چے گویرا ۔ انقلابی فکر کی للکار

پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کی جانب سے شائع کئے جانے والے کتابچے ’’چے گویرا۔ انقلابی فکر کی للکار‘‘ کا تعارف نوجوان ساتھیوں کے لئے شائع کیا جارہا ہے۔

TITLE CHE BOOKLET for Website
چے گویرا کا نام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے شاید ہی کسی اور شخص کو اتنی شہرت نصیب ہوئی ہو جتنی چے کے حصے میں آئی۔ چے کی شہرت کا ایک بالکل منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے نام تک سے نا آشنا لوگ بھی اس کی تصویروں اورشبیہوں پر جان چھڑکتے ہیں۔ چے کی تصویروں کے اسٹیکرزصرف ٹی شرٹوں ہی پر نہیں بلکہ ڈرائنگ روموں، الماریوں اور کاروں تک کی زینت بنے رہتے ہیں۔ یوں مزاحمت اور بغاوت کے استعارے کو فیشن اورآوارگی کا نشان بنا دیا گیا تاکہ سرمایہ داری کیخلاف مثالی جنگ لڑنے والے عظیم مجاہد کو بھی سرمائے کی اس منڈی میں اشتہاری جنس کی طرح خریدا اور بیچا جا سکے۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیونکر ممکن ہو گیااور نہ صرف ماضی بلکہ آئندہ عہدمیں چے کا کیا رتبہ اور مقام ہو گا؟یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کی ایک سنجیدہ کوشش اس کتابچے کی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
انسانی تاریخ کی تمام عظیم شخصیات کی طرح چے گویرا کو بھی بے انتہا متنازعہ بنا دیا گیا ہے اور اس کے افکار کو ممکنہ حد تک ممنوعہ قرار دینے اور منوانے کی کوششیں اس کے مرنے کے دہائیوں بعد بھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ اس کے دشمن جب تمام وسائل بروئے کار لانے کے باوجود بھی تاریخ کی پیشانی سے اسکا نام اور مقام کھرچ نہیں پائے تو پھر اس کے نظریات کو مسخ کرکے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ چے کے دشمن تو شاید اس کام میں کبھی کامیاب نہ ہو سکتے مگر اس کے نادان دوستوں اور نام نہاد مسخرے پرستاروں نے اس کام کو بہت آسان کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج چے کو جاننے اور ماننے کا دعویٰ کرنے والوں میں سے اس کوسمجھنے اور اسکے نظریات پر عمل کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ شاید ’چے پرستوں ‘ کے اسی ٹولے کیلئے ہی غالب نے کہا تھا کہ ’ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘۔
عظیم افکار اور نظریات کی طرح عظیم لوگوں کو سمجھنے میں بھی سب سے بڑی مشکل روایتی سوچ کا میکانکی اور یکطرفہ پن ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان شخصیات کی ذہنی ترقی اور عملی ارتقا کے مختلف مراحل کو یکسر نظر انداز کر کے کردار کی عظمت اور افکار کی بلندی کو بنی بنائی اور تیارخصوصیات سمجھ لیا جاتا ہے جو اتفاقی طور پر یا مشیتِ ایزدی کے نتیجے میں کچھ اشخاص کی جینیاتی تشکیل میں پنہاں ہوتی ہیں۔ نتیجتاً پیدائشی طور پر عظیم لوگوں کا تصور ابھرتا ہے جو خامیوں اور کوتاہیوں سے سو فیصد مبرا ہوتے ہیں اور مشکلات اور تضادات کے شکار انسانی سماج کی مسیحائی کے لیئے پیدا کیئے جاتے ہیں۔ یوں بدقسمتی سے عظیم لوگوں کے مریدین اوران کے ردِ عمل میں مخاصمین کی تو بڑی تعداد مل جاتی ہے مگر سچے اور باعمل مقلدین ناپید ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کھوکھلے ظرف کے کم رتبہ لوگ عظیم نظریات اور اشخاص کے ساتھ اپنی وابستگی کے ڈھکوسلے کی بنیاد پر چور راستے سے خود کو بھی عظمت اورعزت کی گدی پر فائز کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
چے بلا شبہ ایک ان تھک، پر عزم، مستعد اور نڈر انقلابی تھا جس نے قربانی اور جانفشانی کے ایسے باب رقم کیئے جن کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن اس کے باوجود وہ کوئی دیومالائی کردارنہیں تھا اور نہ ہی کوئی رومانویت اور رہبانیت کا شکار مردم بیزار شخص تھا بلکہ وہ عام لوگوں کی طرح گوشت پوست کا حقیقی انسان تھا جس نے اپنے عہد میں ہونے والے طوفانی واقعات کے زیرِ اثر ان واقعات کی وجوہات اور ان کی تہہ میں سرگرمِ عمل متحرک قوانین کو دریافت کرنے کی سچی لگن اور جستجو میں اپنے ہم عصر دیگر انسانوں کی ذہنی، روحانی اور جذباتی سطح سے اپنے آپ کو بے حد بلند کر لیا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ یہ دنیا ئے کرشمہ ساز کسی ما فوق الفطرت عمل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ا نسانی ہاتھوں اور ذہنوں کے اشتراکِ عمل کا ایسا ثمر ہے جس سے خود انسانوں کی اکثریت مستفید ہونے کا حق مانگ رہی ہے اور یہ حق مانگنے سے ملنے والا نہیں بلکہ اسے پھر ہاتھوں اور ذہنوں کے اشتراکِ عمل کے ذریعے ہی چھینا اور حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ مجرد انسان کا دیوانہ ہو گیا تھااور ساتھ ہی اس نے انسانی کھال میں چھپے مٹھی بھر بھیڑیوں اور ان کے طبقاتی دلالوں کو بھی پہچان لیا تھا جو انسانی تہذیب کے جسم پر جان لیوا ناسور کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ بس پھر کیا ہوا پیشہ ور ڈاکٹر تو وہ تھا ہی، اس نے اس ناسورکی جراحت کا حتمی فیصلہ کر لیا اور آخری سانس تک مستقل مزاجی سے ایک پیشہ ور سرجن (انقلابی) کی طرح برسرِ پیکار رہا۔
لیکن چے گویرا کا یہ سفر کسی سیدھی لکیر میں طے نہیں ہوا بلکہ اس میں بڑے بڑے نشیب وفراز اس کا امتحان لیتے رہے۔ اس نے اپنے انقلابی سفرمیں بہت سی ایسی غلطیاں کیں جن کی وجہ سے نہ صرف وہ جان کی بازی ہار گیا بلکہ کیوبا کے انقلاب کو سارے لاطینی امریکہ اور دیگر برِ اعظموں تک پھیلانے کا اس کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اس کی محبت اور اتباع میں ان غلطیوں کو نظر انداز کرنا ظاہر ہے کہ ان کے دہرائے جانے کا سب سے بڑا موجب بنا، جس کی وجہ سے دیگر خطوں میں انقلابی قوتوں کو شکست و ریخت سے دوچار ہونا پڑا۔ مگر چے کا اپنا نظریاتی سفر کبھی ختم نہیں ہوا تھا بلکہ مرتے وقت تک وہ عظیم مارکسی اساتذہ سے فیض پاتا رہا۔ نو آبادیاتی ممالک کے انقلابات کے کردار، زرعی و شہری درمیانے طبقے کی سماجی ساخت، بورژوازی کی تاریخی نا اہلی اور پرولتاریہ اور کسانوں کے باہمی انقلابی تال میل کے حوالے سے اس کے خیالات مسلسل تبدیل ہوتے رہے۔ بالآخرتجربات اور گہرے مطالعے کے بلبوتے پر وہ سوویت بیوروکریسی اور چینی اشرافیہ کے نظریاتی ابہام اور ردِ انقلابی کردار کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کی نامیاتی کمزوریوں کو سمجھنے میں کامیاب ہو گیا مگر قسمت نے اسے ان غلطیوں کو سدھارنے اور ازسرِ نو ایک طبقاتی جنگ کو منظم کرنے کا وقت ہی نہیں دیا۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چے کی موت سے کسے شکست ہوئی اور کون سرخرو ہوا؟خاص طور پر سوویت یونین کے انہدام کے بعد گزشتہ عشرے میں پہلے چین کے سرمایہ داری کی طرف لانگ مارچ اور بعد ازاں کیوبا کے سامراجی بھیڑیوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کے’ گرین سگنل‘ کی وجہ سے یہ سوال اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ایک نام نہاد عملیت پسند، مفاد پرست اور کیریئر ایسٹ پیٹی بورژوا سوچ کے حامل شخص کے نزدیک چے کی ساری جدوجہد رائیگاں چلی گئی۔ وہ محض ایک جنونی اور خبطی مہم جو تھا جس کے خیالات کی کوئی سماجی حیثیت یا تشخص نہیں تھا اور یوں اس کی موت سرمایہ داری کی حتمی فتح کا اعلان تھی۔ اس کے برعکس انسانی آدرشوں پر یقین رکھنے والے ایک حقیقت پسند، متجسس اور متمنی انسان کے خیال میں اس سوال کا جواب بالکل مختلف اور متضاد ہو گا۔ موت تو چے کے بھگوڑے ساتھیوں اور غداروں کو بھی آ ہی گئی۔ سوال تو یہ ہے کہ زندہ کون رہا؟ چے یا بھگوڑے اور غدار؟ جواب محض لاطینی امریکہ اور یورپ ہی نہیں بلکہ تل ابیب، بیروت، قاہرہ، بغداد، دلی، کوئٹہ اور کراچی کی سڑکوں پر ایک نہیں درجنوں دفعہ چے کے بڑے بڑے پوسٹروں کی شکل میں دیا جا چکا ہے۔ اور ابھی تو پارٹی محض شروع ہوئی ہے آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔ احمد فراز نے بھی چے جیسے انقلابی مجاہدین کی جدوجہد کے لیئے ہی کہا تھا،

زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے

آج سرمایہ دارانہ عالمی معیشت کا خود ساختہ اور مصنوعی ابھار منطقی انتہاؤں کو پہنچ کر اپنی نفی میں تبدیل ہو چکاہے۔ 2008ء کے عالمی کریش نے اپنی منطقی حدود سے بڑھی ہوئی قرضوں کی معیشت کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔ ویلفیئر ریاست کا شیرازہ بکھرتا جا رہا ہے۔ یورپی یونین وینٹی لیٹر پر مصنوعی سانسیں لے رہی ہے۔ پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی نام نہاد تقسیم کا پردہ فاش ہوتا جا رہا ہے۔ غربت، بھوک، بیروزگاری اور لا علاجی جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہے ہیں۔ طبقاتی تفریق اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ دنیا کے 1 فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس 99 فیصد کی کل دولت سے زیادہ اثاثے موجود ہیں۔ حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والے پانامہ لیکس نے دنیا بھر میں ایک ہلچل سی پیدا کر دی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک پروفیسر کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق دنیا کے امیر ترین لوگوں کی دولت کے 7.6 ٹریلین ڈالر آف شور ٹیکس ہیونز میں محفوظ پڑے ہیں۔ یہ 190 ارب ڈالر کی سالانہ قانونی چوری ہے جس کو بے نقاب کرنے کے باوجود سرمایہ دارانہ قانون کی طرف سے مکمل تحفظ حاصل ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا کے صرف 62 افراد باقی آدھی دنیا سے زیادہ امیر ہو چکے ہیں اوران کی دولت میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف2010ء سے اب (جنوری 2016ء)تک ان 62 افراد کی دولت میں 500 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ اسی عرصے میں دنیا کی 50 فیصد آبادی کی مجموعی دولت میں 41 فیصد سے زیادہ کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایک محدود اندازے کے مطابق 200 ملین سے زیادہ کام کرنے کے قابل لوگ بیروزگاری کی دلدل میں غرق ہو چکے ہیں۔ ILO کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا کے 40 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں یا روزگار کے باوجود غربت کی لکیرسے نیچے رہنے پر مجبور ہیں۔ یوں اگر ان لوگوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے جو چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں یا یوں کہیے کہ نیم بیروزگار ہیں تو یہ تعداد 1000 ملین سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ مجموعی طور پر اربوں لوگ انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ خود سرمایہ دارانہ نظام کے ماہرین، IMF اور ورلڈ بینک کے نمائندے 2030ء یا 2050ء سے پہلے کسی قسم کی بہتری کے تناظر کو رد کر چکے ہیں۔ یہ طبقاتی خلیج بلاشبہ طبقاتی جنگ کی ایسی چنگاری بن چکی ہے جو کبھی بھی بھڑک کر اس نظام کوخاکسترکر سکتی ہے۔
2011 ء کی عرب بہار اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا جس نے طبقاتی شعور کو مہمیز دی۔ اسکے بعد کے ہونے والے واقعات چیخ چیخ کر ایک نئے عہد کے طلوع ہونے کا طبل بجا رہے ہیں۔ ہم عالمی سطح پر تحریکوں اور انقلابات کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اس عہد میں ہر تحریک کامیابی سے آگے ہی بڑھتی رہے گی بلکہ عہد شناس قیادت کے فراق میں محنت کشوں کا ردِ انقلابات سے بار بار ٹاکرا ہو گا۔ کچھ ممالک میں تو یہ جاری بھی ہے۔ لیکن اس نئے عہد کی بنیادی خصلت ہی یہ ہے کہ اس عہد میں ردِ انقلابات اور محنت کش طبقے کے عمومی شعور کا باہمی نامیاتی تعلق معیاری طور پربدل چکا ہے۔ اس حوالے سے شاید یہ انسانی تاریخ کا قطعی مختلف اور بے نظیر عہد ہے۔ ویسے تو لینن نے درست طور پر وضاحت کی تھی کہ ’ہر انقلاب کو آگے بڑھنے کے لیئے ردِ انقلاب کے کوڑوں کی ضرورت پڑتی ہے ‘۔ یہ محض کوئی مجرد مفروضہ نہیں تھا بلکہ اگر اسے ٹھوس بنیادوں پر سمجھا جائے تو عظیم بالشویک انقلاب کا یہ معمار کسی بھی انقلاب کے اندر مختلف مراحل اور کیفیتوں کی بات کر رہا تھا۔ لیکن لینن کے دور میں اور اس کے بعد بھی سیاسی عمل کا بنیادی وطیرہ یہ رہا ہے کہ جب انقلاب کو فیصلہ کن شکست ہو جاتی تھی تو سرمایہ دارانہ نظم (آرڈر) مکمل طور پر بحال ہو جاتا تھا، ایک لمبے عرصے تک محنت کش عوام گوشہ نشینی اختیار کر جاتے تھے اور رجعتی، فسطائی یا نیم فسطائی سوچیں اور نظریات سماج پر غالب آ جاتے تھے۔ یہ ردِ انقلابی ادوار کئی کئی عشروں پر محیط ہوتے تھے اور طبقاتی شعور کو منجمد کر چھوڑتے تھے۔ اب کی بار صورتحال حکمران طبقے کے لئے تشویشناک حد تک مختلف ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے بحران کی نوعیت، ذرائعِ پیداوار کی ملکیتی رشتوں سے فیصلہ کن بغاوت، ذرائع ابلاغ کی بے پناہ وسعت اور سماج میں طبقاتی توازن کے باعث اب طویل ردِ انقلابی ادوار مشکل ہو گئے ہیں جو آنے والے برسوں میں ناممکن ہوتے چلے جائیں گے۔
عالمی سیاسی افق پر چھائے سرخی مائل گہرے گھنیرے بادل خبردار کر رہے ہیں کہ محنت کش طبقہ لمبی اور گہری نیند سے بیدار ہو کر ایک نئے فیصلہ کن معرکے کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکی سامراج کی کوکھ کے اندر بڑے بڑے انقلابی طوفان پل رہے ہیں۔ برنی سینڈرز کا ابھار محض آغاز کا بھی آغاز ہے لیکن بہر حال اس نے امریکی سیاست کے دھارے کو معیاری طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ برطانیہ میں جیرمی کوربن محنت کش طبقے کے شعور میں ہنگامہ خیز تبدیلیوں کا مجسم اظہار بن کر سامنے آیا ہے۔ فرانس جسے کارل مارکس نے انقلابات کی ماں قرار دیا تھااور کہا تھا کہ فرانس میں ہر معرکہ آخر تک لڑا جاتا ہے1968 ء کے بعد سب سے بڑی بغاوت کی لپیٹ میں ہے۔ سپین میں ہونے والے الیکشن بائیں بازو کی طرف عوامی رجحان کی عکاسی کر رہے ہیں۔ پوڈیموس نے سپین کی سیاست کے نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔ یونان اپنی تاریخ کے بدترین بحران کے بعد ایک کے بعد دوسری تحریکوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ بیلجیم میں بھی عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مشرقی یورپ کے ممالک میں بھی عوامی اضطراب اور غم وغصہ سطح پر نظر آناشروع ہو گیا ہے۔ کیا یورپی یونین کی زبوں حالی اور عوامی بغاوتوں کو دیکھ کر تاریخ کے گنبد میں کوئی گونج سنائی نہیں دے رہی؟ غور کی جیئے ’یورپ پر بھوت منڈلا رہا ہے، کمیونزم کا بھوت‘۔ لاطینی امریکہ میں بھی طاقتوں کا توازن یکسر بدل چکا ہے۔ چلی اور میکسیکو میں طلبا تحریکیں معمول کی بات بن چکی ہیں۔ سب سے بڑھ کر برازیل گہری نیند سے بیدار ہو چکا ہے۔ افریقہ کے دونوں بڑے ممالک نائیجیریا اور جنوبی افریقہ میں سیاسی ہلچل تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اکنامک فریڈم فائٹرز (EFF)اپنے ریڈیکل اور انقلابی پروگرام کے باعث مقبولیت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں انقلابی طوفان وقتی طور پر تھما ضرور ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔
سرمایہ داری کا سب سے پائیدار اور قابلِ بھروسہ ستون یعنی چین بھی سیاسی فالٹ لائنوں کے عین اوپر واقع ہے۔ کسی بھی وقت کوئی بڑا سیاسی زلزلہ دیو ہیکل عمارت کو ملبے میں تبدیل کر سکتا ہے۔ محنت کشوں کی ہڑتالوں کی تعداد آئے سال بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ چائینہ لیبر بلیٹن کی رپورٹ کے مطابق 2011 ء سے 2013ء تک ملک بھر میں 1200 ہڑتالیں ریکارڈ کی گئیں۔ لیکن صرف 2014 ء کے ایک سال میں یہ تعداد 1300 سے تجاوز کر گئی۔ 2015ء میں یہ تعداد بڑھ کر 2700 ہو گئی۔ صرف گواندانگ صوبے میں 2015ء میں روزانہ ایک سے زیادہ ہڑتالیں ہو رہی تھیں۔ 2016 ء میں بھی یہ رجحان کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے پرولتاریہ کی یہ بڑھتی ہوئی سرکشی عالمی انقلاب کے لیئے مہمیز کا کام کرے گی۔ ہمارے پڑوس میں ایران گزشتہ سات، آٹھ سالوں سے شدید سیاسی درجہ حرارت کو محسوس کر رہا ہے۔ بھارت میں گزشتہ دو برسوں میں مسلسل دو بڑی عام ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ مودی کا تازیانہ محنت کشوں کو اور زیادہ مشتعل کر رہا ہے۔ نوجوان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ بھارت میں ایک شاندار طلبا تحریک تمام تر اتار چڑھاؤ کے باوجودجاری و ساری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق12 جولائی 2016ء کو 12 لاکھ سے زیادہ ریلوے مزدور غیر معینہ مدت کی ہڑتال کا اعلان کر چکے ہیں۔ ایکسائز، انکم ٹیکس، پوسٹ آفس اور محکمہ دفاع کے بہت سارے ملازمین نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یوں 32 لاکھ سے زائد محنت کشوں کی ہڑتال متوقع ہے۔ اس کے علاوہ 2 ستمبر کو ٹریڈ یونین فیڈریشنزکی طرف سے پھر عام ہڑتال کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ یہ تمام واقعات ایک نئے عہد کا آغاز نہیں تواور کیا ہیں۔ کوئی عقل کا اندھا ہی ان حقائق کو مسترد کر سکتا ہے۔ جن کو ناسمجھی کی تنخواہ ملتی ہو انہیں کوئی نہیں سمجھا سکتا اور جو جہالت کے وظیفہ خوار ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہوگا۔
پاکستان بھی اسی سیارے پر واقع ہے۔ لیکن چونکہ فی الحال پاکستان میں کوئی ملک گیر عوامی تحریک سیاسی منظر نامے پر موجود نہیں تو بہت سے قنوطی دانشور اور’ پیشہ ور‘ تجزیہ نگار یہاں پر کسی بھی انقلابی تحریک کے امکان کو ہی رد کر چکے ہیں۔ اول تو یہ کہ پاکستان تنہا ملک نہیں جہاں ملک گیر تحریک موجود نہیں۔ درجنوں ایسے ممالک ہیں جہاں ابھی تک عوامی لاوا پھٹا نہیں ہے۔ تو کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ یہ تمام ممالک عالمی مزدور اور طلبا تحریک سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں؟ ایسا ہر گز نہیں۔ یہ سوچ سماجی سائنس کے اصولوں سے متصادم ہے بلکہ یہ تو فطرت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ جب بہار آتی ہے تو ہر شاخ پر بیک وقت پھول نہیں کھل جایا کرتے لیکن چند بے ثمر شاخوں کو دیکھ کر بہار کے وجود سے تو انکار نہیں کیا جا سکتااور ہر نوع کے پھولوں کی خوشبو بھی ایک جیسی نہیں ہوا کرتی۔ اگر بہار میں کسی شاخ پر پھول نہیں کھل رہے تو بہار کو کوسنے پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ اس شاخ کی خصوصی دیکھ بھال کرتے ہوئے اس کی خون پسینے سے آبیاری کرنی پڑتی ہے تاکہ دیر سے ہی سہی لیکن جب وہ کھلے تو خزاں کی پہلی سرد ہوائیں بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ سبطین رضا نے اس صورتحال کی ترجمانی کچھ ایسے کی ہے کہ

سورج کو جاگنے میں ذرا دیر کیا ہوئی
چڑیوں نے آسمان ہی سر پہ اٹھا لیا

حقیقتاً پاکستان میں بھی سیاسی معمول غیر محسوس طریقے سے تبدیل ہو رہا ہے۔ حکمران طبقات کی طرف سے مسلط کردہ سیاست سے عوام کی اکثریت بالکل بیگانہ ہو چکی ہے۔ عملاً تمام سیاسی پارٹیاں حکومت میں ہونے کی وجہ سے عوامی استرداد کا سامنا کر رہی ہیں۔ اب انکی تمام نورا کشتیاں بے اثر ہوتی جا رہی ہیں۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، پانی کی قلت، تعلیم اور علاج کی نجکاری سے ہلکان عوام میٹرو بسوں، موٹر ویز، گرین لائن ٹرینوں اور بڑے بڑے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں حکمران طبقے کے مختلف سیاسی جغادریوں کی لوٹ مار پر ہونے والی لڑائیوں اور پھر وقتی مفاہمتوں کے تمام ناٹک دیکھ اور پرکھ چکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر طرف جمود اور خاموشی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے چھوٹے بڑے احتجاجوں کی تعداد، شدت اور شرح میں ہونے والا اضافہ توجہ کا مستحق ہے۔ اساتذہ، نرسیں، ینگ ڈاکٹر، پیرا میڈیکل سٹاف، ہیلتھ ورکر، کسان، رورل سپورٹ پروگرام کے ملازمین، کلرکس، واپڈا ہائیڈرو یونین کے مزدور، انجمن مزارعین، نادرا کے ملازمین اور دیگر بہت سے محنت کشوں کی تحریکیں اپنی اپنی نوعیت، شدت اور مخصوصیت کے ساتھ مختلف صوبوں اور شہروں میں چل رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے قبل سماج میں کوئی تحریک بالکل بھی نہیں تھی بلکہ گزشتہ دس، گیارہ سالوں میں کچھ قابلِ غور تحریکیں ابھرتی اور ڈوبتی رہی ہیں جن میں PTCL، پاکستان اسٹیل، پاکستان پوسٹ اور KESCکی تحریکیں خاص طور پر اہمیت کی حامل ہیں مگر ان سب تحریکوں کا وقت اور دورانیہ بالکل الگ الگ اور مختلف رہا ہے۔ بیک وقت اتنے سارے اداروں اور شعبوں کے اندر تحرک (تعداد اور حجم چاہے کچھ بھی ہو)بلاشبہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سطح کے نیچے سیاست کے معمول اور روایات کی بنیادیں معیاری تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ PIA کے محنت کشوں کی فروری میں 8 روزہ شاندار ہڑتال ساری صورتحال میں ایک معیاری جست کی غمازی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پانی، بجلی اور گیس وغیرہ کی قلت کے خلاف احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور عوامی غم و غصے کا اظہار ملک کے طول و عرض میں پھیلتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر جس اہم عنصر کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ صنعتی محنت کشوں میں بڑھتا ہوا تحرک ہے جسے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کہیں کوئی جگہ نہیں ملتی۔ سیالکوٹ میں فارورڈ گیئر کے محنت کشوں کی زور آور حالیہ تحریک اس کی بہترین مثال ہے۔ 90 فیصد سے زائد مزدوروں کے پاس یونین نہ ہونے کی وجہ سے یہ محنت کش کسی بھی اجتماعی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کے باوجود چھوٹے چھوٹے احتجاج اور ہڑتالیں منظم کر رہے ہیں۔ سائٹ ایریا کراچی و حیدرآباد، کورنگی و لانڈھی انڈسٹریل ایریا، حب انڈسٹریل ایریا بلوچستان، سندر انڈسٹریل سٹیٹ، شیخو پورہ اور گوجرانوالہ روڈلاہور، فیصل آباد وغیرہ میں بہت سی ایسی فیکٹریاں ہیں جہاں آئے روز تنخواہوں کی عدم ادائیگی، بونس، جبری برطرفیوں وغیرہ کے خلاف محنت کش سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ اس قسم کے صنعتی تنازعات کی تعداد اور معیار میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر ہمیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں 30 سال سے کم عمر کی نوجوان نسل کیا سوچ رہی ہے اور وہ آنے والے برسوں میں کون سا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔
پاکستان میں طلبا تحریک کی عظیم روایات موجود ہیں۔ لیکن لگ بھگ دو تین دہائیوں سے طلبا سیاست انحطاط کا شکار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی گروہوں کوریاستی سرپرستی میں اپنے پنجے جمانے کا موقع مل گیا تھا۔ مگر 2010 ء کے بعد سے ان رجعتی قوتوں کی حمایت میں تیز ترین گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ طالبِ علموں کی نمائندہ تنظیمیں تو یہ کبھی بھی نہیں تھیں مگر اب اکا دکا اداروں کے علاوہ زیادہ تر جگہوں پر یہ مزید پھیلنے کی بجائے اپنی بقا کی جدوجہد کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ لیکن تعلیمی اداروں میں ان کا کوئی سنجیدہ متبادل موجود نہیں۔ بہت سارے اداروں کے طلبہ بار بار تعلیم کی مہنگائی اوران تنظیموں کے جبر کے خلاف اپنے ردِ عمل کا اظہار کر چکے ہیں مگر غیر منظم ہونے کے باعث یہ تمام احتجاج بے نتیجہ منتشر ہو جاتے ہیں۔ ابھی تمام صوبائی حکومتیں تعلیمی اداروں کی نجکاری کی وحشیانہ پالیسی پر کاربند ہیں جس کے باعث طلبہ کے اندر غم و غصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے جو سالہاسال سے سوئی ہوئی طلبہ تحریک کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ حکمران طبقات بھی اس سے خوفزدہ ہیں اور طلبہ کو خوفزدہ کرنے کے لئے سکیورٹی رسک کے نام پر آئے روزتعلیمی اداروں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کو جیلوں میں بدل دیا گیا ہے۔ طلبہ کے اکٹھا ہونے اور آزادانہ طور پر ایک دوسرے سے ملنے پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ طلبہ کی اکثریت ان پالیسیوں سے نالاں ہے۔ ان کو القاعدہ، طالبان اور داعش وغیرہ سے اس قدر ڈرایا گیا ہے کہ اب ان کا ڈر اتر گیا ہے۔
طلبہ کو سیاست سے باز رکھنے کی حکمران طبقے کی یہ روش ہی رفتہ رفتہ طلبا کو سیاست کے میدان کی طرف دھکیل رہی ہے۔ گزشتہ برس اسلام آباد، لاہور، کراچی وغیرہ میں طلبہ تحریک کی ابتدائی چنگاریاں محسوس کی گئی ہیں۔ خاص طور پر سانحہ پشاور کے خلاف طلبہ کی بغاوت کسی پلیٹ فارم کے نہ ہونے کی وجہ سے زائل ہو گئی تھی۔ وہی غم و غصہ غیر محسوس طریقے سے مجتمع ہو رہا ہے۔ پشاور یونیورسٹی اور ایمرسن کالج ملتان میں ابھی حال ہی میں اس کا مظاہرہ بھی ہوا۔ تعلیمی اداروں کے باہر بھی نوجوانوں کی حالتِ زار کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ کروڑوں نوجوان بیروزگار ہیں۔ ان کے پاس بھی لڑائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ان نوجوانوں میں سنجیدہ سیاسی مباحثوں کا آغاز کرنے کے لئے عالمی مارکسی رجحان (IMT) کی طرف سے پروگریسو یوتھ الائنس (PYA ) کو ایک متبادل سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ گزشتہ برس دسمبر میں اس کا باقاعدہ پہلا کنونشن منعقد کیا گیا جس میں توقع سے زیادہ نوجوانوں نے شرکت کی اور بالخصوص لاہور کے تعلیمی اداروں میں گرمجوشی سے اس نئے آغازکو خوش آمدید کہا گیا۔ PYA نے اپنے اس پہلے کنونشن کو عظیم انقلابی چے گویرا کے نام سے منسوب کیا تھا۔ اس کنونشن کی تیاریوں کے سلسلے میں کی جانے والی ملک گیرکمپین سے یہ نتیجہ بر آمد ہوا کہ چے گویرا کے کردار اور شخصیت کے حوالے سے نوجوانوں اور بالخصوص طلبہ میں تعظیم اور مروت کے ملے جلے جذبات تو پائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے چے گویرا کے نظریات سے بڑے پیمانے پر نا آشنائی یا غلط فہمی غالب ہے۔ اس حوالے سے چے کی شخصیت اور نظریات پر تازہ دم بحث کا آغاز کرنے کے لئے کامریڈ ایلن ووڈز کی 2007ء میں لکھی گئی یہ شاندارتحریر اردو میں شائع کی جا رہی ہے۔
چے گویرا کے حوالے سے جو روایت سب سے زیادہ غلط العام ہے وہ یہ ہے کہ چے ایک قوم پرست مہم جو تھا جو کہ چے کے نظریات کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہے۔ اس معاملے میں تاریخ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ چے نہ تو قوم پرست تھا اور نہ ہی مہم جو بلکہ اس کے برعکس وہ ان دونوں سیاسی رجحانات کے شدید مخالف تھا۔ وہ قومی اور نسلی بنیادوں پر لوگوں کو تقسیم کرنے کے لئے لگائی گئی لکیروں کو مانتا ہی نہیں تھا۔ اس کی عملی زندگی بھی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ دنیا بھر کے مظلوم طبقات کی نجات کا علمبردار بن کر سامنے آیا تھا۔ وہ ارجنٹائن میں پیدا ہوا، فیڈل کاسترو کے ہمراہ کیوبا کے انقلاب کی قیادت کی، کانگو میں جدوجہدِ آزادی میں شامل رہا اور بولیویا میں امریکی سامراج کی گماشتہ ریاست کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا۔ ایسے میں اس کی قومی شناخت اور تشخص کا تعین اور تعریف و تشریح کی کوئی بھی کوشش اس کے تاریخی کردار کو بڑھانے کا نہیں بلکہ کم کرنے کا ہی باعث بنے گی۔
پاکستان میں بھی مظلوم قومیتوں کا شدید معاشی استحصال کیا جا رہا ہے۔ اس استحصال کے خلاف کشمیر سمیت تمام مظلوم قومیتوں میں نفرت اور انتقام کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص بلوچستان میں قومی مزاحمت سب سے زیادہ دیکھنے میں ملتی ہے۔ مزاحمت کی تمام صفوں میں چے گویرا کو ایک ہیرو کے طور پر پوجا جاتا ہے اور اسے قومی آزادی کے استعارے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ BSO کا بانی قائد حمید بلوچ خود بھی ایک بین الاقوامیت پسند ہونے کے ناطے چے گویرا کا حقیقی مقلد تھا۔ ایسے میں یہ کتابچہ تمام مظلوم قومیتوں کی تحریکوں کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے اور منظم کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
جہاں تک چے کے ایک مہم جو ہونے کا تعلق ہے تو اس سے بڑا بہتان کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ درحقیقت وہ ایک بہت نرم خو، کم گو، انسان دوست اور معتدل مزاج انسان تھا۔ اس نے گوریلا جنگ کا راستہ صرف اس لئے اختیار کیا تھا کہ اس وقت اس کے پاس کوئی دوسرا متبادل راستہ تھا ہی نہیں۔ خاص طور پر سوویت یونین اور چین کی افسر شاہانہ زوال پذیری اور سامراجی ممالک سے بار بار مفاہمت کے باعث چے سمیت دنیا کے بے شمار نوجوان انقلابیوں کا ان انقلاب کے نام نہاد ٹھیکیداروں پر سے اعتماد اٹھ گیاتھا۔ دوسری طرف بالعموم تیسری دنیا اور بالخصوص لاطینی امریکہ میں سامراج کی لوٹ کھسوٹ اور بالواسطہ اور براہِ راست جبر بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ ایسی صورت میں چے کے پاس دو ہی راستے بچے تھے۔ اول تو یہ کہ تمام ظلم وجبر کے خلاف محض علامتی اور ادبی لعن طعن کر کے دل کی بھڑاس نکال لی جائے یا پھر لڑائی کا کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈا جائے۔ اسی تذبذب میں جب وہ اپنے آپ کے ساتھ ایک لڑائی لڑ رہا تھا تو اس کی ملاقات فیڈل کاسترو سے ہو گئی اور یوں اسے ظالموں سے لڑنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ لگ گیا۔ وہ اس راستے کو واحد راستہ سمجھ کر چل پڑا اور پھر آخری دم تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لیکن چے پر مہم جو ہونے کا الزام صرف اسی لئے ہی نہیں لگایا جاتا کہ اس نے مسلح اور متشدد راستہ اختیار کیا۔ یہ الزام تو چے سے پہلے اور اس کے بعد بھی دنیا کے ہر انقلابی کے اوپر لگایا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر ذرا انقلابِ روس کی تاریخ کو یاد کیجیے۔ اس پورے انقلاب کو ہی ایک بہیمانہ مہم جوئی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت لینن تاریخ کا سب سے بڑا مہم جو ہے جس نے تاریخ میں پہلی دفعہ ایک اکثریت پر سے اقلیت کے جبر کا خاتمہ کر کے دکھا دیا تھا۔ اس کے بعد جو کوئی بھی ایسا کرنے کی کوشش یا وکالت کرے گا وہ مہم جو قرار پائے گا۔ جنگوں کو ختم کرنے کے لئے بھی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ انقلاب اسی جنگ کا نام ہے۔ اسی لئے جس طرح نرم اور محبت کرنے والے دل کے بغیرکوئی سچا انقلابی نہیں بن سکتا، ویسے ہی انتھک اور مستقل مزاج جنگجو ہوئے بغیر بھی کوئی شخص یا جماعت انقلابی ہونے کی دعویدار نہیں ہو سکتی۔ نام نہاد اخلاقیات کے مبلغین، متعفن اصلاح پسندوں اور نیم انقلابی موقع پرستوں کی انگشت نمائی اور دشنام طرازی کو جھیلتے ہوئے آگے بڑھنا ہی تو انقلابیوں کا شیوہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ’کتے بھونکتے رہتے ہیں اور کاروان گزر جاتے ہیں‘۔ یوں مہم جوئی کا الزام کوئی بہتان نہیں رہتا بلکہ ایک تمغہ بن جاتا ہے جسے سینے پر سجائے سچے انقلابی دیوانہ وار تاریخ کی عدالت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی طرح پاکستان کی نوجوان نسل کو بھی انقلابی نظریات اور رہنمائی کی اشد ضرورت ہے، تمام بڑے بڑے انقلابی دانشور ذہنی اور روحانی طور پر گزشتہ عہد میں ہی موجود ہیں۔ ان کا ’گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا‘۔ ان کی اکثریت نے ساری زندگی انقلاب کے نام پر اپنے نام، مقام، رتبے اور شہرت کے حصول کی تگ ودو کی۔ ضمیر فروشی اور موقع پرستی ان کی جبلت اور خمیر میں شامل ہے۔ ذاتی انا، مراعات اور پذیرائی کی خاطر یہ نظریے کا ’ چورن ‘کبھی بھی اور کہیں بھی فروخت کر سکتے ہیں۔ بھارت کے نامور سرمایہ دار لکشمی متل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’کانگریس ‘ مری دکان ہے۔ اور یہ بات واقعی سچ ہے کہ تمام بورژوا پارٹیاں ان کے لیڈروں کی دکانیں ہی تو ہیں۔ پاکستان میں نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، فضل الرحمان، طاہر القادری اور الطاف حسین دوکاندار ہی تو ہیں، یہ الگ بات ہے کہ بازار میں مندا ہونے کے باعث کچھ دکانیں ڈوبنے کے قریب قریب پہنچ گئی ہیں۔ بائیں بازو کے ان نام نہاد لیڈروں کا تعلق بھی زیادہ تردرمیانے طبقے سے ہے اور درمیانے طبقے کی آنکھیں ہمیشہ حکمران طبقے پر لگی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ نظریات سے زیادہ اپنے تاریخی طبقاتی کردار کے وفادار ہیں اور انقلاب کے نام پر دکانداریاں چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں اور چے کی زندگی کے حوالے سے اس کتابچے کی اشاعت کامقصود و مطلوب وہ ہر گز نہیں ہو سکتے بلکہ چے کی زندگی تو کیا چے کا نام ہی ان خود پرست اور کج فہم لیڈروں کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے۔ چے نے گھر بار، بیوی بچے، سکھ چین، نام، عہدے، آرائشیں اور مراعات سب کچھ انقلاب کی راہ میں قربان کر دیا تھااور ذرا غور کیجیے یہی تو وہ ساری چیزیں ہیں جو انقلاب کے نام پر ان معزز خواتین و حضرات نے حاصل کی ہیں۔ لیکن کس نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے، اس کا حساب ہونا توابھی باقی ہے۔
یہ کتابچہ ان سچے، مخلص اور جراتمند نوجوانوں کے لئے شائع کیا جا رہا ہے جو چے جیسے انقلابی رہنماؤں کی نظریاتی اساس تک پہنچنا چاہتے ہیں اور سماج اور نظام کی تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ ملک کے طول و عرض میں، میدانوں سے لے کر پہاڑوں تک اورکھیتوں سے لے کر کارخانوں تک ایسے افراد اور گروپ ضرور موجود ہیں جو اس کتابچے کو تہہِ دل سے خوش آمدید کہیں گے۔
اپنی بات ختم کرتے ہوئے میں چے کے آخری الفاظ نقل کرنا چاہوں گا۔ مرنے سے کچھ منٹ پہلے ایک بولیوین سپاہی نے چے سے پوچھا ’’کیا تم اپنی لافانی زندگی کے بارے میں سوچ رہے ہو؟‘‘، چے نے جواب دیا ’’نہیں! میں انقلاب کی لا فانیت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ ‘‘ چے گویرا کے آخری الفاظ کچھ یوں تھے ’’میں جانتا ہوں تم مجھے مارنے کے لئے آئے ہو۔ گولی چلاؤ بزدل! تم صرف ایک انسان کی جان لے رہے ہو!‘‘

پارس جان
17 جون2016ء

Tags: × × × ×

Comments are closed.