انڈیا: سام سنگ کے محنت کشوں نے یونین کو تسلیم کرا لیا، اب وقت اصل لڑائی کا ہے!

|تحریر: جونی ریڈ، جوئے اٹارڈ، ترجمہ: آصف لاشاری|

چنائی میں سام سنگ کے ایک بہت بڑے پلانٹ پر 1500 محنت کشوں نے اپنی یونین بنانے کا حق جیتنے کے لیے عدالتوں اور کرپٹ ریاستی مشینری، جو خون چوسنے والی ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ کھڑے تھے، کو شکست فاش دی ہے۔ 212 دنوں پر مشتمل قانونی جدوجہد کے ساتھ انہوں نے ستمبر میں بھی ہڑتال کی جو 38 دنوں تک جاری رہی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

ظالمانہ جبر، سینکڑوں گرفتاریوں اور مالکان کی طرف سے ہر قسم کی دھوکہ دہی کے حربوں کا مقابلہ کرتے ہوئے، انہوں نے آخر کار 27 جنوری کو تامل ناڈو لیبر ڈیپارٹمنٹ کو سام سنگ انڈیا ورکرز یونین (SIWU) کی رجسٹریشن کرنے پر مجبور کیا۔

یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے، کیونکہ سام سنگ ایک بدنام زمانہ یونین مخالف کمپنی ہے۔ SIWU بھارت میں سام سنگ ملازمین کی پہلا یونین بن گئی ہے اور کوریا میں نیشنل سام سنگ الیکٹرانک یونین (NSEU) کے بعد یہ دنیا بھر میں دوسری یونین ہے۔ مزید برآں، تامل ناڈو میں DMK الائنس حکومت نے بڑے کاروباریوں کے سامنے جھک جانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا ہے اور سام سنگ کی مزدوروں کو کچلنے کی کوششوں کے پیچھے اپنی مکمل حمایت فراہم کی ہے۔

تاہم اپنی مجموعی طاقت اور مقصد کی یکسانیت کی وجہ سے سام سنگ کے محنت کشوں نے ریاستی عدالت سے ایک بہت اہم رعایت حاصل کی ہے اور سام سنگ کے مالکان کو یونین نمائندگان سے کام کے حالات اور اجرتوں کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے مجبور کیا ہے۔ یہ آگے کی جانب ایک انتہائی اہم قدم ہے، مگر یہ صرف ایک قدم ہے اور لڑائی جیتنا ابھی بہت دور ہے۔

چنائی کے محنت کشوں کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے اپنا ہر مطالبہ منظور ہونے تک حکومت پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا چاہیے۔

سام سنگ کو ایک سخت دھچکا

ٹیکنالوجی کے شعبے میں پیدا ہونے والا عروج، جس نے بلاشبہ پچھلے کئی سالوں میں دیو ہیکل منافع بھی بنایا ہے، خاص طور پر ایشیا کے محنت کشوں کے بے پناہ استحصال سے حاصل ہوا تھا۔ چنائی کے کانچی پورم (Kancheepuram) پلانٹ میں، جہاں ٹیلی ویژن، ریفریجریٹر اور واشنگ مشین جیسی اشیاء تیار کی جاتی ہیں، تقریباً 1800 محنت کش کام کرتے ہیں اور سام سنگ الیکٹرانکس کی ہندوستانی آمدنی کا تقریباً ایک تہائی حصہ بناتے ہیں جو گزشتہ سال تقریباً 12 بلین ڈالر تھا۔

چنائی کے پلانٹ پر کام کرنے والے محنت کشوں نے کئی بار رپورٹ کیا ہے کہ ان سے غیر محفوظ حالات میں کام لیا جاتا ہے اور انہیں اجرت کی ادائیگی کے بغیر اوور ٹائم کے کام کو جھیلنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ انہیں بیت الخلاء جانے کی اجازت بھی اس وقت ملتی ہے جب وہ اپنا کام کسی دوسرے مزدور ساتھی کو سونپ کر جائیں۔ اگر کوئی مزدور اس برتاؤ کے خلاف کوئی شکایت کرتا ہے تو اسے کسی اکیلے کمرے میں قید بھی کیا جا سکتا ہے یا اسے باقی مزدوروں کے سامنے سزا کے طور پر کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ اسے اور دیگر محنت کشوں کو شرم دلائی جا سکے۔

سام سنگ کے افسران کی جانب سے سخت دباؤ اور عام تذلیل والے ان تمام ہتھکنڈوں کا مقصد یہ ہے کہ محنت کشوں کی محنت کی صلاحیت سے منافعے کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا جائے اور کسی قسم کی آواز کو اٹھنے سے روکنا جا سکے۔ لیکن محنت کش مشینیں نہیں ہیں، وہ کسی جوابی مزاحمت کے بغیر زیادہ عرصے تک اس طرح کے سلوک کو برداشت نہیں کر سکتے۔

گزشتہ سال جولائی میں، چنائی کے محنت کشوں نے فیصلہ کیا کہ بس اب بہت ہو گیا اور انہوں نے یونین بنانے کے اپنے ارادے کو عملی شکل دیتے ہوئے اسے آن لائن رجسٹر کرایا۔ اگرچہ انڈیا کے ٹریڈ یونینز ایکٹ (1926ء) کے تحت یہ ان کا حق تھا، اور رکنیت اور دیگر اصول و ضوابط کے لحاظ سے قانونی شرائط پر پورا اترنے کے باوجود، یونین کی منظوری کے لیے 45 دن کی قلیل مدت بھی ریاستی حکومت یا مالکان کی جانب سے کسی جواب کے بغیر گزر گئی۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ مزدوروں کو ان کے حقوق دینے کے کسی قانونی یا آئینی طریقہ کار کے متعلق ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ جب تک چنائی کے محنت کشوں نے طبقاتی جدوجہد کا آغاز نہیں کیا تب تک صورتحال جوں کی توں برقرار تھی۔ ستمبر 2024ء میں چنائی کے محنت کشوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) سے منسلک لیبر کنفیڈریشن CITU (Centre for Indian Trade Unions) سے رابطہ کیا اور ہڑتال اور احتجاج کا آغاز کیا جو نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سطح پر بھی توجہ کا مرکز بنے۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے اپنے مطالبات پیش کرنا شروع کیے، جس میں (سب سے پہلے اور سب سے اہم) یونین کو تسلیم کرنا، اجرت میں اضافہ، ایک دن میں آٹھ گھنٹوں کے اوقات کار اور بلا معاوضہ اوور ٹائم کا خاتمہ شامل ہیں۔

چنائی کے مزدوروں کو ملک بھر کے مزدوروں کی جانب سے زبردست یکجہتی حاصل ہوئی اور انہیں کوریا میں سام سنگ کے لیے کام کرنے والے اپنے مزدور بھائیوں اور بہنوں کی جانب سے بھی حمایت کا پیغام موصول ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں نے مدراس ہائی کورٹ سے اپیل کی کہ وہ تامل ناڈو لیبر ڈیپارٹمنٹ کو ان کی یونین کو تسلیم کرنے کے قانونی فرائض پر عمل کرنے پر مجبور کرے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ اس معاملے کو طول دینے کے لیے تاخیر کی متعدد درخواستیں دائر کرتا رہا۔

مالکان اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے اور DMK الائنس حکومت کا انتہائی بدعنوان کردار بھی اس وقت بے نقاب ہو گیا جب اس نے جابرانہ ریاستی مشینری کو مکمل طور پر سام سنگ کے حوالے کر دیا۔ پولیس کو مالکان کے کرائے کے غنڈوں کے طور پر تعینات کیا گیا، جنہوں نے مزدوروں کو ہراساں کیا اور بالآخر 910 مزدوروں کو گرفتار کر لیا، اس میں سی آئی ٹی یو (CITU) کے نمایاں کارکنان بھی شامل تھے، جنہیں رات کی تاریکی میں ان کے گھروں سے اٹھایا گیا۔ سام سنگ نے ہڑتالی مزدوروں میں سے کچھ پر قانونی مقدمات دائر کیے، جبکہ پولیس کی طرف سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ حتیٰ کہ وہ چھوٹے دکاندار جو سام سنگ کے ملازمین کو چائے اور ناشتہ بیچ کر اپنی روزی کماتے تھے، انہیں بھی مقامی حکام نے دھمکایا تاکہ وہ اپنی اشیاء ان ملازمین کو فروخت نہ کریں۔

جب یہ دھمکیاں ناکام ہو گئیں تو مالکان نے دھوکہ دہی کا سہارا لیا۔ انہوں نے مزدوروں کے لیے شٹل بسوں کی تعداد بڑھانے، ممکنہ تنخواہ میں اضافے کا عندیہ دینے اور زچگی کی چھٹیوں کے نفاذ جیسی معمولی رعایتیں پیش کیں۔ انہوں نے سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطحوں پر چھ بار مذاکرات کیے، جن میں سے ایک مذاکرات کا دور انہوں نے غیر ہڑتالی مزدوروں کے ساتھ ترتیب دیا، اس کے بعد انہوں نے (مزدوروں کی طرف سے) اعلان کر دیا کہ معاہدہ طے پا گیا ہے اور ہڑتال ختم کر دی گئی ہے!

فتح کو مزید مضبوط کرو!

مزدور ان چالوں میں نہیں پھنسے اور صرف اس وقت ہی اپنی ہڑتال معطل کی جب عدالتوں نے ایک مقررہ مدت کے اندر یونین کو تسلیم کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ جزوی پسپائی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ اور DMK سے منسلک ایل پی ایف (LPF) یونین کی شرمناک ہڑتال شکن کاروائیوں کے دوران ہوئی، جس نے دعویٰ کیا کہ سی آئی ٹی یو (CITU) ہڑتال جاری رکھ کر ”مزدوروں کو گمراہ“ کر رہا ہے۔

دسمبر میں، ہائی کورٹ میں تامل ناڈو کے رجسٹرار آف ٹریڈ یونینز (Registrar of Trade Unions) کو یونین کی درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے چھ ہفتوں کی مہلت دی۔ SIWU کی منظوری کے تاریخی اعلان سے ایک دن قبل دیگر کمپنیوں میں CITU سے وابستہ یونینز نے ہڑتال کے ساتھ یکجہتی کا آغاز کیا تاکہ سام سنگ پر مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔

جب یونین کو باضابطہ طور پر لیبر ڈیپارٹمنٹ نے تسلیم کر لیا، تو CITU کے رہنما اور اب SIWU کے صدر ای مُتھوکمار (جو اکتوبر میں گرفتار ہوئے تھے) نے کہا:

”آج سے 106 سال قبل مدراس لیبر یونین نے ملک کی پہلی لیبر یونین ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور آج مدراس شہر نے اس تاریخ کو دوبارہ دہرایا ہے۔“

ہم سانگ سنگ کے محنت کشوں کو ان کی فتح پر مبارکباد دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں محتاط رہنے کا بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ بھارتی سرمایہ دارانہ ریاست کے قانونی ڈھانچے نے مزدوروں کو ان کے حقوق دینے میں اس وقت تک مزاحمت کی جب تک کہ محنت کشوں کی اجتماعی لڑاکا جدوجہد نے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر دیا۔ درحقیقت، یونین کو تسلیم کیے جانے کے باوجود، CITU کی جانب سے ہڑتال ختم کرنے کے فیصلے نے مزدوروں کی جدوجہد کو محفوظ اور قانونی راستوں تک محدود کرنے کا اثر بھی چھوڑا ہے۔

یہاں ایک سبق پوشیدہ ہے، جیسا کہ SIWU کے نمائندے پہلی بار سام سنگ کے مالکان کے ساتھ باضابطہ مذاکرات میں داخل ہو رہے ہیں۔ مزدوروں کے تمام مطالبات کے حصول کو یقینی بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھا جائے۔ اگر SIWU مزدوروں کے اس نئے اعتماد کا فائدہ اٹھا کر مذاکرات کے دوران دوبارہ ہڑتال کا آغاز کرے، تو یونین کے تمام مطالبات منوانے کے امکانات کہیں زیادہ بڑھ جائیں گے۔

کم از کم، SIWU کو ابھی سے اس بات کی تیاری کرنی چاہیے کہ اگر مالکان اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹتے تو فوراً ہڑتال دوبارہ شروع کر دی جائے۔ اس کے علاوہ، سام سنگ اس موقع کی تلاش میں رہے گی کہ اپنی ذلت آمیز شکست کے لیے مزدوروں سے بدلہ لے سکے۔ جیسا کہ سام سنگ کے 34 سالہ ملازم، پزھانی، نے آج کہا:

”ہم یونین کی رجسٹریشن کا خیرمقدم کرتے ہیں، جس کے لیے ہم نے ستمبر سے لے کر پانچ ماہ تک جدوجہد کی۔ احتجاج ختم ہونے کے بعد، ریاستی وزراء نے یقین دہانی کرائی تھی کہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی، لیکن اس کے باوجود سام سنگ کی جانب سے یونین کے حامی نوجوان محنت کشوں کو مختلف محکموں میں تبادلے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔“

اس وقت مالکان یقینی طور پر منصوبے بنا رہے ہوں گے تاکہ دوبارہ کنٹرول حاصل کر سکیں اور مزدوروں کی مزاحمت کا انتقام لے سکیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ابھی سام سنگ کی جانب سے SIWU کے بننے پر عوامی بیان جاری کرنا باقی ہے۔ مزدوروں کو تیار رہنا ہو گا کہ وہ طاقت کا جواب طاقت سے دیں۔ ان کی اب تک کی کامیابیاں ان کی اپنی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ یہ کامیابیاں کسی قانونی کاروائیوں کے ذریعے یا کانگریس یا تامل ناڈو میں بورژوا ’انڈیا سیاسی اتحاد‘ جیسے مکار دوستوں کی ’یکجہتی‘ کے باعث حاصل نہیں ہوئیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ CPI(M) بھی DMK کے ساتھ سیاسی اتحاد میں شامل ہے (اگرچہ یہ انتہائی شرم کی بات ہے) اور اسے ریاستی اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں حکمران جماعت کی طرف سے چھ نشستوں کا تحفہ ملا تھا۔

چنائی کے سام سنگ مزدوروں نے پورے بھارت کے محنت کش طبقے کے لیے ایک شاندار مثال قائم کی ہے کہ مضبوط طبقاتی جدوجہد کے ذریعے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا طریقہ کار روایتی بڑی یونین کنفیڈریشنز کی طرح محض علامتی ’ایک دن کی ہڑتال‘ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مستقل اور منظم ہڑتالی جدوجہد تھی۔ جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ SIWU کی رجسٹریشن سے ایک دن قبل CITU ارکان کی ملک گیر یکجہتی نے کس طرح طاقت کا مظاہرہ کیا۔

ہندوستانی مزدور تحریک میں نہ صرف بہتر کام کے حالات اور اجرتوں کی جدوجہد کے لیے بلکہ مودی اور اڈانی کی ظالم سرمایہ دارانہ حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد میں پورے معاشرے کی قیادت کرنے کی بھی دیوہیکل صلاحیت موجود ہے۔ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ چند سال قبل کس طرح کسان مرکزی حکومت کے رجعتی زرعی بل کے خلاف اپنی فتح مند جدوجہد کے دوران پورے ملک کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اب ہمارے سامنے محنت کش طبقے کے کردار کی ایک جھلک موجود ہے جو یہ مستقبل کی لڑائیوں میں بھی ادا کرے گا۔

Comments are closed.