|تحریر: آدم پال، ترجمہ: منصور ارحم|
گزشتہ روز انڈیا سے کسان راہنما داتار سنگھ گِل کی موت کی انتہائی افسوسناک اور غمناک خبر موصول ہوئی۔ داتار سنگھ مودی سرکار کے خلاف جاری، وقت کے ساتھ پھیلتی اور مضبوط ہوتی کسان تحریک کے سرکردہ راہنماؤں میں سے ایک تھے۔ داتار سنگھ کرتی کسان یونین کے پنجاب میں صدر بھی تھے۔ ان کے خاندان، دوستوں اور کامریڈز سے ہم اظہارِ تعزیت کرتا ہوں۔
میں نے جب marxist.com پر انکا پہلا انٹرویو دیکھا تو ان کے پختہ سیاسی نظریات سے بہت متاثر ہوا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے موجودہ کسان تحریک کی بھرپور وضاحت کی۔ یہ تحریک حجم اور اثرات کے اعتبار سے اب تاریخ کی بڑی تحریک بن چکی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مجرمانہ کردار، اپوزیشن میں موجود سیاسی پارٹیوں کے کردار اور سب سے بڑھ کر انڈیا میں موجود کمیونسٹ پارٹیوں پر ان کی تنقید بہت ہی اہم تھی جس سے اس تحریک کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ انہوں نے مزدور طبقے سے یکجہتی کا اظہار کیا اور یہ اپیل کی کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کے ساتھ جدوجہد میں شریک ہوں اور کسانوں کے ساتھ مل کر مودی سرکار کے خلاف مشترکہ لڑائی کا اعلان کریں۔
ان تمام نکات پر انہوں نے اپنے دوسرے انٹرویو میں پھر زور دیا جب انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم سرمایہ داری کے خلاف لڑ رہے ہیں اور سوشلزم کے ذریعے ہی اس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ان کے انتقال سے اس انتہائی نازک وقت میں کسان تحریک نے ایک انتہائی اہم راہنما کھو دیا ہے۔ مگر ان کی موت کے سبب ان کے ساتھیوں کو حوصلے پست نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ داتار سنگھ بذات خود اس کو پسند نہ کرتے اور وہ اپنی آخری سانس تک انقلابی جذبوں کے ساتھ لڑتے رہے۔ ایک خبر کے مطابق وہ امرتسر میں اسٹیج پر کسانوں کی ریلی سے خطاب کر کے نشست پر بیٹھنے آرہے تھے جب ان کو دل کا دورہ پڑا اور ان کی وفات ہو گئی۔
ان کی موت کو انڈیا کے کسانوں اور محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے دی گئی قربانی کے طور پر دیکھنا چاہیئے۔ اپنی بوڑھی عمر کے باوجود ایک طرف انتہائی سردی، سموگ اور خراب موسم کے پیدا کردہ مصائب اور دوسری طرف پولیس اور دیگر دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ کسان تحریک اور دھرنے کا ہراول دستہ بن کر راہنمائی کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں کسانوں کو منظم کرنے میں بھی مسلسل اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ سب مسائل کے باوجود وہ مودی سرکار کے بے رحم حملوں کے خلاف آخری وقت تک فیصلہ کن لڑائی لڑتے رہے۔
مجھے پختہ یقین ہے کہ ان کے کامریڈز ان کی اس جدوجہد کو جارہی رکھیں گے اور نہ صرف مودی سرکار پر فتح حاصل کریں گے بلکہ اس بربریت کی جڑ یعنی سرمایہ داری کیخلاف بھی فتح حاصل کریں گے۔
انٹرویوز اور تقاریر کی ویڈیوز کے ذریعے ان کے نظریات کی گونج بارڈر کے اس پار لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی سنائی دی۔ یہاں اور پوری دنیا میں سینکڑوں کامریڈز نے ان کے انٹرویوز کو دیکھا اور بہت سراہا۔ وہ تمام کامریڈز ان کی موت پر افسردہ ہیں اور اس لمحے جاری ایک ان تھک جدوجہد میں شامل کسانوں کے ساتھ انقلابی یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
انڈیا کی کسان تحریک پہلے ہی پاکستان میں کسان تحریک کو ابھار چکی ہے اور یہاں پر کسانوں نے 31 مارچ کو اسلام آباد میں ٹریکٹر ریلی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ داتار سنگھ اور لاکھوں کسانوں کی جدوجہد کا اس خطے اور پوری دنیا پر پڑنے والے اثرات کا ثبوت ہے۔ کسانوں کی یہ قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی اور بحران سے لبریز اس سرمایہ دارانہ نظام کو مزید کمزور کریں گی۔
مودی سرکار کے خلاف کسان جدوجہد زندہ باد!
مزدور کسان ایکتا زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!
انقلاب زندہ باد!