|تحریر: Rivoluzione ایڈیٹوریل بورڈ|
|ترجمہ: احمر علی|
9جولائی، لندن اکانومسٹ کا سرورق ’’دی اٹالین جاب‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں اٹلی کو اس ڈھلوان سے گرتی ہوئی بس بنا کر دکھایا گیا تھا جس سے برطانیہ، لندن کی ایک ٹیکسی کی شکل میں، پہلے ہی گر رہا ہے۔
(یہ آرٹیکل سب سے پہلے اطالوی مارکسی اخبار Rivoluzione میں شائع ہوا)
عالمی سرمایہ داری کے نمائیندوں کی مایوسی دو وجوہات کی بنا پر تھی: اطالوی بینکوں کا بحران اور ان کا یہ خوف کہ آئینی اصلاحات کے لیے کروائے جانے والے ریفرنڈم(جس کا مقصدموجودہ حکومت کی اقتدار پر گرفت کو مضبوط کرنا ہے) کا نتیجہ Brexit جیسا ہوسکتا ہے۔
یہ دونوں خدشات حقیقت پر مبنی ہیں۔ اطالوی بحران تیار ہے اور کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
اطالوی بینکاری کا بحران صرف سٹے بازی اور رئیل اسٹیٹ کے بلبلے سے نہیں پیدا ہوا جیسا دوسرے ممالک میں ہوا ہے۔ 200 سے 300 بلین کے ان قرضوں (برے، غیر معیاری، بقایاجات) کا بڑا حصہ، چھوٹے اور درمیانے حجم کے کاروباری اداروں کے بحران کے ساتھ ساتھ گھریلو آمدن کی گراوٹ سے وابستہ ہے۔ اس لئے یہ مضبوطی سے حقیقی معیشت کے حالات سے جڑا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے حل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
بینکوں کو بچانے اور سہارا دینے کے مختلف منصوبوں کا مقصد محض مسئلے کو روکے رکھنا یا ملتوی کرنا ہے لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ مونٹی ڈی پاسکی بینک (MPS۔جسے حال ہی میں بینکاری کے بحران کا مرکز ہونے کی وجہ سے توجہ حاصل ہوئی) جس کی مالیت آج 700 ملین یورو ہے اور اسے 5بلین کی نئی سرمایہ کاری درکار ہے یعنی وہ پیسہ جو موجود ہی نہیں اور بالآخر پبلک فنڈ سے نکالا جائے گا (یا Cassa Depositi e Prestiti سے جو کہ وزارت خزانہ کے اختیار میں ہے یا پنشن فنڈ سے)۔ جے پی مورگن سے کچھ مدت کے لیے قرضہ لینے کی کوشش اس امید پر کی جا سکتی ہے کہ کم از کم بینک کے کچھ قرض دہندگان اپنے غیر یقینی قرضوں کو بینک کے اپنے حصص میں تبدیل کرنے پر راضی ہوں۔
مسئلہ یہ ہے کہ یورپی یونین کے اصولوں کے مطابق اطالوی وزیر اعظم رینزی(Renzi) عوام کا پیسہ مونٹی ڈی پاسکی کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ مرکل اور مرکزی یورپی بینک کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا ہے، اس یقین سے کہ ان کٹھن حالات میں یورپ میں کوئی بھی اس بات پر زیادہ توجہ دینا نہیں چاہے گا۔ لیکن بحران کو ٹالنے کی اس حکمت عملی کے صرف تین ممکنہ انجام ہیں: دیوالیہ پن، عوام کے پیسے سے امداد یا چھوٹ پر بیرونی سرمایہ کاری۔ اس بحران کا اصل نشانہ بینکنگ سیکٹر کے محنت کش ہیں جن کی تعداد آدھی کرنے کا رینزی کا ارادہ ہے۔
لیکن یہ صرف مونٹی ڈی پاسکی تک محدود نہیں: اٹلی کا سب سے بڑا بینک یونی کریڈٹ، بہت مشکل سے فرینکفرٹ اسٹریس ٹیسٹ میں کامیاب ہوا اور جس کے بعد اگست میں سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی، وہ بھی امدادی انجکشن کا منتظر ہے۔
حقیقی معیشت مسلسل بحران میں پھنسی ہوئی ہے۔ جابز ایکٹ (رینزی کی جانب سے متعارف کروائے جانے والی نئے لیبر قوانین) جو محنت کشوں کے حقوق پر کھلا حملہ ہے، مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا۔ بجائے روزگار کی شرح بڑھانے کی بجائے، اس نے آبادی کے اس حصے میں اضافہ ظاہر کیا جو محنت کی منڈی سے باہر ہوچکی تھی۔ اطالوی ادارہِ شماریات نے 2016ء کی دوسری سہ ماہی میں شرح نمو صفر رہی ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی بڑے بڑے سرمایہ دار سرنوبیو (Cernobbio) میں ایک کنونشن میں اکٹھے ہوئے جس دوران وزراء کا خوب خیر مقدم کیا گیا، جنہوں نے کاروبار کے لئے ٹیکس میں چھوٹ کے ساتھ ساتھ نیشنل بارگینیگ کنٹریکٹ پر نئے ممکنہ حملوں کا وعدہ کیا۔ سرمایہ داروں کی تنظیم کنفندوستریا(Confindustria) نے اپنے صدر Boccia کے ذریعے ان وزراء کی خوب پذیرائی کی اور حوصلہ افزائی کی کہ: ’’ہم جانتے ہیں کہ ہیر پھیر کی گنجائش کم ہے لیکن ہر معمولی سا فائدہ بھی معنی رکھتا ہے۔‘‘
ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ 2016ء کا ممکنہ خسارہ توقع سے زیادہ ہو، جو کہ حکومت کو ایک دفعہ پھر پینشن کے نظام میں تبدیلی کی طرف دھکیلے گا۔ اس کے علاوہ سٹیبلٹی بجٹ لاء کا ذکر بھی ہو رہا ہے جس کے تحت 2017ء میں 25 بلین یورو کی مالیت کی کٹوتیاں کی جائیں گی اور یہ واضح ہے کہ یہ رقم کون بھرے گا۔
جمود کا شکار معیشت میں جو چیز بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے وہ رینزی اور اس کے وزراء کے کرتب ہیں۔ جس ریفرنڈم نے وزیراعظم کی فتح کی توثیق کرنی تھی کو مضبوط کرنا تھا، اس صورتحال میں جادوئی طریقے سے منظر عام سے غائب ہے۔ یہ مشہور جملہ ’’اگر میں ہارا تو مستعفی ہو جاؤں گا‘‘ محض ایک بڑھک بن کر رہ گیاہے۔ اتنی گھبراہٹ ہے کہ ریفرنڈم کی تاریخ کا سرکاری اعلان روکا جا رہا ہے۔ ( بالآخرریفرنڈم کی تاریخ 4 دسمبر اعلان کر دی گئی ہے)
وہ خوفزدہ ہیں، اور ہونا بھی چاہیے! اب تک یہ ایک اندھے کے لیے بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ پورے یورپ میں تمام حکومتیں ۔ جس بھی سیاسی نظریے کی ہوں، عوام میں بنیادیں کھو چکی ہیں۔ جیسے ہی عوام کو کسی بھی اہم ایسے معاملے پر رجوع کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہی عوام کی جانب سے اقتدار میں بیٹھوں کے خلاف عدم اعتمادی اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
حتیٰ کہ انجیلا مرکل نے بھی حالیہ الیکشن کے دوران نے اپنے آبائی علاقے میکلینبرگ سے اپنی شکست کے بعد سبق سیکھا۔ اور یہ آخری سبق نہیں ہو گا۔
سیاسی بحران پکنے کے بعد گلنا سڑنا شروع ہو گیا ہے۔ مرکل، کیمرون، اولاندے، وغیرہ کی طرح رینزی کو بھی جلد ہی ایک سادہ حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ اس کی حکومت کو حقیقی عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس کے اقدامات صرف مراعات یافتہ اقلیت میں مقبول ہیں ایسے ملک میں جہاں حالیہ تحقیقات کے مطابق بحران کے بعد سے 97 فیصد آبادی کی اجرت گراوٹ کا شکار ہے یا رکی ہوئی ہے۔
یہ ریفرنڈم، سالوں سے جمع اس تمام بے چینی جس کو اظہار کا موقع نہیں مل سکا، کو اصلاحات کے انکار کے گرد متحد کرنے کا ایک موقع ہو سکتا ہے۔ لیکن ووٹ سے بڑھ کر اور خود ووٹ سے زیادہ اہم بنیادی مسئلہ متبادل کی ضرورت ہے۔ صرف ریفرنڈم میں نا کا استعمال کرتے ہوئے یا جیسا ایک سے زیادہ بار ہو چکا ہے مخالف قوتوں جیسا کہ فائیو سٹار مومنٹ کے لیے ووٹ کا انتخاب کرتے ہوئے نہی اس جدوجہد میں حکومت کو دھچکا دینے کے لیے محنت کشوں اور نوجوانوں کو اٹل ہونا ہو گا۔
اس جدوجہد میں محنت کشوں اور نوجوانوں کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نا صرف ریفرنڈم کے خلاف ووٹ دے کر جیسا کہ پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مخالف قوتوں جیسے فائیو سٹارز موومنٹ کی حمایت بھی کرنی ہوگی تاکہ حکومت کو شدید دھچکا دیا جا سکے۔
اس حکومت کو گرانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ Noکیمپین کے ساتھ ساتھ ایک پلیٹ فارم بنایا جائے اور محنت کشوں، بے روزگاروں اور نوجوانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے بھرپور طریقے سے متحرک ہوا جائے اور سب ضروری ہے کہ سی جی آئی ایل کے رہنما (مرکزی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن، جو بالآخر نا ریفرنڈم کی مخالفت میں کھڑی ہوئی ہے لیکن مہم میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے) جاگیں اور اس لڑائی میں واضح موقف اختیار کریں اور ملازمت، تنخواہوں، تعلیم اور صحت کی جدوجہد کے لیے حقیقی پلیٹ فارم مہیا کریں تاکہ اس حکومت کو نکال باہر کیا جا سکے۔
5ستمبر 2016ء