|تحریر: آدم پال|
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام میں ایک گہری بنیادی تبدیلی وقوع پذیر ہوچکی ہے جس کا اظہار سطح پر مختلف واقعات سے ہو رہا ہے۔ یہ نظام اپنی تاریخ کے ایک بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور اس سے فیض یاب ہونے والے حکمران اسے اس گہرے بحران سے نکالنے میں مسلسل ناکام ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ محنت کش طبقے کے استحصال پر مبنی یہ نظام کئی صدیوں سے اس پر براجمان حکمران طبقے کی تعیش کا سامان کرتا چلا آیا ہے جبکہ دنیا بھر کے محکوم اور مظلوم افراد کے خون اور پسینے کو انتہائی سستے داموں فروخت کرتا آیا ہے۔ لیکن آج یہ نظام ایک گہرے نامیاتی بحران کا شکار ہے اور اس کے حکمرانوں کو بچاؤ کا فی الحال کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا۔
آج عالمی سطح پر ایک گہرے مالیاتی بحران کی پیش گوئی کی جارہی ہے اور بہت سے اہم اشاریے واضح کر چکے ہیں کہ ایک بہت بڑی سطح کی کساد بازاری (Recession) کی آمد آمد ہے۔ دنیا بھر کے ماہرینِ معیشت اس حوالے سے اپنے تجزیے پیش کر رہے ہیں کہ یہ مالیاتی بحران کتنے عرصے میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ 2020ء میں اس کا آغاز ہو گا جبکہ کچھ 2021ء تک ٹلنے کی خوشگوار امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن بعض یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس بحران کا درحقیقت آغاز ہو چکا ہے لیکن زیادہ اہم طوفانی واقعات مزید کچھ عرصے میں نظر آئیں گے۔ کچھ معاشی ماہرین کا خیال ہے آئندہ سال امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات اس حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں اور ٹرمپ کی شدید خواہش ہے کہ اس معاشی بحران کوانتخابات تک کسی طریقے سے ٹالا جائے۔ وہ اس حوالے سے مختلف اقدامات بھی کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صورتحال امریکی صدر کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں ہونے والے مختلف واقعات اس بحران کے آغاز کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
یہ بحران آنے سے پہلے ہی دنیا بہت بڑی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور 2008ء کے بحران کے اثرات سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکی۔ معاشی اثرات کے ساتھ ساتھ ایک دہائی قبل کے اس بحران کے سیاسی اور سماجی اثرات بھی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں اور عرب انقلابات سے لے کر ہانگ کانگ کی حالیہ تحریک اور بریگزٹ کی پہیلی تک مختلف شکلوں میں دنیا کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عالمی سطح پر ایک نیا مالیاتی بحران جو پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ گہرا ہوگا کس قسم کے اثرات مرتب کرے گااس کے متعلق جتنی گفتگو کی جائے کم ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے لے کر فنون تک اور سیاست سے لے کر سماجیات تک دنیا کا ہر ملک اور اس کرۂ ارض پر بسنے والا ہر شخص ناگزیر طور پر اس کے اثرات کو محسوس کرے گا اور دنیا مکمل طور پر تیزی سے تبدیل ہونے کی جانب بڑھے گی جس میں تمام پرانے دیو ہیکل ادارے، ریاستیں، ’ٹھوس‘اصول و ضوابط اور قاعدے قانون ہوا میں بکھر جائیں گے اور ماضی کے اس ملبے کے نیچے سے ایک نئی خوشگوار دنیا کی کونپلیں بھی پھوٹتی نظر آئیں گی۔
آج دنیا پر ایک نظر دوڑائیں تو ہر جانب سماج کی بنیادوں کو ہلا دینے والے معاشی بحران کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی اتھل پتھل بھی بڑی واضح اور پوری شدت سے نظر آتی ہے۔ برطانوی سماج میں چار سو سال بعد دیوہیکل سیاسی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں اور بہت سے سنجیدہ ماہرین انگلستان کی 1641ء کی خانہ جنگی سے اسباق سیکھنے کے مشورے دیتے نظر آتے ہیں۔ فرانس، اٹلی اور جرمنی سمیت دنیا کا کوئی ملک بھی ان اہم ترین سیاسی تبدیلیوں سے بچا ہو انہیں اور سماجی زلزلے ہر جانب دہائیوں سے چلے آ رہے اسٹیٹس کو کو توڑرہے ہیں اور اس نظام کے بوسیدہ اداروں، نام نہاد جمہوریتوں اورمالیاتی اداروں کو زمین بوس کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خود امریکہ میں، جو اس نظام کا رکھوالا اور سب سے مضبوط ستون ہے، وہاں بھی پورا سماج بہت گہری تبدیلی سے گزر رہا ہے اور سیاسی اور معاشی میدانوں میں اس تبدیلی کا اظہار مختلف واقعات کی شکل میں ہو رہا ہے۔ درحقیقت، واقعات کی رفتار اتنی تیز ہو چکی ہے کہ ان سے ہر وقت باخبر رہنا اب ممکن ہی نہیں رہا۔ اسی لیے وہ کھوکھلے تجزیہ نگار جو مختلف واقعات کو بنیاد بنا کر تجزیہ کرتے آئے ہیں ان کو مشکلات پیش آ رہی ہیں اور وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ ماضی کے مزارابھی امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں ہونے والی ایک اہم سیاسی تبدیلی یا ابھرنے والی تحریک پر ”روشنی“ ڈالنے کی کوشش کر ہی رہے ہوتے ہیں تو اس سے انتہائی مخالف سمت کا کوئی دوسرا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ ایک وقت میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انتہائی دایاں بازو بہت بڑی سماجی حمایت لیے ہوئے ہے تو دوسرا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ درحقیقت انتہائی بائیں بازو کی جانب عوامی جھکاؤ زیادہ ہے۔ معیشت کی سمت کو مختلف اشاریوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو بھی انتہائی کنفیوز نظر آتے ہیں اور نہیں بتا پاتے کہ تجارتی پالیسی کے باعث بحران بڑھ رہا ہے یا مانیٹری پالیسی سے۔ اسی طرح مختلف واقعات ان کے بنے بنائے اصولوں اور فارمولوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کسی ایک ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج ان کے تمام سروے اور رائے عامہ کے اعداد و شمار کو جھوٹ کا پلندہ ثابت کر دیتے ہیں۔ درحقیقت اس نظام کا بحران جہاں سماج کے مختلف شعبوں میں دکھائی دیتا ہے وہاں سب سے زیادہ اس نظام کے مسلط کردہ دانشوروں کی فہم و فراست کا بحران بھی نظر آتا ہے جو پھر ان کے فلسفے اوران کی رسمی منطق پر موجود بنیادوں کا بحران ہے۔
دوسری عالمی جنگ کی بربادی کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کو جو زندگی ملی اس نے ایک مخصوص طرز فکر کو وسیع بنیادیں فراہم کیں جسے تجربیت پسندی کہا جاتا ہے۔ ایک لمبے عرصے تک سرمایہ دارانہ نظام ایک خاص ڈگر پر ہی چلتا رہا اور مختلف بحرانوں سے کسی نہ کسی طرح نبرد آزما ہوتے ہوئے اپنا وجود برقرار رکھتا آیا۔ خاص طور پر سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث انہدام نے اس خیال کو مزید مضبوط کر دیا کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ابدی نظام ہے اور اب زندگی اسی کے تحت ہی گزاری جا سکتی ہے۔ اسی لیے اسی کو بہتر کرتے ہوئے اور اس میں مختلف ترامیم کرتے ہوئے ہی صورتحال کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور اس نظام سے باہر سوچنا ”عملیت پسندی“ نہیں اور جو ایسا کرتا ہے وہ دیوانہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس سماج پر حاوی تمام تر دانش، خواہ وہ یونیورسٹیوں کی چار دیواریوں میں موجود ہو یا ذرائع ابلاغ کے مختلف وسیلوں کے ذریعے عوام پر مسلط کی جاتی ہو، اس نے یہی ایک سانچا پیش کیا جس میں سرمایہ دارانہ نظام ایک ناقابلِ شکست نظام تھا اور اس میں بنائی گئی پارلیمنٹ اور دیگرریاستی اداروں، عالمی مالیاتی اداروں، اقوام متحدہ یا مختلف ممالک کے درمیان موجود معاہدوں کو انتہائی مقدس بنا کر پیش کیا جاتا رہااور یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ دنیا کے تمام معاملات کا حل انہی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور ان سے باہر سوچنا ممکن ہی نہیں۔
یہی تمام تر طریقہ کار ہمیں دنیا میں رائج سیاست میں بھی نظر آیا جہاں تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کی بنیادیں انہی خیالات پر قائم تھیں اور اسی نظام کا حصہ رہتے ہوئے وہ مختلف ایشوز کو حل کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان پارٹیوں کی عوامی حمایت کو ان نظریات کی کامیابی کی ضمانت گردانا گیا اور یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا کہ اب دنیا کو اسی سانچے کے مطابق چلنا چاہیے۔
لیکن 2008ء کے بحران نے ان خیالات پر ایک کاری ضرب لگائی اور اس کے بعد کے ہیجان خیز واقعات نے دنیا بھر میں نہ صرف عوامی شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ اس نظام پر براجمان حکمرانوں کو بھی گہری تشویش میں مبتلا کر دیا۔ اس وقت بھی اس نظام کے رکھوالے دانشوروں نے اپنے بوسیدہ اور گلے سڑے نظریات کا ہی دفاع کرنے کی کوشش کی اور پرانے فارمولوں کے ساتھ ہی چمٹے رہے جبکہ نئے دیوہیکل واقعات کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ یہ معمول سے وقتی انحراف ہے اور سب کچھ بہت جلد دوبارہ پرانے اصولوں کے مطابق چلنا شروع ہو جائے گا اور ہر طرف زندگی پہلے ہی کی طرح رواں دواں ہو گی۔ درحقیقت، یہی سوچ ان کو دلاسہ دے سکتی تھی ورنہ جس تیزی سے دنیا میں اتھل پتھل ہو رہی تھی ایسے میں ان لوگوں کا پاگل ہوجانا یقینی تھا۔ لیکن انہوں نے خود کو سمجھایا کہ درحقیقت دنیا بھر میں لوگ پاگل ہو گئے ہیں اور صرف وہ خود ہی چند سمجھدار بچے ہیں جو دنیا کو واپس پرانی ڈگر پر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر گزشتہ ایک دہائی میں ہونے والے ایسے واقعات کی تفصیل بیان کی جائے جن سے پوری دنیا متاثر ہوئی تو ایک انتہائی ضخیم نسخہ سامنے آئے گا۔ لیکن اگر چند واقعات کا ذکر کریں تو ان میں مصر، تیونس، لیبیا، یمن اور دیگر ممالک میں دہائیوں سے جاری خونی آمریتوں کا خاتمہ، آکوپائی وال سٹریٹ کی تحریک، بریگزٹ کا ریفرنڈم اور اس کے اثرات، ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی، امریکہ میں سوشلسٹ نظریات کی عوامی پذیرائی، یوکرائن اورشام کی خانہ جنگی اور امریکی سامراج کی پسپائی، یورپ اور امریکہ میں مختلف عوامی تحریکیں جن میں خواتین کے حقوق سے لے کر ماحولیات کے بچاؤ تک کے لیے لاکھوں افراد کے احتجاج ہوئے، فرانس میں پیلی واسکٹ والوں کا احتجاج، ہانگ کانگ کی حالیہ عوامی تحریک،چین کی ابھرتی ہوئی مزدور تحریک اور ہندوستان میں ہونے والی عام ہڑتالیں، کیٹالونیا، سکاٹ لینڈ اور دیگر بہت سے خطوں میں قومی مسئلے کا دوبارہ ابھار؛ ترکی، ایران، اسرائیل اور سعودی عرب میں عوامی تحریکیں اور ریاستی بحران، برازیل اور ہندوستان میں نیم فاشسٹ رجحانات کی انتخابات میں کامیابی جبکہ میکسیکو، یونان سمیت مختلف ممالک میں اصلاح پسند بائیں بازو کی کامیابی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کو قلمبند کرنے کے لیے یہاں جگہ کافی نہیں لیکن سب سے اہم دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی محنت کشوں کی عام ہڑتالیں ہیں جنہوں نے اس عرصے میں دنیا کے بہت سے ممالک کو اپنی میں لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس صورتحال میں یہ واضح ہے کہ پوری دنیا بہت بڑی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور پرانے نظام کی بنیادیں ہل رہی ہیں، ایسے میں ایک نئے بحران کی آمد اور اس کے اثرات پر بحث انتہائی سنجیدگی کی متقاضی ہے۔
معاشی بحران
اس سال کے آغاز سے اب تک دنیا بھر کی اسٹاک ایکسچینج شدید مندی کا شکار ہیں اوراس سال مختلف دنوں میں ان میں بڑے پیمانے پر گراوٹ بھی دیکھنے میں آئی ہے جن سے پھر بعد ازاں وقتی طور انہیں باہر نکلنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر اگست کے مہینے میں ایک دن میں بد ترین گراوٹ دیکھنے میں آئی جب 14 اگست کو امریکہ کی ڈاؤ جونز میں 800پوائنٹس سے زائد کی گراوٹ دیکھنے میں آئی جو 3.05فیصد گراوٹ بنتی ہے۔ اسی طرح S&P 500 انڈیکس جو دنیا کی پانچ سو بڑی کمپنیوں کے حصص کو ماپتا ہے اس میں 85پوائنٹس سے زائد کی گراوٹ دیکھنے میں آئی جو 2.93فیصد بنتی ہے جبکہ نیویارک کے NASDAQ کمپوزٹ میں 3.02 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔ اس بہت بڑی گراوٹ کی وجہ امریکہ کے ٹریژری بانڈز کی قیمتوں میں ردو بدل تھا جس نے پوری دنیا پر ایک نئی کساد بازاری کے امکانات کو واضح کر دیا۔ عام طور پر دو سال کے لیے خریدے جانے والے بانڈزپر منافع دس سال والے بانڈز سے کم ہوتا ہے کیونکہ زیادہ لمبے عرصے کے لیے سرمایہ کاری کرنے والے اپنی رقم پرزیادہ منافع حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ لیکن اس روز دس سال والے بانڈز کی قیمت کہیں زیادہ ہوگئی اور منافع دو سال والے بانڈز سے بھی کم ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار وں کی بہت بڑی تعداد، جن میں بہت سی ریاستوں کے سرکاری ادرے، پنشن فنڈ وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں،امریکہ کے دس سال والے ٹریژری بانڈز خریدنے کی جانب رجوع کر رہی تھی کیونکہ اسے بحران کے عرصے میں ایک محفوظ ترین سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت اس سرمایہ کاری کی ضامن امریکی ریاست ہوتی ہے جس نے یہ قرض چکانا ہوتا ہے۔ سرمایہ کاروں کے اس محفوظ رستے کی جانب گامزن ہونے کی وجہ سے ان بانڈز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور ان سے حاصل ہونے والے منافعوں کی شرح اتنی کم ہو گئی کہ دو سال والے بانڈز کے منافعوں سے بھی نیچے چلی گئی۔ معیشت دانوں کی زبان میں اسے Yield Curve کہا جاتا ہے جو اگست میں الٹی ہو گئی تھی۔
یہ Yield Curve معیشت کے حوالے سے ایک اہم ترین اشاریہ تسلیم کیا جاتا ہے اور اس سے پہلے گزشتہ پانچ دہائیوں میں جتنے بھی معاشی بحران آئے ہیں ان سے پہلے یہ Curve ہمیشہ الٹی ہوتی رہی ہے۔ اس حوالے سے جب یہ Curve اگست میں الٹی ہو ئی تو پوری دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی دیکھنے میں آئی اور ہر جانب ایک افرا تفری اور ہیجان دکھائی دیا۔ سب سے زیادہ اثرات بینکوں کے حصص کی قیمتوں پر ہوئے جن میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ بینک آف امریکہ کے حصص میں 4.6فیصد کمی، سٹی گروپ میں 5.3فیصد کمی جبکہ جے پی مارگن کے حصص میں 4.2فیصد تک کمی آئی۔ یہ تینوں دنیا کے سب سے بڑے بینکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ درحقیقت، پورا مالیاتی شعبہ دس فیصد کی کمی کے ساتھ نچلے درجے پر چلا گیا جسے Correction کہا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے ایک نئی معاشی کساد بازاری کے امکانات پر زور و شور سے بحثیں شروع ہو گئیں اور اس کی وجوہات اور اثرات پر مختلف تجزیے سامنے آنے لگ گئے جن میں سے اکثریت کی رائے یہی تھی کہ ایک نیا عالمی مالیاتی بحران اب زیادہ دور نہیں۔
تجارتی جنگ
اس مالیاتی بحران کی فوری وجوہات میں ایک اہم وجہ امریکہ اور چین کی جاری تجارتی جنگ ہے جس میں اکثرسرمایہ داروں کی خواہشات کے بر عکس شدت آتی جارہی ہے۔ اس تجارتی جنگ کے اثرات اب ان دو بڑی معیشتوں پر مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں پر بھی مرتب ہورہے ہیں اوراس وقت عالمی معیشت میں ایک عمومی سست روی دیکھی جا سکتی ہے۔
تجارتی جنگ کا آغاز دو سال قبل ٹرمپ نے کیا تھا جب اس نے چین سے امریکہ آنے والی درآمدات کے ایک حصے پر اضافی ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔ جواب میں چین نے بھی امریکہ سے آنے والی درآمدات کے ایک حصے پر ایسی ہی ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ اس سخت اقدام سے چین کو کمزور کیا جا سکے گا اور نتیجتاً وہ اس سے ایک بہتر معاشی معاہدہ کرنے کے قابل ہو جائے گا جس کے باعث نہ صرف امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ کم ہو جائے گا بلکہ ٹرمپ کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے کا بھی موقع مل جائے گا۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ سے چین منتقل ہونے والے روزگار کو واپس لائے گا اور امریکہ کی بند صنعتوں کو دوبارہ چالو کرے گا۔گوکہ بہت سے معیشت دانوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے اس دعوے کی بنیادیں سراسر غلط ہیں کہ امریکہ میں معاشی بحران کی وجوہات کا ذمہ دار چین ہے اور یہ کہ تجارتی پالیسی کے ذریعے معیشت کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ٹرمپ ان معیشت دانوں کے مشوروں کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہامگر اس کے باوجود چین سے کوئی بہتر تجارتی معاہدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے نتیجے میں اس کو دباؤ کے طریقہ کار کو مسلسل بڑھانا پڑ رہا ہے اور اب تک وہ چین سے آنے والی تقریباً تمام درآمدات پر اضافی ڈیوٹی عائد کر چکا ہے۔
گزشتہ سال جولائی میں چین سے درآمد ہونے والی 250 ارب ڈالر کی اشیا پر ٹرمپ کی جانب سے 25فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی تھی۔ ان اشیا کی اکثریت صنعتوں میں استعمال ہونے والی اشیا ہیں جس کے باعث اس ڈیوٹی کے اثرات براہ راست صارفین پر مرتب نہیں ہوئے۔ لیکن اس سال یکم ستمبر سے 112 ارب ڈالر کی مزیداشیا پر15 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے جن میں الیکٹرانکس، ڈیری مصنوعات، جوتے اور کپڑوں جیسی اشیا بھی شامل ہیں۔ فی الحال ٹرمپ نے سمارٹ فون، لیپ ٹاپ، کھلونوں اور ویڈیو گیموں پر ڈیوٹی عائد کرنے کے لیے 15دسمبر تک کی مہلت دی ہے۔ اگر اس دوران دونوں ممالک کا کوئی تجارتی معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس صورتحال میں تبدیلی آ سکتی ہے لیکن اس کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ جواب میں چین نے بھی یکم ستمبر سے امریکہ سے درآمد کئے جانے والے خام تیل اور دیگر زرعی اجناس پر پانچ سے دس فیصد ڈیوٹی عائد کر دی ہے جس کے باعث امریکی تیل کی صنعت اور کسان شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ٹرمپ کے ووٹر ہیں جو اس تجارتی جنگ میں خام مال کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال چین نے امریکہ سے درآمد کی جانے والی 110ارب ڈالر مالیت کی اشیا پر ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔ اسی طرح ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ جن اشیا پر 25فیصد ڈیوٹی عائد ہے یکم اکتوبر سے ان پر ڈیوٹی 30فیصد کر دی جائے گی گو کہ اسکو مؤخر کرنے کے امکان کا اشارہ بھی دیا جا چکا ہے۔
ٹرمپ کی خواہش تھی کہ چینی مصنوعات کی درآمد میں کمی کر کے امریکی صنعت کا پہیہ چالو کیا جاسکے لیکن اس میں اس کو کامیابی نہیں مل رہی بلکہ سرمایہ داروں اور بالخصوص صنعتکاروں میں افرا تفری اور ہیجان دکھائی دے رہا ہے اور اس جنگ میں موجود بے یقینی کے باعث وہ کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر پارہے۔ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ آئی ٹی سے متعلقہ شعبوں میں استعمال ہونے والے تمام پرزے چین میں مینوفیکچر ہونے کی بجائے امریکہ میں ہی بنائے جائیں اور امریکہ کی اس پر مکمل اجارہ داری ہو۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے پوری دنیا میں پھیلی ایسی ہزاروں الگ الگ اشیا کی مینوفیکچرنگ کی تمام تر ترتیب مکمل طور پرتبدیل کرنی ہو گی جس کے لیے بہت سا وقت اور سرمایہ درکار ہے جبکہ اتنے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کرنے کے لیے حالات ہی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کے حصص میں سب سے تیز ترین گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔
اسی طرح اس تجارتی جنگ کے ذریعے امریکہ چین سے ابھرنے والی نئی ٹیکنالوجی کو بھی شکست دینا چاہتا ہے اور اس شعبے میں اپنی برتری کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں سمارٹ فون کے لیے بنائی جانے والی ’5G‘ کی جدیدٹیکنالوجی اہمیت کی حامل ہے جس میں چین اپنی کمپنی ہواوے کے ذریعے برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گو کہ اس برتری کی بنیاد میں امریکی کمپنیوں کے ہی بہت سے پرزے اور سافٹ وئیر ہیں لیکن مختلف حوالوں سے یہ چینی کمپنی اس مخصوص ٹیکنالوجی میں امریکی کمپنیوں سے آگے نکل چکی ہے۔ اسی باعث اس پر امریکہ اور یورپ کی جانب سے مختلف پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح یہ جنگ دیگر بہت سے شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور پہلے سے کم ہوتی ہوئی عالمی تجارت اب مزیدسکڑ ہو رہی ہے۔
اس تجارتی جنگ کے اثرات اب واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اس نے خاص کر چین کی معیشت کو مزید کمزور کیا ہے جہاں سست روی اب واضح نظر آ رہی ہے۔ چین میں صنعتی پیداوار کی شرح اس سال جولائی میں گزشتہ سال جولائی کی نسبت 4.8 فیصد تھی جو 2002ء سے اب تک کی کم ترین سطح ہے۔ اگست میں یہ شرح گزشتہ سال اگست کے مقابلے میں 4.4فیصد ہو کر مزید کم ہو گئی۔یہ گزشتہ ساڑھے سترہ سال میں صنعتی پیداوار کی سب سے کم شرح ہے اور آنے والے عرصے میں اس میں مزید کمی کے امکانات موجود ہیں۔چین کی عمومی شرحِ ترقی میں بھی کمی آ رہی ہے اور یہ خدشات موجود ہیں کہ یہ اس سال 6.2فیصد تک گر سکتی ہے اورآئندہ سال 6فیصد سے بھی نیچے گرنے کے امکانات موجود ہیں۔2019ء کی دوسری سہ ماہی میں یہ شرحِ ترقی 6.2 فیصد تھا جو گزشتہ 30 سالوں میں سب سے کم ہے۔چین کے وزیر اعظم لی کیکیانگ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ شرح ترقی 6فیصد سے اوپر رکھنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ امکانات موجود ہیں کہ چین اپنے شرحِ سود میں کمی کرے اور سرمایہ داروں کے لیے مزید پیسہ فراہم کرے تاکہ اس سست روی کو روکا جا سکے لیکن اس کے باوجود بحران کا ٹالنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ مصنوعات بنانے والے اور سب سے زیادہ برآمدات کرنے والے ملک میں یہ گراوٹ چین سمیت پوری دنیا کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگی اور عالمی مالیاتی بحران کے ایک اہم عنصر کے طور پر اپنا اظہار کرے گی۔ چین میں اس وقت مالیاتی بحران کا بھی آغاز ہو چکا ہے اور گزشتہ چند ماہ میں تین بینک دیوالیہ ہو چکے ہیں جن میں انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائینہ (ICBC) بھی شامل ہے۔ گوکہ یہ بینک کل مالیاتی شعبے کا ایک انتہائی معمولی سا حصہ ہیں لیکن یہ صورتحال آنے والے طوفانوں کا پتہ دیتی ہے۔ چین کے مرکزی بینک کے مطابق 4327میں سے 420 بینکوں کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ UBS کے ایک اندازے کے مطابق چین کے مختلف بینکوں کے تیرہ سو ارب ڈالر مالیت کے اثاثے خطرے میں ہیں جو کُل جی ڈی پی کا تقریباً دس فیصد بنتے ہیں۔ اس کی وجہ ان بینکوں کے دیے گئے قرضوں کا ڈوبنا ہے۔ بہت سی کمپنیاں اور صنعتیں بحران کے باعث بند ہو رہی ہیں جس کے اثرات مالیاتی شعبے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس بحران کی شد ت میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔
مینوفیکچرنگ کا بحران
اس وقت پوری دنیا کی مینوفیکچرنگ شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے اوراس شعبے میں پھیلاؤ گزشتہ چھ سالوں کی سب سے کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ یہ بحران نہ صرف گہرائی میں شدت اختیار کر رہا ہے بلکہ جغرافیائی حوالے سے بھی وسعت اختیار کر چکا ہے۔ جرمنی اور اٹلی سے لے کر جاپان، جنوبی کوریا اور انڈیا تک ہر طرف یہ بحران اپنے پنجے گاڑ رہا ہے اور دنیا بھر کی صنعتوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ چین کا سرکاری طور پر جاری کردہ مینوفیکچرنگ انڈیکس پچاس سے نیچے گر گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ پھیلاؤ کی بجائے صنعتیں سکڑ رہی ہیں۔ درحقیقت اس وقت یہی مینوفیکچرنگ کا بحران عالمی معیشت کو بحران کی جانب کھینچ رہا ہے۔ گوکہ یہ شعبہ اس وقت کُل عالمی معیشت کا بیس فیصد بنتا ہے اور خدمات اور مالیات کا شعبہ زیادہ بڑا حجم رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ شعبہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے اور یہاں سے شروع ہونے والا بحران دوسرے شعبوں میں بھی پھیل رہا ہے۔
اس وقت اس بحران کا مرکز کاریں بنانے کی صنعت ہے۔ پوری دنیا میں کاریں بنانے والی صنعت میں اگست کے مہینے میں ریکارڈگراوٹ دیکھنے میں آئی ہے اور دنیا کی بڑی بڑی کارساز کمپنیوں کے منافعے کم ہو رہے ہیں۔ یورپ میں جرمنی کی ڈائلمر، اٹلی کی پریلی ٹائر اور فرانس کی رینالٹ نے اپنے متوقع منافعوں میں کمی کر دی ہے۔ اس خطے میں گزشتہ سات ماہ سے فیکٹریوں کی سرگرمی سکڑ رہی ہے جس میں کاروں کی بکنگ میں کمی ہورہی ہے اور کمپنیاں ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر رہی ہیں۔ برطانیہ میں بھی 2012ء کے بعد اس شعبے میں بد ترین گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ اس صنعت میں گراوٹ کے باعث اس سے متعلقہ مشینری، صنعتی اشیا، دھاتوں، کیمیکل اور کان کنی کی صنعتوں میں بھی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ اس حوالے سے ایک عالمی سطح کے انڈیکس IHSکے مطابق عالمی مینوفیکچرنگ کا انڈیکس اگست میں پچاس فیصد سے کم رہا جو اس کمی کا مسلسل چوتھا مہینہ تھا۔ یہ گزشتہ سات سالوں میں ایسی کمی کا سب سے طویل دورانیہ ہے۔ اس کی ایک وجہ تجارتی جنگ کے باعث مختلف ممالک کی برآمدات میں ہونے والی کمی ہے۔ اس سال جون میں عالمی سطح پر اشیا کی برآمدات میں گزشتہ سال جون کے مقابلے میں 1.4فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ اس گراوٹ کی ایک وجہ تجارتی جنگ کے باعث پھیلنے والی بے یقینی بھی بتائی جاتی ہے جس کے باعث سرمایہ کار آئندہ پانچ سال یا دس کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور سرمایہ کاری میں کمی آ رہی ہے۔ OECD کے 36ممالک میں مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ میں جون کے مہینے میں ایک سال قبل کے مقابلے میں 1.3 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ کمی کا یہ رجحان آنے والے عرصے میں بھی جاری رہے گا اور اس میں بہتری آنے کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔
جرمنی، جو یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے اور برآمدات پر بڑے پیمانے پرانحصار کرتی ہے، وہاں بھی معاشی سست روی دیکھی جارہی ہے اور معیشت سکڑ رہی ہے۔ مینوفیکچرنگ کے بحران کا آغاز بھی جرمنی سے ہی ہوا ہے جہاں کاروں کی صنعت میں سست روی آ رہی ہے۔ 2019ء کی دوسری سہ ماہی میں جرمن معیشت میں 0.1 فیصد سکڑاؤ آیا جو آئندہ سہ ماہیوں میں بھی جاری رہے گا۔ مختلف اندازوں کے مطابق اس سال جرمنی کی شرح ترقی 0.4 سے 0.5 فیصد کی کم ترین سطح پر متوقع ہے۔
امریکہ بھی اس بحران کی زد میں آچکا ہے اور جولائی میں سالانہ بنیادوں پر مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ میں کمی دیکھی گئی۔ اگست کے اعداد وشمار بھی گراوٹ کو ہی واضح کر رہے ہیں۔ مینوفیکچرنگ امریکہ کی کل پیداوار کا 11 فیصد ہی ہے لیکن اس کے باوجود یہ معاشی سرگرمی کے حوالے سے اہم اشاریہ ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار سپلائی مینجمنٹ کی رپورٹ کے مطابق اگست میں ان کا مینوفیکچرنگ انڈیکس 49.1 تھا جو جولائی میں 51.2 سے کم ہو گیا تھا۔ 50 سے نیچے آنے کا مطلب ہے کہ صنعتیں پھیلنے کی بجائے سکڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد وال سٹریٹ میں کافی افرا تفری دیکھی گئی اور S&P 500 میں 0.7 فیصد کمی دیکھی گئی۔ جنرل موٹرز جیسی بڑی کارساز کمپنی بڑے پیمانے پر ملازمین کی چھانٹی کر رہی ہے اور امریکہ میں اپنی دو فیکٹریوں کو بھی بند کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ اس صورتحال میں امریکہ میں اس ادارے کے تقریباًپچاس ہزار ملازمین نے ہڑتال کا آغاز کر دیا ہے جو امریکہ کی مزدور تحریک کے حوالے سے اہم پیش رفت ہے۔
اس بحران کی ایک وجہ تجارتی جنگ بھی بتائی جا رہی ہے جس میں وہ صنعتیں جو چین سے آنے والے خام مال پر انحصار کرتی تھیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور ان کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جو صنعتکار اپنی اشیا چین برآمد کرتے تھے وہ بھی اس صورتحال کا شکار ہورہے ہیں اور ان کی برآمدات میں کمی ہو رہی ہے۔ بہت سے صنعتکار اپنی صنعتیں امریکہ سے باہر منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جس سے امریکہ میں روزگار میں مزید کمی ہوگی جو ٹرمپ کے منصوبے کے برعکس ہو گا۔ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ سے بہت سی صنعتیں ایسے ممالک میں منتقل ہو رہی ہیں جہاں ان ڈیوٹیوں کے اثرات سے بچا جا سکے۔ ان ممالک میں تھائی لینڈ، ویت نام، کمبوڈیا اور ایسے ہی دیگر ممالک شامل ہیں۔ انڈیا بھی اس سے فیض یاب ہونے کی کوشش کر رہا ہے گو کہ ابھی تک زیادہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو متوجہ نہیں کر سکا۔ ان ممالک میں چین کی نسبت کم اجرتوں پر محنت کش دستیاب ہیں۔ لیکن تجارتی جنگ سے بھی بڑا مسئلہ مانگ میں بڑے پیمانے پر کمی کا ہے جس کا اظہار کاروں کی صنعت میں گراوٹ سے ہو رہا ہے۔ دیگر صنعتوں کی بندش یا پیداوار میں کمی کی ایک بڑی وجہ بھی تجارتی جنگ کے علاوہ مانگ میں بڑے پیمانے پر کمی ہے جو آنے والے عرصے میں زیادہ شدت سے اپنا اظہار کرے گی اور مالیاتی بحران کا فیصلہ کن انداز میں آغاز کرے گی۔
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ میں ان خدشات کو رد کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ عالمی سطح پر سرمایہ داروں کو مایوسی سے بچاتے ہوئے حوصلہ افزا خبر دی جائے۔ آئی ایم ایف کے مطابق مینوفیکچرنگ کا بحران ابھی تک سروسز اور مالیات کے شعبے تک نہیں پھیلا اور صارفین کی مانگ ابھی تک مضبوط ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مینوفیکچرنگ کا بحران ناگزیر طور پر باقی شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا اور اس کے ساتھ پوری عالمی معیشت کو کھائی میں دھکیلے گا۔ آئی ایم ایف نے اس سال کے لیے عالمی شرحِ ترقی کے تخمینے کو بھی 3.3 فیصد سے کم کر 3.2 فیصد کر دیا ہے جو 2009ء کے بعد سے اب تک کی کم ترین سطح ہے۔ امکان ہے کہ اکتوبر میں ہونے والے اہم اجلاس میں اس پر ایک مرتبہ پھرنظر ثانی کی جائے گی۔ امریکہ کی شرحِ ترقی بھی 2018ء میں 2.9 فیصد سے کم ہو کر 2019ء میں 2.2 فیصد تک گرنے کا امکان ہے۔ جبکہ 2020ء میں مختلف معیشت دانوں کے اندازوں کے مطابق 1.7 فیصد تک گر سکتی ہے جو ٹرمپ کی صدارتی انتخابات کی مہم کے لیے انتہائی مضر ہو گا۔ یہ تمام اشاریے ایک نئے عالمی مالیاتی بحران کی پیش گوئی بھی کر رہے ہیں۔
مانیٹری پالیسی اور شرحِ سود
تجارتی پالیسی کے ذریعے معیشت کو بہتر کرنے کے ناکام تجربے کے بعد ٹرمپ اپنا غصہ مانیٹری پالیسی پر نکال رہا ہے اور امریکی فیڈرل ریزرو بینک کے سربراہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس سے شرحِ سود میں کمی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں مرکزی بینک حکومت اور وزارتِ خزانہ سے مکمل طورپر آزادانہ کردار کا حامل ہوتا ہے اور حکومتوں کی جانب سے اس ادارے میں مداخلت کو معیشت کی بنیادوں پر حملہ تصور کیاجاتا ہے۔ اس ادارے کے ذمے جہاں کرنسی چھاپنے جیسا انتہائی اہم کام ہوتا ہے وہاں ملک کی مانیٹری پالیسی کا تعین بھی یہی بینک کرتا ہے جس میں ایک اہم حصہ شرحِ سود کا تعین ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مرکزی بینک کا نظام منتخب نمائندوں کی بجائے چند پروفیشنلز کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو اپنے کام کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ معیشت کی عمومی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے وہ اپنی پالیسی کا تعین کرتے ہیں تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کو جاری و ساری رکھا جا سکے۔
2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد امریکہ اور یورپ میں مرکزی بینکوں نے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپ کر اور شرحِ سود میں بڑے پیمانے پر کمی کر کے معیشت کو سہارا دیا تھا۔ نوٹ چھاپنے کا عمل Quantitative Easing یا مقداری آسانی کے نام سے شروع کیا گیا اور بحران کے کئی سال بعد تک جاری رہا۔ اسی طرح شرحِ سود میں بھی بڑے پیمانے پر کمی کی گئی جو اکتوبر 2008ء میں 2 فیصد سے کم کر کے دسمبر 2008ء میں 0.25 فیصد تک گرا دی گئی یعنی تقریباً صفر کے قریب۔ جاپان اور یورپ میں تو یہ شرح صفر سے بھی نیچے جا چکی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد سرمایہ داروں کو انتہائی سستے قرضے فراہم کرنا تھا تاکہ وہ صنعتوں وغیرہ میں مزید سرمایہ کاری کرتے ہوئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کر سکیں اور معیشت کا پہیہ چلایا جا سکے۔ گو کہ اس عمل کے نتیجے میں نئی صنعتیں تو نہ لگ سکیں لیکن منڈی میں اتنے بڑے پیمانے پر رقم پھینکنے سے معیشت کو مصنوعی بنیادوں پر کچھ سہارا ضرور ملا۔
ایسی صورتحال میں امریکی مرکزی بینک نے گزشتہ چند سالوں سے شرحِ سود میں انتہائی معمولی سا اضافہ کرنا شروع کر دیا تھا تاکہ اسے ایک ایسی سطح پر لایا جا سکے جہاں بحران کی صورت میں اس کو دوبارہ معیشت سنبھالنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اس حوالے سے مختلف آرا موجود تھیں اور یہ بھی کہا جارہا تھا کہ اس معمولی سے اضافے سے بھی بحران کا دوبارہ آغاز ہو سکتا ہے اس لیے ایسا نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی مرکزی بینک نے انتہائی معمولی اضافہ جاری رکھا اور شرح سود اس سال کے آغاز تک 2.5 فیصد تک پہنچ گئی۔ لیکن گزشتہ چند ماہ میں سٹاک مارکیٹوں اور مینوفیکچرنگ کے بحران کے باعث ٹرمپ نے فیڈرل ریزرو بینک کے سربراہ جیروم پاویل کو ٹویٹر کے ذریعے سخت تنقید اور بے عزتی کا نشانہ بنایا اور کہا کہ امریکی معیشت کے بحران کا ذمہ دار وہ ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا گیا کہ معیشت کو بہتر کرنا محض مانیٹری پالیسی سے ممکن نہیں اور صنعتوں کو چالو رکھنے کے لیے حکومت کو دیگر طریقہ ہائے کار پر بھی غور کرنا چاہیے۔ لیکن اس سب کے باوجود فیڈرل ریزرو نے جولائی میں شرحِ سود میں کمی بھی کردی جو ٹرمپ کے دباؤ کا نتیجہ بتایا جارہا ہے۔ یہ گزشتہ ایک دہائی میں کی جانے والی پہلی کمی ہے جس کے بعدا مریکہ کی کم ترین شرحِ سود 2فیصد تک آ چکی ہے اور ستمبر میں اس میں مزید کمی کا امکان ہے اور یہ رجحان آئندہ عرصے میں جاری رہنے کی بھی توقع ہے۔ممکن کہ اگلے ایک سال میں یہ شرح مزید ایک فیصد تک گرجائے۔ اس کو گرانے کا مقصد ایک دفعہ پھر سرمایہ داروں کو سستی رقم کی فراہمی ہے تاکہ وہ معیشت کا پہیہ چالو رکھ سکیں لیکن صورتحال بہت زیادہ تبدیل ہو چکی ہے اور یہ حربہ اس دفعہ کارگر ہوتا نظر نہیں آتا۔
امریکی مرکزی بینک کو دیکھتے ہوئے یورپی بینک نے بھی شرحِ سود میں کمی کا اعلان کیا ہے اور مقداری آسانی کے پروگرام کو بھی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ یورپی سنٹرل بینک کے سربراہ ماریو دراغی نے ستمبر میں شرحِ سود منفی 0.4 فیصد سے مزید کم کر کے منفی 0.5 فیصد کر دی ہے اورنومبر سے 20 ارب یوروکے بانڈز خریدنے کے پروگرام کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس کا مقصد بھی گرتی ہوئی یورپی معیشت کو سہارا دینا ہے۔ اس کے علاوہ بینکوں کو دیے جانے والے قرضوں کے لیے شرائط میں بھی نرمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے یورپی سنٹرل بینک کے اس اقدام پر اپنے ملک کے مرکزی بینک کو خوب لتاڑا ہے اور انہیں بھی اس اقدام کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یورپ اپنی کرنسی کی قدر گرا رہا ہے جبکہ امریکی فیڈرل ریزرو بینک کی پالیسیوں سے ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے جس سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ا س صورتحال میں امریکہ میں بھی مقداری آسانی کی پالیسی کا دوبارہ احیا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ممکنہ بحران کو زیادہ عرصے تک ٹالنا ممکن نظر نہیں آتا۔
اسی طرز پردنیا کے دیگربہت سے ممالک میں بھی شرحِ سود میں بڑے پیمانے پر کمی کی گئی ہے جن میں برازیل، انڈیا، ترکی، تھائی لینڈ، فلپائن، نیوزی لینڈ اور پیرو شامل ہیں جبکہ انڈونیشیا اور دیگر ممالک بھی اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان ممالک کے مرکزی بینک بھی اپنے سرمایہ داروں کو تجارتی جنگ اور ممکنہ بحران سے تحفظ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن ان تمام دیوہیکل اقدامات کے باوجود عالمی معیشت بحران کی جانب بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے مرکزی بینکوں کی نسبت امریکی فیڈرل ریزرو کی شرح سود ابھی بھی زیادہ ہے، اس وجہ سے ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہورہا ہے جبکہ چین کی کرنسی کی قدر میں بڑے کمی ہوئی ہے۔ اس کا فائدہ بھی تجارتی جنگ میں چین کو پہنچ رہا ہے جو کرنسی کی قدر میں کمی کے ذریعے امریکی ڈیوٹیوں کے اثرات کو کسی حد تک کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ امریکی برآمدات مضبوط ڈالر کے باعث نقصان اٹھا رہی ہیں۔ اس پر بھی ٹرمپ نے چین کو دھمکیاں دی ہیں اور اس پر کرنسی کی قدرمیں ہیر پھیرکرنے کے الزامات لگائے ہیں۔
لیکن ڈالر کی قدر میں اضافہ آنے والے بحران کا بھی ایک اشاریہ ہے کیونکہ اسے دنیا بھر میں ایک محفوظ سرمایہ کاری تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سونے کی قیمت میں بھی بہت بڑا اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ چھ سالوں میں یہ بلند ترین سطح پر ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ کار محفوظ مقامات کی جانب رجوع کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اہم اشاریہ تانبے کی پیداوارہوتی ہے جو صنعتوں کی صحت کے متعلق بہت کچھ بتاتی ہے۔ یہ پیداوار بھی بڑے پیمانے پر کمی کا شکار ہے جس سے نظر آتا ہے کہ صنعتی سرگرمی ماند پڑ رہی ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں بھی شدید عدم استحکام کا شکار ہو چکی ہیں۔ چند ماہ قبل ایران کے ساتھ ہونے والی امریکی چپقلشوں کے باوجود تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل تک ہی پہنچ سکی تھی جو بتا رہی تھی کہ صنعتی سرگرمی میں کمی واقع ہو رہی ہے اور تیل کی مانگ میں کمی کا رجحان ہے۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے بھی تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود تیل کی قیمت میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہوسکا جو مانگ کی شدید قلت کا عندیہ د ے رہا تھا۔ لیکن 14ستمبر کو سعودی عرب میں تیل کی پیداوار کی اہم تنصیبات پر حملے کے بعد تیل کی قیمتوں میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ 17ستمبر کو جب حملے کے بعد منڈیاں کھلیں تو تیل کی قیمت میں ایک دم 20 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا جو 1991ء کی خلیج جنگ کے آغاز کے بعد ایک دن میں سب سے بڑا اضافہ تھا۔ گو کہ کچھ دیر بعد اس میں تھوڑی کمی آئی اور 71ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر اس دن تیل کی قیمت عالمی منڈی میں 67 ڈالر فی بیرل پر رک گئی۔ لیکن یہ بھی بہت بڑا ضافہ تھا جو عالمی معیشت کے لیے تجارتی جنگ جیسے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں۔
اس حملے سے سعودی عرب کی تیل کی نصف پیداوار متاثر ہوئی ہے جو دنیا کے تیل کی کُل پیداوارکا 5فیصد بنتی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری یمن کے حوثیوں نے قبول کی ہے لیکن امریکہ اور سعودی عرب ایران پر الزام عائد کر رہے ہیں گو کہ ایران نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق اس حملے کا ماخذ جنوبی عراق میں موجود ایک ایران کی حمایتی ملیشیا ہے۔ اس حملے کے بعد خلیج فارس میں کشیدگی کئی گنا بڑھ گئی ہے اور ایک جنگ کے امکانات پھر سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ گوکہ ٹرمپ سعودی حکمرانوں کی شدید خواہش کے باوجود ایران پر حملہ کرنے سے کترا رہا ہے اور درحقیقت اب ایران سے بہتر تعلقات کا خواہشمند ہے۔ لیکن ایسے کشیدہ حالات میں سب کچھ افراد کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا اور بہت سی منصوبہ بندیاں الٹ بھی ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عالمی معیشت کے منڈلاتے بحران کے آغاز کا باعث بن سکتی ہیں اورپہلے سے مشکلات میں پھنسی صنعتوں کو مزید مسائل میں دھکیلتے ہوئے بہت سی صنعتوں کو بند کرنے کا باعث بھی بنیں گی۔
یہ تمام تر صورتحال ایک نئے عالمی مالیاتی بحران کی آمد کا پیش خیمہ ہے اور اس سے نکلنے کے تمام رستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ تجارتی جنگ کی شدت میں کمی آنے کے امکانات انتہائی کم ہیں گو کہ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ جلد از جلد چین کے ساتھ کسی تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دی جائے اور انتخابات سے پہلے اسے ایک کامیابی بنا کر پیش کیا جائے۔ اسی طرح وہ مختلف حربوں سے بحران کو انتخابات تک ٹالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن ان حربوں میں کامیابی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ پوری دنیا کی صورتحال میں آتش گیر مواد اتنا زیادہ جمع ہو چکا ہے کہ کوئی ایک واقعہ پوری صورتحال کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے اور ٹرمپ کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر سکتا ہے۔ لیکن اگر ٹرمپ انتخابات تک اس بحران کو مؤخر کرنے میں کامیاب بھی ہوگیا تو اسے ہمیشہ کے لیے ٹال نہیں سکے گا اور اگر وہ دوسری مد ت کے لیے منتخب ہوبھی جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری اسی پر عائد ہو گی۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے رستے موجود نہیں اور یہ ایک لمبے عرصے تک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
شرحِ سود پہلے ہی انتہائی کم ہے اور مقداری آسانی کا حربہ بھی ناکارہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ چینی معیشت سمیت دیگر ”ابھرتی ہوئی معیشتوں“ نے پچھلی دفعہ بحران میں عالمی معیشت کو ایک بڑا سہارا دیا تھا لیکن وہ سب اس وقت خود ایک گہرے مالیاتی اور صنعتی بحران کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں آنے والا بحران نہ صرف ایک دہائی پہلے آنے والے بحران سے بڑا اور گہرا ہوگا بلکہ اس کی وسعت بھی کہیں زیادہ ہوگی اور یہ پوری دنیا کو اس کی جڑوں سے ہلا کر رکھ دے گا۔
سیاسی وسماجی اثرات
ایک نئے عالمی مالیاتی بحران کی آمد سے قبل ہی دنیا بھر میں محنت کش عوام کی زندگیاں جہنم بن چکی ہیں اور وہ اس کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور عوام کے معیارِ زندگی میں تیز ترین کمی ہورہی ہے۔ علاج اور تعلیم جیسی سہولیات ان ترقی یافتہ ممالک میں بھی عوام کے ایک بڑے حصے کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں اور ان ممالک میں بھی غربت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ ایسے ممالک جن کی فلاحی ریاستوں کو پہلے پسماندہ ممالک کے عوام کے سامنے مثال بنا کر پیش کیاجاتا تھا اور سرمایہ داری کی تعمیر کی گئی جنت کے طور پر دکھایا جاتا تھا وہاں آج محنت کش دو سے تین نوکریاں کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ کوڑے سے رزق تلاش کرنے والے افراد میں اضافہ ہورہاہے اور بے گھر افراد کی تعداد بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس دوران امارت اور غربت کی خلیج میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور امیر ترین ایک فیصد کی دولت کئی گنا بڑھ چکی ہے جبکہ غریب ترین پچاس فیصد کی غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق2017ء میں دنیا میں پیدا ہونے والی کُل دولت کا 82فیصد امیر ترین ایک فیصد افرادکی ملکیت میں چلا گیا تھا۔ اسی طرح 2017ء کی ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ کے امیر ترین تین افراد جیف بیزوس، بل گیٹس اور وارن بوفے کی دولت اور امریکہ کی نچلی نصف آبادی یعنی سولہ کروڑ افراد کی دولت برابر ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے آغاز پر ہی سرمایہ داروں کو بڑے پیمانے پر ٹیکسوں میں چھوٹ دی تھی اور کارپوریٹ ٹیکس 35 فیصد سے اچانک کم کر کے 21 فیصد کر دیا گیا تھا۔ اس سے ان سرمایہ داروں کے منافعے کئی گنا بڑھ گئے تھے لیکن اس کی تمام تر پالیسیوں سے عوام کی حالت بد تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی سماج میں جہاں جرائم میں اضافہ ہورہا ہے اور نفسیاتی امراض بڑھ رہے ہیں وہاں نسلی اور جنسی تعصب بھی بڑھ رہا ہے۔ ان تعصبات کو بڑھانے میں خود ٹرمپ کے اپنے بیانات اور اس کی پالیسیوں کا بھی بھرپور عمل دخل ہے۔ مغربی دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صورتحال بھی مختلف نہیں اور وہاں بھی فٹ پاتھوں پر زندگیاں گزارنے والے اور بغیر علاج کے مرنے والے مقامی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
لیکن یہ تمام تر صورتحال جہاں ہر جانب سماج میں شدید بے چینی اور ہیجان پیدا کر رہی ہے وہاں اس کے اثرات سماج کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ کا بطور صدر منتخب ہونا ہی دراصل اس تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے جب عوام نے بائیں جانب ہیلری کلنٹن کا کوئی متبادل نہ ہونے کی صورت میں اپنی نفرت کااظہار ٹرمپ کو ووٹ دے کر کیا تھا کیونکہ وہ انتہائی دائیں بازو کے نقطہئ نظر سے اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیٹس کوکیخلاف تقریریں کر رہا تھا۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی سیاست میں کسی قسم کا استحکام نہیں آ سکا اور نہ ہی حکمران طبقے کی سیاست پر گرفت مضبوط ہو سکی ہے۔ بلکہ اس وقت امریکی سماج میں لاکھوں نوجوان سوشلزم کے نظریات سے متاثر ہو رہے ہیں اورایک سروے کے مطابق آبادی کے 44 فیصد حصے کا خیال ہے کہ امریکی صدر ایک سوشلسٹ کو ہونا چاہیے۔ اسی صورتحال میں بہت سے سیاستدان خود کو سوشلسٹ کہتے ہوئے میدان میں کود چکے ہیں جن میں برنی سینڈرز جیسا اصلاح پسند سر فہرست ہے۔ وہ پہلے بھی عوام کو دھوکہ دے چکا ہے جب وہ ہیلری کلنٹن کے حق میں دستبردار ہو گیا تھا اور اب دوبارہ دھوکہ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے خود ساختہ سوشلسٹ میدان میں اتر چکے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ میں چار منتخب اراکین کانگریس اس وقت ایسے ہیں جو خود کو سوشلسٹ کہتے ہیں جن میں حالیہ منتخب ہونے والی تین خواتین بھی شامل ہیں جو ٹرمپ کے اخلاق سے گرے ہوئے متعصب بیانات کا مسلسل ہدف بھی بنتی رہتی ہیں۔
لیکن اہم یہ ہے کہ سماج میں اس وقت بڑے پیمانے پر تحریکیں موجود ہیں جو ایک گہری بے چینی اور افرا تفری کا اظہار کرتی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے ہونے والے مظاہروں سے لے کر ماحولیات کے بچاؤ کے لیے ہونے والے لاکھوں افراد کے مظاہرے سماج میں آنے والی اس بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں جس نے ہر چیز کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں کچھ دہائیاں قبل کمیونزم اور سوشلزم کا نام لینا بھی سخت ترین جرم قرار دیا گیا تھا اور ایسے خیالات کا شائبہ تک ہونے پر سخت ترین سزائیں دی جاتی تھیں۔ لیکن آج اسی ملک میں نوجوانوں کی بھاری اکثریت سوشلزم کا نعرہ بلند کر رہی ہے اور کھل کر سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف اپنی نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ نظریاتی لڑائی مزید شدت اختیار کرے گی اور حکمران طبقہ سیاست کو واپس اپنے کنٹرول میں لینے کی جتنی کوشش کرے گا اتنا ہی وہ اس سے دور ہوتی چلی جائے گی اور آبادی کا پہلے سے بھی بڑا حصہ سیاسی میدان میں براہ راست شرکت کرتے ہوئے اپنے حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھائے گا۔ خاص طور پر آنے والا مالیاتی بحران اس سیاسی اور سماجی عمل میں ایک معیاری تبدیلی پیدا کرے گا اور طبقاتی کشمکش اپنی انتہاؤں تک پہنچنے کی جانب بڑھے گی۔
بریگزٹ
عالمی سطح پر اگر نظام کے زوال اور اس کے سیاست اور سماج پر اثرات کا جائزہ لینا ہوتو اس وقت اس کی بہترین مثال برطانیہ ہے۔ ایک وقت میں پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والا یہ ملک آج بھی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت اور مالیاتی سرمائے کا اہم ترین مرکز ہے۔ اس ملک کو دنیا میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ماں بھی کہا جاتا ہے اور یہاں پر موجود پارلیمنٹ کو دنیا کے مختلف ممالک میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس ملک کی جمہوریت کی بنیادیں اکھڑ رہی ہیں اور ہر جانب ایک سیاسی خانہ جنگی کی سی کیفیت نظر آتی ہے۔ تین سال قبل ہونے والے بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج کے بعد سے ابھی تک یہ ملک فیصلہ نہیں کر پایا کہ اس نے یورپ سے کن شرائط پر الگ ہونا ہے۔ اس عمل کے دوران دو وزیر اعظم استعفیٰ دے چکے ہیں جبکہ تیسرے کا اقتدار کچے دھاگے سے لٹک رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکمران طبقے کے ایک حصے کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح دوبارہ ریفرنڈم کروا کر یورپی یونین کا حصہ ہی رہا جائے لیکن ان کو کوئی رستہ دکھائی نہیں دے رہا۔
اس ملک کا حکمران طبقہ گزشتہ چار سو سال سے جس پارٹی کو عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے اس وقت وہ تباہ و برباد ہو چکی ہے اور اس کا تانا بانا بکھر گیا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی، جسے ٹوری پارٹی بھی کہا جاتا ہے، عملاًختم ہو چکی ہے اور حکمران طبقے کے لیے ناقابل استعمال ہے۔ بورس جانسن جیسے مضحکہ خیز شخص کا وزیر اعظم بننا ہی اس پارٹی کے بحران کی عکاسی کرتا ہے لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد اس نے اپنے مخالف 21 سینئرپارٹی ممبران کی رکنیت منسوخ کر دی ہے جو ممبران پارلیمنٹ بھی ہیں اور وہ اب آئندہ انتخابات میں پارٹی کی جانب سے حصہ نہیں لے سکیں گے۔ یہ تمام پارٹی کے سینئر ترین ممبران تھے اور پارٹی میں انہیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل تھی۔ ان میں اکثر مختلف وزارتوں کو بھی سنبھالتے رہے ہیں اور دو کچھ عرصہ قبل وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ لیکن بورس جانسن نے انہیں پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ کرتے ہوئے درحقیقت پارٹی کی بنیادوں پر حملہ کر دیا ہے اور اسے ایک پاپولسٹ پارٹی بنا دیا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ بورس جانسن نے پارلیمنٹ کے اجلاس کو ایک مہینے کے لیے ملتوی کر دیا ہے اور اس کام کے لیے اسے ملکہ سے اجازت بھی مل گئی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی رائے کو بریگزٹ جیسے حساس معاملے میں روکنے کے لیے اس نے یہ اقدام اٹھایا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی کا فیصلہ ملک پر مسلط کر سکے۔ اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ یہ بنیادی جمہوری حقوق پر حملہ ہے اور جمہوریت کی جگہ آمریت مسلط کر دی گئی ہے۔ اس عمل میں ملکہ کے عوام دشمن کردار پر بھی بحث کھل گئی ہے اور اس ہیرے جواہرات سے لدی غیر منتخب خاتون کے اس غیر جمہوری اقدام کی توثیق کرنے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ درحقیقت، برطانیہ کے جمہوری نظام پر ہی سوالات اٹھ رہے ہیں جس میں پارلیمنٹ کے علاوہ ایک غیر منتخب بالائی ادارہ بھی شامل ہے جسے ہاؤس آف لارڈزکہا جاتا ہے۔ برطانیہ میں کوئی تحریری آئین موجود نہیں اور تمام معاملات روایت کے مطابق چلائے جاتے ہیں لیکن ایسے بحرانی حالات میں پورے سیاسی نظام کی بنیادیں ہی ہل گئی ہیں اور برطانوی جمہوریت خود ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
بورس جانسن نے دوماہ قبل وزیر اعظم بنتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ 31اکتوبر کو ہر صورت برطانیہ کو یورپ سے نکال لے گااور اگر اس دوران کوئی معاہدہ نہیں بھی ہوتا تو اسے کوئی پرواہ نہیں اور وہ بغیر معاہدے کے ہی اس طلاق کو عملی جامہ پہنائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ہر طرف افرا تفری پھیل گئی اور منڈیوں میں ہیجان نظر آیا۔ کیونکہ اگر بغیر کسی معاہدے کے یہ طلاق ہوتی ہے تو برطانیہ کی یورپ سے تمام تر تجارت ایک دم ختم ہو جائے گی اور سرحدوں پر کسی بھی قسم کے کسٹم حکام اور دیگر عملے کی عدم موجودگی کے باعث کوئی بھی سامانِ تجارت ملک کے اندر یا باہر نہیں جا سکے گا۔ ایسے میں تمام کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور اشیائے ضرورت کی قلت پیدا ہونے کا شدید خدشہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے پہلو ہیں جن سے یہ ”بغیر معاہدے“ کے علیحدگی برطانوی معیشت کو شدید بحران کا شکار کر دے گی۔
اسی کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ کا قومی مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے جو ایسی صورتحال میں شدت اختیار کر جائے گا۔ آئرلینڈ اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہے جن میں سے ایک حصہ آزادجمہوریہ آئرلینڈ کا ہے جو یورپی یونین کا ممبرہے جبکہ دوسرا حصہ شمالی آئرلینڈ کا ہے جو برطانیہ کا حصہ ہے۔ جب تک برطانیہ یورپی یونین کا حصہ ہے اس وقت تک ان دونوں حصوں میں سرحد صرف نام کی حد تک ہی ہے اور تجارت کے ساتھ ساتھ دونوں جانب کے شہریوں کی آمد و رفت پر بھی کوئی قدغن نہیں۔ لیکن بریگزٹ کے بعد ویزا کی ضرورت پڑے گی اور تجارت کے لیے بھی کسٹم ڈیوٹی وغیرہ عائد کی جائے گی۔ ایسے میں آئر لینڈ میں قومی وحدت کے ٹوٹنے کا احساس جنم لے رہا ہے جس کو حل کرنے کے لیے برطانوی حکمران یورپی یونین سے اس سلسلے میں رعایت کے طلبگار ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی قابل قبول حل نہیں نکالا جاسکا اور اگر بغیر کسی معاہدے کے بریگزٹ ہوتا ہے تو یہ قومی مسئلہ پوری شدت کے ساتھ سر اٹھائے گا اور برطانوی ریاست کے بحران کا باعث بنے گا۔ سکاٹ لینڈ میں بھی علیحدگی پسند مقبولیت حاصل کر چکے ہیں اور وہاں بھی علیحدگی کے ایک نئے ریفرنڈم کی آواز اٹھائی جا رہی ہے تاکہ سکاٹ لینڈ یورپی یونین کا حصہ رہ سکے۔ بریگزٹ کے بعد یہ آواز زیادہ پذیرائی حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن بورس جانسن اس تمام صورتحال میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنے ان حمایتیوں کے ووٹ پکے کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو بریگزٹ کے شدید حامی ہیں اور اسی کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ اگر وہ صرف بریگزٹ کے حامیوں کے ووٹ حاصل کر لے جو اس وقت ٹوری پارٹی اور لیبر پارٹی سمیت ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں، تو وہ دوبارہ انتخابات جیت سکتا ہے اور وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ اس وقت رائے عامہ کے مختلف سروے بھی اس کو یہی بتا رہے ہیں کہ اس عمل سے اس کی بریگزٹ کے حامیوں میں مقبولیت بڑھ رہی ہے۔
دوسری جانب لیبر پارٹی ہے جسے برطانیہ کا حکمران طبقہ ایک صدی سے زائد عرصے سے اپنی بی ٹیم کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے۔ جب عوام ٹوری پارٹی سے تنگ آ جاتے تھے تو انہیں متبادل کے طور پر لیبر پارٹی پیش کی جاتی تھی جس پر مزدور طبقے کی بجائے حکمران طبقے کے نمائندے ہی براجمان تھے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور لیبر پارٹی کی راہنمائی مزدوروں کے نمائندے جیرمی کوربن کے ہاتھوں میں آئی ہے۔ کوربن کے خلاف حکمران طبقے نے کئی سازشیں کی ہیں اور لیبر پارٹی کے اندر موجود غداروں کے ذریعے اسے ہٹانے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا اور دیگر ذرائع سے بھی اس پر بدترین جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کی گئی ہے اور اس پارٹی کا کنٹرول کوربن سے چھین کر دوبارہ اپنے کاسہ لیسوں کو دینے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن اس تمام عمل میں کوربن کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے اور اس کے انتخابات جیتنے کے امکانات بڑھتے چلے گئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ کوربن کی جانب سے پیش کیا جانے والا نیم سوشلسٹ پروگرام ہے جس میں وہ دولت مند افراد پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگانے کی باتیں کر رہا ہے جبکہ عوام کے لیے علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات مفت فراہم کرنے کا نعرہ لگا رہا ہے۔ گوکہ اس کا پروگرام سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی اصلاحات کرنے کا ہے جو نظام کے بحران کے باعث قابل عمل دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کے باوجود اپوزیشن میں رہتے ہوئے یہ ریڈیکل نعرے بازی اس کی مقبولیت میں اضافہ کر رہی ہے اور محنت کش عوام کی زیادہ سے زیادہ پرتیں اس کی حمایت کر رہی ہیں۔ کوربن نے بڑے پیمانے کی نیشنلائزیشن کا پروگرام بھی دیا ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کے مالکان کے منافعوں کو کم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے جبکہ مزدوروں کی اجرتوں میں خاطر خواہ اضافے اور نیا روزگار پیدا کرنے کی بات کی ہے۔ اس سلسلے میں اسے پارٹی کے اندر موجود دائیں بازو سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے لیکن عوامی حمایت سے وہ اس کا مقابلہ کر تے ہوئے ابھی تک انہیں شکست دے رہا ہے۔ کچھ دائیں بازو کے اراکین پارٹی چھوڑ کے جا چکے ہیں جبکہ ممکن ہے کہ باقیوں کو آئندہ انتخابات میں پارٹی کا الیکشن ٹکٹ نہ ملے۔ کوربن اگر اس دائیں بازو کیخلاف فیصلہ کن کاروائی نہیں کرتا تو اسے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
بریگزٹ کے معاملے پر کوربن کا جھکاؤ یورپی یونین کے اندر رہنے کی طرف ہے لیکن باہر نکلنے کے حوالے سے بھی وہ کسی ٹھوس پروگرام اور معاہدے پر اتفاق رائے بنانے کی وکالت کر رہا ہے۔ اسی لیے اس کا پروگرام ہے کہ سب سے پہلے بورس جانسن پر پارلیمنٹ میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے دباؤ ڈالتے ہوئے 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن کو تین ماہ کے لیے مؤخر کروایا جائے اور ان تین ماہ میں نئے انتخابات منعقد کروائے جائیں تاکہ نئی منتخب حکومت بریگزٹ کے معاہدے کو تشکیل دے سکے۔ اس سلسلے میں بریگزٹ کے لیے ایک نئے ریفرنڈم کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ لیکن تمام تر صورتحال واقعات کے رحم و کرم پر ہے اور کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں تک کہ اگر نئے انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو بھی یقین سے کہنا ممکن نہیں کہ کون جیتے گااور یہ کہ اگر دوبارہ ہنگ یا بکھری ہوئی پارلیمنٹ منتخب ہو گئی تو برطانیہ کا مستقبل کیا ہوگا؟
یہ صورتحال حکمران طبقے کے لیے پریشان کن ہے اور وہ سیاست پر اپنا کنٹرول مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔ اس تمام عمل میں معیشت ہچکولے کھا رہی ہے اور ایک کے بعد دوسرے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ ان دو پارٹیوں کے علاوہ موجود دیگر پارٹیوں میں بھی ٹوٹ پھوٹ جاری ہے اور درحقیقت برطانیہ کی تمام تر پرانی سیاست کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ لیکن یہ عمل اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہوگا اور سیاسی عمل میں عوام کی بھرپور مداخلت نظر آئے گی۔ اس صورتحال میں ایک نیا مالیاتی بحران عمل انگیز کا کام کرے گا۔ اس بحران میں برطانیہ کی سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست کی بنیادیں بھی لرز رہی ہیں۔ حکمران طبقے کے اپنے دانشور اس صورتحال کا موازنہ 1641ء میں ہونے والی خانہ جنگی سے کر رہے ہیں جب پارلیمنٹ کو آخری دفعہ بند کیا گیا تھا۔ اس خانہ جنگی میں ایک بادشاہ کا سر بھی قلم ہوا تھا۔ انگلستان کے اس بورژوا انقلاب کے بعد برطانوی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں استوار کی گئیں تھیں جس نے پھر بعد ازاں آدھی دنیا پر اپنا پرچم لہرایا تھا۔ اس انقلاب کی یادیں جان بوجھ کر بھلا دی گئیں تھیں لیکن موجودہ صورتحال میں یہ بحث ایک دفعہ پھر میڈیا میں دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں واضح ہے کہ آنے والا عرصہ بہت بڑی عوامی تحریکوں اور انقلابات کا عرصہ ہو گا جس میں برطانیہ کا محنت کش طبقہ کلیدی کردار ادا کرنے کی طرف جائے گا۔
ہانگ کانگ
ہانگ کانگ میں جاری حالیہ عوامی تحریک نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ 74لاکھ کی آبادی کے علاقے میں گزشتہ عرصے میں تیس لاکھ افراد کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے ہیں جسے پولیس اور سکیورٹی فورسز نے بد ترین تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن تمام تر ریاستی جبراور حملوں کے باوجود یہ تحریک ابھی تک جاری ہے۔
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے چین کو دنیا میں کامیابی کا نمونہ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا اور اس کی معاشی ترقی کو سرمایہ داری کا معجزہ قرار دیا جا رہا تھا۔ چین کے حکمران بھی اپنی طاقت کے نشے میں مست تھے اور سامراجی کردار اپناتے ہوئے مختلف ممالک میں اپنے پنجے گاڑنے کا آغاز کر چکے تھے۔ تجارتی جنگ میں چین کے حکمران امریکی حکمرانوں کو بھی مشکلات سے دوچار کیے ہوئے ہیں اور اسے عالمی سطح پر ایک ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ لیکن اس کی تمام تر رعونت اور طاقت کی بنیادیں انتہائی کمزور ہیں اور یہ چین کے محنت کشوں کے بد ترین استحصال پر مبنی ہیں۔ چین کے حکمرانوں نے منصوبہ بند معیشت کے دور میں تعمیر کردہ انفرااسٹرکچر اور اپنے ملک کی ہنر مند محنت کو دنیا بھر کے سرمایہ دار گِدھوں کے نوچنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جنہوں نے ان محنت کشوں کو مزید غربت اور ذلت میں دھکیلتے ہوئے ہوشربا منافع کمائے۔ اس دوران چین کے حکمران طبقے نے بھی اپنی دولت اور طاقت میں کئی گنا اضافہ کیا۔ اس سارے عمل میں چین میں بھی امارت اور غربت کی ایک وسیع خلیج پیدا ہوئی جس میں ایک طرف تعیش اور دولت کے انبارلگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب کروڑوں لوگ انتہائی غربت اور تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے۔ مارکسی تجزیہ نگار پہلے سے کہہ رہے تھے کہ یہ طبقاتی کشمکش جلد یا بدیر سطح پر اپنا اظہار کرے گی اور چین کا محنت کش طبقہ پوری قوت سے دنیا کے اسٹیج پر اپنی طاقت کا لوہا منوائے گا۔
اس تمام عمل کا سب سے پہلا اظہار ہانگ کانگ میں نظر آتا ہے جو معاشی اور سماجی حوالے سے چین کا سب سے ترقی یافتہ خطہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں چین کے قوانین بھی پوری طرح لاگو نہیں ہوتے اور چینی ریاست کی عملداری پوری طرح موجود نہیں اور ایک مختلف سیاسی نظام کے تحت اسے چلایا جاتا ہے لیکن یہ بھی چین کی طرح غیر منتخب نمائندوں پر ہی مشتمل ہے۔ اس الگ نظام کو چین مغربی دنیا سے تجارت کے لیے بھی استعمال کرتا ہے اورمغربی ممالک کے نیو لبرل تقاضوں کوپورا کرنے کے لیے ہانگ کانگ کے انتظامی ڈھانچے کا سہار الیتے ہوئے یہاں کی اسٹاک ایکسچینج کو باقی دنیا سے مالیاتی تعلق استوارکرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے چین کے حکمران ہانگ کانگ کو چین کے دیگر صنعتی علاقوں سے منسلک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت ایک نیا پل بھی تعمیر کیا گیا ہے جو سمندر پر دنیا کا سب سے لمبا پل ہے جس کی لمبائی 55کلومیٹر ہے۔ 18.8 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس پل کے ذریعے ہانگ کانگ کو ماکاؤ سمیت دیگر صنعتی شہروں سے جوڑ دیا گیا ہے تاکہ تجارت کو فروغ دیا جا سکے اور ہانگ کانگ کامین لینڈ چین کے ساتھ رشتہ بھی مضبوط کیا جاسکے۔
لیکن ہانگ کانگ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے چین نے اس سال کے آغاز پر یہاں کی نام نہاد اسمبلی میں ایک نیا قانون پیش کروایا جس کے تحت ہانگ کانگ کے شہریوں کوبھی چینی پولیس حراست میں لے سکتی ہے اور انہیں ہانگ کانگ سے گرفتار کر کے مین لینڈ چین میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اس قانون کا اصل مقصدان افراد کو گرفتار کرنا ہے جو ہانگ کانگ میں رہتے ہوئے چین کے حکمران طبقے کے جرائم پر تنقید کرتے ہیں اور چین میں ہونے والی محنت کشوں کی ہڑتالوں کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس سال مارچ میں اس قانون کے پیش ہونے کیخلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور اس کی شدید مخالفت کی۔ پویس کے تمام تر جبر کے باوجود یہ مظاہرے جاری ہیں اور حکومت کی جانب سے یہ قانون واپس لینے کے اعلانات کے باوجود مظاہرے ختم نہیں ہو ئے۔ ان مظاہروں کے دوران ایک روزہ عام ہڑتال کی کال بھی دی گئی تھی جس پر جزوی طور پر عملدرآمد بھی ہوا تھا۔ اس دوران ہانگ کانگ کی قومی ائرلائن کے ملازمین نے ہڑتال میں بھرپور حصہ بھی لیا تھا۔ اب مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لیم مستعفی ہو اورعلاقے میں جمہوریت کا نفاذ کیا جائے۔ اس کے علاوہ گرفتار مظاہرین کی رہائی اور تشدد کرنے والے پولیس افسران کیخلاف سخت کاروائی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
مظاہرین کی اس وقت کوئی واضح قیادت موجود نہیں اور نہ ہی کوئی پارٹی ان مظاہروں کو منظم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ بہت سے نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے ان مظاہروں کو مل کر منظم کرتے ہیں جس کے باعث انہیں سکیورٹی فورسز کو شکست دینے میں آسانی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ تحریک کی کمزور ی کی علامت بھی ہے اور تحریک ابھی تک کوئی واضح سمت اختیار نہیں کر سکی۔ کچھ مظاہرین امریکہ سے بھی درخواستیں کر رہے ہیں کہ وہ ان کی مدد کرے جو اس عوامی تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ امریکی سامراج کے چین کے حکمران طبقے سے اختلافات ضرور ہیں لیکن ان کے مفادات اسی نظام سے وابستہ ہیں جنہیں یہ تحریک ناکامی سے دوچار کر رہی ہے۔ چین کے حکمران طبقے کو یہ خوف ہے کہ یہ تحریک مین لینڈ چین میں پھیل سکتی ہے اور خود چین کے اندر کروڑوں محنت کش اسی طرز پر بنیادی مطالبات کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔ جو حکمران طبقہ پہلے ہانگ کانگ کو چین کے ساتھ مزید جوڑنے کا خواہشمند تھا اب اس تحریک کو باقی خطے سے کاٹ کر کچلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دوران اس تحریک کے اثرات تائیوان میں بھی مرتب ہورہے ہیں جو تائیوان کی امریکی پشت پناہی سے قائم حکومت اورچین کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ لیکن دونوں علاقوں کے حکمران مشترکہ طور پر ان تحریکوں سے خوفزدہ ہیں اور پوری قوت سے انہیں کچلنے کی کوشش کریں گے۔ جبکہ دوسری جانب اس خطے کا محنت کش طبقہ اپنی عظیم انقلابی روایات کو دہراتاہوا اس خطے کے حکمران طبقے کے خلاف ناگزیر طور پر سیاسی میدان میں عملی قدم رکھے گا اور انہیں اکھاڑ پھینکنے کی جانب بڑھے گا۔ آنے والے عرصے کے معاشی اور سیاسی حالات بہت بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ ہیں جو ان بظاہر مضبوط اور طاقتور نظر آنے والی ریاستوں اور سامراجی حکمرانوں کو تنکوں کی طرح اڑا کر رکھ دیں گے۔
بریگزٹ ہو یا ہانگ کانگ میں متعارف ہونے والا عوام دشمن نیا قانون، یہ نظام کے نامیاتی بحران کے باعث اس وقت سماج میں موجود آتش گیر مادے کے لیے محض چنگاریاں ہیں۔ اس وقت ہر طرف ایسی صورتحال ہے کہ طبقاتی تضادات اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں پھٹنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی ایک واقعہ محض ماچس کی تیلی کا کردار ادا کرتا ہے جوسماج میں ایسی آگ لگاتا ہے کہ پوری صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ تیلیاں اور چنگاریاں خواہ معاشی بحران سے آئیں یا سیاسی بحران سے، یہ محض ایک نئے عمل کے آغاز کا باعث بنتی ہیں جو سماج میں موجود مختلف طبقات میں بٹی زندہ طاقتوں کے ٹکراؤ سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ عرب انقلابات کا آغاز تیونس میں ایک بیروزگار نوجوان کی خود کشی سے ہوا تھا لیکن اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں جس دیو ہیکل عمل کا آغاز ہوا وہ مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ ابھی تک جاری ہے۔ آنے والے بحرانوں میں سیاسی اور سماجی تبدیلیاں زیادہ وسیع پیمانے پروقوع پذیر ہوں گی اور زیادہ گہری شکل میں اپنا اظہار کریں گی۔ سیاست کا پینڈولم انتہائی دائیں سے انتہائی بائیں جانب حرکت کرتا ہوا نظر آئے گا۔ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں مارکسی نظریات سے لیس بالشویک پارٹی کی طرز پر ایک انقلابی پارٹی کسی بھی ایک ملک میں موجود ہوتی ہے تو وہ پوری دنیا میں جاری اس عمل کو اس کے منطقی انجام کی جانب لے جا سکتی ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرسکتی ہے۔ درحقیقت، آج کی نوجوان نسل کا سب سے اہم فریضہ یہی ہے کہ وہ اس انقلابی پارٹی کی تعمیر کرتے ہوئے اس عظیم انقلاب کو برپا کریں اور دنیا کو اس خون میں لتھڑے ہوئے، ظلم اور جبر پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام سے نجات دلائیں۔