تحریر: انعم پتافی:-
عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنی ہی پیدا کردہ عالمگیریت کے ہاتھوں بھی آخر کار شکست کھا چکا ہے۔موجودہ مالیاتی بحران نے عالمی آقاامریکہ اورپھر یورپ کے بعداب دوسرے نمبر پر ممکنہ عالمی آقا بننے والے ملک چین کی معیشت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور اسے سست کرنا شروع کر دیا ہے۔یہ جھٹکا عالمی معیشت کی تمام کڑیوں کو ایک بار پھر دہلا کر رکھ دے گا۔پہلے سے بربادی کی طرف گرتی ہوئی معیشت کا اس بڑے جھٹکے سے بچنا تو درکنار بلکہ اس مرتے ہوئے نظام کے آقاؤں اور دانشوروں کے شکست خوردہ حوصلوں کو مایوسی کی قبر میں دفن کر دے گا،خوشحالی اور بہتری تو دور بلکہ مسلسل بڑھتی ہوئی بربادیوں اور اس کی رفتار کو مزید تیز کر دے گا۔اسی کے تسلسل میں سرمایہ دارانہ ترقی کے مثالی نمونے 1st worldکے بیشتر ممالک اس صورتحال میں طبقاتی جنگ کے محاذ کھلتے جا رہے ہیں۔جہاں تیسری دنیا کی با نسبت ترقی یافتہ شعور کے حامل محنت کش اور عوام حکمران طبقے کی طرف سے کیے جانے والے کٹوتیوں کے حملوں کے خلاف صف آراء ہو رہے ہیں۔اس ابتدائی طبقاتی محاذ آرائی نے عالمی طور پر عہد کے کردار کو بدلنا شروع کردیا ہے۔عرب بہار نے معاشرے پر حاوی سکوت کا پردہ چاک کر دیا ہے، اس نظام کے متبادل کے لیے بحثوں کا آغاز ہو گیا ہے۔اس صورتحال میں خواتین بھی ان سماجوں کا انسانی حصہ ہونے کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔وہ چاہے مصر میں التحریر سکوائر ہو،تیونس کی سڑکیں ،یونان کی ہڑتالیں،امریکی کی آکو پائی وال سٹریٹ کی تحریک ہو ،ہر جگہ ہر لڑائی میں خواتین بھی ان میں اپنا انسانی اور طبقاتی کردار ادا کرتے ہوئے جدوجہد میں شانہ بشانہ شریک رہی ہیں ۔
یورپ ،امریکہ اورباقی ترقی یافتہ ممالک میں خواتین نے اپنی آزاد انسانی حیثیت کے لیے جدوجہد کی قابل تحسین تاریخ رقم کی ہے۔ایک طویل لڑائی کے بعد ہی وہاں خواتین ثقافتی،سماجی اورسیاسی اہمیت اوربہتر درجہ حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئیں ۔لیکن اب بھی وہاں بڑے پیمانے پر جنسی بنیادوں پر تفریق موجود ہے، جس کی سب سے بڑی مثال جنسی بنیادوں پر اجرتوں کے فرق کا ہونا اور اس کے علاوہ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے جیسے ثقافتی اور سماجی مسائل کا موجود ہونا ہے۔لیکن مجموعی طور پر تیسری دنیا کی با نسبت وہاں کی خواتین کے حالات بہتر ہیں۔اس کامیابی اور ترقی میں وہاں پر مجموعی معاشی ترقی کا کردارفیصلہ کن رہا ہے۔ اگر وہاں خواتین گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد ہو کرمعاشرے میں کام کر رہی ہیں تو وہاں معاشی ترقی اور انفرا سٹر کچر کی بہتری نے خواتین کی ان تمام گھریلو ذمہ داریوں کو مشترکہ سماجی ذمہ داریوں میں تبدیل کر دیا۔ تعلیم ،صحت،بچوں کی نگہداشت کے لیے day care centers‘اجتماعی لانڈریاں وغیرہ۔ ان تمام چیزوں کے بغیر یہ آزادی نا ممکن تھی اور ان تمام چیزوں کے ہونے کے لیے معاشی ترقی ناگزیر تھی۔لیکن 2008ء میں شروع ہونے والے معاشی بحران نے کیفیت کو بدلنا شروع کردیا ہے۔ بحران کا سارا بوجھ معیار زندگی میں گراوٹ لاتا جا رہا ہے۔ان اجتماعی سہولتوں پر کٹوتیوں کے منصوبے لاگو کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔جس پر حکمرانوں کو شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔مذکورہ بالا صورتحال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خواتین کی آزادی بحیثیت انسان سماج کی اجتماعی ترقی کے بغیر نا ممکن ہے۔
فورئیر (Fourier)نے کہا تھا کہ کسی بھی سماج کی ترقی کا اندازہ اس میں موجود خواتین کی آزادی کی کیفیت سے لگتا ہے۔اس حوالے سے اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو معاملات انتہائی ابتر ہیں۔ترقی تو دور بلکہ یہاں کا سماج مسلسل گراوٹ کی طرف بڑھتا جا رہا ہے ۔یہاں درمیانے طبقے کی خواتین اگر معاشی دباؤ کی وجہ سے گھریلو چار دیواری سے باہر کام کرنے کے لیے نکلی بھی ہیں توباقی معاشرے کی پسماندگی ان کے راستے میں سب سے بڑا عذاب بن کر سامنے آرہی ہے اور پھر روزگار کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنی گھر کی ذمہ داریوں سے مبرا کر دی جاتی ہیں،بلکہ واپسی پر انہیں گھر کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے ا ور دوہری مشقت کرنی پڑتی ہے جس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا۔
سال 2008ء کے اعداد و شمار کے مطابق (کیونکہ اس کے بعد ان پر کوئی کام ہوا ہی نہیں)پاکستان کی مجموعی ورک فورس میں صرف 21.8 فیصد خواتین شامل ہیں اور اس میں سے 70فیصد خواتین کا تعلق زراعت کے شعبے سے ہے۔ اس محنت کی منڈی میں وہ محنت شمار ہی نہیں جاتی جو کہ خواتین گھریلو کاموں میں صرف کرتی ہیں کیونکہ سرمایہ داری کے حساب سے اگر کوئی محنت منافع نہیں پیدا کر رہی تو وہ محنت ہی شمار نہیں کی جاتی۔دوسری طرف ثقافتی گھٹن بھی تعفن کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے ۔ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق ہر دو گھنٹوں میں ایک عورت کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے، ہر آٹھ گھنٹوں میں ایک گینگ ریپ ہوتا ہے اور ہر سال ایک ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ تیزاب پھینکنا‘ کام کرنے والی خواتین اور طالبات کے لیے دھمکیاں اور دباؤ بھی معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔اس سب صورتحال کے حوالے سے حال ہی میں دسمبر 2011ء میں قومی اسمبلی میں ایک اور بل منظور کیا گیا لیکن ایک بحران زدہ ریاست جو خود ایک کل کی حیثیت سے اپنا کردار کھو چکی ہے اور جس کا ہر حصہ آپس میں اور اپنی اپنی بقا کی لڑائی لڑ رہا ہے، وہ بھلا کیسے اس قانون سمیت اس جیسے تمام قوانین پر عمل در آمد کراسکتی ہے۔یہاں قوانین بس وہی قابل عمل ہیں جو کہ اس نظام اور نظام کے طاقت ور افراد کے مفاد اور ان کے دفاع کے لیے ہوں۔جبکہ سرمایہ داری سمیت پچھلے ملکیت پر مبنی تمام نظاموں میں ریاست کا کردار اقلیتی حکمران طبقے کے مفادات کا دفا ع کرنے والے آلے کا ہی رہا ہے۔حکمرانوں کے اس آلے سے یہ امید بھی رکھنا بیوقوفی ہوگی کہ یہ اکثریتی آبادی اور عوام کے بہتری کے لیے کچھ بھی کرے ۔یہی وجہ ہے کہ اس قانون کے پاس ہونے کے باوجود بھی صورتحال میں 0.05فیصد تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔اس قسم کے چاہے جتنے بھی قوانین بنائے جائیں ان سے اس مختلف معاشی‘ سیاسی اور سماجی ڈھانچوں پر مبنی نظام کے ملغوبہ معاشرے کی پستی کو رتی بھر بھی فرق نہیں پڑتا۔زیادہ سے زیادہ بس یہی ہو پائے گا کہ چند خواتین شایداپنے پر ہونے والے تشدد کو رپورٹ کروا سکیں گی۔
لیکن اسی معاشرے کا دوسرا شاندار پہلو بھی پچھلے دنوں ہمارے سامنے آیا ہے جب نرسز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے پنجاب اور سندھ کے شہروں کے چوک چوراہوں پر اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے جرا تمندانہ جدوجہد کرتی دکھائی دیں جو کہ ابھی تک جاری ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان مختلف لڑائیوں کوسب سے پہلے آپس میں جوڑ ا جائے اور پھر انہیں محنت کش خواتین کے دیگر مسائل کے ساتھ ملاتے ہوئے مزید شعبوں تک لے جایا جائے،کیونکہ جہاں تک ان تحریکوں کی حاصلات کا تعلق ہے تو اس میں ابھی تک اتنی شاندار جدوجہد کرنے کے باوجود بھی کوئی کامیابی نہیں مل سکی ، اس طرح اکیلے اکیلے لڑائی لڑنے سے حاصلات کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔کامیابی کے لیے بڑی افرادی طاقت کا مجتمع شکل میں ہونا ضروری ہے جس کے لیے آپس میں طبقاتی بنیادوں پر جڑنا ناگزیر ہے۔اس کے بعد دوسرا اہم قدم اس لڑائی کو دیگر بڑے اداروں ریلوے،واپڈا،پی آئی اے کے محنت کشوں کی خصوصاً نجکاری کے خلاف ہونے والی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ ایک بڑی اور مضبوط طبقاتی یکجہتی کے ساتھ حکمرانوں کے حملوں کا نا صرف مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ جیتا بھی جا سکتا ہے۔اپنے اور باقی طبقاتی ساتھیوں کی تمام عذابوں سے مکمل نجات کے لیے بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے ہی ان حاکموں اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ کرنا ہوگی کیونکہ یہی ان تمام عذابوں کی وجہ بھی ہے۔
خواتین کے ساتھ برتے جانے والے غیر انسانی رویے اور استحصال کی وجوہات کو سمجھے بغیر‘ ان کا درست تعین کیے بغیر اس کا درست حل نکالنا ممکن نہیں ہے۔اس حوالے سے جب ہم دیکھتے ہیں تو خواتین پر ہونے والے استحصال کا آغازپیداوار اور ذرائع پیداوار کا ملکیت پر مبنی نظام کے آغاز کے ساتھ ہی ہوتا نظر آتا ہے۔ ابتدائی انسانی سماج‘جسے ابتدائی کمیونسٹ سماج بھی کہا جاتا ہے ،میں جب انسانی محنت نے پہلی بار ضرورت سے زیادہ پیداوار کی تو اس کے ساتھ ہی اس زائد پیداوار کی ملکیت اور ملکیت کی اگلی نسلوں تک منتقلی کا سوال بھی پیدا ہوا۔اس کے لیے پہلے سے موجود مدرسری نظام کا خاتمہ اور پدرسری نظام پر مبنی خاندانی طرزکی ابتدا ہوئی تاکہ ملکیت کو اگلی نسلوں تک منتقل کیا جائے۔جبکہ مدرسری خا ندانی نظام کے تحت خواتین قبیلوں کی سربراہ ہوا کرتی تھیں اور بچے صرف اپنی ماؤں کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے تھے۔ پدرسری نظام کے تحت خواتین کی حیثیت صرف مرد کی ملکیت ہونے تک محدود کر دی گئی اور خواتین کا کردار محض مرد کی نسل کو آگے بڑھانا اور چار دیواری کے اندر کے کاموں تک ہی محدودہو کر رہ گیا۔صدیوں سے چلی آ رہی اس ملکیتی حیثیت نے خواتین کی اپنی نفسیات پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں جس کی وجہ سے خواتین کی اکثریت کو اپنی اَن دیکھی زنجیروں کا احساس اور اندازہ ہی نہیں ہے کہ جس کے خلاف وہ کچھ کر سکیں۔خواتین پر ہونے والے استحصال کی وجہ مردانہ ملکیتی نفسیات اور اس کی طبقاتی ہیئت ہے۔یہ اور اس طرح کے تمام عذابوں کے مکمل خاتمے کے لیے طبقاتی تفریق پر مبنی ملکیتی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ذرائع پیداوار کی ملکیت پر مبنی طبقاتی نظام سے آ زادی کے بغیر خواتین کی حقیقی آزادی اور نجات ممکن ہی نہیں ہے اور یہ فریضہ صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی انجام دیا جا سکتا ہے۔
قبائلی ،زرعی اور سرمایہ دارانہ ثقافتی قدروں کے ملغوبے پر مشتمل پاکستانی سماج میں خواتین کی آزادی کا مسئلہ فقط معاشی کردار کا حامل ہی نہیں ہے بلکہ دوسرابڑا عذاب ضیاء الحق کے دور میں مسلط کی جانے والی سخت گیر مذہبی رجعتیت ہے۔جس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔پاکستان میں برپا ہونے والے 1968-69ء کے انقلاب کے اثرات کو ختم کرنے اور انقلاب کا انتقام لینے کے لیے ضیاء الحق جیسے درندہ صفت انسان کو یہاں کا حاکم بنایا گیا۔ہم اگر اس دور سے پہلے کی صرف تصاویرہی دیکھیں تو معاشرہ اپنے وقت کے حساب سے ثقافت کے حوالے سے آج کے عہد کی با نسبت زیادہ جدید ثقافتی معیار کا متحمل نظر آتا ہے۔لیکن 1968-69ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد بڑی درندگی سے یہاں مصنوعی مذہبی جنونیت کے ذریعے ان سب عوامل کو تباہ کیا گیا،جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید وحشی ہوتی چلی جا رہی ہے۔اس جنونیت کا خاتمہ کرنا یہاں کے سوشلسٹ انقلاب کے اولین فرائض میں شامل ہے۔
چار دیواری کی گھریلو مشقت سے آزاد ہو کر ہی خواتین بحیثیت انسان سماج کی ترقی میں برابر کی شریک ہو سکتی ہیں، کیونکہ یہی ان کے استحصال کی بنیاد ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خواتین کی یہ ذمہ داریاں پورے معاشرے کی اجتماعی ذمہ داریاں بنا دی جائیں گی،جہاں بچوں کی نگہداشت کے لیےDay Care Centers،اجتماعی کھانا گھر ، اجتماعی لانڈریاں اور اس کے ساتھ ہی تمام انفراسٹرکچر کی معیاری تعمیر و ترقی،معیاری،یکساں اور جدید نظام تعلیم ،صحت کی قریب ترین اور جدید سہولیات موجود ہوں اور جہاں لوڈشیڈنگ ،مہنگائی‘ ، غربت، بے گھری،بیروزگاری اور اس جیسے با قی تمام عذابوں کا خاتمہ کر دیا جائے ،جہاں ہر انسان اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے اور اپنی ضرورت کے مطابق حاصل کرے۔ طبقات سے پاک ایسے معاشرے کی تعمیرکے بعد ہی خواتین کی حقیقی آزادی اور نجات ممکن ہو سکتی ہے۔انہی بنیادوں پر سماج کو تعمیر کر نے کے بعد ہی خواتین کو درپیش طبقاتی،ثقافتی ،نفسیاتی اور دیگر تمام مسائل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ خواتین کی آزادی ،ترقی اور نجات صرف خواتین کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعی مسئلہ ہے ، اس کے حل کی خاطر پورے معاشرے کی نفسیات اور حالات کو بدلنا ہوگا اور اس میں ہر با شعور مرد و زن کو بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔اس نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ سماج کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔سماج میں موجود اکثریتی محنت کش طبقے کی خواتین اور مرد کی نمائندہ پنچائیتوں(سوویتوں)پر مشتمل حکومت اور منصوبہ بند معیشت جس کی بنیاد،مقصداور منزل ہی آبادی کی اکثریت کے مفاد ،بہتری اور ترقی کے لیے کام کرنا ہو،ایسے سماج کی تعمیر و تشکیل کے بعد ہی نا صرف خواتین بلکہ ساری انسانیت حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکے گی!