مارکسزم کے انقلابی فلسفے کا تعارف

|تحریر: ایلن ووڈز|
|ترجمہ: صبغت وائیں، اختر منیر|

(زیر نظر تصنیف امریکہ میں مارکسسٹ بکس کی تازہ ترین اشاعت ”مارکسزم کا انقلابی فلسفہ“ کا تعارف ہے جو ایلن ووڈز نے لکھا ہے۔)

ہمارے مارکسی سکولوں میں جدلیاتی مادیت کے موضوع پر ہونے والی ڈسکشنز کو سننے کے لیے درج ذیل لنکس پہ کلک کریں۔

1۔ مارکسی سکول، کشمیر 2019ء
2۔ مارکسی سکول، کشمیر 2023ء

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

 

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آئی ایم ٹی کے امریکی سیکشن کے کامریڈ مارکسی فلسفے پر بنیادی تحریروں کا ایک مجموعہ شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انسانی عمل کے کسی بھی شعبے کے لیے ایک خاص بنیادی علم اور مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بات بڑھئی کے کام سے لے کر دماغ کی جرّاحی تک صادق آتی ہے۔ یہ خیال کہ ہم بغیر سیکھے کام چلا سکتے ہیں، روزمرہ زندگی کے تجربات سے بالکل متصادم ہے۔

اگر میں کسی دندان ساز کے پاس جاؤں اور وہ مجھ سے کہے، ”میں نے دندان سازی کبھی نہیں پڑھی اور مجھے اس کے بارے میں کچھ علم نہیں، لیکن اپنا منہ کھولو میں کوشش کرتا ہوں“، تو میرا خیال ہے کہ میں فوراً وہاں سے بھاگ نکلوں گا۔ اگر میرے گھر کا مرکزی حرارتی نظام خراب ہو جائے اور ایک آدمی میرے گھر آ کر اپنے بیگ سے ہتھوڑا نکالتے ہوئے کہے، ”مجھے یہ کام آتا تو نہیں لیکن مجھے اپنا مرکزی حرارتی نظام دکھائیں میں اسے تکے سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہوں“، تو میں اسے یقینی طور پر گھر سے باہر جانے کا راستہ دکھاؤں گا۔

زیادہ تر افراد کوانٹم میکانیات (Quantum Mechanics) یا دماغ کی جراحی سے متعلق ان شعبوں کے مخصوص علم کے بغیر کسی قسم کی رائے دینے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ مگر جب بات مارکسزم کی آتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے کہ ہر کوئی، مارکس اور اینگلز کا لکھا ہوا ایک لفظ بھی پڑھے بغیر، مارکسزم کے متعلق اپنی رائے دے سکتا ہے۔ یہ بات نام نہاد تدریسی ماہرین پر باقی لوگوں سے زیادہ صادق آتی ہے جن کے متعلق یہ صاف نظر آتا ہے کہ انہوں نے مارکس کو نہیں پڑھا، یا اگر تھوڑا بہت پڑھا بھی ہے تو اس کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھ پائے۔

یہ صورتحال کافی افسوسناک ہے، مگر اس سے بھی زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو خود کو مارکسی کہلواتے ہیں وہ بھی مارکس اور اینگلز کی تحریروں سے بالکل اسی طرح لاعلم ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سارے لوگ جو خود کو سکہ بند مارکسی تصور کرتے ہیں، وہ بھی مارکسی نظریے کو گہرائی سے دیکھنے اور اس کے تنوع کو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ وہ زیادہ تر سطح پر ہی رہنا پسند کرتے ہیں اور ان کا انحصار نعرے بازی اور سیاق و سباق سے کٹے ہوئے رٹے رٹائے اقتباسات پر ہوتا ہے، جن کا حقیقی مواد ان کے لیے ایک بند کتاب ہی رہتا ہے۔

بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مارکسزم کا علم رکھتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ چند بنیادی تصورات سے واقف ہو جاتے ہیں، لیکن واقف ہونا سمجھنا نہیں ہے، کیونکہ وہ محض واقف ہونا ہے۔ بہت عرصہ پہلے میں نے ہیگل کی لکھی ہوئی ایک بات پڑھی تھی جس کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔ مجھے اب یاد نہیں آ رہا کہ میں نے یہ کہاں پڑھا تھا، پر میں یاداشت کے سہارے اسے دہرائے دیتا ہوں: ”جان لینا سمجھ لینے کے برابر نہیں ہے۔“

اس دعوے کی سب سے بہترین تصدیق ہمیں فلسفے جیسے اہم شعبے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اکثر یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ مارکسزم کا آغاز ایک فلسفے کے طور پر ہوا تھا اور مارکس اور اینگلز کے نظریات سمجھنے کے لیے مارکسزم کا فلسفیانہ طریقہ کار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

لیکن یہاں ہمیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جدلیات کا سب سے مربوط علم ہیگل کی تحریروں میں چھپا ہے، خاص طور پر اس کی طویل تصنیف ”منطق کی سائنس“ میں۔ لیکن جس انداز میں ہیگل نے اپنے خیالات کو پیش کیا، اینگلز کے مطابق ”تجریدی اور کٹھن انداز میں“، اس سے قاری جلد ہی مایوس ہو جاتا ہے۔ لینن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ منطق کی سائنس کا مطالعہ سر درد حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

مارکس نے جدلیاتی مادیت پر لکھنے کا ارادہ کر رکھا تھا تاکہ ہیگل کے خیالات کا منطقی نچوڑ عام قاری تک پہنچایا جا سکے۔ بدقسمتی سے وہ ایسا کرنے سے پہلے ہی وفات پا گیا۔ مارکس کے انتھک ساتھی فریڈرک اینگلز نے جدلیاتی فلسفے پر کچھ بہترین تصانیف لکھیں، جن میں ”لڈوگ فیورباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ“، ”ردِ ڈوہرنگ“ اور ”فطرت کی جدلیات“ شامل ہیں۔

یہ آخرالذکر کتاب مارکسی فلسفے پر ایک طویل کتاب کی بنیاد کے طور پر لکھی گئی تھی، لیکن بدقسمتی سے اینگلز مارکس کی وفات کے بعد ’سرمائے‘ کی دوسری اور تیسری جلد مکمل کرنے میں لگ گیا، جسے مارکس نامکمل چھوڑ گیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس موضوع پر مارکس، اینگلز، لینن، ٹراٹسکی اور پلیخانوف کی تحریروں میں ہمیں ایک بڑی مقدار میں منتشر مواد مل جاتا ہے، لیکن یہ تمام معلومات اخذ کرنے کے لیے ایک بہت طویل وقت درکار ہو گا۔

بیس سال پہلے اپنے ساتھی اور استاد ٹیڈ گرانٹ کے ساتھ مل کر میں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ”مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس“ ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے یہ اینگلز کی ”فطرت کی جدلیات“ کے بعد جدید سائنس کے نتائج کو جدلیاتی مادیت کے طریقہ کار سے پرکھنے کی پہلی کوشش تھی۔ لیکن مارکسی فلسفے کی ایک مربوط تشریح کا کام ابھی بھی باقی ہے۔

کچھ عرصے سے میں مارکسی فلسفے سے متعلق ایک کتاب لکھنے کا منصوبہ بنا رہا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس سے ہیگل کے خیالات کو ایک عام قاری تک پہنچانے میں کافی مدد ملے گی۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ اور کاموں کی وجہ سے یہ کام تاخیر کا شکار ہو گیا، جن میں سرفہرست ٹراٹسکی کی کتاب ”سٹالن“ کی تکمیل کا کام تھا۔ مجھے امید ہے کہ میں جلد ہی یہ کام مکمل کر لوں گا، لیکن تب تک یہ مجموعہ مارکسی فلسفے کو سمجھنے کی خواہش رکھنے والے سائنسی سوشلزم کے طالب علموں کے لیے نہایت مفید ثابت ہو گا۔ میں اس اشاعت کا نہایت خوش دلی سے خیر مقدم کرتا ہوں۔

جدید فلسفے کا زوال

آج کل زیادہ تر افراد کا فلسفے کو لے کر رویہ لا تعلقی اور یہاں تک کہ تضحیک پر مبنی ہے۔ جہاں تک جدید فلسفے کا تعلق ہے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لفظیات اور معنی سے متعلق ان کی بلاوجہ کی مغز ماری اور شور و غل قرونِ وسطیٰ کے علماء کے ان پیچیدہ مباحث سے مشابہت رکھتا ہے جس میں وہ اس بات پر دلائل دیا کرتے تھے کے فرشتوں کی جنس کیا ہے اور ایک سوئی کی نوک پر بیک وقت کتنے فرشتے رقص کر سکتے ہیں۔

گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے فلسفے کا میدان ایک بنجر صحرا کی مانند ہے جہاں پر محض کہیں کہیں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہاں کسی قسم کی آگہی تلاش کرنا بالکل بے کار ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ زیادہ برا کیا ہے: نام نہاد مابعد جدیدیت کے ناقابل برداشت ڈھونگ یا اس کے مواد کا واضح کھوکھلا پن۔ ماضی کے علم و آگہی کے عظیم خزانے اب بالکل ناپید ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

حالیہ مابعد جدیدیت کے جنون کے ساتھ بورژوا فلسفہ اپنی پستی کو پہنچ گیا ہے۔ اس روایت کے کھوکھلے پن کے باوجود اس کے ماننے والے انتہائی مغرور اور متکبر ہیں، اور تو اور وہ ماضی کے عظیم فلسفیوں کی تضحیک سے بھی باز نہیں رہتے۔ جدید فلسفے کے ’گنداب دان‘ کا معائنہ کرنے پر ہیگل کے وہ الفاظ یاد آ جاتے ہیں جو اس نے ”خیال کی مظہریات“ (Phenomenology of Mind) کے ابتدائیے میں لکھے تھے: جو چیز انسانی روح کی ضروریات کی تسکین کرتی ہے، اس کے کھو جانے سے ہی ہم اس کی کمی سے ہونے والے نقصان کو ماپ سکتے ہیں۔

فلسفے کی تضحیک یا اس سے بالکل لاتعلقی کا اظہار حق بجانب ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آج کل کی فلسفیانہ دلدل سے دور ہٹنے کے ساتھ ساتھ لوگ ماضی کے عظیم مفکرین سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں جو موجودہ اتائیوں کے برعکس انسانی فکر کی عظمت کا اظہار تھے۔ یونانیوں سے، سپائنوزاسے اور ہیگل سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، جنہوں نے مارکسی فلسفے کی غیر معمولی کامیابیوں کی راہ ہموار کی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ ہمارے انقلابی ورثے کا ایک اہم حصہ ہیں۔

تجربیت (Empiricism) بمقابلہ جدلیات

عمومی طور پر اینگلوسیکسن دنیا (انگلستانی تہذیب جس کا آغاز جرمن قبائل سے ہوا تھا) فلسفے کے لیے انتہائی دشوار گزار ثابت ہوئی ہے۔ کسی حد تک ان کا کوئی فلسفہ ہے بھی تو امریکیوں اور ان کے برطانوی رشتے داروں نے اپنی سوچ کی دسترس کو تجربیت پسندی (Empiricism) اور اس کی جوڑی دار عملیت پسندی (Pragmatism) کی تنگ چار دیواری تک محدود کر رکھا ہے۔ وہ نظریاتی کردار رکھنے والی وسیع تعمیم (Generalization) کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

فلسفہ تجریدی سوچ (Abstract Thought) کا نام ہے، لیکن اینگلوسیکسن روایت کے لیے فلسفیانہ تعمیم ایک اجنبی کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ تجربیت پسندی کی روایت کے لیے تعمیم بالکل ناقابل برداشت ہے۔ یہ ہمیشہ ٹھوس حقائق پر مصر رہتی ہے، مگر اپنی تنگ نظری کے باعث ہمیشہ اکیلے اکیلے درختوں میں کھو کر پورے جنگل کو نظر انداز کر دیتی ہے۔

اپنے ابتدائی دور میں تجربیت پسندی نے انسانی سوچ اور سائنس کی نشوونما میں انتہائی ترقی پسندانہ اور یہاں تک کہ انقلابی کردار بھی ادا کیا تھا۔ مگر تجربیت پسندی ایک خاص حد تک ہی کار آمد ہوتی ہے۔ سولہویں صدی کے اختتام اور سترویں صدی کے آغاز میں تجربیت پسندانہ مکتبہ فکر، جسے سر فرانسس بیکن کے نام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، نے آگے آنے والے دور پر انتہائی متضاد اثرات مرتب کیے۔

ایک جانب تو مشاہدے اور تجربے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس نے سائنسی تحقیق کو مہمیز دی اور دوسری جانب اس نے تنگ نظر تجربیت پسندانہ نقطہ نظر کو جنم دیا، جس سے فلسفیانہ فکر کی نمو پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور یہ سب سے بڑھ کر امریکہ اور برطانیہ میں ہوا۔ نظریے سے یہ خاص اینگلوسیکسن نفرت، تنگ نظر تجربیت پسندی کی طرف رجحان، ”حقائق“ کی غلامانہ پرستش اور تعمیم کو قبول نہ کرنے کی ضد برطانیہ اور اسی تسلسل میں، امریکہ کی تعلیم یافتہ ذہنیت پر اتنے طویل عرصے تک مسلط رہی ہے کہ اس نے ایک گہرے تعصب کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔

ایک تجربیت پسند مفکر کے لیے بیرونی اظہار کے علاوہ کچھ بھی وجود نہیں رکھتا۔ یہ طرز فکر ہمیشہ چیزوں کا ان کی یکتائی، بے حرکتی اور ]ارد گرد سے[ کاٹ کر معائنہ کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ چیز کا نہیں بلکہ محض اس چیز کے ایک تصور کا معائنہ کر پاتے ہیں۔ حسیاتی مشاہدے کو انتہائی پست اور بنیادی تصور کیا جاتا ہے۔ روزمرہ کے لیے تو سوچ کا یہ انداز کارآمد ہو سکتا ہے، لیکن جب مزید پیچیدہ عوامل کی بات آتی ہے، تو تجربیت پسندی کی تنگ نظری سچ کو سمجھنے کی خواہش رکھنے والے دماغوں کے لیے ایک رکاوٹ بن جاتی ہے۔

سچ سے ہماری مراد وہ انسانی علم ہے جو معروضی دنیا، اس کے قوانین اور خصوصیات کی درست ترجمانی کرے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کا انحصار ایک فاعل (Subject) پر نہیں ہے، جیسا کہ بشپ برکلے، ہیوم اور انگریزی تجربیت پسندی کے دوسرے ابتدائی نمائندوں نے تصور کیا تھا، جو اس کے نتیجے میں ناگزیر طور پر موضوعی عینیت پرستی (Subjective Idealism) کی دلدل میں جا گرے۔

”حقائق“ کا تقاضہ

بہت سے لوگ صرف حقائق کا حوالہ دے کر ہی خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ مگر ”حقائق“ خود اپنا انتخاب نہیں کرتے۔ ہمیں کسی ایسے واضح طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں ظاہر سے آگے دیکھنے اور ”حقائق“ کے پس منظر میں موجود عوامل کو پرکھنے کی صلاحیت دے۔ اس کے برعکس دعووں کے باوجود، کسی پیشگی تصور کے بغیر ”حقائق“ سے آغاز کرنا ناممکن ہے۔ ایسی خیالی معروضیت کا نہ کبھی وجود تھا اور نہ ہی کبھی ہو گا۔

حقائق تک آتے ہوئے ہم اپنے تصورات اور مقولات (Categories) ساتھ لاتے ہیں۔ یہ شعوری بھی ہو سکتے ہیں اور غیر شعوری بھی، مگر یہ ہمیشہ ہوتے ہیں۔ جنہیں یہ لگتا ہے کہ وہ فلسفے کے بغیر ہنسی خوشی کام چلا رہے ہیں، جیسا کہ بہت سارے سائنسدان، وہ غیر شعوری طور پر محض اس دور کے ”سرکاری“ فلسفے اور اسی سماج کے تعصبات کو دہرا رہے ہوتے ہیں جس میں وہ رہتے ہیں۔ اس لیے سائنسدانوں اور عقل و فہم رکھنے والے سب افراد کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ دنیا کو تسلسل میں دیکھنے کی سعی کرتے ہوئے ایک مربوط فلسفے کی تلاش کریں جو چیزوں اور عوامل کو سمجھنے کے لیے ایک کارآمد اوزار کا کام دے۔

حسیاتی ادراک سے اخذ کیے گئے نتائج فرضی ہوا کرتے ہیں، جنہیں مزید ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک لمبے عرصے تک مشاہدے اور تجربات کے بعد ہم اس قابل ہو پاتے ہیں کہ کسی خیال کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق کر سکیں۔ ہمیں مختلف مظاہر کے بیچ ناگزیر تعلقات کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں کچھ مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ خاص نوع یا گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

انسانی سوچ کا عمل جزو سے کل/ مخصوص سے یونیورسل (Particular to the Universal) کا سفر کرتا ہے، مگر یہ کل سے جزو/ یونیورسل سے مخصوص کا سفر بھی کرتا ہے، اس لیے انہیں ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کرنا درست نہیں۔ جدلیاتی مادیت کی نظر میں استقرا (Induction) اور استخراج (Deduction) آپس میں بے جوڑ [جو ایک وقت میں اکٹھے نہیں ہو سکتے: مترجم] نہیں ہیں، بلکہ سوچ بچار کے جدلیاتی عمل کے مختلف پہلو ہیں جو لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔

آخری تجزیے میں استقرائی استدلال (Inductive Reasoning) ہمارے تمام علم کی بنیاد ہے، کیونکہ ہم جو کچھ بھی جانتے ہیں وہ ہم نے معروضی دنیا کے مشاہدے اور تجربے سے سیکھا ہے۔ لیکن ذرا قریب سے غور کرنے پر ہمیں صرف استقرائی طریقہ کار کی حدود و قیود کا اندازہ ہوتا ہے۔ جتنے بھی حقائق کا تجزیہ کر لیا جائے، محض ایک مختلف مشاہدے سے ہمارے اخذ کیے گئے عمومی نتیجے کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر ہم نے ایک ہزار سفید ہنس دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا ہو کہ تمام ہنس سفید ہوتے ہیں اور پھر ہم ایک کالا ہنس دیکھ لیں، تو ہمارا نتیجہ درست نہیں رہتا۔ ”فطرت کی جدلیات“ میں اینگلز تجربیت پسند مکتبہ فکر کے متناقضے (Paradox) کی نشاندہی کرتا ہے، جنہیں لگتا تھا کہ انہوں نے مابعدالطبعیات کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا ہے، مگر حقیقت میں وہ آخر کار ہر قسم کے توہم پرستانہ خیالات کو تسلیم کر بیٹھے:

”[یہ رجحان] جو محض تجربات پر زور دیتا ہے اور فکر کو تکبرانہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔۔۔ فکر کے کھوکھلے پن کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔“

”تاریخ کا فلسفہ“ (Philosophy of History) کے تعارف میں ہیگل ان تاریخ دانوں کی درست طور پر مذمت کرتا ہے جو خود کو محض حقائق تک محدود رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ برطانیہ میں عام پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے ”تدریسی معروضیت“ (Academic Objectivity) کے پردے کے پیچھے اپنے تعصبات کو کھلی چھوٹ دی ہوتی ہے:

”ہمیں تاریخی لحاظ سے آگے بڑھنا چاہیے، تجربیت کے ساتھ۔ اور بہت ساری حفاظتی تدابیر کے ساتھ ہمیں یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ہم نام نہاد تاریخ دانوں کے ہاتھوں گمراہ نہ ہو جائیں۔۔۔ جو اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا الزام وہ فلسفیوں کو دیتے ہیں۔ ماضی کے واقعات میں اپنی طرف سے کچھ شامل کرنا۔۔۔ ہمیں اسے پہلی شرط قرار دینا چاہیے کہ ہم ایمانداری سے وہ سب کچھ شامل کریں جو تاریخی ہے، لیکن ”ایمانداری“ اور ”شامل کرنا“ جیسی غیر واضح اصطلاحات میں ابہام پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک عام ”غیر جانبدار“ تاریخ دان، جو یہ سمجھتا اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ صرف مشاہدانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے؛ جو ملنے والے شواہد کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے، وہ بھی کسی طور اپنی سوچ بچار کی قوت کے لحاظ سے غیر فعال نہیں ہے۔ وہ اپنے مقولات اپنے ساتھ لاتا ہے اور بصیرت کے آگے پیش کیے گئے مظاہر کو انہی کی مدد سے دیکھتا ہے اور خاص طور پہ جو کچھ سائنس کے نام پر کیا جاتا ہے، اس میں یہ ناگزیر ہے کہ استدلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، بلکہ اس کا پورا اظہار ہونا چاہیے۔ جو کوئی بھی دنیا کو منطقی لحاظ سے دیکھتا ہے، بدلے میں دنیا بھی اس کے سامنے منطقی پہلو آشکار کرتی ہے۔ یہ دو طرفہ تعلق ہے۔ لیکن اس اظہار کے مختلف انداز، مختلف نقطہ ہائے نظر اور مختلف واقعات کی ایک دوسرے کے مقابلے میں اہمیت کا فیصلہ کرنے کے ذرائع (پہلا مقولہ جو تاریخ دانوں کی توجہ حاصل کرتا ہے) کا یہاں کوئی تعلق نہیں۔“

برٹرینڈ رسل، جس کے خیالات جدلیاتی مادیت سے بالکل متصادم ہیں، نے بہرحال تجربیت پسندی کی محدودیت پر درست تنقید کی ہے جو ہیگل کے تاثرات کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہے:

”یہ ایک اصول ہے کہ مفروضہ بنانے کا عمل سائنس کا مشکل ترین کام ہے اور یہ وہ مرحلہ ہے جہاں غیر معمولی قابلیت ناگزیر ہوتی ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی طریقہ کار دریافت نہیں ہو سکا جس کی مدد سے کسی اصول کے تحت مفروضہ قائم کیا جا سکے۔ عام طور پر حقائق اکٹھے کرنے سے پہلے کوئی مفروضہ ضروری ہوتا ہے، کیونکہ حقائق جمع کرنے کا عمل کسی قسم کی مطابقت قائم کرنے کے طریقے کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس قسم کی کسی چیز کے بغیر محض حقائق کا انبار گمراہ کن ہوتا ہے۔“ (مغربی فلسفے کی تاریخ)

جدلیات (Dialectics)

جدلیات کی اصطلاح یونانی زبان کے لفظ Dialektike سے نکلی ہے، جو Dialegomai سے اخذ شدہ ہے، جس کا مطلب گفتگو کرنا ہے۔ آغاز میں یہ گفتگو کا فن ہوا کرتا تھا، جسے افلاطون کے لکھے ہوئے سقراط کے مکالموں میں اپنی بلند ترین سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔

کسی ایک مخصوص خیال یا رائے سے آغاز کرتے ہوئے، جسے عام طور پر متعلقہ شخص کی زندگی کے مسائل یا تجربات سے اخذ کیا جاتا، سقراط مرحلہ وار انداز میں پر زور دلائل کے بعد اصل بیان کے اندرونی تضادات پر روشنی ڈالتا، اس کی محدودیت واضح کرتا اور بحث کو بلند تر سطح پر لے جاتا، جس میں ایک بالکل مختلف بیان سے متعلق گفتگو کی جاتی۔

اصل دلیل، دعویٰ (Thesis)، پیش کیا جاتا ہے اور اس کا جواب ایک متضاد دلیل، ضد دعویٰ (Antithesis)، سے دیا جاتا ہے۔ بالآخر سوال کا گہرائی سے جائزہ لے کر اس کے اندرونی تضادات سامنے لا کر ہم ایک نتیجے پر پہنچتے ہیں جو پہلے سے بلند سطح پر ہوتا ہے۔ اسے ترکیب (Synthesis) کہا جاتا ہے۔ اس سے دونوں فریقین کسی مفاہمت پر پہنچ بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی، لیکن گفتگو کو آگے بڑھانے کے اس عمل کے دوران دونوں فریقین کی سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور گفتگو نچلے سے بلند درجے پر پہنچ جاتی ہے۔ یہ اپنی کلاسیکی شکل میں گفتگو کی جدلیات ہے۔

جدلیات فطرت کو متحرک انداز میں دیکھنے کا نام ہے، جو انسانی سوچ کو رسمی منطق کے بعد از مرگ سکوت سے نجات دلاتی ہے۔ جدلیات کا پہلا حقیقی مبلغ ایک غیر معمولی شخص تھا، یونانی فلسفی ہراکلیتس (484-544ق۔م)۔ اس کا کام آج بھی مختصر مگر جامع حکایات کی صورت میں محفوظ ہے۔ مثال کے طور پر:

”آگ ہوا کی موت جیتی ہے، اور ہوا آگ کی موت جیتی ہے؛
پانی زمین کی موت جیتا ہے، اور زمین پانی کی موت جیتی ہے۔
ہم میں وہ ایک ہی چیز ہے جو زندہ بھی ہے اور مردہ بھی، خوابیدہ بھی ہے اور بیدار بھی، جوان بھی ہے اور عمر رسیدہ بھی؛ یہ سب ایک دوسرے میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
ہم ایک ہی ندی میں دوبارہ قدم رکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی، ہم ہیں بھی اور نہیں بھی۔“

یہ بیانات سمجھنے میں انتہائی کٹھن لگتے تھے، کیونکہ یہ دنیا کو دیکھنے کے ”عام فہم“ انداز سے بالکل متصادم تھے۔ یہ اس قدر مبہم اور متناقضانہ معلوم ہوتے تھے کہ اس کے ہم عصروں نے اسے ”پُراسرار ہراکلیتس“ کا نام دے دیا۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے، لیکن وہ ان کے نہ سمجھ پانے سے بالکل بے نیاز تھا اور اس پر انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا:

”یہ الفاظ ہمیشہ سے زیادہ سچ ہیں، لیکن لوگ انہیں سن کر سمجھنے سے اس طرح قاصر ہیں جس طرح انہوں نے یہ سنا ہی نہیں۔۔۔ لیکن دوسر الوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ جاگتے میں کیا کرتے ہیں، جیسے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ سوتے میں کیا کر رہے تھے۔
احمق، سنتے تو ہیں مگر بہروں کی طرح؛ ان پر یہ کہاوت بالکل صادق آتی ہے کہ وہ حاضر ہوتے ہوئے بھی غیر حاضر ہوتے ہیں۔“

ہراکلیتس وہ دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا جو وہ لوگ نہیں دیکھ پاتے تھے، جو خالصتاً مشاہداتی ثبوتوں پر انحصار کرتے تھے۔ تجربیت پسندی پر تباہ کن تنقید کرتے ہوئے اس نے لکھا:

”آنکھیں اور کان ان لوگوں کے لیے جھوٹے شہادتی ہیں، جن کے پاس روحیں تو ہیں، لیکن وہ ان کی زبان سمجھنے سے قاصر ہیں۔“

بلاشبہ ہم اپنا تمام علم حواس سے اخذ کرتے ہیں، مگر حسیاتی ادراک سے کہانی کے صرف ایک حصے کا پتہ چلتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہی سب سے اہم حصہ ہو۔ صرف یہ یاد کر لینا کافی ہو گا کہ ہمارے حواس ہمیں یہ بتاتے تھے کہ زمین چپٹی ہے۔ ہیگل جو ہراکلیتس کو ایک فلسفی کے طور پر انتہائی اونچے مقام پر گردانتا تھا، نے اپنی ”فلسفے کی تاریخ“ میں لکھا:

”یہاں ہم زمین کو دیکھتے ہیں۔ ہراکلیتس کا ایسا کوئی بیان نہیں ہے جسے میں نے اپنی منطق میں نہیں سمویا۔“

نفسیات دان کارل یونگ نے لکھا:

”بوڑھا ہراکلیتس بلاشبہ ایک عظیم مفکر تھا جس نے سب سے شاندار نفسیاتی قوانین دریافت کیے: ضدین کا ترتیبی (Regulative) کردار۔۔۔ ایک متحرک تضاد جس سے اس کی مراد یہ تھی کہ جلد یا بدیر ہر چیز اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔“ (تجزیاتی نفسیات پر دو مضامین)

”ردِ ڈوہرنگ“ میں اینگلز نے ہراکلیتس کے دنیا کو دیکھنے کے جدلیاتی انداز کو ان الفاظ میں سراہا:

”جب ہم فطرت، انسانی تاریخ یا اپنی تعقلی سرگرمیوں کا معائنہ کریں، تو پہلی نظر میں ہمیں بے شمار تعلقات اور باہمی اعمال پر مبنی ایک گنجلک تصویر نظر آتی ہے جس میں سب کچھ ایک سا نہیں رہتا، بلکہ ہر چیز حرکت میں ہوتی ہے، تبدیل ہوتی ہے، وجود میں آتی ہے اور فنا ہو جاتی ہے۔ پہلے پہل ہم تصویر کو ایک کل کی شکل میں دیکھتے ہیں، جس کے اجزا کسی نہ کسی حد تک پس منظر میں رہتے ہیں۔ ہم حرکت کرتی، تبدیل ہوتی اور آپس میں جڑی ہوئی چیزوں کو دیکھنے کی بجائے حرکات، تبدیلیوں اور تعلقات کو دیکھتے ہیں۔ یہ یونانی فلسفیوں کا دنیا کو دیکھنے کا قدیم، مبتدی مگر اپنے اصل میں درست انداز تھا اور اسے سب سے پہلے ہراکلیتس نے ترتیب دیا: ہر شے ہے بھی اور نہیں بھی، کیونکہ ہر شے تغیر میں ہے، مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے، مسلسل وجود میں آ رہی ہیں اور فنا ہو رہی ہے۔
حرکت مادے کے وجود کا ذریعہ ہے۔ کبھی بھی کہیں بھی حرکت کے بغیر مادے کا وجود نہیں رہا، نہ ہی کبھی مادے کے بغیر حرکت کا وجود رہا ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔“

اپنی کتاب ”فطرت کی جدلیات“ میں اینگلز لکھتا ہے:

”حرکت کے روپ میں تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جو کم از کم دو اجسام کے درمیان وقوع پذیر ہوتا ہے، جن میں سے ایک، خاص مقدار میں ایک قسم کی حرکت کھو دیتا ہے (مثال کے طور پر حرارت)، جبکہ دوسرا جسم اس سے مطابقت رکھتی مقدار میں ایک اور قسم کی حرکت حاصل کر لیتا ہے (میکانکی حرکت، بجلی، کیمیائی تخریب)۔

جدلیات، جسے معروضی [مادیت پسند] جدلیات کہا جاتا ہے، فطرت میں پائی جاتی ہے اور موضوعی جدلیات، جدلیاتی سوچ، محض ضدین کے باعث ہونے والی حرکت کا عکس ہے، جس حرکت کا فطرت میں کئی جگہ اظہار ہوتا ہے اور جو ضدین کے مسلسل تضاد اور بالآخر ان کی آپس میں تبدیلی یا بلند سطح پر تغیر کی بدولت فطرت کی زندگی کا تعین کرتی ہے۔“

”سوشلزم: یوٹوپیائی اور سائنسی“ میں اینگلز لکھتا ہے: ”پوری دنیا: فطرتی، تاریخی، تعقلی، ایک عمل کی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے، یعنی مسلسل حرکت، تبدیلی، تغیر اور نشوونما میں، اور ان اندرونی تعلقات کی کھوج لگانے کی کوشش کی جاتی ہے جن سے اس تمام تر حرکت اور تغیر کا کل تشکیل پاتا ہے۔“

ہیگل کی جدلیات

ہراکلیتس کی تحریروں میں ہمیں جدلیاتی طریقہ کار بالکل اپنی ابتدائی اور غیر ترقی یافتہ شکل میں نظر آتا ہے، لیکن ہیگل نے اسے ترقی دے کر اس کی معراج تک پہنچا دیا۔ لیکن یہ اس کے ہاں ایک پُراسرار اور عینیت پسند (Idealist) شکل میں نظر آتا ہے۔ مارکس اور اینگلز کی نظریاتی محنت نے اسے وہاں سے بچا کر نکالا، انہوں نے پہلی مرتبہ ہیگل کی فکر کا منطقی نچوڑ پیش کیا۔ اپنی سائنسی، مادیت پسند (Materialist)، شکل میں جدلیاتی طریقہ کار ہمیں فطرت کے عوامل، معاشرے اور انسانی سوچ کو سمجھنے کے لیے ایک انتہائی ضروری اوزار سے لیس کرتا ہے۔

ہیگل کا سب سے عظیم شاہکار ”منطق کی سائنس“ تھا، جس کی ساخت، اس کے مطابق، فلسفے کی تاریخ کی تجرید تھی۔ یہ اس عمل سے ملتا جلتا ہے جس سے بیرونی دنیا کا ادراک ہونے کے بعد ایک بچے کا دماغ گزرتا ہے، جس کا آغاز ”ہونا“ (being) کے مقولے سے ہوتا ہے، اور یہاں سے چلتے ہوئے وہ مزید مجرد، ہیگل جنہیں مقرونی (concrete) کہتا ہے، خیالات کی طرف بڑھتا ہے۔

لیکن ”منطق کی سائنس“ کے ساتھ بنیادی مسئلہ خود اس کام کی ساخت ہے۔ ایک عینیت پسند ہونے کے ناطے ہیگل نے ایک ایسا فلسفیانہ نظام تشکیل دینے کی کوشش کی جس میں وہ مرحلہ وار انداز میں شعوری فکر کے تمام مراحل سے گزرتا ہوا بالآخر ”خیالِ مطلق“ تک جا پہنچے، جو فیورباخ کی نظر میں درست طور پر محض خدا ہی کا ایک اور نام ہے۔ لینن کی بھی یہی رائے تھی۔ اس نے اپنی ”فلسفے کی بیاض“ میں لکھا:

”ہیگل کی منطق کا اپنی اصل شکل میں اطلاق نہیں ہو سکتا، اسے جوں کا توں نہیں لیا جا سکتا۔ اس میں سے منطقی (علمیاتی) پہلوؤں کو خیالات کے تصوف سے پاک کر کے علیحدہ کرنا ہو گا، یہ ابھی بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔“

ہیگل کے فلسفیانہ نظام کے مصنوعی کردار پر اینگلز نے یکم نومبر 1891ء کو کانریڈ شمِٹؔ کو لکھے گئے ایک خط میں تبصرہ کیا۔ اس نے وضاحت کی کہ ہیگل کی منطق کی ساخت مصنوعی ہے اور اکثر جگہوں پر ایک مقولے سے دوسرے مقولے میں منتقلی کا عمل زبردستی کیا گیا ہے۔ ایسا اس نے ذو معنی انداز میں بیان کیا: مثال کے طور پر ”Grund“ یا استدلال یا ground، کے مقولے تک پہنچنے کے لیے اس نے ”zugrunde gehen“ (گلنا سڑنا) کا استعمال کیا۔

جہاں تک خیالِ مطلق کی بات ہے تو اینگلز نے اس کے متعلق طنزیہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہیگل ہمیں اس کے متعلق مطلقاً کچھ بھی نہیں بتاتا۔ جدلیاتی فکر کے شاہکار کو زبردستی عینیت پرستی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کی وجہ سے اکثر جگہوں پر یہ کام بے قاعدہ اور جبری نوعیت کا معلوم ہوتا ہے۔ اینگلز کے الفاظ میں اس کی مثال ایک ”المناک اسقاط حمل“ کی سی ہے۔

بہرحال ایک مستقل مزاج قاری ہیگل کی منطق میں سے بہت سے عمیق اور سودمند خیالات اخذ کر سکتا ہے۔ اپنے عینیت پسند اور اکثر انتہائی مبہم کردار کے باوجود اس میں مادی حقیقت کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ایک میلے آئینے میں دھندلا سا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے ہم محض فلسفے کی تاریخ ہی نہیں بلکہ معاشرے کی تاریخ اور عمومی طور پر فطرت میں کار فرما عوامل اور قوانین کے متعلق بھی جان سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہیگل کو تنقیدی اور مادیت پسندانہ نقطہ نظر سے پڑھا جائے، بالکل ویسے ہی جیسے لینن نے اپنی ”فلسفے کی بیاض“ (Philosophical Notebooks) میں کیا ہے۔

اصولِ عینیت (Law of Identity)

موجودہ انتخاب میں ٹراٹسکی کا مختصر مضمون ”جدلیاتی مادیت کا پہلا سبق“ کو شامل کرنا ایک بالکل درست فیصلہ ہے۔ اس میں انتہائی وضاحت کے ساتھ جدلیات کا نچوڑ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اس مضمون پر جدلیات کے ناقدین جل بھن کر رہ گئے تھے۔ اس میں ان منطقی تصورات کی بنیادوں کو للکارا گیا ہے جن کا سینکڑوں سالوں سے فلسفے پر غلبہ قائم ہے: اصولِ عینیت۔ انسانی ترقی کے ایک بڑے عرصے کے دوران تعمیمات (Generalizations) سامنے آتی رہی ہیں اور ان میں سے کچھ کو مسلمات (Axioms) کا درجہ حاصل ہے۔ یہ انسانی فکر کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور انہیں اتنی آسانی سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ رسمی منطق کے سوچ کے طریقہ کار نے کچھ بنیادی قوانین بنانے میں اہم کردار ادا کیا جن سے بلاوجہ کے تضادات سے بچ کر داخلی طور پر یکساں دلائل کو آگے لے کر چلا جا سکتا ہے، لیکن سوچ کا یہ رسمی طریقہ کار محض ایک خاص حد تک کارآمد ہوتا ہے۔

اصول عینیت A=A، تمام رسمی منطق کا ایک بنیادی اور اذعانی (Dogmatic) مفروضہ ہے، جو دو ہزار سال سے چلا آ رہا ہے۔ یہ صوری (Formal) سوچ کا خاصہ ہے: کھوکھلا، غیر لچکدار اور مجرد۔ اس کے برعکس جدلیاتی سوچ مقرونی، متحرک اور پیچیدہ ہے اور اپنی کئی جہتوں میں حرکت کا سب سے عمومی اظہار ہے۔

اپنی کتاب ”مابعد الطبعیات“ (The Metaphysics) میں ارسطو نے اصولِ مانع اجتماعِ نقیضین (Principle of Non-Contradiction) پیش کیا:

”ایسا ناممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں، کسی ایک ہی تعلق میں کسی ایک ہی موضوع (Subject) کا ایک خاصہ ہو بھی، اور نہ بھی ہو۔“

اسی خیال کی ایک اور شکل اصولِ خارج الاوسط (Principle of Exculded Middle) ہے:

”اگر جو غلط ہے وہ محض سچ کی نفی ہے، تو یہ ممکن نہیں کہ سب کچھ ہی غلط ہو سکے، دو متضاد پہلوؤں میں سے ایک پہلو ضرور سچ ہو گا۔“

تاہم اپنی ایک اور تصنیف ”دستورالعمل“ (Organon) میں ارسطو نے جدلیات کے بنیادی قوانین وضع کیے تھے۔ بدقسمتی سے ارسطو کے خیالات ہم تک بے جان اور مدرسانہ شکل میں پہنچے ہیں، جس طرح قرون وسطیٰ میں چرچ کی جانب سے انہیں ”محفوظ“ کیا گیا تھا، اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک لاش کو فارملڈیہائیڈ کے محلول میں حنوط کیا جاتا ہے۔ صوری [صورت یا فارم سے فارمل] منطق اور قیاسِ منطقی (Syllogism) والے ارسطو کو یک رخے انداز میں محفوظ کر لیا گیا مگر ”دستورالعمل“ والے ارسطو کو فراموش کر دیا گیا۔

تب سے لے کر اب تک منطقی ہیئت پسندی (Logical Formalism) کو عام طور پر، قرونِ وسطیٰ کے علماء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، حقیقت سے بچنے کے لیے ایک مقدس اوزار، یا کانٹ کے درست مشاہدے میں ایک ”چال“، کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، تاکہ اسے افیم کی طرح استعمال کرتے ہوئے لسانی خلا کی فرضی ”بھول بھلیوں“ میں کھویا جا سکے، جہاں لفظوں کے معنی سے متعلق نہ ختم ہونے والی بحث کی جائے، بالکل اسی طرح جس طرح علماء فرشتوں کی جنس پر لامحدود بحث کے مزے لیا کرتے تھے۔

منطقی ثبوتیت (Logical Positivism)، جو بیسویں صدی کے دوران اینگلوسیکسن فلسفے پر مختلف شکلوں میں حاوی رہی ہے، قرونِ وسطیٰ کی عالمانہ روایت کی ایک اہل جانشین ہے جو ساخت اور لسانی موشگافیوں کے سحر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کے لیے جدلیات ایک ایسی کتاب ہے جو سات پردوں میں پوشیدہ ہے۔ ان کا طرز فکر بالکل مقلدانہ اور ظاہر پرستانہ ہے۔

ہم بے شک اسے اصولِ عینیت کہہ لیں یا اصولِ مساوات، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حتمی طور پر یہ وہی پرانا ظاہر پرستانہ عقیدہ ہے جو ارسطو نے پیش کیا تھا، A=A۔ اس کی شکل بھلے تبدیل ہوئی ہو اور اسے مختلف علامات یا جس بھی چیز سے پیش کیا جائے، اس کا مواد وہی رہتا ہے جو تھا، ایک کھوکھلا خول، یا ہیگل کے الفاظ میں ”ایک [مردہ] ڈھانچے کی بے جان ہڈیاں۔“

اصولِ عینیت واضح الفاظ میں یہ بیان کرتا ہے کہ ایک زیر غور چیز اپنے برابر ہوتی ہے (یا خود سے مماثلت رکھتی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا)۔ لیکن جیسا کہ ٹراٹسکی وضاحت کرتا ہے، مادی دنیا میں چیزیں مسلسل تغیر کی حالت میں ہوتی ہیں، ہراکلیتس کی انتہائی شاندار اور عمیق حکایات کی زبان میں، وہ ہر وقت بہتی رہتی ہیں، اس لیے کبھی بھی خود سے مماثل نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا اصولِ عینیت زیادہ سے زیادہ ایک سرسری سا اندازہ ہے۔ یہ ہر لحظہ تبدیل ہوتی حقیقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا۔ یہی رسمی منطق کی دکھتی رگ ہے۔

منطق سے تضادات کو خارج کرنے کی تمام تر کوششیں فطرت سے تضادات کو خارج کرنے کی کوششوں کے مترادف ہیں۔ مگر تضادات ہر قسم کی حرکت، زندگی اور نشوونما کی بنیاد ہیں۔ یہ خیال، کہ ”ہر چیز بہتی رہتی ہے“، جدید سائنس کی تمام تر دریافتوں سے سچ ثابت ہو رہا ہے، خاص طور پر طبعیات (Physics) میں۔

تقریباً گزشتہ سو سال کے دوران طبعیات نے یہ ثابت کرنے کے لیے بہت سا مواد اکٹھا کر لیا ہے کہ تغیر اور حرکت مادے کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اینگلز نے دعویٰ کیا تھا کہ حرکت مادے کے وجود کا ذریعہ ہے، جو کہ ایک بہترین پیش گوئی تھی۔ لیکن آئن سٹائن اس سے بھی آگے چلا گیا۔ 1905ء میں اس نے ثابت کر دیا کہ مادہ اور توانائی دراصل ایک ہی ہیں۔

جدلیاتی فکر کی مدد کے بغیر تاریخی عمل میں شعوری اور متحرک مداخلت کرنے والا ایک باشعور انقلابی ہونا تو در کنار، ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس کی حرکیات کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ سائنسی سوچ میں نظریہ انتشار (Chaos Theory) کے ساتھ منسلک کامیابیاں اس دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اِدراک (Cognition)

جدلیاتی مادیت کا پہلا اصول غور و فکر کی قطعی معروضیت ہے: مثالیں نہیں، لغزش نہیں، بلکہ شے بذاتِ خود۔ ہمارے تمام علم کی بنیاد بلاشبہ حسیاتی تجربہ ہے، میں دنیا کو اپنے حواس کی مدد سے محسوس کرتا ہوں اور اس کا کوئی اور راستہ نہیں۔ یہ تجربیت پسندی کا نچوڑ ہے۔

ابتدائی تجربیت پسند بیکنؔ، لاکؔ اور ہابزؔ مادیت پسند تھے۔ ان کا نعرہ یہ تھا: ”ذہن میں ایسا کچھ نہیں ہے جو پہلے حواس میں نہیں آیا“۔ ان کا یہ اصرار کہ حسیاتی ادراک تمام علم کی بنیاد ہے، اس دور میں موجود قرونِ وسطیٰ کے علماء کی کھوکھلی قیاس آرائیوں کے مقابلے میں آگے کی جانب ایک بہت بڑی جست ثابت ہوا۔ اس سے سائنس میں تیز ترین ترقی کی راہ ہموار ہوئی، جس کی بنیاد عملی تحقیق، مشاہدے اور تجربے پر تھی۔

اپنے تمام تر انقلابی کردار کے باوجود مادیت پرستی کی یہ شکل یکطرفہ، محدود اور نتیجتاً نامکمل تھی۔ اس میں حقائق کو الگ تھلگ اور جامد انداز میں دیکھنے کا رجحان پایا جاتا تھا۔ اپنی انتہا میں یہ ناظر (Observer) سے آزاد ایک مادی حقیقت کے وجود سے انکار کی صورت میں موضوعی عینیت پرستی کی جانب چل دی، جیسا کہ ہیوم اور برکلے جیسے لوگوں کے ساتھ ہوا۔ بشپ برکلے کے الفاظ میں:

”ہونا محسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔“

یہ بیان کہ ”میں اپنے حواس کی مدد سے دنیا کی تشریح کرتا ہوں۔“ درست ہے مگر یکطرفہ ہے۔ اس میں یہ اضافہ ضروری ہے کہ دنیا میرے حواس سے آزاد وجود رکھتی ہے۔ ورنہ ہمارے پاس یہ غلط بیان ہی رہ جاتا ہے کہ اگر میں اپنی آنکھیں بند کر لوں تو دنیا کا وجود ہی نہیں رہے گا۔ اس دلیل کو لینن نے اپنے فلسفیانہ شاہکار ”مادیت اور تجربی تنقید“ میں انتہائی زیرک انداز میں مسمار کر دیا تھا۔

در حقیقت تجربیت پسندی ادراک کو ایک انتہائی سرسری اور یکطرفہ انداز میں پیش کرتی ہے۔ ہیگل، جس کی معروضی عینیت پسندی (Objective Idealism) موضوعی عینیت پرستی (Subjective Idealism) سے بالکل متضاد ہے، نے بہت تفصیل سے یہ بتایا ہے کہ ادراک ایک ایسا عمل ہے جو مختلف مرحلوں سے گزرتا ہے۔ ان میں حسیاتی ادراک سب سے کم درجے کا ہے جو خود کو محض اس بیان تک محدود رکھتا ہے کہ ”یہ ہے“۔

مگر یہ بنیادی تصور فوراً ہی تضادات کا شکار ہو جاتا ہے، اگر زیر غور شے کو ایک الگ تھلگ ذرّے کے طور پر دیکھنے کی بجائے ایک مسلسل تغیر کے عمل کے طور پر دیکھا جائے، جس میں چیزیں اپنے الٹ میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔

ادراک کے عمل کے دوران دو اجزا ضروری ہوتے ہیں، ایک سوچنے والا فاعل اور ایک سوچ کا مفعول۔ ”خیال کی مظہریات“ (Phenomenology of Mind) میں، جسے مارکس نے ہیگل کا ”دریافت کی جانب سفر“ (Voyage of Discovery) قرار دیا تھا، عظیم جدلیات دان نے دونوں میں سے کسی ایک رخ کا تجزیہ کرنے کا قصد نہیں کیا، بلکہ سوچ کے عمل میں ان دونوں کا الحاق دکھایا ہے۔ اس کا مقصد بذاتِ خود سوچ کا تجزیہ تھا۔

مگر ہیگل کے طریقہ کار میں ایک اندرونی کمزوری موجود تھی۔ ایک عینیت پسند ہونے کے ناطے، ہیگل نے ٹھوس، حقیقی انسانی حسیاتی سوچ کی بجائے ایک عینیت پرستانہ تجرید سے آغاز کیا۔ درحقیقت ہم محض اپنے ذہن سے نہیں بلکہ تمام حواس سے، حتیٰ کہ اپنے پورے جسم سے سوچتے ہیں۔ انسان کو بیرونی دنیا کے ساتھ تجریدی سوچ نہیں بلکہ انسانی محنت جوڑتی ہے، جو فطرت کو تبدیل کرتی ہے اور اسی دوران خود انسانیت کو بھی بدل دیتی ہے۔

حسیاتی ادراک کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔ وہ مظاہر جو حواس کی دسترس میں نہیں ہیں، ان سے متعلق سوچ بچار محض تجریدی سوچ سے ہی ہو سکتی ہے، جو جدلیاتی سوچ ہے۔ سوچ کا معروض ایک ایسے وجود کا حامل ہے جو اسی کا حصہ نہیں، جسے جرمن زبان میں ’an sich‘ کہتے ہیں۔ سوچ کا مقصد اس ”شے فی الذات“ (being in itself) کو ”شے برائے انسان“ (being for us) بنانا ہے، یعنی جہالت سے آگہی کی جانب بڑھنا۔

ہم محض حقائق کاانبار لگا کر حقیقت کے قریب نہیں پہنچ سکتے۔ جب ہم ”تمام جانوروں“ کی بات کرتے ہیں تو یہ علم حیوانات کے مترادف نہیں ہو جاتا۔ ”تاریخ کے فلسفے پر لیکچروں“ میں ہیگل نے نشاندہی کی کہ:

”سائنس کا مطالعہ کرنے والے ایک طالب علم کے ذہن میں منطقی بصیرت کے حصول کی خواہش کار فرما ہونی چاہیے، نہ کہ محض شواہد کا ڈھیر اکٹھا کرنے کا جنون“۔

سوچ کی طاقت اس کی تجرید کی صلاحیت میں ہے، تخصیصی (particulars) کو خارج کرتے ہوئے ایسی عمومیت (generalizations) تک پہنچنے کی صلاحیت جو زیر غور مظہر کے تمام بنیادی اور اہم پہلوؤں کی ترجمانی کر سکیں۔ پہلا مرحلہ محض وجود کا ایک الگ موضوع کے طور پر ادراک کرنا ہے۔ لیکن یہ ناممکن ثابت ہوتا ہے اور ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم موضوع کو مزید گہرائی میں جا کر دیکھیں تاکہ اس کے اندرونی تضادات کو سامنے لایا جا سکے، جو حرکت اور تبدیلی کا محرک فراہم کرتے ہیں اور چیزیں اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

ضدین کا اجتماع (Unity of the Opposites)

ہیگل کی نظر میں ’ایک‘ کی تقسیم اور اس کے متضاد اجزا کا علم جدلیات کا نچوڑ ہے۔ کیونکہ ’ایک‘ ایسا کل ہے جو دو متضاد اور مخالف سروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ صرف زیر غور موضوع کے ان متضاد رجحانات کے درست علم سے ہی حقیقت کو درست اور متحرک انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔

ہیگل کا بنیادی خیال تضادات کے ذریعے نشوونما (development through contradictions) کا تھا۔ جدلیات کو تضادات کی منطق بھی کہا جا سکتا ہے۔ جہاں صوری منطق تضادات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے، وہیں جدلیات انہیں گلے لگاتی ہے اور تمام زندگی اور فطرت کے عمومی اور لازمی عنصر کے طور پر قبول کرتی ہے۔ سولہویں صدی کے اطالوی فلسفی، ماہر فلکیات اور ریاضی دان جیورڈانو برونوؔ، جس کے نظریات جدید سائنس سے ہم آہنگ تھے اور اس کے صلے کے طور پر اسے مذہبی عدالت کی طرف سے زندہ جلانے جلائے جانے کی سزا ملی تھی، نے ہمیں جدلیات کی ایک دلچسپ تعریف مہیا کی جب اس نے اسے ”ضدین کے خدائی آرٹ“ کے طور پر بیان کیا۔

ہیگل ”بے سکون وحدانیت“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایسا پس پردہ تناؤ ہے جو تمام مادے کی بنیاد ہے۔ ضدین کا اجتماع، ہم مکانیت، ہم آہنگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا متحرک دو طرفہ اثر پذیری مشروط، عارضی، متغیر اور نسبتی (relative) ہے۔ ضدین کا آپس میں خاص تعلق مطلق ہے اور ہر قسم کی حرکت، تبدیلی اور ارتقاکی بنیاد ہے۔

”اخلاقی تنقید اور تنقیدی اخلاقیات“ (Moralising Criticism and Critical Morality) میں مارکس نے لکھا:

”یہ ”مسلم کامن سینس“ ( sense common sound)، جس کی خوراک ”زندگی کی رعنائی“ ہے اور یہ فلسفیانہ یا کسی دیگر مطالعے کا کوئی اثر نہیں لیتی، کے بے تکے پن کی خاصیت ہے کہ جہاں یہ یکتائیت کو دیکھتی ہے وہاں یہ فرق نہیں دیکھ پاتی اور جہاں یہ فرق دیکھ لے وہاں یکتائیت دیکھنے سے قاصر ہے۔ اگر یہ امتیازی تعین کنندگان (differentiated determinants) سامنے لے کر آتی ہے، تو یہ اس کے ہاتھ پر ہی منجمد ہو جاتے ہیں اور جب یہ چوبی تصورات آپس میں ٹکرا کر آگ پکڑ لیتے ہیں تو اسے ملعون سوفسطائیت ہی دکھائی دیتی ہے۔“

منطق کی سائنس میں ہیگل ”ہونے“ کے مقولے(category of being) سے آغاز کرتا ہے، محض اس دعوے سے کہ ”یہ ہے“۔ لیکن یہ بیان، اپنے بظاہر عام فہم اور ٹھوس کردار کے باوجود، جس میں ہم نے ”ہونے“ کی بنیادی حقیقت کا تعین کر لیا ہے، ہمیں زیادہ آگے نہیں لے جاتا، بلکہ درحقیقت ہمیں غلط نتیجے کی جانب لے جاتا ہے۔ نِرا ”ہونا“ [محض وجود، ہیگل کی زبان میں نرا خیال، محض اپنے آپ میں ]، جیسا کہ ہیگل نشاندہی کرتا ہے، نرا یا محض عدم کے جیسا ہی ہے [یعنی کہ ”یہ ہے“ کی اگر مزید توصیفات نہ پتا چلیں، تو اس کا ہونا، نہ ہونے کے جیسا ہی ہے]۔ اس کو مقرونی اور حقیقی ہونے سے محروم رہتا ہے۔ جو مقرونی لگتا تھا وہ محض ایک کھوکھلی تجرید نکلتا ہے۔

’ہونا‘ اور ’عدم‘ عام طور پر آپس میں متصادم تصور کیے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں عدم کے بغیر کوئی وجود نہیں ہو سکتا اور وجود کے بغیر عدم نہیں ہو سکتا۔ ہونے اور نہ ہونے کا اتحاد، جیسا کہ ہیگل نشاندہی کرتا ہے، ”بننا“ (Becoming) ہے۔ تغیر کی مسلسل حرکت، جس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایک لمحے میں ہم ہیں بھی، اور نہیں بھی۔

زندگی اور موت کو متحارب ضدین تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں موت زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ زندگی موت کے بغیر سمجھی ہی نہیں جا سکتی۔ ہم پیدا ہوتے ہی مرنا شروع کر دیتے ہیں۔ در حقیقت یہ اربوں خلیوں کا مرنا اور نئے اربوں خلیوں کا ان کی جگہ لینا ہی ہے جو زندگی اور انسان کی نشوونما کا باعث ہے۔

موت کے بغیر کوئی زندگی، کوئی روئیدگی، کوئی تبدیلی اور کوئی نشوونما ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا موت کو زندگی سے علیحدہ کرنے کی کوشش، جو کہ ممکن نہیں ہے، کا مطلب ایک قطعی بے تغیر، جامد اور سکوتی توازن کی حالت میں جانا ہے جو کہ موت کا ہی ایک دوسرا نام ہے۔ کیونکہ تغیر اور حرکت کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں۔

میرے سامنے ایک بچے کی تصویر ہے جو کئی سال پہلے لی گئی تھی۔ یہ بچہ میں تھا، مگر اب اس کا وجود نہیں ہے۔ یہ تصویر لیے جانے سے لے کر اب تک بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں، اس لیے اب میں وہ نہیں ہوں جو میں تھا۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ اس تصویر کو دیکھ کر میں کسی سے کہوں، ”یہ میں ہوں“، اور میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں گا۔ جدلیاتی عمل کو ہیگل نے ”خیال کی مظہریات“ کے دیباچے میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے:

”جب پھول کھلتا ہے تو شگوفہ غائب ہو جاتا ہے، اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ پھول نے شگوفے کی نفی کر دی ہے۔ بالکل اسی طرح جب پھل آتا ہے تو پھول پودے کے وجود سے غائب ہو جاتا ہے، کیونکہ پھل پھول کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ مختلف مراحل صرف الگ الگ ہی نہیں ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وجود نہیں رکھ سکتے۔ مگر ان کی فطرت میں موجود مسلسل سرگرمی اسی دوران انہیں حیاتیاتی اتحاد کے لمحات میں لے آتی ہے جہاں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تضاد میں نہیں ہوتے، بلکہ ایک دوسرے کی طرح ہی ناگزیر ہوتے ہیں، اور ان تمام لمحات کی ناگزیریت زندگی کی کُلیت کی تشکیل کرتی ہے۔“

محبت اور نفرت متضاد ہیں۔ لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ محبت اور نفرت میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اور یہ آسانی سے ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ ایسا ہی لطف اور درد کے معاملے میں ہوتا ہے۔ ایک کا وجود دوسرے کے بنا ممکن نہیں۔ طبی نقطہ نظر سے درد انتہائی اہم کام سرانجام دیتا ہے۔ یہ محض ایک بری چیز نہیں ہے بلکہ جسم کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ درد انسانی حالت کا حصہ ہے۔ صرف یہی نہیں: درد اور لطف کا آپس میں جدلیاتی تعلق ہے۔

درد کے وجود کے بغیر لطف کا وجود ممکن نہیں۔ سرونٹیز کے ناول کے مشہور کردار ڈان کیخوٹےؔ نے سانچو پانزاؔ کو یہ سمجھایا کہ بھوک بہترین چٹنی ہے۔ اسی طرح ہم بہترین آرام تب لے سکتے ہیں جب ہم نے سخت مشقت کی ہو۔ شیکسپیئر کے ڈرامے ہینری چہارم میں شہزادہ ہالؔ کہتا ہے:

”اگر سارا سال کھیل کی چھٹیاں ہوں تو کھیل کام کی طرح کٹھن لگنے لگے گا۔ لیکن جب یہ کبھی کبھار آتی ہیں تو لوگ ان کا انتظار کرتے ہیں۔“

ایک دنیا جس میں سب کچھ سفید ہو، درحقیقت ایک ایسی دنیا کی طرح ہی ہو گی جس میں سب کچھ سیاہ ہو۔ یہ بات قطبین پر جانے والے مہم جوؤں نے تب دریافت کی جب انہیں برف کوری (برف میں ہونے والے اندھے پن) کا سامنا کرنا پڑا۔

مقدار اور معیار (Quantity and Quality)

”منطق کی سائنس“ میں، خاص طور پر پیمائش سے متعلق حصے میں، ہیگل نے اپنا ارتقا کی ’نشاندہی کرنے والی لکیر‘ (nodal line of develoment) کا نظریہ پیش کیا، جس میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کا ایک سلسلہ، جو دیکھنے میں غیر اہم لگتا ہے، بالآخر اس نہج پر جا پہنچتا ہے جہاں ہمیں معیاری جست دیکھنے کو ملتی ہے۔ نظریہ انتشار اور اس سے اخذ شدہ دوسرے نظریات واضح طور پر جدلیاتی سوچ کی ایک شکل ہیں۔ خاص طور پر مقدار کی معیار میں تبدیلی، جو اس کا خاصہ ہے، جدلیات کے بنیادی قوانین میں سے ایک ہے۔

اپنی کتاب ”ردِ ڈوہرنگ“ میں اینگلز نشاندہی کرتا ہے کہ فطرت جدلیاتی انداز میں کام کرتی ہے۔ گزشتہ سو سال کے دوران سائنس میں ہونے والی ترقی نے اس دعوے کی مکمل تصدیق کی ہے۔ جدید سائنس میں ہونے والی چند اہم ترین پیش رفتوں میں امریکی سائنسدان صف اول میں موجود رہے ہیں۔ میں خاص طور پر جینیات کے شعبے میں آر سی لیونٹن اور سب سے بڑھ کر ارتقائی حیاتیات دان اسٹیفن جے گولڈ کی بات کر رہا ہوں۔

ایک آسانی سے سمجھ آنے والی مثال کو لیتے ہیں۔

جب پانی کو عام ماحولیاتی دباؤ پر گرم یا ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو یہ ایک طبعی حالت سے دوسری حالت میں چلا جاتا ہے۔ صفر ڈگری سیلسیئس پر یہ ٹھوس یعنی برف ہوتا ہے، 100 ڈگری سیلسیئس پر یہ گیس یعنی بھاپ بن جاتا ہے۔ اگر ہم مزید درجہ حرارت بڑھائیں تو 550 ڈگری پر جا کر یہ پلازمہ بن جاتا ہے، جو مادے کی ایک بالکل مختلف حالت ہے جہاں تمام ایٹم اور مالیکیول علیحدہ علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ ان تمام حالتوں کی درمیانی جست کو ہئیت کی تبدیلی (phase transition) کہا جاتا ہے۔ ہئیت کی تبدیلی جدید طبعیات کی ایک بہت اہم شاخ ہے۔ سماج کی تاریخ میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، جہاں ہئیت کی تبدیلی انقلاب کے مترادف ہوتی ہے۔

تشکیلِ مرکزہ (nucleation) ایک نئی حرحرکی ]حرارت اور حرکت دونوں سے متعلق[ ہئیت کی تشکیل یا خود نظمی (self-organization) کے ذریعے ایک نئی ساخت کے قیام کا سب سے پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ ایک نئی ہئیت یا خود نظمی ساخت سامنے آنے میں کتنا وقت درکار ہے۔ یہ مظہر ہر قسم کی حرحرکیاتی (thermodynamic) ہئیت کی تبدیلی کے عمل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک سیر شدہ محلول سے قلمیں بننے کے عمل (crystallization) میں، تبخیر (evaporation) کے دوران مائع سے گیس بننے کے عمل میں یا پانی سے برف بننے کے عمل میں۔

ایسا ممکن ہے کہ ایک محلول پُر سیری (super saturation) تک پہنچ جائے، جہاں عام حالات میں پانی کو 100 ڈگری سیلسیئس سے اوپر گرم یا صفر ڈگری سیلسیئس سے نیچے ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے اور وہ بھاپ یا برف میں تبدیل نہیں ہوتا۔ ہئیت کی تبدیلی کے لیے اکثر ضروری ہوتا ہے کہ ایک بیرونی جھٹکا یا کسی قسم کی کثافت موجود ہو۔ جب پانی کو گرم کیا جاتا ہے تو بلبلے کسی بھی جگہ سے نہیں اٹھنے لگتے، بلکہ وہ برتن کی سطح پر کسی خراش یا ناہموار جگہ سے بننا شروع ہوتے ہیں۔ یہ کسی عمل انگیز کے گرد تشکیلِ مرکزہ کا عمل ہے۔

حرحرکیاتی اصطلاح میں ایک پرسیر شدہ محلول اس نقطہ ارتکاز، یا درجہ حرارت یا جو بھی مقدار ہے، تک پہنچ جاتا ہے جہاں متبادل ہئیت انقطاع توانائی (entropy) کے نچلے درجے پر ہوتی ہے، لیکن پہلا ”مرکزہ“ بنانے کے لیے خاص انقطاع توانائی درکار ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ نقطہ تشکیلِ مرکزہ ایک خاص وقت گزرنے کے بعد بے ترتیب انداز میں سامنے آ جاتا ہے، جیسا کہ تابکاری تحلیل (radioactive decay) کے عمل کے دوران ہوتا ہے، جہاں وقت گزرنے کے ساتھ اس کے بننے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ بہرحال مرکزہ بننے کا عمل کسی ایسے عمل انگیز کی موجودگی میں آسانی سے ہو جاتا ہے جس کی سطح پر کم انقطاع توانائی درکار ہو۔

جب ہم ایک سیپ میں موتی بننے کے عمل کے متعلق سوچیں تو ہم اسے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ہم اکثر کسی فیکٹری یا معاشرے میں غصہ جمع ہونے کی بات کرتے ہیں، اس میں بھی اس عمل کے ساتھ کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک موتی بننے کے عمل میں موتی بننے کی تمام شرائط بہت پوری ہو چکی ہوتی ہیں، سوائے ایک کے: کوئی ایسی کثافت جس کے گرد یہ بن سکے۔ وہ ”کثافت“ اکثر ایک کیڑا ہوتا ہے جو سیپ کے اندر آ کر مر جاتا ہے۔ یہاں یہ تصویر کشی کافی حیران کن ہے: ایک بدصورت مردہ جسم کے گرد ایک خوبصورت موتی کا تابوت بن جاتا ہے۔

ہم اس مماثلت پر بعد میں بات کریں گے۔

ہم اکثر نشوونما کے ان مراحل کا پھر سے دوہرایا جانا دیکھتے ہیں جو بہت پہلے وقوع پذیر ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہمیں جنین (embryo) کے مطالعے میں یہی نظر آتا ہے جو بظاہر ارتقا کے عمل سے گزرتا ہے۔ ایک انسانی جنین آغاز میں ایک خلیہ ہوتا ہے جو تقسیم ہو کر مزید پیچیدہ شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ ایک مرحلے پر اس کے مچھلی کی طرح گلپھڑے ہوتے ہیں، بعد میں اس کی بندر جیسی دم ہوتی ہے۔ انسانی اور دوسرے جانوروں کے جنین میں مشابہت، جن میں مچھلیاں اور حشرات الارض بھی شامل ہیں، حیران کن ہے، جس کا قدیم یونانیوں نے بھی مشاہدہ کیا تھا۔ ڈارون سے تقریباً دو ہزار سال پہلے اناکسیمینڈر (546-611 ق۔م) نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ انسان کا ارتقا مچھلی سے ہوا ہے۔

انسان اور بن مانس کے درمیان جنیاتی فرق دو فیصد سے بھی کم ہے، اور ہمارے مورثے پھلوں کی مکھی اور اس سے بھی قدیم جانداروں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں۔ مذہبیوں کا آخری حملہ بھی ذہین تشکیل (Intelligent design) کی صورت میں تب ناکام ہو گیا جب انسانی جینوم پراجیکٹ (Human Genome Project) کے انتہائی اہم نتائج سامنے آئے۔ بہرحال وہ دو فیصد فرق جو ہمیں دوسرے بندروں سے الگ کرتا ہے، ایک معیاری جست ہے جو انسانوں کو ایک بالکل مختلف اور بلند درجے پر لے گئی ہے۔

تاریخ اور فطرت، ارتقا یعنی سست مرحلہ وار تبدیلی، اور انقلاب یعنی ایک معیاری جست، جہاں ارتقا کا عمل انتہائی تیز ہو جاتا ہے، دونوں سے واقفیت رکھتی ہیں۔ ارتقا انقلاب کا راستہ ہموار کرتی ہے، جو بدلے میں بلند درجے پر ارتقا کے ایک نئے دور کی راہ ہموار کرتا ہے۔

ضدین کا اجتماع مادے کی ہر سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ فطرت کی ہر سطح پر متحارب قوتیں دیکھنے کو ملتی ہیں، بڑی بڑی کہکشاؤں سے لے کر جوہری سطح تک۔ ضدین کی ہم آہنگی ایک دوسرے کے لیے مانع الجمع [جو ایک وقت میں ایک ساتھ نہ رہ سکیں] رجحانات کی تصدیق یا دریافت ہے جو فطرت کے ہر مظہر اور ہر عمل میں پائے جاتے ہیں۔ اینگلز کا یہی مطلب تھا جب اس نے جدلیات کو فطرت، معاشرے اور انسانی سوچ کے سب سے عمومی قوانین قرار دیا تھا۔

فاصلیت (Criticality)

یہ کیمیا کا سب سے بنیادی سچ ہے کہ مخالف چارج ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، جبکہ ایک جیسے چارج ایک دوسرے کو پرے دھکیلتے ہیں۔ لیکن یہاں ہمیں بظاہر ایک متناقضہ نظر آتا ہے۔ ہائیڈروجن کے علاوہ تمام ایٹموں کے مرکزے میں ایک سے زائد پروٹان ہوتے ہیں اور ہر پروٹان پر ایک مثبت چارج ہوتا ہے۔ پروٹان ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔ تو پھر ان ایٹموں کا مرکزہ کس طرح سلامت رہتا ہے؟ مرکزے کو کون سی قوت جوڑے رکھتی ہے؟

ان ضدین کا اتحاد جو ایٹم کو جوڑنے اور توڑنے کی کوشش کرتی ہیں وہ بالترتیب مضبوط نیوکلیائی قوت (strong nuclear force) اور برق سکونی قوت (electrostatic force) ہیں۔ نیوٹران اور پروٹان ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط نیوکلیائی قوت (strong nuclear force) سے جڑے رہتے ہیں مگر اس قوت کا دائرہ کار انتہائی کم ہے۔ مثبت چارج رکھنے والے پروٹان ایک دوسرے کو برق سکونی تنفر (electrostatic repulsion) سے دفع کرتے ہیں۔ یہ قوت لمبے فاصلوں تک عمل کرتی ہے۔

مضبوط نیوکلیائی قوت عام مادے کو جوڑے رکھنے کا کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مضبوط قوت نیوٹران اور پروٹان کو آپس میں جوڑ کر ایٹم کا مرکزہ بناتی ہے، جس طرح مرکز گزیر قوت (centrifugal force) کہکشاؤں کو چیرنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ کشش ثقل انہیں سلامت رکھتی ہے، اسی طرح برقناطیسیت (electromagnetism) وہ قوت ہے جو نظریاتی طور پر مرکزے کو چیرنا چاہتی ہے، جبکہ ایٹمی قوت، جو برقناطیسیت سے 130 گنا زیادہ مضبوط ہے، اسے سنبھالے رکھتی ہے۔

مرکزہ سلامت رہتا ہے، مگر کچھ شرائط پر۔ اگر پروٹان یا نیوٹران کی تعداد ایک خاص حد سے تجاوز کر جائے تو مرکزہ تابکاری کی تحلیل (radioactive decay) کی وجہ سے غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔ اگر مرکزہ بہت بڑا ہو جائے تو یہ ایک اور ڈرامائی تبدیلی سے بھی گزر سکتا ہے۔

مرکزے کی جسامت میں اِضافہ ہونے کے ساتھ دافع برق سکونی قوت (electrostatic force) ایٹمی کشش کی قوت (nuclear force) پر حاوی ہو جاتی ہے اور مرکزہ غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔ تب مرکزے پر صرف ایک نیوٹران مارنے کی دیر ہوتی ہے اور مقدار معیار میں بدل جاتی ہے۔ مرکزہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور بہت بڑی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے۔ اکثر اس عمل کے دوران مزید نیوٹران خارج ہوتے ہیں۔ طبعیات دان اسے ایٹمی انشقاق (nuclear fission) کہتے ہیں۔

اگر قابلِ انشقاق مادہ ایک خاص مقدار میں موجود ہو تو اس سے انشقاق کے عمل کے دوران نکلنے والے نیوٹران دوسرے مرکزوں سے ٹکرائیں گے اور اس طرح زنجیری تعامل (chain reaction) کا آغاز ہو جائے گا۔ جتنا زیادہ قابل انشقاق مادہ موجود ہو گا، ایسا ہونے کے اتنے ہی زیادہ امکانات ہوں گے۔ فاصل کمیت (critical mass) مادے کی وہ مقدار ہے جس میں ایک انشقاق کے عمل سے نکلنے والا نیوٹران اوسطاً ایک اور مرکزے پر انشقاق کا عمل دہرائے۔

قابو اور بے قابو ایٹمی تعامل کے درمیان ایک معیاری جست ہے، مقدار کی معیار میں تبدیلی۔ اگر ہم مادہِ انشقاق میں نیوٹران جذب کرنے کی غرض سے اور مادہ داخل کر دیں، جسے حفاظتی چھڑی (control rod) کہتے ہیں، اور جتنے نیوٹران انشقاق سے پیدا ہوں اس سے زیادہ جذب ہوں تو عمل قابو میں رہتا ہے۔ لیکن چھڑی کو ایک انچ بھی ہٹانے سے نیوٹران کا آبشار بہنے لگتا ہے اور مقدار معیار میں بدل جاتی ہے، اور ایک ایٹمی حادثہ (nuclear meltdown) وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔

فطرت میں ہر سطح پر یہ عمل دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنی کتاب ”ہرجائت“ [ہر جگہ موجود ہونا۔ لفظی مطلب] (Ubiquity) میں امریکی طبعیات دان اور لکھاری مارک بکیننؔ نشاندہی کرتا ہے کہ دل کا دورہ، برفشار، جنگل کی آگ، جانوروں کی آبادی بڑھنا اور کم ہونا، اسٹاک ایکسچینج کے بحرانات، ٹریفک کا بہاؤ اور یہاں تک کہ ادب میں انقلابات اور فیشن جیسی یہ تمام چیزیں ایک ہی بنیادی قانون کے تابع ہیں، جسے ایک ریاضی کی ایک مساوات کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور اسے طاقت کا قانون (Power Law) کہتے ہیں۔ یہ جدلیاتی قانون مقدار کی معیار میں تبدیلی کی ایک اور حیران کن تصدیق ہے۔

سرمائے کی جدلیات

پہلی عالمی جنگ کے دوران سوئٹزر لینڈ میں جلاوطنی کاٹتے ہوئے لینن نے اپنی شاندار ”فلسفے کی بیاض“ میں لکھا 

”ہیگل کی منطق کو مکمل طور پر پڑھے اور سمجھے بغیر مارکس کی ”سرمایہ“ کو سمجھنا ناممکن ہے، خاص طور پر اس کا پہلا باب۔ نتیجتاً آدھی صدی گزرنے کے بعد کوئی بھی مارکسی مارکس کو نہیں سمجھ پایا!“

تھوڑی بہت مبالغہ آرائی کی رعایت بھی دے دی جائے تو لینن کا پیش کیا گیا بنیادی خیال درست ہے، یہ بہرحال سرسری یادداشتیں تھیں جو اس نے اپنے سمجھنے کے لیے لکھی تھیں نہ کہ چھپوانے کی غرض سے۔ ”سرمایہ“ بذات خود جدلیاتی طریقہ کار کا ایک ماہرانہ اطلاق ہے جسے ہیگل نے آراستہ کیا اور مارکس اور اینگلز نے کامل بنایا۔ پہلی جلد کے پہلے باب کا کردار خالصتاً فلسفیانہ ہے اور اس کی بنیاد ہیگل پر ہے، جیسا کہ مارکس نے خود نشاندہی کی ہے۔

اسی وجہ سے یہ باب عام طور پر پوری تصنیف میں سب سے مشکل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ معاشیات نہیں بلکہ فلسفے سے متعلق ہے۔ اس کی جڑیں ہیگل کے جدلیاتی شاہکار ”منطق کی سائنس“ میں پیوست ہیں۔ تاہم یہ مارکس کے سرمایہ دارانہ معیشت کے تجزیے کو سمجھنے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

Petrol Petrol Stations Gasoline Prices Refuel Fuel

سرمائے کی پہلی جلد میں مارکس سرمایہ دارانہ معاشرے کے تمام قوانین اس کے بنیادی ”خلیے“ شے (commodity) کے تجزیے سے اخذ کرتا ہے۔ مارکس شے کا تجزیہ کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں، جو درحقیقت متضاد رجحانات ہیں۔ پہلی نظر میں شے ایک بہت سادہ اور ٹھوس چیز لگتی ہے: استعمال کی ایک چیز۔ کیا یہ استعمال واقعی ضروری ہے یا محض ایک دھوکہ ہے، یہ بات زیر غور نہیں ہے۔ لیکن قریبی معائنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ شے بالکل بھی سادہ نہیں ہے۔ یہ محض قدرِ صرف ہی نہیں بلکہ قدرِ تبادلہ بھی رکھتی ہے، جو ایک بالکل مختلف چیز ہے۔

نسلِ انسانی نے اپنے ابتدائی ادوار سے ہی قدرِ صرف پیدا کی ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں اشیا کی فطرت میں ایک بنیادی تبدیلی آتی ہے۔ سرمایہ دار لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اشیا پیدا نہیں کرتے بلکہ فروخت کے لیے ایسا کرتے ہیں تاکہ منافع حاصل کیا جا سکے۔

ایک شے کی قدرِ صرف اس کی ٹھوس خصوصیات تک محدود ہوتی ہے، لیکن قدرِ تبادلہ میں مادے کا ایک ذرہ بھی شامل نہیں ہوتا۔ ایک جنس کی قیمت کا انحصار عالمی معیشت میں روزانہ بڑے پیمانے پر ہونے والے لین دین پر ہوتا ہے۔ قیمتیں طلب اور رسد کے قانون کے مطابق تبدیل ہوتی ہیں، لیکن یہ تبدیلیاں ایک خاص نقطے کے ارد گرد ہی ہوتی ہیں، جو اس جنس کی حقیقی قدر ہے۔ یہ قدر، جیسا کہ مارکس سے پہلے کے معیشت دانوں نے بھی واضح کیا تھا، انسانی محنت کی پیداوار ہے۔

تخصیصی اور یونیورسل (Particular and Universal)

اپنی ”فلسفے کی بیاض“ میں لینن لکھتا ہے:

”اپنی ”سرمایہ“ میں مارکس پہلے سرمایہ دارانہ معاشرے کے سب سے سادہ، سب سے معمولی اور بنیادی، سب سے عام اور روزمرہ کے تعلق (شے) کا تجزیہ کرتا ہے، ایک تعلق جو اشیا کے تبادلے کی شکل میں ارب ہا مرتبہ سامنے آتا ہے۔ اس بہت سادہ مظہر، سرمایہ دارانہ معاشرے کے ”خلیے“، کا تجزیہ جدید معاشرے کے تمام تضادات (یا تمام تضادات کے بیجوں کو) ظاہر کر دیتا ہے۔ بعد ازاں تشریح سے ہمیں ان تضادات اور معاشرے کی، اپنے انفرادی حصوں میں، نمو (بڑھوتری اور حرکت) کا پتہ چلتا ہے۔ اپنے آغاز سے اختتام تک۔“

عمومی طور پر جدلیات کی تشریح (یا مطالعے) کا بھی یہی طریقہ کار ہونا چاہیے، کیونکہ مارکس کی نظر میں سرمایہ دارانہ معاشرے کی جدلیات، جدلیات کی ایک مخصوص مثال ہے۔ کسی بھی بیان سے آغاز کرتے ہوئے جو سب سے سادہ، معمولی، عام وغیرہ ہو: ایک درخت کے پتے سبز ہیں؛ جان ایک آدمی ہے؛ فیڈو ایک کتا ہے، وغیرہ۔ یہاں پہلے سے ہی جدلیات موجود ہے (جسے ہیگل کی ذہانت نے بھانپ لیا تھا): انفرادی یونیورسل ہوتا ہے (the individual is the universal)۔

قرونِ وسطیٰ کے علماء اس سوال پر اپنے سر پھوڑتے رہتے تھے کہ یونیورسل (تجرید) کا وجود ہے بھی یا نہیں۔ ہیگل نے انتہائی عمدہ انداز میں نشاندہی کرتے ہوئے یہ مسئلہ حل کر دیا کہ مخصوص (یا تخصیصی) اور یونیورسل در حقیقت ایک ہی ہیں: ہر مخصوص کسی نہ کسی طرح یونیورسل ہے۔ ہر انفرادی چیز کسی نوع یا پرجاتی سے تعلق رکھتی ہے، جو اس کی حقیقی فطرت کی ترجمانی کرتی ہے۔ بہرحال انواع اور پرجاتیاں انفرادی جانداروں سے مل کر بنتی ہیں۔ حیاتیات میں ان درجہ بندیوں کی حد کا تعین تولید کی صلاحیت سے ہوتا ہے۔

لہٰذا ضدین، مخصوص عالمگیر کی ضد کے طور پر، باہم مماثل ہیں: ایک انفرادی (individual) اسی تعلق میں وجود رکھ سکتا ہے جو اسے یونیورسل سے جوڑتا ہے، یونیورسل محض انفرادی میں اور انفرادی کے ذریعے وجود رکھ سکتا ہے۔ ہر انفرادی کسی نہ کسی طرح یونیورسل ہوتا ہے۔ ہر یونیورسل انفرادی کا ایک حصہ، ایک پہلو یا جوہر ہوتا ہے۔ ہر یونیورسل لگ بھگ تمام انفرادی چیزوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ ہر انفرادی یونیورسل میں نامکمل طور پر داخل ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہر انفرادی مظہر، عمل، وغیرہ، دوسرے انفرادی سے ہزاروں طرح کی تبدیلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارسطو نے نشاندہی کی: ”لیکن یقینا انفرادی گھروں سے علیحدہ ایک آفاقی (یونیورسل) گھر وجود نہیں رکھ سکتا۔“ (مابعدالطبعیات)

اس بظاہر متضاد دعوے کو کسی سادہ ترین جملے کی مدد سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی مخصوص چیز کو فوری طور پر یونیورسل میں بدلے بغیر اس کی فطرت کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی چیز کی تعریف کرنے کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم کہتے ہیں کہ جان ایک آدمی ہے، فیڈو ایک کتا ہے، یہ ایک درخت کا پتا ہے، وغیرہ، تو ہم بہت ساری خصوصیات کو اتفاقی جان کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم ماہیت کو ظاہر سے علیحدہ کر کے ان کو ایک دوسرے کے مترادف گردان لیتے ہیں۔[اس میں جان، فیڈو، مخصوص ہیں، جب کہ آدمی، کتا یونیورسل]۔

ہیگل نے وضاحت کی کہ عام بول چال میں بیانات A=A (جان جان ہے، گھر گھر ہے، وغیرہ) کی شکل اختیار نہیں کرتے بلکہ B=A (جان ایک آدمی ہے، گھر ایک عمارت ہے) کی شکل میں ہوتے ہیں، جس سے مراد مماثلت اور تفاوت (identity and difference) کا اتحاد ہے۔ اور لینن تبصرہ کرتا ہے:

”یہاں ہمارے پاس پہلے سے فطرت میں لازمیت کے تصور، معروضی تعلق کے عناصر، بیج، وغیرہ موجود ہیں۔ یہاں ہمارے پاس پہلے سے اتفاقی اور لازمی، مظہر اور جوہر موجود ہیں۔۔۔“

لہٰذا کسی بھی بیان میں ایک ”خلیے“ کی طرح ہم جدلیات کے تمام عناصر کے مورثے تلاش کر سکتے ہیں، اور تلاش کرنے بھی چاہئیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ جدلیات عمومی طور پر تمام انسانی علم کی ملکیت ہے اور فطرتی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ معروضی فطرت میں بھی یہی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اور انہیں بھی کسی سادہ سی مثال کے ذریعے واضح کرنا چاہیے، جیسے مخصوص کی یونیورسل میں تبدیلی، اتفاقی کی لازمی میں تبدیلی، تغیر، ترامیم اور ضدین کا [آپس میں] دو طرفہ تعلق۔ جدلیات (ہیگل اور) مارکسزم کا نظریہ علم ہے۔ یہ مادے کی خاصیت ہے، یہ مادے کی ”ایک خاصیت“ نہیں بلکہ مادے کی ماہیت ہے، جس کی جانب پلیخانوف (دوسرے مارکسیوں کی تو بات ہی چھوڑیں) نے کوئی توجہ نہیں دی۔

کیا انسانی سماج کو سمجھا جا سکتا ہے؟

سرسری مشاہدے سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسانی سماج واضح مراحل سے گزرا ہے اور مخصوص عوامل باقاعدہ وقفوں سے بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ بالکل ویسے جیسے ہم فطرت میں مقدار کی معیار میں تبدیلی دیکھتے ہیں۔ چنانچہ تاریخ میں بھی ہمیں سست رفتار اور تقریباً غیر محسوس تبدیلیوں کے طویل ادوار نظر آتے ہیں، جن کے دوران ہمیں ایسے ادوار کی مداخلت نظر آتی ہے جن میں یہ عمل تیز ہو کر ایک معیاری جست کا باعث بنتا ہے۔

فطرت میں سست رفتار تبدیلی کے طویل ادوار لاکھوں سال پر محیط ہو سکتے ہیں۔ یہ سلسلہ تباہ کن واقعات سے منقطع ہو جاتا ہے، جن میں جانوروں کی پرجاتیاں جو پہلے غالب تھیں وہ معدوم ہو جاتی ہیں اور وہ پرجاتیاں جو پہلے نہ ہونے کے برابر تھیں، مگر نئے حالات کا فائدہ اٹھانے کے لیے سب سے موزوں تھیں، ابھر کر سامنے آ جاتی ہیں۔ انسانی سماج میں جنگیں اور انقلابات اتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ ہم انہیں دو تاریخی ادوار کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے لیے سنگ میل کے طور پر استعمال کرنے کے عادی ہیں۔

وہ مارکس اور اینگلز ہی تھے جنہوں نے یہ دریافت کیا کہ تاریخ کی حقیقی قوت محرکہ پیداواری قوتوں کا ارتقا ہی ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ مارکس نے ہر چیز کو معاشیات تک محدود کر دیا، جیسا کہ مارکسزم کے دشمن اکثر دعویٰ کرتے ہیں۔ معاشرے کے ارتقا میں اور بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں: مذہب، اخلاقیات، فلسفہ، سیاست، حب الوطنی، قبائلی وابستگیاں، وغیرہ۔ یہ سب سماجی تعلقات کے ایک پیچیدہ جال کا حصہ ہوتے ہیں جن سے مظاہر اور عوامل کی ایک گنجلک اور پیچیدہ آمیزش سامنے آتی ہے۔

پہلی نظر میں اسے سمجھنا ناممکن لگتا ہے۔ فطرت کے معاملے میں بھی یہی ہوتا ہے، مگر کائنات کی پیچیدگی سائنسدانوں کو اس کے مختلف عناصر کو علیحدہ کر کے دیکھنے، ان کا تجزیہ اور درجہ بندی کرنے سے نہیں روکتی۔ مرد و زن کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ تصور کریں کہ وہ فطرت سے بالاتر ہیں اور پوری کائنات میں وہ واحد چیز ہیں جسے سائنس کے ذریعے سمجھا نہیں جا سکتا؟ یہ خیال ہی انتہائی بے ہودہ اور انسانوں کی کسی خاص قسم کی تخلیق ہونے کی خود پسندانہ خواہش کا اظہار ہے، جو باقی جانوروں سے بالکل علیحدہ ہو اور اس کا کائنات کے ساتھ خدا کی جانب سے وضع کردہ ایک خاص رشتہ ہو۔ مگر سائنس نے انانیت پر مبنی ان غلط فہمیوں کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں۔

مارکس اور اینگلز نے پہلی مرتبہ اشتراکیت کو ایک سائنسی کردار دیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ عوام کی حقیقی نجات کا انحصار پیداواری قوتوں، صنعت، زراعت، سائنس اور تکنیک، کے ارتقا میں ہے، جس سے وہ ناگزیر حالات پیدا ہوں گے جو عمومی اوقات کار میں کمی کا باعث بنیں گے اور یوں ہر کسی کو ثقافت تک رسائی حاصل ہو گی۔ یہ وہ راستہ ہے جس سے حقیقی معنوں میں لوگوں کی سوچ اور آپسی رویہ تبدیل ہو سکتا ہے۔

تاریخی مادیت (Historical Materialism)

مارکس نے ”سرمایہ“ کی تیسری جلد میں تاریخی مادیت کی بہترین تعریف کی ہے، جس کا بہت کم حوالہ دیا جاتا ہے:

”مخصوص معاشی ہیئت جس میں غیر ادا شدہ فاضل محنت ”براہِ راست پیدا کاروں“ [محنت کشوں] میں سے نچوڑی جاتی ہے، حاکم اور محکوم کے تعلق کا تعین کرتی ہے۔ چونکہ یہ پیداوار میں سے فی الذات برآمد ہوتی ہے لہٰذا یہ ایک متعین کرنے والے عنصر کے بطور اس [پیداوار] پر ردِ عمل کرتی ہے۔

”بہرحال، اسی ایک بنیاد کے اوپر سارے کا سارا معاشی سماج تشکیل پاتا ہے، جو کہ پیداواری تعلقات کے فی الذات اندر سے برآمد ہوتا ہے؛ اسی کارن اس کے ساتھ ساتھ اس کی مخصوص سیاسی بُنتر بھی۔ شرائطِ کار کے مالک [سرمایہ دار] ”براہِ راست پیدا کاروں“ سے ہمیشہ براہِ راست تعلق میں ہوتے ہیں۔۔۔ ایک تعلق جو کہ ہمیشہ فطرتی طور پر محنت کے طریقہائے پیداوار کے ارتقاء کے ایک متعین مرحلے کے ساتھ اور اسی واسطے سے اس کی سماجی افزودگی (پروڈکٹیویٹی) کے ساتھ مطابقت میں ہوتا ہے۔۔۔ جو کہ ایک انتہائی بھیِتر کے راز کو واشگاف کرتا ہے، جو کہ سارے کے سارے سماجی ڈھانچے کی مخفی بنیاد ہے، اور اس کے ساتھ یہ ہمیں اس سیاسی بُنتر کا تعلق بتاتا ہے کہ کس طبقے کے پاس اختیارِ اعلیٰ ہو گا اور کون سا طبقہ رعایا ہو گا۔ مختصر یہ کہ اس تعلق کے مطابق بنتی ہوئی ریاست کی مخصوص شکل۔

”یہ مظہر، باہر سے اثر انداز ہونے والے مختلف معروضی حالات، قدرتی اثرات، نسلی تعلقات، تاریخی اثرات، وغیرہ کے نتیجے کے طور پر اپنے کلیدی خدوخال میں، بالکل ویسی ہی معاشی بنیادوں کو اپنے ظاہر میں لاتعداد تغیرات اور درجہ بندیوں کا اظہار کرنے سے نہیں روکتا اور ان کو صرف ان معروضی حالات کا تجزیہ کر نے سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔“

سماجی ارتقا کا ماہیتی مافیہا پیداواری قوتوں کا ارتقا ہے۔ لیکن پیداواری قوتوں کی بنیاد پر ملکیتی تعلقات اور قانونی، مذہبی اور نظریاتی تعلقات کا ایک پیچیدہ بالائی ڈھانچہ (super structure) ابھر آتا ہے۔ آخرالذکر [بالائی ڈھانچہ] وہ بنتریں تشکیل دیتا ہے جن کے ذریعے اول الذکر [پیداواری قوتیں] اپنا اظہار کرتی ہیں۔ مافیہا (content) اور بنتر (form) ایک دوسرے کے ساتھ تضاد میں آ سکتے ہیں، لیکن آخری تجزیے میں ہمیشہ مافیہا ہی بنتر کا تعین کرتا ہے۔

مافیہا بنتروں کی نسبت جلد تبدیل ہوتا ہے، اور ایسے تضادات کو جنم دیتا ہے کہ جن کا حل کیا جانا لازم ہوتا ہے۔ فرسودہ بالائی ڈھانچے ذرائع پیداوار کی نمو میں حائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ وقت میں پیداواری قوتوں کا ارتقا، جو تاریخ میں کبھی بھی اس سطح پر نہیں پہنچا تھا جہاں اب ہے، نجی ملکیت اور قومی ریاست کے ساتھ کھلے تضاد میں ہے۔ پرانی بنتریں (forms) پیداواری قوتوں کے ارتقا کی راہ میں ایک بڑی روک ہیں۔ اس تضاد کے حل کے لیے انہیں اکھاڑ کر پھینک دینا ضروری ہے۔ متروک بنتروں کے ٹوٹنے سے نئی بنتریں ان کی جگہ لے لیتی ہیں، جو کہ پیداواری قوتوں کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔

ہر نئی آنے والی سماجی و معاشی تشکیل پیداواری قوتوں کے پہلے سے بڑھ کر ارتقا پذیر ہونے کے امکانات کی راہ کھول دیتی ہے، جس سے انسان کے فطرت پر غلبے میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح سے وہ مادی بنیادیں تیار ہوتی ہیں جن کے بل پر، اینگلز کے الفاظ میں، انسان ایک جست کے ذریعے جبر کی حدود سے نکل کر آزادی کی قلمرو میں داخل ہوتا ہے۔

طبقاتی سماج

ہومو سیپینز (انسانی) پرجاتی ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ سال پہلے وجود میں آئی، یا پھر شاید یہاں تک کہ چار لاکھ سال پہلے۔ ہم جسے تہذیب کا نام دیتے ہیں، جس کی بنیاد سماج کی طبقات میں تقسیم پر ہے، وہ تقریباً پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ لہٰذا اپنی تاریخ کے کم از کم 95 فیصد عرصے کے دوران انسانیت نجی ملکیت، طبقاتی جدوجہد، پولیس اور فوج، یک زوجی خاندان، شہر اور گاؤں کے تضاد اور ان تمام اداروں کی نعمت سے محروم رہی ہے، جنہیں آج کل کے سماجی سائنسدان ازلی اور ناقابلِ تغیر بنا کر پیش کرتے ہیں۔

طبقاتی سماج نے اپنے عرصہ ارتقا کے دوران بذات خود بنیادی تبدیلیوں، یا انقلابات، کا ایک تسلسل دیکھا ہے۔ عمومی طور پر بات کی جائے تو، جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی، سماج کے معاشی ارتقا کے کئی متواتر مرحلے یا ”عہد“ تھے۔ ذرائع پیداوار کی ترقی کے خاص مراحل میں سماجی و معاشی نظام، جن کی بنیاد زمین کی مشترکہ ملکیت، غلامی، خانہ زاد غلامی/زرعی غلامی (serfdom) اور اجرتی محنت پر تھی، وجود میں آئے، جن میں سے ہر ایک کے اپنے سیاسی اور ثقافتی ”بالائی ڈھانچے“ اور حرکت کے قوانین تھے۔

اس لیے سیاسی معیشت کے ”عمومی“ قوانین تلاش کرنے کی کوشش بے سود ہے جو، مثال کے طور پر، قدیم مصر، قرون وسطیٰ کے یورپ اور جدید عالمی معیشت پر ایک ہی طرح لاگو ہو سکیں۔ ہر نظام کے وہ مخصوص قوانین تلاش کرنا ضروری ہے جن کے تحت وہ کام کرتا ہے۔ مارکس کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو: ”مادے کی تفصیل سے تسخیر، اس کے تغیر کی مختلف شکلوں کا تجزیہ اور ان کے اندرونی تضادات کی تلاش“۔

آج کل کا پیداواری انتشار جدید معیشت، تکنیک اور سائنس کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ قحط، غربت، جنگوں اور دہشت گردی کا باعث بننے والے سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات حل کرنے کا واحد راستہ سماج کی سوشلسٹ تبدیلی ہے۔

اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ کس طرح انسانی ارتقاکی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ سلطنت روم کا انہدام، جو غلامی کی سب سے ترقی یافتہ شکل تھی، سب سے پہلے یورپ میں تہذیب کے انہدام کا باعث بنا اور پھر جاگیردارانہ نظام کے تحت ایک سست رفتار بحالی کا عمل شروع ہوا جو ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ جاگیر دارانہ نظام غلامی کی نسبت کم عرصے تک قائم رہا اور سرمایہ دارانہ نظام کو قائم ہوئے محض دو یا تین صدیاں گزری ہیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع پیداوار کی ترقی کی رفتار پچھلے کسی بھی سماج کے مقابلے میں بہت تیز رہی ہے۔ اس عہد میں پچھلی تمام انسانی تاریخ سے زیادہ ایجادات ہوئی ہیں۔ مگر صنعت، سائنس اور تخلیق کی یہ بے پناہ ترقی نجی ملکیت اور قومی ریاست کی تنگ حدود کے ساتھ تضاد میں آ چکی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام اپنے ضعیفی کے دور میں ماضی کی طرح پیداواری قوتوں کو ترقی دینے کے قابل نہیں رہا۔ یہ موجودہ بحران کی بنیادی وجہ ہے، جس نے انسانیت کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

سماجی تضادات

جدلیاتی قوانین محض فطرت تک محدود نہیں، بلکہ ان کا اطلاق سماج، تاریخ اور معاشیات پر بھی ہوتا ہے۔ ”ہرجائت“ (ہر جگہ موجود ہونا) [یہ ایک کتاب ہے جس میں دنیا میں آنے والی آفات کی وجوہات پر بحث کی گئی ہے] (Ubiquity) جیسی کتابوں میں ہئیت کی تبدیلیوں کی فہرست میں ہم انقلابات کو بھی شامل کر سکتے ہیں، جو دو طبقات کے درمیان جنگ کا اظہار ہوا کرتے ہیں۔

ہم ایٹم کے حوالے سے فاصلیت (criticality) پر پہلے ہی نظر دوڑا چکے ہیں، جس میں ہم نے دیکھا کہ اندرونی تضادات کو مختلف قوتیں ایک حد میں رکھتی ہیں، لیکن جب یہ حد پار ہو جاتی ہے تو تباہ کن نتیجہ نکلتا ہے۔ اس سے ملتا جلتا عمل معاشرے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

کمیونسٹ مینی فیسٹو ہمیں بتاتا ہے کہ، ماسوائے قبل از طبقات سماج، اب تک کے تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ متحارب طبقات کی موجودگی سے سماج کی چیر پھاڑ کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ طبقاتی جدوجہد کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک طاقت ابھرتی ہے جو سماج سے ماورا ہوتی ہے اور اس سے بیگانی ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ طاقت ریاست ہے۔

ریاست کا کردار موجودہ طاقت کے توازن کو بحال رکھنا، نظم و نسق قائم رکھنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جو قوتیں سماج کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بن سکتی ہیں وہ قابل برداشت حدود میں رہیں۔ آخری تجزیے میں ریاست مسلح اداروں کا نام ہے: پولیس، فوج، جیلیں، عدالتیں اور مقننہ۔ حتمی طور پر حکمران طبقات، جو اقلیت میں ہیں، کو عوام [یعنی اکثریت] پر غلبہ قائم رکھنے کے لیے تشدد یا تشدد کے خوف کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

تشدد بہرحال آخری حربہ ہوا کرتا ہے۔ حکمران طبقے کے ہاتھ میں قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اور بہت سے اوزار ہوتے ہیں۔ اس کے پاس صرف مسلح قوت ہی نہیں بلکہ ثقافت پر بھی اسی کی اجارہ داری ہے۔ سکول اور یونیورسٹیاں، اخبارات اور ذرائع ابلاغ، اور دیگر ثقافتی ساز و سامان حکمران طبقے کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، جسے وہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے، اور غلط استعمال کرتا ہے۔

یونیورسٹیوں میں فلسفے کا شعبہ، باقی شعبوں کی طرح، حکمران طبقے کے لیے بہت مفید کام سر انجام دیتا ہے: مارکسزم اور دیگر ”تخریبی“ رجحانات کا مقابلہ کرنا اور نوجوانوں کے ذہنوں میں وہ خیالات انڈیلنا جو حکمران طبقے اور موجودہ نظام کے مفادات کے لیے سود مند ہوں۔ یہاں اس رد ِانقلابی پروپیگنڈے کے سیلاب کی مثال دینا کافی ہو گا جس نے روس کے انقلاب کی سوویں سالگرہ کے موقع پر کتابوں کی دکانوں اور ٹیلی ویژن سکرینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

حکمران طبقے کے ہاتھ میں ایک طاقتور ترین ہتھیار مذہب کا ہے۔ بہت عرصہ پہلے روم کے ایک فلسفی سنیکاؔ نے یہ افادیت پسند، یا یوں کہا جائے کہ خود غرضانہ، خیال پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ”عام لوگ مذہب کو سچ سمجھتے ہیں، عقل مند لوگ اسے جھوٹ سمجھتے ہیں اور حکمران اسے فائدہ مند سمجھتے ہیں“۔ اس نقطہ نظر میں کچھ حد تک سچائی موجود ہے، خاص طور پر جب منظم مذہب کے کردار کی بات کی جائے۔

نپولین چرچ کو عوام پر قابو پانے اور اپنے اقتدار کو سہارا دینے کے ایک کارآمد ذریعے کے طور پر دیکھتا تھا، حالانکہ خود اسے اس کے ایک لفظ پر بھی یقین نہیں تھا۔ یہی بات شاید شہنشاہ کانسٹنٹائن کے معاملے میں بھی سچ تھی، جس نے مسیحیت کو سلطنت روم کے ریاستی مذہب کے طور پر رائج کیا، حالانکہ اس بات کا کوئی حقیقی ثبوت نہیں ہے کہ اس نے خود بھی کبھی بپتسمہ لیا تھا۔

لیکن اس سے اجتماعی نفسیات میں مذہب کی گہری جڑوں یا عوام کے دماغوں پر اس کے غلبے کے وضاحت نہیں ہوتی۔ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں طبقاتی سماج کی فطرت اور بیگانگی کے کردار کو گہرائی سے دیکھنا ہو گا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مارکس بائیں بازو کے ہیگلیائیوں کے مقابلے میں کافی گہری سمجھ بوجھ رکھتا تھا۔

طبقاتی سماج میں مرد و زن ایک دوسرے سے بیگانہ ہوتے ہیں اور ان بیگانی طاقتوں کے تابع ہوتے ہیں جو ان کے اختیار اور سمجھ سے باہر ہوتی ہیں۔ سرمایہ داری کا اصل خدا نہ یہواؔ ہے اور نہ ہی اللہ، بلکہ قارونؔ ہے: دولت کا خدا۔ اس کی حقیقی عبادت گاہیں نہ چرچ ہیں، نہ مسجدیں اور نہ ہی مندر یا شوالے، بلکہ سٹاک ایکسچینج ہیں، جہاں لاکھوں لوگوں کے مقدر کا فیصلہ ہوتا ہے۔

’سرمایہ‘ کی پہلی جلد میں اشیا کے استصنام (fetishism of commodities) سے متعلق ایک مشہور باب ہے۔ اس میں انتہائی المناک انداز میں سرمایہ دارانہ سماج میں پیسے کی طاقت بیان کی گئی ہے۔ تمام انسانی رشتے اسی طاقت کے تابع ہوتے ہیں، جو انہیں توڑ مروڑ کر غیر انسانی، بدصورت اور استحصالی بنا دیتی ہے۔ انسانی نفسیات اس بیگانی قوت کا بے پناہ اثر لیتی ہے جو انسانوں کو ان کی قدرتی صلاحیتوں، جسمانی طاقت، حسن اور ذہانت کے بجائے ان کے پاس موجود پیسے کی مقدار پر پرکھتی ہے۔

اس سے ایک ایسی خوفناک صورت حال پیدا ہوتی ہے جس میں تمام انسانی رشتے اپنے سر کے بل کھڑے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم تہذیب کے معیار کا اندازہ عورتوں، بچوں اور بزرگوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے لگائیں، تو جدید تہذیب ہر نقطہ نظر سے قابل مذمت دکھائی دیتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں بیویوں اور بچوں پر تشدد کے بھیانک واقعات، یتیم بچوں کی حالت اور جسم فروشی کی لعنت کا مقابلہ اگر بچوں کی مشترکہ پرورش سے کیا جائے، جو انسانی تاریخ کے زیادہ تر حصے میں ہوتا رہا ہے، تو نتائج شرمناک ہوں گے۔ یہ سب اس عجیب و غریب سماجی تشکیل کے بعد سامنے آیا ہے جسے لوگ تہذیب کہہ کر پکارنے کے شوقین ہیں۔ ہم یہاں ایک اصل امریکی باشندے کی ایک مسیحی مبلغ سے ہونے والی گفتگو پر نظر ڈالتے ہیں:

”تم گورے لوگ صرف اپنے بچوں سے پیار کرتے ہو۔ ہم پورے قبیلے کے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ وہ سب کے بچے ہوتے ہیں اور ہم سب ان کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ ہماری ہی ہڈیوں کی ہڈیاں اور ہمارے ہی گوشت کا گوشت ہوتے ہیں۔ ہم سب ان کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ گورے لوگ وحشی ہیں، وہ اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے۔ اگر بچے یتیم ہو جائیں تو ان کی دیکھ بھال کے لیے لوگوں کو رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم ان بربریت پر مبنی خیالات کے بارے میں بالکل نہیں جانتے“۔ (ایم۔ ایف۔ ایشلے، و دیگر، شادی: ماضی اور حال: رابرٹ بریفالٹ اور برونیسلا مالی ناؤسکی کے مابین ایک مباحثہ)

نقطہ انتہا (The Tipping Point)

بالکل ایک ایٹم کے مرکزے کی طرح، جس میں کچھ قوتیں اسے بکھرنے سے بچانے کے لیے کارفرما ہوتی ہیں، معاشرے میں بھی کچھ عوامل یہی کام سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن اب تک ان میں سے سب سے طاقتور قوت خود انسانوں کے دماغوں میں موجود ہے۔ روایت، عادت اور معمول معاشرے میں استحکام کی مضبوط قوت کا کردار ادا کرتے ہیں۔

زیادہ تر لوگ تبدیلی کو پسند نہیں کرتے۔ وہ موجود صورتحال میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کو نامعلوم میں ایک خوفناک جست کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت اپنے خیالات، تعصبات، مذہبی عقائد، جانی پہچانی سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں کے ساتھ انتہائی مضبوطی سے چمٹی رہتی ہے۔ یہ موجودہ نظام کو جوڑے رکھنے کے لیے سب سے طاقتور گوند ہے۔ لیکن فطرت میں باقی ہر چیز کی طرح استحکام کی یہ مضبوط قوت بھی چیزوں کو ایک خاص حد تک ہی جوڑ کر رکھ سکتی ہے۔

سطح پر بظاہر سکون کی حالت ہوتی ہے، جس پر کہا جاتا ہے کہ ”یہاں کچھ نہیں ہونے والا“، مگر سطح کے نیچے کھولتی ہوئی بے چینی، جمع ہوتا غصہ، تلخی اور بے قراری پائی جاتی ہے جسے ایک شعوری اظہار کے راستے کی تلاش ہوتی ہے۔ جلد یا بدیر حالات ایک خاص نہج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں مقدار معیار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

ہمیں ہر ہڑتال میں یہ عمل دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں لوگوں میں بنیادی تبدیلی آ جاتی ہے۔ وہ محنت کش جو ماضی میں ہمیشہ بے حس اور بے عمل ہوا کرتے تھے، وہ فوری طور پر اس طرح تحرک میں آتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر وہ لوگ بھی حیران رہ جاتے ہیں جو خود کو ان سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔ بائبل کے الفاظ میں: ”پہلا آخری بن جائے گا اور آخری پہلا“۔ یہ ایک انتہائی جدلیاتی دعویٰ ہے!

حد فاصل کے ظہور کو ہیگل نے ”خیال کی مظہریات“ میں انتہائی شاعرانہ اور پر اثر زبان میں بیان کیا ہے:

”باقی یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ ہمارا دور ایک جنم کا دور ہے، ایک تغیر کا دور ہے۔ انسان کی روح [عالمی یا اجتماعی شعور] نے اب تک چلنے والے پرانے نظام اور سوچ کے پرانے انداز سے منہ موڑ لیا ہے، اور یہ اس کے ذہن میں ہے کہ سب کو ماضی کی گہرائیوں میں ڈوبنے دینا ہے اور خود کو اپنی [اجتماعی شعور] تبدیلی کے ساتھ مطابق ہونے دینا ہے۔ یہ کبھی بھی سکون کی حالت میں نہیں ہوتی، بلکہ ہمیشہ ترقی کے دھارے میں بہتی رہتی ہے۔ بالکل ایک بچے کی پیدائش کی طرح جس میں ایک لمبے عرصے تک خاموشی سے غذائی نشوونما کے عمل، حجم میں دھیرے دھیرے کے اضافے کی مقداری تبدیلیوں کے بعد یہ سارا سلسلہ پہلی سانس کے ساتھ ہی منقطع ہو جاتا ہے، یہ عمل رک جاتا ہے، ایک معیاری تبدیلی آتی ہے اور بچہ جنم لے لیتا ہے۔ بالکل اسی طرح وقت کی روح [عالمی انسانی شعور اپنی کُلیت میں] دھیرے دھیرے نشوونما پاتی ہے اور نئی شکل لینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے، اور پھر اپنی پرانی دنیا کے ڈھانچے کو ایک کے بعد ایک ریزہ ریزہ کرتے ہوئے تحلیل کرنے لگتی ہے۔ گرنے سے پہلے اس کا ڈگمگانا محض چنداِدھر اُدھر کی علامات سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ سبک سری اور بیزاری، جو موجودہ حالات میں پھیل رہی ہے، کسی ان دیکھی اور انجانی چیز کا پیش خیمہ ہے، یہ سب باتیں اس چیز کی علامت ہیں کہ کچھ اور آ رہا ہے۔ دھیرے دھیرے ٹوٹ کر بکھرنے کا سلسلہ، جس سے کُل کی عمومی ساخت تبدیل نہیں ہوتی، سورج کے طلوع ہونے سے منقطع ہو جاتا ہے، جو ایک ہی کرن اور ایک ہی لحظے میں نئی دنیا کی شکل اور ساخت سامنے لے آتا ہے۔“

سماج میں موجود تضادات، یعنی طبقاتی جدوجہد، بنا رکے کسی نہ کسی شکل میں کارفرما رہتے ہیں، کم یا زیادہ شدت کے ساتھ، یہاں تک کہ وہ نقطہ فاصل تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس نقطے پر پہنچ کر ایسی علامات ابھرنے لگتی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حالات پہلے کی طرح نہیں رہ سکتے: حکمران طبقے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور وہ پہلے کی طرح حکومت کرنے کے قابل نہیں رہتا؛ عوام موجود نظام کو للکارنے کے لیے حرکت میں آ جاتے ہیں؛ سماج کی درمیانی پرتیں انقلاب اور رد انقلاب کے درمیان ڈگمگاتی ہیں۔ یہ تمام علامات کسی بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہیں۔

اس عمل کو، جس کے ذریعے سماج بالآخر طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہو جاتا ہے، عظیم روسی انقلابی رہنما لیون ٹراٹسکی نے بیان کیا ہے۔ اپنی کتاب ”انقلابِ روس کی تاریخ“ میں دہرے اقتدار والے باب میں وہ لکھتا ہے:

”سماج میں ہر جگہ متحارب طبقات پائے جاتے ہیں اور وہ طبقہ جو اقتدار سے محروم ہو لازمی طور پر حکومت کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ سماج میں دو یا دو سے زیادہ طاقتیں حکومت کر رہی ہیں۔ سیاسی ڈھانچے کے کردار کا تعین براہ راست حکمران اور محکوم طبقات کے تعلق سے ہوتا ہے۔ ایک واحد حکومت، جو کسی بھی نظام حکومت کے استحکام کی لازمی شرط ہے، تب تک قائم رہتی ہے جب تک حکمران طبقہ سارے سماج پر اپنی معاشی اور سیاسی بُنتروں کو بطور واحد ممکن بُنتروں کے مسلط کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔۔۔“

”یہ دہری حاکمیت اقتدار کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرنے کی متقاضی نہیں ہوتی اور نہ ہی طاقتوں کے کسی ظاہری توازن کی، بلکہ عمومی طور پر یہ ایسے کسی بھی امکان کو رد کرتی ہے۔ یہ آئینی نہیں بلکہ ایک انقلابی حقیقت ہے۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سماجی توازن بگڑنے سے ریاست کا بالائی ڈھانچہ ہی تقسیم ہو جاتا ہے۔ یہ بات سامنے آتی ہے کہ متحارب طبقات پہلے سے ہی غیر ہم آہنگ حکومتی ڈھانچوں پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں، ایک متروک ہونے اور دوسرا بننے کے عمل میں، جو حکومت کے ہر شعبے میں ہر قدم پر ایک دوسرے سے دھکم پیل کرتے ہیں۔ دونوں متحارب طبقات کے ہاتھوں میں جو اقتدار آتا ہے، اس کا انحصار جدوجہد میں فریقین کے مابین طاقتوں کے توازن پر ہوتا ہے۔“

فرد کا کردار

13اکتوبر 1806ء کو پُر جوش ہیگل نے اپنے ایک دوست نیتھامرؔ کو ایک خط میں لکھا:

”میں نے شہنشاہ کو دیکھا، اس دنیا کی روح کو، جو گھوڑے پر سوار ہو کر شہر کے معائنے کو نکلا تھا۔ ایسے فرد کو دیکھنا حقیقت میں ایک عجیب سا احساس ہے، جو خود کو ایک ہی نکتے پر مرکوز رکھتے ہوئے، گھوڑے پر سوار، دنیا کی طرف بڑھتا ہے اور اسے فتح کر لیتا ہے۔“

بیتھوون اور اس دور کے دوسرے کئی ترقی پسند دانشوروں کی طرح نوجوان ہیگل بھی انقلاب فرانس کا ایک پُر جوش حمایتی تھا۔ اسے لگا کہ اس نے نپولین کی شخصیت کی شکل میں اس انقلاب کی روح کو گھوڑے پر سوار دیکھا۔ بلاشبہ اس نے نپولین کے کردار اور فطرت کی غلط پذیرائی کی۔ بہرحال انقلاب فرانس کو زمانوں کی روح کے طور پر دیکھنے میں وہ بالکل بھی غلط نہیں تھا۔ مارکسزم تاریخ میں فرد کے کردار کی نفی نہیں کرتا، جیسا کہ اینگلز نے وضاحت کی:

”انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں، مگر وہ ایسا کسی مشترکہ مرضی یا کسی مشترکہ منصوبے کے تحت کسی مکمل طور پر واضح سماج میں نہیں کرتے۔ ان کی کوششیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور اسی وجہ سے تمام ایسے سماج لازمیت کے تابع ہوتے ہیں، جو حادثے کی شکل میں اور حادثے ہی کی مدد سے سامنے آتی ہے۔ وہ لازمیت جو حادثوں کے درمیان اپنا اظہار کرتی ہے، حتمی طور پر معاشی لازمیت ہوتی ہے۔ یہیں نام نہاد عظیم لوگ بھی اپنا کردار ادا کرنے آتے ہیں۔ ایک خاص وقت میں ایک خاص ملک میں ایک خاص شخص سامنے آتا ہے، جو کہ مکمل طور پر ایک حادثہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر اسے نکال باہر کریں تو متبادل کی طلب پیدا ہو گی اور متبادل مل جائے گا، اچھا یا برا، لیکن وقت گزرنے پر مل جائے گا۔ نپولین، ایک کارسیکائی، کو خانہ جنگی سے نڈھال جمہوریہ فرانس کا ایک فوجی آمر بننا تھا، کیونکہ یہ لازمی ہو گیا تھا۔ یہ ایک حادثہ تھا، لیکن اگر نپولین نہ ہوتا تو کوئی اور اس کی جگہ لے لیتا۔ یہ حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ جب جب لازمی ہو آدمی مل جاتا ہے: قیصر، آگسٹس، کرامویلؔ، وغیرہ۔ جب مارکس نے تاریخ کا مادی تصور دریافت کیا تو تب بھی، 1850ء سے قبل ٹھییری، میگنٹ، گیزو اور دیگر تاریخ دانوں کی تحریروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی کوشش کی جا رہی تھی۔ لوئس مورگن کی جانب سے کی جانے والی قدیم سماج کی تحقیقات بھی یہ ثابت کرتی ہیں کہ وقت آ چکا تھا اور اسے دریافت ہونا ہی تھا۔

”ایسا ہی تاریخ کے تمام حادثات، اور حادثات نماؤں، کے ساتھ ہوا۔ ہم اگر کسی زیر غور مخصوص دائرہ کار کو معیشت کے دائرہ کار سے دور لے جائیں اور تجریدی نظریات کے قریب لائیں، تو ہمیں لگے گا کہ اس میں حادثات کی تعداد زیادہ ہے، اس کی لکیر زیادہ آڑی ترچھی ہو گی۔ ہمیں یہ بھی نظر آئے گا کہ اگر ہم ادوار اور دائرہ کار کو وسیع کرتے جائیں تو یہ لکیر معیشت کی لکیر کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی جائے گی۔“ (اینگلز، بورجیس کے نام خط، 25 جنوری 1894ء)

ہم تشکیل مرکزہ (nucleation) کے عمل کا پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں، ایک نقطہ فاصل جس پر ایک مظہر بنیادی تبدیلی کی نہج پر پہنچ جاتا ہے۔ مقدار کی معیار میں تبدیلی کسی بیرونی جھٹکے سے ہوتی ہے یا کسی عمل انگیز کی موجودگی میں۔ انقلاب میں بھی ہمیں یہی عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔

انقلاب کے تمام معروضی عوامل موجود ہو سکتے ہیں، مگر ممکن کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کچھ اور درکار ہوتا ہے۔ قبل از انقلاب صورتحال میں عمل انگیز کا کردار انقلابی پارٹی اور اس کی قیادت ادا کرتی ہے۔ ایک انقلابی پارٹی ہی غیر ترقی یافتہ، بے شکل اور تذبذب کی شکار عوامی تحریک کو ضروری ربط، ڈھانچہ، مقاصد اور تنظیم فراہم کرتی ہے، نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے جس کی ضرورت ہوتی ہے، وہ نظام جو پہلے ہی گرنے کے لیے ڈگمگا رہا ہوتا ہے، پھر بھی مزاحمت کی ایک خوفناک قوت ثابت ہوتا ہے، جس پر شعوری طور پر غلبہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔

تاریخ میں ہر انقلابی پارٹی کا آغاز ایک چھوٹی سی اقلیت کی صورت میں ہوا ہے۔ شروعات میں وہ موجود نظام کے لیے کسی قسم کا کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں ہوتی۔ کسی بھی جاندار کی طرح اس کا آغاز ایک جنین سے ہوتا ہے، لیکن ایک ایسا جنین جس میں ایک صحت مند انسان بننے کے لیے تمام ضروری موروثی معلومات موجود ہوں اور جو بڑھنے اور نشوونما پانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

یہ بات بھلے ہی متناقض معلوم ہو، مگر شروع کے کالونسٹوں (Calvinists) کی جبریت (determinism) نے ان پر مایوسی اور محرک کے خاتمے کی بجائے الٹا اثر کیا۔ پیوریٹنز (Puritans) کو یہ یقین تھا کہ وہ ایک ایسی طاقت کی طرف سے لڑ رہے ہیں جس کے پیچھے لازمیت کی تمام قوت موجود ہے۔ یہ ان کا مذہبی فریضہ تھا کہ وہ ”نیک جنگ لڑیں“ اور خدا کی سلطنت کے جلد از جلد قیام میں مدد کریں۔ حتمی فتح کے پکے یقین نے انہیں عمل کی تحریک دی۔

اسی طرح مارکسیوں کا بھی سوشلزم کی لازمیت پر یقین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع پیداوار اور سماج کو ترقی دینے اور ثقافت اور تہذیب کو آگے بڑھانے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ پیداواری قوتوں کو آج کل کی سطح پر لا کر اس نے اگلے منطقی مرحلے کی راہ ہموار کر دی ہے، جو ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت ہے، وہ ذرائع پیداوار جو نجی ملکیت اور قومی ریاست کے گنبدبے در میں بغاوت پر آمادہ ہیں۔

یہ عمل کئی وجوہات کی بنا پر تیز یا سست ہو سکتا ہے، ان وجوہات میں سے موضوعی عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ محنت کش طبقے کے پاس اقتدار پر قبضہ کرنے کے کئی مواقع آئیں گے، مگر محض کسی چیز کے ممکن ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ یہ امکان لازماً حقیقت میں تبدیل ہو گا۔ اس کا انحصار انسانوں کے افعال، ان کی لڑنے کی خواہش اور رہنماؤں کے معیار پر ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام اس وقت واضح زوال کی کیفیت میں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ ضعیفانہ زوال تہذیب اور بذات خود انسانی نسل کے لیے ایک خطرہ ہے، اس اذیت کو طول دینے کا مطلب بحران کو مزید گہرا کرنا ہے، جس کے ساتھ معاشی اور سماجی انہدام، غربت، اذیت، جنگیں، اموات اور بڑے پیمانے پر تباہی جڑی ہے۔

لہٰذا یہ مارکسیوں کا فرض ہے کہ وہ نسلِ انسانی کی اذیتوں کے خاتمے کی خاطر لڑیں اور انقلاب کے عمل کو تیز کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں، جو کہ اپنی عمر پوری کر چکے اس مرتے ہوئے گلے سڑے اور بدبو دار نظام سے نجات کا واحد راستہ ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو باشعور انقلابی، تاریخی لازمیت کے کارندے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح اولیور کرامویلؔ کے سورما، فرانسیسی جیکوبنؔ اور روسی بالشویک اپنے اپنے دور میں ناگزیر سماجی تغیر کے کارندے تھے۔

جدلیات: انقلابی جدوجہد کی سائنسی بنیاد

انقلابی پارٹی میں مارکسی نظریہ جینیاتی معلومات کے مترادف ہوتا ہے۔ انقلابی پارٹی بھلے ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، اس میں بڑھوتری کے لیے یہ خصوصیت ہونا لازمی ہے۔ اگر وہ اپنا کام ٹھیک سے کرے اور اس کے پاس مواقع موجود ہوں تو وہ تعداد میں بڑھ سکتی ہے اور ترقی بھی کر سکتی ہے۔ معیار مقدار میں تبدیل ہو جاتا ہے، لیکن ایک خاص مقام پر آ کر مقدار بھی معیار میں بدل جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں بڑی پارٹی ایک اہم عنصر بن جاتی ہے، اور اس کے افعال کا لوگوں کی ایک بڑی تعداد پر اثر ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ فتح کی جانب عوام کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

غور کرنے والی سب سے اہم بات وہ اہمیت ہے جو لینن اور ٹراٹسکی نے نظریے، تناظر کی سنجیدہ تخلیق، لائحہ عمل اور طریقہ کار کو دی۔ آخری تجزیے میں یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ لینن شروع سے ہی ہمیشہ نظریے کی بنیادی اہمیت پر زور دیتا تھا۔ اپنی کتاب ”کیا کیا جائے“ میں وہ لکھتا ہے:

”انقلابی نظریے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک نہیں ہو سکتی۔ اس خیال کا مطالبہ مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب موقع پرستی کی فیشن ایبل تبلیغ اور عملی سرگرمیوں کی محدود ترین شکلوں کے لیے [اختیار کردہ] حماقت قدم سے قدم ملا کر چلتی پائی جائیں۔“

اپنی سوانح عمری ”میری زندگی“ میں ٹراٹسکی نے بہترین طریقے سے انقلابی کام کرنے کے لیے سائنسی بنیاد کے طور پر جدلیاتی طریقہ کار کی اہمیت یوں بیان کی ہے:

”بعد میں مخصوص کے مقابلے میں عمومی کی برتری کا احساس میرے ادبی اور سیاسی کام کا ایک اہم حصہ بن گیا۔ بے جان تجربیت پسندی، حقائق کی بے شرم اور غلامانہ پرستش، جو کہ اکثر خیالی اور غلط فہمی پر مبنی ہوتی ہے، سے مجھے چڑ تھی۔ میں حقائق سے آگے قوانین تلاش کرتا تھا۔ قدرتی طور پر اس وجہ سے میں ایک سے زیادہ مرتبہ جلد بازی اور غلطی پر مبنی عمومیت کی طرف بھی گیا۔ خاص طور پر اپنی نوجوانی کے دور میں، جب میرا علم محض کتابی تھا اور زندگی کا تجربہ ابھی ناکافی تھا۔ مگر ہر شعبے میں بلا کسی تفریق کے مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں صرف تب ہی آگے بڑھ سکتا ہوں جب میں نے اپنے ہاتھ میں عمومیت کا سرا تھاما ہو۔ یہ سماجی انقلابی نظریہ، جو میری داخلی زندگی کا مستقل محور بن چکا ہے، وہ بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی تلاش، محض عملیت پسندی اور ہر اس چیز سے نفرت کے نتیجے میں ابھرا ہے جو تصوراتی طور پر بے شکل اور نظریاتی تعمیم سے خالی ہو۔“

یہ ”بے جان تجربیت پسندی، حقائق کی بے شرم اور غلامانہ پرستش“ جیسا کہ ٹراٹسکی نے نشاندہی کی، اصلاح پسندی کی فلسفیانہ بنیاد ہے، ”زندگی کی حقیقتوں“ کے آگے بزدلانہ دستبرداری ہے، جسے سیاست میں ”ممکنات کا فن“ سمجھا جاتا ہے، جس میں موجود نظام کو درپیش تمام خطرات کو ناممکن، یوٹوپیائی اور خطرناک مہم جوئی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مارکسزم ہمیں موجود نظام کا سائنسی تجزیہ دیتا ہے، حقائق کی سطح کے نیچے موجود تضادات سامنے لے کر آتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ بظاہر مستحکم، مضبوط اور بے تغیر دکھنے والی چیزوں کو ان کے الٹ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

مارکس اور اینگلز نے کہا تھا کہ انسانیت کے آگے دو ہی راستے ہیں: سوشلزم یا بربریت۔ بربریت کے عناصر ابھی سے موجود ہیں۔ محض نام نہاد ترقی پذیر دنیا میں ہی نہیں، جہاں کروڑوں لوگ غربت، بھوک، بیماری اور جنگ کی ہولناک صورت حال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، بلکہ نام نہاد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی۔

مارکسیوں کا مقصد قومی اور بین الاقوامی سطح پر سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے لیے لڑنا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے بہت عرصہ پہلے اپنی تاریخی افادیت کھو دی تھی اور اب وہ ایک ظالم، استحصالی، غیر منصفانہ اور غیر انسانی نظام میں تبدیل ہو چکا ہے۔ استحصال کا خاتمہ اور ایک ہم آہنگ عالمی سوشلسٹ نظام کا قیام، جس کی بنیاد جمہوری طور پر منصوبہ بند پیداوار پر ہو، ایک نئے اور بلند تر سطح کے معاشرے کے قیام کی جانب پہلا قدم ہو گا، جس میں مرد و زن خود کو صحیح معنوں میں آزاد انسان تصور سکیں گے۔

جدید دور میں فلسفے کا کردار سوشلسٹ انقلاب کے عظیم فریضے کی مدد کرنا، غلط خیالات سے لڑنا اور ہمارے دور کے سب سے اہم مسائل کی منطقی وضاحت پیش کرنا اور یوں معاشرے کی بنیادی تبدیلی کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ کارل مارکس کے مشہور زمانہ الفاظ میں:

”اب تک فلسفی مختلف طریقوں سے دنیا کی محض تشریح کر چکے ہیں، اصل کام اسے تبدیل کرنا ہے۔“

Comments are closed.