ایران: صدر ابراہیم رئیسی کی ہلاکت، سامراجی منافقت اور ریاست کا بحران

|تحریر: ایسائیس یاواری، ترجمہ: ولید خان|

ہیلی کاپٹر گرنے کے نتیجے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی مر چکا ہے جس پر مغربی سامراجی حکومتیں اور اخبار خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ وہ ”تہران کا قصائی“ کی موت پر جشن منا رہے ہیں جبکہ ایرانی عوام پر ہولناک پابندیاں اور غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کی حمایت جاری ہے۔ کمیونسٹوں کا ان کرداروں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو خود قاتل ہیں اور اسی خون آشام سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ ہیں جس کا دفاع ایرانی ملاں کر رہے ہیں۔ اپنے نکتہ نظر سے ہم اعلان کرتے ہیں کہ رئیسی کی خون بھری میراث رد انقلابی رجعتیت ہے۔ ہم پرامید ہیں کہ مستقبل میں ایرانی عوام اس قاتل کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کو بھی دفن کر دیں گے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

اندرون ملک رئیسی کی موت نے ایرانی سماج میں شدید پولرائزیشن کو واضح کر دیا ہے۔ ملاں ریاست کے انتہاء پسند حامیوں نے طبریز، قم اور تہران میں ریاستی سرپرستی میں میت کے لیے جلسے جلوسوں میں شرکت کی۔ ان لاکھوں کروڑوں شہریوں کی آبادی والے شہروں میں ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد چند ہزار تھی۔ موت کی تصدیق ہونے سے پہلے ہی، جب ہیلی کاپٹر کی بارہ گھنٹے تلاش جاری رہی اور آیت اللہ خمینی اس کے لیے دعائیں کروا رہا تھا، پورے ملک میں پٹاخوں اور خوشیوں کا شور اٹھنا شروع ہو گیا تھا۔

انتہاء پسند غم زدہ جبکہ محنت کش اور نوجوان خوشی سے نہال

رجعتی ریاست کے انتہاء پسند بدمعاش صدر ابراہیم رئیسی کی موت پر سوگوار تھے جبکہ کروڑوں عوام نے ریاستی جبر کے خطرے کی وجہ سے خاموشی سے جشن منایا۔ رئیسی اور باقی غلیظ تعفن زدہ ایرانی حکمران طبقہ 2022ء میں اخلاقیات پولیس (Morality police) کے ہاتھوں مہسا امینی کے قتل سے شروع ہونے والی ”عورت، زندگی، آزادی“ تحریک کی شکست کے بعد سے اب تک 400 سے زائد افراد قتل اور بیسیوں ہزار افراد کو قید کر چکا ہے۔

اس تحریک کے آغاز کے ساتھ شروع ہونے والا ظلم و جبر آج بھی جاری ہے اور ریاست طلبہ کو دھمکی آمیز پیغامات بھیج رہی ہے (تحریک میں سب سے زیادہ طلبہ سرگرم تھے) تاکہ قومی سوگ کا فریب قائم رہے۔ لیکن تہران، کردستان، اصفہان، شیراز، کاراج اور دیگر یونیورسٹیوں کے منحرف انقلابی طلبہ نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا کہ:

”ہماری بے انتہاء خوشی ایک جابر کی موت پر مسرت سے بہت زیادہ بڑھ کر ہے۔ ہمیں ان ماؤں کی خوشی سنائی دے رہی ہے جو انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں، جو خاواران سے آبادان (1988ء کے شہداء کی جانب اشارہ ہے) جھوم رہی ہیں اور جن کے بچے ’عورت، زندگی، آزادی‘ تحریک میں شہید ہوئے ہیں۔ ہومان عبداللہ (2022ء میں ریاستی اہلکاروں نے اسے شہید کر دیا تھا) کی ماں نے کہا ہے ”تمہارے ہاتھوں میرے بچے کی شہادت کو ایک سال، پانچ مہینے اور پندرہ دن گزر چکے ہیں اور میں پہلی مرتبہ بہت خوش ہوں“۔

اسی طرح ایرانی اساتذہ ٹریڈ ایسوسی ایشنز کی رابطہ کونسل نے، محنت کشوں کی ایک تنظیم جو 2022ء تحریک کی حامی تھی اور اس کے کئی ممبران گرفتار بھی ہوئے، مردہ صدر کے جرائم پر ایک اعلامیہ جاری کیا کہ:

”رئیسی کے کیریئر کا آغاز استغاثہ دفترمیں ’ڈپٹی گروپ لیڈر‘، تہران انقلابی کورٹ میں ڈپٹی استغاثہ اور ممبر ”موت کمیٹی“ جیسی ذمہ داریوں سے ہوا۔ ان ذمہ داریوں کے دوران 1988ء میں اس کے حکم پر ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ اس کے بعد رئیسی دیگر ذمہ داریوں جیسے عدلیہ کا ڈپٹی اول، عدلیہ کا سربراہ، استغاثہ جنرل، ممبر مصلحت پسند کمیٹی، ماہرین اسمبلی کا نائب صدر اور آخر میں تیرھویں حکومت میں صدارت پر فائز رہا۔ رئیسی کی صدارت کے دوران شعبہ تعلیم انقلاب کے بعد سے اب تک سب سے ہولناک حالات کا شکار رہا ہے۔ لڑکیوں کے سکولوں میں زہر پھیلانا، سکولوں پر فوج اور سیکیورٹی فورسز کے حملے، 80 سے زائد طلبہ اور دو اساتذہ پر تشدد اور ان کا قتل، نو عمر طلبہ کی گرفتاری اور قید، رئیسی صدارت کے دوران وزارت تعلیم کا خاصہ تھے۔“

اس اعلامیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کروڑوں ایرانی نوجوانوں اور محنت کشوں کے حقیقی جذبات کیا ہیں جو رئیسی کی قبر دیکھ کر پرمسرت ہیں۔

رجعتی مشینری کا پرزہ

ایران کی اسلامی جمہوریہ کا پورا وجود لاتعداد اجتماعی قبروں کی بنیاد پر کھڑا ہے جب 1979ء میں انقلاب کو عوام سے اغوا کر کے شدید عوامی نفرت کے شکار شاہ ایران سے چھٹکارا حاصل کرنے والے انقلابیوں کو خون میں نہلا دیا گیا تھا۔ اساتذہ رابطہ کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق 1980ء کی دہائی میں ابراہیم رئیسی براہ راست 30 ہزار سیاسی قیدیوں کے قتل کا ذمہ دار تھا جن میں کئی کمیونسٹ شامل تھے۔ ردِ انقلاب کے لیے ان خدمات کے ساتھ عدلیہ کا حصہ ہوتے ہوئے اس نے ریاست کے غلیظ ترین بھیڑیوں کا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے تحفظ مسلسل جاری رکھا۔

2018ء کے بعد سے ایران میں تاریخی طبقاتی جدوجہد کا عروج و زوال رہا ہے جس میں تقریباً لامتناہی ہڑتالیں، احتجاج اور سالانہ بغاوتیں شامل ہیں۔ اس کا نتیجہ ریاست کا سیاسی بحران ہے جس نے عوام کی کسی بھی ریاستی دھڑے کے لیے پرجوش حمایت کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا ہے۔ رئیسی 2021ء میں اس لیے صدر بنا تھا کیونکہ ایک طرف تو ریاستی معیار کے مطابق بھی یہ انتخابات جھوٹ اور فریب کی نئی گہرائیوں میں منعقد ہوئے تھے لیکن اس کے ساتھ 60 فیصد ووٹروں نے سرے سے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور ریاست نے دیگر تمام امیدواروں کو پہلے ہی نااہل قرار دے دیا تھا۔

لیکن رئیسی اسلامی جمہوریہ کی استحصالی مشینری کا محض ایک پرزہ تھا جو ایرانی سرمایہ داری کی محافظ ہے۔ پورا حکمران طبقہ ایرانی عوام کے آلام و مصائب کا ذمہ دار ہے۔ 28 جون کو منعقد ہونے والے انتخابات میں رئیسی کا جانشین مقرر کیا جائے گا جو ریاست کے تمام تضادات کو مزید ابھارنے کا موجب بنے گا۔

اسلامی جمہوریہ کی تڑپتی لاش

2018ء کے بعد سے اس وقت ریاست اپنی سب سے بہتر پوزیشن میں ہے لیکن یہ کوئی تمغہ امتیاز نہیں ہے۔ 2022ء میں ”عورت، زندگی، آزادی“ تحریک کو کچل دیا گیا۔ ایک واضح سیاسی قیادت کی عدم موجودگی اور لبرل شاہ پسند حزب اختلاف کی مہم کہ مغرب کی حمایت کے ساتھ ”ریاست تبدیل“ ہو، ایرانی محنت کش طبقے کو جیتنے میں ناکام رہے۔ اس ساری صورتحال میں ملاں ریاست سب سے زیادہ خوش تھی جس نے پوری تحریک کو مغرب نواز ثابت کرنے کے لیے جھوٹ، منافقت اور ڈھٹائی کا بازار گرم کیے رکھا جو آج بھی جاری ہے۔

غزہ میں اسرائیلی مداخلت نے ایرانی ریاست کو مزید مضبوط کیا ہے۔ ایک ایرانی کونصل خانے پر اسرائیلی حملے نے بھی تقویت دی ہے جس کے نتیجے میں ریاست نے میزائیلوں اور ڈرونز کے ساتھ حملہ کیا جس کا مقصد خبردار کرنا تھا لیکن کوئی قابل ذکر نقصان نہیں ہوا۔ خطے میں جنگ کا خطرہ عوام میں خوف و ہراس اور غیر یقینی کی صورتحال کو ہوا دے رہا ہے جس میں ریاست کی جانب سے ان خدشات کو مزید بھڑکانے کا کام بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس بنیاد پر اسلامی جمہوریہ نے اپنی کلیدی انتہا پسند حمایت کو سڑکوں پر متحرک کیا ہے جس میں اخلاقیات پولیس ایک مرتبہ پھر پوری شدت کے ساتھ واپس آئی ہے۔

معاشی طور پر ریاست نے امریکی پابندیوں سے اپنے آپ کو زیادہ تر بحال کر لیا ہے۔ امریکی سامراج کی نسبتی کمزوری اور چین کی قوت میں اضافے نے ریاست کی کئی پابندیوں کو چکما دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا درآمدی گاہک بن چکا ہے۔ 2023ء میں تیل کی درآمد پانچ سالوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی تھی اور اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جلاوطنی میں موجود ایرانی لبرل شاہ پسند حزب اختلاف کا مغربی حمایت کے ساتھ مزید پابندیوں کا واویلا بے معنی ہو چکا ہے۔ اب اس کا کام ان تمام خواتین و حضرات سے عوامی نفرت میں مزید اضافہ ہی رہ گیا ہے۔ پہلے دن سے یہ تمام مجرم اپنے سامراجی آقاؤں کے ساتھ مل کر ایرانی عوام کی معاشی حالت زار میں برابر کے شریک تھے اور انہوں نے ریاست کو عوامی حمایت اپنی طرف راغب کرنے میں محض ایک گھناؤنا کردار ہی ادا کیا ہے۔

جہاں تک ریاست کے سائے میں چھپے سرمایہ داروں کا تعلق ہے تو ان متقی و پرہیزگاروں نے پابندیوں کا تمام بوجھ دہائیوں سے محنت کش عوام کے کندھوں پر لادا ہوا ہے۔ حالیہ چند سالوں میں ایرانی ’ڈالر کروڑ پتیوں‘ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جبکہ محنت کشوں کو کئی مہینوں تو کیا کئی سال تنخواہیں دیکھنا نصیب نہیں، جبکہ غربت کا اژدہا انہیں مسلسل نگل رہا ہے۔ ریاست کے جھوٹے اعداد و شمار کے مطابق بھی پچھلے دو سالوں میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور افراد کی تعداد میں 80 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ پوری آبادی کا 40 فیصد ان حالات میں زندہ رہنے پر مجبور ہے۔

2022ء کی بغاوت کو کچلنے سے کوئی ایک مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ 2018ء سے اب تک طبقاتی جدوجہد کو مسلسل بڑھانے والے مسائل میں سے کوئی ایک تاحال حل نہیں ہو سکا ہے۔ درحقیقت سماجی بحران مسلسل گہرا ہو رہا ہے اور سالانہ افراط زر 52.3 فیصد ہو چکا ہے جس میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ اس ایک سال میں کم از کم اجرت میں 17.5 فیصد کمی آئی ہے۔ اس دوران ریاست نے اپنے تمام تر غرور میں بدمست ہو کر 2022ء میں عوامی تحریک کی پسپائی کے بعد خوفناک جبری کٹوتیاں لاگو کیں جن کے نتیجے میں معاشی مطالبات پر پورے ملک میں احتجاج پھٹ پڑے۔

ریاست کو خوفناک سیاسی بحران کا بھی سامنا ہے۔ ملاؤں کی منافقت سب پر واضح ہے اور اس وقت ان کی سماجی حیثیت شدید مسائل کا شکار ہے۔ مارچ کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹروں کی 41 فیصد شمولیت کے ساتھ اسلامی ریاست کی تاریخ کے سب سے غیر مقبول انتخابات رہے۔ اگر حقیقی ووٹر کی شمولیت کو مدنظر رکھا جائے تو یہ 10-27 فیصد تھی۔

ریاستی ریسرچ سنٹر فار کلچر، آرٹ اور کمیونیکیشن کی منظر عام پر آنے والی حالیہ رپورٹ کے مطابق لادینیت کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور تقویٰ میں کمی ہو رہی ہے۔ 73 فیصد ریاست اور مذہب میں علیحدگی کے حامی ہیں اور 85 فیصد پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے میں آج مذہب میں کم دلچسپی لے رہے ہیں۔ 2020ء میں ہالینڈ کی ایک آن لائن رائے شماری کے مطابق صرف 32.2 فیصد عوام اپنے آپ کو شیعہ مسلم سمجھتی ہے جبکہ 36.8 فیصد اپنے آپ کو لادین، غیر مذہبی یا اگناسٹک (Agnostic) گردانتے رہے!

اس ساری صورتحال نے بڑھتی طبقاتی جدوجہد کے ساتھ مل کر ریاست کو شدید خوفزدہ کر دیا ہے اور پارلیمنٹ کے ممبران اعلانیہ انقلاب کے خطرے سے خبردار کر رہے ہیں۔ صدر رئیسی کی تقرری نے کچھ اندرونی استحکام پیدا کیا تھا۔ پہلے مختلف دھڑے شعلہ بیانی کے ذریعے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوششیں کرنے میں ایک دوسرے پر ملکی مسائل کا الزام لگاتے تھے۔ اب اندرونی تضادات کے پھٹنے کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔

یقینا عوام کنفیوژن اور مایوسی کے ایک دور سے گزری ہے۔ لیکن وہ گھڑی تیزی سے قریب آ رہی ہے جب شکست کا احساس دم توڑے گا، ایرانی سماج میں غم و غصہ ایک مرتبہ پھر پھٹے گا اور ہڑتالوں اور احتجاجی تحریکوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ مستقبل میں منعقد ہونے والے انتخابات بھی عمل انگیز ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ریاست کی گلی سڑی بھیانک شکل کو مزید واضح کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کریں گے۔

انقلابی جدوجہد زندہ باد!

مستقبل میں عوامی تحریکیں ناگزیر ہیں لیکن ایران میں ایک کامیاب انقلاب کے لیے محنت کشوں، نوجوانوں اور غرباء کو متحد کرنے کے لیے ایک واضح متبادل پیش کرنا ناگزیر ہے۔ ایسی قیادت کی عدم موجودگی ایران میں انقلابی عمل کو ایک طویل اور خونی عمل میں تبدیل کر دے گی۔

عوامی مطالبات اور امنگوں پر مبنی ایک سیاسی پروگرام ناگزیر ہو چکا ہے۔ افراط زر سے مطابقت میں ایک معقول اجرت اور پنشن، عوامی فلاح و بہبود کے ایک وسیع پروگرام کا آغاز جو ملک کے گلتے سڑتے انفرسٹرکچر کو ازسر نو تعمیر اور منظم کرے، صنعت کو دوبارہ قومی تحویل میں لیا جائے اور ریاستی کنٹرول میں موجود معیشت پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول جیسے مطالبات کو فوری طور پر سامنے آنا چاہیے۔ ان مطالبات کو سیاسی مطالبات میں پرونا چاہیے جن میں بنیادی جمہوری حقوق جیسے ہڑتال، اکٹھ اور بحث مباحثہ وغیرہ جیسے مطالبات شامل ہوں۔

ظاہر ہے کہ اسلامی جمہوریہ کبھی بھی ان مطالبات کو پورا نہیں کرے گی جس کا ایک ہی حل ہے کہ محنت کش اور نوجوان منظم ہو کر اپنے زورِ بازو پر اس جابر ریاست کا خاتمہ کریں۔ خونخوار مغربی سامراج کی پٹھو اور دلال رجعتی، دوغلی لبرل شاہ پسند حزب اختلاف کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ ان منافقوں نے رئیسی کی موت کا جشن منانے کا ڈرامہ رچاتے ہوئے شاہ کے ملک بدر بچوں کے گرد حمایت اکٹھی کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ ان کی اپنی خون میں ڈوبی، سامراج نواز ریاست کو انقلاب نے اکھاڑ پھینکا تھا جسے بعد میں رئیسی اور ملاؤں نے اغواء کر لیا تھا!

یہ سامراجی بونے اسی سرمایہ دارانہ نظام کے غلام ہیں جس کی رکھوالی ملاں کر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ان کی پشت پناہی مغربی سامراج کر رہا ہے جو ایران کے وسائل لوٹنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ یہ کسی صورت عوام دوست نہیں ہیں۔ وہ جمہوریت اور غربت کے خاتمے کی کھوکھلی باتیں کرتے ہیں لیکن کمزور اور جونک نما ایرانی سرمایہ داری کی بنیاد پر جمہوری مطالبات اور ایک باعزت زندگی کبھی بھی ممکن نہیں ہوں گے۔ ایرانی عوام کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کرے تاکہ اکثریت کے مفاد میں سماج کو از سر نو منظم کیا جائے۔

اس لیے ایران میں انقلابیوں کے فرائض میں اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ کرنے کے ساتھ پوری سرمایہ داری کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ پچھلے چھ سالوں نے کمیونسٹ نظریات کے لیے ایک زرخیز زمین تیار کی ہے۔ نوجوانوں کی ایک پوری نئی نسل طبقاتی جدوجہد اور جبر کے سائے میں پروان چڑھی ہے جو ریاست اور اس کے نظام سے شدید ترین نفرت کرتی ہے۔

اس ممکن کو یقینی بنانا ہی اصل فریضہ ہے۔ ان قوتوں کو منظم ہونا پڑے گا اور مستقبل کی عوامی تحریکوں اور بغاوتوں میں مداخلت کے لیے تیار ہونا ہو گا۔ اس بنیاد پر ہی جن اعلیٰ انقلابی اقدار کو ابراہیم رئیسی جیسے بھیڑیوں نے کچل دیا تھا ایک مرتبہ پھر زیادہ بلند پیمانے پر اپنا اظہار کریں گی۔

 

Comments are closed.