|تحریر: ایسائس یاوری، ترجمہ: یار یوسفزئی|
حالیہ عرصے میں احتجاجوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ معیشت کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ پچھلے چند مہینوں کے دوران کم از کم 100 ہڑتالیں اور احتجاج دیکھنے میں آئے۔ وظیفہ لینے والے پنشنرز اور محنت کشوں نے بھی ملک بھر میں ہفتہ وار احتجاج کیے ہیں، اگرچہ ان میں مظاہرین کی تعداد اس درجے تک ابھی نہیں پہنچی جو ماضی قریب کے احتجاجوں میں تھی۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ احتجاج خود مختار ٹریڈ یونینز کی حمایت سے منظم کیے گئے، جن کے ساتھ مظاہرین نے مل کر مشترکہ مطالبات اور بیانات جاری کیے۔ ملک بھر کے اندر کئی سالوں تک ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ چلنے کے بعد، اس تحریک کو متحد کرنے کا بہت بڑا موقع موجود ہے۔
کچھ ہی دن پہلے، 15 مئی کو پنشنرز اور سرکاری وظیفہ حاصل کرنے والے محنت کشوں نے ہر بڑے شہر کے اندر احتجاج منعقد کیے، جن میں تہران، تبریز، اصفہان، کرمانشاہ، شوشا، خرم آباد اور شیراز شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پنشن اور وظیفوں میں افراطِ زر کی مناسبت سے بڑھوتری کی جائے، جیسا کہ حکومت کا اپنے قانون کے تحت کرنا بنتا ہے۔ مگر ان احتجاجوں کو، جو دسمبر سے جاری ہیں، یا تو نظر انداز کر دیا گیا، یا پھر ان کے اوپر تشدد کر کے گرفتاریاں کی گئیں۔ اس عمل کے نتیجے میں پچھلے دو ہفتوں کے دوران بلند ہونے والے نعروں نے مزید سیاسی نوعیت اختیار کی ہے، جیسا کہ ”تمام گرفتار محنت کشوں کو رہا کیا جائے!“ اور آنے والے صدارتی انتخابات کے حوالے سے یہ نعرہ لگایا گیا کہ ”ہم مزید ووٹ نہیں دیں گے، ہم سے محض جھوٹ بولا جاتا ہے!“۔
احتجاجوں کا یہ سلسلہ خود مختار ٹریڈ یونینز کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جنہوں نے اس میں اپنی جانب سے افراطِ زر کی مناسبت سے تمام اجرتوں سمیت کم از کم اجرت میں بڑھوتری کا مطالبہ شامل کیا ہے۔ یکم مئی کو، مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر ملک بھر میں محنت کشوں اور پنشنرز کی خود مختار تنظیموں نے احتجاج منعقد کیے۔ اس کے منتظمین نے ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا، جس میں سماجی بحران اور کرونا وباء کا ذمہ دار سرمایہ داری کو ٹھہرایا۔ اس بیان میں وضاحت کی گئی کہ ”ایران کے اندر، باقی ساری دنیا کی طرح، مسائل کا حل طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ممکن ہے،“ اور یہ کہ ”محنت کش طبقہ محض اپنے زورِ بازو پر خود کو آزاد کرا سکتا ہے!“ اس میں مزید وضاحت کی گئی کہ ایران کی موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ ”اپنی خود مختار تنظیموں کو قائم کیا جائے، جو سرمائے کے کارندوں اور سرمایہ داری کے دفاع میں ان کی دھوکے بازی اور مجرمانہ منصوبوں سے آزاد ہوں۔“یہ آگے کے نتائج اخذ کرنے کے پیچھے مہینوں پر مشتمل ہڑتالیں اور احتجاج کار فرما ہیں، جو حکومتی سرپرستی میں قائم نام نہاد مزدور تنظیموں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
ہفت تپہ کی فتح اور مزدوروں کے کنٹرول کی جدوجہد
8 مئی کو، کئی سالوں کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کے بعد، ہفت تپہ میں موجود گنے کے فارموں اور شوگر مل کو دوبارہ قومیا دیا گیا۔ یہ محنت کش طبقے کے لیے بہت بڑی فتح ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کامیابی ایران کے پورے محنت کش طبقے کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ کئی سالوں سے ہفت تپہ کی خود مختار ٹریڈ یونین طبقاتی جدوجہد کی پہلی صفوں میں رہی ہے، جس نے تمام ایرانی محنت کشوں کو متحدہ جدوجہد کا پیغام دیا ہے، جبکہ اس دوران ایران بھر کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کی حمایت بھی کرتی رہی ہے۔ یہی ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ تھی۔ انہوں نے ایرانی محنت کش طبقے کی طاقت پر اعتماد کیا۔ انہوں نے کبھی بھی خود کو سرمایہ دار مجرموں، یا اسلامی مزدور تنظیموں کی صورت موجود حکومتی کارندوں کی مرضی کے ما تحت نہیں کیا۔
اگرچہ یہ ایک شاندار کامیابی ہے، ہفت تپہ کی یونین نے وضاحت کی کہ مرکزی مطالبے کی منظوری کے لیے وہ جدوجہد جاری رکھیں گے: یعنی ”ہفت تپہ کمپنی کو مزدور کونسل کے زیرِ نگرانی رکھنے کا مطالبہ“۔ ریاستی شعبہ جات کے ساتھ نجی ملکیت جیسا سلوک کیا جاتا ہے جہاں پر اقربا پروری اور کرپشن کی کوئی حد نہیں۔ ہفت تپہ کے محنت کش ریاستی اداروں کی نجکاری اور ان میں موجود کرپشن کے خلاف جدوجہد میں اکیلے نہیں ہیں۔ تیل، ریلوے اور آٹو موبائل سمیت دیگر شعبہ جات کے محنت کش بھی اس جدوجہد میں شریک ہیں ۔
مثال کے طور پر پچھلے سال نومبر میں ترانس ورس (ایران میں ریلوے کی تعمیرات اور دیکھ بھال کی سب سے بڑی کمپنی)، جس میں 7 ہزار محنت کش کام کرتے ہیں، کے سابقہ مالک کی کھلے عام کرپشن کے خلاف ہڑتالوں کے بعد، حکومت اس کو دوبارہ قومیانے پر مجبور ہوئی۔ البتہ، دوبارہ قومیانے کے بعد بھی، محنت کشوں کو مہینوں تک تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں، جبکہ وقفے وقفے سے ہڑتالیں اور احتجاج بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس دوران ریاست کی جانب سے بورڈ آف ڈائریکٹرز یا سی ای او بھی تعینات نہیں کیا گیا ہے، اور اس طرح کی خبریں گردش میں ہیں کہ وہ اس کمپنی کی دوبارہ نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ چاہے کمپنی نجی ہو یا سرکاری، اس پر اختیارات اسی خونخوار سرمایہ دار طبقے کے ہوتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد چوری اور استحصال کے ذریعے اپنی دولت میں مزید اضافہ کرنا ہے، جس کی قیمت چکانے کے لیے ایرانی محنت کش طبقے کو مجبور کیا جاتا ہے۔ ہفت تپہ کے محنت کشوں کی جانب سے کیا جانے والا مزدوروں کے کنٹرول کا مطالبہ ساری دنیا میں اپنا کر آگے بڑھنا پڑے گا۔
ایران؛ نہ ختم ہونے والا بحران
20 مارچ کو نوروز (ایرانی نیا سال) کے موقع پر صدر حسن روحانی کی تقریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حقائق سے کس قدر لا تعلق ہے۔ اس نے جاری معاشی بحالی، اور قومی ترقیاتی فنڈ کے ذریعے سرمایہ کاری (جس کی دراصل کوئی گنجائش نہیں) پر بات کی۔ مگر اس کے برعکس معاشی بحالی جیسی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ اس کی بجائے ایران کو اپنی تاریخ کے سب سے شدید ترین سماجی بحران کا سامنا ہے۔ اپریل میں افراطِ زر 50 فیصد تک پہنچ چکی تھی، جو پچھلے 75 سالوں میں سب سے بلند سطح ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری 12.2 فیصد ہے مگر در حقیقت یہ کم از کم اس کا دوگنا ہے۔ حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ آبادی کا 80 فیصد حصّہ غربت میں زندگی گزار رہا ہے۔ گوشت کی کھپت میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔ پچھلے سال چاول کی قیمت میں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے! حتیٰ کہ کچھ اطلاعات کے مطابق غریب ترین افراد میں سے بعض قسطوں پر روٹی خرید رہے ہیں۔
کرونا وباء نے سماجی بحران کو شدید تر کر دیا ہے۔ اپریل میں، ایران نے چوتھی لہر کے پیشِ نظر نئے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ اس صورتحال سے شعبہئ صحت کے محنت کش بہت متاثر ہوئے ہیں، جو مستقل کنٹریکٹ، غیر ادا شدہ اجرتوں کی ادائیگی، سٹاف اور طبی سامان میں اضافے کے لیے چھوٹے پیمانے پر اپنے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر موت کا سامنا کر کے بہت کم اجرتوں پ سخت کام کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود ان کی حکومت کئی مہینوں سے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتی آئی ہے، جس کی وجہ سے کچھ نرسوں نے احتجاجاً خودکشی بھی کی ہے!
دکانداروں اور ریڑھی بانوں کو کسی قسم کی حکومتی امداد فراہم کیے بغیر کاروبار پر پابندی لگا دی گئی اور انہیں دھمکی دی گئی ہے کہ خلاف ورزی کی صورت ان کی دکانوں اور اشیاء کو توڑ دیا جائے گا۔ حکومت نے امداد دینے کی بجائے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس کے خلاف احتجاج سامنے آئے ہیں۔ نئے لاک ڈاؤن کے بعد سے 30 لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔
حکومتی امداد، جو سبسڈیوں اور نرخ ناموں کی صورت موجود ہے، بالکل نا کافی ہے۔ کمیاب اشیاء جیسا کہ سبسڈی والی مرغیوں کے لیے ایک کلومیٹر لمبی قطاروں کی متواتر خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ مگر کسانوں اور مزدوروں کے مطابق گودام بھرے پڑے ہیں۔ خوراک کی کوئی قلت نہیں، صرف اس خوراک کی قلت ہے جسے محنت کش خرید سکتے ہوں۔ سرمایہ دار عوام کو مزید فاقہ کشی کی جانب دھکیلنے سے نہیں رکیں گے اگر انہیں اس عمل سے دیوہیکل منافعے کمانے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے برعکس چھوٹے پیمانے کے کاروباری افراد، سبسڈیوں کے ہوتے ہوئے بھی، بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا نہیں کر پا رہے اور معاشی تباہ حالی کا شکار ہیں۔
غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بشمول قومی ترقیاتی فنڈ ختم ہونے کے قریب ہیں اور حکومت کو اب بہت بڑے پیمانے پر افراطِ زر کا سامنا ہے۔ وہ اِن انتہائی محدود سماجی پروگراموں کے لیے بھی پیسہ چھاپنا جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس کا نا گزیر نتیجہ عوامی مزاحمت کی صورت نکلے گا۔ صدر روحانی نے یومِ مئی کی تقریر میں اس ضرورت پر بات کی کہ ”معاشی صلاحیت کو بڑھایا جائے، مگر ایسا کارخانوں اور مشینری میں سرمایہ کاری کے ذریعے نہیں بلکہ اوقاتِ کار بڑھانے کے ذریعے کیا جائے،“ اور کہا کہ ”ملکی کھپت کو کم کر کے بر آمدات کو بڑھایا جائے“۔ بہ الفاظِ دیگر، اس نے ایرانی محنت کش طبقے کے استحصال کو بڑھانے کی ضرورت پر بات کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محنت کشوں کے اوپر حملے جاری رہیں گے۔ پہلے سے ہی روٹی کی قیمتوں کو مقرر کرنے کے حوالے سے کرپٹ گورنروں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ یہ اقدامات جلتی پر تیل کا کام کریں گے۔ آنے والے عرصے میں مزید ہڑتالوں، احتجاجوں اور حتیٰ کہ بغاوت کے امکانات موجود ہیں۔
آزادانہ مزدور تحریک کی جانب بڑھو!
ایرانی سرمایہ داری کا گہرا معاشی بحران اور بڑھتی طبقاتی جدوجہد نے پورے اسلامی جمہوریہ کو شدید بحران میں دھکیل دیا ہے۔ حکومت بجا طور پر خوفزدہ ہے، خصوصاً جب جون کے صدارتی انتخابات قریب پہنچ چکے ہیں۔ پہلے ہی پچھلے سال حکومت نے پارلیمانی انتخابات میں سب سے کم ترین سطح کا ٹرن آؤٹ دیکھا ہے۔
حکومت براہِ راست جبر کے علاوہ، پیرا ملٹری تنظیم ’بسیج‘، اور ریاستی یونینز اور اسلامی مزدور تنظیموں میں موجود اپنے کارندوں کو بھی متحرک کر رہی ہے تاکہ مزدور تحریک کو اندر سے کمزور کیا جا سکے۔ ان گروہوں نے منافقانہ طور پر بہت سی حالیہ ہڑتالوں اور جدوجہد کی حمایت کی ہے، تاکہ انہیں راستے سے ہٹا کر موجودہ نظام کی حدود سے باہر نکلنے نہ دیا جائے۔ اگرچہ ان عناصر نے ایک جانب رسمی طور پر جدوجہد کی حمایت کی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کھلے عام مالکان اور حکومت کا دفاع بھی کیا ہے، یہاں تک کہ ہڑتال کرنے والوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے۔
تیل کے شعبے کے اندر، حالیہ ملک گیر ہڑتال کے خاتمے میں ان اشتعال انگیزیوں نے اہم کردار ادا کیا، جنہوں نے حکومت کے کھوکھلے وعدوں کی حمایت کرتے ہوئے تذبذب پھیلایا۔ انہوں نے ہڑتال کو ہائی جیک کر کے ہڑتال کرنے والوں کو کہا کہ لڑاکا اقدامات سے باز آ کر پارلیمان سے گزارشات کرنے کا طریقہ اپناؤ۔ ان کی شیطانی حرکات سے اگرچہ کچھ دیر کے لیے تحریک تذبذب کا شکار ہو گئی ہے، مگر اس عمل کے دوران اس تحریک میں انقلابی رجحان اور محنت کشوں کا طبقاتی شعور مزید بڑھے گا۔
ہفت تپہ کے محنت کشوں سے متاثر ہو کر، تیل کے محنت کشوں کی نچلی پرتیں اب تک اس سال کے ہر مہینے میں نئی ملک گیر ہڑتال کی کال دیتی رہی ہیں؛ تیل کے محنت کشوں کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کے دوران سب سے لڑاکا کردار بھی انہیں نچلی پرتوں نے نبھایا تھا۔ مارچ میں انہوں نے ریاستی یونینز کے قائدین کو واضح پیغام دیا: ”اصلان امینی (ریاستی یونین کا ممتاز رکن) کے لیے ہمارا جواب یہ ہے کہ ہمارے پاس ہفت تپہ (کے محنت کشوں) کا تجربہ موجود ہے اور ہم اپنے فیصلے اجتماعی طور پر اور (محنت کشوں کی) کونسلوں کے ذریعے لیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کی مرضی شامل کیے بغیر لیے گئے فیصلے نا قابلِ قبول ہیں، چنانچہ ہم ان کو تسلیم نہیں کرتے“۔ یہ بیان ورکرز ہاؤس، ریاستی سرپرستی میں چلنے والی یونین، کی قیادت کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔
قومی سطح پر ایک آزادانہ طبقاتی تحریک پروان چڑھ رہی ہے۔ اس کو لازمی طور پر اس قسم کے سیاسی و معاشی مطالبات کے ذریعے مضبوط کرنا پڑے گا، جس سے تمام محنت کشوں، نوجوانوں اور غریبوں کو ملک گیر سطح پر متحرک کیا جا سکے۔ اس پروگرام کا مرکزی نعرہ ”روٹی، آزادی اور کمیٹیاں“ ہونا چاہیے، جو پچھلے عرصے میں عوامی مطالبہ رہا ہے اور جس میں، کئی دیگر مطالبات کے ساتھ، 1979ء کی ان روایات کی گونج سنائی دیتی ہے جو آج دوبارہ سامنے آ رہی ہیں۔
مزید برآں، آزادانہ مزدور تحریک کو ہڑتال اور احتجاج کرنے کے حق، پچھلے عرصے میں لیے گئے سخت معاشی اقدامات واپس لینے، اور اجرتوں اور پنشنز میں افراطِ زر کی مناسبت سے بڑھوتری کرنے کے مطالبات بھی شامل کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ سیاسی مطالبات بھی شامل کرنے چاہئیں جیسا کہ تمام نجی کمپنیوں کو قومیا کر مزدورں کے کنٹرول میں دینے اور ریاستی اداروں میں بھی مزدوروں کا کنٹرول متعارف کرانے کا مطالبہ۔ کرونا وباء کے پیشِ نظر تمام متعلقہ صنعتوں سمیت شعبہ صحت کو محنت کشوں کے کنٹرول میں دے کر مکمل طور پر قومیانے کا فوری مطالبہ کرنا چاہیے۔
اس قسم کے پروگرام کو ایرانی سماج میں محنت کشوں، طلبہ اور درمیانے طبقے کی جانب سے بہت وسیع حمایت ملے گی۔ یہ پروگرام روزانہ کی بنیاد پر جاری مزدوروں، کسانوں، درمیانے طبقے اور طلبہ کی الگ تھلگ جدوجہدوں کو ملکی سطح پر ایک شاندار تحریک میں یکجا کرنے کا باعث بنے گا، جو اسلامی جمہوریہ کو جھکنے پر مجبور کرے گی، اور ایران کی تاریخ کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گی۔