لیون ٹراٹسکی کی کتب ”انقلابِ مسلسل“ اور ”نتائج اور تناظر“ کی پہلی دفعہ اردو زبان میں اشاعت بلاشبہ ایک غیر معمولی کامیابی اور انقلابی تحریک کے لیے ایک حقیقی سنگ میل ہے۔ بلاشبہ ان کا شمار مارکسزم کی کلاسیکی تصانیف میں ہوتا ہے جو آج بھی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برصغیر کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ تاریخ کی غیر لچکدار مرحلہ واریت پر مبنی میکانکی نقطہ نظر کو رد کرنے والے ٹراٹسکی کے نظریہ انقلاب مسلسل کا لازمی جوہر ہمیں پہلے سے ہی مارکس اور اینگلز کی تحریروں میں ملتا ہے۔
مارچ 1850ء میں لکھے گئے ”مرکزی کمیٹی کے کمیونسٹ لیگ سے خطاب“ میں مارکس اور اینگلز نے 1848ء کے انقلاب، جو ان کے خیال میں پرولتاری انقلاب کا پیش خیمہ تھا، کے دوران جرمن لبرل بورژوازی کے ”غدارانہ کردار“ کے متعلق لکھا تھا۔ اگرچہ ان کا تناظر درست ثابت نہیں ہوا لیکن مصنفین نے محنت کش طبقے کے آزادانہ کردار اور انقلاب کو مسلسل بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
”جہاں جمہوریت پسند پیٹی بورژوازی زیادہ سے زیادہ مندرجہ بالا حاصلات کے ساتھ انقلاب کا جلد از جلد خاتمہ چاہتی ہے، ہمارا مفاد اور فریضہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کو مسلسل بنائے رکھیں تا وقتیکہ ملکیت رکھنے والے طبقات کی بالا دست حیثیت کا کم و بیش خاتمہ ہو جائے، پرولتاریہ ریاستی طاقت پر قبضہ کر لے اور پرولتاریہ کا اتحاد صرف کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ دنیا کے تمام غالب ممالک میں اتنا آگے بڑھ جائے کہ ان ممالک میں محنت کشوں کے مابین مسابقت کا خاتمہ ہو جائے اور کم از کم اہم ترین پیداواری قوتیں پرولتاریہ کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جائیں۔ ہمارا مطمع نظر نجی ملکیت کا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جانا نہیں بلکہ اس کا مکمل خاتمہ ہے۔ ہمارا مقصد طبقاتی تضادات کو نرم کرنا نہیں بلکہ طبقات کا خاتمہ کرنا، موجودہ سماج کو بہتر بنانا نہیں بلکہ ایک نئے سماج کی بنیاد رکھنا ہے۔“
وہ بات کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں:
”لیکن انہیں (پرولتاریہ کو) خود اپنے طبقاتی مفادات کو واضح طور پر پہچانتے ہوئے، جلد از جلد ایک آزادانہ پارٹی کی شکل میں ڈھلتے ہوئے اور ایک لمحے کے لیے بھی جمہوریت پسند بورژوازی کی منافقانہ لفاظیوں کے جھانسے میں آ کر پرولتاریہ کی آزادانہ پارٹی کی تعمیر کے کام کو پس پشت ڈالنے سے پرہیز کرتے ہوئے، اپنی حتمی فتح کو یقینی بنانا ہو گا۔ ان کا جنگی نعرہ ہونا چاہیے: ایک مسلسل انقلاب۔“ (مارکس اور اینگلز، مجموعہ تصانیف، جلد نمبر 10، صفحہ نمبر 281,287)
ٹراٹسکی نے ان نظریات کو مستعار لیتے ہوئے 1904-05ء کے عرصے میں نظریہ انقلاب مسلسل کو پروان چڑھایا جب انقلاب روس کے تناظر کے متعلق بحث مباحثہ پورے جوبن پر تھا۔ درحقیقت جب 1905ء کے انقلاب کی شکست کے بعد ٹراٹسکی کو زار شاہی کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا تو اس نے قید کے دوران ”نتائج اور تناظر“ لکھی۔
اس وقت کی ان بحثوں میں تین مؤقف سامنے آ رہے تھے۔ تینوں اس بات پر متفق تھے کہ روس کا انقلاب، انگلستان اور فرانس کے بورژوا انقلابات کی طرح ایک بورژوا انقلاب ہے۔ انقلاب کے بنیادی فرائض میں مطلق العنانی کا خاتمہ، ایک بورژوا جمہوریہ کا قیام، زرعی سوال کا حل اور مظلوم قومیتوں کو حق خود ارادیت دینا شامل تھے۔ اور اس سب کے نتیجے میں سرمایہ داری کے فروغ اور ایک جدید معیشت کے قیام کی بنیاد پڑے گی۔ اختلاف اس بات پر ابھرا کہ کون سا طبقہ انقلاب کی قیادت کرے گا۔
منشویکوں نے یہ میکانکی نقطہ نظر اپنایا کہ چونکہ یہ ایک بورژوا انقلاب ہے، لہٰذا اس کی قیادت بھی بورژوازی ہی کرے گی، جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔ ان کے مطابق نو خیز محنت کش طبقے کو بورژوازی کی قیادت کے تابع ہو جانا چاہیے۔ صرف اسی طرح ہی سرمایہ داری کے بھرپور فروغ کے بعد، اگلے مرحلے میں، محنت کش طبقہ سوشلزم کا نعرہ لگانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یقینا ابھی کے لیے بورژوازی کی حمایت کرتے ہوئے انہیں سوشلسٹ نظریات کو بھول جانا چاہیے کہ کہیں ان کے بورژوا اتحادی اس سے ناراض نہ ہو جائیں۔
منشویکوں کے نزدیک ہر سماج کو ایک لگے بندھے ضابطے کے تحت ان طے شدہ مراحل سے گزرنا تھا۔ مارکسزم کی کسی ”کلاسیکی“ تشریح کی بجائے یہ نقطہ نظر مارکس اور اینگلز کی جانب سے لبرل بورژوازی کے غدارانہ کردار کے متعلق دی گئی وارننگ اور نصیحت کے بالکل برعکس تھا۔
لینن اس منشویک مؤقف کا شدید مخالف تھا۔ اس نے اپنا نقطہ نظر 1905ء کے موسم گرما میں لکھی جانے والی ”جمہوری انقلاب میں سوشل ڈیموکریسی کے دو طریقہ کار“ میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ مارکس اور اینگلز کی طرح لینن نے بھی بورژوازی پر خوفناک حملے کیے جو اب انقلابی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
”مگر ہم بطور مارکس وادی اپنے نظریات اور لبرلوں، زیمستو کے اراکین اور اوسووبوزڈینے کے حامیوں، کے روز مرہ مشاہدے کے کارن جانتے ہیں کہ بورژوازی انقلاب کی حمایت میں متزلزل، خود غرض اور بزدل ہے۔ جیسے ہی بورژوازی کے تنگ نظر، خود غرض مفادات پورے ہوں گے ویسے ہی وہ بحیثیت مجموعی مستقل مزاج جمہوریت پسندی سے ’پیچھے‘ ہٹتے ہوئے (اور وہ پہلے ہی پیچھے ہٹ رہی ہے!) ناگزیر طور پر رد انقلاب اور مطلق العنانی کا رخ کرے گی اور انقلاب و عوام کے مخالف کھڑی ہو جائے گی۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد نمبر 9، صفحہ نمبر 97-98)
وہ محنت کش طبقے کے آزادانہ کردار کی اہمیت کے متعلق 1848ء کے انقلاب کے تجربے پر مشتمل مارکس اور اینگلز کی نصیحت کو اپنی بنیاد بناتا ہے۔ ”ایک آزاد پرولتاری پارٹی کی تخلیق کی ضرورت کے حوالے سے اس عرصے میں اور اس کے کچھ بعد تک کے مارکس کے بیشمار اعلامیوں کو ہمیں کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ مارکس صرف جمہوری انقلاب کے تجربے سے گزر کر ہی اس عملی نتیجے تک پہنچ پایا تھا، وہ بھی تقریباً ایک سال بعد- جرمنی کا پورا ماحول اس وقت اتنا سطحی، اتنا پیٹی بورژوا تھا۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد نمبر 9، صفحہ نمبر 138)
لینن نے وضاحت کی کہ صرف محنت کش طبقہ ہی کسانوں کے ساتھ اتحاد میں آتے ہوئے بورژوا جمہوری انقلاب کے فرائض ادا کر سکتا ہے۔ اس نے پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت کا نعرہ دیا۔
ٹراٹسکی، جس کا اپنا ایک الگ مؤقف تھا، لینن کے ساتھ روسی بورژوازی کے رد انقلابی کردار اور کسانوں کی حمایت کے ساتھ محنت کش طبقے کی قیادت کی ضرورت کے حوالے سے مکمل اتفاق میں تھا۔ لیکن ٹراٹسکی نے اس لیے لینن کے فارمولے کو تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ اس کے مطابق اس میں واضح نہیں تھا کہ آمریت کس طبقے کی ہو گی۔
لیکن لینن نے جان بوجھ کر اپنے فارمولے کو مبہم رکھا تھا۔ وہ پیشگی طور پر آمریت کی بنتر کے حوالے سے رائے دینے کو تیار نہیں تھا اور نہ ہی اس امکان کو رد کرنا چاہتا تھا کہ کسان بھی اس اتحاد میں غالب آ سکتے تھے۔ اس کے فارمولے کا کردار الجبرائی تھا جس میں کئی نامعلوم مقداروں کا تعین تاریخ نے کرنا تھا۔
لیکن کسانوں کے حوالے سے ٹراٹسکی کا مؤقف زیادہ دو ٹوک تھا جنہوں نے تاریخ میں کبھی بھی ایک آزادانہ کردار ادا نہیں کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں روسی انقلاب کی قسمت کا فیصلہ اس بات سے ہونا تھا کہ کسان عوام کی قیادت حاصل کرنے کی لڑائی میں بورژوازی اور پرولتاریہ میں سے کون کامیاب ہوتا ہے۔ ٹراٹسکی کے مطابق اس کشمکش کے صرف دو ہی نتیجے نکل سکتے تھے، زار شاہی رجعت کے ساتھ جڑی بورژوازی کی آمریت یا پھر غریب کسانوں کے ساتھ اتحاد بناتے ہوئے پرولتاریہ کی آمریت۔
ٹراٹسکی نے وضاحت کی کہ ایسی انقلابی حکومت بورژوا جمہوری انقلاب کے فرائض ادا کرے گی لیکن وہاں رک نہیں جائے گی۔ وہ سوشلسٹ اقدامات کرنے کا بھی آغاز کرے گی۔ لیکن بہر حال پسماندہ روس میں سوشلزم کی تعمیر ناممکن ہو گی، لہٰذا انقلاب کو مغرب تک پھیلانا ہو گا۔ یہی انقلاب مسلسل کا جوہر ہے۔
منشویکوں کے برعکس اور ٹراٹسکی کی ہی طرح لینن بھی انقلاب روس کو مغرب میں انقلاب کے ساتھ جوڑ کر دیکھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ روس میں بورژوا جمہوری انقلاب کی کامیابی یورپ کے پرولتاریہ پر دیو ہیکل اثرات مرتب کرتے ہوئے انہیں انقلاب کی جانب دھکیلے گی۔ لینن کے الفاظ میں وہ ”پورے یورپ میں انقلاب کا شعلہ بھڑکا دیں گے“۔ معروضی مادی حالات کے کارن یہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہو سکتا ہے۔ یہ سب بدلے میں، لینن نے وضاحت کی، انقلاب روس کو ایک نئے سوشلسٹ انقلاب میں تبدیل کر دے گا۔
”انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں“، مارکس نے یہ کہا تھا۔ انقلابات مظلوموں اور استحصال زدگان کے میلے ہوتے ہیں۔ انقلاب ہی وہ موقع ہوتا ہے کہ جب عوام کی اکثریت بھرپور فعالیت کے ساتھ آگے بڑھ کر ایک نیا سماجی نظام تخلیق کرتی ہے۔ ایسے وقتوں میں عوام معجزے کر دکھانے کے قابل ہوتے ہیں۔۔۔“ (لینن، مجموعہ تصانیف، جلد نمبر 9، صفحہ نمبر 113)
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ اختلافات کے باوجود لینن اور ٹراٹسکی کا مؤقف، منشویکوں کے موقف کے برعکس، بہت حد تک ملتا جلتا ہے۔
روس میں سوشلزم کے لیے درکار مادی حالات وجود نہیں رکھتے تھے۔ مگر عالمی سطح پر یہ موجود تھے اور یہی امر انقلاب کو اس کا عالمی کردار عطا کرتا تھا۔ جیسا کہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ انقلاب روس محض عالمی سوشلسٹ انقلاب کے سلسلے کی پہلی کڑی تھا۔ ٹراٹسکی نے 1905ء میں ہی لکھ دیا تھا کہ روس کے محنت کش مغربی محنت کشوں سے پہلے اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس وقت لینن بھی اس مؤقف کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں تھا۔ تمام مارکس وادیوں میں ٹراٹسکی وہ واحد شخص تھا جس نے مغرب میں سوشلسٹ انقلاب سے قبل روس میں پرولتاریہ کی آمریت کے قیام کی پیش بینی کی تھی۔ 1917ء کے اکتوبر انقلاب نے ٹراٹسکی کے تجزیے و تناظر کو بالکل درست ثابت کیا۔
لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ٹراٹسکی انقلاب روس کے بورژوا کردار سے انکاری تھا، جیسا کہ سٹالنسٹوں کی جانب سے اس پر الزام تراشی کی جاتی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں۔ مگر صرف محنت کش طبقہ ہی کسانوں کے ساتھ اتحاد بناتے ہوئے ان فرائض کو ادا کر سکتا تھا۔ اور ایسا کرنے کے بعد محنت کش اقتدار سے دست بردار نہیں ہو جائیں گے بلکہ سوشلسٹ اقدامات کا آغاز کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی طرف بڑھیں گے۔
1905ء میں ٹراٹسکی کا نظریہ انقلاب مسلسل ایک پیش بینی تھا اور ہر تناظر کی طرح اسے بھی حقیقی واقعات کی کسوٹی سے گزرنا تھا۔
فروری 1917ء میں لینن نے اپنے پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت کے پرانے نعرے کو خیر باد کہتے ہوئے اقتدار کی سوویتوں کو منتقلی کا مطالبہ کیا۔ اس نے یہ نیا تناظر اپنے اپریل تھیسز میں پیش کیا تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی، دونوں نے بورژوا عبوری حکومت کو مسترد کرتے ہوئے محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے کا مؤقف رکھا۔ لینن اور ٹراٹسکی کا نقطہ نظر اب بالکل ایک جیسا ہو چکا تھا۔
لیکن کامینیف اور سٹالن جیسے دیگر بالشویک قائدین ابھی تک پرانے فارمولے سے چمٹے ہوئے تھے اور عبوری حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ مگر اس الجبرائی فارمولے کو تاریخ نے منفی مواد سے بھر دیا تھا۔ لینن نے کہا تھا کہ وہ لوگ جو ابھی تک پرانے فارمولے سے چمٹے ہوئے ہیں انہیں ”بالشویکوں کے قبل از انقلاب اشیاء کے میوزم میں رکھ دینا چاہیے۔“
بورژوا جمہوری حکومت، بورژوا جمہوری انقلاب کا کوئی ایک بھی فریضہ سر انجام دینے سے قاصر رہی۔ اس امر نے اکتوبر میں ایک نئے انقلاب کی بنیاد رکھی۔ یہ روس میں سوشلزم قائم کرنے کی خاطر برپا ہونے والا کوئی ’روسی انقلاب‘ نہیں تھا بلکہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی طرف پہلا قدم تھا۔ اسی لیے لینن اور ٹراٹسکی نے سوشلسٹ انقلاب کی عالمی پارٹی کے طور پر کمیونسٹ انٹرنیشنل کو تخلیق کیا تھا۔
اکتوبر انقلاب نے عالمی انقلاب، بشمول نو آبادیاتی انقلاب، کو ایک زبردست مہمیز لگائی۔
1920ء میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس کے موقع پر لینن نے ”نو آبادیاتی انقلاب“ پر ایک ڈرافٹ تھیسز پیش کیا جس کے مطابق پسماندہ ترین ممالک میں بھی کمیونسٹوں کو کسان سوویتوں کی تخلیق اور مزدور تنظیموں کے آزادانہ کردار کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
نو آبادیاتی انقلاب کی کامیابی کو ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں انقلاب کی کامیابی کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ لینن نے ”قبائلی“ سماجوں کی کمیونزم کی جانب ”چھلانگ“ کا تناظر پیش کیا۔ اپنے جوہر میں یہ سب انقلاب مسلسل کے نظریے کی ہی نمائندگی کرتا تھا۔
لیکن لینن کی موت اور سٹالن، زینوویف اور کامینیف کے ٹرائیکا کے اقتدار پر قبضے کے بعد یہ تمام پالیسی تبدیل کر دی گئی۔ 1922ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کو بورژوا قوم پرست کومنتانگ کا حصہ بننے اور اس کے تابع ہو جانے کے احکامات صادر کیے گئے۔ پولٹ بیورو کا واحد ممبر جس نے اس کی مخالفت کی، وہ ٹراٹسکی تھا۔ یہ تو منشویزم کی پالیسی تھی۔ اس کے بعد ”چار طبقات کا اتحاد“ اور مرحلہ واریت جیسے نظریات متعارف کرائے گئے۔ یہ طبقاتی سمجھوتے بازی کی پالیسی تھی۔ کومنتانگ کو بطور ایک ہمدرد سیکشن کمیونسٹ انٹر نیشنل میں داخل کر لیا گیا اور اس کے لیڈر، چیانگ کائی شیک، کو کامنٹرن کی ایگزیگٹیو کمیٹی کا اعزازی ممبر بنا دیا گیا۔
1925-27ء کے انقلاب چین میں محنت کش طبقے نے ایک قائدانہ کردار ادا کیا اور ایسے ہیرو ازم کا مظاہرہ کیا کہ جس کا موازنہ صرف 1936-37ء کے ہسپانوی پرولتاریہ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن 1927ء میں چیانگ نے ایک فوجی کُو کرتے ہوئے یونینز پر پابندی لگا دی، کسان تنظیموں کا خاتمہ کر دیا اور مزدور قائدین کا قتل عام کیا۔ پھر اس نے کمیونسٹ پارٹی کو تہس نہس کر دیا، اس کے قائدین کو گرفتار کر لیا گیا اور انقلاب کو خون میں ڈبو دیا گیا۔
سٹالن اور بخارن نے کمیونسٹوں کو بلی چڑھا دیا تھا۔ انہیں چین کے محنت کش طبقے پر بالکل بھی اعتماد نہیں تھا۔ یہ منشویکوں سے بھی بدتر مؤقف تھا۔ کم از کم منشویکوں نے کبھی بھی روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کو کیڈٹ پارٹی میں ضم کرنے کی بات نہیں کی تھی۔
لینن کی موت کے فوراً بعد ہی ٹراٹسکی کے خلاف کیمپئین کا آغاز ہو گیا اور اس میں نظریہ انقلاب مسلسل کو بھی ہر طرح سے نشانہ بنایا گیا۔ سٹالنسٹ افسر شاہی اس نظریے کی بدترین دشمن بن گئی تھی کیونکہ وہ خود ”ایک ملک میں سوشلزم“ کے غیر مارکسی نظریے کے ساتھ بغلگیر ہو چکی تھی، جس کا حقیقی مطلب عالمی انقلاب کو خیر باد کہہ دینا تھا۔
روس میں افسر شاہی، جس کا سرغنہ سٹالن تھا، کے قدم جمانے کے ساتھ ہر جگہ منشویک پالیسی اپنائی جانے لگی۔ کمیونسٹوں کو یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ’ترقی پسند‘ بورژوازی کے ساتھ اتحاد بنائیں، جس کا اظہار پھر پاپولر فرنٹ ازم میں ہوا جو مزدور پارٹیوں کے لبرل بورژوازی کے ساتھ اتحاد پر مبنی تھا۔ اس پالیسی نے سپین، فرانس اور دیگر ممالک میں بے حد نقصان پہنچایا۔
لیکن سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں یہ پالیسی خاص طور پر نہایت ہی تباہ کن ثابت ہوئی۔ جیسا کہ برصغیر کی مثال سے واضح ہے جہاں ’کمیونسٹ‘ پارٹیاں بورژوازی کی دم چھلا بن کر رہ گئیں۔ انڈیا میں وہ کانگریس پارٹی کے پیچھے چلنے لگیں اور نہرو اور دیگر قائدین کو تیسری دنیا کی قیادت کے طور پر اپنے کاندھوں پر بٹھا لیا۔ یہاں تک کہ سی پی آئی (کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، مترجم نوٹ) میں ایک بڑا مضبوط دھڑا ایسا بھی تھا جو کانگریس پارٹی میں ضم ہو جانے کا حمایتی تھا۔
سی پی آئی میں 1964ء میں سپلٹ ہو گئی جس کے نتیجے میں سی پی آئی (ایم) بنی، جس نے پھر چند سالوں میں مزید پھوٹ کا شکار ہو کر سی پی آئی (ایم-ایل)، نکسلائیٹ تحریک اور دیگر کو جنم دیا۔ مگر ان سب میں کوئی بھی بنیادی فرق نہیں تھا۔ ان سب کو گاندھی راج اور ’محب وطن قومی بورژوازی‘ کے متعلق خوش فہمیاں تھیں جو بظاہر اجارہ مخالف، سامراج مخالف اور جاگیر دار مخالف نظر آتی تھی۔
سی پی آئی کا انڈیا کے حوالے سے تناظر ”قومی جمہوری متحدہ محاذ“ پر مبنی تھاجس کی بنیاد محنت کش طبقے کے تین دیگر طبقات: کسانوں، شہری درمیانے طبقے اور ’قومی‘ بورژوازی کے ساتھ اتحاد پر رکھی گئی تھی۔ یہ وہی مرحلہ واریت کا نظریہ تھا جس میں سوشلسٹ انقلاب کو دور کہیں مستقبل بعید میں ہونا تھا۔ مزید برآں سی پی آئی (ایم) ایک ”عوامی جمہوری متحدہ محاذ“ کی بات کرتی ہے جس میں ریاست ”چار طبقات کے اتحاد“ پر مبنی ہو گی جس میں ’قومی‘ بورژوازی بھی شامل ہے۔ جبکہ نکسلائیٹس ”جاگیر دار مخالف متحدہ محاذ“ کا نعرہ لگاتے ہیں اور گوریلا جنگ کے راستے پر چل رہے ہیں۔
یہ تمام رجحان اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کے لیے نام نہاد ”لینن اسٹ مرحلہ واریت کے نظریے“ کا حوالہ دیتے ہیں جبکہ درحقیقت ایسا کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ مرحلہ واریت کا نظریہ مکمل طور پر ایک منشویک نظریہ ہے جس میں سارا زور قومی جمہوری انقلاب کے پہلے مرحلے پر دیا جاتا ہے اور پھر دور کہیں مستقبل بعید میں سوشلسٹ انقلاب کے امکان پر بات کی جاتی ہے۔
لیکن سامراجی مفادات سے جڑی ’قومی‘ بورژوازی کی قیادت میں ان ممالک میں قومی جمہوری انقلاب کا ایک بھی فریضہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔
سیاسی طور پر مسترد شدہ یو پی اے حکومت کے بعد بر سر اقتدار آنے والے مودی گینگ نے سابقہ حکومت کی ہی پیروی کرتے ہوئے انڈیا کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کھول دیا، بڑے پیمانے پر نجکاری کی اور ریاستی املاک کو زیادہ بولی دینے والوں کے ہاتھ بیچ دیا۔ بی جے پی کی کرپٹ قیادت نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر مذہبی تقسیم اور شاؤنزم کے زہر کو پھیلایا جبکہ دوسری طرف عوام افراطِ زر اور بڑھتی ہوئی بیروز گاری کے بوجھ تلے پستے رہے۔ لیکن کسانوں کی شاندار تحریک اور نئے لیبر قوانین کے خلاف ہونے والی عام ہڑتال جدوجہد کے پوٹینشل کا اظہار کرتی ہیں۔ مگر نام نہاد کمیونسٹ پارٹیاں اپنی پرانی غلط فہمیوں اور سرابوں میں پھنسی ہوئی ہیں اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھانے سے قاصر ہیں۔
حالیہ انتخابات میں کئی سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹیوں نے مسترد شدہ کانگریس پارٹی کی قیادت میں بننے والے اتحادوں، جن میں کچھ رجعتی پارٹیاں بھی شامل تھیں، میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا پروگرام نام نہاد قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”جمہوریت اور آئین“ کے تحفظ پر مبنی تھا۔ وہ بی جے پی کے ’فاشزم‘ کے خلاف اونچی آواز میں بین ڈالتے رہے۔ مگر اس غیر مقدس اتحاد کے پاس عوامی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔
نام نہاد ترقی پسند بورژوازی کے بارے میں خوش فہمیاں پیدا کرنے والی ان پالیسیوں نے ایک کے بعد دوسری تباہی اور بربادی کی راہ ہموار کی ہے۔ انڈونیشیا میں تیس سے چالیس لاکھ ممبران کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی ایک بڑی عوامی قوت تھی۔ اس کا شمار دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹیوں میں ہوتا تھا۔ اس سب کے باوجود وہ اقتدار پر قبضے کی تیاری کی بجائے ’ترقی پسند‘ اور قوم پرست لیڈر سوئیکارنو کی دم چھلا بنی رہی۔ اس پالیسی نے صرف عوام میں سوئیکارنو کے متعلق خوش فہمیوں کو جنم دیا اور انقلابی تحریک کو بے سمت کر دیا۔ اس کے نتیجے میں سامراج کے حمایت یافتہ فوجی جرنیلوں کو موقع ملا اور جنرل سہارتو نے ایک فوجی کُو کے ذریعے سوئیکارنو کا تختہ الٹ دیا۔ اس کے بعد لاکھوں کمیونسٹوں کا قتل عام ہوا اور لاکھوں کو قید و بند کی صعوبتیں بھگتنا پڑیں۔
چلی میں یہ مرحلہ وار انقلاب کا نظریہ شکست اور لاکھوں محنت کشوں و کسانوں کے قتل عام اور جبری گمشدگی کا باعث بنا۔ چلی کی کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی سوشلزم نہیں بلکہ بورژوازی کے غیر اجارہ دار حصوں سمیت وسیع تر طبقاتی اتحاد کے ذریعے ”جمہوری انقلاب“ برپا کرنے پر مبنی تھی۔ پاپولر یونٹی کے ساتھ مل کر انہوں نے محنت کشوں اور کسانوں، جو فیکٹریوں اور زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، کی جدوجہد کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا تاکہ ان کے لبرل اتحادی کہیں ناراض نہ ہو جائیں۔ اس پالیسی نے شکست اور پنوشے کی رد انقلابی فوجی حکومت کے لیے راہ ہموار کی۔
برطانیہ میں بھی کمیونسٹ پارٹی نے چلی اور دیگر ممالک جیسی پالیسی اختیار کی: ”مزید برآں چلی کی طرح سوشلزم کے برطانوی راستے کا تقاضا ہے کہ محنت کش طبقہ بڑی اجارہ داریوں کے استحصال کے شکار عوام کے دیگر حصوں کو جیتے اور ان کی قیادت کرتے ہوئے انہیں اجارہ مخالف پروگرام کے گرد ہونے والی جمہوری جدوجہد کا حصہ بنائے تا کہ بڑی اجارہ داریوں کو تنہا کیا جا سکے۔“
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں لبرل بورژوازی کوئی ترقی پسند کردار ادا نہ کر سکی کیونکہ ایک طرف تو وہ سامراج کے ساتھ جڑی تھی اور دوسری طرف عوام سے خوفزدہ تھی۔ ترقی یافتہ ممالک کے حوالے سے تو یہ بات اور بھی کئی گنا زیادہ درست ہے۔ لیکن تب بھی سٹالنسٹ اس حوالے سے خوش فہمیوں کو جنم دینے سے باز نہیں آئے جس کا نتیجہ شکست اور تباہی کی صورت میں نکلا ہے۔
یہ پالیسیاں لینن کی تجویز کردہ حکمت عملی کے بالکل الٹ ہیں۔ یہ تو لبرل بورژوازی کی حمایت اور مرحلہ واریت پر مبنی وہی پرانا منشویک نقطہ نظر ہے۔ یہ تباہی کا راستہ ہے۔
سرمایہ داری کا عالمی بحران اور جس تلاطم خیز عہد میں ہم داخل ہو چکے ہیں، ایک کے بعد دوسری انقلابی صورتحال کو جنم دے گا۔ لیکن اگر محنت کش طبقے کو اس تمام صورتحال کا فائدہ اٹھانا ہے تو اسے ایک ایسی قیادت اور پروگرام درکار ہے جو تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرے۔
انقلاب مسلسل پر ٹراٹسکی کی تحریریں ایک واضح طبقاتی انقلابی پالیسی کی جدوجہد کے لیے لازمی ہیں۔ وہ آج کی صورتحال سے اپنے لکھے جانے کے عہد سے بھی زیادہ متعلقہ ہیں۔ وہ موجودہ بحران سے نکلنے کا ایک واضح راستہ دکھاتی ہیں۔
ٹراٹسکی کی ان تحریروں کی اشاعت، خاص طور پر برصغیر میں، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔
سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹیوں کے بڑھتے ہوئے بحران کے پیش نظر ہم قوی امید کرتے ہیں کہ وہ حقیقی کمیونسٹ جو واپس لینن تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں، انقلاب ِمسلسل کے متعلق اس کتاب کا مطالعہ کریں گے۔ کیونکہ بہر حال یہی وہ نظریات تھے جنہوں نے اکتوبر انقلاب کی کامیابی کو ممکن بنایا تھا۔ یہی لینن ازم کے حقیقی نظریات ہیں۔ یہی آج کے عہد کے نظریات ہیں۔
راب سیول
لندن،
نومبر 2024ء