|تحریر: سلمیٰ نذر|
آج سرمایہ دارانہ نظام جتنی تیزی سے زوال پذیر ہوتا نظر آ رہا ہے اس سے پہلے کبھی بھی اس میں اتنی شدت دیکھنے کو نہیں ملی۔ عالمی سطح پر موجود اس وقت شدید ترین مالیاتی و سیاسی بحران کے سامنے 2008ء کا بحران انتہائی معمولی دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کے سامنے سرمایہ داروں کے دانشوروں، ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ انسان کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے محنت کش طبقے کی زندگیوں پر بد ترین اثرات مرتب کیے ہیں اور قیمتوں میں یہ اضافہ مستقبل میں بھی محنت کش طبقے کی زندگی کو مزید اجیرن بنا ئے گا۔ حکمران طبقہ اس بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پہ ڈال رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط دن بہ دن کٹھن ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ٹیکسوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اشیائے خورد و نوش تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے محنت کش طبقے کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں، پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے، ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ بڑھتا جا رہا ہے،۔ ایسے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ محنت کش طبقہ ہے اور محنت کش طبقے کی خواتین ان میں سب سے زیادہ متاثر ہوتی نظر آتی ہیں۔ عام طور پر یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے خواتین کا کوئی تعلق نہیں یا مہنگائی کے بڑھنے سے خواتین کی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن مشہور روسی انقلابی اور مزدور رہنما لینن نے کہا تھا ”ہو سکتا ہے کہ آپ کو سیاست میں دلچسپی نہ ہو لیکن سیاست کو آپ میں بڑی گہری دلچسپی ہے“۔ لینن کے یہ الفاظ بالکل درست ثابت ہوتے ہیں جب ہم محنت کش خواتین کو احتجاجوں، مظاہروں اور ہڑتالوں میں مہنگائی، بے روزگاری، لا علاجی، گھریلو تشدد، زیادتی کے معاملات، تنخواہوں کے معاملات اور اپنے دیگر مسائل کے خلاف کھڑا دیکھتے ہیں۔ ایک اور مشہور انقلابی اور مزدور رہنما لیون ٹراٹسکی کے بقول ”ریاست جیسے جیسے کھوکھلی ہوتی جاتی ہے اس کی وحشت بڑھتی چلی جاتی ہے۔“
معاشرے میں رونماہونے والے خواتین کے خلاف جنسی جبر، غیرت کے نام پر قتل اور ریپ کے خوفناک اور دلخراش واقعات گلتے سڑتے سرمایہ دارانہ نظام کی بڑھتی وحشت کو ننگا کر رہے ہیں۔ محنت کش طبقہ مہنگائی، بے روزگاری اور بھوک کے ہاتھوں اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیاں ختم کرنے پہ مجبور ہے، انہیں اپنی زندگی، جسے حکمران طبقے کی منافعوں اور اپنی تجوریاں بڑھنے کی ہوس نے جہنم بنا دیا ہے، کو جینا مشکل اور موت کے گھاٹ اترنا آسان لگتا ہے۔ ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ مظفر گڑھ میں ایک شوہر نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو قتل کر کے خود کشی کر لی۔ اب ایسی خبروں کا سامنے آنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ اسی طرح بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج بھی خواتین جہیز میں کمی یا جہیز کے نہ ہونے کی وجہ سے گھریلو تشدد کا شکار بن رہی ہیں۔ چند دن پہلے انڈیا کی ریاست راجستھان میں 3 بہنوں نے، جو ایک ہی گھر میں بیاہی گئی تھیں، اپنے بچوں سمیت خود کشی کر لی، کیونکہ ان تینوں کے شوہر جہیز نہ لانے کی وجہ سے روز ان پر تشدد کرتے تھے۔ اس ملک میں بھی ایسے وقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں 80 فیصد سے زائد خواتین پہلے ہی خوراک کی کمی کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اور زچگی کے دوران ہر سال ایک لاکھ سے زائد خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں۔ مہنگائی کی موجودہ لہر کے باعث خواتین کی خوراک کی کمی اور اسی باعث خون کی کمی اور دیگر بیماریوں میں کہیں زیادہ اضافہ ہوگا کیونکہ اس سماج میں عورتوں کی خوراک اور دیگر ضروریات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور بیٹوں اور مردوں کی خوراک گھر میں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے کما کر لانا ہوتا ہے۔ گویا کہ محنت کش خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی محنت کی منڈی میں اپنی قوت محنت فروخت کرتی ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں کمتر ہی سمجھا جاتا ہے، جبکہ ان پر گھریلو کاموں کا اضافی بوجھ غیر ضروری سمجھا جاتا ہے یا توجہ طلب نہیں ہوتا۔ اسی طرح زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں اضافہ ہوگا کیونکہ ادویات اور علاج تک رسائی پہلے ہی آبادی کی اکثریت کے لیے ممکن نہیں تھی اور اب اس ہوشربا مہنگائی اور سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے گھناؤنے عمل کے بعد یہ سہولیات ناپید ہو رہی ہیں۔ ایسے میں تمام تر سماجی بربادی کا بوجھ سب سے زیادہ خواتین پر آتا ہے اور ان کے علاج اور تعلیم کو گھر کے اخراجات میں سب سے آخری درجے پر رکھا جاتا ہے اور اس کی طرف رویہ انتہائی ظالمانہ ہوتا ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی سے بھی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوں گی اور جہاں خواتین میں خواندگی کی شرح پہلے ہی تیس فیصد سے کم ہے، وہ مزید کم ہو گی جبکہ لاکھوں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے بھی محروم ہو جائیں گی۔ محنت کش خواتین کو بھی مرد محنت کشوں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ کام وہ اتنا ہی کرتی ہیں۔ خواتین کی مزدور یونین میں شمولیت اور منظم ہونے سے دور رکھنا سرمایہ دار کے لیے نسبتاً آسان ہوتا ہے اور وہ ان پر اخلاقی حملے کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا جنسی استحصال بھی کرتا ہے۔ خواتین کی جنسی ہراسانی اس ملک کی صنعتوں، دفاتر اور کام کی دیگرجگہوں پر ایک روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اس صورتحال میں خواتین دوہرے جبر کا شکار ہوتی ہیں اور مہنگائی اور بیروزگاری کے حملوں سے بھی شدید متاثر ہورہی ہوتی ہیں جبکہ صنفی بنیاد پر جبر کا سامنا بھی کر رہی ہوتی ہیں۔
لیکن دوسری جانب ہمیں اس ملک کے حکمران طبقے کی خواتین نظر آتی ہیں جن کے میک اپ کا خرچہ ہی ایک مزدور کے گھر کے مہینے بھر کے راشن سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی خوراک، لباس، تعلیم اور علاج کے لیے دنیا کی جدید ترین سہولیات میسر ہیں۔ مریم نواز ہو یا عمران خان کی بیوی اور دیگر رشتے دار خواتین، ان کے لیے مہنگائی اور بیروزگاری کئی گنا مزید بھی بڑھ جائے تو ان کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن محنت کش طبقے کی خواتین کی ہر سانس زندگی اور موت کی لڑائی میں گزرتی ہے۔ لینن نے خواتین کے متعلق اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”ایک عورت کی گھریلو زندگی کا مطلب اپنے آپ کو روزانہ ہزاروں معمولی مسائل پر قربان کرنا ہے۔“ محنت کش طبقے کی خواتین وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کی خواہشات کا گلا گھونٹتا دیکھتی ہیں تو ان کا دل چھلنی ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار تو وہ اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا نہ کر سکنے کے دکھ کو سہہ نہیں پاتیں اور اپنے بچوں کی خواہشات کے ساتھ ساتھ ان کا بھی گلا گھونٹ دینے پہ مجبور ہو جاتی ہیں اورخود کشی کر لیتی ہیں۔ لیکن یہ واقعات خود کشی کے واقعات نہیں ہیں بلکہ یہ محنت کش طبقے کا قتل ہے جس کی مرتکب یہ وحشی ریاست اور یہ آدم خور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ حکمران طبقہ محنت کش طبقے کا قاتل ہے جو اپنی ہوس کے نشے میں انسانوں کا قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
آج سرمایہ دارانہ نظام اور حکمران طبقہ محنت کش طبقے کے مسائل حل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ہی یہاں کا حکمران طبقہ ان مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں ان میں سے کسی کے پاس بھی مہنگائی، بے روزگاری، ٹیکسوں میں اضافے، مہنگے علاج، تعلیمی مسائل، کام کی جگہوں پر خواتین کے مسائل، زیادتیوں کے مسئلے اور تنخواہوں کے مسائل سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ موجود نہیں۔ سرمایہ داری کے تیزی سے بڑھتے ہوئے سماجی، سیاسی اور معاشی بحران سے نکلنے یا اس سے بچنے کا حکمران طبقے کے پاس کوئی منصوبہ یا لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بحران صرف پاکستان کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے اور اس وقت ”سپر پاور“ امریکہ بھی شدید بحران کی زد میں ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے بھی آج تک اپنے امریکی آقاؤں کی دلالی ہی کی ہے اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر بھی جلد یا بدیر جی حضوری کرتے ہوئے اپنی لوٹ مار کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ہی ڈالا ہے۔ آج دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین اپنے مسائل کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں اور اپنے تمام سماجی و معاشی جبر کے خلاف شاندار تحریکوں کو جنم دیتے ہوئے اس غلیظ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کا حصہ بن رہی ہیں اور سرمایہ داری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی جانب قدم بڑھا رہی ہیں۔ بلوچستان کے علاقے گوادر کی حالیہ کامیاب تحریک میں بھی خواتین نے اپنا شاندار کردار ادا کیا۔ آج محنت کش طبقے کی خواتین کے تمام مسائل کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کی لڑائی میں خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنی سماجی اور معاشی آزادی کی خاطر ان تمام بوسیدہ روایات و اقدار کو چیلنج کرتے ہوئے آگے بڑھیں، جو محنت کش طبقے کے سماجی اور معاشی آزادی کے راستے میں حائل ہیں۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ”ماں ہی وہ فیصلہ کن نقطہ ہے جہاں معیشت اور ثقافت کے تمام تانے بانے ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں۔ ممتا کی آزادی کا مسئلہ سب سے پہلے رہائش، باورچی خانے، کپڑے دھونے، صفائی اور دوسری گھریلو مشقت سے نجات کا مسئلہ ہے۔“ ایک اور جگہ ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ ”جب تک عورت سلائی کڑھائی، کھانے پکانے، خاندان کی دیکھ بھال اور دوسرے امورِ خانہ داری کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تک سیاسی زندگی یا سماجی سرگرمیوں میں اس کے حصہ لینے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔“
محنت کش طبقے کی خواتین کی مکمل آزادی اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ عملی طور پر سیاست کے میدان میں قدم رکھیں گی اور اپنے تمام حقوق کی لڑائی میں شامل ہوں گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی جڑوں سے اکھاڑتے ہوئے ایک سوشلسٹ نظام کی تعمیر کریں گی۔ جس میں وہ گھریلو غلام داری سے نجات پا کر اپنے تمام سماجی اور معاشی حقوق حاصل کر سکیں گی اور آزادانہ طور پر سماج کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکنے کے قابل ہوں گی۔