پاکستانی معاشرے کو لاحق سب سے خطرناک ناسور مذہبی بنیاد پرستی اور اس کے پس پردہ فاشسٹ تصورات ہیں یا زندہ انسانوں کا خون چوسنے والی اجارہ داریوں کی خیرات پر پلنے والی این جی اوز؟ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔ بظاہر متحارب ہونے کے باوجود ان میں بہت سی مشترک اقدار بھی پائی جاتی ہیں جن میں سے سب سے اہم مشترک قدر یہ ہے کہ دونوں نجی ملکیت کو مقدس سمجھتے ہیں اور اس کے دفاع کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانے کو تیار ہیں۔ سامراجی اور خاص طور پر نیو لبرل معاشی پالیسیوں کی بقا، بہبود اور وسعت کی ضرورت نے ان دونوں کو جنم دیا۔ سامراجیوں اور مقامی حکمران طبقات کا ان دونوں کی طرف رویہ خالصتاً عملیت پسندانہ ہے۔ جب، جہاں اور جیسے جس کی بھی ضرورت ہو اسے استعمال کیا جائے۔ اسے ’نظریۂ ضرورت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں رجحانات ایک دوسرے کی ناگزیر ضرورت بن چکے ہیں۔ ایک کی عدم موجودگی میں دوسرا اپنے وجود کا جواز ہی کھو دیتا ہے۔ اس لیے اب سامراجیوں کو مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ انہیں ’یہ‘ یا ’وہ‘ والی صورتحال کی بجائے اپنی مالی و سٹریٹجک محدودیت کے باوجود دونوں ’وفادار‘ خدمت گزاروں کی بیک وقت پرورش کرنی پڑ رہی ہے۔ انہوں نے اسلامی بنیاد پرستی کو ’کم تنخواہ ‘ پر آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر انہیں شکستِ فاش ہوئی اور اب پھر وہ ان کے ساتھ ’بات چیت‘ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سے این جی اوز کا بھی خطرے میں پڑ جانے والا ’رزق‘ دوبارہ خود کو محفوظ اور مطمئن محسوس کر رہا ہے۔ مقامی ریاستی طاقت کے ساتھ وقتی نورا کشتی اس رزق کی بڑھوتری اور اثر پذیری میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔ ویسے بھی نیو لبرل سرمایہ داری کا بنیادی اصول ہے کہ ’رسک فیکٹر‘ شرحِ منافع میں اضافہ کر دیتا ہے۔ یوں یہ دونوں سامراجی ناسور دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو مل کر چاٹ رہے ہیں۔ بنیاد پرستی کے خلاف تو درجنوں نہیں بیسیوں مباحث سننے اور تصانیف پڑھنے کو مل جاتی ہیں، مگر ان این جی اوز کے کردار پر کوئی سنجیدہ تجزیہ کم از کم پاکستان میں پڑھنے کو نہیں ملتا۔ زیادہ تر لوگ انہیں ’خوش آئند ‘ ہی سمجھتے ہیں یا پھر اسے ’کمتر برائی‘ کا درجہ دے کر اس کی حوصلہ افزائی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سوچ، فکر اور جدوجہد کو لاحق وہ سرطان ہے جو اب اس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں مریض کی اپنی قوتِ مدافعت ہی اس کے خلاف کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پر جوش نوجوانوں، انقلابی کارکنوں، دیانتدار طلبہ اور مزدور تحریکوں کو پتہ بھی نہیں چلتا اور ان کا سودا ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کتاب اس موضوع پر ایک سنجیدہ بحث کے آغاز کی ادنیٰ سی کاوش ہے۔
اس کتاب میں لبرل ازم کے قومی سوال، خواتین کے حقوق کی جدوجہد اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے اہم سماجی و سیاسی مسائل پر نقطۂ نظر کا مارکسی فکر کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔ راقم الحروف کے بہت سے’ دوست‘ بھی شاید اس کاوش پر سیخ پا ہو جائیں۔ خاص طور پر وہ دوست جو این جی اوز یا قوم پرست تحریکوں سے وابستہ ہیں۔ ان میں کچھ نہایت عزیز اور قریبی دوست بھی شامل ہیں۔ مگر ہم ان سے صرف یہی عرض گزاریں گے کہ ہمارا مقصد کسی کو شخصی حیثیت میں تنقید کا نشانہ بنانا نہیں بلکہ سماج کے عمومی سیاسی و ثقافتی ارتقا کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرنا اور ان کے حل کے بارے میں ایک مثبت اور سنجیدہ بحث کا آغاز کرنا ہے۔ ایک بہت مشہور امریکی کہاوت ہے کہ، ’دوستی اپنی جگہ اور کام اپنی جگہ‘۔ اس حوالے سے ہم اس مارکسی نقطۂ نظر پر کسی بھی دوسرے مکتبِ فکر کی جوابی تنقید کو ہمیشہ خوش آمدید کہیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک مدلل مکالمے کے ذریعے نئی نسل کے فکری معیار کو بلند کرتے ہوئے انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ اس انسان دشمن سماج اور نظام کے خلاف جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کر سکیں۔ اس بحث کا تعلق صرف سیاسی کارکنوں یا دانشوروں سے نہیں ہے بلکہ ادیبوں اور فنکاروں کی نوجوان نسل سے بھی ہے۔ نیو لبرل سرمایہ داری نے جہاں سیاست میں موقع پرستی اور ذاتی مفاد کو سماجی طور پر مسلمہ قدر کی شکل دے دی ہے وہیں آرٹ اور آرٹسٹ دونوں کو بھی فیکٹری میں تیار کی جانے والی اشیا (Commodities) کے ہم پلہ بنا دیا ہے۔ آرٹسٹ کو بھی اب یہی کہا اور بتایا جاتا ہے کہ ’واہ واہ تم تو بہت کما سکتے ہو‘۔ حقیقت یہ ہے کہ پیسے کے لیے لکھا جانے والا ادب انتہائی سطحی اور بیہودہ ہوتا ہے اور اس کی عمر بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ جب تک یہ سرمایہ داری موجود ہے ہر کوئی زندہ رہنے کے لیے کمانے پر مجبور ہے، اس میں بلاشبہ آرٹسٹ بھی شامل ہیں۔ مگر ایک آرٹسٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ رہنے کے لیے ضرور کمائے مگر صرف کمانے کے لیے ہی زندہ نہ رہے۔ نیو لبرل ازم کی ثقافتی اقدار نے آرٹ کو ہی سماج سے نہیں کاٹا بلکہ آرٹسٹ کو بھی سماج سے مکمل لاتعلق کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر اردو ادب میں ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کوئی بھی نامور اردو ناول نگار، افسانہ نگار یا شاعر عوام سے گھلنا ملنا یا ان کے ساتھ وقت گزارنا پسند نہیں کرتا۔ عوامی جگہوں پر صرف نئے یا تگ ودو کرنے والے (Struggling) آرٹسٹ ہی نظر آتے ہیں۔ اور جب وہ تھوڑا سا نام کما لیتے ہیں تو پہلے سے موجود ادبی اشرافیہ، بیوروکریٹس اور بڑے لوگوں کی نجی محفلوں تک خود کو محدود کر لیتے ہیں۔ جب آرٹسٹ ہی سماج سے کٹ جائے گا تو اس کا تخلیق کردہ آرٹ سماج کی درست نمائندگی کا شرف کیسے حاصل کر سکتا ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ زیادہ تر مشاعروں اور ادبی نشستوں کے مہمانانِ خصوصی سرکاری افسران، تاجران یا بدعنوان سیاستدان ہوتے ہیں۔ یہ اس زوال کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کی جڑیں اسی نیو لبرل نفسیات میں پیوست ہیں۔ چند سر پھرے اور من چلے آج بھی اس متعفن ماحول کے خلاف ادبی سطح پر مزاحمت کر رہے ہیں، ان کی جتنی بھی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے۔ آرٹ اور سیاست دونوں کو اس لبرل نفسیات کے شکنجے سے بازیاب کروانا ضروری ہو گیا ہے۔
ویسے تو یہ کتاب اپنی ضرورت اور اہمیت کی تجویز سے لے کر اشاعت تک مکمل طور پر سماج کی انقلابی تبدیلی کے جوش، جنون اور نظریے سے لیس ٹیم کی اجتماعی کاوش کا نتیجہ ہے۔ ان میں سے کسی ایک کی محنت کو بھی اگر بیچ میں سے نکال دیا جاتا تو اس کتاب کے منظرِ عام پر آنے کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی مگر اس کے چھٹے باب میں کامریڈ ارسلان غنی کی تحقیقی معاونت کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ اور یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ چوتھے باب میں میڈیا کے کردار پر کی گئی بحث کامریڈ خاور خان کے اس موضوع پر تحریر کیے گئے مضامین سے ماخوذ ہے۔ لیکن یہ کتاب اس موضوع پر کوئی حتمی اور مکمل صحیفہ نہیں ہے بلکہ اس بحث کو انقلابی نوجوانوں کے سنجیدہ حلقوں تک لے کر جانے کی ابتدائی کوشش ہے۔ امید ہے سچے، دیانتدار اور لڑاکا انقلابی نوجوان اس کا خیر مقدم کریں گے۔ موقع پرستوں اور ترمیم پسندوں سے معذرت کرنا ہمارے مزاج اور روایت کے خلاف ہے۔
پارس جان
کراچی، 22 مارچ 2019ء