|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
13 اپریل 2024ء کو ایران نے اعلان کیا کہ اس نے اسرائیل پر 300 سے زائد ڈرونز اور میزائیلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ اسی شام جو بائیڈن ایک پنپتے بحران کو محسوس کرتے ہوئے ڈیلاویر ریاست میں اپنے آرام دہ ساحل سمندر گھر سے وائٹ ہاؤس کی طرف روانہ ہو گیا۔ اسی رات صدر نے نیشنل سیکورٹی ٹیم سے وائٹ ہاؤس سیچویشن روم میں ملاقات کی تاکہ ہر لمحہ بدلتی صورتحال کا جائزہ جاری رکھا جائے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ویسے اسے اتنی مشقت کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس نے پہلے ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا۔ کسی گھسے پٹے ریکارڈ کی طرح بائیڈن کا رد عمل فوری اور متوقع تھا کہ:
”ایران اور اس کی پراکسیوں کے ذریعے اسرائیل کو درپیش سیکورٹی خطرات میں ہم (اسرائیل کے ساتھ) آہنی چٹان کی طرح کھڑے ہیں“۔
یہ اعلان تو خیر عوام کے لئے تھا۔ نجی طور پر وہ خوش بالکل نہیں تھا کیونکہ اس کی محدود عقل بھی سمجھ رہی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اب کوئی بھی ردعمل ایک وسیع علاقائی جنگ کو جنم دے سکتا ہے جس میں دیگر ممالک کے ساتھ امریکہ بھی گھسیٹا جا سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ایک عمومی جنگ میں امریکہ کا گھسیٹا جانا جس کاعالمی (اور امریکی) معیشت پر تباہ کن اثر پڑے گا، ایک ایسی صورتحال ہے جس کے بعد نومبر میں منعقد ہونے والے انتخابات میں بائیڈن کا دوبارہ منتخب ہونے کا کوئی چانس نہیں بچے گا۔ ویسے بھی دوبارہ منتخب ہونے کی امید اپنی موت آپ مر رہی ہے۔
اگرچہ اس کا دل تو بہت ہے کہ ”ایران سے نمٹا جائے“ اور اس کی حکومت میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ایران سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تڑپ رہے ہیں لیکن انتخابات اس کی مجبوری بنے ہوئے ہیں اور اس لیے وہ غزہ میں جاری خونی جنگ کے آغاز سے تہران کے ساتھ اعلانیہ تصادم سے کترا رہا ہے۔
غزہ میں عوام کا قتل عام پہلے ہی انتخابات میں بائیڈن کے دوبارہ منتخب ہونے کا چانس معدوم کر رہا ہے اور کئی کلیدی حلقوں میں اس کی حمایت تار تار ہو رہی ہے۔ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اور غزہ میں مکمل جنگ بندی کے حوالے سے ہٹ دھرمی نے مسلم اور نوجوان ووٹروں کو شدید مشتعل اور مایوس کیا ہے۔
اس وقت اس کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ ایک طرف وہ طوطے کی طرح اسرائیل کی مکمل حمایت کی رٹ لگائے جا رہا ہے جبکہ خطے میں جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کی سرتوڑ کوشش بھی کررہا ہے کیونکہ ناگزیر طور پر امریکہ ایسی جنگ میں براہ راست ملوث ہو جائے گا۔
اس کی کمزوری کو بھانپتے ہوئے ایرانیوں نے، جنہیں خود بھی امریکہ سے جنگ لڑنے کا کوئی شوق نہیں ہے، نپے تلے انداز میں اسرائیل کی اعلانیہ اور ننگی جارحیت کا جواب دیا جس کا مقصد ہی امریکہ ایران جنگ کو بھڑکانا تھا۔
نیتن یاہو کا ایجنڈہ
ایرانی حملہ متوقع تھا کیونکہ اس سے پہلے یکم اپریل کو اسرائیل دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے کونسلر سیکشن پر حملہ کر کے سات ایرانیوں کو ہلاک کر چکاتھا جن میں دو تجربہ کار کمانڈر بھی شامل تھے۔
جب نیتن یاہو نے اس حملے کا حکم دیا تو اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا؟ جواب واضح ہے۔ اس کی مسلسل کوشش ہے کہ خطے میں ایک جنگ برپا کی جائے جس کے نتیجے میں امریکہ اسرائیل کی حمایت میں براہ راست ملوث ہونے میں مجبور ہو جائے گا۔
ظاہر ہے کہ اس کوشش کا براہ راست تعلق غزہ میں مقبوضہ عوام پر مسلط اسرائیلی جنگ اور قتل عام سے ہے۔ اسرائیل کی فوجی مہم جوئی کے متوقع نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ چھ مہینوں بعد بھی اس کے اہداف پورے نہیں ہو سکے۔ حماس کو کچلا نہیں جا سکا ہے اور مغوی بھی بازیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
اس کے نتیجے میں نیتن یاہو کی حمایت ختم ہو چکی ہے۔ اسرائیل میں احتجاج مسلسل بڑھ رہے ہیں جن میں ہزاروں افراد فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں وہ یقینا شرمناک شکست سے دوچار ہو گا اور پھر ممکنہ طور پر اسے عدالت میں مقدمات بھی بھگتنے پڑیں گے۔
وہ اس وقت انتہائی مایوس کن صورت حال اور بیتابی کی کیفیت میں ہے۔ اس کے پاس غزہ میں فوجی آپشن ختم ہو چکے ہیں کیونکہ تقریباً پوری پٹی ہی ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے۔ اسے مجبوراً اپنی زیادہ تر فوجیں وہاں سے نکالنی پڑی ہیں۔ آخری ہدف جنوبی رفاہ شہر ہے جس میں اس وقت 15 لاکھ بھوکے اور خوفزدہ افراد محصور ہیں۔
لیکن غزہ کی عوام کے ہولناک حالات نے پوری دنیا میں لامتناہی اور دیوہیکل احتجاجوں کو جنم دیا ہے جنہوں نے اسرائیل کو مکمل طور پر تنہا کر دیا ہے اور اب امریکہ مجبوراً نیتن یاہو پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اب حملے بند کرے۔ اہداف کی تلاش میں نیتن یاہو کو ایک ہی حل ایران نظر آیا ہے۔
ظاہر ہے بائیڈن حکومت غزہ پٹی میں اس کے قتل عام کی فنڈنگ اور کمک جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اب یہ سب کچھ نیتن یاہو کے لئے کافی نہیں رہا۔ اس وقت اسے خطے میں ایک وسیع جنگ کی اشد ضرورت ہے جس میں امریکہ براہ راست ملوث ہو۔۔۔ایک ایسی جنگ جو امریکہ اور اس کے تمام اتحادیوں کو اعلانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا کر دے۔
یہ ضروری تھا کہ ایران کو مشتعل کر کے اسرائیل پر حملہ کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ وہ فوراً اپنے امریکی دوستوں کو مدد کے لئے پکارے۔ دمشق میں ایرانی کونسل خانے پر حملہ واضح طور پر اشتعال انگیزی تھی جس کا یہ ناگزیر نتیجہ سامنے آیا۔
اسے معلوم تھا کہ ایران جواب دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ دنیا میں کسی بھی ملک کا سفارت خانہ اس ملک کا علاقہ یا حصہ سمجھا جاتا ہے اور اس لئے کونسل خانے پر اسرائیلی حملہ ایران پر براہ راست حملہ تھا۔ اس طرح دانستہ طور پر ایسے واقعات کا ایک تسلسل چھیڑ دیا گیا جو اب ہمارے سامنے رونما ہو رہے ہیں۔
بائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ہفتے کی شام کو فون کال پر بات کی جبکہ دفاعی سیکرٹری لائیڈ آسٹن نے اپنے ہم منصب یواف گالانت سے بات کی اور دونوں حکومتوں نے اتفاق کیا کہ اگلے گھنٹوں اور دنوں میں ان کا براہ راست اور مسلسل رابطہ رہے گا۔
ان باہمی رابطوں میں کیا گفتگو ہوئی کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی تدبر کی تلقین کر رہے ہوں گے۔ لیکن یہ اپیلیں کتنی کارآمد ہوں گی ابھی دیکھنا باقی ہے۔ نیتن یاہو سے یہ بعید نہیں کہ وہ اپنی کھال بچانے کے لئے پورے خطے کو آگ و خون میں نہلا دے۔ اگر اس سے جو بائیڈن کے لئے کوئی مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو یہ اس کا درد سر نہیں ہے۔
تہران کی حکمت عملی
پچھلے دو ہفتوں سے کئی ممالک ننگی جارحیت کے باوجود ایران پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ”تدبر سے کام لیا جائے“۔ لیکن دمشق میں اسرائیلی حملے کی کوئی مذمت نہیں ہوئی۔۔۔اقوام متحدہ میں کوئی قرارداد، کوئی پابندی، کوئی ایک قدم کسی نے اٹھایا نہ اس کی سفارش کی۔
ایک مرتبہ پھر نام نہاد ”عالمی برادری“ کا دہرا معیار ننگا ہو گیا ہے۔ ایران، روس اور چین جیسے ممالک پر مسلسل ”قوانین کی بنیاد پر وضع عالمی نظم“ کو تباہ وبرباد کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
لیکن یہ نام نہاد قوانین بناتا کون ہے؟ یہ قوانین امریکہ بناتا ہے اور پوری دنیا میں ہر ملک کا یہ فرض ہے کہ وہ انہیں من و عن مانے۔ یہ سیدھی سادی بات ہے!
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ایک طویل عرصے تک ایران نے تمام تر اسرائیلی جارحیت کے باوجود حیران کن ضبط کا اظہار کیا ہے جن میں اس کے فوجی افراد کے مسلسل قتل سے لے کر جوہری پروگرام میں شامل 62 سائنسدانوں کا قتل بھی شامل ہے۔
اتفاق سے کوئی ایک ثبوت موجود نہیں ہے کہ پچھلے سال اکتوبر میں حماس کے حملے میں ایران ملوث تھا۔۔۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا امریکہ ہی نہیں بلکہ اسرائیل نے بھی اس وقت اعتراف کیا تھا۔
غزہ کی عوام پر قتل عام مسلط ہونے کے باوجود ایران نے کوئی عسکری قدم نہیں اٹھایا۔ لیکن اس مرتبہ تہران پر اپنی ساکھ بحال کرنا لازم ہو گیا تھا۔ یہاں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ ایران نے سب سے پہلے یہ سارا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا تھا۔
عالمی قانون میں عام طور پر سفارت خانوں اور ایسی تمام عمارات کا تحفظ اور استثنیٰ یقینی بنایا جاتا ہے۔ انہیں ناقابل دست درازی سمجھا جاتا ہے بلکہ انہیں اپنے ملک کی زمین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
دمشق میں ایرانی کونسل خانے پر حملہ 1961ء کے ویانا کنونشن میں وضع کئے گئے بنیادی اصولوں کی اعلانیہ خلاف ورزی تھا۔ یہ اقوام متحدہ کا فرض تھا کہ اس کی مذمت کی جائے۔ لیکن جب اس حوالے سے سیکورٹی کونسل کے سامنے ایک قراردار رکھی گئی تو اسے تین ممبران نے مسترد کر دیا۔۔۔امریکہ، برطانیہ اور فرانس۔
جب اقوام متحدہ نے ایک مرتبہ یہ بنیادی قدم اٹھانے سے انکار کر دیا تو ایرانی ریاست کے پاس اسرائیلی جارحیت کا متوازی جواب دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا۔
میزائیل حملے سے متعلق تمام شور شرابے اور ہیجان کے باوجود۔۔۔اسرائیل کی مسلسل جارحیت کے باوجود یہ پہلا موقع ہے کہ ایران نے اسرائیلی سرزمین پر براہ راست حملہ کیا ہے۔۔۔یہ حملہ یقینا متوازی تھا۔
اس حملے میں 300 ڈرون استعمال ہوئے۔ یہ ایک سخت حملہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ محض ظاہری شکل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر شاہد ڈرون تھے۔۔۔ایک بنیادی ماڈل جسے عام طور پر دوسری ریاست پر زیادہ شدید بمباری کرنے سے پہلے فضائی دفاع کو پرکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔۔۔شائد یہ درست بھی ہے۔۔۔کہ زیادہ تر ڈرونز اور میزائیلوں کو راستے میں ہی روک لیا گیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر کو امریکہ نے روکا تھا۔ شائد ہی کوئی موت واقع ہوئی ہو اور ایک فوجی اڈے کا بتایا جا رہا ہے جسے کچھ نقصان ہوا ہے۔
یہ عام معلومات ہیں کہ ایران کے پاس جدید اور پیچیدہ راکٹ اور میزائیل ہیں اور موجودہ حملے نے اسرائیلی زمین کے ایک بڑے حصے کا احاطہ بھی کیا تھا۔ پھر یہ سب کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں اور اسرائیلیوں کو حملے سے پہلے ہی بتایا جا چکا تھا۔ اس وجہ سے امریکیوں کو اپنا فضائی دفاعی نظام اتنے موثر انداز میں استعمال کرنے کا موقع مل گیا جس نے نقصان کو بالکل کم کر دیا۔
اس لئے اس حملے کو ایسے دیکھنا چاہیے کہ ایران نے اسرائیل کو وارننگ دی ہے۔ اقوام متحدہ میں موجود سفارتی عملے نے ایک پیغام شائع کیا ہے جس کے مطابق:
”اقوام متحدہ چارٹر میں آرٹیکل 51 کے تحت جائز دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے ایران کی فوجی کاروائی دمشق میں ہمارے سفارتی حدودورقبہ کے خلاف صیہونی ریاست کی جارحیت کا ردعمل تھی۔ اس معاملے کو حل شدہ سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اسرائیلی ریاست نے ایک اور غلطی کی تو ایران کا ردعمل زیادہ شدید ہو گا۔ یہ ایران اور بدمعاش اسرائیلی ریاست کے درمیان ایک لڑائی ہے جس سے امریکہ کو ہر صورت دور رہنا چاہیے!“۔
اس پیغام کا متن یہ ہے کہ فی الحال ہم اسی کاروائی پر اکتفا کر رہے ہیں، ہم مزید اشتعال انگیزی نہیں چاہتے اور اب فیصلہ اسرائیل کے سر ہے۔
ایرانیوں نے خطے میں دیگر ممالک کو بھی سخت خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل کے دفاع میں انہوں نے ڈرونز گرا کر مداخلت کی تو وہ ایران کے لئے جائز ہدف سمجھے جائیں گے۔
غزہ میں جاری قتل عام کے حوالے سے بے حسی اور مفلوجی کا مظاہرہ کرنے والی اردنی ریاست اس وقت شدید عوامی دباؤ کا شکار ہے۔ اس نے پہلے اعلان کیا کہ وہ ایرانی ڈرونز کو مار گرائیں گے لیکن بعد میں پریس ریلیز جاری کر کے رپورٹ سے ہی انکار کر دیا!
حوثیوں پر امریکی اور برطانوی فضائی بمباری سے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا ہے۔ علاقے میں تجارتی بحری جہازوں پر حملے مسلسل جاری ہیں اور ان میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ہفتے کے دن پاسداران انقلاب نے اسرائیل سے متعلق ایک بحری جہاز قبضے میں لے لیا جو آبنائے ہرمرز (Strait of Hormuz) سے گزر رہا تھا۔ یہ بھی ایک تنبیہ ہے۔
منافقانہ سنگت (Chorus)
بائیڈن نے اعلانیہ کہا ہے کہ وہ اس لڑائی میں مزید بڑھوتری نہیں چاہتا۔ اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ ”ہم اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کی حمایت اور فنڈنگ جاری رکھیں گے اور ہم کسی اور ملک کو اس کام میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے“۔
لیکن یہ غزہ کی عوام کا مسلسل قتل عام ہی ہے جو خطے کی عوام کو شدید مشتعل کر رہا ہے۔ بائیڈن نے اسرائیلی جارحیت کے مظلوموں سے ہمدردی جتانے کی کوشش کی ہے (جبکہ نیتن یاہو کو اس خون ریزی کے لئے مسلسل ہتھیار اور پیسے مل رہے ہیں) جسے پوری دنیا نے جھوٹ، فریب اور کھوکھلا قرار دے دیا ہے۔
بائیڈن کی ان منافقانہ اور گھٹیا حرکتوں سے بچوں کے مشہور زمانہ لکھاری لیویس کیرول کی شہرہ آفاق کہانی ”ایلس ان ونڈرلینڈ“ یاد آ جاتی ہے جس میں ایک کردار والرس (ایک سمندری جانور۔ مترجم) نوجوان سیپیوں کو اپنے ساتھ سیر سپاٹے کی دعوت دیتا ہے اور پھر انہیں اپنے دوپہر کے کھانے میں استعمال کرتے ہوئے کھا جاتا ہے۔
”والرس نے کہا ’میں تمہارے لئے آنسو بہا رہا ہوں‘
’مجھے گہری ہمدردی ہے‘
آہ و زاری کرتے اور آنسو بہاتے
اس نے سب سے بڑے حجم والوں (سیپیوں) کو علیحدہ کیا،
اس دوران وہ اپنی روتی آنکھوں کو رومال سے صاف کرتا رہا۔“
اسی غلیظ اور مکروہ منافقت کا اظہار امریکہ کے تمام حامی کر رہے ہیں جو ایرانی حملے کی پیشہ ورانہ منافقت کے ساتھ باآواز بلند مذمت کر رہے ہیں۔ توقعات کے مطابق سب سے پہلے برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے لائن میں کھڑے ہو کر ماتم کا آغاز کیا کہ ”میں سخت ترین الفاظ میں اسرائیل کے خلاف ایرانی ریاست کے لاپرواہ حملے کی مذمت کرتا ہوں“ جس نے ”خطے میں تناؤ میں اضافے اور عدم استحکام (کا خطرہ) بڑھا دیا ہے۔ ایران نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے ہی باغیچے میں انتشار بونے کے درپے ہے“۔
”برطانیہ اسرائیل اور اپنے تمام علاقائی اتحادیوں بشمول اردن اور عراق کی سیکورٹی کے لئے کھڑا رہے گا۔
”اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہم تیزی سے صورتحال کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مزید اشتعال انگیزی کو روک رہے ہیں۔ کسی کو مزید خون خرابہ دیکھنے کا شوق نہیں ہے۔“
عالمی امن کی سرتوڑ کوششوں میں رشی سوناک نے فوراً اعلان کیا کہ وہ RAF (رائل ایئرفورس) کو خطے میں بھیج رہا ہے تاکہ جو بھی اس سے متفق نہ ہوا اسے بمباری اور گولیاں برسا کر صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے!
اس کے جذبات کی فوری ترجمانی اس کے مجرم ساتھی ”لیبر پارٹی“ کے قائد سر کیئر سٹارمر نے کی۔
جوسیف بوریل نے بھی اس ساری سنگت میں چیختے ہوئے کہا کہ ”یورپی یونین سخت ترین الفاظ میں اسرائیل پر ناقابل برداشت ایرانی حملے کی مذمت کرتا ہے۔ یہ ایک بے مثال اشتعال انگیزی ہے اور پورے خطے کی سیکورٹی کے لئے سنجیدہ خطرہ ہے“۔
سب سے زیادہ دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک شخص نے دمشق میں اسرائیلی حملے کے حوالے سے ایک لفظ نہیں بولا ہے۔ یہ کتنی عجیب و غریب بات ہے کہ اسرائل جو بھی سرگرمی کرتا ہے اس سے خطے کی سیکورٹی کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا!
ان سب نے اسرائیل کے ”دفاع کے حق“ کی 7 اکتوبر حملے کے بعد سے مسلسل حمایت کی ہے۔ لیکن پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ ان کے مطابق یہی اصول ایران کے لئے نہیں ہے!
اگر ایلس موجود ہوتی تو کہتی ”عجیب سے عجیب تر!“
معاملہ ختم ہو گیا؟
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریز نے ایک اعلامیہ جاری کیا کہ:
”میں سخت ترین الفاظ میں آج شام اسرائیل پر اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے بڑے پیمانے پر لانچ کئے گئے حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ یہ ایک سنجیدہ اشتعال انگیزی ہے۔ میں فوری طور پر جارحیت کی بندش کا مطالبہ کرتا ہوں۔ میں بہت زیادہ پریشان ہوں کہ پورے خطے میں ایک ہولناک تباہی و بربادی کا حقیقی خطرہ بڑھ رہا ہے۔ میں تمام فریقین سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ بھرپور ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کا نتیجہ مشرق وسطیٰ میں مختلف جگہوں پر بڑے فوجی تصادم ہو۔ میں مسلسل کہتا رہا ہوں کہ یہ خطہ اور پوری دنیا ایک اور جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے“۔
ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کو ایران کے مستقل مشن نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے اسرائیل کے خلاف فوجی کاروائی اقوام متحدہ کے آرٹیکل 51 کے تحت کی ہے جو ان کے ملک کو شام میں ایرانی کونسل خانے پر جان لیوا اسرائیلی حملے کے بعد حق دفاع فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ اسرائیل پر حملے کو ختم سمجھا جائے۔
لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ”اگر اسرائیل ایک اور غلطی کرتا ہے تو اسلامی جمہوریہ ایران کا ردعمل زیادہ شدید ہو گا“۔ مشن نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے دمشق میں ایرانی کونسل خانے پر اسرائیلی ”جارحیت“ کی مذمت کی ہوتی اور اس سے متعلق افراد پر مقدمہ چلایا ہوتا تو ”شائد ایران کو (اسرائیل کو) سزا دینے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی“۔
پاسداران انقلاب نے دو مختلف اعلامیوں میں کہا ہے کہ انہوں نے ”دسیوں میزائل اور ڈرون“ لانچ کئے اور فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی فوج کی اہم فوجی تنصیبات کو ”کامیابی سے نشانہ بنایا اور تباہ کیا“ جو ”کئی اسرائیلی جرائم“ میں ملوث تھے۔
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ معاملہ اب ختم ہو چکا ہے۔ لیکن یہ کوئی واضح بات نہیں ہے۔ چینل 12 ٹی وی کے مطابق اسرائیلی کابینہ میں ذرائع نے بتایا ہے کہ ایرانی حملے کا ”قابل ذکر“ جواب دیا جائے گا۔ نیتن یاہو یکم اپریل کو دمشق حملے سے یہی حاصل کرنا چاہتا تھا۔
CNN کے مطابق بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر ایرانی حملے کو دمشق میں اسرائیلی حملے کے موازنے میں ”غیرمتوازی“ سمجھتی ہے۔ واشنگٹن سے نیتن یاہو کی تمام امیدوں کے برعکس یہ ردعمل بہت ہی ٹھنڈا اور مایوس کن ہے۔
ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ واشنگٹن میں کچھ لوگ ہیں جو ایران پر براہ راست حملے کا کوئی بھی جواز تلاش کرنے کو بے چین ہیں۔ لیکن اس حملے کے نتیجے میں پورے خطے میں دیوہیکل عدم استحکام پیدا ہو جائے گا۔ امریکی سفارت کاری اس وقت شدید ہیجان میں ہے کہ اپنے ہی کئے دھرے مسئلے سے کیسے نکلا جائے۔
ایک طرف خطے میں واحد قابل اعتماد رہ جانے والے اتحادی اسرائیل کی ہر ممکن حمایت مجبوری ہے اور دوسری طرف خطے میں ایک جنگ کو روکنا ناگزیر ہے ورنہ ساری صورتحال بے قابو ہو کر انتہائی بھیانک شکل اختیار کر سکتی ہے۔
امریکی سامراج کے لئے ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ خطے میں عوام کا مسلسل بڑھتا غم و غصہ قابو کیا جائے تاکہ کہیں عوام بے قابو ہو کر امریکی اتحادی رجعتی عرب ریاستوں کو خش و خاک کی طرح بہا نہ لے جائے۔
اس وقت واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ ان میں سے کچھ ریاستیں پوری صورتحال سے خوفزدہ ہیں۔ مثلاً خلیجی ریاستوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ امریکہ کو ان کی سرزمین پر موجود فوجی اڈوں یا فضائی حدود کو ایران پر حملے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
امریکہ اور برطانیہ نے خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا دیا ہے۔ پاسداران انقلاب نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ یا اسرائیل یا کسی بھی دوسرے ملک کی جانب سے کسی بھی کاروائی کا ایران فوری اور متوازی جواب دے گا۔
مشرق وسطیٰ میں جنگ کی آگ مسلسل دہک رہی ہے اور ایسے کئی افراد موجود ہیں جو بڑی تیزی سے اس دہکتی آگ کو جنگل کی آگ میں تبدیل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔