تاریخِ فلسفہ کا تعارف: ایک مارکسی تناظر

|ترجمہ: صبغت وائیں|

نقطہ آغاز

کوئی ستائیس سال پہلے ”مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس“ لکھتے ہوئے میں نے تاریخِ فلسفہ پر کام شروع کیا تھا، یہ ایک ایسی کتاب ہے جو کہ مارکسی فلسفے اور جدید سائنس کے تعلق کو بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب بہت بڑی کامیابی تھی لیکن یہ میرے اندازے سے کہیں زیادہ طویل ہو گئی۔ لہٰذا میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کتاب کے پہلے حصے سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور ہو گیا جو کہ تاریخ فلسفہ سے متعلق تھا اور جو ہمیں آغاز سے لے کر مارکس کے عظیم انقلاب یعنی جدلیاتی مادیت تک اس تاریخ سے روشناس کرواتا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اس طرح یہ ارادہ کیا کہ مستقبل میں کسی وقت فلسفے کی تاریخ کو ایک علیحدہ کتاب کی صورت شائع کر لیں گے۔ لیکن ناگزیر کاموں کے لیے وقت نکالتے نکالتے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ کام التوا میں پڑا رہا۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کے لیے اس ہاتھ سے لکھے کام کو اسی طرح سے چوہوں کی کٹیلی تنقید کے لیے رکھ دیا گیا جیسے کہ مارکس نے ایک بار جرمن آئیڈیالوجی کے غیر مطبوعہ متن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا۔ آخر کار یہ ہماری ویب سائٹ پر شائع کر دیا گیا اور اس کو ہاتھوں ہاتھ سراہا بھی گیا لیکن اس کو بطور ایک کتاب کے شائع کرنے کا اصل مقصد ابھی تک ادھورا پڑا تھا۔

reasoninrevolt

کوئی ستائیس سال پہلے ”مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس“ لکھتے ہوئے تاریخِ فلسفہ پر کام شروع کیا گیا تھا، یہ ایک ایسی کتاب ہے جو کہ مارکسی فلسفے اور جدید سائنس کے تعلق کو بیان کرتی ہے۔ اس کتاب کی طوالت کے باعث فلسفہ تاریخ کو تب شائع نہیں کیا گیا۔ ہم بڑے فخر کے ساتھ اس کتاب کو اب شائع کر رہے ہیں۔

میں فلسفے سے خصوصی شغف رکھنے والے ان متعدد کامریڈز کا ممنون ہوں جنہوں نے مجھے تحریک دی کہ یہ کام مکمل کروں۔ اس کام کو بورژوا نظریے سے نبرد آزما ہونے اور مارکسزم کے نظریات کے دفاع اور ان کی ترویج کے لیے عالمی مارکسی رجحان کی جاری مہم میں ایک کاوش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بروقت اور ضروری فیصلہ تھا۔ ایک ایسے وقت میں جہاں یہ سرمایہ دارانہ نظام خود کو آخری بحران میں پاتا ہے، موجود نظام کا دیوالیہ پن لازمی طور پر فکری زندگی کے ہر پہلو کے ایک واضح زوال کی صورت میں اپنا اظہار کرتا ہے۔

یہ فلسفے کے میدان میں خاص طور پر نمایاں ہے، جہاں بورژوا سوچ اپنے زوال کا اظہار انتہائی گھٹیا انداز میں کرتی ہے۔ سوشلزم کی جدوجہد صرف سیاست اور معاشیات تک محدود نہیں ہے۔ اس کو لازمی طور پر خیالات کی سطح سے شروع کرتے ہوئے ہر سطح پر جاری رہنا چاہیے۔ اگر میرا یہ کام محنت کشوں اور نوجوانوں کو اس لازمی جدوجہد میں ]فکری طور پر۔ مترجم[ مسلح کرنے میں مدد کر پاتا ہے تو سمجھیں کہ میرا مقصد حاصل ہو جائے گا۔

جن لوگوں نے اصل نسخہ پڑھا ہے وہ دیکھیں گے کہ تمام ضروری نکات میں اس کو پہلے جیسا ہی رکھا گیا ہے۔ لیکن میں نے کامریڈز کی مدد سے سارے کے سارے متن کو دوبارہ سے لکھا ہے اور اس میں نئے حصے شامل کیے ہیں، خاص طور پر قرون وسطیٰ کے باب میں، اور ایک آخری باب کا اضافہ بھی کیا ہے، جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیوں مارکسزم کے ساتھ ہی فلسفے کا – کم از کم لفظ کے پرانے معنوں کی حد تک – خاتمہ ہو چکا ہے۔

آپ نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ ہندوستانی فلسفے پر اضافی باب جو کہ ضمیمے کے طور پر شامل کیا گیا تھا موجودہ ایڈیشن سے خارج کر دیا گیا ہے، جبکہ اسلامی فلسفے کے باب کو چھوٹا کر دیا گیا ہے، جو بنیادی طور پر قرون وسطیٰ میں ادا کیے گئے اس کے کردار سے متعلق ہے۔ ایسا کرنا نہ تو کوئی اتفاق ہے اور نہ ہی میری طرف سے ]اس موضوع سے[ عدم دلچسپی کی بنا پر ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جیسا کہ آپ تسلیم کریں گے، ڈھائی ہزار سال پر محیط فلسفے پر بات رکھنا بہت مشکل کام ہے، اور ]کتاب کی[ ضخامت کی محدودیت کی وجہ سے میں اس موضوع کے بہت سے اہم پہلوؤں کو چھوڑنے پر مجبور ہوا، اور لازمی ترین کے علاوہ سے قطع نظر کرنا پڑا۔

مشرقِ میں فلسفے کا ارتقاء (جس میں چینی فلسفے کا بھی احاطہ کرنا ہوگا – جو فی نفسہ ایک وسیع موضوع ہے) مغرب کے فلسفے سے بالکل مختلف خطوط پر آگے بڑھا، جو ہیگل میں آ کے اپنے نکتہ عروج پر پہنچتے ہوئے اس فلسفیانہ انقلاب پر منتج ہوا جو کہ مارکس اور اینگلز کی جانب سے لایا گیا۔ اس موضوع کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے نہ صرف موجود کتاب کی خاصی (اور کافی حد تک غیر ضروری) توسیع کی ضرورت ہوتی بلکہ ایسا کرنا اضافی جلدوں کا تقاضا کرتا تھا۔ اس لیے، بجائے اس کے کہ اس اچھے خاصے پیچیدہ موضوع پر غیر تسلی بخش خلاصہ شائع کیا جائے، جو کسی کو بھی مطمئن نہ کرتا، کم از کم خود میری حد تک، میں نے اس خواہش اور امید کے ساتھ اس موضوع کو ایک جانب رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں مناسب وقت ملنے پر یہ کام کیا جائے گا۔

فلسفہ کیا ہے؟

مارکسزم کا آغاز فلسفے کے طور پر ہوا، اور مارکسزم کا فلسفیانہ طریقہ مارکس اور اینگلز کے نظریات کو سمجھنے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن فلسفہ ہے کیا؟

فلسفہ سوچنے کا ایک طریقہ ہے، جو کہ اس طرح کی سوچ سے مختلف ہے جو کہ ہم عام زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو روزمرہ کی زندگی کے فوری سوالات تک محدود نہیں رکھتا بلکہ زندگی اور موت، کائنات، خیالات اور مادّے کی حقیقت، اور کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے جیسے بڑے سوالات سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو بالآخر ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سوالات عام طور پر زیادہ تر لوگوں کی سوچ کا محور نہیں ہوتے۔

بشمول موجودہ عہد کے، پوری تاریخ میں زیادہ تر مردوں اور عورتوں کے ذہن کو زندہ رہنے کی جدوجہد نے اپنی حد تک محدود کئے رکھا ہے۔ وہ ان خالصتاً زمینی سوالوں میں مکمل طور پر گرفتار ہیں: کیا اگلے ہفتے تک میری نوکری سلامت رہ پائے گی؟ کیا میں اس ماہ کے آخر تک کے خرچے پورے کر پاؤں گا؟ کیا مجھے کبھی سر چھپانے کی اپنی جگہ نصیب ہو پائے گی؟ کیا میرے بچوں کی تعلیم مکمل ہو پائے گی۔۔۔اور اسی طرح کے کئی اور سوال۔

History of Philosophy

پھر بھی انسانی سوچ بہت بڑی چیزوں پر قادر ہے۔ فکر کی تاریخ میں آرٹ کی تاریخ شامل ہے، جس کا آغاز لاسکاکسؔ اور التامیرؔا کی شاندار غار پینٹنگز سے ہوتا ہے۔ سائنس کی تاریخ، جس نے ہمیں فطرت کو فتح کرنے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے قابل بنایا ہے۔ اور فلسفے کی تاریخ، اپنی تمام حیران کن بصیرت کے ہمراہ۔

فلسفہ اس وقت اُبھرتا ہے جب لوگوں نے مافوق الفطرت وسیلوں کی مداخلت کے بغیر دنیا کی وضاحت کرنے کی کوشش کرنا شروع کیا: جیسے کہ دیوی، دیوتا، مذہب اور دیگر تمام تواہم جو قدیم ترین زمانے سے چلے آ رہے تھے۔ یہ فطرت اور خود ہمارے بارے میں سائنسی تفہیم کا آغاز ہے۔

دنیا کو دیکھنے کا ایک انقلابی نظریہ

مارکسزم کی سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک عالمی نقطہ نظر ہے، یا اگر آپ چاہیں تو اس کو فلسفہ کہہ لیں۔ اس کا دائرہ کار وسیع ہے۔ یہ ایک طرف تو تاریخ اور معاشیات کا نظریہ ہے، اور دوسری جانب یہ انقلابی عمل کا رہنما بھی ہے۔ لیکن مارکس نے اپنے خیالات کہاں سے حاصل کیے؟ وہ کہیں آسمان سے تو نہیں ٹپکے ہوں گے نا۔ مارکس نے خود وضاحت کی کہ اس کے نظریات کے تین بنیادی ذرائع تھے: ”انگریزی کلاسیکی بورژوا معاشیات (ایڈم سمتھ اور ڈیوڈ ریکارڈو)، پھر یوٹوپیائی سوشلزم کی نیو رکھنے والے اس کے پُرجوش علمبردار: فرانسیسی سینٹ سائمن اور فورئیر، اور میرے ساتھی ویلش مین رابرٹ۔اووین۔“

لیکن مارکس اور اینگلز کے نظریات کے ابتدائی مراحل میں پہلا اور سب سے اہم عنصر بلا شبہ جرمن کلاسیکی فلسفہ تھا، خاص طور پر ہیگل۔ اور یہ، اپنی باری آنے پر، فلسفیانہ سوچ کے بہت سے مختلف مکاتب فکر کے ارتقاء کے ایک دراز عرصے کا نتیجہ تھا۔ ان کو رد کر دینا اب انتہائی آسان ہے، جیسے کہ یوٹوپیائی سوشلسٹوں کے خیالات (جن کو دوھرنگ نے کیا)۔ لیکن سوشلزم کی تاریخ میں ان کی نمایاں خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا اور مارکسزم کے ابتدائی مرحلے میں ان کے نظریات کے کردار کو تسلیم کرلینا یقینا زیادہ مناسب ہو گا۔

میں نے حال ہی میں رابرٹ اووین کے کچھ حصوں کو دوبارہ پڑھا اور میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ان کے کچھ خیالات آج بھی کافی انقلابی ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ، اووین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، ہم یوٹوپیائی سوشلزم کے نظریات کی طرف واپس جانے کی حمایت کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں! لیکن اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ ان نظریات نے سائنسی سوشلزم کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایک سادہ حقیقت ہے۔

اکثر مجھے ایک بچگانہ قسم کے تعصب کا سامنا ہوا ہے جس میں یہ باور کر لیا جاتا ہے کہ مارکس اور اینگلز سے پہلے جو کچھ بھی آیا ہے اس کو قدامت پسندی اور رجعت پرستی کے طور پر رد کیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ نہ صرف ہیگل بلکہ ایڈم سمتھ اور ریکارڈو بھی ”اعلیٰ طبقے کے مفکر“ تھے۔ کچھ احمق لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ صرف یہی حقیقت انہیں عظیم انقلابی مفکرین کے طور پر نااہل قرار دینے کے لیے کافی ہوگی۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان میں سے کچھ (اگرچہ کسی بھی طرح سے سب کے متعلق ایسا نہیں کہا جا سکتا) ایسے سیاسی خیالات رکھتے تھے جو قدامت پرستی کی جانب نہ صرف مائل تھے، بلکہ ایک لحاظ سے شدت پسند بھی تھے۔ ہیگل خود اپنے سیاسی خیالات میں قدامت پرست تھا، حالانکہ نوجوانی میں وہ فرانسیسی انقلاب کا حامی تھا۔ لیکن ان سب باتوں کا ہونا اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا کہ اس کے جدلیاتی طریقہ کار میں ایک شاندار انقلابی عنصر موجود تھا–ایک ایسی حقیقت ہے جسے رجعت پرست پروشین ]جرمن[ حکام نے تسلیم کیا، جو ہیگل کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھتے تھے، اور حتیٰ کہ اس پر الحاد اور تخریبی خیالات کا شبہ بھی رکھتے تھے۔

مارکس نے بہت پہلے وضاحت کی تھی کہ ہر دور کے حکمران نظریات حکمران طبقے کے نظریات ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے دور کی جدید ترین فکر کی نمائندگی کرتے تھے اور مارکس نے خود کو بھی انہی خیالات کی بنیاد پر استوار کیا تھا۔ قدر کا قانون جس کو ایڈم سمتھ نے دریافت اور ریکارڈو نے پختہ کیا تھا، مارکس کے قدرِ زائد کے نظریے کا راہ نما تھا، اور ہیگل کی خیال پرست جدلیات نے ہی جدلیاتی مادیت کی تخلیق کی راہ دکھائی۔ یہ تصور کہ مارکسسٹ ماضی کے نظریات سے صرفِ نظر کر سکتے ہیں اتنا ہی احمقانہ ہے جتنا کہ کچھ انتہائی نراجیت پسندوں Anarchists کا یہ تعصب کہ ایک نئے غیر طبقاتی معاشرے کی تعمیر کے لیے پہلے تمام موجود اشیا کو برباد کر دیا جائے اور پھر سب کچھ نئے سرے سے تعمیر کیا جائے۔ یہ احمقوں کی دنیا کے خواب دیکھنے والوں کی تمام باتوں کا کشید کردہ جوہر ہے اور اگر ہم اسے قبول کر لیتے ہیں تو ہم عملی طور پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے امکان کو یکسر رد کر دیں گے۔

ایک سوشلسٹ انقلاب سرمایہ داری کی موجودہ حاصلات کو برباد نہیں کرے گا بلکہ اس کے برعکس، ان کے اوپر ہی تعمیر کرے گا، انہیں بالکل مختلف سماجی اور مختلف طبقاتی مواد ]یعنی محنت کش طبقے کے مفاد میں ہو۔ مترجم[ سے بھر دے گا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی حاصلات اب ایک چھوٹے طفیلیے حکمران طبقے کے مفادات کی تکمیل نہیں کریں گی، بلکہ پورے معاشرے کے مفاد کی ہم آہنگی کے مطابق منصوبہ بندی کی جائے گی۔ ہم پرانے سماج کی بچی کھچی اینٹوں کو استعمال کر کے نئے سماج کی تعمیر کریں گے، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے پہلے سے بنی بنائی اینیٹیں موجود نہیں ہیں۔

ایسے ہی جس طرح ہم موجود پیداواری قوتوں یعنی زمین، کارخانے، سائنس اور ٹیکنالوجی کو استعمال کریں گے جو پرانے معاشرے سے ہمیں وراثت میں ملی ہیں، اسی طرح ہمیں خود کو ان نظریات پر استوار کرنا پڑے گا جو کہ ماضی میں ارتقا پائے تھے۔ مارکسزم نے ہیگل کی عینیت پسندی کی نفی کی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے جدلیاتی طریقِ کار میں اس کا وہ تمام محفوظ کیا جو کہ ترقی پسندانہ اور انقلابی تھا۔ سائنسی سوشلزم کے بانیوں نے جدلیات کو بچایا، جسے ہیگل کے ہاتھ میں ایک مسخ شدہ، خیال پرست بھیس میں پیش کیا گیا تھا، اور اس کو پہلی بار ایک مضبوط مادیت پسند بنیاد پر استوار کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے ایک ایسے شاندار ہتھیار کی تخلیق کر لی جو کہ سماج کو انقلابی خطوط پر تبدیل کر سکتا ہے۔

فلسفے کی تاریخ کا مطالعہ کیوں کریں؟

مارکس اور اینگلز کی تمام تحریریں ایک معین فلسفیانہ طریقِ کار، یعنی مادی جدلیات کے طریقِ کار پر مبنی ہیں اور اس کے بغیر ان تحاریر کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ یہی بات لینن اور ٹراٹسکی کے کاموں کے بارے بھی درست ہے، جو بیسویں صدی میں مارکسی فکر کے سب سے بڑے نمائندے ہیں۔ قدیم یونانی جدلیات کو پہلے سے جانتے تھے اور اس کو بعد ازاں ہیگل نے حتمی شکل دی۔ جدلیاتی مادیت کے بنیادی نظریات کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ تمام عظیم تصورات کی طرح، یہ اپنے جوہر میں سادے سے ہیں، اور یہ اپنی سادگی میں خوبصورت ہیں۔

لیکن ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو کہ خود کو مارکسسٹ باور کرتے ہیں اور جو وہ کہہ رہے ہیں اس کے گہرے مطالب پر بغیر سوچے سمجھے محض چند ایک بنیادی تصورات کی مسلسل دوہرائی کرنے پر ہی مطمئن ہیں۔ ایسے ’مارکسسٹوں‘ کا حال اس چھوٹے بچے والا ہے جس نے ریاضی کے پہاڑوں کا رٹا مارنا سیکھا ہو، یا پھر یوں کہہ لیں کہ ایک طوطے والا ہے، جس نے انسانوں کو بولتے سن کر چند فقروں کو دہرانا سیکھ لیا ہے، بغیر ان کے معنی کی کسی بھی قسم کی مبہم ترین فہم کے۔ جدلیاتی مادیت کی مکمل تفہیم تک پہنچنے کے لیے بڑا ہی محتاط مطالعہ لازم ہے۔ اس وقت میں مارکسی فلسفے کے مزید جامع کام پر لکھ رہا ہوں، جس سے مجھے امید ہے کہ اس میں موجود مزید پیچیدہ سوالات کو واضح کرنے میں مدد ملے گی۔

لیکن فلسفے کے مطالعے میں عام طور پر اور مارکسی فلسفے کے مطالعے میں خصوصاً ایک دشواری موجود ہے، اور وہی موجودہ کام کے ضمن میں بھی پائی جاتی ہے۔ جب مارکس اور اینگلز نے جدلیاتی مادیت کے بارے میں لکھا، تو کم از کم اس وقت کے پڑھے لکھے لوگ تاریخِ فلسفہ کے بارے میں بنیادی معلومات رکھتے تھے۔ آج کے دور میں ایسا سوچنا بھی ناممکن ہے۔

ہیگل کی ”تاریخِ فلسفہ“

میں نے جب پہلی بار ہیگل کی تین جلدوں پر مشتمل یادگار تاریخِ فلسفہ پڑھنی شروع کی تو میری عمر اس وقت سترہ سال تھی اور تب ابھی میں سکول ]انگلینڈ میں سکول کے بعد یونیورسٹی ہوتی ہے۔ مترجم[ میں تھا۔ میں یونیورسٹی جانے سے پہلے ہی ڈیڑھ جلد کو پڑھ چکا تھا۔ یہ میرے لیے انتہا کی پُرکشش چیز تھی۔ اس میں اڑھائی ہزار سال کا عمیق ترین انسانی تفکر جیسے زندہ ہو کر میری آنکھوں کے سامنے آ چکا تھا، ایک ایسی واضح شکل میں جس کو مانے بنا چارہ نہیں تھا اور پھر وہ بھی ایک زبردست جامع جدلیاتی انداز میں۔

Hegel Image public domain

ہیگل

میرے پاس ابھی بھی سکول کے دور کی کئی نوٹ بکس ہیں جن پر میں نے اس وقت تاریخِ فلسفہ، فلسفۂ تاریخ اور روح کی مظہریات کے مطالعے کے دوران نوٹس لیے تھے۔ میرے پاس ایک نوٹ بک ایسی بھی تھی جس میں، میں نے فلسفیانہ سائنس کے انسائیکلوپیڈیا میں سے ہیگل کی ”مختصر منطق“کے کئی سارے حصے نقل کیے تھے۔ میں نے اس قابل ذکر کام کی نقل کے حصول کے لیے کافی بے سود تلاش کی، لیکن جب مجھے یہ ایک ریفرنس لائبریری سے ملی، تو یہ اصل جرمن زبان میں نکلی! لیکن مجھے بھلا ان تفاصیل سے کہاں باز آنا تھا۔ اس وقت، جرمن زبان کے بارے میں میرا علم کافی اچھا تھا، اس لیے میں نے اسے پڑھنے اور نوٹس لینے کا ارادہ کیا۔ بدقسمتی سے، خاص طور پر وہی نوٹ بک میرے سفروں کے دوران کہیں کھو گئی۔

ہیگل کے لیے یہ جوش و جذبہ تبھی سے میرے ہم راہ ہے۔ فلسفے کی تاریخ بارے جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ انتہا کا خالص طریق کار ہے جس کے ذریعے ہیگل نے اس موضوع کو جانچا ہے۔ اس کو کوئی حادثاتی پیش رفتوں کے سلسلے کے طور پر پیش نہیں کیا گیا، بلکہ ایک نامیاتی کُلیت کے بطور پیش کیا گیا ہے، ایک ایسا عمل جو تضادات کے ایک سلسلے کے ذریعے ارتقاء پذیر ہوا، جس میں خیالات کا ایک مجموعہ بظاہر اپنے سے پچھلے تصور کی نفی کرتا ہے، اور انسانی سوچ کے ایک نہ ختم ہونے والے گھماؤ دار ارتقاء کی جانب لے جاتا ہے۔

اس بات سے انکار نہیں ہے کہ کوئی بھی تاریخِ فلسفہ کے بارے ہیگل کی عینیت پرستانہ تفہیم کے متعلق نقص کو بھانپ سکتا ہے۔ لیکن اہم ترین چیز اس کا جدلیاتی طریقِ کار ہے جو کہ اس کے تمام کاموں کی خصوصیت ہے۔ جہاں دیگر تمام نے ایک دوسرے سے لاتعلق تصورات، حادثات اور ذاتی ذہانتوں کا محض ایک انبار دیکھا، وہیں ہیگل وہ پہلا شخص تھا جس نے ایک نامیاتی عمل کا خود اسی کی اندرونی منطق اور اسی کے خود کے قانون کے ساتھ جائزہ لیا۔ ]جیسے کہ تاریخ میں۔ مترجم[

فلسفے کے ارتقاء کو تضادات کے ایک سلسلے کے ذریعے سے جائزہ لیتے ہوئے ہیگل نے محض ایک منفی عمل ہی کو نہیں پایا جہاں ایک طرح کے تصورات دوسری طرح کے تصورات کا صفایا کر کے ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس نے اس بات کا ادراک حاصل کر لیا تھا کہ نفی کر دینے کے اس عمل کا مطلب گزر چکے اس تمام (تصورات) کو محفوظ کرنا بھی ہے جو کہ پچھلے مراحل میں درست اور سچائی پر مبنی تھا۔ ایک ہی وقت میں ]فنا کرتے ہوئے[ محفوظ کرنے کا یہ نظریہ ’رد و نمو‘ Sublation کہلاتا ہے، اور اس تصور کی وضاحت اس نے اپنی کتاب ’روح کی مظہریات‘ کے تعارف میں اس کے شایانِ شان پُرشکوہ ترین زبان میں کی ہے:

”کلی پھول کے کھلنے میں غائب ہو جاتی ہے، اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ پھول کلی کی تنسیخ ہے؛ بالکل اسی طرح، جب پھل سامنے آتا ہے، تو پھول کو پودے کی تلبیسی شکل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اور پھر پھول کو ہٹا کر پودے کی سچائی کے طور پر پھل سامنے آ جاتا ہے۔ یہ شکلیں نہ صرف یہ کہ مختلف ہیں، بلکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی جگہ پر ایک ہی وقت میں ممکن نہیں ہو سکتیں، ان کے وجود کی شرط ہی دوسرے کا خاتمہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی وقت میں ان کی مسلسل بہاؤ میں رہنے والی فطرت ان تمام مرحلوں کو ایک نامیاتی کُل بھی بناتی ہے جس میں نہ صرف یہ ایک دوسرے سے تضاد میں نہیں رہتے بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے کسی بھی دوسرے ]مرحلے[ کے جیسا ہی ناگزیر ٹھہرتا ہے؛ اور صرف اکیلی یہ اشتراکی لازمیت ہی سارے کُل کی زندگی کی تشکیل کرتی ہے۔“

ہیگل کی تاریخِ فلسفہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اینگلز کہتا ہے کہ یہ طریقِ کار ایک عظیم الشان پیش قدمی کا نمائندہ ہے:

”ہیگل وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ دکھانے کہ کوشش کی کہ تاریخ میں ایک اندرونی ہم آہنگی کا حامل ارتقاء ہوا ہے، اور اب ہمیں اس کے پیش کردہ تاریخ کے فلسفے میں بعض چیزیں کتنی ہی عجیب کیوں نہ لگیں، اس سے پہلے گزر چکے، یا پھر اس کے بعد میں آنے والے مؤرخین کو دیکھیں جنہوں نے تاریخ میں عمومی مشاہدات کو آگے بڑھانے کی جسارت کی ہے، تو اس کا بنیادی تصور بلاشبہ قابلِ تحسین ہے۔“

اس کے تمام نقائص کے باوجود، ہیگل کی تاریخِ فلسفہ کی شان—اس کا جاہ و جلال اور گہری بصیرت۔۔آج کے دن تک میرے لیے حیران کُن اور تحسین کا باعث ہے۔ رہی بات ہیگل کے پوسٹ ماڈرنسٹ نقادوں کی، تو میں وہی بات دوہراؤں گا جو لینن نے ایک بار روزا لکسمبرگ کے بارے ایک قدیم روسی کہاوت برتتے ہوئے لکھی تھی: عقاب کبھی کبھار مرغیوں سے بھی نیچے آ کر اڑ لیتے ہیں، لیکن مرغیاں کبھی بھی عقابوں کی بلندیوں کو نہیں پا سکتیں۔

تاریخِ فلسفہ کا مارکسی نظریہ

اس کام میں، میں نے ہیگل کی اختراع کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے، لیکن مستقلاً ایک مادی نقطہ نظر اپناتے ہوئے ایسا کیا گیا ہے۔ یہ کوئی ایسی تاریخِ فلسفہ نہیں ہے جو کہ اس لفظ کے تجرباتی تصور سے ظاہر ہوتا ہے۔ نہ ہی یہ فلسفے پر کہی گئی ہر ایک کی باتوں کا ایک اکٹھ ہے۔ اگر تو کوئی اس میں مثال کے طور پر افلاطون کی ”جمہوریہ“ کے تفصیلی مطالعے کی کھوج کی خاطر آتا ہے تو افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ ایسے شخص کو میں نزدیک ترین ایک سنجیدہ حوالہ جاتی پبلک لائبریری سے مستفید ہونے کا کہوں گا جہاں مجھے یقین ہے کہ اس کو اپنے تجسس کی تسکین کی خاطر خاصی مقدار میں علمی کام مل جائے گا۔ یہ تاریخ فلسفہ کا اس کے جوھر میں مطالعہ ہے۔ یعنی میں نے کوشش کی ہے کہ سوچ کے ارتقاء کے ہر پہلو کا احاطہ کرنے والی اس لکیر کی پیروی کروں جس کے اپنے خود کے قوانین ہیں۔

دوسری جانب مجھے خوف ہے کہ میری کتاب ان میکانکی ”مارکسسٹوں“ کو مطمئن نہیں کر پائے گی جو یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ کرۂ ارض پر موجود ہر چیز کو پیداواری قوتوں اور/یا طبقاتی جدوجہد کے ارتقاء تک محدود کر دینا ممکن ہے۔ بے شک، آخری تجزیے میں، یہ انسانی تاریخ کا پہیہ چلانے والی بنیادی قوتیں ہیں اور یہ مملکتوں، ریاستوں اور سلطنتوں کی تقدیر کا تعین کرتی ہیں۔ لیکن ایسی وضاحتیں تلاش کرنا، مثال کے طور پر فن اور موسیقی، یا پھر قوتِ متخیلہ کے پُرپیچ گھماؤ اور فلسفے و مذہب کے الجھاؤ دار معموں پر سیدھے سے اس تعلق کو تھوپ کر انہیں حل کرنے کی کوشش میں سر کھپانا بہرحال ایک احمقانہ تضیع اوقات ہو گا۔

تاہم، جہاں تک فلسفیوں کا تعلق ہے (دیگر تمام انسانوں کی طرح) معاشرے کی عمومی حالت سے متاثر ہو سکتے ہیں -پیداواری قوتوں کا ابھرنا اور گرنا اور نتیجتاً سماجی اور سیاسی کشیدگی-بالواسطہ ہی سہی، بعض مراحل پر ایک تعلق نتیجہ خیز ہو سکتا ہے جیسا کہ میرے اس کام سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔

جیسا کہ اینگلز نے جرمن ماہر معاشیات کونارڈ شمِٹ کو ایک خط میں لکھا:

”جہاں تک نظریے کی حدود کا تعلق ہے جو کہ ابھی تک ہواؤں میں ہیں، مذہب، فلسفہ، وغیرہ، ان کے پاس ایک ماقبل تاریخ کا ذخیرہ ہے جو کہ پہلے سے موجود تھا اور تاریخی دور میں چھایا رہا، جس کو آج خرافات کہنا درست ہو گا۔ فطرت کے بارے یہ غلط تصورات، انسان کے خود اپنے بارے، روحوں کے بارے، جادوئی طاقتوں وغیرہ کے بارے زیادہ تر محض ایک منفی معاشی بنیاد کے حامل ہیں؛ یعنی ماقبل تاریخی دور کی کم تر معاشی ترقی فطرت کے بارے ان جھوٹے تصورات سے جڑی ہوئی اور جزوی طور پر ان سے مشروط بھی تھی اور یہاں تک کہ فطرت کے بارے غلط تصورات کی وجہ سے بھی تھی۔

اور اگرچہ فطرت کے ترقی پسندانہ علم کا بنیادی محرک معاشی جبر ہی تھا جو کہ اب مزید تر بنتا جا رہا ہے، پھر بھی اس تمام قدیمی بک بک کے معاشی اسباب کھوجنے کی کوشش یقیناً مُوشگافی ہی ٹھہرے گا۔ سائنس کی تاریخ لغویات کے تسلسل کے ساتھ رد کرنے کی تاریخ ہے، یا یوں کہہ لیں کہ تازہ مگر پہلی سے کم لایعنی خرافات کو اس کی جگہ دینے کی تاریخ ہے۔

جو لوگ اس میں کام کرتے ہیں ان کا تعلق تقسیمِ کار کے مخصوص شعبوں سے ہوتا ہے اور وہ خود کو ایک الگ تھلگ میدان میں پاتے ہیں۔ اور اس حد تک وہ سماجی تقسیمِ کار کے اندر ہی ایک الگ تھلگ گروہ بنا لیتے ہیں اس طرح سے ان کی پیداوار اپنی خامیوں کے ہمراہ تمام سماجی ارتقاء پر اثر انداز ہوتی ہے، یہاں تک کہ اقتصادی ترقی پر بھی۔

لیکن اس کے باوجود وہ خود طاقتور معاشی ارتقاء کے زیر اثر ہی رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر فلسفے میں اس بات کو آسانی کے ساتھ بورژوا دور میں ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ہابزؔ پہلا جدید مادیت پسند تھا (اٹھارہویں صدی کے معنوں میں) لیکن وہ اس دور میں مطلق العنانیت کا حامی تھا جب سارے یورپ میں مطلق العنان بادشاہت اپنے عین عروج پر تھی اور اس وقت انگلستان میں مطلق العنان بادشاہت کی عوام سے لڑائی کی ابتدا ہو رہی تھی۔ لاکؔ مذہب اور سیاست دونوں میں 1688ء کے طبقاتی سمجھوتے کی پیدائش تھا۔ انگریز مؤحدین ]خدا کو کسی آسمانی مذہب کی بجائے دلائل سے ماننے والے[ اور ان کے پکے جانشین، فرانسیسی مادیت پسند بورژوازی کے، فرانس کے یہاں تک کہ بورژوا انقلاب کے حقیقی نمائندے تھے۔ جرمن پیٹی بورژوا کبھی مثبت اور کبھی منفی انداز میں کانٹ اور ہیگل کے ذریعے چل رہے تھے۔ لیکن ہر دور کے فلسفے کے پاس، تقسیمِ محنت کا ایک قطعی خطہ ہونے کی بنا پر اپنے مفروضے کے طور پر گزر چکے مفکرین سے ملا ہوا اپنا مخصوص لازمی فکری مواد ہوا کرتا ہے جہاں سے یہ اپنی شروعات کرتا ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ معاشی طور پر پسماندہ ممالک بھی فلسفے کی بین بجا سکتے ہیں: جیسے کہ اٹھارہویں صدی کے فرانس کا اگر انگلستان سے موازنا کیا جائے، جس کا فلسفہ خود انگلستانی بنیادوں پر استوار تھا، اور بعد کے جرمنی کا ان دونوں سے موازنا کریں تو۔ لیکن فرانس اور جرمنی دونوں کا فلسفہ اور ادھر سے پھوٹنے والا ادب اپنے وقت میں ابھرتی ہوئی معاشی ترقی کا بھی نتیجہ تھا۔

میں ان شعبوں میں قائم اقتصادی ترقی کی حتمی بالادستی کو بھی مانتا ہوں، لیکن ایسا صرف اس مخصوص شعبے کی جانب سے خود اپنی طے کردہ شرائط کے تحت ہی ہوتا ہے: مثال کے طور پر، فلسفے میں سابقہ مفکرین سے حاصل کیے گئے موجود فلسفیانہ مواد پر اقتصادی اثرات (جو عام طور پر اپنا کام صرف سیاست وغیرہ کا مکھوٹا پہن کر کرتے ہیں) کے عمل کے ذریعے۔

یہاں معیشت کوئی بالکل نئی چیز (سرے سے نئی) پیدا نہیں کرتی، بلکہ ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے جن میں اب تک کا موجود فکری مواد تبدیل ہو جائے اور آگے ارتقا پذیر ہو، اور ایسا زیادہ تر براہ راست نہیں ہوتا، کیوں کہ فلسفے پربراہ راست سب سے بڑے اثرات بہرحال سیاسی، قانونی اور اخلاقی مظاہر کے پڑتے ہیں۔۔۔

ان تمام حضرات میں جس بات کی کمی ہے وہ جدلیات ہے۔ یہ لوگ ماسوائے یہ کہ ایک جانب وجوہات کو اور دوسری جانب نتائج کو دیکھیں، کچھ بھی دیکھ پانے سے قاصر ہیں۔ یہ ایک خالی خولی سی کھوکھلی تجرید ہے، کیوں کہ آپس میں یکسر مخالف ایسے خیالی قطب حقیقی دنیا میں صرف بحرانی ادوار ہی میں مل سکتے ہیں، جب کہ دنیا کا تمام وسیع و عریض عمل (مخالف قوتوں کے) ایک ساتھ مل کر چلتا ہے (اگرچہ ان تمام غیر مساوی قوتوں میں معیشت سب سے زیادہ مضبوط، بنیادی ترین اور سب سے بڑھ کر فیصلہ کُن ہے) اور یہ کہ اس دنیا میں ہر چیز دوسری چیزوں کے ساتھ تعلق میں Relative ہے، یہاں کچھ بھی ایسا نہیں جس کو دیگر چیزوں سے آزاد اور خود مختار Absolute کہا جائے-اور یہ ایسی چیز ہے جس کو دیکھنا وہ کبھی شروع نہیں کریں گے۔ ہیگل ان کے نزدیک کبھی تھا ہی نہیں۔“

میں نے یہاں کوشش کی ہے کہ علمی پیش رفت کے عمل کا وہ بنیادی Essential اور عمومی طریقہ سامنے لاؤں جس کا تاریخ کے کسی بھی متعلقہ دور کے لحاظ سے مکمل ارتقاء حاصل کر لینا انسانی فکر کو اگلے مرحلے پر لے جانے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔

مارکسسٹوں کا کام یہ نہیں کہ ہر اس مکتبہ فکر کو جو کہ کبھی موجود رہا پکڑ کر بلند و بانگ دعوے کریں اور اس کے نرے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیں۔ بلکہ یہ ہے کہ لاتعداد متضاد رجحانات اور نظریات میں سے ان جوہری اور تعقلی اصولوں کو نکال کر سامنے لایا جائے جنہوں نے دھکا لگا کر انسانیت کو اس مقام تک پہنچایا ہے جہاں کہ آج ہم اس وقت موجود ہیں۔ اس عمل نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں زبردست پیشرفتیں کرنے کے لیے نہایت ہی اہم کردار ادا کیا ہے، جنہوں نے نتیجتاً انسانی ترقی کی بنیاد، سوشلزم کے تحت تاریخی ارتقاء کے معیاری طور پہ اعلیٰ تر درجے پر رکھی ہے۔

ماضی کے بارے مابعد جدید رویہ: جہاں جہالت سعادت مانی جائے، وہاں دانشمند ہونااحمقانہ پن ہو گا

جدلیات کی ایک بہت ہی لمبی تاریخ ہے، جو کہ یونانیوں، ماقبل سقراط فلسفیوں اور خاص طور پر ہیرا قلیطس سے شروع ہوتی ہے۔ ہیگل کے کاموں میں یہ اپنے اعلیٰ ترین اظہار پر پہنچتی ہے۔ لیکن جدید بورژوا فلسفے میں غالب رجحان ماضی کے سارے فلسفے کو حقارت سے دیکھتا ہے۔ نہ صرف مارکسزم بلکہ ماضی کے تمام عظیم نظریات کو نہایت ہی بے ہودگی سے ”مہا بیانیے“ کا نام دے کر رد کرتے ہوئے غور کرنے کی زحمت اٹھائے بغیر تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جاتا ہے۔

Bastille Image LHistoire par limage

ماضی میں جب بورژوازی ابھی اس قابل تھی کہ ترقی پسند کردار ادا کر سکے، اس کے پاس ایک انقلابی نظریہ تھا۔ اس نے عظیم اور حقیقی مفکرین پیدا کیے۔ مگر آج جب سرمایہ دارانہ نظام زوال کا شکار ہے اور مستقبل میں اس نظام کے تحت بہتری کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی تو ایسے میں سرمایہ دارانہ دانشور علم و عقل کی بجائے جہالت کا پرچار کر رہے ہیں۔

ماضی میں جب بورژوازی ابھی اس قابل تھی کہ ترقی پسند کردار ادا کر سکے، اس کے پاس ایک انقلابی نظریہ تھا۔ اس نے عظیم اور حقیقی مفکرین پیدا کیے: لاک اور ہابز، روسو اور دیدیرو کے علاوہ فرانسیسی روشن خیالی کے دیگر انقلابی مفکر: کانٹ اور ہیگل، ایڈم سمتھ اور ڈیوڈ رکارڈو، نیوٹن اور ڈاروِن۔ لیکن زوال کے دور میں بورژوازی کی فکری پیداوار، کہن زدگی سے گلنے سڑنے کے پھیلاؤ کے سارے عمل کی شہادت ہے۔

تاریخ میں ایسے دور آتے رہے ہیں جن کو یاس، ناامیدی اور بے یقینی کا دور کہا جاتا ہے۔ ایسے ادوار میں موجود سماج اور اس کے نظریے سے لوگوں کا یقین اُٹھ جانے کے بعد لوگوں کے پاس دو ہی متبادل ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ موجود نظام کو للکارا جائے اور انقلابی راہ اختیار کی جائے۔ دوسرا یہ کہ سماج میں موجود تضادات سے آنکھیں پھیرنے کی بے سود کوشش کرتے ہوئے، ذاتی نجات کے حصول میں کوشاں ہوا جائے۔ ایسی کوشش مذہب میں ہو سکتی ہے یا پھر انتہا کی فلسفیانہ موضوعیت پرستی میں۔

دقیانوسی سماج موت کے دھانے پر کھڑا ہے، مگر ہٹ دھرمی سے اپنی تقدیر ماننے سے انکاری ہے۔ طاقت ور مادی مفادات اس کو آگے بڑھانے کی پرعزم کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، اور وہ اس کی خاطر دیو ہیکل وسائل لگا رہے ہیں۔ اور ایسا کرنے کی خاطر وہ سماجی اور فکری زندگی کے ہر پہلو پر ناقابلِ مزاحمت اثر ڈالتے ہوئے تگ و دو میں لگے ہیں۔ آج بورژوازی کا نظریہ ٹوٹ پھوٹ کے عمل کا شکار ہے، اور نہ صرف معیشت اور سیاست میں بلکہ فلسفے کے میدان میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ کسی بھی قسم کی قابلِ قدر چیز پیدا نہیں کر رہا۔ اب یہ ہر طرح کی مثبت حمایت، تکریم یا اختیار سے محروم ہو کر صرف منفی حالت زار کا منظر پیش کر رہا ہے جیسا کہ تعفن پھیلاتی ایک لاش۔ یہی حالت لازمی طور پر موجود فلسفے میں بھی در آئی ہے۔ ناممکن ہے کہ یونیورسٹیوں کے شعبہ فلسفہ کی خشک اور بنجر پیداوار کو اکتاہٹ، بے دلی اور ایک ناگواری کے شدید احساس کے بغیر پڑھا جا سکے۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ عمومی زوال تاریخِ فلسفہ کی جانب رویوں میں اپنا عکس پاتا ہے۔

تابندہ چشم نوخیز طلبہ جو روشن خیالی کی امیدیں لیے شعبہ فلسفہ آتے ہیں ان کے سہانے سپنے یک لخت ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ ورنہ پھر ان کو مابعد جدیدی لایعنیت کے زہر آلود نالے میں گھسیٹ لایا جاتا ہے جہاں سے فرار محال ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ ماضی کے عظیم مفکرین کے فکری خزانوں سے کچھ بھی سیکھے بنا خالی ہاتھ فارغ ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو مابعد جدیدی کچرے سے بھر دینے سے بھی ان کا جی نہیں بھرا تو فلسفے کے شعبوں نے نہایت ہی بے شرمی کے ساتھ بعینہٖ یہی کوڑا کرکٹ ماضی کے مطالعے میں بھی ڈال دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ مابعد جدیدی مدرسانہ گینگ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ اس کو یہ حقیقت یاد دلائی جائے کہ ماضی میں فلسفیوں کے پاس اس حقیقی دنیا بارے کہنے کو بہت ہی اہم اور گہری باتیں تھیں۔

فلسفیانہ تاریخ کی تحریف

حال ہی میں میری توجہ اس بات کی جانب دلائی گئی ہے کہ ہیگل کے ایک نئے ترجمے (جس کی انتہا کی تحسین کی جا رہی ہے) میں جرمن زبان سے بڑے پیمانے پر غلط ترجمہ کیا گیا ہے، وہ بھی اس طرح کہ مابعد جدید لفاظی کو اس عظیم جدلیاتی مفکر کے منہ سے کہلوایا جا رہا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے کیا گیا ہیگل کی”منطق کی سائنس“ کا انگریزی ترجمہ، جو کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں پوجنے کے لیے بطور ایک بُت کے اتارا گیا ہے، اس میں جرمن الفاظ Denkenاور Denkend (جن کے انگریزی معنی بالکل سادہ سے ”Thought“ اور ”Thinking“ ہیں) کو مسلسل ”Discourse“ اور”Discursive“ترجمہ کیا گیا ہے۔

یہ ہیگل کے نظریات کو ]نوسر بازی سے۔ مترجم[ جھٹلانے کی کھلم کھلا جسارت ہے جو کہ ترجمے کے تمام اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔ مابعد جدیدی موضوعیت پرستی کی ہیگل کے کام کے اندر گھُس بیٹھ کرانے کی کوشش کرنا مجرمانہ فعل ہے۔اپنی اس حرکت کا دفاع کرتے ہوئے مترجم جارج ڈی جیوانی صاحب نے بغیر کسی ثبوت کے ہلکے پھلکے انداز میں بات کو یوں ٹالنے کی کوشش کی: ”منطق کا نفسِ مضمون ”شے فی الذات“ یا اس کے مظہراتی ظاہرات نہیں ہیں، چاہے کوئی اس کی ”فی الذات“ کو مادے کے طور پر لے یا آزادی کے، لیکن ہے یہ کلامیہ Discourse خود ہی“۔

یہ کسی سکینڈل سے ہرگز کم نہیں۔ پھر بھی ناقدین کی جانب سے قطع نظر کر دیا گیا ہے، جو کہ سب کے سب اس نئے ”بیانیے“ سے خوش ہو رہے ہیں۔ یہ سیدھے سبھاؤ سے بدمعاشی کا کام ہے، جیسے کوئی مونا لیزا کے چہرے پر مونچھیں پینٹ کر دے۔ ہمیں اس چھوٹی سی بات نے بھی ہوشیار کر دیا ہے۔

ایک جھوٹی معروضیت

مجھے اس بات میں رتی برابر بھی شبہ نہیں کہ یونیورسٹیوں کے عیار مجھ پر فلسفے کی تاریخ کا صرف ایک رُخ پیش کرنے کا الزام لگانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ اس الزام پر میں اعترافِ جرم کرتا ہوں۔ ایک پکا مارکسسٹ ہونے کے طور پر میں ایک مخصوص فلسفیانہ نقطہ نظر کا دفاع کرنے کا مکمل ارادہ رکھتا ہوں —جو کہ جدلیاتی مادیت ہے۔

یونیورسٹی کے شعبہ ہائے فلسفہ کوئی ہاتھی دانت کے بنے علم و ثقافت کے مینارے نہیں ہیں، بلکہ طبقات کے مابین ہونے والی جنگ میں کھودے گئے مورچے ہیں۔ ان مورچوں کو بظاہر سائنسی نظر آنے والی جعلی معروضیت کے مکاری کے ساتھ تعمیر کیے سوانگ میں محتاط ہو کر چھپایا گیا ہے۔ لیکن جھوٹ سے بُنے ہوئے اس جال کے پیچھے ہمیشہ مادی مفادات، طبقاتی تعصب اور موجود نظام کو جاری و ساری Status Quo رکھنے کا بدنیتی سے کیا گیا دفاع دیکھا جا سکتا ہے۔

فلسفے کی پوری تاریخ دو متخالف اور متناقض ]دو ایسی چیزیں جن میں سے اگر ایک ہو تو دوسری کا رہنا ناممکن ہو جائے[ نظریات کے مابین ایک مسلسل جدوجہد کی تاریخ ہے: فلسفیانہ مادیت پسندی اور فلسفیانہ عینیت پسندی۔ یوں کہہ لیجیے کہ ایک جانب سائنسی سوچ ہے اور دوسری جانب یہ کوشش کہ کسی طرح انسانی شعور کو کھینچ کھانچ کر ماضی کے مذہبی تصوف کی دنیا میں لے جایا جائے۔ کیوں کہ شروع سے ہی ”یک رُخی تصویر“ پیش کرنا فلسفے کے میدان کا چلن رہا ہے تو ان نظریات میں سے کسی ایک یا دوسرے کی جانب جھکاؤ سے گریز کر پانا قطعی طور پر ناممکن ہے۔ موجودہ مصنف اور اس کے نقادوں میں محض یہ فرق ہے کہ میں اتنا ایماندار تو ہوں کہ شروع ہی سے اپنا جھکاؤ بتا رہا ہوں، جب کہ میرے نقاد ہمیشہ ایک منافقانہ اور انتہا کی جعلی ’معروضیت‘ کے پیچھے خود کو چھپاتے پھرتے ہیں، جو کہ محض ان کے تعصب آمیز خیالات اور طبقاتی نقطہ نظر پر پردہ ڈالنے کے لیے ہے۔

آج تک فلسفے میں مادیت اور عینیت کے مابین ایک ایسی جنگ جاری ہے جس کے قطعاً کوئی اصول نہیں ہیں، جہاں مادیت کے لاتعداد مراعات یافتہ دشمن ہیں۔ لیکن کیا حقیقت یہ ہے کہ کوئی ایک حتمی فلسفیانہ یا سیاسی نقطہ نظر اختیار کر کے معروضیت کو خارج کر سکتا ہے؟ یہ ایک مفروضہ ہے جس کو حقائق مسترد کرتے ہیں۔ عظیم مارکسسٹ لیون ٹراٹسکی ان اعتراضات کا جواب اس طرح سے دیتا ہے:

”سطحی طور پر دیکھنے والے کے لیے انقلابی نقطہ نظر بظاہر سائنسی معروضیت کی عدم موجودگی کے مترادف ہے۔ ہم اس کے بالکل برعکس سوچتے ہیں: صرف ایک انقلابی–اس کا سائنسی طریقِ کار سے لیس ہونا بہرحال لازمی شرط ہے–ہی انقلاب کی حرکیات کو واشگاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوچ کے بارے عمومیت میں تفہیم حاصل کرنا محض سوچ بچار کا نہیں بلکہ عملی کام ہے۔ فطرت اور سماج کے بھید پانے کے لیے ارادے کا عنصر ناگزیر ہے۔ بالکل ایک سرجن کی طرح، جس پر انسانی زندگی انحصار کرتی ہے، جو اجسام کے ٹشوز کے فرق کو انتہائی باریکی سے سمجھتا ہے، اسی طرح سے ایک انقلابی، اگر وہ اپنے کام کے ساتھ سنجیدہ ہے تو انتہائی سچائی کے ساتھ سماج کی ساخت، اس کے افعال اور اس کے مظاہر کا تجزیہ کرنے کا پابند ہے۔“

میرے ناقدین کے لیے

مارکسزم موجودہ نظام کو للکارنے والی ایک اہم قوت کے طور پر جب سے ابھرا ہے، اسٹیبلشمنٹ مارکسی نظریے کے ہر پہلو کے خلاف مسلسل حالتِ جنگ میں ہے، جس کی شروعات وہ جدلیاتی مادیت سے کرتی ہے۔ ان لوگوں میں جا کر مارکسزم کا ذکر کریں تو عجیب طرح کی بوکھلاہٹ سامنے آتی ہے۔”پرانا ہو چکا ہے“، ”غیر سائنسی ہے“، ”عرصہ دراز قبل غلط ثابت ہو چکا“، ”مابعدالطبعیات“، اور اسی طرح کی اکتا دینے والی بک بک اور غل غپاڑہ شروع ہو جائے گا۔

مجھ کو اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کام کا سواگت بھی اسی طرح کی باجماعت تردید سے کیا جائے گا۔ اس بات سے مجھے ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ ساٹھ برس ہو چلے ہیں مجھے بالکل اسی طرح کی تھکا دینے والی مسلسل دشنام طرازیاں سنتے ہوئے، اور ایسا نہیں ہوا کہ مارکس کے ناقدین کے دلائل تسلسل اور یکسوئی سے دوہرائے جانے سے پہلے سے طاقت ور ہو گئے ہوں۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس بات سے میرے مخالفین ناراض ہوں گے۔ وہ پرانی تحاریر پکڑ کر میرے دلائل کو باطل کرنے کی کوششیں کریں گے، کہ بہرحال کالا، سفید ہے اور سفید، کالا ہے۔ یہ ایک بالکل فطرتی ردِ عمل ہے، کیوں کہ وہ خود ایک مخصوص فلسفیانہ نقطہ نظر کا دفاع کر رہے ہیں، جو کہ میرے نقطہ نظر سے بالکل مطابقت میں نہیں ہے۔ اس سے میری مراد فلسفیانہ عینیت پرستی کا نقطہ نظر ہے–وہ معروضی قسم کی ہو یا موضوعی۔

مجھے قدرتی طور پر اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کو اپنے من پسند صوفیانہ اور عدم تعقلی خیالات کا دفاع کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن ان کو اپنی جانبداری کو جھوٹی معروضیت کے پیچھے چھپانے کی کوشش ہرگز نہ کرنے دی جائے، اور نہ ہی یہ ماضی کے عظیم مفکرین کے نظریات کو اپنے تنگ اور رجعتی نقطہ نظر کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔

فلسفہ بطور ایک انقلابی ہتھیار کے

اپنی بلند و بالا برتری اور طبقاتی کش مکش سے حقارت کے باوجود، سرکاری فلسفہ حکمران طبقے کے ہاتھ میں محض ایک اور ہتھیار ہے، اور اس کو جانتے بوجھتے ہوئے نوجوانوں کو الجھانے، گمراہ کرنے اور انقلاب کی راہ سے بھٹکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جوزف ڈائیٹزجنؔ کے الفاظ میں کہیں تو،”فلسفہ سائنس نہیں ہے، لیکن یہ سوشلزم کے خلاف دفاع ہے۔“

Denmark 2

پرانے وقتوں میں فلسفی باغی تھے، خطرناک بدعتی جو کہ موجود اخلاقی اور سماجی نظام کو برباد کرنے پر تلے کھڑے تھے۔ سقراط کو ہیملاک پینے پر مجبور کیا گیا؛ سپینوزاؔ پر الحاد کا الزام لگایا گیا، حقہ پانی بند کیا گیا اور لعن طعن کا شکار رہا؛ جیورڈانو بروُنو کو مذہبی عدالت کے حکم سے زندہ جلا دیا گیا تھا؛ اٹھارہویں صدی کے فرانسیسی فلسفیوں نے باستیل کے انقلاب کے لیے راستہ ہموار کیا۔ تاہم ہمارے وقت میں زیادہ تر لوگ فلسفے اور فلسفیوں سے لاتعلقی برتتے ہیں، یا پھر ان کو حقارت سے دیکھتے ہیں، اور بالکل درست کرتے ہیں۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ دور کے فلسفیانہ صحرا سے منہ پھیرتے ہوئے لوگ ماضی کے عظیم فلسفیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو کہ ان جدید بونوں کے برعکس انسانی فکر و فہم کے جنات تھے۔

قدیم عینیت پرست فلسفے نے تو نہایت ہی اُوڑھ متی سے کام لے کر سماجی زندگی سے اپنی ایک تخیلاتی آزادی کو قائم رکھا تھا۔ آج کے مدرسانہ فلسفی حقیقی انسانوں کی اس غلیظ دنیا سے، سماجی زندگی سے اور سیاست سے لاتعلقی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن یہ محض ایک دھوکا ہے۔ وہ اگرچہ ایک پرفریب شکل میں ایسا کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ اسی دنیا ہی کا نرا ایک عکس سامنے لا رہے ہوتے ہیں۔ آخری تجزیے میں وہ اس بات کا شعور رکھتے ہیں یا نہیں، لیکن خیالات جن کا یہ دفاع کرنے کو نکلے ہیں اسی موجود سماج کا، اور اپنی ماہیت میں انتہا کی کمینگی اور گھٹیا قسم کی ذاتی مفاد پرستی کا ڈھکا چھپا کر دفاع ہے۔

میری جانب سے، مجھے ان مدرسانہ دانش وروں کے ساتھ کتھا کلی ناچ ناچنے کا کوئی شوق نہیں جو کہ صرف مارکسزم کی اندھی نفرت اور موجود نظام کو قائم و دائم رکھنے کی ایک شدید خواہش کی تقلید کر رہے ہیں۔ ہم اپنے گرد و نواح کو اس نظریاتی کچرے سے پاک کر کے ہی طبقاتی جدوجہد کی جانب کامیابی سے بڑھنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ مارکسزم کا یہ فرض ہے کہ وہ قدیم اور رد ہو چکے نظریات کی جگہ جامع قسم کا متبادل فراہم کرے۔ لیکن ہمیں ماضی کے عظیم مفکرین سے منہ موڑ لینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ یونانی فلاسفہ، سپینوزا، روشن خیالی کے دور کے فرانسیسی مادیت پسند اور سب سے اوپر ہیگل۔ یہ لوگ جی دار قسم کے بانی تھے، جنہوں نے مارکسی فلسفے کی شان والی حاصلات کے لیے راستہ تیار کیا اور سچائی تو یہ ہے کہ ان کو ہمارے انقلابی ورثے کا اہم ترین حصہ کہا جا سکتا ہے۔

ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم فلسفے کی تاریخ میں تمام قابلِ قدر چیزوں کو محفوظ کر لیں، اور غلط، فرسودہ و بے کار کو رد کر دیں۔ جس طرح اکتوبر انقلاب، پیرس کمیون اور باستیل کے انقلابات نے مستقبل کے ان سوشلسٹ انقلابات کو راہ دکھائی ہے جو کہ پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیں گے، اسی طرح ماضی کے عظیم الشان فلسفیانہ جنگ و جدل نے جدلیاتی مادیت کی بنیاد رکھی تھی—جو کہ مستقبل کا فلسفہ ہے۔ اور جس طرح سے ہم ماضی کی طبقاتی کش مکشوں سے حاصل ہونے والے اسباق پر گہری توجہ صرف کرتے ہیں، اسی طرح سے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم نظریات کی ان عظیم الشان جنگوں کا مطالعہ کریں جو کہ تاریخِ فلسفہ کے جوہری معنی کو متعین کرتی ہیں۔

ایلن ووڈز، 14 ستمبر 2021ء

Comments are closed.