انڈونیشیا: اومنی بس قانون کے خلاف عوامی مظاہرے

|تحریر: عالمی مارکسی رجحان انڈونیشیا، ترجمہ: سرخا|

انڈونیشیا میں 6 سے 8 اکتوبر کے دوران اومنی بس قانون کے نفاذ کے خلاف عوامی احتجاج اور ہڑتالیں شروع ہوگئیں۔ یہ ردِ اصلاحات کا ایک قانون ہے جسے ”بگ بینگ“ قانون بھی کہا جاتا ہے۔ مزدوروں نے ہزاروں کی تعداد میں ہڑتال کی اور درجنوں شہروں میں طلبہ سڑکوں پر آ گئے جہاں پر ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

اومنی بس قانون یقینا انڈونیشیا کی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا آج تک کا سب سے بڑے اصلاحاتی قانون ہے جس پر ”بگ بینگ“ کا نام صادق آتا ہے۔ یہ نیا قانون 79 قوانین سمیت مزدوروں کے متعلق ہزاروں ضوابط، ماحولیاتی تحفظ، زمین، زراعت، جنگلات اور سرمایہ کاری وغیرہ کے متعلق قوانین کے اندر ایک ہی جھٹکے میں ترمیم کرتا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اومنی بس قانون کے ذریعے ملک کی سست رو معیشت میں بہتری آئے گی۔ درحقیقت اس قانون کا اصل مقصد سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ اس لیے اس کے ذریعے ماحولیاتی تحفظ کے قوانین ختم کر دیے گئے ہیں تاکہ کارخانوں اور کان کنی کی کمپنیوں کے لیے جنگلات کی کٹائی آسان بنا دی جائے۔ یہ قانون مزدوروں کے تحفظاتی اقدامات اور کم از کم اجرت کو ختم کرتا ہے، برطرفی کے بعد دی جانے والی اجرت کو کم کرتا ہے اور کسانوں اور علاقائی لوگوں سے ان کی اپنی زمینیں چھین لیتا ہے۔ یہ محنت کش عوام پر حملوں کا ایک بے مثال سلسلہ ہے اور اسی وجہ سے حالیہ عوامی مزاحمت کی بھی مثال نہیں ملتی۔

پارلیمنٹ میں اس قانون کے حوالے سے بحث 8 اکتوبر کو شروع ہوئی مگر جلدی میں کئے گئے غیر اعلانیہ اجلاسوں کے تحت اسے 5 اکتوبر کو ہی منظور کر لیا گیا تھا۔ حکومت خفیہ طور پر اسے نافذ کر کے بڑے پیمانے کے عوامی مظاہروں کو روکنا چاہتی تھی مگر ان کی یہ چال کارگر ثابت نہ ہو پائی اور اس کی بجائے عوام کے ابلتے ہوئے غصّے کے لیے اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

مزدوروں نے بڑے پیمانے پر تحرک میں آ کر صنعتی علاقوں میں فوری رد عمل کا اظہار کیا اور 6 سے 8 اکتوبر تک تین روزہ عام ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ ملک بھر کے مختلف شہروں میں محنت کش سڑکوں پر آ گئے۔ بہت سے صنعتی علاقوں جیسے کاروانگ، سوکابومی، بیکاسی، تانگیرنگ کے ہڑتالوں میں مظاہرین نے کارخانوں کے مالکان پر شدید غصّے کا اظہار کیا جو محنت کشوں کو اس قانون کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ بہت سے کارخانوں کے دروازے گرا کر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی۔

مگر ایک چیز، جس نے حکومت کو شدید ہلا کر رکھ دیا، وہ نوجوانوں، یونیورسٹی اور سکول کے طلبہ کی انقلابی شمولیت تھی۔ خصوصاً سکول کے طلبہ کسی تنظیم یا قیادت کی عدم موجودگی میں تقریباً ہر بڑے شہر کے اندر سڑکوں پر آ گئے اور تحریک کا ہر اول دستہ بن کر پولیس کے جبر کا مقابلہ کرتے رہے۔

یہ مظاہرے انڈونیشیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے جس نے 18 صوبوں اور 70 شہروں اور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں کیا۔ ہر جگہ پر تشدد جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔ ٹی وی پر تین دن تک آنسو گیس اور جلتے ہوئے پولیس اسٹیشنوں کے مناظر دکھائے جاتے رہے۔ ہزاروں نوجوان بچوں کی مار پیٹ کر کے انہیں پولیس گاڑیوں میں پھینکا گیا۔ ان مظاہروں کا پیمانہ، توانائی اور شدت 2019ء کی تحریک (#reformasidikorupsi) سے کئی گنا بڑھ کر تھی۔

نوجوان سب سے آگے

کورونا وباء کے بعد اومنی بس قانون قوم کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایسے حالات میں جب عالمی معیشت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، حکومت اور بورژوازی کی نمائندگی کرنے والا یہ قانون سرمایہ کاری کے ساتھ منافعوں کو بھی یقینی بناتا ہے۔ اومنی بس قانون کو 2008ء سے گہرے ہوتے ہوئے بحران کے پیشِ نظر منظور کیا گیا جس کو کورونا نے مزید بڑھاوا دیا ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ انڈونیشین اکنامک پراسپکٹس میں لکھا ”ملک میں نئی کمپنیوں کے داخلے کے لیے حالات سازگار کرنے ہوں گے جو لمبی مدت کی سرمایہ کاری کے مسائل کو حل کرنے سے ممکن ہے۔ حکومت ان مسائل پر اومنی بس قانون کے ذریعے قابو پا سکتی ہے۔“

مگر محنت کش عوام، مزدوروں، کسانوں اور مقامی لوگوں کے لیے اس قانون کو نافذ کرنے کا مطلب گرتا ہوا معیار زندگی ہے کیونکہ ایک طرف سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافے کا مطلب دوسری جانب باقی محنت کشوں کے لیے اذیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس عمل کے نتائج مختلف ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر بحران کی قیمت سرمایہ دار نہیں ادا کرتے تو اس کا بوجھ محنت کش عوام کے کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔


اس قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں عوام نے غیر مستحکم معاشی اور سماجی حالات کے حوالے سے بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ نوجوان جو سماج کا بیرومیٹر ہوتے ہیں، نے سڑکوں پر آ کر سماجی کیفیت کا فوری اظہار کیا۔ حکومت اور میڈیا کو اس عمل نے حیرت میں ڈال دیا اور وہ سوچنے لگے کہ نئی نوجوان نسل جس کو اومنی بس قانون سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا، وہ کیوں سڑکوں پر آ کر اس کی مخالفت کرنے لگ گئے ہیں؟ مگر وہ بھول گئے کہ یہ نوجوان مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کے ہی بچے ہیں جن کو ہر روز اپنے ماں باپ کی فریادیں سننی پڑتی ہیں اور یہ نوجوان بھی ایک دن محنت کش بنیں گے۔

ہمیشہ کی طرح حکمران طبقہ کچھ بھی نہیں سمجھ پا رہا۔ گولکر پارٹی کے چیئرمن ائیرلنگا نے کہا ”حکومت جانتی ہے کہ مظاہرین کون ہیں اور ان کے پیچھے کون کھڑا ہو کر ان کی سرپرستی کر رہاہے۔ حکومت ان دانشور اداکاروں کے بارے میں جانتی ہے جو ان مظاہروں کے پیچھے کھڑے ہیں۔“ حکمران طبقہ عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھنے کا عادی ہے اور اسی لیے جب وہ آزادانہ طور پر نافذ کی گئی نا انصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو یہ عمل حکمرانوں کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔ در حقیقت حالیہ مظاہروں میں ایک غالب عنصر ”دانشور اداکاروں“، یعنی قیادت کا نہ ہونا تھا۔ اس بات کو ائیرلنگا نے نا دانستہ طور پر خود قبول کیا جب اس نے ملک گیر تحریک پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتا تھا کہ چار بڑی ٹریڈ یونینز کے رہنما اومنی بس قانون کی حمایت میں کھڑے ہیں۔

نوجوانوں سے لیے گئے انٹرویوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض اس ایک قانون کی مخالفت میں نہیں نکلے ہیں۔ زیادہ تر اس کی تفصیلات سے نا واقف ہیں۔ وہ اومنی بس قانون کے محرکات کے خلاف لڑنے نکلے ہیں جو حکومت کی من مانیاں اور عوام کی حالتِ زار کی جانب ان کی بے حسی ہے۔

نوجوان طلبہ کی خود رو مداخلت تحریک میں دھماکہ خیز توانائی لے کر آئی جس نے رسمی طریقہ کار اور سست روی کا خاتمہ کر ڈالا۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے سال سے ہی حالیہ تحریک کے لیے راہ ہموار ہو رہی تھی اور چھوٹے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آ رہے تھے جس سے حکمران طبقے کو کوئی خاص خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اسی لیے حکومت اس بل کو منظور کرنے میں اتنی پر اعتماد تھی جبکہ پارلیمنٹ کے ایک بھی رکن کے پاس اس کا حتمی مسودہ نہیں تھا۔

نوجوانوں کی خود رو توانائی نے سست رو تحریک کو تازہ دم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا جس کا سب سے بڑا فائدہ بیوروکریسی کی طاقت پر قابو پانے کی صورت میں ہوا۔ عوام کی خود رو تحریک نے حکومت کو بھی حیران کر کے رکھ دیا جو اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ حکومت کی بے بسی اور حیرت تحریک کی مضبوط ترین کڑی تھی مگر اس کو کمزور ترین کڑی میں بدلنے میں دیر نہیں لگی۔ جب حکومت نے ہوش کے ناخن لیے اور جبر کے لیے منظم ریاستی مشینری کو متحرک کیا تو نوجوان اپنی بہادری کے باوجود شدید دھچکے کا شکار ہو کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے بعد جبر نے شدت اختیار کی اور پولیس نے مقامی بدمعاشوں اور شر پسند عناصر کے شانہ بہ شانہ بڑے پیمانے کی گرفتاریاں شروع کیں۔ کسی تنظیم، قیادت اور ایک واضح عملی پروگرام کی غیر موجودگی میں خود رو توانائی ضائع ہو گئی اور اس میں بڑھتی ہوئی شدت اور تسلسل کے ساتھ جدوجہد کو برقرار رکھنے کی طاقت ختم ہو گئی۔

مگر ان سب کے لیے ہم نوجوان طلبہ کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے۔ ان سب کی اور قانون کو نافذ ہونے سے روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری مزدور تحریک میں موجود اصلاح پسند قیادت کے سر آتی ہے۔ چار بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشنوں کے رہنماؤں نے اومنی بس قانون کو قبول کیا ہے۔ اس میں KSPI کا رہنما سید اقبال شامل ہے جس نے تین روزہ عام ہڑتال کی کال دی تھی۔ KSPI، KSBSI، KSPSI، Sarbumusi اور کئی دیگر ٹریڈ یونینوں نے پچھلے سال اپنا وقت اور توانائی اپنے ممبران کو لڑنے کے لیے تیار کرنے پر خرچ کرنے کی بجائے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے میں ضائع کی ہے۔ KSPI اور KSPSI کی اس مفاہمت والی حکمت عملی کا کیا نتیجہ نکلا جب انہیں اگست کے اندر حکومت نے ترکیبی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دی؟ انہیں حکومت نے دھوکا دیا اور قانون نافذ کرتے وقت ان سے پوچھا بھی نہیں گیا۔

اگر KSPI قیادت نے عام ہڑتال کی کال بھی دی تو وہ محض اپنی عزت بچانے کے لیے تھی۔ بغیر تیاری کے ملک گیر ہڑتال ناکام ہی ہونی تھی۔ یہ ویسے ہی تھا جیسے گیلی لکڑیوں کو جلانا۔ سید اقبال نے ڈینگیں ماریں کہ 20 لاکھ مزدوروں نے تین دن تک ہڑتال میں شرکت کی۔ مگر زمینی حقیقت یہ تھی کہ ہڑتال سے پیداواری عمل کو مکمل طور پر روکا نہیں گیا۔ کئی کارخانوں میں یونین ممبران کو کام پر جلدی آنے کی ہدایت دی گئی تاکہ کارخانوں کے باہر جمع ہو کر تصویریں لی جا سکیں اور اس کے بعد پھر واپس کام پر جایا جا سکے۔ مزید یہ کہ مزدوروں نے ”ہڑتال میں شرکت“ اپنی شفٹیں تبدیل کرتے ہوئے کی، یا راتوں کو اوور ٹائم کے ذریعے ضائع کیے گئے وقت کی تلافی کے ذریعے کی، یا ایک دو یونین ممبران نے ہڑتال کی ”نمائندگی“ کی اور باقی ممبران کو کام جاری رکھنے کی ہدایات دی گئیں۔ چند کارخانے جس میں حقیقی ہڑتال دیکھنے میں آئی، وہ عام محنت کشوں نے خود منظم کی تھی۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ ایک ایسے عام ہڑتال کو حکومت اور سرمایہ داروں نے نظر انداز کیا۔

غداری

مزدور تحریک کے نام نہاد رہنماؤں نے بار بار لاکھوں مزدوروں کو متحرک کر کے ملک گیر ہڑتالوں اور ریلیوں کی دھمکیاں دی ہیں۔ مگر وقت آنے پر ان دھمکیوں نے توقعات کے مطابق کردار ادا نہیں کیا۔ ملک کے حکمران طبقے نے ایک دفعہ بھی کوئی بڑا خطرہ محسوس نہیں کیا۔ میری ٹائم افیئرز اینڈ انویسٹمنٹ کے وزیر لوہت پنجیتن نے ایک دفعہ اس عام ہڑتال کے خطرے کے پیشِ نظر کہا تھا ”یہ محض باتیں ہیں!“۔ یہ نوجوان ہی تھے جنہوں نے 6-8 اکتوبر کو آگے قدم بڑھا کر سب کی توجہ اومنی بس قانون کے مسئلے کی جانب مبذول کرائی۔

تین روزہ نام نہاد عام ہڑتال کے خاتمے پر سید اقبال نے اپنے بیانیے میں کہا کہ ”یہ جدوجہد، عدالتی جدوجہد اور آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جاری رہے گی“۔ KSPI کی قیادت نے اس بات کو واضح کیا کہ وہ اومنی بس قانون کو آئینی عدالت میں عدالتی کارروائی کے ذریعے چیلنج کرنا چاہتی تھی۔ ان کے فیس بک گروپ میں اس بات پر عام محنت کشوں نے شدید تنقید کی:

’’یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہم آئینی عدالت کے ذریعے نہیں جیت سکتے۔ بہت سے لوگوں کو اس کے ذریعے دھوکا دیا جا چکا ہے۔ ہمیں انقلاب کی ضرورت ہے۔“

’’آئینی عدالت میں الجھے رہنا بے کار ہے۔ ہمیں صدر کا تختہ الٹ کر پارلیمنٹ ہاؤس اور صدارتی محل پر قبضہ کرنے کی ضرورت ہے۔“

”ہمیں کے پی کے قانون سے سیکھنا چاہیئے کہ ہم آئین کے ذریعے نہیں جیت سکتے (پچھلے سال حکومت نے ایک قانون منظور کیا تھا جو رشوت مخالف ادارے کے پی کے کو کمزور کرتی ہے)۔“

”ہمیں ہانگ کانگ اور امریکہ سے اسباق حاصل کرتے ہوئے ایک مہینے سے زیادہ مظاہرے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔“

”ہم اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں، ہمیں عدالتی سمندر میں نہ پھینکا جائے کیونکہ وہاں پر محض پیسے والے جیت سکتے ہیں۔“ وغیرہ، وغیرہ۔

Omnibus Law 2 Image Germartin1

محنت کشوں کی قیادت کی غداری کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ اومنی بس قانون کے پاس ہونے میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔

عام محنت کشوں میں اپنے رہنماؤں کی نسبت واضح اور گہرا طبقاتی رجحان پایا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی تجربے کے ذریعے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ قانون محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہی ہے جس سے اگر کوئی فائدہ حاصل بھی کیا جا سکتا ہے تو وہ طبقاتی جدوجہد کے نتیجے میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔



سید اقبال کے بیانیے میں آخر میں اس بات پر زور دینا سب سے زیادہ شرمناک تھا کہ محنت کشوں کو ”آئینی راستے پر چلتے ہوئے انتشاری عمل سے دور رہنا چاہیئے۔“ یہ ان نوجوانوں کی بہادری اور قربانی کے منہ پر تھوکنے کے مترادف ہے جو آگے بڑھ کر اومنی بس قانون کے خلاف لڑنے میں محنت کشوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ ”انتشاری عمل“ پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے جس طرح حکومت اور سوشل میڈیا پر موجود ان کے زر خرید کر رہے ہیں۔ بلکہ جس چیز کی مذمّت کرنی چاہیئے وہ نوجوانوں کے اوپر پولیس تشدد اور بڑے پیمانے پر مظاہرین کی گرفتاریاں ہیں۔

ہمیں محنت کشوں کی ایک تنظیم چاہیئے جو لڑنے کے لیے تیار ہو۔ اس کے لیے محنت کشوں کی نمائندہ ہر تنظیم میں جمہوری بحث کھولنے کی ضرورت ہے۔ ہر کارخانے میں بڑے پیمانے کے اجلاس منظم کرنے کی ضرورت ہے جس میں مزدوروں کو اومنی بس قانون کو شکست دینے کی بحث اور فیصلہ سازی میں شریک کرنا چاہیئے۔ عام ہڑتال کی تیاریوں کے لیے ہر کارخانے میں ہڑتال کی کمیٹیاں بنا کر اس میں عام محنت کشوں کو شامل کرنا پڑے گا۔ اگر قیادت ایک پر عزم جدوجہد کو شروع کرنے میں شکوک و شبہات اور ہچکچاہٹ کا شکار ہو کر ہدایات جاری کرے تو اس کے یقینا عام محنت کشوں پر منفی اثرات ہی مرتب ہوں گے۔ اومنی بس قانون کے خلاف لڑنے کے لیے نہ صرف حکومت کے خلاف لڑنا پڑے گا بلکہ پہلے اس بیوروکریٹک قیادت کے خلاف اندرونی لڑائی بھی لڑنے کی ضرورت ہے جو محنت کشوں کی جیت میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

سکول کے طلبہ کو اپنی ایک تنظیم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی توانائی کا رخ تحریک کی جانب رہے اور منتشر ہو کر ضائع نہ ہو جائے۔ انہیں طلبہ یونینز قائم کرنے کی ضرورت ہے جو صوبائی اور ملکی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ، اور مزدور یونینز کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں۔ اگر وہ انقلابی نظریے کو بنیاد بنا کر اپنی دیوہیکل توانائی کو منظم کرنے کے لیے استعمال کریں تو وہ ہماری سوچوں سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔

آنے والے عرصے میں حالیہ لڑاکا مظاہروں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ حکومت اس بات سے خوش ہوگی کہ وہ بغاوت کی آگ بجھانے میں کامیاب رہی اور اس کو مزید پھیلنے سے روکے رکھا۔ مگر ان مظاہروں کو محنت کش عوام کے مسائل نے بنیادیں فراہم کی تھیں جو ابھی تک حل نہیں کیے گئے۔ حکومت نے اربوں روپے خرچ کیے ہیں تاکہ محنت کشوں کو یقین دہانی کرائی جا سکے کہ اس قانون سے ان کو فائدہ ہوگا، مگر سیاسی معیشت کی یہ حقیقت ہمیشہ اپنا اظہار کرتی رہے گی کہ سرمائے اور مزدور کے مفاد ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ان کے بیچ مفاہمت نہیں کرائی جا سکتی۔

سرمائے کی نشو و نما کے لیے محنت کشوں کا خون، پسینہ اور آنسو درکار ہوتے ہیں۔ حکومت کا اومنی بس قانون کو منظور کرنا الگ بات ہے مگر اس کو نافذ کر کے یہ توقع رکھنا کہ ملکی معیشت میں بہتری آئے گی بالکل مختلف بات ہے، خصوصاً جب عالمی معیشت ایک ایسے بحران کا شکار ہے جس کا اختتام نظر نہیں آتا۔ سطح کے نیچے عوامی غصّے کا ابلتا ہوا لاوا باہر آنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے اور آنے والے عرصے میں حالیہ جھڑپوں سے بڑی جھڑپیں دیکھنے کو ملیں گی۔ شاید اس کا اظہار ہماری توقعات سے بھی جلدی ہوگا۔

Comments are closed.