تحریر: |آفتاب اشرف|
2008ء کے مالیاتی کریش سے شروع ہونے والا سرمایہ دارانہ معیشت کا عالمی بحران اپنے نویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ بورژوا معیشت دانوں کے تمام تر دعوؤں اور کوششوں کے باوجود گزرتے وقت کے ساتھ بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہر طرح کے معاشی حربے استعمال کرنے کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام ماضی کی طرح بلند شرح نمو، پیداواری قوتوں کی بڑھوتری اور روزگار پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ عالمی معیشت کی مسلسل سست روی کے پس منظر میں سنجیدہ سرمایہ دارانہ حلقوں میں 2008ء سے کہیں بلند سطح کے ایک نئے مالیاتی کریش کے بارے میں گفتگو اب زبان زدِ عام ہو چکی ہے۔ گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران اور بڑھتے ہوئے سیاسی و سماجی خلفشار کی کیفیت میں سرمایہ دارانہ نظام کے سنجیدہ دانشور اور نظریہ دان ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے مصداق دیوانوں کی طرح کسی اچھی خبر کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ لیکن اقتصادی اشاریوں میں کسی ٹھوس بہتری کی عدم موجودگی انہیں حقیقت کے بجائے مفروضوں کی دنیا میں لے جاتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں دی اکانومسٹ (The Economist) اور فنانشل ٹائمز(Financial Times) کے ساتھ ساتھ دیگر سرمایہ دارانہ حلقوں میں کئی بار زیر بحث آنے والا ایسا ہی ایک مفروضہ ہندوستانی معیشت کی بلندشرح نمو اور اس کی سرمایہ دارانہ نظام کو عالمی بحران سے نکالنے کی ممکنہ صلاحیت کے بارے میں ہے۔ ویسے تو امریکہ، چین، یورپی یونین اور جاپان جیسی دنیا کی بڑی اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتوں کو ہندوستان کی ’’ابھرتی ہوئی معیشت‘‘ کا سہارا دے کر سست روی سے نکالنے کی باتیں نہ صرف مضحکہ خیز ہیں بلکہ سنجیدہ بورژوا معیشت دانوں کے بڑھتے ہوئے پاگل پن کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ دانشوروں کے برعکس، برصغیر میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کیلئے درکار مارکسی قوتوں کی تعمیر میں سرگرم کارکنوں کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اس خطے کی سب سے بڑی معیشت کا طبقاتی بنیادوں پر تجزیہ کریں تاکہ آنے والے وقت میں ہندوستانی سماج، سیاست اور طبقاتی جدوجہد کی کیفیت کے متعلق ایک ٹھوس مارکسی تناظر تعمیر کیا جاسکے ۔
1991ء سے پہلے کی ہندوستانی معیشت
1947ء سے لے کر 1980ء کی دہائی کے اوائل تک ہندوستان نام نہاد ’’نہروین سوشلزم‘‘ (Nehruvian Socialism) کی معاشی پالیسیوں پر کاربند رہا۔ لیکن یہ نہروین سوشلزم درحقیقت سوشلسٹ لفاظی میں لپٹی ہوئی ریاستی سرمایہ داری کی ہی ایک قسم تھا جس کا مقصد ہندوستان کی تاریخی طور پر کمزور اور پچھڑی ہوئی بورژوازی کو ریاستی سہاروں اور تحفظ کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا تھا۔ ہندوستانی ریاست اور حکمران کانگریس پارٹی(Indian National Congress) کو بخوبی اندازہ تھا کہ کمزور اور پسماندہ قومی بورژوازی پیداواری قوتوں کو ترقی دینے اور جدید سماجی اور صنعتی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی اور نہ ہی آزادانہ مقابلے میں عالمی اجارہ داریوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ خود ہندوستانی بورژوازی بھی اپنے خصی پن سے خوفزدہ تھی اور جانتی تھی کہ وہ ریاستی بیساکھیوں کے سہارے کے بغیر نہیں کھڑی ہو سکتی۔ اسی لئے ’’آزادی‘‘ سے قبل 45-1944ء میں ہی ہندوستان کے آٹھ بڑے صنعتکاروں (بشمول ٹاٹا اور برلا)اور بورژوا معیشت دانوں نے ریاستی سرمایہ داری کے ماڈل پر مبنی اپنی معاشی سفارشات کانگریس پارٹی کی قیادت کو پیش کر دی تھیں جنہیں ’’بمبئی پلان‘‘(Bombay Plan) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد یہ بمبئی پلان ہندوستانی معیشت کا بلیو پرنٹ(blueprint) بن گیا۔
ریاستی سرمایہ داری کی پالیسی کے تحت جہاں ایک طرف ہندوستانی ریاست نے نااہل بورژوازی کا تاریخی فریضہ اپنے ذمے لیتے ہوئے پانچ سالہ منصوبوں کے ذریعے توانائی، آبپاشی، ٹرانسپورٹ، مواصلات، بندرگاہوں، معدنی وسائل، بھاری صنعتوں اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی تاکہ قومی بورژوازی کو درکار ضروری انفراسٹرکچر مہیا کیا جا سکے وہیں بھاری درآمدی ڈیوٹیوں اور بیرونی تجارت پر ریاستی اجارہ داری کے ذریعے ملکی سرمایہ دار طبقے کو ایک محفوظ منڈی بھی مہیا کی تاکہ وہ بلند شرح منافع حاصل کرتے ہوئے سرمائے کا زیادہ سے زیادہ ارتکاز کر سکے۔ بنیادی انفراسٹرکچر میں ریاستی سرمایہ کاری کو ممکن بنانے اور قومی بورژوازی کو قرضوں کی فراہمی یقین بنانے کیلئے قومی بچتوں کے استعمال کی غرض سے بتدریج تقریباً تمام نجی بنکاری کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ تین دہائیوں سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی ان پالیسیوں کے باوجود ریاستی سرمایہ داری اپنا کوئی ایک بھی مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ تاریخی دیری اور نامیاتی کمزوری کا شکار ہندوستانی بورژوازی نے ریاستی تحفظ اور آشیرباد کے سہارے ہندوستان کے عوام کو لوٹ کر خوب دولت تو اکٹھی کر لی لیکن بحیثیت مجموعی تکنیک اور پیداواری صلاحیت میں ترقی یافتہ عالمی بورژاوازی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہ حاصل کر سکی اور نہ ہی ہندوستانی سماج کو ترقی دینے کا فریضہ سرانجام دینے کے قابل ہو سکی۔ اسی طرح پانچ سالہ منصوبوں کے تحت بنیادی انفرسٹرکچر میں ہونے والی ریاستی سرمایہ کاری نے بعض قابلِ ذکر کامیابیاں تو حاصل کیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے پیداواری رشتوں کی جکڑن میں قید یہ ’’معاشی منصوبہ بندی‘‘ بحیثیتِ مجموعی ہندوستان کو ایک جدید ترقی یافتہ سماج بنانے میں ناکام رہی۔
1980ء کی دہائی کے اوائل تک ریاستی سرمایہ داری کا یہ ماڈل اپنے اندرونی تضادات کے بوجھ تلے تڑخنا شروع ہو گیا۔ ان اندرونی تضادات کو مزید مہمیز سوویت یونین (Soviet Union) اور مشرقی بلاک کی سٹالنسٹ ریاستوں کے معاشی جمود سے ملی کیونکہ یہ ریاستیں نہ صرف ہندوستانی برآمدات کیلئے ایک اہم منڈی تھی جبکہ عالمی منڈی کے مقابلے میں ہندوستان کو انتہائی سستا تیل فراہم کرنے کا ذریعہ بھی تھیں۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ ہندوستانی معیشت کا مالیاتی خسارہ بڑھتا گیا اور بالآخر 91-1990ء میں ہندوستانی ریاست ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران کا شکار ہو کر دیوالیہ ہونے کے دہانے تک پہنچ گئی۔ شدید مالیاتی بحران سے نکلنے کیلئے حکومت کو ہنگامی طور پر IMF سے قرضہ لینے پڑا اور بدلے میں معیشت کو ڈی ریگولیٹ(deregulate)کرنے، نجکاری اور منڈی کو بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کھولنے جیسی IMF کی شرائط کو تسلیم کرنا پڑا اور یوں ہندوستان کے ایک ’’نیولبرل‘‘(Neo-Liberal) معیشت بننے کے سفر کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔
نیو لبرل معیشت کی تباہ کاریاں
ہندوستان اور دنیا بھر کے بورژوا معیشت دان 1991ء کے بعد معیشت کی ڈی ریگولیشن کے نتیجے میں ہونے والی معاشی ترقی کو ہندوستان کا ’’اقتصادی معجزہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پچھلے پچیس سالوں میں ہندوستانی معیشت کے حجم میں تقریباً آٹھ گنا کا اضافہ ہوا ہے ا ور1991ء میں 275ارب ڈالر کا حجم رکھنے والی ہندوستانی معیشت 2016ء میں 2200ارب ڈالر کے حجم کے ساتھ دنیا کی ساتویں بڑی معیشت بن چکی ہے۔01-2000ء سے لے کر 16-2015ء تک ہندوستان کے GDPکی اوسط شرح نمو 7 فیصد رہی جو کہ ماضی(1991ء سے پہلے) کی نسبت خاصی بلند ہے۔ لیکن مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ معیشت کا طبقاتی نقطہ نظرسے تجزیہ کرتے ہوئے متاثر کن اعداد و شمار کے پردے میں چھپے ہوئے حقائق تک پہنچیں تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ یہ معاشی ترقی کیسے حاصل کی گئی ہے؟ اس کے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور سماج کے کس طبقے کو اس سے سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے؟
1991ء سے شروع ہونے والی معیشت کی ڈی ریگولیشن کے نتیجے میں ریاست کی معیشت میں مداخلت کو بتدریج کم کیا گیا ہے۔ اس نیو لبرل معاشی پالیسی کے بنیادی ستونوں میں بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ، ریاستی اداروں کی نجکاری، بنیادی سماجی انفراسٹرکچر میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی، نجی بنکاری کا فروغ، بیرونی تجارت پر ریاستی اجارہ داری کا خاتمہ، اشیائے صرف کی قیمتوں پر ریاستی کنٹرول کا خاتمہ اور مزدور دشمن لیبر قوانین کا اجرا شامل ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’آزاد منڈی کی معیشت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں منڈی کی اندھی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تاکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ دار طبقہ بغیر کسی رکاوٹ کے ان کا استحصال کر سکے۔ لیکن ان نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے سماجی اثرات کا جائزہ لینے سے قبل ضروری ہے کہ ہم ان پالیسیوں کا گہرائی میں مطالعہ کریں۔
1۔ بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ
وسیع غربت اور پسماندہ انفراسٹرکچر کے باوجود بڑی آبادی اور انتہائی سستی لیبر کی موجودگی کی وجہ سے ہندوستان کی منڈی بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کشش رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1991ء سے لے کر اب تک ہندوستان میں تقریباً 437ارب ڈالر کی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI: Foreign Direct Investment)ہو چکی ہے اور معاشی حجم کے اضافے میں اس کا ایک بنیادی کردار ہے۔ اس بیرونی سرمایہ کاری کا زیادہ تر رخ خدمات(Services)، انفارمیشن ٹیکنالوجی(Information Technology)، مواصلات(Telecommunication)، تعمیرات، توانائی، بنیادی سماجی انفراسٹرکچر اور ایکسپورٹ مینوفیکچرنگ(Export Manufacturing) کے شعبوں کی طرف رہا ہے۔ پچھلے چھبیس سالوں میں بتدریج خدمات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلات، تعمیرات، بجلی کی پیداوار، تیل اور گیس، سڑکوں اور ریلوے انفراسٹرکچر کی تعمیر، صحت اور تعلیم، ہوائی اڈوں، مینوفیکچرنگ اور بندرگاہوں کو مکمل طور پر FDI کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ پچھلے تین ،چار سالوں میں سرکاری بنکوں میں 20فیصد، اسٹاک ایکسچینج میں 15فیصد، نجی بنکاری میں 74فیصد، دفاعی پیداوار اور انشورنس کے شعبوں میں 49فیصد، سرکاری بنکوں کے علاوہ تمام دیگر ریاستی اداروں میں 49فیصد اور ریٹیل مارکیٹ(Retail Market۔پرچون کی تجارت) میں 51فیصد تک FDI کی اجازت دے دی گئی ہے اور مستقبل میں اس حد کو مزید بڑھایا جائے گا۔ یہاں تک کہ بڑے شہروں میں پانی کی سپلائی جیسے بنیادی عوامی ضرورت کے شعبے کو بھی FDI کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی اس FDI سے بیرونی سرمایہ کاروں کے علاوہ ملکی سرمایہ دار طبقے کے کئی حصوں نے بیرونی سرمائے کا مقامی ایجنٹ بنتے ہوئے بے تحاشہ منافع حاصل کیا ہے اور درمیانے طبقے کی کچھ پرتوں کیلئے بعض شعبوں(خصوصاً خدمات، مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی) میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں لیکن محنت کش طبقے اور غریب عوام کو اس بیرونی سرمایہ کاری کی قیمت تعلیم، علاج، رہائش، بجلی، ٹرانسپورٹ کی مہنگی سہولیات، اشیائے صرف کی قیمتوں پر ریاستی کنٹرول کے خاتمے سے پیدا ہونے والی مہنگائی اور بڑھتی ہوئی شرح استحصال کی صورت میں ادا کرنی پڑی ہے۔ مستقبل میں ہندوستانی معیشت کے رہے سہے حصوں کو بھی بتدریج FDI کیلئے کھول دیا جائے گاجس کا نتیجہ ناگزیر طور پر اشیائے صرف اور بنیادی سہولیات کا عوام کی وسیع اکثریت سے مزید دور ہونے کی صورت میں نکلے گا۔
2۔ ریاستی اداروں کی نجکاری
معاشی ڈی ریگولیشن کے عمل میں نجکاری کی پالیسی کا ایک مرکزی کردار ہے۔ 1991ء کے بعد سے لے کر اب تک ہندوستان میں نجکاری کے عمل کو بتدریج آگے بڑھایا گیا ہے۔ پچھلے پچیس سالوں میں کل ملا کر تقریباً 2100ارب بھارتی روپے(31ارب ڈالر)کی نجکاری کی جا چکی ہے جس میں بھارت المونیم کمپنی، انڈیا پیٹروکیمیکل کارپوریشن اور ماروتی کار پلانٹ سمیت گیارہ ایسے بڑے ریاستی ادارے بھی شامل ہیں جن کا انتظامی کنٹرول محنت کشوں کی شدید مزاحمت کے باجود نجی مالکان کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ نجکاری کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کی خاطر حال ہی میں سرکاری بنکوں کے علاوہ تمام ریاستی اداروں میں نجی سرمایہ کاری( بشمول بیرونی سرمایہ کاری )کی حد کو 49فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔ سرکاری بنکاری میں یہ حد فی الحال 20فیصد ہے اور مستقبل میں اس کے بڑھائے جانے کے بھاری امکانات ہیں۔ 17-2016ء کے بجٹ میں حکومت نے نجکاری کے ذریعے 565ارب بھارتی روپے حاصل کرنے کا ٹارگٹ رکھا ہے جس میں 200ارب بھارتی روپے سے زائد رقم ایسی نجکاری سے حاصل کی جائے گی جس میں بیچے جانے والے اداروں کا انتظامی کنٹرول بھی نجی مالکان کے سپرد کر دیا جائے گا۔ نجکاری کے اس عمل میں حکومت کو محنت کش طبقے اور ٹریڈ یونین تحریک کی زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بورژوا معیشت دانوں کے اندازوں کے مطابق اگر محنت کش طبقے کی یہ مزاحمت نہ ہوتی تو اب تک 31ارب ڈالر کے بجائے تقریبا 250ارب ڈالر کی نجکاری ہو چکی ہوتی۔ نجکاری کی اس بہتی گنگا سے جہاں ملکی و غیرملکی سرمایہ داروں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور دولت کے انبار اکٹھے کر لئے ہیں وہیں محنت کش طبقے کو اس کا دوطرفہ نقصان ہے۔ ایک طرف تو نجکاری کے نتیجے میں ہونے والی ناگزیر ڈاؤن سائزنگ (Down Sizing) کی وجہ سے لاکھوں محنت کش بے روزگار ہو گئے ہیں، مستقل ملازمتوں کی جگہ کنٹریکٹ ملازمت اور ٹھیکیداری نے لے لی ہے اور حقیقی اجرتوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا رہا تو دوسری طرف بنیادی عوامی سہولیات مہیاکرنے والے ریاستی اداروں کی مکمل یا جزوی نجکاری کے نتیجے میں یہ سہولیات مہنگی ہو کر عوام کی وسیع اکثریت کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔
3۔ مزدور دشمن لیبر قوانین
ہندوستان کی 90فیصد لیبر فورس کا روزگار غیر رسمی معیشت(Informal Economy) سے وابستہ ہے جس کا حجم رسمی معیشت (Formal Economy) کے 20-15فیصد کے برابر ہے۔ یہ غیر رسمی معیشت کسی سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے اور نتیجتاً اس پر لیبر قوانین کا بھی اطلاق نہیں ہوتا۔ لیبر قوانین کا اطلاق صرف ان 10فیصد محنت کشوں پر ہوتا ہے جن کا روزگار رسمی معیشت سے وابستہ ہے لیکن 1991ء کے بعد سے لے کر اب تک ان لیبر قوانین میں مسلسل ایسی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جن کا مقصد نجی سرمایہ کاروں اور مالکان کیلئے محنت کش طبقے کے استحصال کو سہل بنانا اور محنت کشوں کو استحصال کے خلاف اپنے دفاع کے حق سے محروم کرنا ہے۔ لیبر قوانین میں ان مزدور دشمن تبدیلیوں کے تحت مالکان کیلئے مزدوروں کو ملازمت سے برخاست کرنے میں آسانی، مستقل ملازمت کی بجائے ٹھیکیداری کے تحت غیر مستقل کنٹریکٹ ملازمتوں کا فروغ، سوشل سیکورٹی کا خاتمہ، صنعتی سیفٹی کے قوانین میں لچک، ہڑتال کے حق کا محدود کیا جانا، یونین سازی کو انتہائی مشکل بنانا اور مالکان کیلئے اجرتوں اور بونس میں کمی کو آسان بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد نجی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے اپنے دفاع کی صلاحیت سے محروم سستی لیبر کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تاکہ سرمایہ دار طبقے کیلئے بلند منافعوں کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان مزدور دشمن لیبر قوانین کے وحشیانہ اطلاق کی واضح مثال ہمیں نجی سرمایہ کاری(ملکی و غیرملکی)کو پرکشش بنانے کی غرض سے قائم کئے جانے والے اسپیشل اکنامک زونز(Special Economic Zone’s: SEZ’s) کی صورت میں نظر آتی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت ہندوستان میں موجود 205 فعال SEZ’s میں سے دو تہائی ایکسپورٹ مینوفیکچرنگ سے وابستہ ہیں۔ 2015ء تک ان SEZ’s میں کل ملا کر 54ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی تھی اور ہندوستان کی کل برآمدات کا تقریباً 25فیصد ان SEZ’s میں بن رہا تھا۔ لیکن اس سرمایہ کاری کو حاصل کرنے کیلئے حکومت نے جہاں ایک طرف ٹیکسوں میں چھوٹ اور صنعت کاری کیلئے زمین کے حصول میں آسانی جیسی مراعات رکھیں وہیں کالے لیبر قوانین کے ذریعے ان SEZ’s کو ان میں کام کرنے والے پندرہ لاکھ سے زائد محنت کشوں کیلئے بیگار کیمپوں میں بدل دیا ہے۔ ان SEZ’s میں کام کرنے والے محنت کشوں کی بھاری اکثریت سے حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت سے بھی کم پر کام لیا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کی بھاری اکثریت ٹھیکیداری نظام کے تحت دیہاڑی پر یا ماہوار کنٹریکٹ پر کام کرتی ہے۔ یونین سازی پر عملاً پابندی ہے۔کام کے اوسط اوقات کار 16-12 گھنٹے روزانہ ہیں۔ اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والے ورکرز کو کھڑے پیروں برخاست کر دیا جاتا ہے۔ حکومت نے ان SEZ’s میں قائم صنعتوں کو ’’پبلک یوٹیلیٹی سروس‘‘(Public Utility Service) قرار دے کر ان میں ہڑتال کرنے پر قانوناً پابندی لگائی ہوئی ہے اور اگر کسی صنعت کے مزدور ان تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے اپنے حق کیلئے اکٹھے ہونا شروع ہو بھی جائیں تو مالکان کے ایک اشارے پر ریاستی مشینری مقامی غنڈہ گرد عناصر کے تعاون سے اس تحریک کو کچلنے کیلئے فوراً حرکت میں آ جاتی ہے۔
غربت اور بڑھتا ہوا طبقاتی تفاوت
غربت اور طبقاتی تفاوت کا آزاد منڈی کی معیشت کے ساتھ چولی دامن کا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی حجم میں کئی گنا اضافے کے باوجود ہندوستان کی سوا ارب آبادی کا ایک وسیع حصہ آج بھی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہا ہے۔ نیو لبرل پالیسیوں کے تحت ہونے والی معاشی ترقی نہایت غیر ہموار ہوتی ہے اور اس کے ثمرات صرف سرمایہ دار طبقے اور اوپری درمیانے طبقے تک محدود ہوتے ہیں جبکہ آبادی کی ایک وسیع اکثریت کو شدید غربت اور محرومی کی شکل میں اس ترقی کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اگرچہ 1991ء سے قبل ریاستی سرمایہ داری کی پالیسیوں کے تحت بھی غربت اور طبقاتی تفاوت کچھ کم نہ تھا لیکن پچھلے پچیس سالوں میں معیشت کی ڈی ریگولیشن کے نتیجے میں ارتکازِ دولت اور طبقاتی تفاوت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس حقیقت کی ایک جھلک ہمیں 2015ء کی کریڈٹ سوئس گلوبل ویلتھ رپورٹ(Credit Suisse Global Wealth Report) میں نظر آتی ہے جس کے مطابق ہندوستان کی امیر ترین 10فیصد آبادی کل قومی دولت کے 76فیصد کی ملکیت رکھتی ہے اور امیر ترین 1فیصد آبادی کل قومی دولت کے 53فیصد کی ملکیت رکھتی ہے۔ اگر ہم 2015ء کے ان اعدادوشمار کا موازنہ 1991ء سے کریں تو پتہ چلتا ہے کہ 1991ء میں امیر ترین 10فیصد آبادی کل قومی دولت کے تقریباً 50فیصد کی ملکیت رکھتی تھی۔ یوں معاشی ڈی ریگولیشن کے نتیجے میں 10فیصد امیر ترین آبادی کی کل دولت میں تقریباً 50فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن امیر ترین 1فیصد آبادی کی دولت میں اس سے بھی کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ ہمیں اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ 2001ء میں ہندوستان میں ارب پتیوں(امریکی ڈالر میں) کی کل تعداد صرف چار تھی جبکہ 2015ء میں یہ 100سے تجاوز کر چکی ہے۔ امرا اور اوپری درمیانے طبقے کے برعکس ہندوستان کی 70فیصد آبادی کل قومی دولت کے صرف 5-4فیصد کی ملکیت رکھتی ہے۔
دولت کی اس انتہائی غیر مساوی تقسیم کا نتیجہ ناگزیر طور پر آبادی کے ایک وسیع حصے کی شدید غربت کی صورت میں نکلا ہے۔ مختلف سرکاری ذرائع، ریزرو بینک آف انڈیا(Reserve Bank of India) اور ورلڈ بینک (World Bank) کے مطابق ہندوستان کی 29-22فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام اندازے انتہائی غلط ہیں اور اعدادوشمار کے سفاکانہ ہیر پھیر پر مبنی ہیں۔ مثلاً غربت کے سرکاری اندازے 2011ء میں سریش ٹنڈولکر کمیٹی(Suresh Tandulkar Committee)کی جانب سے مقررہ سرکاری ’’غربت کی لکیر‘‘ پر مبنی ہیں جس کے مطابق دیہاتی علاقوں میں یومیہ 27.2بھارتی روپے اور شہری علاقوں میں یومیہ 33.3بھارتی روپے سے کم پر گزارہ کرنے والے افراد کو غریب قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ افراد پر مشتمل ایک خاندان اگر دیہی علاقے میں 4080بھارتی روپے ماہانہ اور شہری علاقوں میں 4995بھارتی روپے ماہانہ سے کم پر گزارا کر رہا ہے تو وہ غریب تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح ورلڈ بینک اور UNMDG پروگرام کے مطابق بھی 1.25ڈالر یومیہ(85بھارتی روپے یومیہ) سے کم پر گزارہ کرنے والے افراد کوہی غریب شمار کیا جائے گا۔ غربت ماپنے کے یہ تمام پیمانے حکمران طبقے اور عالمی مالیاتی اداروں کی سفاکانہ بے حسی اور ان کے طبقاتی کردار کی بھرپور غمازی کرتے ہیں۔ان تمام پیمانوں کے مطابق ہر وہ شخص جو دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کھا کر بمشکل جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے قابل ہے وہ غریب نہیں ہے اور اسے نام نہاد ’’درمیانے طبقے‘‘ میں شمار کیا جانا چاہئے۔ 2014ء میں میک کنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ(McKinsey Global Institute) نامی ایک عالمی معاشی تھنک ٹینک نے خوراک، توانائی، رہائش، پینے کے صاف پانی، سیوریج، صحت، تعلیم اور سوشل سیکورٹی جیسی آٹھ بنیادی انسانی ضروریات کے ابتدائی معیار کی فراہمی پر مبنی غربت ماپنے کا ایک پیمانہ تخلیق کیا جسے ’’Empowerment Line‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔اس پیمانے کے مطابق 2012ء میں ہندوستان کی کم از کم 56فیصد آبادی(68کروڑ افراد)ان بنیادی ضروریات کی فراہمی سے محروم تھے۔اسی طرح 2011ء میں غربت ماپنے کیلئے انتہائی بنیادی ضروریات کی فراہمی پر مبنی SECC کے نام سے ایک سروے کے مطابق 2011ء میں ہندوستان کی آبادی 24.4کروڑ خاندانوں پر مشتمل تھی جن میں سے 18کروڑ خاندان دیہاتوں میں اور 6.4کروڑ خاندان شہروں میں بستے ہیں۔ سروے کے مطابق دیہاتوں میں بسنے والے 18کروڑ خاندانوں میں سے 11کروڑ زندگی کی انتہائی بنیادی ضروریات کی فراہمی سے بھی محروم تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں بسنے والی 61فیصدآبادی انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ اگرچہ اس سروے میں شہری علاقوں میں بسنے والے خاندانوں کو شامل نہیں کیا گیا لیکن اگر ہم یہ تصور کریں کہ شہری علاقوں میں بسنے والے 6.4کروڑ خاندانوں میں سے 1/3(33فیصد )بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں (شہروں میں غربت دیہاتوں کی نسبت کم تصور کی جاتی ہے)تو بھی اس کا مطلب ہے کہ کم از کم دو کروڑ شہری خاندان انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یوں کل 24.4کروڑ خاندانوں میں سے کم از کم 13کروڑ خاندان(آبادی کا تقریباً 53فیصد) انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ یوں مندرجہ بالا دونوں سرویز کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ محتاط اندازوں کے مطابق بھی ہندوستان کی کم ازکم 60-50فیصد(62.5کروڑ سے 75کروڑافراد)آبادی بنیادی سہولیات سے محرومی کی کیفیت میں انتہائی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
غربت کی طرح بیروزگاری کے اعدادوشمار بھی سرکاری ہیرپھیر کا شکار ہیں۔ حکومت کے مطابق اس وقت ہندوستان میں لگ بھگ 12کروڑ افراد بیروزگار ہیں۔ اگرچہ بیروزگاروں کی یہ تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بیروزگاری کا مسئلہ حکومتی اندازوں سے کہیں زیادہ شدید ہے۔ اس حقیقت کا ایک بالواسطہ اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں اتر پردیش(Uttar Pardesh) کے شہر امروہا(Amroha) میں خاکروبوں کی 114اسامیوں کیلئے 19ہزار افراد نے درخواستیں جمع کرائیں جس میں یونیورسٹی ڈگری یافتہ نوجوان، انجینئرز اور ایم۔بی۔اے کی ڈگری رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ اسی طرح چھتیس گڑھ(Chattisgarh) کے ایک سرکاری محکمے میں چپڑاسی کی 30اسامیوں کیلئے ماسٹرز اور انجینئرنگ کی ڈگریاں رکھنے والے نوجوانوں سمیت 75ہزار افراد نے درخواستیں جمع کرائیں۔ (جاری ہے)
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – ہندوستان: معاشی تضادات کی کوکھ میں پلتے طوفان(حصہ دوم)