|تحریر: آفتاب اشرف|
وہ 10مئی 1857ء کی ایک سرمئی شام تھی۔ دہلی سے 43 میل دور میرٹھ چھاؤنی میں بظاہر سب کچھ معمول کے مطابق نظر آ رہا تھا۔ اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے کمپنی کے فوجی اور سول انگریز افسران کے بنگلوں میں خاصی چہل پہل تھی۔ زیادہ تر بنگلوں میں چھٹی کے روز شام کو سجنے والی محفلوں کی تیاری ہور ہی تھی۔ باغوں میں چہل قدمی کرنے والے انگریز افسران کی چال سے ایک مخصوص خود اعتمادی اور بے فکری جھلک رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ اتوار کسی بھی چھٹی والے دن کی طرح گزر جائے گا۔ لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف تھی۔ سطح پر چھائے سکوت کے نیچے ایک طوفان پنپ رہا تھا اور عنقریب پورا ہندوستان اس کی لپیٹ میں آنے والا تھا۔ انگریز آقاؤں کے اشاروں پر برسنے والی بندوقوں کا رخ اب بدلنے کو تھا۔ ہندوستان کی تاریخ کی سب سے بڑی بغاوت پک کر تیار ہو چکی تھی اور اس کا آغاز میرٹھ چھاؤنی سے ہونے والا تھا۔
سورج ڈھلتے ہی مختلف رجمنٹوں سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی سپاہیوں نے چھاؤنی کی مرکزی جیل پر حملہ کر دیا۔ ان کا مقصد جیل میں قید اپنے ان 85 ساتھیوں کو آزاد کرانا تھا جنہیں کمپنی کی طرف سے جاری کردہ نئے کارتوس استعمال نہ کرنے کی پاداش میں کورٹ مارشل کر کے ایک روز قبل ہی قید کیا گیا تھا۔ جیل حملے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح مقامی سپاہیوں کی بیرکوں میں پھیل گئی۔ یہ ان کیلئے اشارہ تھا کہ حاکم اور محکوم کے بیچ زندگی اور موت کی لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ چند ہی گھنٹوں میں چھاؤنی کی تمام مقامی(ہندوستانی) رجمنٹیں بغاوت کا حصہ بن چکی تھیں۔ باغی سپاہیوں نے اسلحے اور گولہ بارود کے ذخیرے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور مزاحمت کرنے والے انگریز افسروں کو فوراً موت کے گھاٹ اتار دیا۔ رات گئے تک چھاؤنی مکمل طور پر باغی سپاہیوں کے قبضے میں آ چکی تھی لیکن ان کا مقصد صرف میرٹھ پر قبضہ کرنا نہیں تھا۔ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ میرٹھ میں نہیں بلکہ دہلی میں ہو گا اور انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر رات کی تاریکی میں ہی دہلی کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔
11مئی کی صبح تک باغی سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد دہلی کے لال قلعے کے سامنے اکٹھی ہو چکی تھی اور مغل بادشاہ سے ملاقات کی خواہش مند تھی۔ قلعے میں بیکاری کی زندگی گزارنے والا 82سالہ بہادر شاہ ظفر اس ساری صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس نے حواس باختہ ہو کر اپنے محافظ دستے کے انچارج کیپٹن ڈگلس کو سپاہیوں سے بات چیت کرنے کیلئے بھیجا۔ ڈگلس بھی گزشتہ رات میرٹھ میں ہونے والی بغاوت سے بالکل بے خبر تھا اور اس نے روایتی رعونت کے ساتھ سپاہیوں کو منتشر ہو جانے کو کہا۔ اس دھمکی کے نتیجے میں اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ سپاہی قلعے میں داخل ہو گئے اور قلعے کے اندر موجود مقامی رجمنٹ فوری طور پر باغی سپاہیوں کے ساتھ مل گئی۔ سپاہیوں نے قلعے میں موجود تمام انگریز سول اور فوجی افسران کو قتل کر دیا اور دیوان عام پر قبضہ کرتے ہوئے بہادر شاہ ظفر کو اپنے مطالبات سننے پر مجبور کر دیا۔ تمام تر تاریخی شواہد اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر کا اس بغاوت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس کا حصہ بننا چاہتا تھا لیکن باغی سپاہیوں کے خوف سے اسے مجبوراً بغاوت کی حمایت کرنی پڑی۔
لال قلعے پر قبضے کے بعد بغاوت کی آگ پورے دہلی شہر میں پھیلتی چلی گئی اور تھوڑے تذبذب کے بعد دہلی چھاؤنی کی تینوں مقامی رجمنٹوں نے بغاوت میں شمولیت اختیار کر لی۔ دہلی کی عام آبادی کے ایک وسیع حصے نے بھی بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے سپاہیوں کا ساتھ دیا۔ چند روز تک انگریز افسران اور سپاہیوں کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ 16مئی تک دہلی مکمل طور پر باغی سپاہیوں کے قبضے میں آ چکا تھا۔
دہلی پر قبضے کے بعد آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں بغاوت شمالی اور وسطی ہندوستان میں پھیلتی چلی گئی۔ کانپور، لکھنؤ، جھانسی، جبل پور، ناگ پور، اندور، شاہجہان پور، فتح گڑھ، سیتا پور، گوالیار، آگرہ، علی گڑھ، روہتک، مراد آباد، انبالہ، عظیم گڑھ، سلطان پور، آلہ آباد، بھگل پور، بہرام پور، کولہاپور، نیموچ، جالندھر، پھیلور، فیروزپور، میاں میر(لاہور)، سیالکوٹ، جہلم، راول پنڈی، نوشہرہ، پشاور اور مردان سمیت کئی شہر اس بغاوت کا حصہ بنے۔ لیکن بغاوت کی حرکیات، اس کے طبقاتی و تاریخی کردار اور حتمی طور پر اس کی شکست پر مزید بات کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ ہم ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامراجی کردار، ہندوستانی سماج میں آنے والی تبدیلیوں اور بغاوت کی بنیاد بننے والی اہم وجوہات کا تفصیلی جائز لیں۔
1600ء سے 1757ء۔۔ ہندوستان میں کمپنی کا ابتدائی سفر
انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی 1600ء میں قائم ہوئی تھی۔ کمپنی نے معمولی تجارت کے ساتھ ہندوستان میں کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ 1611ء میں ہندوستان کے مشرقی ساحل پر واقع شہر مچھلی پٹنم میں کمپنی نے اپنی پہلی فیکٹری(گودام) قائم کی۔ 1612ء میں مغل شہنشاہ جہانگیر سے ہونے والے ایک تجارتی معاہدے کے نتیجے میں کمپنی کو ہندوستان کے کئی ساحلی شہروں میں فیکٹریاں اور تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔ 1647ء تک کمپنی سورت، مدراس اور بمبئی سمیت کئی شہروں میں فیکٹریاں اور تجارتی کوٹھیاں بنا چکی تھی۔ کمپنی کا زیادہ تر کاروبار کپاس، ریشم، نیل، نمک شورہ، مصالحہ جات، تیار شدہ سوتی اور ریشمی کپڑااور چائے کی تجارت پر مبنی تھا۔ ہندوستان میں کمپنی کے کاروبار کا پھیلاؤ ایک سیدھی لکیر کا عمل نہ تھا۔ اسے اپنے پرتگیزی، ولندیزی اور فرانسیسی حریفوں کی جانب سے سخت مقابلہ بازی کا سامنا تھا۔ تجارتی مقابلہ بازی کے نتیجے میں ان یورپی حریفوں کے مابین سترہویں اور اٹھارویں صدیوں میں کئی جنگیں ہوئیں جن میں سے کئی ایک میں انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی کو وقتی شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کمپنی اور مقامی حکمرانوں کے باہم تعلقات بھی وقتاً فوقتاً تناؤ کا شکار ہو جاتے تھے۔ اس تناؤ کے نتیجے میں چند ایک دفعہ مسلح تصادم بھی ہوا جس میں 1664ء میں مرہٹہ سردار شیوا جی کا سورت پر حملہ اور مغل حکومت اور کمپنی کے مابین 1686ء سے 1690ء تک جاری رہنے والی ’’چائلڈز وار‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں لڑائیوں میں کمپنی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ خصوصاً موخرالذکر میں مغل فوج کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد کمپنی کے اعلی افسران کو گڑگڑاتے ہوئے مغل شہنشاہ اورنگزیب سے معافی مانگنی پڑی اور بھاری تاوان کی ادائیگی اور مستقبل میں اچھے رویے کی یقین دہانی پر ہی اورنگزیب نے کمپنی کو ہندوستان میں اپنا کاروبار جاری رکھنے بلکہ اسے بنگال کی طرف وسعت دینے کی بھی اجازت دے دی۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود ہندوستان کے ساتھ کمپنی کی تجارت نہایت منافع بخش تھی اور یہی اس کی ثابت قدمی کے ساتھ ہندوستان سے چمٹے رہنے کی وجہ بھی تھی۔
1690ء کی دہائی کے اوائل میں کلکتہ کے نزدیک دریائے ہوگلی کے کنارے کمپنی نے (مغل حکومت کی اجازت سے) ہندوستان میں اپنی پہلی ’’کالونی‘‘ قائم کی۔ سترہویں صدی کے اختتام تک کمپنی کی ہندوستان میں موجودگی تین بڑے یونٹوں مدراس، بنگال اور بمبئی پریذیڈینسی کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ 1707ء میں انگلستان اورا سکاٹ لینڈ میں الحاق کے بعد کمپنی کا نام تبدیل کر کے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی رکھا گیا۔ اٹھارویں صدی کی پہلی پانچ دہائیوں میں کمپنی کی تجارت اور منافعوں میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اسی عرصے میں اس نے ہندوستان میں اپنا حلقہ اثر قائم کرنے کی لڑائی میں یکے بعد دیگرے اپنے تمام یورپی حریفوں کو شکست دیتے ہوئے ہندوستان میں تجارتی اجارہ داری قائم کر لی۔ کاروبار میں وسعت، بلند منافعوں، بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور یورپی حریفوں سے چھٹکارے کے نتیجے میں کمپنی کی طاقت اور خود اعتمادی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ کمزور ہو کر بکھرتی ہوئی مغل سلطنت کے چھوڑے ہوئے خلا کو بھرنے لگی۔ اس کا نتیجہ ناگزیر طور پر مقامی حکمرانوں اور اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے ساتھ تصادم کی صورت میں نکلنا تھا اور ایسا ہی ہوا۔
1757ء سے 1857ء۔۔ سامراجی جارحیت کے سو سال
اٹھارویں صدی کے وسط تک ہندوستان میں کمپنی کے بڑھتے ہوئے مالی مفادات اور کاروباری پھیلاؤ نے کھلی سامراجی جارحیت کا روپ دھار لیا تھا۔ کمپنی کو اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے برطانوی حکومت کی پوری پشت پناہی حاصل تھی اور آخر کیوں نہ ہوتی؟ ریکارڈ کے مطابق1740ء کی دہائی میں کمپنی برطانوی حکومت کو سالانہ چار لاکھ پاؤنڈ ٹیکس ادا کرتی تھی اور حکومتی آمدن کا ایک اہم ذریعہ بن چکی تھی۔ اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر انیسویں صدی کے وسط تک کمپنی نے اپنے منافعوں کے تحفظ اور بڑھوتری کی خاطر ہندوستان پر براہ راست اپنا فوجی و سیاسی تسلط قائم کر لیا لیکن عمومی غلط فہمی کے برعکس ہندوستان کی فتح چند چالاک انگریز افسروں کی ’’سازشوں‘‘ کا نتیجہ نہ تھی اور نہ ہی ہندوستان کو کسی نے پلیٹ میں سجا کر کمپنی کے حوالے کیا تھا۔ ان تمام تر مفروضوں کے برعکس ہندوستان کی فتح ایک مشکل، پرپیچ اور خون ریز عمل تھا۔
اگرچہ کمپنی پہلے بھی اپنا سیاسی اثرو رسوخ بڑھانے اور یورپی حریفوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مقامی حکمران اشرافیہ کی باہم لڑائیوں میں دخل اندازی کرتی رہی تھی لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ 1757ء کی جنگ پلاسی میں بنگال کے نواب سراج الدولہ کی کمپنی کے ہاتھوں شکست نے ہندوستان پر کمپنی کے سامراجی تسلط کی لڑائی میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا۔ اس کے بعد آنے والے ایک سو سالوں میں کمپنی نے مقامی حکمرانوں کے ساتھ درجنوں جنگیں لڑیں جن میں جنگ بکسر (1764ء)، چار اینگلو میسور جنگیں (1799-1776ء)، تین اینگلو مرہٹہ جنگیں (1818-1775ء)، دو روہیلہ جنگیں (1794ء، 1774ء)، کوٹیوٹ جنگیں(1806-1794ء)، اینگلو سندھ جنگ (1843ء) اور دو اینگلو سکھ جنگیں (1849-1845ء)شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں سامراجی توسیع کی کوششوں کے نتیجے میں کمپنی اور ہندوستان کے ارد گرد کے خطوں کے علاقائی حکمرانوں کے مابین بھی کئی جنگیں ہوئیں جن میں پہلی (1826-1824ء) اور دوسری (1853-1852ء) اینگلو برما جنگیں، اینگلو نیپال جنگ (1814ء) اور پہلی اینگلو افغان جنگ (1842-1839ء) اہم ہیں۔ ان سب جنگوں کے نتیجے میں 1857ء تک بنگال، آسام، بہار، ناگ پور، دہلی، اوڑیسہ، اودھ، روہیل کھنڈ، پنجاب، سندھ، گجرات اور دکن سے نیچے جنوبی ہند کے کئی علاقوں سمیت ہندوستان کے بے شمار علاقوں پر کمپنی کا براہ راست تسلط قائم ہو چکا تھا۔ بقیہ ہندوستان کے زیادہ تر مقامی حکمران کمپنی کے زیر اثر تھے اور اس کے احکامات کے پابند تھے۔ سامراجی توسیع کے ان ایک سو سالوں میں کمپنی کی فوجی قوت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ 1757ء میں جنگ پلاسی کے وقت رابرٹ کلائیو کی کمان میں کمپنی کی فوج 900 انگریزوں (افسر اور سپاہی) اور 1200 ہندوستانی سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ 1857ء تک ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی پیشہ ور فوج 2 لاکھ 80ہزار نفوس پر مشتمل تھی جس میں 45ہزار انگریز اور 2لاکھ 35ہزار ہندوستانی شامل تھے۔
اسی عرصے کے دوران کمپنی نے ہندوستان میں صدیوں سے چلے آ رہے ’’ایشیائی طرز پیداوار‘‘ کے معاشی و سماجی ڈھانچے کو بزور طاقت توڑتے ہوئے سرمایہ دارانہ ملکیتی و پیداواری رشتوں کو سماج پر اوپر سے مسلط کیا، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی، سماجی اور سیاسی تضادات نے 1857ء کی بغاوت کو بنیادیں فراہم کیں۔
سامراجی پالیسیاں اور ہندوستانی سماج
کمپنی کے تسلط سے قبل ہندوستان میں لگ بھگ دو ہزار سال سے پیداوار اور معاشی تنظیم کا ایک مخصوص ڈھانچہ قائم تھا جسے مارکس ’’ایشیائی طرز پیداوار‘‘ کا نام دیتا ہے۔ یہ یورپ کی کلاسیکی جاگیرداری سے بالکل مختلف تھا کیونکہ اس میں زرعی زمین کی نجی ملکیت کا ٹھوس تصور موجود نہ تھا اور نہ ہی اس کے پیداواری رشتے جاگیرداری کی طرح زمین کے مالک (جاگیردار) اور زمین پر کام کرنے والے دہقانوں (serfs) کے باہم تعلق پر مبنی تھے۔ ایشیائی طرز پیداوار میں سلطنت کے حکمران (بادشاہ، راجہ، نواب وغیرہ) کو تمام زرعی زمین کا مالک تصور کیا جاتا تھا لیکن عملی طور پر زمین سماج کے بنیادی یونٹ یعنی دیہات کے مشترکہ استعمال میں ہوتی تھی اور دیہات کا مکھیا یا پنچایت ہر خاندان کی افرادی قوت کے لحاظ سے اسے مشترکہ زمین سے کاشت کیلئے قطعے الاٹ کرتی تھی، لیکن یہ الاٹمنٹ وقتی اور نجی ملکیت کے تصور سے بیگانہ ہوتی تھی۔ ہر دیہات میں ہنر مند اور دست کار بھی موجود ہوتا تھا جو زرعی اجناس کے بدلے دیہات کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتے تھے۔ ہر دیہات کم و بیش ایک آزاد معاشی یونٹ تھا اور اپنی ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل تھا۔ دیہات مرکزی حکومت کو لگان (ٹیکس) ادا کرنے کا پابند ہوتا تھا جس کے بدلے مرکزی حکومت بیرونی حملہ آوروں سے دفاع، گزرگاہوں کی تعمیر اور سب سے بڑھ کر آبپاشی کے منصوبوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کی ذمہ دار تھی، جن کے بغیر بڑے پیمانے پر زراعت کا ہونا ممکن نہیں تھا۔ مرکزی حکومت کیلئے دیہاتوں سے لگان اکٹھا کرنے کا کام ایک مخصوص سماجی پرت کے ذمے تھا جنہیں تعلقدار، زمیندار یا منصب دار کہا جاتا تھا۔ یورپ کی جاگیر دار اشرافیہ کے برعکس، یہ ’’زمیندار‘‘ دیہاتوں یا زرعی زمین کے مالک نہیں ہوتے تھے اور ان کا کردار مرکزی حکومت کی طرف سے متعین کردہ نمائندوں کا ہوتا تھا جن کے ذمے شاہی فرمان کے ذریعے عطا کردہ اختیارات کے تحت اپنی عملداری میں دیئے گئے دیہاتوں سے لگان اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی اور قانونی معاملات کو دیکھنا بھی تھا۔ اس کے علاوہ ضرورت پڑنے پر اپنی عملداری میں موجود دیہاتوں سے سپاہی بھرتی کر کے مرکزی حکومت کی جنگی کاروائیوں کیلئے لشکر تیار کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل تھا۔ اس سب کے بدلے یہ زمیندار جمع شدہ لگان کا ایک طے شدہ حصہ بطور آمدن اپنے پاس رکھنے کا حق رکھتے تھے۔ اگرچہ، عمومی طور پر، یہ زمیندارانہ اختیارات نسل در نسل چلتے تھے لیکن مرکزی حکورمت کسی بھی وقت ان تمام اختیارات کو واپس لینے اور زمیندار کی ’’تعیناتی‘‘ کی جگہ تبدیل رکھنے کا اختیار رکھتی تھی۔ مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ایشیائی طرز پیداوار اور دیگر ماقبل سرمایہ داری طرز پیداوار(جاگیرداری، غلام داری)میں جو اہم قدر مشترک تھی وہ ان تمام نظاموں میں پیداوار کا منڈی سے منسلک نہ ہونا تھا۔
ہندوستان رقبے کے لحاظ سے ایک بہت بڑا اور متنوع خطہ تھا۔ لیکن دو ہزار سال تک اس خطے کے زیادہ تر حصوں میں ایشیائی طرز پیداوار کا عمومی خاکہ اور بنیادی خصائص وہی رہے جو ہم نے مذکورہ بالا بحث میں بیان کئے ہیں۔ اس دوران میں ہندوستان پر بہت سارے بیرونی حملے ہوئے، کئی سلطنتوں اور حکمران خاندانوں کا عروج و زوال ہوا لیکن ایشیائی طرز پیداوار کا بنیادی ڈھانچہ قائم رہا۔
برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی اور ماضی کے تمام بیرونی حملہ آوروں میں سب سے بنیادی فرق یہ تھا کہ برطانوی سامراجیت کی بنیاد سرمایہ دارانہ طرز پیداوار پر تھی جو کہ انسانی تاریخ کا سب سے جدید طرز پیداوار تھااور ابھی تاریخی طور پر اپنے ترقی پسندانہ عہد میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کمپنی نہ صرف ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرنے پر کامیاب ہوئی بلکہ ماضی کے تمام حملہ آوروں کے برعکس اس نے ہندوستانی سماج کا حصہ بننے کے بجائے ایشیائی طرز پیداوار کے ڈھانچے کو بزور طاقت توڑتے ہوئے سرمایہ داری کو سماج پر اوپر سے مسلط کیا۔ اس عمل کے نتیجے میں نہ صرف ہندوستانی سماج ہمیشہ کیلئے بدل کر رہ گیا بلکہ ان تضادات کا بھی جنم ہوا جنہوں نے مستقبل میں ہونے والے سماجی دھماکوں کیلئے بارود کا کام دیا۔
1۔ معاشی و سماجی تضادات
ابتدا میں کمپنی کا ہندوستان کے ساتھ کاروبار بنیادی طور پر تجارت پر مبنی تھا۔ کمپنی سونے، چاندی یا صنعتی اشیا کے بدلے ہندوستان سے کپاس، ریشم، نیل، مصالحہ، نمک شورہ، چائے اور تیار شدہ سوتی و ریشمی کپڑا خریدتی تھی اور پھر اس مال کو یورپی منڈیوں میں بیچ کر بھاری منافع کماتی تھی۔ لیکن زیادہ سے زیادہ منافعوں کی ہوس اور ہندوستان پر بڑھتے ہوئے سامراجی غلبے کے نتیجے میں کمپنی کے کاروباری مفادات بھی تبدیل ہو گئے۔ 1764ء میں جنگ بکسر میں کمپنی کی فیصلہ کن فتح کے بعد مشرقی ہندوستان میں کمپنی کی بالا دستی ایک ٹھوس حقیقت بن گئی تھی اور تیزی سے زوال پذیر مغل سلطنت کے پاس اس بالادستی کو تسلیم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ 1765ء میں مغل شہنشاہ شاہ عالم دوئم نے بنگال، بہار اور اوڑیسہ کے دیوانی اختیارات باقاعدہ طور پر کمپنی کے سپرد کر دئیے جس کا مطلب یہ تھا کہ اب ان تمام علاقوں سے ٹیکس (خصوصاً زرعی ٹیکس) اکٹھا کرنا اب کمپنی کا اختیار تھا۔ یہ اقدام ہندوستان میں کمپنی کے بدلتے ہوئے کردار کی غمازی کرتا ہے۔ تجارت اب کھلی سامراجی لوٹ مار میں تبدیل ہو رہی تھی۔ 1765ء سے 1770ء تک کمپنی نے زرعی ٹیکس میں پانچ گنا اضافہ کرتے ہوئے اسے کل پیداوار کے 10 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد تک کر دیا۔ صرف پہلے دو سالوں میں ہی کمپنی کو زرعی ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن دگنی ہو گئی۔ آنے والی دہائیوں میں زرعی ٹیکس سے حاصل ہونے والی یہ آمدن کمپنی کی ہندوستان سے ہونے والی کل آمدن کا انتہائی اہم حصہ بن گئی اور اس آمدن میں مسلسل اضافے کی خاطر جہاں کمپنی نے ایک طرف لگان اکٹھا کرنے کے پرانے مغلیہ نظام کو تبدیل کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار کردہ نئے ٹیکس نظام لاگو کئے وہیں اس عمل کے دوران ہندوستان میں زرعی زمین کی نجی ملکیت کے تصور کو بھی سماج میں متعارف کروایا۔ اس سلسلے میں پہلا بڑا قدم 1793ء کا ’’پرماننٹ سیٹلمنٹ ایکٹ‘‘ تھا جس کے ذریعے بنگال، بہار اور اوڑیسہ میں ایک نئے ٹیکس نظام کو متعارف کرایا جسے زمینداری نظام کہا جاتا تھا۔ پرانے مغلیہ نظام کے برعکس اس نظام میں سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا دعویٰ کرنے والے زمینداروں کو زمین کے مالکانہ حقوق دے دیئے گئے۔ ان زمینداروں کو کمپنی کی طرف سے ٹیکس اکٹھا کرنے کے نہایت بلند اہداف دئیے جاتے تھے جنہیں پورا کرنے کیلئے انہیں عام کسانوں پر ہر قسم کا ظلم کرنے کی اجازت تھی۔ جمع شدہ ٹیکس کا 1/11واں حصہ زمیندار خود رکھتا تھا جبکہ 10/11 واں حصہ کمپنی کا ہوتا تھا۔ ٹیکس اہداف پورے کرنے میں مسلسل ناکامی کی صورت میں زمیندار سے اس کے مالکانہ حقوق واپس لے لئے جاتے تھے۔ زمینداری نظام کے علاوہ دوسرے دو اہم زرعی ٹیکس نظام، روئیت واری اور محل واری نظام کہلاتے تھے۔ روئیت واری نظام کو 1820ء میں مدراس، بمبئی اور جنوبی ہندوستان کے بعض علاقوں میں نافذ کیا گیا۔ اس نظام میں زمیندار نہیں تھے بلکہ کمپنی نے کسانوں کو زمین کے ملکیتی حقوق دیتے ہوئے ان سے براہ راست ٹیکس اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ ٹیکس کی شرح عمومی طور پر کل پیداوار کے 60-50 فیصد تک ہوتی تھی۔ مطلوبہ ٹیکس ادا نہ کر پانے کی صورت میں کسانوں کو ان کی زمین سے بے دخل کر دیا جاتا تھا۔ محل واری نظام کو 1822ء میں اتر پردیش اور وسطی ہندوستان کے کچھ حصوں میں لاگو کیا گیا۔ یہ زمینداری اور روئیت واری دونوں کی خصوصیات رکھتا تھا۔ اس میں بعض علاقوں میں زمینداروں کو مالکانہ حقوق دیتے ہوئے ٹیکس اکٹھا کرنے کی ذمہ داری دی گئی تو کئی علاقوں میں کسانوں کو زمین کی ملکیت دے کر ان سے براہ راست ٹیکس لیا جاتا تھا۔ لیکن کسی بھی صورت میں ٹیکس کی شرح نہایت بلند تھی یعنی کل پیداوار کا تقریباً دو تہائی حصہ۔ کمپنی کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں جہاں ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرعی زمین کی نجی ملکیت (خصوصاً بڑے زمیندار) کا تصور بڑے پیمانے پر رائج ہوا وہیں زرعی ٹیکسوں کی بلند شرح نے عام کسانوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا۔ کروڑوں غربت کی چکی میں پستے رہے حتی کہ نوبت کئی مرتبہ قحط تک جا پہنچی جیسا کہ 1773-1769ء قحط بنگال، جس کی بنیادی وجوہات بلند شرح ٹیکس اور کمپنی کی پالیسیوں کے تحت گندم یا چاول کے بجائے برآمد کرنے کے کی غرض سے افیون اور انڈیگو (نیل کا پودا) کی کاشت کو ترجیح دینا تھیں۔ اس قحط کے نتیجے میں ایک کروڑ افراد ہلاک ہوئے اور بنگال کی آبادی میں تقریباً ایک چوتھائی کمی واقع ہوئی۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا کہ 1857ء میں باغی سپاہیوں کی بھاری اکثریت ایسے ہی تباہ حال کسان خاندانوں سے تعلق رکھتی تھی جن کی کئی نسلیں کمپنی کے جبر کی وجہ سے برباد ہو چکی تھیں۔ اگرچہ کمپنی کی بدولت زمین کے مالک بننے والے زمینداروں کی اکثریت کمپنی کی وفادار تھی لیکن تمام زمیندار بھی کمپنی سے خوش نہ تھے۔ ٹیکس آمدن کے معاملے میں کمپنی کا غیر لچک دار رویہ، ہدف حاصل نہ کرنے کی صورت میں ملکیت چھن جانے کا خوف، ماضی کے انتظامی اور قانونی اختیارات کا خاتمہ اور ٹیکس آمدن کے بھاری حصے کے کمپنی کو چلے جانے کی وجہ سے زمیندار اشرافیہ کی کچھ پرتیں، خصوصاً وہ جو ماضی میں بڑے منصب دار تھے، کمپنی سے ناخوش تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1857ء میں زمیندار اشرافیہ کے کچھ حصوں نے بھی بغاوت میں شمولیت اختیار کی۔ بہار سے تعلق رکھنے والا کنور سنگھ اور اس جیسے دیگر کردار اسی ناراض زمیندار اشرافیہ کے ہی نمائندے تھے۔
1780ء کی دہائی تک کمپنی کی ہندوستان کے ساتھ تجارت کی نوعیت بھی بدلنے لگی تھی۔ اس سے پہلے کمپنی ہندوستان سے خام مال کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر تیار شدہ اشیاء(مثلاً عمدہ سوتی اور ریشمی کپڑا) بھی برآمد کرتی تھی۔ لیکن برطانیہ میں ہونے والی تیز ترین صنعتی ترقی کے نتیجے میں تجارت کا توازن بدل رہا تھا۔ 1780ء سے لے کر انیسویں صدی کے اوائل تک ہندوستان برطانیہ کی صنعتوں کیلئے صرف خام مال برآمد کرنے والا ملک بن چکا تھا۔ ہندوستان کے ہنرمند اور دستکار برطانیہ کی سستی صنعتی پیداوار کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اور 1815ء تک ہندوستان کی منڈیوں میں سستی برطانوی صنعتی مصنوعات کی بھرمار نے مقامی مصنوعات کو مقابلے سے باہر کر دیا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں مقامی ہنر مند اور دستکار تباہ و برباد ہو کر رہ گئے۔ اس حقیقت کا اعتراف خود ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنک نے 1833ء میں ان الفاظ میں کیا:
’’تجارتی تاریخ میں ایسی بربادی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مقامی جولاہوں کے پنجر ہندوستان کے میدانوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ ‘‘
اسی طرح 8اگست1853ء کو نیو یارک ڈیلی ٹریبیون میں شامل ہونے والے ایک مضمون میں مارکس لکھتا ہے:
’’بورژوا تہذیب کی گہری منافقت اور جبلی بربریت ہماری آنکھوں کے سامنے بے پردہ ہو جاتی ہے، جب وہ اپنے گھر سے دور، جہاں وہ مہذب شکل اختیار کئے ہوئے ہے، نو آبادیات تک پہنچتی ہے، جہاں وہ برہنہ ہو جاتی ہے۔ ‘‘
1850ء تک مقامی دستکاری اور اس سے وابستہ ہنر مندوں کی بربادی مکمل ہو چکی تھی، جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک برطانیہ ہر سال ہندوستان کو آٹھ ملین پاؤنڈ کی صنعتی مصنوعات برآمد کر رہا تھاجن میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات (5.2ملین پاؤنڈ) کا تھا۔
یہاں پر یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ان تباہ حال ہنر مندوں کی ایک بڑی تعداد نے روزگار کی تلاش میں کمپنی کی فوج میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کر لی۔
2۔ سیاسی تضادات
بحیثیت مجموعی ہندوستان کی اشرافیہ اور مقامی حکمران طبقے کا کردار نہایت رجعتی اور گلا سڑا تھا۔ وہ ایک ایسے نظام کے نمائندے تھے جو کب کا تاریخ کے ہاتھوں متروک ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کہن زدہ مغل سلطنت سے لے کر علاقائی ریاستوں اور راجواڑوں کی اکثریت کمپنی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کمپنی نے ہندوستان پر بلا مزاحمت قبضہ کر لیا تھا۔ کئی مقامی حکمرانوں اور قدیم اشرافیہ کے حصوں نے کمپنی کی توسیع پسندی کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اپنے رجعتی کردار، عوامی حمایت کی کمی اور سماج کو آگے لے جانے کی اہلیت نہ رکھنے کی بدولت کمپنی کے ہاتھوں شکست کھائی۔ 1757ء سے لے کر 1857ء تک لڑی جانے والی بے شمار جنگیں اسی حقیقت کی غمازی کرتی ہیں۔
کمپنی کی سامراجی توسیع پسندی کے نتیجے میں عوام تو بدحال اور نا خوش تھی ہی لیکن سابق حکمران اشرافیہ کے کئی حصے بھی اپنا اقتدار اور ریاستیں چھن جانے کے سبب کمپنی کے خلاف پوشیدہ مخاصمت رکھتے تھے۔ ان کو عوام کی بدحالی سے کوئی سروکار نہ تھا اور نہ ہی وہ ’’قومی غیرت‘‘ کا کوئی جذبہ رکھتے تھے لیکن بادشاہوں، نوابوں اور راجاؤں سے کمپنی کے وظیفہ خوار بن جانے کا عمل یقیناًان کیلئے بہت تکلیف دہ تھا۔ یہ تکلیف اس وقت مزید شدت اختیار کر گئی جب کمپنی نے پرانے معاہدے توڑتے ہوئے ان سابق حکمران خاندانوں میں سے کئی ایک کے وظیفے بتدریج گھٹانے شروع کر دئیے، حتی کہ ان کو آبائی محلات سے بھی بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ ان سب عوامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخاصمت نے اپنا اظہار 1857ء میں ان سابق حکمران خاندانوں میں سے چند ایک کے افراد کی بغاوت میں شمولیت کی صورت میں کیا۔ نانا صاحب، جھانسی کی رانی، لکھنؤ کی بیگم حضرت محل، تانتیا ٹوپی اور بہادر شاہ ظفر کا بیٹا مرزا مغل کچھ ایسے ہی کردار تھے۔
3۔ ہندوستان میں کمپنی کا دوہرا کردار
بورژوا اور قوم پرست مورخوں کے برعکس مارکس وادی کسی بھی تاریخی مظہر کے تمام پہلوؤں اور ان سے جنم لینے والے تمام تضادات کا جائزہ لیتے ہوئے اس مظہر کو ایک کل کے طور پر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ہندوستان میں کمپنی کے سامراجی کردار کے دوسرے رخ کو بھی دیکھنا اور سمجھنا لازمی ہے۔
ہندوستان میں کمپنی کی تمام پالیسیاں اس کے سرمایہ دارانہ سامراجی مفادات کے تابع تھیں اور ان مفادات کی خاطر جہاں ایک طرف کمپنی نے لوٹ مار اور ظلم و استحصال کی انتہا کر دی وہیں دوسری طرف ہندوستان کے قدیم اور تاریخی متروکیت کا شکار پیداواری ڈھانچے کو بزور طاقت توڑتے ہوئے جدید بورژوا معیشت کی بنیاد بھی ڈالی۔
25جون 1853ء کو نیو یارک ڈیلی ٹریبیون میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں مارکس لکھتا ہے:
’’یہ درست ہے کہ انگلستان نے غیر دانشمندانہ انداز سے جبر کرتے ہوئے صرف اپنے حریصانہ مفادات کی خاطر ہندوستان میں سماجی انقلاب برپا کیا۔ لیکن سوال یہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایشیا کے سماجی حالات میں ایک بنیادی تبدیلی کے بغیر نسل انسان اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہے؟ اور اگر نہیں، تو پھر انگلستان کے جرائم جو بھی ہوں وہ یہ تبدیلی برپا کرنے میں تاریخ کا لا شعوری آلہ کار بنا ہے۔ ‘‘
ہندوستان میں اپنے سرمایہ دارانہ سامراجی استحصال کو زیادہ منافع بخش بنانے کی خاطر کمپنی نے فزیکل اور سماجی انفراسٹرکچر کے بہت سارے منصوبوں کا آغاز کیا۔ 1837ء میں پہلی جدید ملک گیر ڈاک سروس کا اجرا کیا گیا اور 1851ء میں تار برقی کے نظام کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ 1857ء تک ہندوستان کے زیادہ تر بڑے شہر تار برقی کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ چکے تھے۔ اسی طرح 1849ء میں ہندوستان کی پہلی ریلوے لائن کی تعمیر شروع ہوئی اور 1871ء تک ہندوستان کے زیادہ تر علاقے ریلوے نیٹ ورک سے جڑ چکے تھے۔ انیسویں صدی کی ابتدائی تین دہائیوں میں کمپنی نے سلاطین دہلی اور مغلیہ عہد میں تعمیر ہونے والے آبپاشی کے بے شمار منصوبوں کی مرمت اور توسیع کا کام کیا۔ 1842ء میں کمپنی نے 350میل لمبی گنگا کنال کی تعمیر کا آغاز کیا جو اپنے وقت کی سب سے لمبی مصنوعی کنال تھی۔ اسی طرح کمپنی نے ریاضی، شماریات، جغرافیہ، انجینئرنگ، میڈیسن اور دیگر جدید سائنسی علوم کی خاطر بے شمار جدید تعلیمی ادارے قائم کئے جن میں فورٹ ولیم کالج، کلکتہ یونیورسٹی، بمبئی یونیورسٹی، مدراس یونیورسٹی اور گرانٹ میڈیکل کالج اہم ہیں۔ تار برقی، ڈاک، ریلوے اور ان جیسے دیگر منصوبوں نے ہی 1857ء کی بغاوت میں اظہار پانے والے ہندوستانی قومیت کے نوزائیدہ شعور کی تخلیق کیلئے مادی بنیادیں فراہم کی تھیں۔
اگرچہ کمپنی کی سامراجی پالیسیوں کا یہ پہلو تاریخی طور پر ترقی پسندانہ کردار رکھتا تھا لیکن چونکہ ان تمام منصوبوں کا شعوری مقصد ہندوستان کی لوٹ کھسوٹ کو زیادہ موثر اور سہل بنانا تھا لہذا یہ منصوبے کمپنی کی مقبولیت کو بڑھانے کے بجائے عوام میں کمپنی کے خلاف مزید نفرت پیدا کرنے کا سبب بنے۔ عوام کی یہ نفرت بلا جواز ہر گز نہ تھی۔ وہ بخوبی سمجھ رہے تھے کہ تار برقی اور ڈاک نظام کا مقصد ہندوستان پر کمپنی کی فوجی و انتظامی گرفت کو مضبوط کرنا تھا۔ اسی طرح ریلوے کا مقصد عوام کو سہولت دینا نہیں بلکہ خام مال، صنعتی اشیا اور فوج کی آمد و رفت کو سہل بنانا تھا۔ آبپاشی کے منصوبوں کا مقصد کسانوں کی خوشحالی نہیں بلکہ زرعی پیداوار بڑھاتے ہوئے زرعی ٹیکسوں کی آمدن میں اضافہ اور برطانوی صنعتوں کیلئے سستے خام مال کا حصول تھا۔ جدید تعلیمی اداروں کے فروغ کا مقصد پڑھے لکھے وفادار ہندوستانیوں کی ایک پرت تیار کرنا تھا جو کمپنی کی انتظامی اور کاروباری مشینری کا حصہ بن سکیں۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ کمپنی کا ہندوستان پر تسلط تمام تر ظلم و استحصال کے باوجود تاریخی اعتبار سے ایک آگے کا قدم تھا۔ لیکن برطانوی سامراج ہندوستان میں جس جدید سماج کی بنیادیں ڈال رہا تھا، اس کا فائدہ عام لوگوں کو کس صورت میں ہو سکتا تھا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مارکس 1853ء میں لکھتا ہے:
’’انگلستان کی بورژوازی جو کچھ بھی کرنے پر مجبور ہو گی، اس سے عوام کی اکثریت کے سماجی حالات میں کوئی مادی بہتری نہیں آئے گی کیونکہ اس امر کا انحصار صرف پیداواری قوتوں کی ترقی پر ہی نہیں بلکہ عوام کے ان پر تصرف پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن وہ(بورژوازی) ان دونوں کیلئے درکار مادی بنیادیں رکھنے میں ناکام نہیں ہوں گے۔ کیا بورژوازی نے کبھی بھی اس سے زیادہ کچھ کیا ہے؟ کیا اس نے کبھی بھی عام لوگوں کو دکھ اور تذلیل، خاک و خون میں گھسیٹے بغیر ترقی دی ہے؟۔ ۔ ۔ ہندوستان کے لوگ برطانوی بورژوازی کی جانب سے اپنے بیچ پھیلائے جانے والے سماج کے نئے عناصر کے فوائد اس وقت تک حاصل نہ کر سکیں گے جب تک بذات خود برطانیہ میں صنعتی پرولتاریہ موجودہ حکمران طبقات کی جگہ نہیں لے لیتا، یا پھر جب تک ہندوستانی خود اتنے مضبوط نہیں ہو جاتے کہ انگریزی غلامی کے طوق کو اتار پھینکیں۔ ‘‘
مارکس کے ان الفاظ کے ساتھ ہی ہم واپس 1857ء کے طلاطم خیز سال میں واپس چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حاکم اور محکوم کی لڑائی کیا رخ اختیار کر رہی ہے۔
1857ء۔ ۔ بغاوت کا عروج و زوال
اس مضمون کا بنیادی مقصد 1857ء کی بغاوت کی واقعہ نگاری کرنا نہیں بلکہ اس کے پس منظر اور اسباب کو سمجھتے ہوئے اس کے تاریخی کردار اور شکست کی وجوہات کا تعین کرنا ہے۔ لیکن اس ضمن میں بحث کو آگے بڑھانے سے قبل بغاوت کے عروج و زوال کا مختصر ذکر کرنا ضروری ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ 16مئی 1857ء تک دہلی شہر مکمل طور پر باغی سپاہیوں کے کنٹرول میں آ چکا تھااور آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں بغاوت شمالی اور وسطی ہندوستان کے زیادہ تر بڑے شہروں میں پھیل چکی تھی۔ مئی سے لے کر ستمبر 1857ء تک کے عرصے میں بغاوت اپنے عروج پر تھی اور باغی سپاہیوں کے ساتھ ہونے والی زیادہ تر لڑائیوں میں کمپنی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ستمبر کے وسط میں کمپنی نے اپنی فوج کے وفادار حصوں، برطانیہ سے آنے والی کمک اور وفادار مقامی حکمرانوں کی جانب سے مہیا کئے گئے سپاہیوں سمیت اپنی تمام تر طاقت کو مجتمع کرتے ہوئے دہلی کا محاصرہ کر لیااور 20ستمبر تک دہلی کو باغی سپاہیوں کے قبضے سے چھڑا لیا۔ دہلی میں شکست کے بعد بغاوت کا زور ٹوٹنا شرو ع ہو گیا اور کمپنی بتدریج اپنی کھوئی ہوئی بالادستی قائم کرنے لگی۔ اکتوبر میں باغی سپاہیوں کو آگرہ میں شکست ہوئی جبکہ دسمبر میں کمپنی نے کانپور اور اندور پر واپس قبضہ کر لیا۔ مارچ 1858ء میں باغی سپاہیوں کو لکھنؤ میں فیصلہ کن شکست ہوئی اور اودھ پر کمپنی کا قبضہ ہو گیا جبکہ اپریل کے اوائل میں کمپنی نے جھانسی پر بھی اپنی بالادستی قائم کر لی۔ لکھنؤ اور جھانسی میں شکست نے بغاوت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ جون 1858ء میں گوالیار پر کمپنی کے قبضے کے ساتھ ہی بغاوت کی بچی کچھی چنگاریاں بھی بجھ گئیں اور ہندوستان پر پھر سے کمپنی کا تسلط قائم ہو گیا۔
برطانوی حکومت کافی عرصے سے کمپنی کی ہندوستانی نو آبادی کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ ہندوستان جیسی سونے کی چڑیا کو صرف ایک تجارتی کمپنی کے زیر تسلط رہنے نہیں دیا جا سکتا تھا۔ تمام برطانوی بورژوازی اس کی لوٹ کھسوٹ میں حصہ دار بننا چاہتی تھی۔ 1857ء کی بغاوت نے حکومت کو اپنی یہ دیرینہ خواہش پوری کرنے کا موقع فراہم کیا اور کمپنی کی ’’نااہلی‘‘ کو اس بغاوت کی وجہ گردانتے ہوئے حکومت نے 2 اگست 1858ء کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858ء کے ذریعے ہندوستان کو براہ راست تاج برطانیہ کے تابع کر دیا۔
بغاوت کا تاریخی کردار
بغاوت ہند 1857ء کی کیا تعریف کی جائے؟ کیا وہ محض کمپنی کے ناراض ہندوستانی سپاہیوں کی بغاوت تھی یا پھر ایک عوامی بغاوت؟ کیا وہ کسی گزرے ہوئے عہد کی معدوم سلطنت کو واپس بحال کرنے کی کوشش تھی یا پھر کچھ نیا اور جدید تعمیر کرنے کی جدوجہد؟ کیا وہ دہلی، آگرہ، لکھنؤ، کانپور اور اندور کی لڑائی تھی یا پھر ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی؟ باغیوں کے دل و دماغ میں کیا چل رہا تھا؟ مذہب، نسل، زبان اور علاقہ یا پھر ہندوستانی ہونے کا نوزائیدہ احساس؟ بغاوت کی حقیقی قیادت کس کے پاس تھی؟ بغاوت میں شمولیت اختیار کرنے والی ناراض اشرافیہ یا پھر باغی سپاہیوں کے پاس؟ اگر یہ ایک قومی بغاوت تھی تو پھر کیا اس میں کوئی طبقاتی تضادات نہیں تھے؟ اور آخر میں سب سے اہم سوال۔ ۔ ۔ 1857ء کی بغاوت کا کردار تاریخی اعتبار سے ترقی پسندانہ تھا یا پھر قدامت پسندانہ؟ یا پھر یہ دونوں عناصر ہی اس کے اجزائے ترکیبی میں شامل تھے؟ ان سب سوالوں کا جواب دینے کیلئے ضروری ہے کہ ہم حس توازن کو برقرار رکھتے ہوئے جدلیاتی طریقہ کار سے تاریخی حقائق کا ٹھوس تجزیہ کریں۔
1857ء کمپنی راج کے خلاف ہونے والی پہلی بغاوت نہیں تھی۔ اس سے پہلے بھی 1806ء(ولور)، 1824ء (بارک پور)، 1849ء اور 1852ء میں محدود نوعیت کی سپاہی بغاوتیں ہو چکی تھیں۔ اس کے علاوہ بے شمار چھوٹی چھوٹی عوامی بغاوتیں بھی ہوئیں جن میں 1770ء کی دہائی میں بنگال میں ہونے والی سنیاسی بغاوتیں، 1799ء میں بنگال ہی میں ہونے والی چور بغاوت، انیسویں صدی کی ابتدائی تین دہائیوں میں اوڑیسہ، وجے نگر، مالابار، تراون کور، میسور، گجرات، مہاراشڑاکے مختلف علاقوں، مغربی اتر پردیش، ہریانہ، علی گڑھ، جبل پور میں ہونے والی بغاوتیں، 1840ء کی دہائی میں ہونے والی موپلا بغاوت اور 56-1855ء میں ہونے والی سنتھال بغاوت اہم ہیں۔ لیکن ان تمام بغاوتوں کا کردار انتہائی محدود، ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور علاقائی نوعیت کا تھا جبکہ 1857ء کی بغاوت کا نہ صرف جغرافیائی پھیلاؤ بہت زیادہ تھا بلکہ مختلف شہروں اور چھاؤنیوں میں باغی سپاہیوں کی قیادت خاصی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں بھی تھی۔ ماضی کی تمام بغاوتوں کے برعکس 1857ء کی بغاوت اس خطے کی تاریخ کی پہلی بغاوت تھی جس کے نعروں، تقریروں اور اعلانات میں ہمیں ہندوستانی ہونے کا شعور جھلکتا نظر آتا ہے۔ اگرچہ یہ شعور ابھی ناپختہ تھا لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس بغاوت کا غالب جذبہ ہندوستانی قومیت کا یہی نوزائیدہ احساس تھا۔
زیادہ تر مؤرخین اس بغاوت کو صرف ناراض مقامی سپاہیوں کی بغاوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر بالکل غلط ہے۔ سب سے پہلے تو اس حقیقت کا ادراک کرنا لازمی ہے کہ کمپنی کے سپاہی کوئی آسمان سے نہیں ٹپکے تھے بلکہ وہ ہندوستانی سماج کا ہی حصہ تھے۔ ان کی بھاری اکثریت کمپنی کی پالیسیوں کے نتیجے میں تباہ و برباد ہو جانے والے کسان اور دستکار خاندانوں سے تعلق رکھتی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ انہوں نے کمپنی کے ہاتھوں اپنے ذریعہ معاش کی بربادی کے بعد روزگار کی تلاش میں ہی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مارکس نے لکھا تھا کہ:
’’سپاہیوں کا برتاؤ چاہے کتنا ہی بدنام کیوں نہ ہو، وہ ہندوستان میں انگلستان کے اپنے برتاؤ کی مجتمع شدہ شکل کا ہی عکس ہے۔ ‘‘
لیکن تاریخی ریکارڈ کا بغور مطالعہ واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگرچہ بغاوت میں ہراول پرت کا کردار سپاہیوں نے ہی ادا کیا تھا لیکن بغاوت کو زیادہ تر بڑے شہروں، بنگال اور وسطی ہندوستان کے دیہی علاقوں کے عوام کی حمایت بھی حاصل تھی۔ زیادہ تر علاقوں میں یہ حمایت اور ہمدردی خاموش اور بالواسطہ نوعیت کی تھی لیکن کئی جگہوں (خصوصاً بڑے شہروں میں) پر عام لوگوں نے بڑی تعداد میں سپاہیوں کے شانہ بشانہ فوجی کاروائیوں میں بھی حصہ لیا۔
گو کہ 1857ء کی بغاوت کا مجموعی کردار ایک قومی جنگ آزادی کا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سماج کے تمام طبقات کی اس میں شمولیت ایک جیسی تھی۔ زمیندار اشرافیہ کی بھاری ترین اکثریت نے کمپنی کے ساتھ اپنی وفاداری نبھائی۔ اسی طرح چند ایک کو چھوڑ کر مقامی حکمرانوں کی اکثریت نے بھی بغاوت کی مخالفت کی اور ’’دوستی کے معاہدوں‘‘ کے تحت کمپنی کا ساتھ دیا۔ اس میں 23علاقائی ریاستوں کے نواب اور راجے شامل تھے۔ ایسے ہی مقامی تاجر طبقے نے بھی ہر طرح سے کمپنی کی حمایت کی۔ لیکن یہ تو سماج کے وہ حصے ہیں جن کی بغاوت کی مخالفت اور کمپنی کی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بغاوت میں شمولیت اختیار کرنے والے اشرافیہ کے حصوں، مقامی حکمران خاندانوں، سپاہیوں اور عوام کیلئے ’’قومی آزادی‘‘ کا مفہوم ایک ہی تھا؟ ایسا سمجھنا نہایت غلط ہو گا۔ بغاوت میں شامل مختلف طبقے اور سماجی پرتیں ’’قومی آزادی‘‘ کو اپنے مخصوص طبقاتی مفادات کے نقطہ نظر سے دیکھتی تھیں اور یہ طبقاتی مفادات یکساں نہیں تھے۔ جہاں ایک طرف سپاہیوں اور عوام کیلئے آزادی اور ہندوستان سے کمپنی کی بے دخلی کا مطلب سامراجی لوٹ مار سے نجات، بھاری ٹیکسوں کا خاتمہ اور ایک خوشحال زندگی تھا، وہیں دوسری طرف اشرافیہ کے بعض نا خوش عناصر اور چند مقامی حکمران خاندانوں کیلئے اس بغاوت میں شمولیت کا بنیادی مقصداپنے کھوئے ہوئے اقتدار، مراعات اور اختیارات کو واپس حاصل کرنا تھا۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی، لکھنؤ کی بیگم حضرت محل، مرہٹہ پیشوا نانا صاحب، مغل شہزادے مرزا مغل، بہار کے کنور سنگھ اور مہاراشٹرا کے تانتیا ٹوپی سمیت ان جیسے تمام کرداروں کی اصل کہانی یہی تھی۔
1857ء کی بغاوت میں بیک وقت موجود ترقی پسندانہ اور قدامت پسندانہ رجحانات کو ہم اس قومی جنگ آزادی میں پنہاں طبقاتی تضادات کے تناظر میں ہی سمجھ سکتے ہیں۔ جہاں ایک طرف سپاہیوں اور عوام میں موجود ایک خوشحال زندگی گزارنے کی تمنا اور ہندوستانی قومیت کا نوزائیدہ ادراک بغاوت کی ترقی پسندانہ جہت کی عکاسی کرتا ہے وہیں عہد رفتہ کی طرف واپس پلٹنے کی تمنا لئے مقامی حکمران اشرافیہ کے بعض دھڑوں کی بغاوت میں شمولیت، قدامت پسندانہ اور رجعتی رجحانات کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان دونوں رجحانات میں سے کونسا غالب تھا؟ اس سوال کا کوئی سیدھا سادا جواب نہیں ہے۔ اگر بالفرض بغاوت کامیاب ہو جاتی تو جلد یا بدیر مخالف طبقات کی نمائندگی کرنے والے ان متضاد رجحانات کے مابین براہ راست ٹکراؤ نا گزیر تھا۔ لیکن بذات خود 1857ء کے حوالے سے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ درحقیقت بغاوت کی عملی قیادت کس رجحان کے ہاتھ میں تھی۔
زیادہ تر بورژوا مورخ اپنے طبقاتی نقطہ نظر کے تحت بغاوت میں مقامی حکمران اشرافیہ کے کردار کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں حالانکہ تاریخی شواہد کا ٹھوس مطالعہ کسی اور سمت میں اشارہ کرتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بعض جگہوں (مثلاً بہار میں کنور سنگھ)پر بغاوت کی عملی قیادت واقعی اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی لیکن زیادہ تر علاقوں میں حقیقی قیادت باغی سپاہی کمانڈروں اور سپاہیوں کی کمیٹیوں کے پاس تھی جبکہ مقامی حکمران اشرافیہ کا قائدانہ کردار عملی کی بجائے محض علامتی نوعیت کا تھا۔ اس علامتی قیادت کیلئے بھی حکمران اشرافیہ کے یہ افراد فوری طور پر رضامند نہیں ہوئے تھے بلکہ نیچے سے پڑنے والے دباؤ نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس سلسلے میں دو نہایت شاندار مثالیں جھانسی کی رانی لکشمی بائی اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی ہیں۔ لکشمی بائی نے جون 1857ء تک بغاوت میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی۔ 5جون کو جھانسی میں تعینات مقامی رجمنٹ نے بغاوت کرتے ہوئے قلعے پر قبضہ کر لیا۔ لکشمی بائی نے مقامی سپاہیوں سے خوفزدہ ہو کر سو گھر ڈویژن کے انگریز کمشنر میجر ارسکن کو باغیوں کے خلاف لڑائی میں مدد کرنے کی درخواست کی لیکن وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ دوسری طرف باغی سپاہوں نے رانی کو دھمکی دی کہ اگر اس نے ان کا ساتھ نہ دیا تو وہ شاہی محل کو بارود سے اڑا دیں گے۔ اس صورتحال میں لکشمی بائی کے پاس باغیوں کا ساتھ دینے اور جھانسی میں ان کا علامتی سربراہ بننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ کچھ ایسا ہی ماجرا مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا بھی تھاجسے باغی سپاہیوں نے سنگین کی نوک پر بغاوت کی ’’قیادت‘‘ سنبھالنے پر مجبور کیا۔
بغاوت کی شکست کے بعد بہادر شاہ ظفر نے اپنے اوپر چلنے والے مقدمے میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا:
’’میں بے یار و مدد گار تھا اور ہر طرف سے خوف میں گھرا ہوا تھا۔ میں نے وہ سب کیا جو وہ (سپاہی) چاہتے تھے۔ اگر ایسا نہ کرتا تو وہ فوراً مجھے مار ڈالتے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ایسے حالات میں پایا کہ میں اپنی زندگی سے اکتا گیا۔ ‘‘
اس گواہی کے علاوہ دیگر تمام تاریخی شواہد بھی واضح طور پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر اور مرزا مغل کی قیادت محض علامتی حیثیت رکھتی تھی جبکہ تمام تر عملی فیصلے باغی سپاہیوں اور دہلی میں ان کے کمانڈر صوبیدار بخت خان کے ہاتھوں میں تھی۔ بغاوت کے دوران دہلی شہر میں لگنے والا مشہور نعرہ ’’خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم صوبیدار سپاہی بہادر کا‘‘ بھی اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔
لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بغاوت کی عملی کمان سپاہیوں کے پاس تھی تو پھر انہیں ناکارہ رجعتی اشرافیہ کے ان بیکار نمائندوں کی علامتی سربراہی کی ضرورت کیوں پیش آ رہی تھی؟ اس سوال کا جواب حتمی تجزئیے میں بغاوت کی شکست کی بنیادی وجہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
بغاوت کیوں ناکام ہوئی؟
مؤرخین عمومی طور پر مختلف فوجی، تکنیکی اور حادثاتی وجوہات کو بغاوت کی ناکامی کا سبب گردانتے ہیں۔ ان سب وجوہات کا بغاوت کی ناکامی میں ایک جزوی کردار تو ہو سکتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی ان کی حیثیت نہایت فروعی اور ثانوی نوعیت کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ باغی سپاہیوں اور عوام کے پاس سماج کو آگے لے جانے اور ہندوستان کے طول و عرض میں بکھری ہوئی اس بغاوت کو ایک لڑی میں پرونے کیلئے درکار ٹھوس سیاسی و معاشی پروگرام نہ تھا۔ سپاہی، دستکار اور کسان بندوقیں اور تلواریں تو چلا سکتے تھے لیکن تاریخ کے اُس عہد میں ہندوستان جیسے سماج کو آگے بڑھانے کیلئے درکار ایک قومی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ریڈیکل بورژوا پروگرام دینا ان کے بس سے باہر تھا۔ تاریخی اعتبار سے یہ پروگرام دینا قومی بوژوازی کا فریضہ تھالیکن ہندوستان کی قومی بورژوازی ایک تو اس وقت اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں تھی، دوسرا اس کا جنم ہی سامراجی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ہوا تھا اور اپنی پیدائش سے ہی اس کے مفادات سامراجی آقاؤں کے مفادات کے ساتھ منسلک تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ’’قومی‘‘ بورژوازی اپنے جنم سے ہی ایک دلال (comprador) کردار رکھتی تھی اور اپنے تاریخی فرائض ادا کرنے سے قاصر تھی۔ بغاوت کے دوران مقامی تاجر طبقے کی کمپنی کیلئے مکمل حمایت اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایسی صورتحال میں صرف پرولتاریہ ہی وہ واحد طبقہ تھا جو نااہل بورژوازی کے تاریخی فرائض ادا کرتے ہوئے ایک جدید صنعتی سماج تخلیق کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ اگرچہ 1857ء سے قبل بمبئی میں لگنے والی چند ٹیکسٹائل ملوں، کلکتہ میں لگنے والی پٹ سن کی فیکٹریوں، ابتدائی ریلوے لائینوں، تار برقی اور ڈاک نظام کے نتیجے میں ہندوستانی پرولتاریہ وجود میں آ چکا تھالیکن یہ ابھی نوزائیدہ، تعداد میں انتہائی قلیل، بکھرا ہوا اور سیاسی و تاریخی اعتبار سے اتنا ناپختہ تھا کہ قومی قیادت کا فریضہ انجام دینے سے قاصر تھا۔ یہی وہ مخصوص معروضی حالات اور وجوہات تھیں جنہوں نے بغاوت کی ناکامی میں کلیدی کردار ادا کیا اور باغیوں کی تمام تر جرات اور قربانیوں کے باوجود انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
بورژوا اور پرولتاریہ
1857ء کی بغاوت ہندوستان میں کمپنی کی سرمایہ دارانہ سامراجی پالیسیوں کی پیداوار اور ان کا رد عمل تھی۔ یہ بغاوت بورژوازی کے اس تاریخی کردار کی جانب اشارہ کرتی ہے جس کی نشاندہی کرتے ہوئے مارکس نے کمیونسٹ مینی فسٹو کے پہلے باب میں لکھا تھا کہ:
’’بورژوا طبقہ تمام آلات پیداوار کو تیزی سے ترقی دیتا ہے اور آمد و رفت کے وسیلوں کو بے حد آسان بناتا رہتا ہے اور ان کے بل پر وہ تمام قوموں کو حتی کہ انتہائی وحشی قوموں کو بھی تہذیب کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے۔ اس کے تجارتی مال کی ارزانی گولے بارود کا کام کرتی ہے جن سے وہ ہر دیوار چین کو گرا دیتا ہے اور ضدی سے ضدی وحشیوں کو جن کے دل سے غیروں کی نفرت کا جذبہ مارے نہیں مرتا، ہار ماننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ تمام قوموں کو مجبور کرتا ہے کہ بورژوا طریقہ پیداوار اختیار کریںیا فنا ہو جائیں۔ وہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے یہاں اُس کی تہذیب کو رائج کریں، یعنی وہ خود بھی بورژوا بنیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنے سانچے میں ایک دنیا کو ڈھال لیتا ہے۔ ‘‘
لیکن اس عمل کے دوران سرمایہ داری نے نہ صرف اپنی جنم بھومی بلکہ پوری دنیا میں اس طبقے کو بھی تخلیق کیا جو مستقبل میں اس کا گورکن بنے گا، یعنی پرولتاریہ۔
1857ء کے متعلق اپنی رائے دیتے وقت زیادہ تر ہندوستانی مورخین قومی شاؤنزم کی اندھی کھائی میں گر جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ برطانوی بورژوازی کی پالیسیاں جہاں ایک طرف ہندوستان کی عوام کو برباد کر رہی تھیں وہیں برطانیہ کا محنت کش طبقہ اس بورژوازی کے استحصال کا سب سے پہلا شکار بنا تھا۔ اینگلز کی کتاب ’’انگلستان میں محنت کش طبقے کے حالات‘‘ اور مشہور ادیب چارلس ڈکنز کے ناول اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں۔ اسی لئے قوم پرست دانشوروں کے برعکس مارکس وادیوں کیلئے 1857ء کی بغاوت کا تجزیہ رجعتی قومی تعصبات کو ہوا دینے کی بجائے ہندوستانی سماج کے تاریخی ارتقا اور اس میں برطانوی سامراج کی طرف سے ادا کئے گئے دوہرے کردار کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کا موجب بنتا ہے تاکہ وہ اس تاریخی جانکاری سے مسلح ہوتے ہوئے اس خطے میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھا سکیں۔ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!