|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: اختر منیر|
جمعہ کے روز علی الصبح ٹرمپ حکومت نے طاقت کے نشے میں سرمست ہو کر ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی جنگجو لیڈر ابومہدی المہندس کو بغداد ائیر پورٹ پر ایک حملے میں قتل کر دیا۔ ایک مرتبہ پھر امریکی سامراج مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔
ٹرمپ نے اس حملے کو ایک دفاعی اقدام کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے، جس میں ان دونوں کے علاوہ آٹھ عراقی اور ایرانی شہری بھی ہلاک ہوئے۔ مگر، درحقیقت، یہ ایک غیر ملکی سر زمین پر دو خود مختار ریاستوں کے رہنماؤں کے قتل کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، جس کی کانگریس سے منظوری بھی نہیں لی گئی۔ ٹرمپ کے مطابق سلیمانی ایک ممکنہ حملے کی تیاری کر رہا تھا جس سے سینکڑوں امریکی جانوں کو خطرہ تھا۔ اس دعوے کا ثبوت محض یہ تھا کہ اس نے حال ہی میں لبنان، شام اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں سے ملاقات کی تھی جس سے پہلے وہ ایران میں آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملا تھا۔ اس سب سے کون اندازہ لگا سکتا ہے کہ امریکہ پر حملہ ہونے والا ہے؟
اس کے علاوہ سلیمانی ایران کے بیرون ملک پاسداران انقلاب کا اعلیٰ ترین جرنیل تھا۔ وہ کوئی براہِ راست زمینی کارندہ تو تھا نہیں کہ جس کو ہلاک کرنے سے حملے کا منصوبہ رک جاتا۔ جو لوگ اس حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو عراق پر حملے کے وقت کہا کرتے تھے کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔
ٹرمپ اور کانگریس میں موجود تقریباً تمام ڈیموکریٹ اور ریپبلکن اراکین کا کہنا ہے کہ، ”یہ حملہ حق بجانب ہے کیونکہ سلیمانی 600 سے زیادہ امریکیوں کے قتل میں ملوث تھا“۔ مگر وہ یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ سلیمانی ان شیعہ جنگجوؤں کی مدد کر رہا تھا جو قابض امریکی افواج کے خلاف لڑ رہے تھے، جن کے قبضے کے دوران تقریباً پندرہ لاکھ سے زائد عراقیوں کی جانیں گئیں۔ اس کے علاوہ یہ وہی جنگجو ہیں جو امریکہ کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ابھی بھی امریکی افواج کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔
شرمناک سامراجی حملہ
ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ سلیمانی نے عراق، ایران اور لبنان میں احتجاجی تحریکوں کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ سچ ہے، لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ کے سعودی بادشاہت اور اسرائیلی حکومت کے ساتھ کیسے گرم جوش تعلقات ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسے بھی مظاہرین کے جمہوری حقوق کی کچھ زیادہ پروا نہیں ہے۔ درحقیقت، عراق میں تحریر اسکوائر کے مقام پر مظاہرین نے درست طور پر امریکی حملے کی مذمت بھی کی ہے۔
یہ ایک شرمناک سامراجی حملے کے علاوہ اور کچھ نہیں جس کا مقصد دو خود مختار ملکوں کو زیر کرنا ہے۔ تمام طبقاتی جنگجوؤں، ٹریڈ یونین سے تعلق رکھنے والے افراد اور انقلابیوں کا فرض ہے کہ وہ اس حملے کی شدت سے مذمت کریں اور مشرق وسطیٰ میں کسی بھی قسم کی مزید جارحیت کی مخالفت کریں۔ ہمیں اس اقدام کے پیچھے حقیقی مقاصد کو سامنے لانا ہو گا جن کا مشرق وسطیٰ کے غریبوں اور مظلوموں کے ساتھ ہمدردی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد مغرب کے محنت کشوں کی حفاظت ہے۔ اس کا مقصد محض سرمایہ دار طبقے کے تنگ نظر مفادات کا حصول ہے۔
ٹرمپ کے اس فیصلے کے پیچھے محض اس کی خود غرضی کار فرما ہے۔ خاص طور پر اس کا مقصد اپنے مواخذے پر سے توجہ ہٹانا اور اپنے دشمنوں اور دوستوں کے سامنے خود کو ایک عملی شخص ثابت کرنا ہے۔ اس نے وہ خفت بھی مٹانے کی کوشش کی ہے جو اسے پچھلے سال جون میں ایران کے امریکی ڈرون کو گرانے کے بعد ہوئی، اور اس کے علاوہ ستمبر میں سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کے باوجود وہ کوئی جواب نہیں دے پایا تھا۔ اس لیے ٹرمپ ایک مثال قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
اسے کچھ رپبلکنز اور دفاعی مشینری کے اندر موجود ان افراد سے حمایت مل رہی ہے جو ایران کے ساتھ تنازعہ شروع کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، تاکہ سالوں کی تضحیک آمیز ناکامیوں کے بعد پھر سے امریکی فوج کی عزت بحال کی جا سکے۔ مگر یہ تنگ نظری، جو آج کل حکمران طبقے کا خاصہ ہے، خطے میں موجود پہلے سے نازک صورتحال میں جلتی پر تیل کا کام کرے گی اور حتمی نتائج ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی سامراج کے حق میں نہیں ہوں گے۔
امریکہ پر عراق سے فوجیں نکالنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ سپیشل فورسز کو اگلے محاذوں سے ہٹا کر فوجی ٹھکانوں کی حفاظت پر مامور کر دیا گیا ہے۔ عراقی پارلیمنٹ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی معاہدہ ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے تا کہ امریکی فوج کو عراق سے نکالا جاسکے۔ یہ امریکی سامراج کے لیے ایک دھچکا ہو گا۔
مگر ایک ہارتے ہوئے جواری کی طرح ٹرمپ شرط کی رقم بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اس نے ایران میں
52 مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے جن میں کچھ انتہائی اہم ثقافتی مقامات بھی شامل ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ کے امریکی افواج کو نکالنے کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے اس نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو وہ عراق پر ایران سے بھی بدتر پابندیاں عائد کر دے گا۔ امریکی حکمران طبقے کا دعویٰ تھا کہ اس نے عراق پر حملہ اس لیے کیا تا کہ ملک میں جمہوریت اور امن کو پروان چڑھایا جا سکے، مگر وہ انتہائی ڈھٹائی سے عراقی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو بدلنے کے لیے دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہاں ہمیں امریکی سامراج کا ننگا مکروہ چہرہ نظر آرہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ نینسی پلوسی کی قیادت میں کچھ ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کے اقدامات کی مخالفت کی ہے، مگر ان کااعتراض امریکی سامراج پر نہیں بلکہ سامراجی پالیسی کو لاگو کرنے کے انداز پر ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی، جسے امریکی سامراج کا نرم ہاتھ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، نے اوباما دور میں بڑھتی بمباری اور غیر ملکی مہم جوئی پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ وہ ٹرمپ سے کم سامراجی نہیں ہیں۔ ان کا محض یہ شکوہ ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات امریکی سامراج کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں۔
تہران کا فائدہ
ایسا کہنے میں وہ حق بجانب بھی ہیں۔ بھلے سلیمانی ایرانی حکومت کا ایک مرکزی کردار تھا، مگر اس کے قتل سے انہیں فائدہ ہی ہوا ہے۔ پچھلے کچھ ماہ کے دوران ایران اور اس کے اتحادی ممالک، لبنان اور عراق، میں انقلابی کردار کی حامل بڑی بڑی عوامی تحریکیں چل رہی ہیں۔ خاص طور پر، عراق میں غربت، بیروزگاری، کرپشن اور ریاستی معاملات میں ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ کے خلاف ’اکتوبر انقلاب‘ کے نام سے ایک بہت بڑی تحریک جاری ہے۔
لبنان میں بھی حزب اللہ کی حکومت کو ستمبر میں شروع ہونے والی انقلابی تحریک کی وجہ سے کافی دباؤ کا سامنا ہے، مگر لبنانی اور عراقی دونوں حکومتیں حالات پر قابو پانے میں ناکام رہیں۔ دراصل، سلیمانی پاگلوں کی طرح بیروت، بغداد اور تہران کے چکر کاٹ رہا تھا تا کہ ایران کے اتحادیوں اور پراکسیوں کے ذریعے انقلابی تحریک پر قابو پایا جا سکے۔
خود ایران میں بھی نومبر میں راتوں رات تیل کی قیمتوں پر سبسڈی ختم کرنے پر دو دن کے لیے انتہائی پر تشدد احتجاج ہوئے تھے۔ یہ احتجاج فوری طور پر معاشی مطالبات سے حکومت کے خاتمے کے مطالبے تک پہنچ گئے۔ حکومت کو بڑی مشکل سے مکمل میڈیا بلیک آؤٹ، پندرہ سو لوگوں کو ہلاک، ہزاروں کو زخمی اور دس ہزار لوگوں کو گرفتار کر کے ہی بچایا جا سکا تھا۔ یہ پچھلی چالیس سالہ تاریخ کے دوران اسلامی جمہوریہ کے لیے سب سے بڑا دھچکا تھا جس نے اسے بہت کمزور کر دیا تھا۔
اس وقت، ریاست تحریک مخالف مظاہرے کروانے میں بری طرح ناکام ہوئی اور بمشکل کچھ ہزار لوگ ہر حرکت میں لاسکی۔ مگر پچھلے کچھ دنوں کے دوران سلیمانی کے سوگ میں پورے ایران میں لاکھوں لوگ اکٹھے ہوئے۔ عراق میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئے جہاں سلیمانی کے سوگ میں تقریباً 5 لاکھ لوگ اکٹھے ہوئے۔ ٹرمپ کے حملے اور دھمکیوں نے ایرانی حکومت کو تقویت بخشی ہے اور اس سے آنے والے کچھ عرصے کے دوران انقلابی تحریک کمزور ہو گی۔
ایرانیوں نے اب جارحانہ حکمت عملی اپنا لی ہے۔ عراق میں پچھلے ایک لمبے عرصے سے امریکہ اور ایران کے درمیان ریاستی ڈھانچے میں اثر و رسوخ کی جنگ چل رہی تھی، اور اب ایران وہاں سے امریکہ کے فوجیوں، مشیروں اور اتحادیوں کے مکمل انخلا کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ وہ افغانستان میں بھی امریکیوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ اور اس کے علاوہ وہ جوہری معاہدے سے بھی دستبردار ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ شاید جوہری ہتھیار بھی بنانا شروع کر دے گا۔
اس معاملے میں امریکہ بے بس نظر آتا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے جنگ کی بہت سی باتیں ہو رہی ہیں مگر امریکہ کا ایران پر حملہ خارج از امکان ہے۔ امریکی عوام جنگ سے تنگ ہیں، یہی وجہ ہے کہ 2016ء میں ٹرمپ کی انتخابی مہم کے بنیادی نعروں میں سے ایک نعرہ مشرق وسطیٰ سے امریکہ کی واپسی بھی تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ کا مجموعی قرضہ 23 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ ایک اور جنگ پر پانچ سے دس ٹریلین ڈالر خرچ کرنا خارج از امکان لگتا ہے۔ ایک اور بڑی جنگ امریکہ کے لیے بہت بڑے سماجی اور اقتصادی بحران کا باعث بنے گی۔
عراق پر چڑھائی کے 17 سال بعد امریکہ عراق اور افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے۔ ایران ان سے بھی سخت حریف ثابت ہو گا۔ ایران کے پاس پہاڑی سلسلہ ہے، ایک مضبوط اور جنگ کا تجربہ رکھنے والی فوج ہے اور اس کے عوام انتہائی سامراج مخالف ہیں۔ اس کے پاس دور تک مار کرنے والے میزائل اور علاقے میں مختلف پراکسیاں بھی موجود ہیں جو امریکی افواج کو کسی بھی طرف سے نشانہ بنا سکتی ہیں۔ وہ آبنائے ہرمز بھی بند کر سکتا ہیے جس سے دنیا کو تیل کی ترسیل بند ہوجائے گی۔ یہ پہلے سے کمزور عالمی معیشت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو گا۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر ایران پر حملہ خارج از امکان ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کی طرف سے ایک سنجیدہ فضائی حملہ بھی ممکن نہیں، کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ میں تمام امریکی اڈے حملوں کے خطرے سے دوچار ہو جائیں گے۔ امریکہ کی حرکات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر کچھ اضافی فوج بھیجی تو گئی ہے مگر یہ کسی طور بھی حملے کے لیے کافی نہیں ہے۔ بلاشبہ، ٹرمپ کے بیوقوفانہ اقدامات سے کسی قسم کا فوجی تصادم ہو تو سکتا ہے، مگر یہ امریکی سامراج کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا، اس لیے اس کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
سامراجیت کے خلاف
پچھلے کچھ دنوں کے واقعات سے امریکی سامراج کی طاقت کی بجائے اس کی کمزوری عیاں ہوئی ہے۔ دنیا میں امریکی سامراج کی ٹکر کی کوئی طاقت موجود نہیں ہے، اس کے باوجود امریکی سامراج وہ نہیں رہا جو یہ کبھی تھا۔ جیسے جیسے حالات آگے بڑھیں گے یہ مزید واضح ہوتا جائے گا۔ جیسے زلزلہ آنے پر زیر زمین موجود تمام تصادات سطح پر آ جاتے ہیں، بالکل اسی طرح ٹرمپ کے بیوقوفانہ رویے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں طاقتوں کا نیا توازن کھل کر سامنے آجائے گا۔ اس نئی صورتحال میں امریکہ پہلے سے کم کردار ادا کرنے پر مجبور ہو گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خطے میں مزید استحکام آئے گا یا عوام کی زندگیاں بہتر ہوں گی۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم سامراجیت کی مخالفت کریں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی امن اور استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے اور جنگ، اذیت اور عوام کے استحصال پر مبنی اس گلے سڑے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد ذریعہ بھی یہی ہے۔