|تحریر: ایسائس یاوری، ترجمہ: یار یوسفزئی|
ایرانی نوجوانوں کی انقلابی بغاوت، جو بہت بڑے جبر کے باعث ماند پڑ گئی تھی، کے دو ماہ بعد 16 سے 19 نومبر تک احتجاجوں کا نیا مرحلہ دیکھنے کو ملا، جو اس بات کا اظہار ہے کہ ردّ انقلاب کا کوڑا تحریک کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ حتمی فتح حاصل کرنے کے لیے، بڑے پیمانے پر اور منظم انداز میں محنت کش طبقے کی شمولیت لازم ہے!
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”زن، زندگی، آزادی“، ”مرگ بر آمر“، ”مرگ بر ستمگر، بادشاہ ہو یا رہبر“ کے پرانے نعروں کو اب بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر ان کے ساتھ نئے نعرے بھی شامل ہو گئے ہیں، جیسا کہ ”اپنے کامریڈز کے لہو کی قسم، آخر تک کھڑے رہیں گے ہم“ اور ”جب تک ہم تمہارا تختہ الٹ نہیں دیتے، کرپشن اور غربت برقرار رہے گی“۔ سب سے لڑاکا احتجاج تہران، تبریز، اور خوزیستان کے شہروں بشمول ایذہ، آبادان اور اہواز کے اندر دیکھنے میں آئے؛ اور کرد اکثریتی علاقوں کے اندر جیسا کہ مہاباد، سقز اور سنندج۔ آخر الذکر ایک دفعہ پھر سب سے زیادہ انقلابی علاقے کے طور پر سامنے آیا ہے، جہاں ایک مرتبہ پھر عام ہڑتالیں ہو رہی ہیں، اور پرتشدد جھڑپیں پولیس کو بھاگنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، اور قصبوں کے بیچ پہاڑی راستوں اور سڑکوں کو بلاک کیا جا رہا ہے۔
مریوان، مہاباد، سقز، سنندج اور دیگر علاقوں کے اندر جدوجہد کرنے والے نوجوانوں نے محلّوں کی سطح پر اپنی انقلابی کمیٹیاں (شوریٰ) قائم کی ہیں۔ 1979ء کے انقلاب میں بھی اس طرز پر محنت کشوں کی کونسلیں اور محلّوں کی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ نوجوانوں کی وسیع تر تحریک کے نعروں کے علاوہ انہوں نے 1979ء کے نعرے بھی بلند کیے ہیں: بشمول ”روٹی، کام، آزادی“، اور ایک نیا نعرہ یہ شامل کیا گیا ہے: ”نہ ملّاؤں کی نہ ہی بادشاہ کی، شوریٰ حکومت قائم کرو“۔ اگرچہ یہ کونسلیں ایک مثبت قدم ہے، ہمیں ان کے اثر و رسوخ کے حوالے سے مبالغہ آرائی نہیں کرنی چاہیے، جن میں ان انقلابی نوجوانوں کے علاوہ سماج کی وسیع تر پرتیں شامل نہیں ہیں۔
تبریز میں طلبہ نے یونیورسٹیوں کے باہر ریلیاں نکالی ہیں، جن میں ایک نیا نعرہ شامل کیا گیا ہے: ”67‘ تا آبان، خون میں ڈوبا ایران“، 67‘ سے مراد 1988ء (ایرانی کیلنڈر کے مطابق سال 1367ء) ہے جب بڑے پیمانے پر بائیں بازو والوں کو سزائے موت دی گئی تھی، اور آبان (ایرانی کیلنڈر کا مہینہ) سے مراد نومبر 2019ء کی بغاوت ہے۔ تبریز کا تاریخی بازار بھی ہڑتال کے سلسلے میں مکمل بند کیا جا چکا ہے۔
تہران اور اس کے آس پاس کے علاقوں جیسا کہ کرج اور اراک کے اندر کچھ یونیورسٹیوں میں بڑی ریلیاں ہوئی ہیں۔ مگر سب سے بڑے واقعات رکاوٹوں کی جگہوں پر پُرتشدد جھڑپیں رہی ہیں، جن میں ایک دفعہ پھر مولوٹوف کاک ٹیل (شیشے کی بوتل سے بنایا گیا ایک قسم کا آتش گیر بم) کا استعمال عام ہوا ہے، جہاں نوجوانوں نے سیکورٹی فورسز کو شہر کے بعض علاقوں سے نکال باہر کیا۔
خوزستان کے اندر، اہواز اور آبادان یونیورسٹیوں کے طلبہ نے نعرہ لگایا: ”زاہدان تا تبریز۔۔۔ غربت، کرپشن اور تفریق“۔ اہواز، آبادان اور ایذہ کے اندر مظاہرین نے رکاوٹیں کھڑی کی ہیں، اور ان شہروں کے بعض علاقوں میں نوجوانوں نے سیکورٹی فورسز کو مارا پیٹا بھی ہے۔ ایذہ کے شہر میں نوجوانوں نے سیکورٹی فورسز کو بھگا کر مکمل طور پر نکال دیا۔ سڑکوں پر ہونے والے یہ احتجاج اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان میں محنت کش نوجوان اچھی خاصی تعداد میں شامل ہوئے ہیں۔ان واقعات سے قبل، نومبر کے دوران ’مہسا امینی بغاوت‘ کے نام سے مشہور حالیہ تحریک ماند پڑ گئی تھی۔ حکومت کو اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کی انتہائی لڑاکا بغاوت کا سامنا تھا اور اس نے پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران اپنے جبر میں اضافہ کر دیا تھا۔ بغاوت کے شروع سے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 15 ہزار مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے اور 370 سے زائد کو قتل کیا گیا ہے، مگر حقیقی تعداد اگر تین گنا نہیں تو دو گنا زیادہ ضرور ہے۔ اس قسم کے جبر کا سامنا ہوتے ہوئے، نوجوانوں کی بغاوت علامتی احتجاجوں تک محدود ہو گئی تھی: جن میں ریاستی عمارات اور علامات کے خلاف حملے، دیواروں پر لکھے گئے ریاست مخالف نعرے یا نقش و نگار اور طلبہ اکثریتی چھوٹی ریلیاں شامل تھیں۔ ان چھوٹے احتجاجوں میں شامل ہونے والوں کی پہچان آسانی سے ہو سکتی تھی، جنہیں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بے دخلی سمیت اپنے ہاسٹلوں سے غائب کیے جانے کا سامنا تھا۔
#IranRevolution2022—November 16, Day 62
— Iran News Update (@IranNewsUpdate1) November 16, 2022
Khuzestan, SW #Iran—Students of the Abadan University of Medical Sciences were seen continuing the nationwide protests against the regime.#MahsaAmini🌹pic.twitter.com/UcEqiQ3ynD
مگر جیسا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے، رجعت کے کوڑے نے نئی اٹھان کے لیے راہ ہموار کی، اس مرتبہ نوجوانوں کی ان مختلف انقلابی تنظیموں کی بنیاد پر جو اکتوبر میں قائم کی گئی تھیں۔ ان تنظیموں نے 2019ء کی کچلی ہوئی بغاوت، جسے خونی نومبر کہا جاتا ہے، کی برسی کے موقع پر نئے احتجاجوں کی تیاری شروع کی۔ ظاہر ہے کہ ریاست نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنی قوت مجتمع کی تھی اور احتجاجوں کی اس حالیہ لہر کو دبانے کے لیے سیکورٹی فورسز کو متحرک کر کے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی تاک میں تھی۔ مشرقی کردستان، خصوصاً مہاباد، کو ایک دفعہ پھر میدانِ جنگ بنا دیا گیا، جہاں ریاست نے اپنے شدید جبر کو لوگوں کی نظروں سے چھپانے کے لیے بجلی اور انٹرنیٹ کو بند کر دیا۔ مگر ان طریقوں کا الٹ نتیجہ نکلا۔ 20 نومبر کو کرد اکثریتی علاقوں کے اندر تقریباً مکمل طور پر عام ہڑتال کا آغاز ہوا اور انقلابی نوجوانوں کی کمیٹیاں پھیلنے لگیں۔ ایران بھر میں طلبہ نے سخت جبر کا سامنا کیا ہے، جہاں سیکورٹی فورسز نے یونیورسٹیاں اپنے قبضے میں بھی لی ہیں۔ مگر اس کے باوجود کرد انقلابیوں کی قیادت میں احتجاجوں کی کالیں دی جا رہی ہیں۔
نوجوانوں کی انقلابی بغاوت سے متاثر ہو کر معاشی ہڑتالیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں، جن میں بوشہر کی ساؤتھ پارز پیٹرو کیمیکل کمپنی کا فیز 19، خوزستان کی مسجد سلیمان پیٹرو کیمیکل کمپنی، کرج کے بہمن موٹرز، اور اصفہان کے لوہے کا کارخانہ وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ تہران کے اندر ٹرک ڈرائیوروں اور اکبر آباد کارگو ٹرمینل میں کام کرنے والے دیگر محنت کشوں نے ایک سیاسی ہڑتال شروع کی ہے، جس میں محنت کش یہ نعرے لگا رہے ہیں: ”گھبراؤ نہیں، ہم ساتھ ہیں“ اور ”مرگ بر آمر“۔
اسلامشهر تهران
— آنسوی دیوارها (@beyondthewalls2) November 22, 2022
تظاهرات کارکنان و رانندهها در ترمینال باربری اکبرآباد با شعار #مرگ_بر_دیکتاتور pic.twitter.com/diYnvJAXTM
محنت کشو اور نوجوانو متحد ہو! بغاوت کو انقلاب میں بدلو!
نوجوان مسلسل حکومت کے خلاف دیوہیکل حوصلے اور انقلابی غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ البتہ، فقط یہ اس کا تختہ الٹنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ نوجوانوں نے سیکورٹی فورسز کو بارہا قصبوں اور شہروں کے محلّوں سے بھگایا ہے، مگر اس کے بعد ریاست نے پہلے سے زیادہ شدید جبر کر کے دوبارہ ان علاقوں پر اپنا قبضہ بحال کیا ہے۔ یہ مسلسل نشیب و فراز بغاوت کے تسلسل کے لیے خطرہ بن رہا ہے، کیونکہ نوجوان ریاست کے خلاف نہ ختم ہونے والی لڑائی نہیں لڑ سکتے اور وہ تب ہی جیت سکتے ہیں جب وہ اپنی تنہائی کو توڑ سکیں۔ یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جو سماج کو منجمد کر کے اور سیکورٹی فورسز پر غلبہ پا کر اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹ سکتا ہے۔ نوجوان اکتوبر کے مہینے سے محنت کشوں کو تحریک میں شمولیت اور ملک گیر عام ہڑتال کی کالیں دیتے رہے ہیں، جو اس حوالے سے لیف لیٹ بھی تقسیم کر رہے ہیں جن پر محنت کشوں کے مطالبات درج ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کی سب سے ترقی پسند پرت، جو انقلابی کمیٹیوں میں منظم ہیں، نے پہلے ہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایسا ہونا ضروری ہے۔ 12 نومبر کے حالیہ احتجاجوں سے پہلے، ایران بھر کے طلبہ اور نوجوانوں کی انقلابی تنظیموں نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا:
”ہم مل کر کھڑے ہیں، کیونکہ اسی اتحاد کے ذریعے ہمارے انقلاب کی حتمی فتح ممکن ہوگی!
”محنت کشو، اساتذہ، مستعفی ہونے والو، کسانو، نرسو، ڈاکٹرو اور وہ سارے جن کو ہماری جیسی تکالیف کا سامنا ہے: ایک ہونے کا عظیم وقت، ہمارے متحد ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ ہم سب کو پتہ ہی ہے کہ یہ حکومت ہمارے ملک کے لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتی! انہوں نے ہمیں جو بھی کرنے کو کہا ہم نے اس کی مزاحمت کی؛ ہم ریاست، شرعی حکمران، یا اس کے جبر والے کئی آلات کے سامنے نہیں جھکے۔
”ہم طلبہ نے نعرہ لگایا: ’ہم محنت کشوں کے بچے ہیں، ہم ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں گے‘۔ ہمارے اندر ایک آگ بھڑک اٹھی جب ہم نے تیل کے شعبے میں ہونے والی ہڑتالوں کی خبر سنی۔ ہم سو نہیں پائے جب اساتذہ کو بے شرمی سے ’جاسوس‘ قرار دیا گیا۔ جب کسانوں سے پانی کا حق چھینا گیا اور سیکورٹی فورسز نے ان کے اوپر گولیاں چلائیں، یہ ایسا تھا جیسے ہمارے اوپر بھی گولیاں چلائی جا رہی ہوں۔ یونیورسٹی میں میڈیکل سائنس پڑھنے والے ہم طلبہ کو ایسا لگا جیسے ہم ڈاکٹروں اور نرسوں کے ساتھ مر گئے جب انہوں نے کہا، ’بسیج اور ملّا میڈیکل سٹاف کو کرونا سے نپٹنا سکھائیں گے!‘ جب اخلاقی پولیس نے خواتین کو مارا پیٹا، ہم طلبہ نے کھلے عام حجاب اتار کر کہا: ہم محکومی قبول نہیں کرتے، اور عدم مساوات کا خاتمہ کرنا ہوگا! ہاں، ہم آپ کے ساتھ تھے اور ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یا تو ہم سب آزاد ہوں گے، یا ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا! کیونکہ ہر فرد کی آزادی اجتماعی آزادی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔”ہم سے جہاں ہو سکا، ہم نے مظلوموں اور استحصال زدوں کے ساتھ مل کر آواز بلند کی ہے: ہم ان کی فتوحات کو اپنی فتح، اور ان کی شکست کو اپنی شکست سمجھتے ہیں! مگر اب آخری لڑائی کا وقت ہے۔ اب ہر تحریک کو عوامی انقلاب کے ساتھ متحد ہونے کا وقت ہے، تاکہ حکومت کو بھیانک خطرے سے دوچار کیا جا سکے۔”ہمیں یقین ہے کہ موجودہ انقلاب کے ساتھ آپ بھی خود کو جڑا ہوا سمجھتے ہیں، کہ آپ اس کے بانیوں میں سے ہیں، اور آپ نے جدوجہد کے میدان میں ہر قسم کی قربانی دی۔ آپ سڑکوں پر موجود رہے ہیں اور آج بھی ہیں، آپ نے عوام کی انقلابی تحریک کی حمایت کی ہے اور کئی طریقوں سے انقلاب میں شرکت کی ہے۔ ہم اساتذہ کی ہڑتال؛ انقلاب کے زخمیوں کا علاج کرتی میڈیکل سٹاف؛ جدوجہد کے اندر محنت کشوں کی اہم شرکت؛ اور ڈرائیوروں، فوٹوگرافروں، دکانداروں اور دیگر تمام شعبوں کی ہمارے عوامی انقلاب کے لیے یکجہتی کی قدر کو سمجھتے ہیں۔
”اب آگے کی جانب ایک اور قدم لینے کا وقت ہے۔ ہم، ملک بھر کے یونیورسٹی اور سکول کے طلبہ، آپ سے ہمارے انقلاب کے موجودہ مرحلے کے احتجاجوں کا ساتھ دینے کے لیے ملک گیر سطح پر فیصلہ کن ہڑتالیں اور احتجاجیں کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ ہمارے انقلاب کو ملک گیر ہڑتال کی جانب بڑھنے کے لیے آپ کی فعال شرکت اور فیصلہ کن کردار کی ضرورت ہے۔
”بلاشبہ، ہم اس انقلاب کی فتح کا جشن مل کر منائیں گے۔ وہ دن قریب ہے اور ہم سب کے لیے آزاد، مساوی، خوشحال سماج قائم کرنے کی امید کرتے ہیں؛ ایک سیکولر اور انسان دوست سماج؛ ہم اپنی تمنائیں پوری ہونے تک ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
”تبریز سٹوڈنٹ کوآلیشن
اصفہان پروگریسیو سٹوڈنٹس،
آرگنائزیشن آف ریولوشنری سٹوڈنٹس آف تہران
مندرجہ ذیل یونیورسٹیوں کے طلبہ:
خراسان آزاد یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ریسرچ سائنسز، یادگارِ امام آزاد یونیورسٹی، مہاباد آزاد یونیورسٹی، اشرفی اصفہانی یونیورسٹی، اصفہان یونیورسٹی،پیامِ نور شہر رے یونیورسٹی، تبریز یونیورسٹی، اصفہان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز، سنندج یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز، اصفہان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف کردستان، مشہد کے کوئے طلب سکولز کے طلبہ، یزد کے امام علاقے کے سکولوں کے طلبہ،ممسنی کنزرویٹری کے طلبہ،سمنان میں کنزرویٹری کے طلبہ،حکیم سبزواری سبزوار یونیورسٹی۔“
ایک کمیونسٹ گروپ گیلان ریولوشنری کمیٹی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
”حقیقت یہ ہے کہ ایران کی عوامی اور انقلابی تحریک، اپنے تمام نشیب و فراز کے ساتھ، اور اب تک بھاری قیمت چکانے کے باوجود، اب بھی آگے بڑھ رہی ہے اور انتہا پسند اور ظالم حکومت کے خلاف اپنے فرائض مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ اس عمل میں کتنا عرصہ لگے گا۔ مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مظلوموں کی تحریک کے پاس پیشہ ورانہ فوج (جس سے ہم انقلابی قیادت مراد لے سکتے ہیں) نہیں ہے۔ ایک اہم نکتہ جس کا ذکر کرنا یہاں ضروری ہے یہ ہے کہ، اس جدوجہد میں شامل مرد و خواتین اور خصوصاً نوجوانوں کی ساری ہمت اور قربانیوں کے باوجود، اس تحریک کے فرائض محض سڑکوں کے اوپر پورے نہیں ہوں گے۔ کیونکہ متحد اور منظم محنت کشوں، جو مزدور ہڑتال کر کے ہمارے ساتھ شریک ہوں، کی صفوں کے بغیر انقلابی تحریک اپنے حتمی ہدف تک نہیں پہنچے گی۔“
جیسا کہ ذکر کیا گیا، کئی آزادانہ مزدور تنظیموں نے بغاوت کی یکجہتی میں بیانات دیے ہیں اور سیاسی ہڑتال کی دھمکی دی ہے، جن میں ٹرک ڈرائیور، شعبہ تیل کے محنت کش، ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی، تہران بس کمپنی کے محنت کش، اہواز سٹیل کے محنت کش وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے باوجود، ایک ملک گیر سطح کی عام ہڑتال شروع نہیں ہوئی، اور ہونے والی چند سیاسی ہڑتالوں کے تنہا رہ جانے کے باعث ریاست نے انہیں تیزی کے ساتھ دبا دیا ہے، جس کا نتیجہ مکمل ثابت قدمی کے حوالے سے ان مزدور تنظیموں کی ہچکچاہٹ کی صورت نکلا ہے۔
ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی نے ایک دفعہ پھر بغاوت کے ساتھ اپنی حمایت پر زور دیا ہے اور حتیٰ کہ حکومت کی کھلے عام مذمت کی ہے اور 19 نومبر کو نوجوانوں کے اوپر ریاستی جبر کے پیشِ نظر انہوں نے 20 اور 21 نومبر کو ہڑتال کا اعلان بھی کیا ہے۔ اگر یہ ہڑتالیں تنہا ہوئیں تو ان پر پچھلی یکجہتی والی ہڑتال کی طرح ریاستی جبر کیا جائے گا۔ شعبہ تیل کے کنٹریکٹ ورکرز خاموش ہیں، جو حیرانی کی بات نہیں کیونکہ انہوں نے 10 اکتوبر کو اپنے شعبے کے محنت کشوں کے بیچ سیاسی ہڑتال شروع کرنے کی کوششیں کی تھیں، اور 29 اکتوبر کو ہڑتال کا منصوبہ بنایا تھا؛ جس کے جواب میں سخت جبر کیا گیا۔
ہفت تپہ شوگر کین کمپنی کے انقلابی محنت کش کھلے عام احتجاجوں، حکومت کا تختہ الٹنے اور احتجاجوں میں شرکت کی کال دے رہے ہیں۔ انہوں نے ریاست کے خلاف سیاسی ہڑتالوں کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ ان کے ایک اعلامیے میں، جس کو انہوں نے، کمیٹی فار کوآرڈینیشن آف دی اسٹیبلشمنٹ آف ورکرز آرگنائزیشنز، اور گروپ آف یونائیٹڈ ریٹائریز نے دستخط کیے ہیں، مندرجہ ذیل لکھا گیا ہے:
”جدوجہد میں محنت کشوں کا اتحاد کلیدی کردار کا حامل ہے!
”محنت کش طبقے کی تحریک میں صنعتی مزدوروں، خدمات کے مختلف شعبوں اور زراعت میں کام کرنے والے محنت کشوں کا اتحاد بہت اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ ایران بھر میں احتجاجوں اور احتجاجی تحریکوں کی پیش رفت اور ارتقاء کے حوالے سے ایک فیصلہ کُن کردار ادا کرے گا۔ ہم محنت کشوں کے حق بجانب احتجاجوں کے منظم کرنے اور ان میں شرکت کرنے کی ہر کوشش کی حمایت کرتے ہیں، اور اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
”یہ تحریک پچھلے سالوں کی بغاوتوں کے تسلسل میں شروع ہوئی، جسے اب تقریباً دو مہینے گزر چکے ہیں، اور اس کے اندر خواتین، نوجوان (خصوصاً طلبہ)، اساتذہ، مزدور، ریٹائر شدہ افراد اور تمام مظلوم اور محنت کش طبقہ عزم و قوت کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ اس تحریک کی گہرائی اور وسعت احتجاج کرتے عوام کے نعروں میں سنی جا سکتی ہے، جو شروع دن سے سیاسی نعرے لگا گر اس حکومت کی بنیادوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ننگے جبر کے باوجود سڑکوں پر موجود مظاہرین اب بھی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں، جو ظالموں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔
”حکومتیں، افسران اور تنظیمیں ریاست کی حمایت کرتی رہی ہیں،جس کے باعث کرپشن، چوری، مہنگائی، بیروزگاری، شدید ہوتی غربت، بے گھری، گرفتاریوں، تشدد، موت کی سزاؤں اور قتلوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ محنت کشوں نے محض غربت اور نا برابری دیکھی ہے، جبکہ حکمران سرمایہ دار اور حکومت کے ساتھ جڑے ہوئے لوگ خوشحالی، آرام، عیش و عشرت اور دولت کا لطف اٹھاتے رہے ہیں۔ سماجی دولت میں سے محنت کشوں اور استحصال زدوں نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ اسلامی جمہوریہ کی پوری تاریخ میں حقیقی اجرتیں، یعنی محنت کشوں کی حقیقی قوتِ خرید، کم ہوئی ہیں اور اب خطِ غربت سے کئی گنا نیچے چلی گئی ہیں۔ یہ،معمولی اجرتیں بھی فقط اس لیے دی جاتی ہیں کہ محنت کشوں کو دوبارہ استحصال کا شکار بنانے کی غرض سے زندہ رکھا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ لاکھوں بے روزگاروں اور نوکری کی تلاش کرنے والوں کو اس سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ حالیہ تحریک میں ابھرنے والا احتجاج، نفرت اور غصّہ اس جبر اور لا محدود استحصال کا جواب ہے، جو محنت کشوں اور استحصال زدوں کی زندگیوں کو ان تمام سالوں کے دوران بغیر رکے شدید متاثر کر رہی ہے۔
”عوام نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ، جب حکومتی پالیسیاں اور معاشی پروگرام ان کے لیے امید کی ہلکی سی کرن نہیں لے کر آتے، اور محنت کشوں کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں، تب انہیں لازمی طور پر اس کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا اور اس ریاست کے خلاف لڑ کر اپنی تقدیر بدلنے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔
”مختلف معاشی، سماجی اور ثقافتی میدانوں میں حکومتی اقدامات کی مزاحمت ہماری اپنی اور سماج کی تقدیر تبدیل کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ مگر یہ کافی نہیں۔ سماج کی بنیادی تبدیلی کے لیے مناسب طریقہ کار کی تیاری کرنی چاہیے۔ موجودہ حکومت جبر کی تمام افواج اور طریقوں کا سہارا لے کر قانون شکنی اور کرپشن، ظلم اور دروغ گوئی کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، اس قسم کی حکومت سے سیاسی اقتدار چھیننا ماضی میں بھی آسان نہیں رہا ہے۔ محض واضح اہداف اور مناسب تیاری سے لیس ایک منظم جدوجہد ہی حکومت کو پسپائی پر مجبور کر سکتی ہے، اور مظلوم عوام کا اپنا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔
”وہ سماج جس کا سیاسی و معاشی ڈھانچہ عوام کے مفادات کے خلاف ہو، اور جس میں لوگوں کی وسیع اکثریت کی تمناؤں کو دبایا جاتا ہو، جس میں انہیں کوئی سیاسی اور شہری آزادی حاصل نہ ہو، اس سماج کے اندر ایسے دھماکہ خیز ممکنات جنم لیتے ہیں جس کو کوئی بھی جابرانہ حکومت روکنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ در حقیقت ان دھماکہ خیز ممکنات کو لازماً منظم اور حقیقی قوت میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ ایک طاقتور اور با اثر قوت بننا محض مظلوم عوام کے اتحاد کے ذریعے ممکن ہے، محنت کشوں، استحصال زدوں، خواتین اور نوجوانوں کے اتحاد کے ذریعے۔
”اب، یہ اتحاد کچھ حد تک قائم کیا جا چکا ہے، کم از کم مظاہروں اور سڑکوں پر ہونے والے احتجاجوں میں شرکت کے حوالے سے جن میں مشترکہ مسائل کے شکار سماج کی مختلف پرتیں شریک ہو رہی ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور مختلف گروہوں اور نمایاں حلقوں کی جانب سے احتجاجوں کی کال کا مثبت انداز میں جواب دیتے ہیں، اور عملی طور پر وہ جدوجہد کے میدان میں شانہ بہ شانہ لڑ رہے ہیں۔
”مگر پورے سماج کی سطح پر اور تحریک کا ابھی اور مستقبل میں مزید طاقت حاصل کرنے کے لیے، ان احتجاجوں میں محنت کش طبقے کا کردار اور حیثیت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ محنت کش طبقہ، سماج کی سب سے بڑی اور اہم ترین پرت کے طور پر، جس کے پاس پیداوار روک دینے اور سرمایہ دارانہ حکمرانی کی معاشی رگوں کو بند کرنے کی طاقت ہے، اپنی معاشی حیثیت جان کر اور اپنے سیاسی عمل میں آ کر، محروم عوام کی خاطر سماج کو تبدیل کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ حکمرانی کے خلاف جدوجہد کے عمل کی قیادت کرنے کا اہل ہوگا۔ پیداوار میں محنت کشوں کی حیثیت، خصوصاً کلیدی معاشی مراکز میں، کا مطلب یہ ہے کہ وہ بلاشبہ محض پیداوار روک دینے کا ایک فیصلہ کر کے اسلامی جمہوریہ کے سرمایہ دارانہ معاشی و سیاسی نظام کو خطرہ لاحق کر سکتے ہیں۔ مختلف شعبوں کے محنت کشوں، اور دیگر استحصال زدوں اور مظلوموں کی پرتوں کے اتحاد کے ذریعے، وہ سماج کی انقلابی جمہوری تبدیلی کی رفتار کو تیز کرنے اور اپنی تقدیر بدلنے کے اہل ہوں گے۔“
ہفت تپہ کے محنت کش اس مرتبہ بھی مکمل طور پر بجا ہیں، اور دیگر انقلابی محنت کشوں اور نوجوانوں کو بھی یہی موقف اپنانا پڑے گا۔
انقلابی قیادت کی ضرورت!
اکتوبر کے اختتام سے، نوجوانوں کے ان نئی انقلابی تنظیموں میں سے کئی نے مشترکہ طور پر اعلامیے جاری کیے ہیں اور احتجاجوں کی کالیں دی ہیں، جو جدوجہد کی ایکتا کے حوالے سے اہم پیش رفت ہے۔ محض اس قسم کی تنظیموں کے قیام کے باعث تحریک ابھی تک برقرار ہے۔
البتہ، ان اہم اقدامات کے باوجود، بغاوت کو انقلاب میں تبدیل کرنے کا فریضہ پورا کرنا باقی ہے۔ نوجوانوں نے اگرچہ تنظیمیں قائم کی ہیں، اور حتیٰ کہ ایک حد تک انہیں ملکی سطح پر منسلک کی ہیں، احتجاج یا سیاسی ہڑتال کی ہر کال سے محض یہی امید کی جا رہی ہے کہ وہ خود رو طور پر انقلابی عام ہڑتال کی شکل اختیار کرے گی۔ مگر اس کے باوجود نوجوانوں اور انقلابی محنت کشوں دونوں کے لیے ایک طویل اور خونی انقلابی عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ رجعت کے مزید مرحلوں کا آنا نا گزیر ہوگا جب تک کہ نوجوان اور محنت کش ایک انقلابی پروگرام اور قیادت کے تحت متحد نہیں ہو جاتے۔ اس قسم کی پیش رفت کے لیے ایک انقلابی پروگرام درکار ہے۔ نوجوانوں نے ایسے کئی نعرے بلند کیے ہیں جن میں محنت کشوں کے ساتھ ہمدردی دکھائی گئی ہے۔ مگر حکومت نے ماہرانہ طریقے سے عوام کے خوف کا فائدہ اٹھایا ہے۔ ایرانی عوام کے ساتھ مغربی سامراجیوں کی مکارانہ یکجہتی والی کیمپین، اور جس طرح وہ نفرت انگیز پہلوی خاندان کو متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں، محض ریاست کے پروپیگنڈے کی تقویت کا باعث بنا ہے، جو پوری تحریک کو سامراجی مداخلت کا رنگ دیتی ہے۔
ایرانی عوام ریاست کی دروغ گوئی پر یقین تو نہیں رکھتے، مگر ایک واضح متبادل کی غیر موجودگی میں، وہ اس سے خوفزدہ ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کا انہدام کیا نتائج لے کر آئے گا۔ مغربی سامراجیوں کا بھی محنت کشوں اور کمیونسٹوں پر جبر کرنے، استحصال کرنے، اور ایران سمیت دیگر ملکوں میں ’کُو‘ کرنے کی ایک جابرانہ تاریخ رہی ہے۔ یہ تاریخ عوام کے شعور میں گہری طرح نقش ہے۔ اور اسلامی جمہوریہ اس حقیقت کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔ عوام نے ماضی میں دیکھا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے اندر کیسے مغربی سامراجیت نے انقلابات فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں میں تبدیل کیے ہیں، مثلاً شام کے اندر، جبکہ بعض جگہوں پر وحشی آمریتوں کو ابھارا ہے، جیسا کہ سعودی عرب کے اندر۔ محنت کش طبقے کو جیتنا فقط انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کی جانب سے عام ہڑتال کی کال میں مزید شدت لانے کا سوال نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کو محض نعروں کے ذریعے مجموعی طور پر نہیں جیتا جا سکتا، بلکہ اس کی بجائے ایک ٹھوس انقلابی پروگرام درکار ہوتا ہے۔ ایسا پروگرام معاشی مطالبات کو جمہوری مطالبات اور اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کی کال کے ساتھ منسلک کرے گا۔ ان میں تمام عوام دشمن اقدامات کو واپس لینے، مناسب پنشن اور اجرتیں مقرر کرنے، تقریر، اجتماع اور پریس کی آزادی، خصوصاً ٹریڈ یونینز کے لیے، اور اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ کرنے کے لیے محلّوں کی کمیٹیوں اور مزدور کونسلوں کی بنیاد پر آئین ساز اسمبلی کے انتخابات جیسے مطالبات شامل ہوں گے۔ اس طرح کے کسی بھی پروگرام کو پھر عوام خود مزید وسیع کرتے جائیں گے۔ اس قسم کے بنیادی پروگرام کے ذریعے انقلابی تیزی کے ساتھ محنت کش طبقے اور غریبوں کو متحد کریں گے۔ ایران کے اندر سرمایہ داری ترقی یافتہ نہیں ہے اور حکمران طبقہ بڑے معاشی و جمہوری اصلاحات نہیں کر سکتا۔ ایرانی عوام کے لیے واحد راستہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے شوریٰ کے ذریعے اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لینے کا ہے۔
ایک نیا انقلابی دور
پچھلے دو مہینوں کے دوران جس انداز سے بے انتہا انقلابی غصّے کا اظہار ہوا ہے، اس کی حالیہ سالوں میں مثال نہیں ملتی۔ نوجوان انقلابی تنظیمیں قائم کر کے عام ہڑتال کی کال دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی جدوجہد انقلابی محنت کشوں کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ یہ ایک معیاری جست ہے، جو 2018ء سے جاری ہڑتالوں، احتجاجوں اور بغاوتوں کے تجربات کے باعث دیکھنے میں آئی ہے۔ سخت جبر کے باوجود، ریاست انتہائی کمزور ہو چکی ہے، جو 2018ء سے ہونے والے ہر عوامی ابھار کے ساتھ مزید کمزور ہوتی گئی ہے۔ اس کی اخلاقی حاکمیت کے آخری قطرے بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ ریاست کے لیے عوام کو آسانی سے تقسیم کرنا مشکل بن گیا ہے، کیونکہ طبقاتی جدوجہد کے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ ریاست کے کسی بھی دھڑے کے پاس دینے کے لیے کرپشن، غربت اور تشدد کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کا نتیجہ ریاست کا جبر کے اوپر انحصار مزید بڑھنے کی صورت میں نکلا ہے۔ مگر عوام بھی اپنا خوف کھو رہے ہیں۔ اس صورتحال نے ریاست کو غیر مستحکم بنا دیا ہے۔ اس کی سانسیں فقط ایک واضح متبادل کے فقدان کے باعث چل رہی ہیں۔
فتح کو یقینی بنانے کے لیے شوریٰ کمیٹیوں کو انقلابی محنت کشوں اور نوجوانوں کی عوامی اور لڑاکا ڈھانچوں میں تبدیل کرنا اور انہیں مقامی، علاقائی اور ملکی سطح پر جوڑنا ضروری ہے۔ اس قسم کی تنظیمیں مل کر ملک گیر سطح پر عام ہڑتال کرنے کے ذریعے ایرانی سرمایہ داری کو مفلوج کر سکتی ہیں اور سیکورٹی فورسز کے خلاف دفاعی انتظامات کر سکتی ہیں۔ واضح سوشلسٹ پروگرام سے لیس ایک انقلابی، مارکسی قیادت کے تحت وہ وسیع پیمانے پر مظلوم عوام کی پرتوں کو اپنی جانب مائل کر سکتی ہیں، اور جمہوری و معاشی مطالبات کو منسلک کر کے اقتدار پر قبضہ اور سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔
محض سماج کی سوشلسٹ تبدیلی ہی تمام ایرانیوں کو ایک شائستہ اور با وقار زندگی فراہم کر سکے گی۔ ایران کے اندر سوشلسٹ انقلاب پورے مشرقِ وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوگا۔