنٹے بعد اعلان کر کے کہا کہ ٹرن آؤٹ 51 فیصد ہے۔ یہ حقیقت کے سراسر برعکس تھا، حتیٰ کہ مختلف سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٹرن آؤٹ محض 40 فیصد تھا۔ اپنے جواز کا دکھاوا قائم رکھنے کے لیے ریاست نے ووٹ ڈالنے کے وقت میں مزید تین گھنٹے اضافہ کیا، تا کہ مزید لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ پھر بھی پچھلے انتخابات کے مقابلے میں پولنگ اسٹیشنز کے اندر تعداد ایک تہائی یا ایک چوتھائی ہونے کا اندازہ لگایا گیا، اور انتخابات سے قبل رائے شماری میں، جو ریاست کی جانب سے بھی کی گئی، تاریخ کا کم ترین ٹرن آؤٹ دیکھنے کو ملا۔

بسترِ مرگ پر پڑی اسلامی جمہوریہ

اسلامی جمہوریہ شدید بحران میں ہے، جہاں عوام دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے گہرے سماجی بحران سے گزر رہے ہیں۔ مرکزی بینک مسلسل پیسے چھاپ رہا ہے جس کے باعث افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف اپریل سے مئی تک کے عرصے میں ریاست نے 10 فیصد ترسیل زر میں اضافہ کیا۔ ملکی انفراسٹرکچر اور پیداوار منہدم ہونے کے دہانے پر ہے۔ دہائیوں سے جاری پانی کی بد انتظامی اور ماحولیاتی تبدیلی سے کسانوں کا ذریعہ معاش برباد ہو رہا ہے۔ یہ سب کرونا وباء کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔ 22 جون کو 11 ہزار 716 نئے کیسز رپورٹ کیے گئے اور مزید 1 ہزار 278 مریضوں کو ہسپتالوں میں داخل کیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ اپنی بنیادوں تک خستہ حال ہو چکی ہے، جس کا مکمل دیوالیہ پن بے نقاب ہو چکا ہے۔ بحران کی شدت میں امریکی پابندیاں ایک مرکزی عنصر ہے، مگر اب جبکہ شدت پسند پرنسپل اسٹ حکومت اقتدار میں آ چکی ہے، ایران اور امریکہ کے بیچ جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے جاری مذاکرات غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں۔ وہ امریکی سامراجیت کے کار آمد بھوت کو کھونا نہیں چاہیں گے (جس سے لوگوں کو ڈرا کر ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے)۔

ان سارے عناصر نے ریاست کو مشکل حالات میں ڈال دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی طبقاتی جدوجہد نے اسلامی جمہوریہ کو بد تر ہوتے بحران کا شکار کر دیا ہے۔ پھر بھی پابندیوں کے ہوتے ہوئے وہ عوامی مطالبات میں سے کوئی بھی تسلیم نہیں کر پا رہی۔ 2018ء سے ہی یہ نعرہ مشہور ہوا ہے کہ ”اصلاح پسند آئے یا پرنسپل اسٹ، ہمارے حالات کبھی نہیں بدلتے“۔ حکمران طبقے کے ملکی حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے دیگر خطوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے پر بھی تنقید کی گئی، جس کے حوالے سے اس قسم کے نعرے لگائے گئے کہ ”نہ غزہ نہ لبنان، میری جان ایران پر قربان“۔ ریاست عوام کے مذہبی اور قوم پرست جذبات بھڑکا کر ان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

یہاں تک کہ ریاستی سرپرستی میں قائم مزدور تنظیموں کی قیادت کے ذریعے تخریب کاری کا عمل بھی محدودیت کا شکار ہوا ہے۔ مثال کے طور پر تیل کے شعبے میں جاری محنت کشوں کی ہڑتال اگست اور ستمبر 2020ء میں ابھرنے والی ہڑتالی لہر کا تسلسل ہے۔ اس ہڑتال کو ریاست کی جانب سے ہائی جیک کر کے اپنے قابو میں کیا گیا۔ مگر اب ایک بڑی اقلیت ریاستی یونین میں موجود زیادہ لڑاکا دھڑوں کی جانب متوجہ ہو رہی ہے، جو ملکی سطح کی ہڑتال کی کال دے رہے ہیں۔ ریاست کا انحصار دن بہ دن تشدد اور جبر کے اوپر بڑھتا جا رہا ہے، مگر جیسا کہ حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ محنت کش طبقے کے ایک دھڑے کے دب جانے کے بعد ایک نئی پرت طبقاتی جدوجہد کے میدان میں اتر جاتی ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے ذریعے، مزدور تنظیموں کے بیچ مشترکہ مطالبات پر اتحاد دیکھنے کو ملا ہے، جن میں گرفتاریوں کے خاتمے اور گرفتار شدہ اراکین کی رہائی کا مطالبہ شامل ہے۔

دکھاوے کے انتخابات کے ذریعے ابراہیم رئیسی کو صدارتی عہدے پر تعینات کرنے کے عمل سے طبقاتی جدوجہد کم نہیں ہونے والی بلکہ اس میں مزید شدت آئے گی۔ رئیسی، جو سابقہ چیف جسٹس ہے، کا عدلیہ میں گزارے گئے اپنے وقت کے حوالے سے کہنا تھا کہ وہ اس دوران کرپشن کے خلاف لڑتا رہا۔ وہ روحانی حکومت کے اوپر حملے کرنے کی حد تک چلا گیا تھا، جس نے انتخابات کے بحث مباحثوں میں کہا کہ وہ صدر اور دیگر مختلف وزراء کے اوپر مقدمہ چلانے کے بارے میں سوچے گا۔ یہ ریاست کی آپسی لڑائیوں کے ذریعے عوامی جذبات بھڑکانے کا ہی تسلسل ہے جو 2018ء سے جاری ہے۔

روحانی کے خلاف عوامی نفرت ابھارنے کی کوششوں کو عوام نے مسترد کیا ہے جو ریاست کی آپسی لڑائیوں کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں۔ انتخابات سے پہلے تہران کے اندر ایک نوجوان نے اپنی تقریر میں نعرے لگاتے ہوئے ہجوم کو کہا: ”ٹی وی پر آنے والے انتخابات کے سارے امیدواروں کے بیچ کوئی تفریق نہیں کر پاتا، ان میں کوئی فرق نہیں۔ سارے کے سارے چور ہیں۔“

ایک موقع پر ریاست نے جھوٹ پر مبنی بیان جاری کیا کہ ہفت تپہ کے محنت کشوں نے رئیسی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ محنت کش اپنے لڑاکا پن کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، جنہوں نے اس کا جواب مندرجہ ذیل بیانیے سے دیا:

”ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ، جیسا کہ ہم بار بار کہتے چلے آئے ہیں، دیگر انتخابات کی طرح حالیہ انتخابات کا محنت کشوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمارے نزدیک، روحانی اور رئیسی ایک ہی جیسے ہیں؛ محض ان کی پگڑی کا رنگ مختلف ہے۔ دونوں ہی نجکاری، فری ٹریڈ زون اور تشدد کے دلدادہ ہیں۔ دونوں ہی محنت کش طبقے کے دشمن ہیں۔ محنت کشوں کی جدوجہد اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ کچھ سرکاری عہدیداران محنت کش طبقے کو ریاست کے تابوت میں آخری کیل سمجھتے ہیں۔“

ایک سماجی دھماکہ پھٹنے کو تیار

محنت کش طبقے پر یہ واضح ہے کہ صدر رئیسی کثرت سے جاری ریاستی کرپشن اور نجکاری کو جاری رکھے گا، وہ نفرت انگیز فری ٹریڈ زون کی وسعت کا منصوبہ جاری رکھے گا، اور وہ موجودہ ہڑتالوں اور احتجاجوں کو دبانے کی کوششیں جاری رکھے گا۔ یہ نتائج ایرانی سماج کے شعور میں جست کا اظہار ہے، جو پچھلے تین سالوں سے جاری طبقاتی جدوجہد کے باعث اخذ ہو ئے ہیں۔ ایران کے حالات سماجی دھماکے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ انتخابات میں دیکھا گیا، ریاست کے لیے پرانے طریقہ کار کے ذریعے حکمرانی کرنا آئے روز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ تمام کھوکھلے وعدوں، جبر، اور مزدور تحریک میں موجود ریاستی کارندوں کے ہاتھوں ہڑتالوں اور احتجاجوں کی تخریب کاری نے عوام کی جانب سے اخذ شدہ نتائج کے اوپر دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔

2018ء اور 2019ء کی بغاوت ناکام ہونے کی وجہ محض قیادت کا فقدان تھا۔ نوجوان اپنے طور پر ریاست کا تختہ نہیں الٹ سکتے۔ یہ صرف محنت کش طبقہ ہی ہے جو پیداوار میں اپنے کردار کی وجہ سے اس کا تختہ الٹنے کا اہل ہے، جس کے پاس ایرانی سرمایہ داری کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی قوت موجود ہے۔ کیونکہ محنت کش طبقے کی اجازت کے بغیر کوئی پہیہ نہیں چل سکتا، کوئی بلب نہیں جل سکتا، اور کوئی ٹیلیفون نہیں بج سکتا۔ اس پنہاں طاقت کا اندازہ تب تک نہیں لگایا جا سکتا جب تک مزدور تنظیمیں ریاست کے خلاف ملک گیر سطح کی جدوجہد میں یکجا نہیں ہو جاتیں۔

پہلے سے ہی، جبر کے باوجود، ریاست کے اثر و رسوخ سے آزاد مزدور تنظیمیں اور مہمات پروان چڑھی ہیں، جن میں پینشنرز کی تنظیم، مختلف آزادانہ ٹریڈ یونینز، اور ریاستی ٹریڈ یونینز کے اندر لڑاکا دھڑے بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے معاشی مطالبات کے ساتھ ساتھ جمہوری حقوق کا مطالبہ بھی شروع کیا ہے، جن میں ہڑتال، احتجاج، اکٹھ اور آزادانہ ٹریڈ یونینز کو قانونی حیثیت دینے کے مطالبات شامل ہیں۔ کئی مواقع پر، یہ تنظیمیں مشترکہ مطالبات اور مہمات کے گرد متحد ہوئی ہیں۔ یہ ایرانی محنت کش طبقے کے لیے آگے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مگر ایرانی سماج میں ابلتے ہوئے غصّے کے پیشِ نظر، ان تنظیموں کو لازمی طور پر سیاسی مطالبات سے لیس مشترکہ پروگرام کے گرد متحد ہونا پڑے گا۔ جیسا کہ مشھد ٹیچر یونین کے پابندِ سلاسل قائد ھاشم خواستار نے انتخابات کے بعد لکھے جانے والے پیغام میں کہا: ”ریاست دیوالیہ ہو چکی ہے۔ پیسے چھاپنے کے علاوہ، کونسی صنعت ریاستی امداد کے بغیر چل رہی ہے؟ محض معاشی مطالبات پر توجہ مرکوز کرنا معقول کام نہیں لگتا۔“ اس نے بات کو یوں سمیٹا کہ ”وسیع پیمانے پر سیاسی احتجاجوں اور ہڑتالوں کے لیے حالات پک کر تیار ہیں۔ دیوالیہ اور مرتی ہوئی ریاست کے خالی خزانوں سے ہم کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟“

موجودہ صورتحال تیزی کے ساتھ آگے کی جانب بڑھ رہی ہے؛ بڑے سماجی دھماکے تیار ہو رہے ہیں اور کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں۔ جس پروگرام کے گرد مزدور تنظیموں کو متحد ہونا پڑے گا، اس میں یہ معاشی مطالبات شامل کرنے ہوں گے: عوام دشمن معاشی اقدامات کی واپسی؛ افراطِ زر کی مناسبت سے بڑھتی ہوئی کم از کم اجرت اور پنشن کا تعین؛ ملک کے پسماندہ انفراسٹرکچر کی مرمت کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی؛ تمام نجی کمپنیوں کو دوبارہ قومیا کر مزدوروں کے اختیارات میں دینا، اور ریاستی شعبہ جات میں مزدوروں کے اختیارات کو متعارف کروانا۔ علاوہ ازیں اس قسم کے پروگرام میں مندرجہ ذیل سیاسی مطالبات بھی شامل ہونے چاہئیں جیسے ہڑتال، احتجاج اور اکٹھ کرنے کا حق؛ اور قانون ساز اسمبلی کے انتخاب کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا کھلے عام پیغام۔

اس قسم کے مطالبات سے لیس پروگرام کے گرد، آزادانہ مزدور تنظیمیں اور ریاستی ٹریڈ یونینز میں شامل لڑاکا دھڑے ریاست کا تختہ الٹنے کے پہلے مرحلے کے طور پر عام ہڑتال کی مہم چلا سکتے ہیں۔ ان بنیادوں پر وہ ریاستی ٹریڈ یونینز کے اراکین کی حمایت بھی حاصل کر پائیں گے، اور اس افسر شاہی کو اکھاڑ پھینک سکیں گے جو ریاست سے جڑی ہوئی ہے۔ اس عمل سے حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے، جب بکھرے ہوئی ہڑتالیں اور احتجاج قومی تحریک میں یکجا ہوں گے، جن کی ساری توجہ جدوجہد کو آگے بڑھانے پر مرکوز ہوگی۔ جب اس قسم کی قیادت پروان چڑھے گی تو تب ہی اسلامی جمہوریہ (ایرانی حکمران طبقے کے تسلط) کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔

Comments are closed.