|تحریر: آدم پال|
محنت کش طبقے پر تاریخ کی بدترین مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بربادی مسلط کرنے کے بعد حکمران طبقات عوامی تحریک کے ابھرنے سے خوفزدہ ہیں اور اب عوام کو سیاسی میدان میں نکلنے سے روکنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس سے پہلے نواز شریف اور زرداری کے دورِ اقتدار میں تحریک انصاف کی مکمل طور پر ریاستی پشت پناہی کی گئی اور اسے میڈیا سمیت تمام حربوں کے ذریعے سیاست پر مسلط کر کے عوامی حمایت دلوانے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران جعلی اپوزیشن کا ڈرامہ پوری قوت سے رچایا گیا اور عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ان کے تمام مسائل کی بنیاد صرف چند افراد یا خاندان ہیں اور ان کی جگہ اگر ایک ایماندار شخص اقتدار میں آ جائے جس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور ان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس دوران کرپشن کو تمام تر مسائل کی بنیاد بنا کر پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ کرپشن کا خاتمہ ہوتے ہی سب کچھ اچھا ہو جائے گا۔
اس تمام عمل کو کبھی بھی محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کی حمایت نہیں مل سکی تھی اور درمیانے طبقے کی ایک انتہائی چھوٹی سی پرت نے اس عوام دشمن ناٹک کی حمایت کی۔ لیکن اس قلیل پرت کو جب ریاستی اداروں کی طرف سے منظم کیا گیا اور سوشل میڈیا سمیت پورے سماج میں ایک سنٹرلائیزڈ منظم انداز میں اس مزدور دشمن قوت کو اپنی غلاظت پھیلانے کے لیے چھوڑ دیا گیا تو یہ زہر پورے سماج پر مسلط ہوتا چلا گیا اور اس کے ذریعے انتخابی دھاندلی اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے موجودہ حکومت کو نہ صرف اقتدار دلایا گیا بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس کو ہر قسم کی عوامی مزاحمت سے محفوظ رکھا گیا۔ لیکن تحریک انصاف اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں کے تمام تر زہریلے پراپیگنڈے کے باوجود گزشتہ تین سالوں میں تبدیلی کے اس تماشے کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے اور عوام ان لوگوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں جو کسی بھی طرح موجودہ حکومت کے حمایتی نظر آتے ہیں جبکہ کئی جگہوں پر تو ان کی دھلائی بھی ہو چکی ہے۔ اس دوران حکمران طبقے نے لوٹ مار کی بھی ایک نئی تاریخ رقم کی اور اپوزیشن پارٹی کے لیڈروں سمیت تمام ریاستی اداروں پر براجمان حکام نے دونوں ہاتھوں سے ملکی خزانے کو لوٹا اور عوام کی نسلوں تک کو گروی رکھوا دیا گیا۔
اسی لیے اب حکمران طبقات سیاسی میدان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے متبادل قوتیں میدان میں اتار رہے ہیں۔ اس دوران تحریک لبیک کا ناٹک متعدد دفعہ دہرایا گیا ہے اور اسے سماج پر مسلط کرنے کی بہت سی کوششیں مسلسل کی جا رہی ہیں۔ حالیہ پر تشدد واقعات اور قتل و غارت گری کے باوجوداس پر سے کالعدم کا لیبل ہٹانا اسی سلسلے کی کڑی ہے اور آئندہ انتخابات کے لیے اس کو سیاسی قوت کے طور پر اتارنے کی بھرپور تیاری کی جا رہی ہے۔ اس تمام تر ناٹک میں مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر ایسے ہی سلگتے ہوئے ایشوز کو مکمل طور پر پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور تمام تر اشتعال اور خونریزی ایسے ایشوز کی جانب موڑ دی جاتی ہے جن سے حکمران طبقے کے مفادات کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچتی اور نہ ہی سرمایہ داروں کے منافعوں پر کوئی زد پڑتی ہے۔ اس عمل میں پولیس، رینجرز اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف عوامی غم و غصے اور نفرت کو بھی سیفٹی والو کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بحیثیت مجموعی ریاست کو محنت کش طبقے کی تحریک سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن اس عمل میں اس قوت کی ریاستی پشت پناہی ہر خاص و عام پر عیاں ہے اور خود ریاستی ادارے بھی اس کو پوشیدہ رکھنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کر رہے۔ حکمران طبقات کی سیاست میں ریاستی پشت پناہی اس وقت کامیابی کی کنجی سمجھی جاتی ہے اور غنڈہ گرد اور جرائم پیشہ عناصرکے سرپرست اور پولیس و دیگر ریاستی اداروں کے ٹاؤٹ ہی آجکل کی مجرمانہ سیاست میں کامیاب افراد تصور کیے جاتے ہیں۔گوکہ حقیقی عوامی اور مزاحمتی سیاست میں اس کے الٹ ہوتا ہے اور محنت کش طبقے کے ساتھ ہر مشکل میں ساتھ کھڑے رہنے والے اور حکمران طبقے کو اپنا ازلی دشمن تصور کرنے والے ہی حقیقی عوامی تحریکوں کی قیادت کرتے ہیں اور ان کو راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔لیکن جب تک محنت کش طبقہ خود سیاست کے میدان میں فیصلہ کن انداز میں قدم نہیں رکھتا اس وقت تک حکمران طبقے کی مسلط کردہ غلیظ اور بد بودار سیاست ہی افق پر چھائی رہتی ہے۔
اس دوران اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے گرین سگنل دیا گیا ہے اور وہ بھی مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور لانگ مارچ کی کال دے رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی فوج اور آئی ایس آئی کے اداروں کے سربراہان کی تقرریوں اور چپقلشوں کو بھی زیر بحث لایا جا رہا ہے اور اس کا تعلق اس گرین سگنل کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوامی غم و غصے اور نفرت کی حدت حکمران طبقے کی آپسی دراڑوں کو وسیع کرتی جا رہی ہے اور ان کے اختلافات بڑھ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ عوام کی ایک مشتعل عوامی تحریک کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں اور اپنے آزمودہ پیادوں کو سیاست کے میدان میں اتار رہے ہیں تاکہ کوئی حقیقی عوامی تحریک سیاست کے میدان میں قدم نہ رکھ سکے اور سیاسی اقتدار عوام دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں ہی رہے۔
اسی لیے اگر اپوزیشن پارٹیوں کی گفتگو سنیں تو وہ مہنگائی اور بیروزگاری کا ذکر کرنے کے بعد آئندہ انتخابات کا بھی ذکر کر دیتے ہیں اور اس کے لیے الیکٹرانک ووٹوں یا نیب کے ادارے کے سیاسی استعمال کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی پالیسیوں پر بھی ان کا اختلاف یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ درست انداز میں نہیں کیا گیا اور امریکہ کی ناراضگی مول لے کر برا کیا گیا ہے۔ اس سب کا حل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر آئی ایم ایف سے بہتر معاہدہ کریں گے اور دوسری جانب انتخابات کو شفاف انداز میں کروائیں گے تاکہ عوام کے حقیقی نمائندے سامنے آ سکیں۔ اسی طرح نیب کے بد عنوان اور جنسی ہراسانی کے الزامات کی زد میں موجود ادارے کا رونا بھی اس لیے روتے ہیں تاکہ ان کے سیاسی حریفوں کے ساتھ چپقلش ختم ہو سکے اور وہ پوری طرح کھل کر اپنی لوٹ مار پر توجہ دے سکیں۔
درحقیقت، اپوزیشن کی تمام سیاسی پارٹیوں سے لے کر تحریک انصاف کی حلیف جماعتوں تک سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور ان کے طبقاتی مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود کو نوازشریف کا سب سے بڑا دشمن قرار دینے والا عمران خان خود ہی اس کو جیل سے نکال کر جہاز میں بٹھا کر بیرون ملک بھیجتا ہے جبکہ اس کی بیٹی مریم نواز اپنے محلوں میں رہتے ہوئے اپنی عوام دشمن سیاست کو جاری رکھتی ہے۔پیپلز پارٹی کا کردار بھی زیادہ مختلف نہیں اور وہ سندھ میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے بر سر اقتدار ہے اور وہاں پر غریب عوام کو غربت اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل چکی ہے۔اس پارٹی کے تمام لیڈر تحریک انصاف اور ن لیگ کی ہی طرح فرعون سے بھی زیادہ ظالم ہیں جس کا اظہار چند ایک واقعات سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ملیر، کراچی میں نا ظم سجاول جوکھیوکے قتل سے لگایا جا سکتا ہے جسے مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے ممبر اسمبلی جام اویس جوکھیونے اپنے فارم ہاؤس پر بہیمانہ تشدد کر کے قتل کروایا کیونکہ اس کے کچھ عرب مہمان اس ملازم سے ناراض ہو گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی دیگر قیادت کا کردار بھی اس سے کچھ مختلف نہیں اور یہ اس پورے حکمران طبقے کی طرح خون آشام دیو بن چکے ہیں جو غریبوں کا خون پیتے ہیں اور ان کا گوشت نوچ کر زندہ رہتے ہیں۔
ایسے میں اب عوام کے وسیع تر حصوں پر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ موجودہ سماجی، سیاسی اور معاشی ڈھانچوں میں کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف ممکن نہیں۔انتخابات کے ذریعے پہلے بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہیں ہو گا۔ جب الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں نہیں تھیں تب بھی عوام کے حقیقی نمائندے اقتدار تک نہیں پہنچ سکتے تھے اور صرف بد عنوانی، جرائم اور لوٹ مار کی کمائی کرنے والے ارب پتی ہی الیکشن لڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ایسے افراد کو ہر پارٹی اپنا ٹکٹ دینے کے لیے بیتابی سے انتظار کرتی ہے خواہ انصاف کا ڈھنڈورا پیٹنے والی عوام دشمن تحریک انصاف ہو یا مذہب کی ٹھیکیداری کا دعویٰ کرنے والی تحریک لبیک ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں پر موجود ریاستی مشینری جو انتخابی عمل پر مامور ہوتی ہے اس کی بنیادیں ہی عوام دشمنی پر رکھی گئی ہیں اور اس کا مقصد سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اس لیے یہاں موجود کسی بھی ادارے سے عوام کی خیر خواہی کی توقع رکھنا بیوقوفی ہے۔ عدلیہ کی کرپشن کے قصے اب زبان زد عام ہیں اور سپریم کورٹ کے ججوں کے لیے مہنگے پلاٹوں کو جعلی قرعہ اندازی کے ذریعے مفت فراہمی ہو یا ججوں کی کرپشن، بد عنوانی اورمدعیوں کی جنسی ہراسانی کے قصے ہوں، سب کچھ محنت کشوں کے سامنے عیاں ہو رہا ہے۔ اسی طرح ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور دیگر ایسی سکیموں کے تیزی سے پھیلاؤ نے جہاں بہت سے چھوٹے کسانوں کو اپنی زمینوں سے محروم کیا ہے اور غریب لوگ بے زمین ہوئے وہاں امیر لوگوں کے لیے ان عالیشان محلوں کی تیز تر تعمیر نے بھی عوام کو ان کی پستی اور غربت کا احساس دلاتے ہوئے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔
اس دوران جہاں علاج اور تعلیم کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں لگائی گئیں اور نجکاری کا عمل تیز کرتے ہوئے لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا گیا اور پنشن کا نظام ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے وہاں دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ نظر آیا جس کا بڑا حصہ ہائی کمان کی پر تعیش زندگیوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب سرکاری ملازمین کو اپنی تنخواہوں میں معمولی سے بھی اضافے کے لیے گولیوں اور آنسو گیس کی بوچھاڑ کا کئی دفعہ سامنا کرنا پڑا۔
اس صورتحال میں کسی بھی ادارے سے بہتری اور بھلائی کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔ انتخابات مسائل کا حل نہیں۔ عدالتوں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں جبکہ معاشی پالیسیوں میں اگر تھوڑی بہت تبدیلی ہو بھی جائے تو اس کا فائدہ سرمایہ داروں کو ہی پہنچے گا عوام تک ریلیف کا ایک قطرہ بھی نہیں پہنچ پائے گا۔ ایسے میں بہت سے لوگ نواز شریف کی پچھلی حکومت سے موجودہ حکومت کا موازنہ کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں بھی محنت کشوں کی زندگی جہنم سے بد تر تھی جبکہ نواز شریف اور اس کے خاندان کی دولت میں دن رات اضافہ ہورہا تھا۔ صرف ان لیڈروں کے محلوں، ان کے لباس، گاڑیوں کے قافلے اور دیگر ظاہری نمود و نمائش کو دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان کا تعلق کس طبقے سے ہے۔ بلاول زرداری، مریم نواز شریف، فضل الرحمان اور ایمل ولی خان کسی بھی طرح محنت کشوں کے نمائندے نہیں بلکہ ان کا رہن سہن اور طرز زندگی ہی واضح کر دیتا ہے کہ یہ عوام کا خون نچوڑ کر دولت اکٹھے کرنے والی بلائیں ہیں اور اب اقتدار کے لیے دوبارہ پر تول رہے ہیں۔ان کے پاس مہنگائی اور بیروزگاری کا کوئی حل موجود نہیں اور یہ بھی امریکی سامراج کی گماشتگی کو ہی اپنی زندگی کا اولین مقصد سمجھتے ہیں۔
اس وقت یہاں پر ایک انقلابی متبادل پیش کرنے کی ضروت ہے جس میں محنت کش طبقہ اپنے دشمنوں کے طرز حکمرانی کے منظم اداروں کو ختم کرتے ہوئے ایسے اداروں کو قائم کرے جو براہ راست اس کے کنٹرول میں ہوں اور وہ خود ان کے ذریعے تمام تر سیاسی، انتظامی اور دیگر امور سرانجام دے سکے۔ اس حوالے سے روس کے سوشلسٹ انقلاب سے بہت سے اسباق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں بھی ایسی بہت سے مثالیں موجود ہیں جب مزدوروں نے اپنی کمیٹیاں قائم کرتے ہوئے تمام امور اپنے ہاتھوں میں لینے کے عمل کا آغاز کیا تھا اور ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کر دیا تھا۔
1968-69ء میں جب جنرل ایوب خان کی خونی آمریت کے دوران چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو جو عوامی تحریک چلی تھی اس نے صرف مہنگائی میں کمی یا حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ ملکیت کے بنیادی رشتوں کو تبدیل کرنے کی آواز بلند کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ تحریک جمہوری مطالبات سے آگے بڑھ کر سوشلسٹ کردارکی حامل ہو گئی تھی۔اس تحریک کے پیچھے کئی سالوں کا غم و غصہ تھا اور ایوب دور کی ایک دہائی کی بد ترین مزدور دشمن پالیسیاں تھی جن سے بائیس خاندانوں کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا تھا لیکن عوام کی حالت زار بد تر ہوتی چلی گئی تھی۔ اس انقلابی تحریک کے دوران مزدوروں نے فیکٹریوں پر قبضے کرنے شروع کر دیے تھے اور فیصلہ کن انداز میں واضح کیا تھا کہ فیکٹریوں میں پیدا ہونے والی تمام پیداوار ان کی مرہون منت ہے اس لیے اس کی ملکیت بھی ایک جمہوری انداز میں ان کے پاس ہونی چاہیے۔ اسی طرح مکانوں اور ٹرینوں کے کرائے دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ملکیت کے پرانے نظام کو وہ آئندہ تسلیم نہیں کریں گے۔ اس دوران فیکٹریوں میں بننے والی مزدوروں کی کمیٹیوں نے جمہوری انداز میں شہروں کا انتظامی کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا اور خود ایوب خان نے اپنی ڈائری میں اعتراف کیا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اور دیگرریاستی اہلکار بے بس ہیں اور ان کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ ایوب خان نے اپنی ذاتی ڈائری میں یہ بھی لکھاتھا کہ شہروں کا کنٹرول عوامی کمیٹیوں نے سنبھال لیا ہے اور ریاست ہوا میں معلق ہے۔ اسی باعث وہ مارچ 1969ء میں ایک عام ہڑتال کے باعث اقتدار چھوڑ کر استعفیٰ دینے پر مجبور ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ حکمران کی تبدیلی اپنی ہی لے پالک قوتوں سے کروائی جائے اور اس کی بنیادکسی نان ایشو کو بنایا جائے تاکہ سانپ بھی مر جائے ور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور چند افراد کی قربانی دے کر اس نظام کو بچا لیا جائے اور اب بھی ایسی ہی کوششیں کی جائیں گی۔
لیکن جنرل ایوب کے استعفے کی بنیاد حقیقی انقلابی تحریک تھی جس میں مشرقی و مغربی پاکستان کے کروڑوں محنت کش براہ راست شریک تھے۔ ایسے میں اس وقت لینن کی طرز پر کوئی قیادت موجود ہوتی اور روس کی بالشویک پارٹی جیسی کوئی انقلابی پارٹی موجود ہوتی تو تاریخ کا دھارا تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ روس میں بھی فیکٹری کمیٹیاں سوویتوں کی شکل میں پورے ملک میں خود رو انداز میں پھیل گئیں تھیں اور ان کے اجلاس شہر کی سطح سے لے کر ملکی سطح تک باقاعدگی سے منعقد ہو رہے تھے جسے میں تمام اہم ترین فیصلے کیے جاتے تھے۔سوویتوں کی ملکی سطح کی کانگریس میں پورے ملک سے مندوبین منتخب ہو کر آتے تھے جو اپنے علاقے کے محنت کشوں کے حقیقی نمائندے ہوتے تھے۔ ان کمیٹیوں یا سوویتوں کے اجلاسوں میں ملک کے مستقبل کے حوالے سے اہم بحثیں ہو رہی تھیں اور انتظامی امور کے ساتھ ساتھ سیاسی مستقبل کے بارے میں بھی فیصلے کیے جا رہے تھے۔ لینن نے اسی موقع پر نعرہ بلند کیا تھا کہ تمام اقتدار ان سوویتوں کو منتقل کیا جائے جس کے باعث اسے سوویتوں کے انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی تھی اور روس کے سوشلسٹ انقلاب کا آغاز ہوا تھا۔
دوسرے الفاظ میں حکمران طبقے کے سیاسی، انتظامی اور انتخابی اداروں کے متوازی محنت کشوں نے اپنے ادارے قائم کیے تھے جن میں وہ اپنی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے اور حکمران طبقے کی تمام تر سیاست اور ریاست کو مکمل طور پر مسترد کیا گیا تھا۔آج یہاں بھی ایسی ہی طرز پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور جو مشن 1968-69ء میں انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث ادھورا رہ گیا تھا اسے اب مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔حکمران طبقے کی تمام تر سیاست کو رد کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو خود اپنے طور پر منظم ہونے کی ضرورت ہے اور اپنے طبقاتی مفاد کے لیے سیاسی بحثوں کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے عرصے میں کوئی بھی ایک چنگاری عوامی لاوے کو پھاڑنے کا باعث بن سکتی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں محنت کش عوام ملک بھر کے تمام شہروں میں سڑکوں پر باہر نکل سکتے ہیں۔حکمران طبقات اس خطرے کو بھانپ چکے ہیں اور اس کے لیے اپنے ہتھیاروں کو تیز کر رہے ہیں اور تمام تر قوتوں کو مسلح کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی تحریک کو نہ صرف یہ کہ نان ایشوز کے ذریعے زائل کیا جائے بلکہ اس کو اپنے پالتو مسلح جتھوں کے ذریعے خون میں ڈبونے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ لیکن اس سب کا مقابلہ محنت کش طبقہ منظم ہو کر اور اپنے بلند سیاسی شعور سے دے سکتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا فقدان محنت کشوں کے ایک منظم اظہار کا ہے اور منظم ہوئے بغیر وہ حکمرانوں کے لیے خام مال کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں وہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس طبقاتی جڑت کو تقسیم کرنے کے لیے کبھی حب الوطنی کا چورن بیچا جاتا ہے اور کبھی قومی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو پوری قوت کے ساتھ محنت کشوں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے میڈیا اور دیگر تمام ذرائع کو بھی بھرپور انداز میں استعمال کیا جاتا ہے اور حکمرانوں کے مفادات کی نگہبانی کرنے والی سیاسی پارٹیاں اس کا سب سے زیادہ واویلا کرتی ہیں۔وہ تمام مسائل کا حل حکومت کی تبدیلی، انتخابات، نیب کے احتسابی عمل یا ریاستی اہلکاروں کی کرپشن کو قرار دیتی ہیں لیکن نظام کی حقیقی تبدیلی کا ذکر بھی نہیں کرتی۔ بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس نظام کو ازلی اور ابدی بنا کر پیش کیا جائے اور کہا جائے کہ اس سے باہر کوئی دنیا وجود ہی نہیں رکھتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد جمہوریت کو یہاں پوری طرح آئے ہوئے بمشکل نصف صدی ہی گزری ہے ا ور اس میں بھی مارشل لااورڈکٹیٹروں کے ذریعے اسی بوسیدہ نظام کو قائم رکھنے اور حکمران طبقے کے مفادات کو محفوظ بنانے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔
عالمی سطح پر سرمایہ داری کا بحران واضح کر رہا ہے کہ اب اس نظام میں رہتے ہوئے کوئی بہتری اور بحالی ممکن نہیں۔ خود پاکستان کے ادارۂ شماریات نے اور عالمی تحقیقاتی ادارے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے واضح کر دیا ہے کہ آنے والے چھ ماہ میں مہنگائی کا طوفان مزید شدت اختیار کرے گا اور اس میں کمی آنے کا کوئی امکان نہیں۔ ایسے میں حکمران تو یہی کہیں گے کہ عوام کے پاس اگر روٹی نہیں تو کیک کھا لیں۔ جیسا کہ انقلابِ فرانس کے وقت وہاں کی ملکہ نے بپھرے ہوئے عوام کو کہا تھا۔ لیکن کچھ عرصے بعد عوام نے ایک انقلاب کے دوران اس بادشاہ اور ملکہ کا سر نیزے پر رکھ کر پیرس شہر میں گھمایا تھا جس کی یاد آج بھی فرانس کے محنت کشوں کے دلوں میں محفوظ ہے۔ یہاں بھی اکثر وزیر اور حکام بالا ایسے ہی باتیں کرتے اکثر پائے جاتے ہیں کہ چینی کے کچھ دانے کم استعمال کریں، روٹی کم کھائیں، ڈالر کی قدر میں کمی سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو فائدہ ہوتا ہے اور ایسا ہی بہت کچھ۔ کچھ تو ابھی بھی یہی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم ان پر رحم کر رہا ہے اور قیمتوں میں کم اضافہ کر رہا ہے جس کے لیے عوام کو اس فرعون نماشخص کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ان سب افراد اور دیگر عوام دشمن قوتوں کا محنت کش طبقہ کیا حشر کرے گا یہ تو مستقبل میں ہی نظر آ ئے گا لیکن یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ نظام اب پہلے کی طرح نہیں چلایا جا سکتا اور یہاں کی سیاست میں بہت بڑے زلزلے آنے والے ہیں۔ایسے میں اگر یہاں کوئی انقلابی پارٹی موجود ہوئی توایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس ظالمانہ خونریز اور غریبوں کے قاتل نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔