|تحریر: میسام شریفی اور ایسائس یاوری، ترجمہ: یار یوسفزئی|
پچھلے ہفتے سے ایران میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بنیادی خوراک کی اشیاء کی سبسڈی میں کٹوتیوں کے بعد خود رو احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہے۔ کوکنگ آئل، مرغیوں، دودھ اور انڈوں جیسی بنیادی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں 300 فیصد تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پچھلے ہفتوں میں ایک کلو آٹے کی قیمت میں 500 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ سبسڈی کی کٹوتیوں کے نتیجے میں پاستا کی قیمت میں بھی 169 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے عوام کے حالات انتہائی بدتر ہو گئے ہیں، جو ایسے رد عمل کو جنم دے رہا ہے جس میں محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ جڑت قائم کی جا رہی ہے، نتیجتاً ایک دھماکہ خیز مرکب تیار ہو رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حالیہ احتجاج پہلے خوزستان صوبے کے شہروں میں سامنے آئے، جن میں ایذہ، شادگان، حمیدیہ، دزفول اور اندیمشک کے شہر شامل تھے، اس کے بعد یہ ملک کے دیگر علاقوں تک بھی پھیل گئے۔ اب وہ چھار محال و بختیاری اور لرستان صوبوں اور اردبیل شہر تک پھیل چکے ہیں۔ ان بڑی تحریکوں نے مقامی بغاوتوں کی شکل اختیار کر لی ہے، جبکہ احتجاج 100 شہروں تک پھیل چکے ہیں۔
فیلمی از راهپیمای اعتراضی روز گذشته (شنبه) دامداران استان فارس (شیراز)
— آنسوی دیوارها (@beyondthewalls2) May 8, 2022
رییسی قالیباف این آخرین پیام است دامدار ورشکسته آماده قیام است
نیروی انتظامی نتوانست جلو اعتراض دامداران را بگیرد، وقتی مردم حرکت کنند هیچ نیروی قادر نیست آنها را متوقف کند#اعتراضات_سراسری pic.twitter.com/x56OBZzgae
مظاہرین، جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی، نے شدید جبر کے باوجود سڑکوں کا رُخ کیا۔ بعض علاقوں میں انہوں نے منسٹری آف پروپیگنڈہ کی عمارتوں اور اسلامی مدرسوں کے اوپر حملے کیے۔ مظاہرین کو ریاست کی جانب سے پرتشدد کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث کئی اموات واقع ہوئیں۔
«با حساب کار کنید، دستگیرش کن، بیارش بنداز بالا…»
— آنسوی دیوارها (@Irankargar_site) May 18, 2022
خیابان گردی یگان ویژه و نیروهای امنیتی هفشجان
سه شنبه ۲۷ اردیبهشت ۱۴۰۱#اعتراضات_سراسری pic.twitter.com/3PFzZp79DH
احتجاجوں کے مزید پھیلاؤ سے خوفزدہ ہو کر ریاست نے کئی مواقع پر انٹرنیٹ پر دی جانے والی کوریج کو نشانہ بنایا۔ خوزستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ہے، جہاں سیکورٹی افواج مسلسل گشت کر رہی ہیں۔
ان اقدامات نے مظاہرین کے لڑاکا پن میں مزید اضافہ کیا ہے، جو حکومت مخالف نعرے کثرت سے لگا رہے ہیں، بشمول ”مرگ بر خمینی، مرگ بر رئیسی“، ”مرگ بر آمر“، اور ”اسلامی جمہوریہ کا آئین مردہ باد“۔ کریک ڈاؤن میں مارے جانے والوں کے جنازوں نے بھی بڑے مظاہروں کی شکلیں اختیار کی ہیں، اور ان کے اوپر بھی سیکورٹی فورسز نے حملے کیے ہیں۔ یہ دیوہیکل واقعات تیزی کے ساتھ ایک بغاوت کی شکل اختیار کر سکتے ہیں، جو 2018ء کے بعد چوتھی بغاوت ہوگی۔
«مرگ بر رییسی…
— آنسوی دیوارها (@Irankargar_site) May 13, 2022
مرگ بر اصل ولایت فقیه…»
تظاهرات مردم پردنجان #اعتراضات_سراسری pic.twitter.com/LNdlOTeTbj
اس دوران، سب سے اہم بات یہ ہے کہ صوبوں کے اندر یہ مظاہرے ایسے وقت میں شروع ہوئے جب پہلے سے ہی لڑاکا ہڑتالیں جاری تھیں۔ ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی لڑاکا ہڑتال کی مہم میں لگی ہوئی ہے، جو اپنے مقید ٹریڈ یونین قائدین کی رہائی اور مطالبات کی منظوری کے لیے ملکی سطح کے احتجاجوں کی کال دے رہی ہے۔ تہران، جہاں ابھی تک صوبوں کی سطح کی تحریک دیکھنے کو نہیں ملی تھی، کے اندر ٹرانسپورٹ کے محنت کشوں نے اجرتوں میں انتہائی قلیل یعنی 10 فیصد اضافے کی پیشکش کے بعد ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
پنشنرز بھی پنشن کی رقم میں اضافے کے لیے لمبے عرصے سے مہم چلاتے رہے ہیں، اور شعبہ تیل کے محنت کشوں، جو انتہائی سخت حالات اور حقیر آمدنی کے ساتھ کام کرتے ہیں، نے اپریل کے آخر میں احتجاجوں کی نئی مہم کی کال دی ہے۔
ہم نیچے شعبہ تیل کے محنت کشوں کا جاری کردہ شاندار اعلامیہ نقل کر رہے ہیں، جو بجا طور پر ایران کے استحصال زدہ اور مظلوم عوام سے اپنی جدوجہد کو یکجا کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ شدید حکومتی جبر اور کرونا کی پابندیوں کے بعد مارچ کے مہینے سے طبقاتی جدوجہد میں آنے والی رکاوٹ اب اختتام پذیر ہو رہی ہے۔
شعبہ تیل کے کنٹریکٹ محنت کشوں کا اعلامیہ
”تباہ کن مہنگائی کا سونامی ہم سب محنت کشوں، اساتذہ، پنشنرز اور تمام عوام کو ایک ہی طرح متاثر کر رہا ہے۔
خطِ غربت سے کافی گنا کم اجرتوں نے کئی محنت کشوں کی زندگی برباد کر دی ہے۔
ایسے حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ تیل کی صنعت اور حکومتی ایجنسیوں کے اندر عارضی اور مستقل دونوں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ہمارے ساتھیوں، جن کے اوپر مزدور قوانین لاگو ہونے چاہئیں، کو سپریم لیبر کونسل کے منظور کردہ اجرتوں کے 57 فیصد اضافے میں شامل نہیں کیا گیا ہے، اگرچہ یہ اضافہ بھی خطِ غربت سے کئی گنا کم ہے۔ کہا جا رہا کہ ان کی اجرتوں میں محض 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
پنشنرز بھی ان مسائل کا شکار ہیں۔ پنشن میں اضافے کا منصوبہ کافی عرصے سے بے تحاشا رکاوٹوں کا شکار رہا ہے، اور کئی سالوں تک کام کرنے والے وہ افراد جنہیں آرام کی زندگی میسر ہونی چاہیے، اب روٹی کے ٹکڑوں کے لیے پریشان ہیں۔
اساتذہ کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے۔ ان کی اجرتوں میں تفریق کو انہیں دھوکے دینے اور ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جن کے اوپر بڑے پیمانے پر حملے کیے گئے ہیں۔
ہم سب خطِ غربت سے کم اجرتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، خاص کر اب جبکہ قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور محنت کشوں اور غریبوں کے لیے روٹی تک حاصل کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
مفت علاج اور تعلیم جیسی انتہائی بنیادی سماجی ضروریات اور رہائش کے انتظامات کرنے کے ضروری ذرائع کے چھن جانے سے صورتحال انتہائی بدتر ہو گئی ہے۔
اسی صورتحال کے پیشِ نظر ایک شہر سے لے کر دوسرے شہر تک لوگوں نے سڑکوں کا رُخ کیا ہے، جو قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کی سونامی کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔
یہ ہم سب کا مشترکہ نعرہ ہے، یہ اس مافیا کے خلاف عوام کا نعرہ ہے جو حکومتی نظام میں شامل ہے۔
سڑکوں پر جاری عوام کے احتجاج، اساتذہ اور پنشنروں کے احتجاج، اور سماج کی مختلف پرتوں کے احتجاج ہمارے یعنی شعبہ تیل کے تمام محنت کشوں کے بھی احتجاج ہیں۔
چنانچہ ہم ان احتجاجوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، اور ہم مظاہرین اور ان کے اس نعرے سے متفق ہیں کہ ”روزگار اور وقار ہمارے فطری حقوق ہیں“، اور اسی جذبے کے ساتھ ہم اپنے مطالبات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
اسی لیے، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، اساتذہ کے مطالبات کو تمام محنت کش اور تمام عوام اپنے مطالبات سمجھتے ہیں۔ ہم ان کے احتجاجوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، اور ہم اپنے عزیز اساتذہ کے اوپر بڑھتے ہوئے جبر سمیت ان کی گرفتاریوں اور حراستوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ ہم اپنے عزیز استاد اسماعیل عبدی کے بارے میں بہت پریشان ہیں۔
عبدی، تمام مقید اساتذہ اور محنت کشوں، اور سب سیاسی قیدیوں کو کسی بھی تاخیر یا شروط کے بغیر فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔
ہم فوری مطالبہ کرتے ہیں کہ حیلے بہانے بنائے بغیر ہماری درخواست شدہ رقوم کے مطابق ہماری اجرتوں میں اضافہ کیا جائے، اور کسی بھی محنت کش یا کسی بھی فرد کی اجرت 1 کروڑ 60 لاکھ تومان سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ 20 دنوں کا کام اور 10 دنوں کی چھٹی ہمارے بنیادی حقوق میں سے ہیں۔
ہم غلام نہیں ہیں: ہمیں کمپنیوں کی جکڑ بندی سے خود کو آزاد کرانا ہوگا۔ سپیشل اکنامک زون اور فری ٹریڈ زون کے غلامانہ قوانین کا بھی خاتمہ کیا جانا چاہیے۔
ہم شعبہ تیل کے کنٹریکٹ محنت کش، قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر، مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ادائیگی کرے۔ اس صورتحال کو برداشت کرنا ناممکن ہے اور ہم محنت کشوں اور ایران کے عوام کے سامنے احتجاج اور جدوجہد کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
اس بربریت اور غلامی کو جانا ہوگا۔
ابھی کے لیے حکومت کو فوری طور پر بنیادی ضروری اشیاء کو سبسڈائز کرنا ہوگا تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔
ہیلتھ انشورنس، مفت تعلیم اور رہائش ہم سب عوام کے حقوق ہیں اور ان پر فوری عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔
مزید برآں، ہم ریاستی جبر کو برداشت نہیں کر سکتے، اور ہماری جدوجہد کو روکنے کیلئے سیکورٹی فورسز کی مداخلت کو رُکنا ہوگا۔
منظم ہونا، احتجاج کرنا اور اکٹھا ہونا ہمارے بنیادی حقوق ہیں۔
آخر میں ہم محنت کشوں، اساتذہ اور اپنے طبقے کی دیگر مختلف پرتوں سمیت ان تمام لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہیں جو غربت اور بھوک کی آخری حدوں تک جا پہنچے ہیں: آئیے ان مشترکہ مطالبات اور ایک دوسرے کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کی بنیاد پر آپس میں اتحاد قائم کریں۔
آئیے اپنے عزیز پنشنروں کو یقین دہانی کرائیں کہ ہم ان کے احتجاجوں میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے، اور آئیے کہ ہم سب مل کر یہ نعرے بلند کریں:
محض سڑکوں پر نکل کر ہی ہم اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں!
روزگار اور وقار ہمارے بنیادی حقوق میں سے ہیں!
شعبہ تیل کے عارضی نوعیت کے محنت کشوں کے احتجاجوں کو منظم کرنے کی خاطر کونسلوں کو تعمیر کیا جائے!“
تجمع اعتراضی کارگران قرارداد موقت نفت وگاز و حفاری#اعتراضات_سراسری pic.twitter.com/k5nP96vZgx
— آنسوی دیوارها (@Irankargar_site) May 14, 2022
ایرانی سرمایہ داری: ایک بھیانک خواب
ایرانی آبادی کی اکثریت غربت میں زندگی گزار رہی ہے، حتیٰ کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بھی۔ افراطِ زر کی شرح 100 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جبکہ کم از کم اجرت میں محض 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ امریکہ کی معاشی پابندیوں کے باعث ایران عالمی منڈی سے کٹا ہوا ہے، جبکہ ایرانی سرمایہ دار ایرانی محنت کش طبقے کا شدید استحصال کر کے اپنی دولت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ملک کے دیوہیکل سماجی بحران کو کرونا وباء نے مزید شدید کیا ہے، حتیٰ کہ اس سال کے شروع میں بھی لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا۔
اردبیل مرغ نایاب شد#گرانی_افسارگسیخته pic.twitter.com/N0uRqUzRqd
— آنسوی دیوارها (@beyondthewalls2) May 11, 2022
اسلامی جمہوریہ کوئی حل پیش کرنے سے مکمل قاصر ہے۔ ہڑتالوں اور احتجاجوں کے تقریباً نہ تھمنے والے سلسلے، اور 2018ء سے تین بغاوتوں کا سامنا ہوتے ہوئے ریاست محنت کش طبقے کے بڑھتے ہوئے لڑاکا پن سے خوفزدہ ہے۔ ابھی تک بنیادی ضروری اشیاء پر سبسڈی دے کر وہ صورتحال کو کچھ حد تک قابو کرتے چلے آئے تھے۔ مگر اب ملک غیر اعلانیہ طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ عدم استحکام روکنے کی کوششیں دیوہیکل مقدار میں پیسے چھاپ کر کی گئی ہیں اور ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی ختم ہونے کی طرف گئے ہیں، جس سے معاشی بحران مزید بدتر ہو گیا ہے۔
بڑھتے ہوئے افراطِ زر کے پیشِ نظر سبسڈی دینے اور قیمتوں کو قابو کرنے کے کچھ اثرات مرتب نہیں ہو رہے۔ 2018ء میں، پچھلے صدر روحانی نے ضروری اشیاء کی درآمدات پر سبسڈی متعارف کرائی تھی (جس کی فہرست میں گندم، بڑا گوشت، چکن، تیل اور چاول سمیت 25 اشیاء شامل تھیں)۔ مگر اس سے محض خونخوار سرمایہ دار طبقے کو فائدہ پہنچا، جن کی دولت میں اضافہ ہوتا رہا۔ دوسری جانب محنت کشوں کو سبسڈائز اشیاء کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا، جنہیں اکثر خالی ہاتھ گھر واپس جانا پڑتا تھا۔
موجودہ رئیسی حکومت اس بات سے مکمل واقف ہے کہ اس صورتحال کو بالکل برقرار نہیں رکھا جا سکتا، جبکہ ایران کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر تاریخی کم ترین سطح پر ہیں، اور یوکرائن جنگ کے باعث قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے صورتحال کو مزید بد تر کیا ہے، اب حکومت غریب ترین گھرانوں کو کیش دے کر سبسڈی کی کٹوتیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اگرچہ اس منصوبے کے لاگو ہونے کے باوجود کروڑوں غریب اس تک رسائی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اس کا مطلب محنت کش طبقے اور غریبوں کے کندھوں کے اوپر افراطِ زر کا پورا بوجھ ڈالنا ہوگا، جنہیں پہلے بھی سبسڈی سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا معاشی بحران ایران کے اندر پسماندہ معیشت، ناکارہ اور ختم ہوتی ہوئی صنعتوں، کرپشن، اور اس کی اکیلے رہ جانے والی منڈی کے باعث کئی گنا شدت کے ساتھ اظہار کر رہا ہے۔
مزدور ہوں اکٹھے، تو ہار نہیں سکتے!
دسمبر 2017ء تاجنوری 2018ء کی بغاوت ایک اہم موڑ تھا، جب ایسی بے مثال تحریک دیکھنے کو ملی تھی جس میں سماج کی انتہائی مظلوم پرتیں شامل تھیں، جس میں تاریک مستقبل والے غصّے سے بھرے نوجوان ہر اول دستے میں شامل تھے۔ اس کے بعد طبقاتی جدوجہد کا ایسا دور شروع ہوا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ محنت کش طبقے کی ایسی کوئی پرت نہیں بچی جو ہڑتالوں اور احتجاجوں کے اندر بھرپور انداز میں شامل نہ رہی ہو۔
محض پچھلے سال ہی حکومت کو کئی تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا ہے؛ تیل اور گیس کے محنت کشوں کی ملک گیر ہڑتال، اساتذہ کی ملک گیر تحریک جس میں ہر مہینے کے اندر متعدد ملک گیر احتجاج دیکھنے کو ملے، خوزستان کے اندر بغاوت کو جنم دینے والے کسانوں کے احتجاج، اور اصفہان کے اندر کسانوں کے احتجاج جو اگلی بغاوت کے ابھار کے خوف سے فوری طور پر دبائے گئے۔
سب سے بڑی غیر سرکاری یونین ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی نے اساتذہ تحریک کی قیادت کی ہے۔ اس تحریک کو ایرانی سماج میں بہت مقبولیت ملی، جس کو ان دیگر مختلف غیر سرکاری ٹریڈ یونینز کی حمایت حاصل تھی جو پچھلے عرصے میں قائم کی گئی ہیں۔ فروری میں، اساتذہ نے دیوہیکل حمایت سے حوصلہ پا کر ملک گیر ہڑتالوں کی کال دیتے ہوئے مطالبات کے نہ منظور ہونے کی صورت میں غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی دھمکی دی۔
حکومت نے اس کو اپنے لیے خطرہ سمجھا، خاص کر محنت کشوں کی عمومی تحریک کے ابھار کے امکانات کے پیشِ نظر، اور اساتذہ کی مقامی اور ملکی قیادت کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کارکنان کو حراست میں لیا گیا۔ مگر حکومت کے جبر اور جھوٹ کے باوجود طبقاتی جدوجہد جاری ہے۔ 20 اپریل سے ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی نے ملک گیر احتجاجوں کی مہم کو منظم کیا ہے۔ شعبہ تیل کے محنت کشوں نے اپنی احتجاجی کمیٹی کی قیادت میں وقفے وقفے سے احتجاج منعقد کیے ہیں، جس میں انہوں نے حکومت کے کھوکھلے وعدوں کو مسترد کیا ہے۔ ایرانی محنت کش طبقہ اپنے تجربات سے سیکھ چکا ہے کہ ان کے پاس جدوجہد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
یومِ مئی کے آتے آتے طبقاتی جدوجہد سماجی دھماکے کی شکل اختیار کرتی جا رہی تھی۔ 2018ء کی تحریک میں ایک 26 سالہ جوان وریسلر (کُشتی باز) نوید کو گرفتار کیا گیا تھا اور 2020ء میں اسے سزائے موت دی گئی تھی، اس سال یومِ مئی کے قریب اس کے بھائی حبیب افکری نے ایک خط لکھا جو غیر سرکاری ٹریڈ یونینز کے کارکنان اور نوجوانوں نے وسیع پیمانے پر پھیلا دیا۔ اس خط سے سماج میں پائے جانے والے عمومی رجحان کا اظہار ہوتا ہے:
”اپنے ملک کے تمام اساتذہ اور محنت کشوں اور ان کے خاندانوں کو سلام۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اہم اور تاریخی گھڑی میں آپ نے اپنے احتجاجوں کے ذریعے امید کی کرن اور انصاف کی تلاش کو سڑکوں تک لایا ہے، آپ سے ہم آگہی اور مزاحمت کے اسباق حاصل کر رہے ہیں، جیسا کہ ہم ہمیشہ کرتے آئے ہیں، اور ہم آپ کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔
”اب چونکہ یومِ مئی قریب ہے جو محنت کشوں اور اساتذہ کا دن ہے، پہلے میں اساتذہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ ہم آپ کے شاگرد ہیں۔ ہم ہمیشہ آپ کی حمایت کرتے رہے ہیں اور آپ کے معاشی و سیاسی مطالبات کی تکمیل کی خاطر ہم آپ کے ساتھ بہتر مستقبل کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔
”میں اپنے محنت کش بہن بھائیوں سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں: عالمی یومِ مزدور مناتے ہوئے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ افکری برادران آپ کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔
”میں، حبیب افکری، محنت کش طبقے کے ہمدرد رکن کی حیثیت سے، ان تمام تکالیف کا سامنا کرتا رہا ہوں جن کا سامنا کرنے پر آپ کو مجبور کیا جا رہا ہے۔
”وارنٹ اور گرفتاریاں، تشدد، قید، اور دھمکیاں۔۔۔میں کئی مرتبہ ان سب کو دیکھ چکا ہوں، اس سے اساتذہ اور محنت کشوں کی تحریک دبنا تو دور، ان کی آوازیں مزید بلند ہونے کی طرف گئی ہیں، جو تمام عوام کو پہلے سے زیادہ صاف سنائی دے رہی ہیں۔“
یومِ مئی کو ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی نے تمام بڑے شہروں کے اندر ملک گیر احتجاج منعقد کیے۔ آزادانہ مزدور تحریک کی قوت سے خوب واقف ہوتے ہوئے بھی حکومت نے اس کا جواب 30 اساتذہ سمیت نوجوانوں اور ٹریڈ یونین کارکنان کو گرفتار کر کے دیا۔ البتہ اس دن گرفتاریوں اور غیر اعلانیہ مارشل لاء کے باوجود ایران بھر میں 70 احتجاج دیکھنے کو ملے۔ ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی پیچھے نہیں ہٹ رہی، جو مسلسل احتجاجوں کی کال دے رہی ہے۔ اس دوران تیل اور گیس کے شعبوں کے محنت کش پچھلے ہفتوں کے دوران وسیع ہوتے ہوئے احتجاج منعقد کر رہے ہیں، جو نئی ہڑتالی لہر کو بھی جنم دے سکتے ہیں۔
اصلاح طلبان آئیں یا اصول گرایان، ہمارے حالات نہیں بدلتے
ایرانی ریاست کو اپنے بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ 2018ء سے اپنی بقا کے لیے حکومت کا انحصار ننگے جبر پر بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلی ”معتدل“ روحانی حکومت۔۔۔جو انقلاب سے خوفزدہ تھی، خاص کر نومبر 2019ء کی آبان بغاوت کے بعد۔۔۔اپنے عوام دشمن اقدامات میں نرمی لائی تھی۔
اصول گرایان، ایرانی ریاست کے سب سے قدامت پرست دھڑے، نے 2021ء کے صدارتی انتخابات کے دوران سماج میں موجود عدم استحکام کا خود غرضانہ فائدہ اٹھایا، جنہوں نے خود کو ”مزدور دوست“ اور ”نجکاری مخالف“ کے طور پر پیش کیا۔ اس دھوکہ دہی کے باوجود اندازوں کے مطابق انتخابات میں انہیں محض ایک تہائی آبادی نے ووٹ ڈالا، جبکہ اصول گرایان دھڑے والا ابراہیم رئیسی فقط 23 فیصد آبادی کے ووٹ سے صدر منتخب ہوا۔
رئیسی، جو اس کے اپنے الفاظ میں ”غربت کے حقیقی اذیتوں سے واقف ہے“، اب عوام کی تنگ جیبوں کے اوپر حملے کر رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے پچھلی حکومت والی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو جاری رکھا ہوا ہے، اور واقعات نے اس سے پائی جانے والی خوش فہمیوں کو کافی حد تک دور کیا ہے اور مستقبل میں رہی سہی خوش فہمی بھی ختم ہو جائے گی۔ ابھرتی ہوئی طبقاتی جدوجہد کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت نے ریاست کو پوری طرح سے مسلح کر دیا ہے، اور شدید ہوتے جبر کا آغاز کیا ہے۔
عوام کے مسائل کا حل نہ تو اصلاح طلبان (معتدل) کے پاس ہے اور نہ ہی اصول گرایان (قدامت پرست) کے پاس۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایرانی محنت کش طبقے اور غریبوں کی اکثریت کے سامنے یہ بات واضح ہوتی رہی ہے۔ حکومت ان کے سامنے مزید ڈرامہ بازی نہیں کر سکتی۔ وہ بھی اس بات سے مکمل واقف ہیں اور محنت کش طبقے کا براہِ راست مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، سپاہِ پاسدارانِ انقلاب (حقیقتاً ردّ انقلاب) اسلامی کی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، اور پولیس کو منظم کرتے ہوئے ان میں پیراملٹری کو شامل کیا جا رہا ہے، جن کو انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کے تحت بھی لایا جا رہا ہے۔
ایرانی ریاست مردہ باد!
اگرچہ ایرانی محنت کش طبقے نے ملک گیر سطح کی غیر سرکاری مزدور تنظیمیں قائم کرنے کے لیے بہت بڑے قدم اٹھائے ہیں؛ ایرانی سرمایہ داری کی وحشت، بند گلی میں پھنسی حکومت، اور مسلسل جاری ہڑتال اور احتجاج ایرانی ریاست کا تختہ الٹنے کا تقاضا کر رہے ہیں!
نئی بغاوت کے ابھار کی صورت، جو جلد یا بدیر ہو کر رہے گی، غیر سرکاری ٹریڈ یونینز کو قائدانہ کردار ادا کرنے اور عام ہڑتال کی مہم چلانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ مہنگائی کے خلاف اس وقت جاری احتجاج تیزی کے ساتھ ملک گیر بغاوت کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ مگر تمام پچھلی بغاوتیں محنت کش طبقے کی منظم قوت کی عدم موجودگی کے باعث ہی ناکام ہوتی رہی ہیں۔
اگر ایسی قوت کے گرد کسی تحریک کا ابھار ہوا تو وہ نفرت انگیز ایرانی ریاست کا خاتمہ کرنے کی اہل ہوگی۔ محنت کش طبقے اور غریبوں کی متحدہ قوت کو سماج میں موجود کوئی بھی دوسری قوت نہیں روک سکے گی۔